معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا درست نہیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کچھ لکھوانے کے لیے انہیں بلوا بھیجا۔ انہوں نے کہا وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ پھر پیغام بھیجا۔ انہوں نے کہا :وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو سیر نہ ہی کرے۔‘‘

تخریج,,, رواہ أبو داؤد الطیالسی فی ’’مسندہ‘‘ :2746، واحمد:1/240 و 291 و335و 338، و مسلم فی ’’ صحیحہ ‘‘ 8/27
شرح:امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : بعض فرقوں نے اس حدیث مبارکہ سے ناحق فائدہ اٹھاتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتی، ( کیا ایسے لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ ) یہی سیدنا معاویہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب بھی تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کلمات سے مقصود بددعا نہیں ہے، عرب لوگوں کی عادت تھی تھے کہ وہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے ایسے کلمات کہتے رہتے تھے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو کہا:’’بانجھ اور سرمنڈی‘‘۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا :’’تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، تیری عمر بڑی نہ ہو‘‘۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ سے یہ کلمات بشری تقاضوں کی وجہ سے صادر ہوئے ہوں،جیسا کہ آپ ﷺ نے خود وضاحت کی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے ، انھوں نے آپ سے کوئی بات کی ، میں نہ سمجھ سکی ، آپﷺ غصے میں آگئے اور ان پر لعن طعن کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے (طنزیہ انداز میں) کہا: اے اللہ کے رسول ! جو بھلائی ان بیچاروں کو ملی ہے ،وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہو گی؟ آپ نے پوچھا :’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: آپ نے ان پر لعن طعن اور سب و شتم کیا ( یہ ان کی بدبختی ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا

((اَوَ مَا عَلِمْتِ مَا شَارَطْتُّ عَلیْہِ رَبِّیْ ؟قُلْتُ اَلّٰلھُمَّ ! اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ ، فَاَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ لَعَنْتُہ‘ اَوْ سَبَیْتُہ‘ ، فَجْعَلْہُ لَہ‘ زَکاَۃً وَاَجْراً۔))
’’ کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں، جو میں نے اپنے رب سے لگائی ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ! میں بشر ہوں، میں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے برا بھلا کہوں ، تو اِس چیز کو اس کے حق میں باعثِ تزکیہ اور باعثِ اجر بنادے۔‘‘ (صحیحہ:۸۳)

امام مسلم نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا:’’ نبی کریم ﷺ جب کسی پر لعنت کریں یا کسی کو برا بھلا کہیں یا بددعا دیں اور وہ اس کا اہل نہ ہو، تو یہ اس کے لیے تزکیہ، اجر اور رحمت کا باعث ہو گی۔‘‘

پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا، جو انس رضی اللہ عنہ کی ماں تھیں ، کے پاس ایک یتیم بچی تھی۔((ایک دن) آپ ﷺ نے اس بچی کو دیکھا اور پوچھا: آنْتِ ھِیْہ؟ لَقَدْ کَبُرْتِ ، لَا کَبُرَ سِنُّکِ ۔))’’ تو یہاں ہے؟تو تو بڑی ہوگئی ہے؟، تیری عمر نہ بڑھنے پائے‘‘۔ یہ سن کر یتیمہ روتی ہوئی ام سلیم کے پاس پہنچی ۔ ام سلیم نے پوچھا: بیٹی ! کیا ہوا؟ بچی نے جواب دیا: اللہ کے نبی نے مجھے بددعا دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھنے پائے یا میرا زمانہ طویل نہ ہونے پائے۔ ام سلیم نے جلدی جلدی چادر لپیٹی اور نکل پڑی، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ’’ ام سلیم! تجھے کیا ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری یتیمہ کو بد دعا دی ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’ وہ کون سی (ذرا وضاحت کرو)؟‘‘ اس نے کہا: میری یتیمہ کہتی ہے کہ آپ نے اسے اس کی عمر بڑی نہ ہونے یا اس کا زمانہ طویل نہ ہونے کی بددعا دی ہے۔ (یہ سن کر) آپﷺ مسکرائے اور فرمایا:

((یَا اُمَّسُلَیْمٍ! أَمَا تَعْلَمِیْنَ أَنَّ شَرْطِیْ عَلٰی رَبِّیْ فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضٰی کَمَا یَرْضَی الْبَشَرُ ، وَأَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ،فَأَیُّمَا أَحَدٍدَعَوْتُ عَلَیْہِ مِنْ أُمَّتِیْ بِدَعْوَۃٍ لَّیْسَ لَھَا بِأَھْلٍ، أَنْ یَّجْعَلَھَا لَہ‘ طَھُوْراً وَزَکَاۃً وَّ قُرْبَۃً یُقَرِّبُہ‘ بِھَا مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟))’’

ام سلیم! کیا تجھے علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے ربّ سے شرط لگائی کہ میں بشر ہوں ،عام دوسرے انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ سو میں جس امتی پر ایسی بددعا کردوں جس کا وہ حقدار نہ ہو تو وہ (اللہ میرے امتی) کے حق میں اس بدعا کو پاک کرنے والی ، اس کا تزکیہ کرنے والی اور اسے روزِ قیامت اپنے قریب کر دینے والی بنا دے؟‘‘ (صحیحہ:۸۴)

پھر امام مسلم نے باب کے آخر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ والی یہی حدیث ذکر کر کے یہ اشارہ دیا کہ جس طرح یتیمہ کے حق میں آپﷺ کی بددعا باعثِ تزکیہ و قربت ثابت ہوئی ، یہی معاملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا۔ امام نووی نے شرح مسلم میں کہا:
آپﷺ کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بددعا دینا، اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں:

(۱)یہ کلمات بغیر کسی قصد کے آپ ﷺ کی زبان پر جاری ہو گئے۔
(۲)ان کی تاخیر کی وجہ سے یہ کلمات ان کو بطورِ سزا کہے گئے۔
امام مسلم یہ سمجھے کہ حقیقت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس
بدعا کے مستحق نہ تھے ، اس لیے انھوں نے اس حدیث کو اس باب میں داخل کیا ہےاور دوسروں نے تو اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ یہ ان کے حق میں آپ ﷺ کی دعا بن جائے گی۔

حافظ ذہبی نے ( سیر اعلام النبلاء : ۹؍۱۷۱؍۲) میں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:یہ کہنا ممکن ہے کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اے اللہ! میں جس پر لعنت کروں یا برا بھلا کہوں ، تو اس کے لیے تزکیہ اور رحمت کا باعث بنادے۔ (صحیحہ: ۸۲)

اقتباس: سلسلہ احادیث صحیحہ
 
Top