برباد ہونا - کرنا (ضائع ہونا - کرنا)
کے لیے ضلّ اور اضلّ ، حبط اور احبط ، بطل اور ابطل اور اضاع کے الفاظ آئے ہیں۔1: ضلّ
ضلّ کے معنی کسی چیز کا ضائع ہو کر دوسرے کے حق میں چلا جانا ہے (م ل) یعنی اپنے وجود کو ختم کر کے یا ملیا میٹ کر کے کسی دوسرے وجود میں مدغم ہو جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:وَقَالُوۡٓا ءَاِذَا ضَلَلۡنَا فِىۡ الۡاَرۡضِ ءَاِنَّا لَفِىۡ خَلۡقٍ جَدِيۡدٍؕ بَلۡ هُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ كٰفِرُوۡنَ (سورۃ سجدہ آیت 10)
اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیا میٹ ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں۔
پھر بعض دفعہ یہ لفظ صرف کسی چیز کے وجود کے ختم ہو جانے یا ضائع و برباد ہونے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیا میٹ ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں۔
قَالُوۡۤا اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا وَشَهِدُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰفِرِيۡنَ (سورۃ اعراف آیت 37)
تو کہیں گے کہ جنکو تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے۔ وہ اب کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ ہم سے گم ہو گئے اور اقرار کریں گے کہ بیشک وہ کافر تھے۔
اور ضلّ کا لفظ اگرچہ عام ہے جیسا کہ مندرجہ بالا مثالوں سے ظاہر ہے۔ تاہم اس کا اطلاق عموماً راستہ کھو دینے پر ہوتا ہے اور ضلّ بمعنی راہ گم کر دینا اور صحیح راہ کا پتہ نہ چل سکنا اور اس کی تلاش میں پھرتا ہے۔ ارشاد باری ہے۔تو کہیں گے کہ جنکو تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے۔ وہ اب کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ ہم سے گم ہو گئے اور اقرار کریں گے کہ بیشک وہ کافر تھے۔
وَوَجَدَكَ ضَآلاًّ فَهَدٰى (سورۃ ضحی آیت 7)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی
اور اضلّ کا معنی عموماً کسی دوسرے کو راستہ سے بہکا دیا، بھٹکا دینا اور بہکا کر غلط راستے پر ڈال دینا ہے۔ تاہم یہ لفظ اکارت کرنے یا ضائع کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی
اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ (سورۃ محمد آیت 1)
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکا (تو) اﷲ نے ان کے اعمال (اخروی اجر کے لحاظ سے) برباد کر دیئے
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکا (تو) اﷲ نے ان کے اعمال (اخروی اجر کے لحاظ سے) برباد کر دیئے
2: حبط
بمعنی اکارت جانا ، برباد ہونا ، عمل بیکار ہونا ، خراب ہونا اور حبط دم القتيل بمعنی مقتول کا خون رائیگاں جانا (منجد) یعنی کسی عمل کا بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونا۔ اچھے اعمال کا برے اعمال کی وجہ سے ضائع ہونا (اور اگر برے اعمال اچھے اعمال کی وجہ سے ختم ہو جائیں تو اس کا نام تکفیر ہے) (فق ل 192) ارشاد باری ہے:ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖؕ وَلَوۡ اَشۡرَكُوۡا لَحَبِطَ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ انعام آیت 88)
یہ اللہ کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو اعمال وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے۔
اور احبط بمعنی اکارت بنا دینا یا برباد اور ضائع کر دینا ہے۔ ارشاد باری ہے:یہ اللہ کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو اعمال وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَرِهُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَهُمۡ (سورۃ محمد آیت 9)
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اس (کتاب) کو ناپسند کیا جو اﷲ نے نازل فرمائی تو اس نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اس (کتاب) کو ناپسند کیا جو اﷲ نے نازل فرمائی تو اس نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے
3: بطل
باطل کی ضد حق ہے۔ تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے وه باطل ہے (مف) یعنی نا حق اور بے اصل کام کو باطل کہتے ہیں۔ اور بطّل بمعنی کسی چیز کا بے نتیجہ اور بے اثر ہونے کی وجہ سے ضائع ہونا ہے جیسے بد پرہیزی علاج کے فائدہ کو بے اثر کر دیتی ہے یا علاج بیماری کے اثرات کو دور کر کے ختم کر دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:فَوَقَعَ الۡحَـقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَۚ (سورۃ اعراف آیت 118)
آخر حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ وہ لوگ کرتے تھے باطل ہو گیا۔
اور ابطل بمعنی کس کام کو بے اثر اور نے نتیجہ بنا دینا جس کی وجہ کوئی دوسرا اس کے مخالف عمل ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:آخر حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ وہ لوگ کرتے تھے باطل ہو گیا۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ (سورۃ بقرۃ آیت 264)
مومنو! اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کر دینا
مومنو! اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کر دینا
4: اضاع
بمعنی تلف کرنا، ہلاک کرنا، برباد کرنا۔ خواہ یہ کسی بھی وجہ سے ہو، عام ہے۔ ارشاد باری ہے:فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهٰوتِ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّاۙ (سورۃ مریم آیت 59)
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ سو عنقریب انکو گمراہی کی سزا ملے گی۔
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ سو عنقریب انکو گمراہی کی سزا ملے گی۔
ماحصل:
- ضلّ: کسی چیز کا ضائع ہو کر دوسرے کے حق میں چلے جانا اور اپنا وجود کھو دینا۔
- حبط: بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے کوئی عمل بے اثر اور بے نتیجہ ثابت ہونا۔
- بطل: کسی عمل کے مخالف کوئی ایسا عمل جو پہلے عمل کو بے کار کر دے۔
- اضاع: عام ہے۔ کسی بھی وجہ سے کوئی چیز برباد کر دینا۔