مترادفات القرآن (ب)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے نصیب

کے لیے محروم اور شقیّا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حرام

وہ چیز ہے جس سے روک دیا گیا ہو۔ پھر یہ امتناع بعض دفعہ تسخیری ہوتا ہے، کبھی جبری اور کبھی شرعی۔ اور محروم وہ شخص ہے جس سے وسعت رزق اور خوشحالی کو روک دیا گیا ہو (مف) محروم کا لفظ قرآن میں غالباً تین جگہ آیا ہے اور ہر مقام پر تنگدست ہی کے معنوں میں آیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ (سورۃ المعارج آیت 25، 26)
اور جنکے مال میں حصہ مقرر ہے۔ یعنی مانگنے والے کا۔ اور نہ مانگنے والے کا۔

2: شقیّا

شقی کی ضد سعید ہے۔ اور سعید وہ شخص ہے جسے فطری طور پر نیک بختی ودیعت ہوتی ہو ۔ اسی طرح شقی وہ شخص ہے جو اس بہرہ قسمت سے محروم ہو ۔ قرآن میں ہے:
قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا (سورۃ مریم آیت 4)
اور کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہو گئ ہیں اور سر سفید بالوں کیوجہ سے چمکنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔

ماحصل:

محروم معاشی لحاظ سے بے نصیب کے لیے اور شقیا تمام بھلائی کی باتوں سے بے نصیبی کے لیے آیا ہے۔
بے نور ہونا کے لیے دیکھیے "دھندلانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے نیاز

کے لیے دو لفظ آئے ہیں۔ غنی اور صمد۔

1: غنی

کی ضد فقیر بمعنی محتاج ہے۔ اور مغنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو۔ اور یہ لفظ اکثر مال و دولت سے بے نیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے۔ اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں (جمع اغنیاء)، یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ وہ اسے معاش کے سلسلہ میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 273)
(یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے) نا واقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو کہ حاجت مند ہیں اور شرم کے سبب لوگوں سے منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ اسکو جانتا ہے۔

2: صمد

اس میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (۲) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں (م ل، منجد) یعنی ایسی ذات جو خود تو کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسرے سب اس کے محتاج ہوں۔
غنی اور صمد میں دوسرا فرق یہ ہے کہ غنی کا تعلق زیادہ تر معاشی امور سے ہے جبکہ صمد جملہ پہلوؤں میں بے نیاز اور دوسرے اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ (سورۃ الاخلاص آیت 1، 2)
کہو کہ وہ معبود برحق جسکی میں عبادت کرتا ہوں اللہ ہے وہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے ہودہ کلام

کے لیے لغو اور لاغية، ھزل اور نزف کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لغو

لغی (یلغوا) کے معنی بے سوچے سمجھے بولنا اور بکواس کرنا۔ اور لغى الطير باصواتها پرندوں کے اپنی اپنی بولیاں بولنے کو کہتے ہیں۔ معروف لفظ لغت اُسی سے مشتق ہے۔ یعنی سب کی ملی جلی زبان اور لغو ہر بیہودہ کلام اور کتے کی آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے اور لاغیة کے معنی بیہودہ اور قبیح کلام ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا اِلَّا سَلٰمًا ؕ وَ لَہُمۡ رِزۡقُہُمۡ فِیۡہَا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا (سورۃ مریم آیت 62)
وہ اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ کلام نہ سنیں گے اور انکو صبح و شام کھانا ملے گا۔
نہ سنیں گے وہاں بک بک سوائے سلام (عثمانیؒ)
دوسری جگہ فرمایا
لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً (سورۃ الغاشیۃ آیت 11)
وہاں کسی طرح کی لغو بات نہیں سنیں گے۔
نہیں سنتے اس میں بکواس (عثمانیؒ)

2: هزل

هزل کے بنیادی طور پر دو معنی ہیں۔ (1) لاغر،دبلا یا کمزور ہونا (۲) هَزَل في كلامه یعنی ہنسی مذاق کرنا۔ بکواس کرنا (م ل، منجد) اور ھزالة معنی ظرافت و خوش طبعی بھی ہے۔ (منجد) گویا ھزل کے معنی دل لگی کے طور پر گپیں ہانکنا ہے (فق۔ ل 211) ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ (سورۃ الطارق آیت 13، 14)
کہ یہ فیصلہ کن کلام ہے۔ اور یہ کوئی مذاق نہیں۔
نہیں بات ہنسی کی (عثمانیؒ)

3: نزف

نزف کے معنی کسی چیز کا ختم ہونا اور منقطع ہونا ہے (م ل) نزف دمہ، اس کا سب خون نکل گیا۔ اور نزیف وہ آدمی جس کی عقل کھینچ لی گئی ہو۔ مدہوش اور متوالا (م ل) اور نزف الماء کے معنی بتدریج پانی کھینچ لینا ہے (مف) گویا نزف کے معنی وہ بہکی بہکی باتیں ہیں جو کسی نشہ آور چیز کے استعمال سے یا کسی دوسری وجہ سے عقل و ہوش میں کمی واقع ہونے سے بد مست آدمی کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِکَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍۭ بَیۡضَآءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ لَا فِیۡہَا غَوۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ عَنۡہَا یُنۡزَفُوۡنَ (سورۃ الصافات آیت 45 تا 47)
شراب لطیف کے جام کا ان میں دور چل رہا ہو گا۔ جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر لذت ہو گی۔ نہ اس سے درد سر ہو اور نہ وہ اس سے بہکیں۔

ماحصل:

  • لغو: فضول بکواس اور بے سوچے سمجھے شور مچانا۔
  • هزل: دفع الوقتی کے لیے ہنسی مذاق اور خوش گپیوں کو ۔ اور
  • نزف: ان بہکی باتوں کو کہتے ہیں جو نشہ میں بد مست آدمی کیا کرتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے ہوش ہونا

کے لیے صعق، سکر، غمر اور صرع اور غشی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صعق

دہشت اور گھبراہٹ کی وجہ سے بیہوش ہونے کو کہتے ہیں (ف ل ۱۳۰) اور صاعقہ گرنے والی بجلی کو یا اس خوفناک دھماکہ کو جس کا تعلق اجسام علوی سے ہو (تفصیل "بجلی" میں دیکھیے) ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (سورۃ الاعراف آیت 143)
پھر جب انکے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسکو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔

3: سكر

سکر ایسی حالت کو کہتے ہیں جب انسان عقل و ہوش کھو بیٹھے (مف) قرآن میں ہے:
وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ (سورۃ ق آیت 19)
اور موت کی بیہوشی حقیقت کھولنے کو طاری ہو گئ۔ اے انسان یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
لیکن اس کا اکثر استعمال کسی نشہ آور چیز کے استعمال سے عقل و ہوش کھونے پر ہوتا ہے، کیونکہ سکر شراب اور ہر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَ مِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِیۡلِ وَ الۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡہُ سَکَرًا وَّ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 67)
اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق کھاتے ہو جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں انکے لئے ان چیزوں میں نشانی ہے۔
اور سکر بمعنی شراب سے مدہوش ہونا اور صفت سکران ہے۔ مونث سکری اور اس کی جمع سکری آتی ہے (منجد)۔

3: غمر

کے معنی بیہوشی طاری ہونا اور غمرات الموت کے معنی موت کی تکالیف اور سختیاں ہیں جس سے انسان کے ہوش و حواس جاتے ہیں (منجد) غمرہ کثیر پانی کو بھی کہتے ہیں جس کی اتھاہ معلوم نہ ہو سکے۔ ابن الفارس غمر کے معنی شدائد اور سختیوں کی وجہ سے عقل و ہوش کا مستور ہونا لکھتے ہیں (م- ل) ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ (سورۃ الانعام آیت 93)
اور کاش تم ان ظالم یعنی مشرک لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے انکی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں
دوسرے مقام پر فرمایا:
بَلۡ قُلُوۡبُہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا وَ لَہُمۡ اَعۡمَالٌ مِّنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ ہُمۡ لَہَا عٰمِلُوۡنَ (سورۃ المومنون آیت 63)
مگر ان کے دل ان باتوں کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور انکے سوا اور اعمال بھی ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں۔
کوئی نہیں۔ ان کے دل بہیوش ہیں اس طرف سے۔ (عثمانیؒ)

4: صرع

صرع بمعنی مرگی یا ام الصبیان۔ مشہور بیماری ہے جس میں انسان بیہوش ہو کر پٹاخ سے زمین پر ایسے گر پڑتا ہے جیسے کسی نے پٹخ دیا ہو ۔ اور صرع بمعنی اضطراب اور گھبراہٹ کی وجہ سے زمین پر گرنا (ف ل 130) قرآن میں ہے:
سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ (سورۃ الحاقہ آیت 7)
اللہ نے اسکو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو اے مخاطب تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح گرے ہوئے دیکھتا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔

5: غشی

غشا کے معنی کسی چیز کو ڈھانپ لینا اور اس پر پردہ ڈال دینا ہے۔ اور جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جائے اور اس کے حواس کام نہ کریں تو اسے بھی مغشی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ خواہ دہشت ہو یا خوف یا کوئی اور۔ اور مغشی اس کو کہا جاتا ہے جو بے ہوش ہو گیا ہو۔ قرآن میں ہے :
اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ ۚۖ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ (سورۃ الاحزاب آیت 19)
یہ اس لئے کہ تم سے بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر کا وقت آئے تو تم انکو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں اور انکی آنکھیں اسی طرح پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آ رہی ہو

ماحصل:

  • صعق: کسی آسمانی حادثہ سے بےہوش ہونے کے لیے۔
  • سكر: عموماً شراب یا نشہ آور چیزوں سے بے ہوشی۔
  • غمر: شدائد اور سختیوں کی وجہ سے بے ہوشی۔
  • صرع: بے ہوشی کی وجہ سے پٹاخ سے زمین پر گر پڑنے کے لیے۔
  • غشی کسی چیز کی دہشت یا مرض کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے بےہوشی کے لیے عام لفظ ہے۔
 
Top