قحط سالی،مہنگائی،بدامنی کے اسباب
از قلم: محمدداؤدالرحمن علی
موجودہ حالات میں انسان مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔اگر نظر دوڑائی جائی توکوئی جانی پریشانی میں مبتلا ہے،کوئی منصب کی پریشانی میں مبتلاہے،کوئی عزت آبرو کی پریشانی میں،الغرض امیر اپنی کوٹھی میں اور غریب اپنی جھونپڑی میں پریشان ہے۔
یہاں ہم اپنے ذہن ،اپنی فہم و فراست سے حل تلاش کرتے ہیں،تجزیہ کرتے ہیں،محفلوں میں اپنے ذہن کے مطابق حل دیتے ہیں۔لیکن ان وجوہات کے اصل حقائق اور اصل اسباب پر ہم توجہ نہیں دیتے۔
ان حالات میں ہم دنیا کے بہترین تجزیہ نگاروں کی طرف تو نظر اٹھاکر دیکھتے ہیں اور ان کی بات کو بڑے غور اور باریک بینی سے سنتے ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ان موجودہ پریشان کن اہم مسائل کے حل کے لیے دنیا کی سب سے عقلمند ترین ہستی، صادق و امین آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺکی طرف کیوں نظر نہیں کی جاتی کہ اس مبارک ہستی نے ہمارے ان مسائل کی کیا وجوہات واسباب بیان کیے ہیں؟ جو وجوہات سرورِ دو عالم، سید الانبیاء احمد مجتبیٰﷺ نے بیان فرمائی ہیں، ہمارے مسائل کی حقیقی وجوہات اور حقیقی اسباب وہی ہیں، اس بات کو حقیقی جاننا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
حالات کی وجہ؟
اپنی عقل اور فہم سے جو حل پیش کیے جارہے ہیں وہ سب ظاہری ہیں نہ کہ حقیقی۔ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔اﷲ تعالیٰ نے حالات کو (خواہ اچھے ہوں یا بُرے) انسانی اعمال سے جوڑا اور وابستہ فرمایا ہے، چنانچہ انسان کے نیک وبداعمال کی نوعیت کے اعتبار سے احوال مرتب ہوتے ہیں: صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی، بارش وخشک سالی، مہنگائی وارز انی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ،وغیرہ،یہ سب ہمارے نیک وبد اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر :ان سب احوال کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں، مگر حقیقی اسباب ہمارے نیک وبد اعمال ہوتے ہیں۔اس طرح کے خوفناک اور عبرت انگیز واقعات (خواہ انفرادی ہوں یااجتماعی ) دراصل اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ’’الارم‘‘ اور ’’تنبیہ‘‘ ہوتے ہیں، تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے۔جب بھی میں کہتا ہوں:
یا اﷲ! میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
ان حالات کے اسباب قرآن کی نظرمیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً‘‘۔ (النحل:۹۷)
’’جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک اور پرسکون زندگی کے راز کو ایمان اور اعمال صالحہ میں رکھا ہے۔ یعنی اعمال صالحہ کروگے تو عمدہ زندگی ملے گی ورنہ نہیں۔’’جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے‘‘۔
سورۃ طہ میں فرمایا کہ اگر تم نے میرے احکامات سے منہ موڑا میں تمہاری دنیا و آخرت کی زندگی تنگ کردوں گا۔
’’وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ۔‘‘ (طہ:۱۲۴)
’اور جو شخص میرے ذکر (نصیحت) سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘
اس آیت میں واضح کیا جارہاہے کہ مال و دولت ہو،عزت و شہرت ہو لیکن اگر تم نے اپنے رب کی اطاعت سے منہ موڑا تو ظاہری اسباب ہنے کے باوجود تماہرے دلوں کو سکون میسر نہ ہوگا۔اگر دلی سکون چاہتے ہوتو احکامات خداوندی پر عمل کرو۔’اور جو شخص میرے ذکر (نصیحت) سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘
سورۃ شوریٰ میں ایک اور سبب بتلایا کہ سب تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
’’وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ‘‘۔ (الشوریٰ:۳۰)
’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اﷲ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مصیبت جو ہمیں آتی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔اگر ان آیات پر غور کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اﷲ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے‘‘۔
’’ نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے‘‘۔
ان حالات کے اسباب حدیث کی نظرمیں:
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ، حَدَّثَنَا أبِیْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ: سَمِعْتُ وَہْبًا یَقُوْلُ: إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَالَ فِي بَعْضِ مَا یَقُوْلُ لِبَنِیْ إِسْرَائِیلَ: إِنِّيْ إِذَا اُطِعْتُ رَضِیْتُ، وَإِذَا رَضِیْتُ بَارَکْتُ، وَلَیْسَ لِبَرَکَتِيْ نِہَایَۃٌ، وَإِنِّيْ إِذَا عُصِیْتُ غَضِبْتُ، وَإِذَا غَضِبْتُ لَعَنْتُ، وَلَعْنَتِيْ تَبْلُغُ السَّابِعَ مِنَ الْوَلَدِ۔‘‘ (کتاب الزہد لاحمد بن حنبل، رقم الحدیث: ۲۸۹)
’’امام احمد ؒ نے وہب ؒ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا: جب میری اطاعت کی جاتی ہے تو میں راضی ہوتا ہوں، اور جب میں راضی ہوتا ہوں تو برکت عطا کرتا ہوں، اور میری برکت کی کوئی انتہا نہیں، اور جب میری نافرمانی کی جاتی ہے، تو میں غضب ناک ہوتا ہوں، تو میں لعنت کرتا ہوں، اور میری لعنت کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے۔
درج بالا حدیث میں فرمایا جارہاہے اطاعت کروگے،انعام ملے گا،اطاعت نہ کروگے تو سزا ہوگی۔’’امام احمد ؒ نے وہب ؒ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا: جب میری اطاعت کی جاتی ہے تو میں راضی ہوتا ہوں، اور جب میں راضی ہوتا ہوں تو برکت عطا کرتا ہوں، اور میری برکت کی کوئی انتہا نہیں، اور جب میری نافرمانی کی جاتی ہے، تو میں غضب ناک ہوتا ہوں، تو میں لعنت کرتا ہوں، اور میری لعنت کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث میں فخر دوعالمﷺ نے پانچ چیزیں ارشاد فرمائیں اور ان سے پناہ مانگی۔
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرؓ، قَالَ: اَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُـہَاجِرِیْنَ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ، وَاَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ تُدْرِکُوْہُنَّ، لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ، الَّتِيْ لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِيْ اَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ وَالْمِـیْزَانَ، إِلَّا اُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ، وَشِدَّۃِ الْمَـئُوْنَۃِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوْا زَکَاۃَ اَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوْا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا، وَلَمْ یَنْقُضُوْا عَہْدَ اللہِ، وَعَہْدَ رَسُوْلِہٖ إِلَّا سَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ، فَاَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ اَیْدِیْہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ اَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللہِ، وَیَتَخَیَّرُوْا مِمَّا اَنْزَلَ اللہُ إِلَّا جَعَلَ اللہُ بَاْسَہُمْ بَیْنَہُمْ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۴۰۱۹)
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔ ‘‘
سنن ابن ماجہ کی دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔ ‘‘
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا یَزِیْدُ فِیْ الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیْبُہُ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۴۰۲۲)
ترجمہ: ’’نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: ’’نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
’’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم : وَلَا مَنَعُوْا الزَّکَاۃَ إِلَّا حُبِسَ عَنْہُمُ الْقَطْرُ۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: ۱۰۹۹۲)
’’نہیں روکا کسی قوم نے زکوٰۃ کو، مگر روک لیا اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں ہمیں قحط سالی، بارشوں کا بروقت نہ ہونا، مہنگائی کا ہو جانا، اور رزق میں کمی ہو جانے کے اسباب یہ معلوم ہوئے،آسان الفاظ میں اس حدیث مابرکہ میں پانچ باتوں کا ذکر ہوا ان تمام چیزوں کے اسباب ہیں۔’’نہیں روکا کسی قوم نے زکوٰۃ کو، مگر روک لیا اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو۔‘‘
۱۔ ناپ تول میں کمی
۲۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنا ۔
۳۔ زنا کرنا۔
۴۔ مطلق اللہ کی نافرمانی اور گناہ کرنا۔
۵۔ قرآن وسنت کے خلاف فیصلے کرنا۔
اگر ہم غور کریں تو ان میں سے اکثر چیزیں ہمارے اندر رائج الوقت ہے۔
ان اسباب کا شرعی حل:
دنیا کے تمام مصائب اور مسائل سے اگر خلاصی چاہتے ہیں اس کا سب سے پہلا حل یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرے، سچے دل سے ان پر ندامت کا اظہار کرے، اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے آئندہ ان کے ترک کا عزمِ کرے۔سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا۔‘‘ (النوح: ۱۰ -۱۲)
’’ اور (اس سمجھانے میں ) میں نے (ان سے یہ ) کہا کہ تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ، بیشک وہ بڑابخشنے والا ہے، تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘
یعنی اگر ہم گناہوں کی زنگی سے توبہ کریں گے تو اللہ پاک ہم پر رحمتوں کا نزول فرمائے گا۔’’ اور (اس سمجھانے میں ) میں نے (ان سے یہ ) کہا کہ تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ، بیشک وہ بڑابخشنے والا ہے، تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘
سورۃ ہود میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں
’’وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘۔ (ہود:۵۲)
’’اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو‘‘۔
یعنی معافی کے طالب ہوجاؤ،اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرو میں تمہاری قحط سالی دور کردوں گا۔’’اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو‘‘۔
سورۃ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ‘‘۔ (الطلاق:۲،۳)
’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔
یعنی رب کائنات سے ہمہ وقت ڈرتے رہو،ہر کام میں اس سے ڈرو تو اللہ پاک مشکلات سے نجات عطا کردینگے اور رزق وہاں سے میسر ہوگا جہاں کبھی گمان میں بھی نہ آیا ہو۔’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔
ان آیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اللہ کے شکر،فرمانبرداری،اطاعت کے ساتھ رہوگے تو کامیاب ہوگے اور وہیں اللہ پاک نے سورۃ النحل میں فرمایا:
’’ وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ أٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ‘‘۔(النحل: ۱۱۲)
’’اور بتائی اﷲ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اﷲ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اﷲ نے بھوک اور خوف کے لباس کا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر آئینہ دکھایا گیا اگر تم نے منہ موڑا،اگر نا شکری کی،اگر احکامات پر عمل نہ ہوا تو مزہ بھی چکھایا جائے گا۔’’اور بتائی اﷲ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اﷲ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اﷲ نے بھوک اور خوف کے لباس کا‘‘۔
ان تمام احکامات سے علم ہوتا ہے کہ
ہم پر جو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں، لہٰذا پُرسکون اورپُراطمینان زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر نادم ہوکر اﷲ تعالیٰ سے ان پر معافی مانگیں،فی الفور نافرمانی چھوڑ کر آئندہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔
وہ طرز زندگی اپنائیں جس کا حکم رب کائینات نے عطا فرمایا تو زندگی میں آسان ہوجائے گی اور آخرت میں بھی ذریعہ نجات ہوگی۔ان شاءاللہ!