امیر المؤمنین ، خال المسلمین ، بادشاہ تدبّر ، پہلے اسلامی بحری بیڑے کے مُوجد ، کا تب وحی ، حسنین کریمین کے امام ، خلیفہء راشد
سیدنا ومحبوبنا ابوعبدالرحمن،امام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت اُن کا " صحابی رسول " ہونا ہے ، کائنات میں اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ،
کیا سیدنا معاویہ صحابی رسول ہیں ؟
ابن ابو ملیکہ تابعی بیان کرتے ہیں :
" قِیلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : ھَلْ لَّکَ فِي أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مُعَاوِیَۃَ؟ فَإِنَّہٗ مَا أَوتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَۃٍ، قَالَ : أَصَابَ، إِنَّہٗ فَقِیہٌ "
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے صرف ایک رکعت وتر ادا کیا ہے۔اس پر انہوں نے فرمایا : انہوں نے درست کیا ہے، بلاشبہ وہ فقیہ ہیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 351/1، رقم : 3765)
ایک روایت میں یوں ہے :
اوْتَرَ مُعَاوِیَۃُ بَعْدَ العِشَائِ بِرَکْعَۃٍ، وَعِنْدَہٗ مَوْلًی لِّابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ : دَعْہُ، فَإِنَّہٗ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نماز ِ عشاء کے بعد ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کاغلام ان کے پاس تھا۔ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا(اور یہ بات بتائی) تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں۔بلاشبہ معاویہt رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔
‘‘(صحیح البخاري : 351/1، ح : 3764)
اِن دو روایات سے تین باتیں ثابت ہوئیں ، سیدنا معاویہ کا صحابی ہونا ، اُن کا فقیہ ہونا ، اور امیر المؤمنین ہونا
" صحابی ہونے " کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزرائ، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، ذکر عويم بن ساعدة رضی الله عنه، 3 / 732، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 3 / 370، الرقم : 1772، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وأيضًا في المعجم الکبير، 17 / 140، الرقم : 349.
’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر قلب پایا تو اسے اپنے لیے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا. پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لیے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے : انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) سو جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی اور جسے وہ بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بُری ہے۔‘‘
اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں. اور عسقلانی نے بھی کہا : یہ حدیث حسن ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار في المسند، 5 / 212، الرقم : 1816، 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 / 112، 115، الرقم : 8582، 8593، والطيالسي في المسند، 1 / 33، الرقم : 246، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 375، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 114، الرقم : 49، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177.178، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 65.
مندجہ بالا احادیث یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی " صحابہ کرام " رضی اللہ عمھم کا چناؤ اللہ رب العزت نے کیا ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دل محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کے بعد سب سے بہتر دل ہیں ، اور اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کے سُسرالی رشتہ دار و دامادی رشتہ داروں کو بھی منتخب کیا ، اس لحاظ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو کئی فضیلتیں حاصل ہیں
(1)" صحابی ہونا " اللہ رب العزت کا چناؤ ، کیا یہ شرف کم ہے ؟
(2)" سُسرالی رشتہ دار ہونا "یہ بھی اللہ کا چناؤ ، کیا یہ شرف کم ہے ؟(سیدنا معاویہ رسول اللہ ﷺ کے برادرِ نسبتی ہیں ،اسی لئے انہیں مؤمنوں کا ماموں کہا جاتا ہے)
(3) " فقیہ ہونا "
(4) " امیر المؤمنین کا لقب "
اب وہ لوگ سامنے آجائیں جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ،
سیدنا ومحبوبنا ابوعبدالرحمن،امام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت اُن کا " صحابی رسول " ہونا ہے ، کائنات میں اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ،
کیا سیدنا معاویہ صحابی رسول ہیں ؟
ابن ابو ملیکہ تابعی بیان کرتے ہیں :
" قِیلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : ھَلْ لَّکَ فِي أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مُعَاوِیَۃَ؟ فَإِنَّہٗ مَا أَوتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَۃٍ، قَالَ : أَصَابَ، إِنَّہٗ فَقِیہٌ "
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے صرف ایک رکعت وتر ادا کیا ہے۔اس پر انہوں نے فرمایا : انہوں نے درست کیا ہے، بلاشبہ وہ فقیہ ہیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 351/1، رقم : 3765)
ایک روایت میں یوں ہے :
اوْتَرَ مُعَاوِیَۃُ بَعْدَ العِشَائِ بِرَکْعَۃٍ، وَعِنْدَہٗ مَوْلًی لِّابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ : دَعْہُ، فَإِنَّہٗ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نماز ِ عشاء کے بعد ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کاغلام ان کے پاس تھا۔ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا(اور یہ بات بتائی) تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں۔بلاشبہ معاویہt رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔
‘‘(صحیح البخاري : 351/1، ح : 3764)
اِن دو روایات سے تین باتیں ثابت ہوئیں ، سیدنا معاویہ کا صحابی ہونا ، اُن کا فقیہ ہونا ، اور امیر المؤمنین ہونا
" صحابی ہونے " کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزرائ، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، ذکر عويم بن ساعدة رضی الله عنه، 3 / 732، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 3 / 370، الرقم : 1772، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وأيضًا في المعجم الکبير، 17 / 140، الرقم : 349.
’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر قلب پایا تو اسے اپنے لیے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا. پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لیے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے : انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) سو جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی اور جسے وہ بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بُری ہے۔‘‘
اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں. اور عسقلانی نے بھی کہا : یہ حدیث حسن ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار في المسند، 5 / 212، الرقم : 1816، 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 / 112، 115، الرقم : 8582، 8593، والطيالسي في المسند، 1 / 33، الرقم : 246، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 375، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 114، الرقم : 49، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177.178، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 65.
مندجہ بالا احادیث یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی " صحابہ کرام " رضی اللہ عمھم کا چناؤ اللہ رب العزت نے کیا ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دل محمد رسول اللہ ﷺ کے دل کے بعد سب سے بہتر دل ہیں ، اور اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کے سُسرالی رشتہ دار و دامادی رشتہ داروں کو بھی منتخب کیا ، اس لحاظ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو کئی فضیلتیں حاصل ہیں
(1)" صحابی ہونا " اللہ رب العزت کا چناؤ ، کیا یہ شرف کم ہے ؟
(2)" سُسرالی رشتہ دار ہونا "یہ بھی اللہ کا چناؤ ، کیا یہ شرف کم ہے ؟(سیدنا معاویہ رسول اللہ ﷺ کے برادرِ نسبتی ہیں ،اسی لئے انہیں مؤمنوں کا ماموں کہا جاتا ہے)
(3) " فقیہ ہونا "
(4) " امیر المؤمنین کا لقب "
اب وہ لوگ سامنے آجائیں جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ،