امیر المؤمنین ، خال المسلمین ، بادشاہ تدبّر ، پہلے اسلامی بحری بیڑے کے مُوجد ، کا تب وحی ، حسنین کریمین کے امام ، خلیفہء راشد
سیدنا ومحبوبنا ابوعبدالرحمن،امام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ حصہ سوم ( لفظ " صحابی " سے متعلق احادیث مبارکہ )
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت اُن کا " صحابی رسول " ہونا ہے ، کائنات میں اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ،
اس حصہ میں ہم اُن احادیث کا ذکر کریں گے جن میں لفظ " صحابی " کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کی فضیلت اور اُن کی تنقیص کرنے والوں پر لعنت کی ہے
اِن احادیث ِ فضیلت میں اس لفظِ " صحابی " کے ساتھ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وہ سب فضائل حاصل ہیں جو دیگر تمام صحابہ کرام کو حاصل ہیں ، اور اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والے لعنت کے مستحق ہیں جس طرح دیگر صحابہ کی تنقیص کرنے والے لعنتی ہیں
(1) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِءَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ،
(بخاری رقم 3449،مسلم 2532)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابی ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان صحابی کی برکت سے) فتح دے دی جائے
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ " صحابی " ہونا اتنا عظیم رتبہ ہے کہ کسی جنگ میں صرف " صحابی " کی شرکت کی وجہ سے اس لشکر والوں کو اللہ فتح عطاء فر مادیتا ہے
(2) عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأٰی مَنْ رَآنِي.(ترمذی رقم 3858)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا.‘‘
اس حدیث مبارکہ سے " صحابی " کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ صحابہ کرام پر جھنم کی آگ تو حرام ہے ہی لیکن ان کے بعد اگر کوئی مسلمان کسی صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھ لے تو ربُ العزت اس پر بھی جھنم کی آگ حرام قرار دے دیتا ہے
اس حدیث کی روشنی میں دیگر اصحابِ رسول کے ساتھ سیدنا معاویہ پر بھی جھنم کی آگ کا حرام ہونا ثابت ہوا
(کسی نے صحیح کہا ہے واہ صحابہ واہ)
(3) أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلصَّحَابَةِ وَلِمَنْ رَأٰی مَنْ رَآنِي قَالَ : قُلْتُ : وَمَا قَوْلُهُ : وَلِمَنْ رَأٰی قَالَ : مَنْ رَأٰی مَنْ رَآهُمْ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، الرقم : 5874، وابن حبان في الثقات، الرقم : 9345، کنز العمال، الرقم : 32490.
"حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کو بخش دے اور اسے بھی بخش دے جس نے ان کو دیکھا جنہوں نے مجھے دیکھا. راوی کہتے ہیں میں نے کہا : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان ’’ولمن رأٰی‘‘ (اور جس نے دیکھا) سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے انہیں (یعنی صحابہ کو) دیکھا "
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے تمام صحابہ کرام کی بخشش کے لئے دعا فرمائی (جو یقینا" مقبول ہوئی) ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ نے اپبے صحابہ کی زیارت کرنے والے اہل ایمان کی بخشش کی دعا فرمائی
دیگر اصحاب رسول کی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس بخشش والی دعا میں شامل ہیں
(4) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَاِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتٰی أَصْحَابِي مَا يُوْعَدُوْنَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتٰی اُمَّتِي مَا يُوْعَدُوْنَ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، الرقم 2531،
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تارے آسمان کے لیے ڈھال ہیں اور جب تارے ختم ہو جائیں گے تو جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ (یعنی قیامت) آسمان پر آ جائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لیے ڈھال ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے صحابہ پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے ڈھال ہیں اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے " صحابہ کرام " کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے لئے ڈھال (یعنی اُن کا دفاع کرنے ) والے ہیں ،لیکن آج کے بدبخت جو مسلمانی کے نام پر دھبہ ہیں وہ صحابہ کرام کا دفاع کرنے کی بجائے ان پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں ، اور اسی حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام جب تک زندہ رہے وہ اس اُمّت کے لئے ڈھال(یعنی ان کا دفاع کرنے) والے تھے ،لیکن اس امّت میں ایسے بدبخت پیدا ہوگئے جو اپنے دفاع کرنے والوں پر بھونکنے لگے
(5) أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَاءِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، الرقم : 1000
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزراء، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں بُرا بھلاکہا تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ " صحابہ کرام " اللہ رب العزت کا چُناؤ ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ کے سسرالی و دامادی رشتہ دار بھی اللہ ربالعزت کا چُناؤ ہیں اللہ رب العزت کے ان منتخب و چُنے ہوئے صحابہ کرام کوجو شخص بھی بُرا بھلا کہے گا وہ اس دنیا میں اللہ رب العزت ،فرشتوں اور کائنات کے تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا اور کل قیامت کے دن اس لعنتی شخص کے فرض و نفل قبول نہیں ہونگے
اور بلکل اسی طرح اس حدیث مبارکہ کے پیش نظر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اللہ کے منتخب کردہ صحابہ میں شامل ہیں اور انہیں دوہری فضیلت حاصل ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سُسرالی رشتہ دار بھی ہیں ،اب اُن پر جو بھی طعن و تشنیع کرے گا وہ اللہ رب العزت ،فرشتوں اور کائنات کے تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا اور اس کے فرض و نفل بے کار جائیں گے
(6) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلٰی أَعْقَابِهِمْ(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.)
أخرجه البخاري في الصحيح، الرقم : 3721، ومسلم في الصحيح، الرقم : 1628.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قبول فرما اور انہیں اُلٹے پاؤں نہ لوٹانا،
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے والے " صحابہ کرام " کے لئے دعا مانگی( یہ دعا بھی مقبول ہوئی ) ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک صحابی کے بارے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مُرتد ہو گیا ہو یہ اسی دعا کا نتیجہ تھا
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس دعا کی تمام فضیلت میں شامل ہیں ،
سیدنا معاویہ 7ھ میں مسلمان ہوئے اور ہجرت بھی کی نبی کریم ﷺ نے جب مہاجرین و انصار میں مواخات قائم کی تو سیدنا معاویہ کو سیدنا حتات بن بشر انصاری کا بھائی قرار دیا تھا (رحمۃ اللعالمین ج3،صفہ368،)
(7) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَفْتَرِقُ هَذِهِ الأُمَّةُ عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا فِرْقَةً وَاحِدَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا تِلْكَ الْفِرْقَةُ؟ قَالَ:مَا كَانَ عَلَى مَا أَنَا عليه اليوم وأصحابي»[
میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”جو اس طریقہ پر ہونگے جس پر آج میں
محدث أسلم بن سهل بن أسلم الواسطي، (المتوفى: 292 )تاريخ واسط ص: 196 واسنادہ صحیح]
اسی سند سے یہ حدیث امام جورقانی نے نقل کی اور فرمایا هذا حديث عزيز حسن مشهور، ورواته كلهم ثقات أثبات كأنهم بدوروأقمار
[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 466]
امام جورقانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تمام رجال کو ثقہ اور ثبت کہا ہے اس لئے اس کے کسی بھی راوی کو مجہول قراردینا درست نہیں ہے۔
امام جورقانی کے علاوہ دیگر محدثین سے بھی اس سند کے ہر راوی کی توثیق ثابت ہے ۔
اس حدیث کے فوائد و ثمرات اور نتیجہ ملاحظہ فرمائیں
(1)اس حدیث سے پہلے بات یہ ثابت ہوئی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ( بشمول سیدنا معاویہ) کےرسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر سو فیصد کاربند تھے
(2)دوسری بات اس حدیث سے یہ ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام ( بشمول سیدنا معاویہ ) کا طریقہ بھی در حقیقت رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے
(3)تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ تمام صحابہ کرام (بشمول سیدنا معاویہ ) کے قطعی جنّتی ہیں
(4)چھوتی بات یہ ثابت ہوئی کہ اب اگر کسی نے " جنّت " میں جانا ہے اور جنتی فرقہ کا حق دار بننا ہے تو اسے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (بشمول سیدنا معاویہ ) کے طریقہ پر چلنا ہوگا ورنہ وہ نہ جنت میں جائیں گے اور نہ جنتی فرقہ میں شامل ہونگے
(نتیجہ)
آج جو لوگ اصحاب رسول کے علاوہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے ہیں ، اور سیدنا معاویہ کے طریقہ کو غلط کہتے و سمجھتے ہیں ،یہ لوگ نہ جنت میں جائیں گے اور نہ ہی وہ جنتی فرقہ کہلانے کا مستحق ہیں ۔
All reactions:
4444
سیدنا ومحبوبنا ابوعبدالرحمن،امام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ حصہ سوم ( لفظ " صحابی " سے متعلق احادیث مبارکہ )
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت اُن کا " صحابی رسول " ہونا ہے ، کائنات میں اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ،
اس حصہ میں ہم اُن احادیث کا ذکر کریں گے جن میں لفظ " صحابی " کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کی فضیلت اور اُن کی تنقیص کرنے والوں پر لعنت کی ہے
اِن احادیث ِ فضیلت میں اس لفظِ " صحابی " کے ساتھ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وہ سب فضائل حاصل ہیں جو دیگر تمام صحابہ کرام کو حاصل ہیں ، اور اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والے لعنت کے مستحق ہیں جس طرح دیگر صحابہ کی تنقیص کرنے والے لعنتی ہیں
(1) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِءَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ،
(بخاری رقم 3449،مسلم 2532)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابی ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان صحابی کی برکت سے) فتح دے دی جائے
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ " صحابی " ہونا اتنا عظیم رتبہ ہے کہ کسی جنگ میں صرف " صحابی " کی شرکت کی وجہ سے اس لشکر والوں کو اللہ فتح عطاء فر مادیتا ہے
(2) عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأٰی مَنْ رَآنِي.(ترمذی رقم 3858)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا.‘‘
اس حدیث مبارکہ سے " صحابی " کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ صحابہ کرام پر جھنم کی آگ تو حرام ہے ہی لیکن ان کے بعد اگر کوئی مسلمان کسی صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھ لے تو ربُ العزت اس پر بھی جھنم کی آگ حرام قرار دے دیتا ہے
اس حدیث کی روشنی میں دیگر اصحابِ رسول کے ساتھ سیدنا معاویہ پر بھی جھنم کی آگ کا حرام ہونا ثابت ہوا
(کسی نے صحیح کہا ہے واہ صحابہ واہ)
(3) أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلصَّحَابَةِ وَلِمَنْ رَأٰی مَنْ رَآنِي قَالَ : قُلْتُ : وَمَا قَوْلُهُ : وَلِمَنْ رَأٰی قَالَ : مَنْ رَأٰی مَنْ رَآهُمْ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، الرقم : 5874، وابن حبان في الثقات، الرقم : 9345، کنز العمال، الرقم : 32490.
"حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کو بخش دے اور اسے بھی بخش دے جس نے ان کو دیکھا جنہوں نے مجھے دیکھا. راوی کہتے ہیں میں نے کہا : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان ’’ولمن رأٰی‘‘ (اور جس نے دیکھا) سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے انہیں (یعنی صحابہ کو) دیکھا "
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے تمام صحابہ کرام کی بخشش کے لئے دعا فرمائی (جو یقینا" مقبول ہوئی) ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ نے اپبے صحابہ کی زیارت کرنے والے اہل ایمان کی بخشش کی دعا فرمائی
دیگر اصحاب رسول کی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس بخشش والی دعا میں شامل ہیں
(4) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَاِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتٰی أَصْحَابِي مَا يُوْعَدُوْنَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتٰی اُمَّتِي مَا يُوْعَدُوْنَ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، الرقم 2531،
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تارے آسمان کے لیے ڈھال ہیں اور جب تارے ختم ہو جائیں گے تو جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ (یعنی قیامت) آسمان پر آ جائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لیے ڈھال ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے صحابہ پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے ڈھال ہیں اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے " صحابہ کرام " کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے لئے ڈھال (یعنی اُن کا دفاع کرنے ) والے ہیں ،لیکن آج کے بدبخت جو مسلمانی کے نام پر دھبہ ہیں وہ صحابہ کرام کا دفاع کرنے کی بجائے ان پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں ، اور اسی حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام جب تک زندہ رہے وہ اس اُمّت کے لئے ڈھال(یعنی ان کا دفاع کرنے) والے تھے ،لیکن اس امّت میں ایسے بدبخت پیدا ہوگئے جو اپنے دفاع کرنے والوں پر بھونکنے لگے
(5) أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَاءِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، الرقم : 1000
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزراء، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں بُرا بھلاکہا تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ " صحابہ کرام " اللہ رب العزت کا چُناؤ ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ کے سسرالی و دامادی رشتہ دار بھی اللہ ربالعزت کا چُناؤ ہیں اللہ رب العزت کے ان منتخب و چُنے ہوئے صحابہ کرام کوجو شخص بھی بُرا بھلا کہے گا وہ اس دنیا میں اللہ رب العزت ،فرشتوں اور کائنات کے تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا اور کل قیامت کے دن اس لعنتی شخص کے فرض و نفل قبول نہیں ہونگے
اور بلکل اسی طرح اس حدیث مبارکہ کے پیش نظر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اللہ کے منتخب کردہ صحابہ میں شامل ہیں اور انہیں دوہری فضیلت حاصل ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سُسرالی رشتہ دار بھی ہیں ،اب اُن پر جو بھی طعن و تشنیع کرے گا وہ اللہ رب العزت ،فرشتوں اور کائنات کے تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا اور اس کے فرض و نفل بے کار جائیں گے
(6) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلٰی أَعْقَابِهِمْ(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.)
أخرجه البخاري في الصحيح، الرقم : 3721، ومسلم في الصحيح، الرقم : 1628.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قبول فرما اور انہیں اُلٹے پاؤں نہ لوٹانا،
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے والے " صحابہ کرام " کے لئے دعا مانگی( یہ دعا بھی مقبول ہوئی ) ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک صحابی کے بارے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مُرتد ہو گیا ہو یہ اسی دعا کا نتیجہ تھا
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس دعا کی تمام فضیلت میں شامل ہیں ،
سیدنا معاویہ 7ھ میں مسلمان ہوئے اور ہجرت بھی کی نبی کریم ﷺ نے جب مہاجرین و انصار میں مواخات قائم کی تو سیدنا معاویہ کو سیدنا حتات بن بشر انصاری کا بھائی قرار دیا تھا (رحمۃ اللعالمین ج3،صفہ368،)
(7) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَفْتَرِقُ هَذِهِ الأُمَّةُ عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا فِرْقَةً وَاحِدَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا تِلْكَ الْفِرْقَةُ؟ قَالَ:مَا كَانَ عَلَى مَا أَنَا عليه اليوم وأصحابي»[
میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”جو اس طریقہ پر ہونگے جس پر آج میں
محدث أسلم بن سهل بن أسلم الواسطي، (المتوفى: 292 )تاريخ واسط ص: 196 واسنادہ صحیح]
اسی سند سے یہ حدیث امام جورقانی نے نقل کی اور فرمایا هذا حديث عزيز حسن مشهور، ورواته كلهم ثقات أثبات كأنهم بدوروأقمار
[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 466]
امام جورقانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تمام رجال کو ثقہ اور ثبت کہا ہے اس لئے اس کے کسی بھی راوی کو مجہول قراردینا درست نہیں ہے۔
امام جورقانی کے علاوہ دیگر محدثین سے بھی اس سند کے ہر راوی کی توثیق ثابت ہے ۔
اس حدیث کے فوائد و ثمرات اور نتیجہ ملاحظہ فرمائیں
(1)اس حدیث سے پہلے بات یہ ثابت ہوئی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ( بشمول سیدنا معاویہ) کےرسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر سو فیصد کاربند تھے
(2)دوسری بات اس حدیث سے یہ ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام ( بشمول سیدنا معاویہ ) کا طریقہ بھی در حقیقت رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے
(3)تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ تمام صحابہ کرام (بشمول سیدنا معاویہ ) کے قطعی جنّتی ہیں
(4)چھوتی بات یہ ثابت ہوئی کہ اب اگر کسی نے " جنّت " میں جانا ہے اور جنتی فرقہ کا حق دار بننا ہے تو اسے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (بشمول سیدنا معاویہ ) کے طریقہ پر چلنا ہوگا ورنہ وہ نہ جنت میں جائیں گے اور نہ جنتی فرقہ میں شامل ہونگے
(نتیجہ)
آج جو لوگ اصحاب رسول کے علاوہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے ہیں ، اور سیدنا معاویہ کے طریقہ کو غلط کہتے و سمجھتے ہیں ،یہ لوگ نہ جنت میں جائیں گے اور نہ ہی وہ جنتی فرقہ کہلانے کا مستحق ہیں ۔
All reactions:
4444