امام تدبر و سیاست سیّدنا امیر معاویہؓ
یوں گنتے جائیں تو نام کے معاویہ بہت ہے لیکن کام اور کردار کا معاویہؓ ایک ہی تھا جو اپنے کمالات و اوصاف میں یکتا تھا، یکتا رہے گا۔ باقی تو صرف معاویہ ہیں اور امیرمعاویہ صرف حضرت امیرمعاویہؓ کا نام تھا۔ لفظ امیر کے ساتھ یقیناً وہ اپنے دور اور مابعد دور کیلئے ہر خوبی میں امیر تھے۔
نام، نسب، ولادت، قبول اسلام:
آپ کا پورا نام معاویہؓ، کنیت ابوعبدالرحمان، والد کا نام حضرت ابوسفیانؓ، والدہ کا نام حضرت ھندؓ تھا۔ آپؓ قبیلہ بنوامیہ کے چشم و چراغ تھے جو اپنے نسبی شرافت، حرب و ضرب کیوجہ سے عرب کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے شجرۀ نسب پانچویں پشت میں جاکر آنحضرتﷺ کے نسب مبارک سے مل جاتا ہے۔ آپ کے خاندان کی خاندان نبوتﷺ سے بہت قریبی رشتہ داریاں ہیں، آپ ؓ حضور اقدسﷺ کے برادر نسبتی تھے، آپؓ کی ہمشیرہ ام المؤمنات سیّدہ ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان ؓ حضور اکرمﷺ کے زوجیت میں تھی، یہ وہ نہ ٹوٹنے والے رشتے ہیں جن کے متعلق خود پیغمبراسلامﷺ نے فرمایا کہ ”قیامت کے دن تمام نسبی و سسرالی رشتے منقطع ہوجائیں گے ماسوا میرے نسب والوں اور سسرال والوں کے“۔
آپؓ بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ آپؓ عمرة القضاء سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے لیکن اظہار اسلام اپنے والدین سمیت فتح مکہ کے موقع پر کیا تھا۔ آپؓ بذات خود بھی صحابی، والدؓ بھی صحابی، ماں بھی صحابیہ تھی۔
بعد از اسلام:
سیّدنا حضرت معاویہؓ زہد و تقوی، عبادت و ریاضت، خشیت الہی اور خوف آخرت، قرآن سے شغف، اتباع سنت، حلم و بردباری، سخاوت و فیاضی، سادگی و انکساری، فہم و تدبر کے پیکرِعظیم تھے۔
اسلام لانے کے بعد آپؓ دربارِنبوّتﷺ میں کتابت وحی کے خدمات سرانجام دینے لگے جسکی وجہ سے آپ کو کاتب وحی کا لقب ملا۔ آپؓ قبول اسلام کے بعد حضوراکرمﷺ کے ساتھ تمام غزاوات میں شریک تھے خصوصاً جنگ حنین، طائف، یمامہ، اور چھوٹی چھوٹی کئی گشتی و جنگی مہموں میں شرکت فرمائی۔ ہوازن کے مال غنیمت سے حضوراکرمﷺ نے آپؓ کو سو اونٹ اور چالیس اوقیہ دیے تھے۔ دربارِخداوندیﷻ اور دربارِرسالت مآبﷺ میں آپؓ کی بہت فضیلت و مقبولیت تھی۔ سیّدنا امیرمعاویہؓ کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضوراکرمﷺ کے خطوط و مسودات، مراسلات کے نگرانی و ترسیل کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ پوری تاریخ اسلام میں سیّدنا معاویہؓ صرف ایک ایسی شخصیت ہے جسے کاتب وحی ہونے اور دنیا کے سب سے بڑے رسولﷺ کے خدمت میں سیکرٹری کے طور پر رہنے کا شرف حاصل رہا۔ آپؓ دور جاہلیت میں بھی -جبکہ لکھنے پڑھنے کا بالکل رواج نہ تھا- ان چند گنےچنے لوگوں میں سے تھے جو علم و فن سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔
خلافت اور کارنامے:
پیغمبر اسلامﷺ جب حیات تھے تو سیّدنا معاویہؓ انکے خدمت سے جدا نہ ہوئے، حضور اقدسﷺ کے خدمت کا موقع تلاش کرتے تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس دن سے یقین تھا کہ میں خلیفہ بنوں گا جب حضور اقدسﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ”معاویہؓ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کیساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں سے درگزر کرنا“۔ حضور اکرمﷺ کو آپؓ پر اس درجہ اعتماد، اور آپؓ کے خدمت و بے لوث محبت سے اتنے خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپؓ کے سپرد فرمادی تھی۔ مثلاً حضور اکرمﷺ نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے خاطر مدارات و خدمت طعام و قیام کا انتظام معاویہؓ کو سپرد فرمادیا تھا۔ جانشین مصطفیٰﷺ، خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے دورِخلافت میں جب جھوٹے داعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف مسلمانوں کا لشکر محاذ کو نکلا تو ایک روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت سیّدنا امیرمعاویہؓ کے وار سے قتل ہوکر جہنم واصل ہوا تھا۔ آپؓ سیّدنا حضرت عمرفاروق ؓ کے دور سے شام کے گورنر بنے اور خلیفہ بننے تک اسی پر فائز تھے۔ سن48ھ میں سیّدنا معاویہؓ نے تاریخ اسلامی کا وہ عظیم معرکہ سر کیا ہے جسکے تحت انھوں نے شمالی افریقہ کے جنگلات کاٹ کر 40ہزار فوجی ماہرین کو بحری بیڑا بنانے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ انھوں نے چند ماہ کے عرصے میں ایک ہزار سات سو جہازوں پر مشتمل ایک بحری بیڑا تیار کیا۔ آتشکدہ کفر سرد ہوا اور رومیوں کی سطوت خاک میں مل گئی۔ آپؓ پہلے خلیفہ ہے جنہوں نے بحریہ (نیوی:Navy) کا بنیاد رکھا اور مسلمانوں کو اس کے ذریعہ جہاد کی اجازت دی، اور اس بشارتِ نبویﷺ کے مستحق ہوئے کہ ”میرے امت کے اس لشکر نے جو بحری جنگ کرے گا، اپنے اوپر جنت واجب کرلی“۔ اس سے پہلے دنیا میں بحری جنگ کا انتظام موجود نہ تھا۔؏
؎ وہ جنگی کشتی بنانے والی
چلی عبادت معاویہؓ سے
چلی عبادت معاویہؓ سے
سیّدنا معاویہؓ وہ واحد مدبر، منتظم اور اعلی صفات کے حامل حکمران ہیں جنھوں نے فتوحات اسلامیہ کا دائرہ بلادعرب سے بلادعجم، یورپ و افریقہ تک وسیع کیا۔ اور عہد فاروقی کے 23 لاکھ مربع میل کو ترقی راز بناتے ہوئے بلاد افریقہ، بلاد سوڈان، کابل، قندھار، رہوڈوی، صقلیہ، افریقہ، درہ خیبر، بولان، قلات اور ایشائی ممالک کے دروازوں پر آکر دستک دی۔ آپؓ اسلام کے پہلے خلیفہ ہے جن کے خلافت کا رقبہ پرتگال سے چین تک 64 لاکھ مربع میل تک عرض و طول میں پھیلا تھا۔ بے انتہا وسیع و عریض مملکت اور مسلمانوں کے تمام گروہوں میں اتفاق و ارتباط کا یہ امتیاز سیّدنا حضرت معاویہؓ کے حصے میں آیا۔
مظلومیت:
لیکن آپؓ دنیا کے وہ مظلوم ہستی ہے جنکے ساتھ ناحق پر ظلم ہوا آپؓ کے ذاتی محاسن کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ انکو چھپانے کے پہیم کوششیں کی گئیں، آپؓ پر بے بنیاد الزامات تراشے گئے، اور آپؓ کے متعلق وہ باتیں گھڑی گئیں اور انکو پھیلایا گیا جنکا کسی عام صحابی سے تو درکنار، کسی شریف انسان سے پایا جانا مشکل ہے۔ آپؓ نے اگر کوئی اچھا کام کیا تو اس کی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔ اسکے برعکس اگر آپؓ سے کوئی معمولی سی لغزش صادر ہوئی تو مخالفین نے اس کو جنگل کے آگ کیطرح پھیلایا۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ آپؓ پر بے جا و منگھڑت الزامات کا کچھ اس طرح انبار لگایا گیا جس کے نتیجے میں آپؓ کا تابناک، امن و اطمینان، عدل و انصاف سے مزین دور سبائی پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں صفحاتِ تاریخ سے روپوش ہوکر رہ گیا۔ اور غیرمعتمد تاریخ میں سیّدنا امیرمعاویہؓ کا حلیہ جس طرح پیش کیا گیا ہے اس پر تحقیق نہ کرنے کیوجہ سے بیگانے تو بیگانے، کئی یگانے بھی پھسل گئے۔ ؏
تاریخ سے کیا پوچھتے ہو معاویہؓ کی صداقت؟
کیا تمہارے پاس معاویہؓ کا لکھا ہوا قرآن نہیں؟
کیا تمہارے پاس معاویہؓ کا لکھا ہوا قرآن نہیں؟
عام طور ہم تو یہ جانتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ وہ ہیں جن کی حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ ہوئی تھی، لیکن قبرص، صقلیہ، روڈس، اور سوڈان جیسے اہم ممالک کس نے فتح کئے؟ سالہا سال کے باہمی خلفشار کے بعد عالم اسلام کو ایک جھنڈے تلے کس نے جمع کیا؟ جہاد کا فریضہ جو تقریباً متروک ہوچکا تھا اسے از سر نو کس نے زندہ کیا؟ اور اپنے عہد حکومت میں نئے حالات کے مطابق شجاعت و جواں مردی، علم و عمل، بردباری و حلم، امانت و دیانت میں نظم و ضبط کس نے قائم کیں، یہ ساری باتیں وہ ہیں جو پروپیگنڈے کی غلیظ تہوں میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔
فضائل:
قرآن کریم میں منجملہ صحابہ کرامؓ کے فضائل اور مناقب میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں باقی صحابہؓ کے طرح سیّدنا حضرت امیرمعاویہؓ بھی شامل ہے۔ اسی طرح احادیث رسولﷺ میں بھی معاویہؓ کے بہت سے فضائل وارد ہیں، چنانچہ ارشادنبویﷺ ہے۔
1… ”اے اللہﷻ! معاویہؓ کو یدایت دینے والا و ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دیں“۔
2… دوسری حدیث میں ہے ”اے اللہﷻ! معاویہؓ کو حساب کتاب سکھا، اور اسکو عذاب سے بچا“۔
3… ایک روایت میں ہے کہ حضوراقدسﷺ نے سیّدنا ابوبکرؓ و عمرؓ کو کسی مشورہ کیلئے طلب فرمایا لیکن وہ حضرات کوئی مشورہ دے نہ سکے اسلئے حضوراکرمﷺ نے فرمایا ” معاویہؓ کو بلاؤ اور انکے سامنے اپنا معاملہ رکھو، کیونکہ وہ قوی و آمین ہے“۔ (صحیح مشورہ دیں گے)۔
4… حضورﷺ کا ارشاد ہے ”معاویہؓ میر رازدان ہیں،جس نے اسکے ساتھ محبت کی، نجات پاگیا۔ اور جس نے بغض رکھا ھلاک ہوا“۔
5… ارشاد ہے ”میرے امت میں معاویہؓ سب سے زیادہ بردبار ہے“۔
مرویات:
آپؓ سے حضوراقدسﷺ کے 163 احادیث مروی ہیں۔ جن میں آپؓ نے ابوبکرصدیقؓ، حضرت عثمان ذوالنورینؓ، اور آپؓ کی بہن ام المؤمنین ام حبیبہؓ سے روایت کی ہیں۔ اور آپؓ سے روایت لینے والوں میں عبداللہ بن عباسؓ، جریربجلیؓ، سائب بن یزیدؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، معاویہ بن حدیجؓ وغیرہم، اور تابعین میں مروان بن حکم، ابومسلم خولانی، عبداللہ بن حارث، قیس بن ابی حازم، سعید بن مسیب وغیرہم شامل ہیں۔
سیّدنا معاویہؓ کو تبرکات کا بہت شوق تھا اور اس واسطے سے حضوراکرمﷺ نے آپ کو ایک کپڑا عنایت فرمایا تھا تو آپؓ نے وہ محفوظ کرلیا تھا۔ اور ایک دن حضوراقدسﷺ نے اپنے بال اور ناخن کاٹے تو آپؓ نے وہ بھی بطورتبرک محفوظ کیے۔
وصال:
سن 60ہجری میں جب آپؓ کی عمر اٹھترویں منزل سے گزر رہی تھی آپؓ کی طبعیت کچھ ناساز ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ آپؓ کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ آپؓ نے اپنے بیٹے یزید کو وصیت فرمائی کہ حضور اکرمﷺ کے عنایت کردہ کپڑا میرے کفن کے ساتھ رکھ دینا اور ناخن اور بال مبارک کو میری آنکھ، منہ اور سجدے کے جگہوں پر رکھ دینا اور پھر میرا معاملہ میرے اور میرے اللہﷻ کے درمیاں چھوڑ دینا۔ مرض بڑھتا گیا حتی کہ دمشق میں ماہ رجب المرجب کے وسط (22رجب) سن 60ھ میں آسمان رشد و ہدایت کا یہ کوکب تاباں، علم، حلم، تدبر اور سیاست کا یہ آفتاب ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔
آپؓ کی نمازِجنازہ حضرت ضحاک بن قیسؓ نے پڑھائی اور دمشق ہی میں باب الصغیر میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔ صحیح قول کی مطابق آپؓ کی عمرمبارک اٹھتر (78) سال تھی۔
فرضی اللہ عنہ وأرضاہ