ایمان کے لیے نبیوں کی فکر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دنیا میں اللہ کا پیغام نبیوں نے پہنچایا ہے، خود اس پیغام پر ایمان لائے اور عمل کرکے دوسروں کو بتایا، لوگوں کو ایمان کی دعوت دی، ماننے والوں کو جنت کی خوش خبری دی اورنہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرایا، اس دنیا میں نبیوں کے علاوہ کسی کے ایمان کے باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ، پھربھی انبیائے کرامؑ نے ایمان کی فکر کی، ایمان کے ضائع ہونے سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔

حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو ایمان پر جمے رہنے اور ایمان پر ہی مرنے کی وصیت فرمائی:

وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۲)

ترجمہ: اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو تاکید کی کہ اے میرے بیٹو! یقینا اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو چن دیا ہے؛ لہٰذا ہرگز نہ مرنا؛ مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان رہو!

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد سے ایمان پر باقی رہنے کا وعدہ لیا تھا، انھیں فکرتھی کہ میں تو مسلمان ہوں ، زندہ ہوں تو اولاد کی نگرانی کررہا ہوں ؛ لیکن چوں کہ نبیوں کی اولاد کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ ایمان پر باقی رہے گی یا نہیں ؟ اس لیے انھوں نے وعدہ لیا، جب سب نے مسلمان رہنے کا اقرار کیا اور ان کو اطمینان دلایا تب اُن کی پریشانی دور ہوئی، آیت ملاحظہ ہو!

أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَائَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۳)

ترجمہ: کیاتم موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی؟ جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے؟ انھوں نے کہا: ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں ۔

اور حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:

تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَاَلْحِقْنِي بالصالحین (یوسف:۱۰۱)

ترجمہ: مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دیجیے! اور نیک لوگوں سے ملا دیجیے!

اوپر کی تینوں آیتوں کو بار بار پڑھیے کہ انبیائے کرام کو ایمان کی کتنی فکر تھی کہ وہ اپنے ایمان اور اپنی اولاد کے ایمان کے لیے بڑے فکرمند تھے، ایمان کی حالت میں جینا اور ایمان کی حالت میں مرنا چاہتے تھے اور ایمان کی دولت کو اپنی نسل اور آنے والی اولاد میں باقی رکھنا چاہتے تھے؛ اس لیے ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایمان کی فکر ہونی چاہیے، ایمان کے ساتھ ہی دنیا اچھی ہے اگر ایمان نہ ہوتو دنیا کی کوئی چیز اچھی نہیں ، ہمیں ہمیشہ چوکنّا رہنا چاہیے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ایمان ضائع نہ ہوجائے، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان چلا جائے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے، حدیث شریف میں ہے کہ ایمان کے لیے مؤمن فکر مند رہتا ہے اور منافق بے فکر رہتا ہے (بخاری ۱/۲۱۹)

ایمان بچانے کی فکر انبیائے کرامؑ کواسی لیے تھی کہ

ایمان کا باقی رہنا ہی جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے، دنیا تو بس دھوکے کا سامان ہے:

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔ (آل عمران:۱۸۵)

ترجمہ: چنانچہ جو دوزخ سے دور رکھاگیا اور جنت میں داخل کیاگیا تو وہ کامیاب ہوچکا اور دنیوی زندگی بس دھوکے کا سامان ہے۔

ایمان کے لیے دعائے نبوی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان ویقین کی دعا مانگتے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، ذیل میں دعائیں ذکر کی جاتی ہیں :

۱- اللّٰہُمَّ أعْطِني إیمانًا صَادِقًا ویَقینًا لیس بعدَہٗ کُفرٌ۔ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث:۱۱۱۹)

اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!

۲- اَللّٰہُمَّ إني أَعُوْذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ۔ (نسائی:۱۳۴۷)

اے اللہ! میں کفر (وارتداد) سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔

ہمیں بھی اپنے لیے اپنی اولاد اور امت مسلمہ کے لیے سچے ایمان کی دعا کرنی چاہیے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے!

۳- یا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰی دِیْنِکَ۔ (مشکوٰۃ)

اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادیجیے!
 
Top