مترادفات القرآن (ت)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تابعداری کرنا کے لیے دیکھیے "اطاعت کرنا"۔
تابعدار کرنا کے لیے دیکھیے "مسخر کرنا"۔

تارا –( اقسام)

کے لیے نجم اور کوکب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نجم

بنیادی طور پر دو معنوں میں آتا ہے۔ (1) بے تنا نباتات، جڑی بوٹیاں اور جھاڑ جھنکار (۲) ستارے جو طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ اور اس کی جمع نجوم آتی ہے۔ اور نجم بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ عَلٰمٰتٍ ؕ وَ بِالنَّجۡمِ ہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 16)
اور رستوں میں نشانات بنا دیئے اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں۔

2: کواکب

کوکبۃ ایک بڑے ستارے کا نام (منجد) اور کوکب ہر بڑے تارے کو کہتے ہیں خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ (ف ل) اور اس کی جمع کواکب ہے۔ اور کوکب الحدید معنی لوہے کا چمکنا دمکنا۔ چم چم کرنا (منجد) ہے۔ گویا کوکب ہر اس تارے کو کہتے ہیں جو بڑا بھی ہو اور تابناک بھی۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ (سورۃ الصافات آیت 6)
بیشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے سجایا۔
قرآن کریم میں مندرجہ ذیل ستاروں کا ذکر آیا ہے:
(1) شعری: ایک چمکدار ستارے کا نام جو سخت گرمی کے موسم میں طلوع ہوتا ہے (مف) ایام جاہلیت میں اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ (مزید تفصیل معبودان باطل میں دیکھیے) اللہ تعالی نے مشرکین سے فرمایا کہ :
وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی (سورۃ نجم آیت 49)
اور یہ کو وہی شعرٰی نامی تارے کا بھی مالک ہے۔​
(۲) خُنَس: خَنَس بمعنی پیچھے ہٹنا اور سکڑ جانا (منجد) سیدھا چلتے چلتے ایک قدم پیچھے ہٹ جانا (مف) آنکھ بچا کر یا چوری چھپے پیچھے ہٹ جانا (م ل) خانس کے معنی پیچھے ہٹنے والا اور خنّس اس کی جمع ہے۔ گویا خنّس وہ سیارے ہیں جو سیدھے چلتے چلتے الٹی چال چلنے لگ جاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک زہرہ، مشتری، زحل، مریخ اور عطارد یہ پانچ سیارے ہیں (منجد) اسی وجہ سے انہیں خمسہ متحیرہ بھی کہتے ہیں۔
(۳) جوار: جار جورا بمعنی راستہ سے ایک طرف ہٹ جانا (منجد) اور جوار سے مراد وہ سیارے ہیں جو سیدھی چال چلتے رہتے ہیں کبھی کبھار تھوڑا سا رخ بدل جاتے ہیں۔
(۴) کنّس: کنس بمعنی چھپ جانا، غائب ہو جانا (م۔ ل) اور کناس ہرن کی پناہ گاہ کو اور کانس پناہ گاہ میں داخل ہونے والے ہرن کو کہتے ہیں۔ کانس کی جمع کنس ہے۔ یعنی وہ سیارے جو چلتے چلتے یک دم غائب ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ (سورۃ التکویر آیت 15، 16)
پس میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور جو سیر کرتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تاریکی چھانا

کے لیے عسعس، غسق، غطش، وقب، سجی، اظلم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عسعس

بمعنی شام کا دھندلکا ہونا۔ سورج غروب ہوتے ہی شام کا اندھیرا چھانا۔ ایسے ہی سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پیشتر کا دھندلکا (مف) قرآن میں ہے:
وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ (سورۃ التکویر آیت 17، 18)
اور رات کی قسم جب وہ پھیلنے لگتی ہے۔ اور صبح کی قسم جب وہ نمودار ہوتی ہے۔

2: غسق

غسق غائب ہو جانے کے بعد کا اندھیرا۔ ابتدائی رات اوّل الليل (ف ل ۳۴) ارشاد باری ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 78)
اے محمد ﷺ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر۔ عصر۔ مغرب۔ عشاء کی) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا فرشتوں کی حاضری کا باعث ہوتا ہے۔

3: أغطش

غطش (اللیل) بمعنی رات کا تاریک ہونا۔ اور غطش بمعنی کمزور نظر یا دھندلی نظر والا ہونا۔ اسی طرح غطاش رات کی تاریکی کو بھی کہتے ہیں اور نظر کی کمزوری کو بھی (منجد) یعنی اتنی تاریکی جس میں اشیاء دھندلی سی نظر آ سکیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا (سورۃ النازعات آیت 29)
اور اسی نے رات تاریک بنائی اور دن کو دھوپ نکالی۔

4: وقب

وقب کسی چٹان وغیرہ میں گڑھے کو کہتے ہیں۔ اور وقب بمعنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب ہو جانا۔ وقب الشمس بمعنی سورج کا غروب ہونا۔ اور وقب الظلام بمعنی اتنی تاریکی چھانا جس کے اندر اشیاء غائب ہو جائیں (مف) قرآن میں ہے :
وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (سورۃ الفلق آیت 3)
اور اندھیری رات کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے۔

5: سجی

سجى الليل بمعنی رات کا سنسان اور خاموش ہونا ۔ اور سجی المیّت میت پر چادر ڈال کر لپیٹنا اور چھپانا۔ سجّ معائب أخيك بمعنی اپنے بھائی کے عیبوں کو چھپاؤ (منجد) گویا اس لفظ میں چھپانے کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور پرسکون ہونے کا بھی یعنی رات کا اتنا حصہ گزر چکا ہو کہ سب لوگ سو چکے ہوں اور تاریکی بھی پوری طرح چھا چکی ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی (سورۃ الضحی آیت 2)
اور رات کی تاریکی کی قسم جب وہ چھا جائے۔

6: أَظْلَمَ

ظلم (ظلما) اور اظلم الليل بمعنی رات کا تاریک ہونا (منجد) اندھیرا چھانا۔ یہ لفظ رات کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بلکہ اگر دن کو بادلوں یا کسی دوسری وجہ سے اندھیرا ہو جائے تو اس لفظ کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ اور ظلمت بمعنی اندھیرا (ضد نور ) (جمع ظلم (ل زبر) اور ظلم اور ظلمت اور ظلمات) (منجد) ارشاد باری ہے:
یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 20)
قریب ہے کہ بجلی کی چمک انکی آنکھوں کی بصارت کو اچک لے جائے جب بجلی چکمتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تواس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی دونوں کو زائل کر دیتا۔ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ماحصل:

  • عسعس: صبح یا شام کا دھندلکا۔
  • غسق: رات کا ابتدائی حصہ۔
  • غطش: اتنی تاریکی کہ چیزیں اچھی طرح نظر نہ آئیں۔
  • وقب: جب اشیا تاریکی میں غائب ہو جائیں۔
  • سجی: گئی رات کا سناٹا اور تاریکی۔
  • ظلمت: اندھیرا کے لیے عام لفظ خواہ رات کا ہو یا کسی دوسری وجہ سے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تازه

کے لیے طریّ، رطب، نَضْرة (نضر) اور ناعمۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طریّ

بمعنی تر و تازہ۔ اس کا استعمال گوشت کے لیے ہوتا ہے (ف ل 54) طراوت معنی تر و تازگی۔ قرآن میں ہے:
وَ مَا یَسۡتَوِی الۡبَحۡرٰنِ ٭ۖ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ؕ وَ مِنۡ کُلٍّ تَاۡکُلُوۡنَ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡنَ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ فِیۡہِ مَوَاخِرَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ فاطر آیت 12)
اور دونوں دریا بھی یکساں نہیں ہیں یہ ایک تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا۔ جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ دوسرا کھاری ہے کڑوا۔ اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو۔ اور تم دریا میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو پھاڑتی چلی آتی ہیں تاکہ تم اسکے فضل سے معاش تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو۔

2: رطب

بمعنی تر و تازہ اور اس کی ضد یابس بمعنی خشک شدہ ہے۔ لیکن عرف عام میں رطب کا لفظ پکی اور تازہ کھجور کے ساتھ مخصوص ہے (مف) ارشاد باری ہے:
وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا (سورۃ مریم آیت 25)
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ عمدہ کھجوریں گرائے گا۔

3: نضرۃ

نضر یعنی ملائم و تازہ اور خوبصورت ہونا (منجد، م - ل) اور نضرۃ رنگت کی خوبصورتی اور جمال کو کہتے ہیں (م ل) چہرے کی تر و تازگی اور رونق، بشاشت۔ قرآن میں ہے:
فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الۡیَوۡمِ وَ لَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّ سُرُوۡرًا (سورۃ الدھر آیت 11)
چنانچہ اللہ انکو اس دن کی سختی سے بچا لے گا۔ اور تازگی اور خوشی عنایت فرمائے گا۔

4: ناعمۃ

بمعنی آسودہ زندگی، آسودہ حالی (منجد) نعمتوں کی فراوانی اور آسودہ حالی کی وجہ سے چہرے کا تر و تازہ ہونا ۔ ارشاد باری ہے:
وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ (سورۃ الغاشیہ آیت 8، 9)
بہت سے چہرے یعنی لوگ اس روز شادمان بھی ہوں گے۔ اپنی محنت کے بدلے پر خوش۔

ماحصل:

  • طری: عموماً گوشت کی تر و تازگی کے لیے۔
  • رطب: کھجور کی تازگی یا تازہ کھجور کے لیے۔
  • نضرۃ: چہرے کی بشاشت اور فضا کی پاکیزگی۔
  • ناعمة: آسودہ حالی کی وجہ سے تر و تازگی کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تاکہ

کے لیے ل، کی، ان، کی لا، لكيلا، لئلا کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
یہ سب الفاظ مضارع پر داخل ہو کر تعلیل وجہ بتلانے کا فائدہ دیتے ہیں۔ ان میں سے پہلے تین اثبات کے لیے ہیں۔ ل اور کی ابتدا میں اور ان درمیان میں آتا ہے۔ باقی تین آخر میں لا کے اضافہ کے ساتھ نفی کے لیے مرکب بنا لیے گئے ہیں۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے:

1: ل

لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا (سورۃ فتح آیت 2)
تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی کوتاہیاں بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمکو سیدھے رستے چلاتا رہے۔

2: کئ

فَرَجَعۡنٰکَ اِلٰۤی اُمِّکَ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ (سورۃ طہ آیت 40)
تو اس طریق سے ہم نے تمکو تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ انکی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنج نہ کریں۔

3: ان

ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ؕ (سورۃ الاحزاب آیت 51)
یہ اجازت اس لئے ہے کہ انکی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ تم انکو دو اسے لے کر سب خوش رہیں۔

4: کی لا

کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ (سورۃ الحشر آیت 7)
تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے

5: لکیلا

اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَ لَا تَلۡوٗنَ عَلٰۤی اَحَدٍ وَّ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ فِیۡۤ اُخۡرٰىکُمۡ فَاَثَابَکُمۡ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّکَیۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا مَاۤ اَصَابَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 153)
وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ تم کو تمہارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھے تو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا تا کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے اس سے تم غمگین نہ ہو اور اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔

6: لئلّا

لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ (سورۃ البقرۃ آیت 150)
یہ تاکید اس لئے کی گئ ہے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تانبا (پگھلا ہوا)

کے لیے قطر اور مھل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قطر

پگھلے ہوئے تانبا کے لیے مخصوص لفظ (مف- منجد ) ارشاد باری ہے:
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ (سورۃ سبا آیت 12)
اور ہوا کو ہم نے سلیمان کے تابع کر دیا تھا اسکی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ ہوتی اور شام کی منزل بھی مہینے بھر کی ہوتی۔ اور انکے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا اور جنوں میں سے ایسے تھے جو انکے پروردگار کے حکم سے انکے آگے کام کرتے تھے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کیخلاف کرے گا اسکو ہم جہنم کی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔

2: مھل

بمعنی فلذات جیسے چاندی، لوہا، تانبا، کھلی ہوئی دھاتیں۔ پتلا قطران (بہنے والی گندھک) زہر، پیپ (منجد) اور مھل اور مھلۃ کے معنی زرد آب مردہ۔ یعنی وہ زرد رنگ کی پتلی آلائش جو لاش سے نکلتی ہے۔ (منجد- م- ق) گویا مھل تانبا کے علاوہ چند دوسری پگھلی ہوئی دھاتوں، نیز ہر بہنے والی زرد آلائش کے لیے بھی آتا ہے۔ اسی لیے بعض علماء نے مھل کا ترجمہ پیپ بھی کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا (سورۃ الکہف آیت 29)
اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے انکی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہو گا اور جو انکے چہروں کو بھون ڈالے گا انکے پینے کا پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری۔

ماحصل:

  • قطر: پگھلا ہوا تانبا۔
  • مھل: تانبا کے علاوہ بعض دوسری پگھلی ہوئی دھاتیں۔ اور ہر بہنے والی مکروہ آلائش۔
تباہ ہونا کے لیے دیکھیے "ہلاک ہونا"۔
تبدیل کرنا کے لیے دیکھیے "بدلنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تخت

کے لیے عرش، ارائک (اریکہ کی جمع) اور سرر (سریر کی جمع) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عرش

بمعنی تخت شاہی - سرير الملك (ف ل ۲۳۰) ارشاد باری ہے:
وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ وَ خَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب انکے آگے سجدے میں گر پڑے اور
اور عرش البیت گھر کی چھت کو کہتے ہیں۔ اور عرش یعرش بمعنی لکڑی کا گھر بنانا۔ گویا عرش البیت ایسی چھت کو کہتے ہیں جو شہتیر اور بالوں وغیرہ پر مشتمل ہو۔

2: ارائک

اریکہ کی جمع بمعنی چھپر کھٹ یا مسہری والی چارپائی یا تخت (ف ل 30) یا ٹیک لگائے جانے والے آرام دہ تخت پوش اور کرسیاں۔ آراستہ و مزین تخت (منجد) ارشاد باری ہے:
مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 13)
اس میں وہ تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ کی حدّت دیکھیں گے نہ سردی کی شدت۔

3: سرر

واحد سریر۔ بغیر مسہری یا چھپر کھٹ کی چار پائی (ف ل۳۰) سرير الميت وه چار پائی جس پر جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور صاحب منجد کے نزدیک سریر کا استعمال بھی زیادہ تر تخت شاہی کے لیے ہوتا ہے۔ اور امام راغب اس کے معنی ایسا تخت بتلاتے ہیں جو خوشحال لوگ ٹھاٹھ سے بیٹھنے کے لیے بنواتے ہیں۔ (مف) قرآن میں ہے:
عَلٰی سُرُرٍ مَّوۡضُوۡنَۃٍ مُّتَّکِـِٕیۡنَ عَلَیۡہَا مُتَقٰبِلِیۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 15، 16)
لعل و یاقوت وغیرہ سے جڑاؤ تختوں پر۔ آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہونگے۔
اور موضونة میں وضن کا لفظ زر بافی یعنی سونے چاندی کے تاروں سے بننے کے لیے آتا ہے (مف) گویا اس آیت کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے۔ سونے چاندی کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر۔

ماحصل:

  • عرش: تخت شاہی کے لیے۔
  • اریکه: ٹیک والے تخت کے لیے۔
  • سریر: خوشحال لوگوں کے ٹھاٹھ سے بیٹھنے کے تخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تختہ

کے لیے زبر اور الواح کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: زبر

زبرة کی جمع ہے۔ اور زبرة بمعنی لوہے کا تختہ، چادر (مف - منجد) قرآن میں ہے:
اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا (سورۃ الکہف آیت 96)
تم لوہے کے بڑے بڑے تختے میرے پاس لاؤ چنانچہ کام جاری کر دیا گیا یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا حصہ برابر کر دیا اور کہا کہ اب اسے دھونکو۔ یہانتک کہ جب اس کو دھونک دھونک کر آگ کر دیا تو کہا کہ اب میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔

2: الواح

(واحد لوح ) اور لوح بمعنی لکڑی وغیرہ کا تختہ۔ ارشاد باری ہے:
وَ حَمَلۡنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلۡوَاحٍ وَّ دُسُرٍ (سورۃ القمر آیت 13)
اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئ تھی سوار کر لیا۔
نیز لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہا جاتا ہے جس پر کچھ لکھا جاتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 145)
اور ہم نے تورات کی تختیوں میں انکے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پھر ارشاد فرمایا کہ اسے مضبوطی سے تھامے رہو اور اپنی قوم سے بھی کہہ دو کہ ان باتوں پر بہت اچھی طرح عمل کریں میں عنقریب تم کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھاؤں گا۔

ماحصل:

  • زبر: عموماً لوہے کی چادروں اور بڑے تختوں کے لیے اور
  • لوح: لکڑی کے تختے یا لکھنے کی تختی کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تدبیر کرنا

کے لیے دبّر، کاد (کید)، مکر اور حیلہ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: دبّر

بمعنی پشت یا کسی چیز کا پچھلا حصہ اور دبّر بمعنی کسی کام کے انجام پر نظر کھ کر اس میں غور و فکر کرنا اور اس کی راہ متعین کرنا (مف) ارشاد باری ہے:
قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 31)
اے پیغمبر کہو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بےجان کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ تو یہی کہیں گے کہ اللہ۔ تو کہو کہ پھر تم اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں۔

2: کید

کسی کام کو سر انجام دینے کے لیے خفیہ تدبیر کرنا۔ داؤ یا چال چلنا (مف) اور کید ساحر بمعنی جادوگر کے ہتھکنڈے (مف) ایسی تدبیر کا مقصد اگر درست اور نیک ہو تو یہ جائز اور درست ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ (سورۃ یوسف آیت 76)
یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی
اور اگر مقصد بُرا ہو تو یہ مذموم ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ کَیۡدٌ فَکِیۡدُوۡنِ (سورۃ المرسلات آیت 39)
اگر تمکو کوئی داؤں آتا ہو تو مجھ سے کر چلو۔

3: مکر

کسی کام کو سر انجام دینے کے لیے حیلہ جوئی اور دھوکا کرنا(م ل) اور بمعنی کسی کو خفیہ طریقہ سے مکروہ چیز دو چار کر دینا (فق ل 214) یہ لفظ عموماً برے مفہوم میں آتا ہے۔ مکر بمعنی فریب اور مکار بمعنی فریب کار اور بد نہاد (م ا) اور امام راغب اس کے معنی کسی شخص کو حیلہ بہانہ سے اس کے مقصد سے پھیر دینا بتلاتے ہیں (مف) اگر اس لفظ کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو مکار لوگوں کے لیے جواباً کاروائی کے طور پر آتا ہے۔ جیسے فرمایا الله یستھزئ بھم اور مشاکلۃ کی صورت میں یہ بات روا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 54)
اور وہ یعنی یہود قتل عیسٰی کے بارے میں ایک چال چلے اور اللہ نے بھی عیسٰی کو بچانے کے لئے تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

4: حيلة

حول بمعنی ہوشیاری، دور بینی، تصرف کرنے پر قدرت (جمع حیل اور حول) (منجد) اور بمعنی مکر و فریب (م ق) حیلہ دراصل ایسے کام کو کہتے ہیں جو کہ جبلت منفعت یا دفع مضرت کے لیے اس طرح کیا جائے کہ لوگوں یا قانون کی گرفت سے بچ جائے مثلاً سال گزنے سے پہلے اپنا مال، اپنی بیوی کو ہبہ کر دینا تاکہ زکوۃ نہ ادا کرنی پڑے اور وقت گزرنے کے بعد پھر بیوی سے اپنے لیے ہبہ کرالے۔ یہ ہوشیاری بھی ہے اور دھوکہ بھی اور تدبیر بھی۔ مکر یا کید کی طرح یہ کوئی خفیہ تدبیر نہیں ہوتی۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا (سورۃ النسا آیت 98)
ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ رستہ ہی جانتے ہیں۔

ماحصل:

  • دبر: کسی کام کے انجام کو سامنے رکھ کر خود فکر کرنا۔
  • کید: ایسی خفیہ تدبیر جو کسی کو مکروہ چیز سے دو چار کر دے۔ ہلکے پیمانے پر ہو تو مکر اور بڑے پیمانہ پر ہو تو کید ہے۔
  • مکر: اور یہ اچھے مقصد کے لیے درست اور برے مقصد کے لیے ہوں تو ناجائز ہیں البتہ مکر کا لفظ اکثر برے مفہوم میں آتا ہے۔
  • حیلۃ: ہوشیاری اور چالاکی سے تصرف پر قدرت حاصل کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ترازو

کے لیے میزان اور قسطاس کے الفاظ آئے ہیں۔

1: میزان

وزن کرنے کا آلہ، کسی وزن کے برابر وزن کرنے کے آلہ کے لیے یہ لفظ عام ہے۔ اور میزان ترازو میں دونوں طرف پڑے ہوئے وزن میں سے ہر ایک کو بھی کہتے ہیں۔ تول۔ ارشاد باری ہے:
اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ (سورۃ الرحمن آیت 8، 9)
کہ اس میزان میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔

2: قسطاس

رومی لغت کا لفظ ہے جو عربی میں استعمال ہونے لگا (ف ل 286) اور اس ترازو کو کہتے ہیں جو بہت حساس ہو۔ راست تر ترازو (م ا) ایسا ترازو جس میں جھکاؤ دیکھنے کے لیے کانٹا (لسان المیزان) بھی لگا ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 37)
اور جب کوئی چیز ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کر دو۔ تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تراشنا

کے لیے نحت اور جاب (جوب) کے الفاظ ہیں۔

1: نحت

کسی سخت چیز مثلاً لکڑی، پتھر، لوہا وغیرہ کو چھیلنے یا تراشنے کے معنوں میں آتا ہے۔ اور نحاتة برادہ یا تراشہ کو کہتے ہیں (مف) ارشاد باری ہے:
قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ (سورۃ الصافات آیت 95)
ابراہیم نے کہا کہ تم ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو جنکو خود تراشتے ہو۔
اور ظاہر ہے کہ یہ بت، پتھر، لکڑی یا دھاتوں سے بنائے جاتے تھے ۔ دوسرے مقام پر فرماتا ہے:
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 74)
اور یاد تو کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد سردار بنایا اور زمین پر آباد کیا۔ کہ نرم زمین میں محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کر تراش تراش کر گھر بناتے ہو۔ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
2: جاب
بمعنی قطع کرنا (مف) اور سوراخ یا شگاف کرنا (منجد) اور پھر اسے چھیل چھال کر درست کرنا ہے۔ گویا باریک کام کے لیے نحت کا لفظ موزوں ہے اور بھاری کام کے لیے جاب کا۔ ارشاد باری ہے:
وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ (سورۃ الفجر آیت 9)
اور ثمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی قرٰی میں چٹانیں تراشتے تھے۔

ماحصل:

نحت: صرف تراشنے اور باریک کام کے لیے اور
جاب:
کاٹنے، شگاف کرنے اور چھیلنے کے معنوں میں آتا ہے۔ اور اس کا تعلق بھاری کام سے ہے۔
ترغیب دینا "ابھارنا" میں دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ترکاری

کے لیے قضب اور بقل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: قضب

بمعنی وہ ترکاری یا سبزی جو تازہ کاٹ کر کھائی جائے (منجد) اور صاحب مفردات اور منتہی الارب اس میں تازہ گھاس (یعنی مویشیوں کی خوراک) کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اور صاحب تفسیر محمدی نے بحوالہ معالم التنزیل قضب کی جو تعریف کی ہے وہ خوب تر معلوم ہوتی ہے۔ یعنی ہر وہ سبزی یا ترکاری جس کے پتے (مویشیوں کی خوراک) زمین سے باہر ہوں اور کار آمد چیز، (انسانوں کی خوراک) زمین کے اندر ہو۔ مثلاً گاجر، مولی، شلجم، چقندر وغیرہ۔ ارشاد باری ہے:
فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا وَّ عِنَبًا وَّ قَضۡبًا وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا (سورۃ عبس آیت 27 تا 29)
پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاری۔ اور زیتون اور کھجوریں۔

2: بقل

امام راغب کے نزدیک ایسی سبزیاں جن کی جڑیں اور شاخیں سردیوں میں باقی نہیں رہتیں (مف) اور صاحب منتہی الارب کے نزدیک بقل ہر وہ سبزی اور ترکاری ہے جو بیج سے اُگتی ہے نہ کہ جڑ ہے۔ جسے گنا وغیرہ لیکن صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بقل کا لفظ عام ہے جو ہر قسم کی سبزی ترکاری کو محیط ہے۔ اور بقال سبزی فروش کو کہتے ہیں جو ہر قسم کی سبزی ترکاری بیچتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوۡمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
اور جب تم نے کہا کہ موسٰی! ہم سے ایک ہی کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا تو اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ترکاری اور ککڑی اور گہیوں اور مسور اور پیاز وغیرہ جو نباتات زمین سے اگتی ہیں ہمارے لئے پیدا کر دے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تسبیح و تقدیس (پاکیزگی بیان کرنا)

کے لیے سبّح، قدس اور حاش کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سبّح

تسبیح کہنا۔ سبحان اللہ کہنا یا سبحان اللہ کا ذکر کرنا۔ اس ذات کی زبان یا زبان حال سے صفت بیان کرنا جو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ اس کی خوبیوں کا مثبت انداز میں ذکر اور حمد بیان کرنا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے "پاک")

2: قدّس

قدوس اللہ تعالیٰ کا نام ہے یعنی وہ ذات جو دوسرے کی شرکت کی احتیاج اور شرک کی دوسری آلائشوں سے پاک ہو۔ (تفصیل "پاک" کے تحت دیکھیے) اور قدّس بمعنی ایسی ذات کی پاکیزگی کا ذکر کرنا، تنزیہہ کرنا جو باتیں اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ان کی نفی کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ (سورۃ البقرۃ آیت 30)
اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔

3: حاش

کلمہ استعجاب ہے۔ اور حاشا لله ، سُبحان اللہ کے ہم معنی ہے۔ لیکن بہت محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ کلمہ تنزیہہ اور کلمہ استثناء ہے (مف) کلمہ استعجاب کے لحاظ سے بھی اس کا استعمال نہیں ہوتا (مف) ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا رَاَیۡنَہٗۤ اَکۡبَرۡنَہٗ وَ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ وَ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 31)
جب عورتوں نے انکو دیکھا تو انکا رعب حسن ان پر ایسا چھا گیا کہ پھل تراشتے تراشتے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بیساختہ بول اٹھیں کہ اللہ پاک ہے یہ آدمی نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمۡنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۫ اَنَا رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 51)
بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ تمہارا کیا قصہ تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا؟ سب بول اٹھیں کہ اللہ پاک ہے ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی عزیز کی بیوی نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئ ہے اصل یہ ہے کہ میں نے اسکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور وہ بیشک سچا ہے۔
اور کبھی حاشا کے ساتھ کلّا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حاش و کلّا جو اپنے یا کسی دوسرے سے الزام کی پر زور تردید کے لیے آتا ہے۔ اس کا استعمال قرآن میں نہیں ہے۔ گویا حاش میں الزام کی پر زور تردید کا پہلو شامل ہوتا ہے۔

ماحصل:

1) سبّح: تسبیح کہنا۔ سبحان اللہ کا ذکر کرنا۔ اس ذات کی مثبت صفات کا ذکر اور اس کی حمد بیان کرنا۔
2) قدس: بری اور منفی صفات کی تردید کرتے ہوئے کسی ذات یا چیز کا ذکر کرنا۔ تنزیہہ کرنا
3) حاش: سبحان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور الزام کی تردید کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تسکین (تسلّی)​

کے لیے سکینۃ اور اطمئن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سکینۃ

سکون حرکت کے بعد ٹھہراؤ کو سکون کہتے ہیں۔ یہ جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور ذہنی یا قلبی بھی۔ اگر ذہنی یا قلبی ہو تو اسے سکینۃ کہا جاتا ہے۔ یعنی تفکرات اور غم و فکر سے دل کو نجات ملنا۔ اور قرار حاصل ہونا۔ قرآن میں ہے:
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 40)
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کا مددگار ہے وہ وقت تم کو یاد ہو گا جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا اس وقت دو ہی شخص تھے جن میں ایک ابوبکر تھے اور دوسرے ہمارے پیغمبر ﷺ جب وہ دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور انکو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تمکو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔

2: اطمئنّ

اطمینان حاصل ہونا، خلجان، ترد اور شک و شبہ کے بعد نفس کا سکون پزیر ہونا (مف) طبیعت کا مطمئن ہونا ۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ (سورۃ البقرۃ آیت 260)
فرمایا کیا تم نے یقین نہیں کیا؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ تسکین ہو جائے میرے دل کو (عثمانیؒ)

ماحصل:

غم و تفکر اسے سکون کے لیے سکینۃ اور شکوک و شبہات سے نجات کے لیے اطمینان کا لفظ آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تعبیر بتلانا​

کے لیے عبر، اوّل اور فتی کے الفاظ قرآن میں آتے ہیں۔

1: عبر

بمعنی کسی وادی یا نہر کو پار کر جانا اور عبارة الرویا اور عبر الرویا بمعنی خواب کی تعبیر بیان کرنا اور عبّار بمعنی تعبیر خواب دینے والا (منجد) اور العبرة والاعتبار بمعنی کسی دیکھی ہوئی چیز سے ان دیکھے نتائج تک پہنچنا۔ اور تعبیر بمعنی خواب کا انجام بتلانا (مف)قرآن میں ہے:
اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلرُّءۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 43)
اے درباریو اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔

2: اوّل

(تاویل) بمعنی کسی چیز کو اس کی غایت یا انجام کی طرف لوٹانا۔ اور یہ لفظ تعبیر سے اعمّ ہے کیونکہ تاویل کے معنی مطلق کسی بات کا انجام بیان کرنا۔ خواہ یہ خواب ہو یا کوئی دوسری بات ہو۔ جبکہ تعبیر کا لفظ خواب کا انجام بیان کرنے کے لیے مخصوص ہے اور صاحب فروق اللغویہ کے نزدیک تاویل متشابہ چیز کی ہی کی جاتی ہے (فق-ل ۴۳) ارشاد باری ہے:
وَ قَالَ الۡاٰخَرُ اِنِّیۡۤ اَرٰىنِیۡۤ اَحۡمِلُ فَوۡقَ رَاۡسِیۡ خُبۡزًا تَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡہُ ؕ نَبِّئۡنَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 36)
دوسرے نے کہا کہ میں نے بھی خواب دیکھا ہے میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے ان میں سے کھا رہے ہیں تو ہمیں انکی تعبیر بتا دیجئے کہ ہم تمہیں نیکوکار دیکھتے ہیں۔

3: افتی

بمعنی کسی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ کا حل بتلانا۔ فتوی ایک شرعی اصطلاح ہے یعنی کسی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ کا شرعی حل پیش کرنا، بتلانا اور استفتاء بمعنی کسی عالم سے ایسے مسئلہ کا حل پوچھنا۔ قرآن میں افتی کا لفظ خواب کی تعبیر کے لیے صرف اس لحاظ سے آیا ہے کہ جس خواب کی تعبیر مطلوب تھی وہ خواب بڑا پیچیدہ اور مشکل تھا۔ قرآن میں ہے:
اور اسی پیچیدہ خواب کو ان تعبیر بتلانے والوں نے اضغاث احلام کہ کر ٹال دیا۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے آزاد شدہ ساتھی نے کہا:
یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ اَفۡتِنَا فِیۡ سَبۡعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعِ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۙ لَّعَلِّیۡۤ اَرۡجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 46)
غرض وہ یوسف کے پاس آیا اور کہنے لگا یوسف اے بڑے سچے یوسف ہمیں اس خواب کی تعبیر بتایئے کہ سات موٹی گائیوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات خوشے سبز ہیں اور سات سوکھے تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جا کر تعبیر بتاؤں عجب نہیں کہ وہ تمہاری قدر جانیں۔

ماحصل:​

  • عبر اور تعبیر کا لفظ خواب کا انجام بتانے سے خاص ہے۔
  • تاویل: کسی بات یا واقعہ کا انجام بتلانا عام ہے جس میں خواب بھی شامل ہے۔
  • افتی: کسی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ کا حل پیش کرنا جس میں خواب کی تعبیر بھی شامل ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تعریف کرنا​

کے لیے حمد اور شکر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حمد

کسی کے اوصاف حمیدہ اور فضائل بیان کرنا بشرطیکہ وہ افعال اختیاری ہوں۔ مثلاً کوئی شخص سخاوت کرتا ہے تو اس کا یہ فعل اختیاری ہے۔ اس پر جو تعریف کی جائے گی وہ حمد ہو گی اور اگر اضطراری ہوں مثلاً کوئی شخص دراز قامت یا خوش شکل یا عالی نسب ہے تو اس میں اس کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ تو ان اوصاف پر اگر اس کی تعریف کی جائے تو یہ مدح کہلائے گی۔ اور اس کی ضد ذمّ ہے۔ یعنی ایسے عیوب کا بیان جو کسی شخص میں موجود ہوں۔ خواہ وہ اختیاری ہو یا اضطراری۔ گویا حمد کا لفظ مدح سے خاص ہے۔ مدح ہر اختیاری اور اضطراری خوبی پر ہو سکتی ہے لیکن حمد کا اطلاق افعال اختیاری پر ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ آل عمران آیت 188)
جو لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور وہ کام جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا۔
اور اللہ کے لیے مدح کا لفظ نا موزوں ہے۔ کیونکہ اللہ کے سب افعال پسندیدہ بھی ہیں اور اختیاری بھی۔ اسی لیے فرمایا:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ الفاتحہ آیت 1)
سب طرح کی تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔
اور مدح کا لفظ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔

2: شکر

کسی کے احسانات و انعامات کے تصور اور اظہار کو کہتے ہیں (مف) اور اس کی ضد کفر ہے۔ بمعنی کسی کے احسان کو بھلا دینا یا نعمت کو چھپانا اور ظاہر نہ ہونے دینا۔ احسان نا شناسی یا کفران نعمت۔ گویا شکر، حمد سے بھی خاص ہے۔ اگر ہم کہیں کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کا نظام کس خوبی سے چلایا ہے تو یہ حمد ہے اور اگر ہم کہیں کہ خدا ہی ہمیں کھلاتا پلاتا ہے تو یہ شکر ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ (سورۃ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے پروردگار نے تم کو آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی سخت ہے۔

ماحصل:​

  • مدح: ہر طرح کی صفت کی خوبی بیان کرنے کے لیے۔
  • حمد: اختیاری اوصاف کے لیے۔
  • شکر: انعامات و احسانات کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تعظیم کرنا​

کے لیے عظّم اور وقّر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عظم:

عظم کے معنی بڑا ہونا بھی ہیں اور ہڈی بھی۔ گویا عظم میں بڑائی کے ساتھ صلابت یا سختی کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور عظّم کے معنی کسی کو دل سے بڑا اور قابل عزت سمجھنا ہے۔ اور یہ جاندار اور بے جان سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ذٰلِکَ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ (سورۃ الحج آیت 32)
یہ ہمارا حکم ہے اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو اللہ نے مقرر کی ہیں تعظیم کرے تو یہ کام دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔
اور جو کوئی ادب رکھے اللہ کے نام لگی چیزوں کا سو وہ دل کی پرہیز گاری کی بات ہے (عثمانیؒ)​

2: وقّر

وقار بمعنی سنجیدگی اور عظمت (منجد) اور صاحب مفردات کے نزدیک سنجیدگی اور حلم (مف) ہے۔ ابن فارس بھی اس کے معنی الحلم والرزانة (م ل) لکھتے ہیں۔ اور وقّر کے معنی کسی صاحب مرتبہ کے مرتبہ کو ملحوظ رکھنا اور اس کے منافی کوئی بات نہ کرنا۔ اور یہ لفظ صرف انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا (سورۃ الفتح آیت 9)
تاکہ مسلمانو تم لوگ اللہ پر اور اسکے پیغمبر پر ایمان رکھو اور اسکی مدد کرو اور اسکی تعظیم کرو۔ اور صبح و شام اسکی تسبیح کرتے رہو۔

ماحصل:​

عظم عام ہے، جبکہ وقّر صرف انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تقویت دنیا کیلیے دیکھیے "قوت دینا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تک

کے لیے دو الفاظ ہیں۔ الی اور حتی۔
یہ دونوں الفاظ انتہا اور غایت بتلانے کے لیے آتے ہیں۔ ظرف زمان اور مکان دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں مندرجہ ذیل فرق ہیں:

1: الى

اسم ضمیر پر بھی داخل ہو سکتا ہے۔ جیسے الیکم اور اس صورت میں یہ "طرف" کا معنی دے گا لیکن حتی صرف اسم ظاہر کی طرف مضاف ہو سکتا ہے ضمیر پر داخل نہیں ہوتا۔ اسم یا فعل ہی پر داخل ہوتا ہے، جیسے فرمایا:
وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 55)
اور جب تم نے موسٰی سے کہا کہ موسٰی جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔

2: حتى

انتہا امور غایت بتلانے کے لیے حتی ،الی سے زیادہ ابلغ ہے۔ حتی الان (اس وقت تک) تو کہہ سکتے ہیں۔ مگر الی الان نہیں کہتے ۔ الی کا معنی صرف "تک" سے کیا جاتا ہے جبکہ حتی کا معنی "تک"، "یہاں تک کہ" ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثال سے واضح ہے۔
تکبر کرنا "اترانا" میں دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تکلیف​

کے لیے ضرّ، ضرّ، ضرآء، کرھا، اذی اور معرّۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ضرّ

بمعنی نقصان۔ کوئی بھی مادی یا معنوی تکلیف یا نقصان۔ اور اس کی ضد نفع ہے۔ اور یہ بعض دفعہ اچھی بھی ہو سکتی ہے جیسے کڑوی دوا سے تکلیف پہنچنا (فق ل 162) ارشاد باری ہے:
قُلۡ اَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَکُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا ؕ وَ اللّٰہُ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (سورۃ المائدۃ آیت 76)
کہو کہ تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جسکو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں اور اللہ ہی سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔

2: ضرّ

میں مبالغہ پایا جاتا ہے اور یہ عموماً جسمانی تکلیف کے لیے آتا ہے۔ بدحالی، بیماری، زخم یا دوسرے جسمانی اور ذہنی عوارض (مف، منجد) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور برے مفہوم میں آتا ہے (فق ل ۱۶۲) ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 12)
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو بے لحاظ ہو جاتا اور اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو انکے اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں۔

3: ضرّآء

تکالیف اور بدحالی کا دور۔ جان، مال یا اولاد کا نقصان ہونا یا قحط (منجد، م ق) اور اس کی ضد نعمآء تو بمعنی خوشحالی کا دور ہے، یعنی ایسی ظاہری تکالیف جو دوسروں کو نظر آئیں۔ (فق ل 163) ارشاد باری ہے:
مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ (سورۃ البقرۃ آیت 214)
ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ صعوبتوں میں ہلا ہلا دئیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی۔ دیکھو اللہ کی مدد عنقریب آیا چاہتی ہے۔

4: اذی

بمعنى الضر الیسیر یعنی ہلکی تکلیف ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 111)
یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ پھر ان کو مدد بھی کہیں سے نہیں ملے گی۔
پھر یہ ہلکی تکلیف ذہنی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے کسی کا دل دکھانا یا گالی گلوچ۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ (سورۃ التوبہ آیت 61)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے
اور جسمانی بھی جیسا کہ قرآن کریم میں حیض کو اذی سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا ترجمہ نا پاکی یا گندگی بھی کیا جاتا ہے۔

5: کرها

بمعنی جبریہ مشقت یا اضطراری تکلیف (مف) کسی تکلیف دہ کام کے سر انجام دینے پر مجبور ہونا۔ اور اس کی ضد طوعا ہے یعنی کسی کام کو دل کی خوشی سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے:
وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا (سورۃ الاحقاف آیت 15)
اور ہم نے انسان کو اسکے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اسکی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔

6: معرّة

العرّ والعرّ، خارش کی بیماری کو کہتے ہیں جو پورے بدن کو عارض ہو جاتی ہے۔ اسی نسبت معرّة ہر قسم کی مضرت پر بولا جاتا ہے (مف) اور صاحب منجد اس کے معنی گناہ، تکلیف، بدی قصور، عیب، بری بات، سختی اور گالی لکھتے ہیں۔ گویا یہ لفظ وسیع المفہوم ہے جو ہر طرح کے دکھ، رنج اور خرابی پر بولا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ (سورۃ فتح آیت 25)
پھر تم پر ان کی وجہ سے خرابی پڑ جاتی بے خبری سے۔ (عثمانیؒ)

ماحصل:

  • ضّر: نقصان کے معنوں میں فائدہ کے مقابلہ پر۔
  • ضرّ: جسمانی تکلیف اور عوارض کے لیے۔
  • ضرّآء: ظاہری مشکلات کے دور کے لیے۔
  • اذی: ہلکی تکلیف کے لیے۔
  • کرھا: جبری تکلیف کے لیے۔
  • معرّة: ہر طرح کی تکلیف اور خرابی کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تکلیف اُٹھانا – دینا​

کے لیے اذی سے اذى يُؤْدِی اور ضرّ اور ضرّ سے یضر اور کرھا سے اکرہ يُكْرِہ کے افعال تکلیف دینے کے معنوں میں قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اذی یؤذی کی مثال اوپر گزر چکی۔ اب باقی مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

1: یؤذی

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا (سورۃ الاحزاب آیت 69)
مومنو! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسٰی کو عیب لگا کر رنج پہنچایا تو اللہ نے انکو بےعیب ثابت کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔

2: یضرّ

اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۫ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّفۡرَحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ (سورۃ آل عمران آیت 120)
اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں رنج پہنچے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر تم تکلیفوں کی برداشت اور نافرمانی سے کنارہ کشی کرتے رہو گے تو ان کا فریب تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اور ضار (یضار) بمعنی ایک دوسرے کو دکھ دینا، نقصان دینا یا تکلیف پہنچانا۔ ارشاد باری ہے:
لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے۔

3: کره

بمعنی جبری مشقت اور اکرہ بمعنی کسی کو ایسی مشقت میں ڈالنا جو اس کے مرضی کے خلاف ہو۔ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ (سورۃ النور آیت 33)
اور اپنی باندیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا
ان کے علاوہ ان معنوں میں کلّف، شقّ، سام اور عنت کے الفاظ آئے ہیں۔

4: كلّف

بمعنی کسی چیز سے اس کی حیثیت اور طاقت سے زیادہ کام لینا (مف) یا مشکل کام کا حکم دینا (منجد) ارشاد باری ہے:
یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا ذمہ دار نہیں بناتا
اور تکلیف محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی۔ محمود یہ ہے کہ کسی کام کو اس لیے سر انجام دے کہ وہ اس پر آسان ہو جائے اور اس سے اُسے محبت ہو جائے۔ اور یہی شرعی تکلیف ہے۔ اور مذموم وہ ہے جسے تکلف کہتے ہیں۔ بمعنی بناوٹی تکلیف یا بناوٹ کرنا۔

5: شقّ

شق بمعنی پھاڑنا بھی آتا ہے اور شقّ يشقّ کسی سے اس کی طاقت سے زیادہ کام لینا یا محنت و مشقت میں مبتلا کرنا ہے (منجد) قرآن میں ہے:
وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 27)
اور میں تم پر تکلیف ڈالنی نہیں چاہتا۔ تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔

6: عنت

ایسی تکلیف پانا جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہو (مف) اور بمعنی اشدۃ الضر یا انتہائی تکلیف (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ (سورۃ آل عمران آیت 118)
مومنو! کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس طرح ہو تمہیں تکلیف پہنچے۔
اور اعنت بمعنی کسی کو ایسی مشقت میں ڈال دینا ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 220)
اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

7: سام

بمعنی کسی کو تکلیف دینا اور سام خسفا، محاورہ ہے بمعنی کسی کو ذلیل و خوار کرنا (منجد) سام سے مفہوم ایسی تکلیف ہے جس میں ذلت اور خواری کا پہلو بھی شامل ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 49)
اور ہمارے ان احسانات کو یاد کرو جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے نجات بخشی وہ لوگ تمکو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی سخت آزمائش تھی۔

ماحصل:

  • اذی: معمولی تکلیف کے لیے۔
  • ضرّ: بڑی تکلیف اور نقصان کے لیے۔
  • اکرہ: جبری تکلیف کے لیے۔
  • تکلیف: استطاعت کے مطابق کام لینے کے لیے۔
  • مشقّۃ: طاقت سے زیادہ کام لینے کے لیے۔
  • عنت: ایسی تکلیف جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہو۔
  • سام: ایسی تکلیف کے لیے جس میں ذلت کا پہلو بھی شامل ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تندرست کرنا – ہونا​

کے لیے شفی اور ابرا (برء) اور افاق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: شفی

شفاء بمعنی مرض سے نجات پانا۔ سلامتی سے ہمکنار ہونا۔ اور شفی یشفی بمعنی مرض سے نجات دینا۔ تندرست کرنا (مف) قرآن میں ہے:
وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ (سورۃ الشعراء آیت 80)
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے۔
اور شفی جس طرح جسمانی بیماریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ویسے ہی روحانی بیماریوں سے نجات کے لیے بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 14)
ان سے خوب لڑو۔ اللہ انکو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔

2: ابرء

برء بمعنی بیزار ہونا۔ اور برء (ب پیش) بمعنی کسی مکروہ امر سے نجات حاصل کرنا اور رجل بری بمعنی پاک اور بے گناہ آدمی اور برء من المرض بمعنی شفا پانا۔ مرض سے نجات حاصل کرنا ۔ اور ابرء المريض بمعنی مریض کو اس کی مرض سے شفا دینا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ (سورۃ آل عمران آیت 49)
اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔

3: افاق

بمعنی نشہ یا غشی کی حالت سے ہوش میں آنا یا کمزوری سے قوت کی طرف لوٹنا۔ (مف) (م-ق) صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک افاق کا لفظ صرف بیہوشی سے ہوش میں آنے کے لیے استعمال ہوتا ہے (ف ل ۱۳۱) ارشاد باری ہے:
وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 143)
اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں۔

ماحصل:​

1) شفی: مرض سے صحت پانا۔
2) ابرء: کسی شدید مرض سے نجات دینا۔
3) افاق بے ہوشی سے ہوش میں آنا۔
 
Top