مترادفات القرآن (ت)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تنگدستی​

کے لیے فقر، مسكنة ، عَيْلَة (عیل) املاق، قتر، باساء اور متربۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فقر

بمعنی مفلسی، ناداری۔ فقر اور فقرہ ریڑھ کی ہڈی کے منکے کو کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع فقار ہے۔ فقرہ یعنی ریڑھ کی ہڈی۔ اور فقر ریڑھ کی ہڈی یا کمر توڑنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کہتے ہیں فقرته الداهية اس پر ایسی مصیبت نازل ہوئی جس نے اس کی کمر کی ہڈی کو توڑ دیا (منجد) گویا فقر کمر توڑنے والی یا انتہائی مفلسی کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 32)
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔

2: مسكنة

مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر ہوں (ف ل 65) بعض کے نزدیک مسکین وہ ہے جو بمشکل گزر بسر تو کر رہا ہو لیکن اس کی ملکیت کچھ نہ ہو یعنی رہائش بھی نہ ہو۔ اہل لغت کا اس بات میں اختلاف ہی رہا ہے کہ آیا معاشی طور پر فقیر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے یا مسکین۔ تاہم قرآن کے انداز بیان سے نہیں ظاہر ہوتا ہے کہ فقیر ہی زیادہ محتاج اور تنگدست ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 60)
صدقات یعنی زکوٰۃ و خیرات تو مفلسوں اور ناداروں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جنکے دل جیتنا منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے یہ مصارف اللہ کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
آیت بالا میں فقر کا لفظ مسکین سے پہلے استعمال ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے اور آیت ذیل
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔
سے ثابت ہوتا ہے کہ مسکین مالک ہو سکتا ہے۔

3: عيلة

عول ہر وہ چیز ہے جو انسان کو گراں بار کر دے اور اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ اور عیال سے مراد وہ افراد ہیں جن کے اخراجات زندگی کے لیے انسان ذمہ دار ہونے کی وجہ سے بوجھ تلے دبا ہوا ہو (مف) گویا عیلہ وہ مفلسی اور محتاجی ہے جو عیال کی وجہ سے ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 28)
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے۔

4: املاق

دراصل مفلسی اور محتاجی کو نہیں کہتے، بلکہ اس اندیشے کو کہتے ہیں کہ جو مال و دولت موجود ہے وہ کہیں خرچ ہو کر ختم نہ ہو جائے۔ کہا جاتا ہے۔ املق الدهر مللہ زمانہ نے اس کے مال کو ہاتھ سے نکال دیا (منجد) اور املق بمعنی موجود مال و دولت کا ہا تھ سے نکل جانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 31)
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔
یہی مفہوم ایک دوسری آیت میں خشیت انفاق سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

5: قتر

بمعنی احتیاج، مفلسی اور ناداری بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:
لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 236)
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔
لیکن اہل لغت اس کے معنی "اپنے عیال پر نفقہ کو تنگ کر دینا" (م ا، م ق) بتلاتے ہیں۔ یعنی مقتر وه شخص ہے جو فی الواقع تنگ دست نہیں ہوتا لیکن اپنی حیثیت کے مطابق اپنے عیال پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ اور ان معنوں میں بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (سورۃ الفرقان آیت 67)
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیجا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔

6: باسآء

بئس یبئس بمعنی سخت حاجت مند ہونا اور باس بمعنی عذاب، جنگ اور بھوک (منجد) اور باسآء عموماً مالی مشکلات کے دور اور فقر و فاقہ کے لیے آتا ہے اور اس کی ضد سراء بمعنی خوشحالی اور مسرت کا دور۔ یعنی مسرة في اليسر (م ق) اور باساء بمعنی ایسی تکلیف جس میں خوف بھی شامل ہو۔ (فق ل ۱۶۳) ارشاد باری ہے:
لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ (سورۃ الحج آیت 28)
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور قربانی کےایام معلوم میں مویشی چوپایوں کے ذبح کے وقت جو اللہ نے انکو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔ اب اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور خستہ حال ضرورت مند کو بھی کھلاؤ۔
اسی طرح
مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ (سورۃ البقرۃ آیت 214)
ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں
سے مراد معاشی بدحالی اور ضراء سے مراد دوسرے شدائد ہیں۔

7: متربة

تُراب بمعنی خشک مٹی اور ترب (یترب تربا متربا) الرجل بمعنی آدمی اتنا غریب ہوا کہ خاک میں مل گیا (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ضمیمہ 1/3 لغت اضداد (تحت، ترب) قرآن میں ہے:
اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ (سورۃ البلد آیت 14 تا 16)
یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا۔ کسی رشتہ دار یتیم کو۔ یا مٹی میں پڑے کسی نادار کو۔

ماحصل:​

  • فقر: انتہائی تنگدستی۔
  • مسکنت: بمشکل گزر بسر کرنا۔
  • عیلۃ: عیال کے خرچ تلے دب جانا۔
  • املاق: تنگدست ہونے کی فکر رہنا۔
  • قتر: اپنے عیال پر خرچ کرنے میں بخل کرنا۔
  • باساء: فقر و فاقہ کا دور۔
  • متربۃ: غربت کی وجہ سے خاک میں رل جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تنگی​

کے لیے عسر، حرج، ضنکا، ضیق اور حاجة کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عسر

بمعنی تنگی یا تنگی کا وقت، صعوبت اور شدت (م ل) خواہ یہ تنگی معاشی ہو یا کسی اور قسم کی۔ اس لفظ کا استعمال عام ہے اور اس کی ضد یسر ہے یعنی آسانی اور فارغ البالی۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا (سورۃ الانشرح آیت 6)
بیشک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

2: حرج

دل کی گھٹن، ناجائز پابندیوں سے دل کا تنگ ہونا (ف ل ۵۲)
وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ (سورۃ الحج آیت 78)
اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی۔

3: ضنک

بمعنی بود و باش اور رہن سہن کی تنگی (ف ل 54) دل کی بے اطمینانی و بے قراری، تفکرات کا ہجوم رہنا۔ ضناكة بمعنی تنگ زندگی (منجد )
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی (سورۃ طہ آیت 124)
اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اسکی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

4: ضیق

جگہ کی تنگی کے لیے استعمال ہوتا ہے (ف ل ۵۴) اور اس کی ضد سعۃ بمعنی فراخی ہے۔ (م ل) ارشاد باری ہے:
وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 13)
اور جب یہ دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑ کر ڈالے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے۔
کبھی اس کی ضد رحب بھی آتی ہے جیسے:
حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ (سورۃ التوبہ آیت 118)
ہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی۔
پھر کبھی ضیق کا لفظ حرج یعنی دل کی تنگی کے معنوں استعمال ہوتا ہے گویا یہ ضیق کا معنوی استعمال ہے۔ جیسے
وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 127)
اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ سازشیں کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو۔

5: حاجة

الحوج بمعنی احتیاج اور فقر و فاقہ۔ اور حاج بمعنی محتاج ہونا۔ اور حاجت بمعنی ضرورت، وہ تنگی جو کسی خواہش یا ضرورت کے پورا نہ ہونے کی وجہ دل میں محسوس ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ (سورۃ الحشر آیت 9)
اور ان لوگوں کے لئے بھی جو مہاجرین سے پہلے اس گھر یعنی مدینے میں مقیم ہیں اور ایمان میں مضبوط ہیں اور جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انکو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش اور خلش نہیں پاتے اور انکو اپنی جانوں پر مقدم رکھتے ہیں خواہ وہ خود بھی فاقے سے ہوں۔

ماحصل:​

  • عسر: تنگی کے وقت کے لیے۔
  • حرج: دل کی تنگی اور گھٹن کے لیے۔
  • ضنک: زندگی کی تنگی اور پریشانیوں کے لیے یا تفکرات سے زبوں حالی کے لیے۔
  • ضیق: جگہ کی تنگی کے لیے۔
  • حاجۃ: وہ گھٹن جو کسی خواہش یا ضرورت کے پورا نہ ہونے پر پیدا ہوتی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تنگ کرنا – ہونا​

کے لیے ضاق، قدر، قبض، حصر اور حفا ( حفو) کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: ضاق

جگہ کی تنگی پر دلالت کرتا ہے تفصیل اوپر گزر چکی۔

2: قدر

قدر کے معنی بنیادی طور پر کسی چیز کا اندازہ کرنا اس کی دیکھ بھال اور اس کی تدبیر کرنا ہے (منجد) لیکن جب یہ لفظ رزق کے ساتھ منسوب ہو گا تو اس سے مراد رزق کی تنگی ہوتا ہے اور اس کی ضد بسط آتی ہے۔ ارشاد باری ہے
اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (سورۃ العنکبوت آیت 62)
اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جسکے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جسکے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔

3: قبض

کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے سے پکڑنا (مف) مٹھی میں بند کرنا اور سکڑنا۔ اور قبضۃ بمعنی مٹھی اور اس میں بند شدہ چیز کو کہتے ہیں۔ اس کی ضد بھی بسط آتی ہے۔ اور قبض کا استعمال اس وقت ہوتا ہے کہ کسی ایسی چیز میں تنگی یا کمی کر دی جائے جو پہلے زیادہ ہو۔ خواہ رزق کا معاملہ یا اور کچھ۔ ارشاد باری ہے:
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 245)
کون ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی گنا زیادہ دے گا۔ اور اللہ ہی روزی کو تنگ کرتا اور وہی اسے کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔

4: حصر

حصر بمعنی تنگی ہونا۔ گھر جانا اور حصر الرجل بمعنی دل پر کس کا دباؤ محسوس کرنا (منجد) دل گھٹ جانا، تنگ ہو جانا۔ قرآن میں ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ (سورۃ النساء آیت 90)
مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو یا اس حال میں کہ ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے بھنچ رہے ہوں تمہارے پاس آ جائیں تو اور بات ہے

5: حفا

حفا، کا لغوی معنی کسی چیز میں طلب میں مبالغہ اور اصرار ہے۔ (مف، م ق) اور حفیّ کے معنی کسی چیز کے متعلق پورا پورا علم رکھنے والا، عزت و اکرام و اظہار خوشی میں مبالغہ کرنے والا۔ کسی شخص کے حالات بہت پوچھنے والا اور سوال کرنے میں اصرار کرنے والا (منجد) تو اسی مبالغہ اور اصرار سے بعض دفعہ تنگ کرنے کا معنی پیدا ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ یَّسۡـَٔلۡکُمُوۡہَا فَیُحۡفِکُمۡ تَبۡخَلُوۡا وَ یُخۡرِجۡ اَضۡغَانَکُمۡ (سورۃ محمد آیت 37)
اگر وہ تم سے مال طلب کرے پھر تمہیں تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو اور وہ بخل تمہارے کینے ظاہر کر کے رہے۔

ماحصل:​

  • ضاق: جگہ کی تنگی کے لیے۔
  • قدر: اگر رزق سے منسوب ہو تو رزق کی تنگی کے لیے۔
  • قبض: اگر رزق سے منسوب ہو تو پہلی حالت کے مقابلہ میں تنگی کے لیے۔
  • حصر: (صدر) دل کی گھٹن اور گھبراہٹ کے لیے۔
  • حفا: کسی سوال میں مبالغہ اور اصرار سے تنگ کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

توڑنا​

کے لیے نکث، نقض، انقض، فقر اور جذّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نکث

بمعنی بٹی ہوئی یا بنی ہوئی چیز کو ادھیڑنا۔ اور نکث دوبارہ کاتنے کے لیے ادھیڑے ہوئے کمبل یا خیمے کو اور نکّاث بنی ہوئی یا بٹی ہوئی چیز کو ادھیڑنے والے کو کہتے ہیں (منجد) اور اس کا استعمال عموماً عہد و پیمان، قسم اور بیع کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی عہد توڑ دینا، وعدہ کا خلاف کرنا (م ا) ارشاد باری ہے:
اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 13)
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر کو وطن سے نکالنے کا ارادہ کر لیا اور انہوں نے تم سے عہد شکنی کی ابتداء کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو سو ڈرنے کے لائق تو اللہ ہے اگر تم ایمان والے ہو۔

2: نقض:

بمعنی کسی چیز کا شیرازہ بکھیرنا اور اس کی ضد ابرم ہے یعنی کس معاملہ کو مضبوط و مستحکم بنانا (مف) اور یہ لفظ نکث سے زیادہ عام ہے۔ جیسے نقضت البناء بمعنی عمارت کو ڈھانا۔ __ العظم ہڈی توڑنا __ العقد گرہ کھولنا۔ اسی طرح نقضت الحبل رسی کے بل اتارنا کے معنی میں بھی آتا ہے۔ پھر نقض، نکث سے ابلغ بھی ہے۔ اور اس عہد یا قسم کو توڑنے کے لیے آتا ہے جو پختہ کیا جا چکا ہو۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 91)
اور جب اللہ سے عہد کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو انکو مت توڑو کہ تم اللہ کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 27)
جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز یعنی رشتہ قرابت کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسکو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

3: انقض

کے معنی کسی چیز کا اس طرح توڑنا کہ کڑکڑانے کی آواز سنائی دے (مف) پھر اس کا اطلاق مختلف مواقع پر بھی ہونے لگا۔ مثلاً انقضت الدّجاجۃ بمعنی مرغی کا انڈا دیتے وقت کڑکڑ کرنا۔ الادیم چمڑے کا چڑچڑانا۔ اور انقض اصابعہ بمعنی انگلیاں چٹخانا (منجد) اور انقض الحمل الظّھر بمعنی پیٹھ پر اتنا زیادہ بوجھ لادنا کہ کڑکڑانے لگے اور دوہری ہو جائے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ (سورۃ الانشرح آیت 2، 3)
اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ بھی اتار دیا۔ جس نے تمہاری کمر جھکا دی تھی۔

4: فقر

یہ لفظ انقض سے اخص ہے جو صرف کمر توڑنے کے معنی میں آتا ہے۔ جبکہ انقض عام ہے۔ الفقرۃ اور الفقرۃ (ف زیر) ریڑھ کی ہڈی کے منکے کو کہتے ہیں جس میں سوراخ ہوتا ہے اور اس کی جمع فقار اور فقرات آتی ہے۔ اور فقر الخرز بمعنی موتی پرونے کے لیے اس میں سوراخ کرنا۔ اور فاقرۃ ایسی مصیبت کو کہتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کو توڑ دے (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ (سورۃ القیامہ آیت 24، 25)
اور بہت سے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔ خیال کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ کیا جائے گا۔

5: جذّ

کسی سخت چیز کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا (تفصیل "کاٹنا" میں دیکھیے)

ماحصل:​

  • نکث: بیع، قسم اور عہد توڑنے یا بنی ہوئی چیز کو ادھیڑنے کے لیے۔
  • نقض: کسی بھی چیز کو ادھیڑنے، شیرازہ بکھیرنے اور پختہ عہد اور قسم کو توڑنے یا حیلہ بہانہ سے خراب کرنے کے لیے۔
  • انقض: کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ کڑکڑانے کی آواز پیدا ہو۔
  • فقر: کمر کی ہڈی توڑنے سے مخصوص ہے۔
  • جذّ: کسی سخت چیز کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔
تہمت لگانا کے لیے دیکھیے "پھینکنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

توفیق دینا​

کے لیے وفّق اور اوزع کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: وفّق

وفق بمعنی دو چیزوں کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی (مف) اور وفّق بمعنی موافق بنانا۔ اور وفّق اللہ بمعنی اللہ تعالی کا حالت کو کسی کام کے موافق بنا دینا۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصۡلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیۡنَہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا خَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 35)
وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے سب باتوں سے خبردار ہے۔

2: اوزع

وزع بمعنی روکنا۔ وزع الجیش بمعنی فوج کو ترتیب وار صفوں میں رکھنا اور اوزع بمعنی تقسیم کرنا۔ پراگندہ کرنا (لغت اضداد) اور اوزع الشیء بمعنی الہام کرنا اور استوزع اللہ شکرہ خدا تعالی سے شکر کی توفیق چاہنا (منجد) اور اوزع اللہ فلانا بمعنی اللہ تعالی نے فلاں کو شکر گزاری کا الہام کیا (مف) ارشاد باری ہے:
قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 15)
کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکرگذار بنوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جنکو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد کو نیک بنا دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔

ماحصل:​

  • وفّق اللہ : اللہ تعالی کا حالات کو کسی کام کے لیے ساز گار بنانا۔
  • اوزع اللہ: اللہ تعالی کا کسی کے دل کو کسی کام کے لیے ساز گار بنانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تہ بر تہ​

کے لیے طباق (طبق)، مرکوم – رکام (رکم) متراکبا (رکب) نضید اور منضود (نضد) اور کسف کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طبق

ایک چیز کے اوپر اس کے برابر دوسری چیز رکھنا (مف) کہ فٹ بیٹھ جائے۔ مطابق کرنا۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ اے دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھکو آسمان میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟

2: رکم

بمعنی ڈھیر لگانا (منجد) بغیر کسی نظم و ترتیب کے کسی چیز کو اوپر نیچے یا آگے پیچھے ساتھ ملا کر اکٹھا کر دینا۔ اور رکام اور مرکوم بمعنی تہ بر تہ بادل یا ریت (منجد) ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ (سورۃ النور آیت 43)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر انکو آپس میں ملا دیتا ہے۔ پھر انکو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل سے مینہ نکل کر برس رہا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ الانفال آیت 37)
تاکہ اللہ پاک سے ناپاک کو الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے۔ پھر اسکو دوزخ میں ڈال دے یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔

3: تراکب

رکب بمعنی سوار ہونا۔ اور رکیب دو سواروں میں سے پچھلا سوار یا جڑی ہوئی چیز جیسے انگوٹھی میں نگ ہوتا ہے (منجد) اور تراکب بمعنی اس طرح تہ بر تہ ہونا کہ ان میں کوئی خاص نظم اور ترتیب پائی جاتی ہو۔ اور متراکب بمعنی گتھے ہوئے یا گندھے ہوئے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ فَاَخۡرَجۡنَا مِنۡہُ خَضِرًا نُّخۡرِجُ مِنۡہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا (سورۃ الانعام آیت 99)
اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر ہم ہی جو مینہ برساتے ہیں اس سے ہر طرح کی نباتات اگاتے ہیں۔ پھر اس میں سے سبز سبز پودے نکالتے ہیں اور ان پودوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دانے نکالتے ہیں۔

4: نضید

نضد بمعنی سامان کا ایک دوسرے پر چننا۔ اور نضد گھر کے چنے ہوئے سامان کو کہتے ہیں (منجد) اور تنضّدت الاسنان بمعنی دانتوں کا با ترتیب ہونا (منجد) گویا نضد اس طرح اکٹھا کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی سلیقہ اور ترتیب پائی جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ النَّخۡلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلۡعٌ نَّضِیۡدٌ (سورۃ ق آیت 10)
اور لمبے لمبے کھجور کے درخت جنکا گابھا تہ بہ تہ ہوتا ہے۔

5: کسف

کسفۃ کے معنی کس متخلخل جسم مثلاً بادل یا روئی وغیرہ کا ٹکڑا ہے جس کی جمع کسف آتی ہے۔ اور کسفا ایسے متخلخل ٹکڑوں کو، خواہ وہ چھوٹے بڑے ہوں، ایک دوسرے کے اوپر تہ لگا دینے کو کہتے ہیں (مف) ارشاد باری ہے:
اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 48)
اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں۔ پھر اللہ اسکو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اسکے بیچ میں سے بارش کی بوندیں نکلنے لگتی ہیں پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے تو اسی وقت وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

ماحصل:​

  • طباق: ایک چیز کے اوپر اس کے برابر دوسری چیز رکھنا۔
  • رکم: بغیر کسی نظم و ترتیب کے کسی چیز کا اوپر نیچے یا آگے پیچھے ڈھیر لگا دینا۔
  • تراکب: اس طرح نظم و ضبط سے اوپر نیچے یا آگے پیچھے رکھنا کہ وہ جڑی ہوئی ہوں۔
  • نضد: قرینے سے اشیا کا اوپر نیچے رکھنا اور سجانا۔
  • کسف: متخلخل اجسام مثلاً روئی، بادل وغیرہ کو اوپر نیچے رکھنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تھکنا​

کے لیے سئم، نصب، عیّ، لغب، حسر، اور اد (اود) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سئم

کسی چیز کے زیادہ عرصہ تک رہنے کی وجہ سے اس سے کبیدہ خاطر یا دل برداشتہ ہونا (مف) اکتا جانا، کسی چیز سے دل کا اچاٹ ہو جانا، کسی کام کو کرتے کرتے دل بھر جانا۔ یہ تھکنے کی ابتدائی حالت ہے: ارشاد باری ہے:
لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 49)
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر اسکو تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو جاتا ہے آس توڑ بیٹھتا ہے۔

2: نصب

کے لغوی معنی گاڑنا ہے۔ اور علم یعلم باب سے ہو تو الٹ معنی پیدا ہو جاتے ہیں یعنی انسان تھکاوٹ کی وجہ سے اپنا جسم مستوی اور قائم نہ رکھ سکے (م ل) لہذا نصب بمعنی سخت محنت کرنا، نیز بمعنی محنت کی وجہ سے تھکاوٹ۔ شدّۃ التعب (ف ل 48) قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا (سورۃ الکہف آیت 62)
جب آگے چلے تو موسٰی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارا کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہو گئ ہے۔

3: لغب

کام یا محنت کی زیادتی کی وجہ سے تھک جانا اور کمزور ہو جانا (م ل) درماندہ ہونا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ (سورۃ ق آیت 38)
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو مخلوقات ان میں ہے سب کو چھ دن میں بنا دیا اور ہمکو ذرا بھی تھکن نہیں ہوئی۔

4: عیّ

تھکاوٹ کی وجہ سے مزید کام نہ کر سکنا اور عاجز و درماندہ ہونا۔ العیّ اور العیّان تھکے ہوئے اور داء عیاء لا علاج مرض کو کہتے ہیں (منجد) ارشاد باری ہے:
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ لَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیَِۧ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ الاحقاف آیت 33)
کیا انہوں نے نہیں سمجھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ انکے پیدا کرنے سے تھکا نہیں۔ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ ہاں کیوں نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

5: حسر

العیّ سے اگلا درجہ ہے (ف ل 110) یعنی تھکاوٹ کی وجہ سے سخت لاچار ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ (سورۃ الملک آیت 4)
پھر بار بار نظر کر تو نظر ہر بار تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔

6: اد (یؤد)

کے اصل معنی بوجھ اور گراں باری کی وجہ سے تھک جانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ‌‌ۚ وَلَا يَـٔـُوۡدُهٗ حِفۡظُهُمَا ‌ۚ وَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡعَظِيۡمُ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے انکی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ ہے جلیل القدر ہے۔

ماحصل:​

  • سئم: کسی کام سے طبیعت اکتا جانا۔
  • نصب: تھکاوٹ کی وجہ سے جسم مستوی نہ رکھ سکنا۔
  • لغب: تھکاوٹ کی وجہ سے کمزور ہو جانا۔
  • عیّ: تھکاوٹ کی وجہ سے مزید کام کرنے سے عاجز ہونا۔
  • حسر: تھکاوٹ اور عاجزی میں عیّ سے اگلا درجہ۔
  • اد: بوجھ اور گراں باری کی وجہ سے تھکنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تھمنا (رکھنا)​

کے لیے سکن، سکت اور رھوا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سکن

حرکت کے بعد ٹھہراؤ کو سکون کہتے ہیں۔ ظاہری اور معنوی دونوں طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ضد علی الترتیب حرکت اور اضطراب ہے (مف) ارشاد باری ہے:
اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ فَیَظۡلَلۡنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (سورۃ الشوری آیت 33)
اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔ کہ جہاز اسکی سطح پر کھڑے رہ جائیں۔ ہر صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے ان باتوں میں قدرت کے نمونے ہیں۔

2: سکت

بمعنی خاموش رہنا (منجد) باتیں کرتے کرتے چپ ہو جانا (مف) ٹھہر جانا، تھم جانا اور سکیت اور ساکوت اس شخص کو کہتے ہیں جو زیادہ چپ رہنے والا ہو۔ اور سکت الغضب بمعنی غصہ کا فرو ہونا ہے (منجد) قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ (سورۃ الاعراف آيت 154)
اور جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو تورات کی تختیاں اٹھا لیں۔ اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ہدایت اور رحمت تھی۔

3: رھوا

رھا یرھوا بمعنی نرم رفتار سے چلنا۔ اور رھا البحر بمعنی سمندر کا سکون پذیر ہونا (منجد) یعنی پانی میں موجوں اور لہروں کا تھم جانا۔ اور بمعنی ہموار قطعہ زمین میں جمع شدہ پانی (مف) قرآن میں ہے:
وَ اتۡرُکِ الۡبَحۡرَ رَہۡوًا ؕ اِنَّہُمۡ جُنۡدٌ مُّغۡرَقُوۡنَ (سورۃ الدخان آیت 24)
اور سمندر سے کہ ٹھہرا ہوا ہو گا پار ہو جانا تمہارے بعد وہ پورا لشکر ڈبو دیا جائے گا۔

ماحصل:​

  • سکن: کا استعمال عام ہے۔ ہر چیز کی حرکت کے بعد تھمنے کو سکون کہتے ہیں۔
  • سکت: بولتے بولتے تھم جانے کے لیے۔
  • رھوا: پانی پر لہروں اور موجوں کے تھمنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تھوڑا​

کے لیے قلیل، فتیل، نقیر، قطمیر اور فواق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قلیل

اس کی ضد کثیر ہے۔ یعنی زیادہ کے مقابلے میں کم، اس کا استعمال عام ہے۔ مقدار، وزن، فاصلہ، مدت وغیرہ سب جگہ استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ (سورۃ البقرۃ آیت 41)
اور میری آیتوں میں تحریف کر کے انکے بدلے تھوڑی سی قیمت یعنی دنیاوی منفعت نہ حاصل کرو اور مجھی سے خوف رکھو۔
نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا (عثمانیؒ)

2: فتیل

فتل بمعنی رسی وغیرہ بٹنا۔ اور فتیل بٹی ہوئی رسی کو کہتے ہیں۔ اس کی مونث فتیلۃ ہے جس کے معنی وہ بتی جس سے چراغ روشن کیا جاتا ہے۔ نیز فتیلۃ اس باریک دھاگے کو بھی کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے (منجد) اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 49)
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں نہیں بلکہ اللہ ہی جسکو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے۔ اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔

3: نقیر

نقر الطیر بمعنی پرندہ نے چونچ لگائی۔ اور نقر الطیر الحب بمعنی پرندے نے دانہ چنا۔ منقار بمعنی چونچ اور نقیر کھجور کی گھٹی میں چھوٹے سے گول نشان کو کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کی شکل ایسی ہوتی ہے جیسے کسی پرندے نے چونچ لگائی ہو۔ اور نقیر سے مراد بھی بہت ہی قلیل مقدار لی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡکِ فَاِذًا لَّا یُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 53)
کیا انکے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے اس صورت میں تو یہ لوگوں کو تِل برابر بھی نہ دیں گے۔

4: قطمیر

کھجور کی گٹھی کے اوپر باریک سا پردہ یا جھلی (منجد) اور اس لفظ سے انتہائی قلیل مقدار مراد ہے جو نہ ہونے کے برابر ہو۔ محاورہ ہے "ما اصبت عنہ قطمیرا" یعنی اسے مجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِیۡرٍ (سورۃ فاطر آیت 13)
اور جن لوگوں کو تم اسکے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں۔

5: فواق

دو دفعہ دوہنے کے درمیان کاوقت۔ دوہنے والے کے ہاتھ سے تھنوں کو دبانے اور ہاتھ کھولنے کے درمیان کا وقت (منجد) اس سے مراد قلیل وقت یا مدت لی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا یَنۡظُرُ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنۡ فَوَاقٍ (سورۃ ص آیت 15)
اور یہ لوگ تو صرف ایک زور کی آواز کا جس میں شروع ہونے کے بعد کچھ وقفہ نہیں ہو گا انتظار کرتے ہیں۔

ماحصل:​

  • قلیل: ہر زیادہ چیز کے مقابلہ میں تھوڑی کے لیے۔ اس کا استعمال عام ہے۔
  • فتیل: تھوڑی سی مقدار کے لیے۔
  • نقیر: بہت تھوڑی مقدار کے لیے۔
  • قطمیر: اتنی تھوڑی مقدار جو نہ ہونے کے برابر ہو۔
  • فواق: بہت تھوڑی مدت یا وقفہ کے لیے آتا ہے۔
نوٹ: اسی طرح قرآن میں خردل (رائی کا دانہ) اور ذرۃ بھی انتہائی قلیل مقدار ظاہر کرنے کے لیے آئے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تیار کرنا​

کے لیے ھیّا، اعتد، اعدّ اور جھّز کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ھیّیء

(ھاء یھیئ) ھیئۃ کسی چیز کی حالت محسوسہ کو کہتے ہیں (مف) اور ھیّا بمعنی موافقت کرنا، درست کرنا، تیار کرنا (منجد) یعنی کسی کام کی سر انجام دہی کے لیے اس کے موافق اسباب تیار کرنا اور انہیں درست کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذِ اعۡتَزَلۡتُمُوۡہُمۡ وَمَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ یَنۡشُرۡ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیُہَیِّیٔۡ لَکُمۡ مِّنۡ اَمۡرِکُمۡ مِّرۡفَقًا (سورۃ الکہف آیت 16)
اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جنکی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کر لیا ہے تو غار میں چل رہو۔ تمہارا پروردگار تمہارے لئے اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے کاموں میں آسانی کے سامان مہیا کرے گا۔

2: اعتد

العتاد اس سامان کو کہتے ہیں جو کسی مقصد کے لیے تیار کیا جائے اور عتد بمعنی آمادہ ہونا، تیار ہونا، اور اعتد بمعنی تیار کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعۡتَدۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا (سورۃ الکہف آیت 102)
اب کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا اپنا کارساز بنائیں گے تو ہم خفا نہیں ہونگے ہم نے ایسے کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے۔

3: اعدّ

بمعنی تیار کرنا، حاضر کرنا (منجد) یعنی تیار کر کے سامنے لا کھڑا کرنا۔ عدّ بمعنی گننا اور شمار کرنا ہے۔ اور اعدّ بمعنی اس کی تیاری سے متعلق ایک ایک چیز کو مکمل کر کے سامنے حاضر کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 24)
پھر اگر ایسا نہ کر سکو اور ہر گز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے اور جو کافروں کے لئے تیار کی گئ ہے۔
اکثر اہل لغت اعتدا کو بھی عدد کے تحت لے آتے ہیں۔ امام راغب کے نزدیک اعتدنا دراصل اعددنا تھا پہلی (د) (ت) سے بدل گئی تو اعتدنا ہو گیا (مف) گویا اکثر اہل لغت کے نزدیک اعدۃ اور اعتد دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

4: جھزّ

جھاز مسافر کا وہ سامان ہے جو تیار کر کے رکھا جائے۔ اور جھزّ بمعنی تیار شدہ سامان کو لادنا اور بھیجنا (مف) عموماً اس لفظ کا اطلاق یا تو میت کے لیے ہوتا ہے۔ تجہیز و تکفین مشہور لفظ ہے یا پھر مسافر کا سامان تیار کرنے کے لیے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 70)
پھر جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے تھیلے میں آبخورہ رکھ دیا پھر جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔

ماحصل:​

  • ھیّا: کسی چیز کی تیاری میں سامان کا موافقت کرنا۔
  • عتد: تیاری سے متعلقہ سامان تیار کر رکھنا۔
  • اعدّ: سب کچھ مکمل کر کے سامنے لا کر حاضر کرنا۔
  • جھّز: مسافر یا میت کا سامان تیار کرنا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تیر​

کے لیے سھم اور زلم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سھم

عام تیر کو بھی کہتے ہیں اور جوئے کے تیر کو بھی جس سے قرعہ نکالتے ہیں جمع سھام اور ساھم بمعنی قرعہ اندازی کرنا۔ اور تساھم بمعنی کسی چیز کو آپس میں بانٹ لینا ہے سھم بمعنی بانٹا ہوا حصہ ۔نصیب، قسمت (م ق) قرآن میں ہے:
فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِیۡنَ (سورۃ الصافات آیت 141)
پھر انہوں نے قرعہ ڈلوایا تو ٹھہرے پھینکے جانے والے۔

2: زلم

بے پر کا تیر، فال لینے کا تیر (جمع ازلام) (منجد) وہ چھوٹا سا تیر جس میں ریش اور نصل نہ ہو (م ق) پانسہ۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 90)
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تیز​

کے لیے حدید اور حداد اور سلق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حدید اور حداد

حد بمعنی کسی چیز کا آخری کنارا جو اسے دوسری چیزوں سے علیحدہ کر دے اور حدّ السیف والسکین بمعنی تلوار یا چھری کی دھار تیز کرنا۔ اور حدید بمعنی لوہا بھی اور تیز بھی۔ حدید الفھم بمعنی تیز فہم اور حدید النظر بمعنی تیز نظر والا ہے۔ قرآن میں ہے:
لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ (سورۃ ق آیت 22)
یہ وہ دن ہے کہ اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔ اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔
اور حدید اللسان بمعنی تیز زبان اور حدید کی جمع حداد ہے۔

2: سلق

بمعنی قہر اور غلبہ کے ساتھ دست درازی یا زبان درازی کرنا ہے۔ اور سلق اللسان بمعنی زبان کو تیزی سے چلانا (منجد) ارشاد باری ہے:
فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ (سورۃ الاحزاب آیت 19)
پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں باتیں کریں اور مال میں بخل کریں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تیل​

کے لیے زیت، دھن اور دھان کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زیت

زیتون کے درخت کے تیل کو زیت اور پھل کو زیتونۃ کہتے ہیں (مف) اور زات الطعام بمعنی کھانے میں زیتون کا تیل ڈالا یا اس کو زیتون کے تیل سے مرغن کیا۔ اور یہ تیل جلانے کے لحاظ سے بہت عمدہ تیل ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ (سورۃ النور آیت 35)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے۔

2: دھن

بمعنی تیل، روغن، چکنائی یہ لفظ عام ہے۔ خواہ وہ روغن، یا تیل کسی قسم کا ہو، نباتاتی ہو یا حیواناتی۔ اور دھن اور ادھن بمعنی دھوکا دینا، منافقت کرنا اور تدھّن بمعنی تیل سے چکنا کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ شَجَرَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَیۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ وَ صِبۡغٍ لِّلۡاٰکِلِیۡنَ (سورۃ المومنون آیت 20)
اور وہ درخت بھی ہم ہی نے پیدا کیا جو طور سینا کے دامن میں ہوتا ہے یعنی زیتون کا درخت کہ کھانے کے لئے روغن اور سالن لئے ہوئے اگتا ہے۔

3: دھان

بمعنی تیل کی تلچھٹ، پھسلنے کی جگہ، وارنش، پینٹ (منجد) ارشاد باری ہے:
فَاِذَا انۡشَقَّتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ وَرۡدَۃً کَالدِّہَانِ (سورۃ الرحمن آیت 37)
پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہو جائے گا تو وہ کیسا ہولناک دن ہوگا۔

ماحصل:​

زیت صرف زیتون کے تیل کو کہتے ہیں اور دھن زیت سمیت ہر قسم کے تیل کو۔ اور تیل خواہ کسی قسم کا ہو اس کا تلچھٹ دھان ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

تیوری چڑھانا​

کے لیے عبس، کلح اور بسر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عبس

بمعنی چیں بہ جبیں ہونا۔ دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی میں سلوٹ پڑ جانا۔ یہ پہلا درجہ ہے۔ (ف ل 139) قرآن میں ہے:
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی (سورۃ عبس آیت 1، 2)
پیغمبر ﷺ نے ترش رو ہوئے اور منہ پھیر لیا۔ کہ انکے پاس ایک نابینا آیا۔

2: کلح

یہ عبس کا اگلا درجہ ہے۔ چہرہ پر سلوٹیں پڑ جانا کہ شکل بگڑ جائے (ف ل 139) اور بعض کے نزدیک ہونٹوں کو اس طرح اوپر نیچے کرنا کہ دانت نظر آنے لگیں اور چہرہ بد نما نظر آئے (م ق) قرآن میں ہے:
تَلۡفَحُ وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ وَ ہُمۡ فِیۡہَا کٰلِحُوۡنَ (سورۃ المومنون آیت 104)
آگ انکے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اس میں بدشکل ہو رہے ہوں گے۔​

3: بسر

عبس کا آخری درجہ۔ جب تیوری چڑھانے کا عمل انتہا کو پہنچ جائے تو بسر کہلائے گا۔ ترش رو ہونا (ف ل 139) قرآن میں ہے:
ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ (سورۃ مدثر آیت 21، 22)
پھر اس نے نگاہ کی۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔
 
Top