تنگدستی
کے لیے فقر، مسكنة ، عَيْلَة (عیل) املاق، قتر، باساء اور متربۃ کے الفاظ آئے ہیں۔1: فقر
بمعنی مفلسی، ناداری۔ فقر اور فقرہ ریڑھ کی ہڈی کے منکے کو کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع فقار ہے۔ فقرہ یعنی ریڑھ کی ہڈی۔ اور فقر ریڑھ کی ہڈی یا کمر توڑنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کہتے ہیں فقرته الداهية اس پر ایسی مصیبت نازل ہوئی جس نے اس کی کمر کی ہڈی کو توڑ دیا (منجد) گویا فقر کمر توڑنے والی یا انتہائی مفلسی کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 32)
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔
2: مسكنة
مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر ہوں (ف ل 65) بعض کے نزدیک مسکین وہ ہے جو بمشکل گزر بسر تو کر رہا ہو لیکن اس کی ملکیت کچھ نہ ہو یعنی رہائش بھی نہ ہو۔ اہل لغت کا اس بات میں اختلاف ہی رہا ہے کہ آیا معاشی طور پر فقیر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے یا مسکین۔ تاہم قرآن کے انداز بیان سے نہیں ظاہر ہوتا ہے کہ فقیر ہی زیادہ محتاج اور تنگدست ہے۔ ارشاد باری ہے:اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 60)
صدقات یعنی زکوٰۃ و خیرات تو مفلسوں اور ناداروں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جنکے دل جیتنا منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے یہ مصارف اللہ کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
آیت بالا میں فقر کا لفظ مسکین سے پہلے استعمال ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے اور آیت ذیلصدقات یعنی زکوٰۃ و خیرات تو مفلسوں اور ناداروں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جنکے دل جیتنا منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے یہ مصارف اللہ کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔
سے ثابت ہوتا ہے کہ مسکین مالک ہو سکتا ہے۔کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔
3: عيلة
عول ہر وہ چیز ہے جو انسان کو گراں بار کر دے اور اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ اور عیال سے مراد وہ افراد ہیں جن کے اخراجات زندگی کے لیے انسان ذمہ دار ہونے کی وجہ سے بوجھ تلے دبا ہوا ہو (مف) گویا عیلہ وہ مفلسی اور محتاجی ہے جو عیال کی وجہ سے ہو۔ ارشاد باری ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 28)
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے۔
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے۔
4: املاق
دراصل مفلسی اور محتاجی کو نہیں کہتے، بلکہ اس اندیشے کو کہتے ہیں کہ جو مال و دولت موجود ہے وہ کہیں خرچ ہو کر ختم نہ ہو جائے۔ کہا جاتا ہے۔ املق الدهر مللہ زمانہ نے اس کے مال کو ہاتھ سے نکال دیا (منجد) اور املق بمعنی موجود مال و دولت کا ہا تھ سے نکل جانا۔ ارشاد باری ہے:وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 31)
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔
یہی مفہوم ایک دوسری آیت میں خشیت انفاق سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔
5: قتر
بمعنی احتیاج، مفلسی اور ناداری بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 236)
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔
لیکن اہل لغت اس کے معنی "اپنے عیال پر نفقہ کو تنگ کر دینا" (م ا، م ق) بتلاتے ہیں۔ یعنی مقتر وه شخص ہے جو فی الواقع تنگ دست نہیں ہوتا لیکن اپنی حیثیت کے مطابق اپنے عیال پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ اور ان معنوں میں بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے:اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (سورۃ الفرقان آیت 67)
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیجا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیجا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔
6: باسآء
بئس یبئس بمعنی سخت حاجت مند ہونا اور باس بمعنی عذاب، جنگ اور بھوک (منجد) اور باسآء عموماً مالی مشکلات کے دور اور فقر و فاقہ کے لیے آتا ہے اور اس کی ضد سراء بمعنی خوشحالی اور مسرت کا دور۔ یعنی مسرة في اليسر (م ق) اور باساء بمعنی ایسی تکلیف جس میں خوف بھی شامل ہو۔ (فق ل ۱۶۳) ارشاد باری ہے:لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ (سورۃ الحج آیت 28)
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور قربانی کےایام معلوم میں مویشی چوپایوں کے ذبح کے وقت جو اللہ نے انکو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔ اب اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور خستہ حال ضرورت مند کو بھی کھلاؤ۔
اسی طرحتاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور قربانی کےایام معلوم میں مویشی چوپایوں کے ذبح کے وقت جو اللہ نے انکو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔ اب اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور خستہ حال ضرورت مند کو بھی کھلاؤ۔
مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ (سورۃ البقرۃ آیت 214)
ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں
سے مراد معاشی بدحالی اور ضراء سے مراد دوسرے شدائد ہیں۔ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں
7: متربة
تُراب بمعنی خشک مٹی اور ترب (یترب تربا متربا) الرجل بمعنی آدمی اتنا غریب ہوا کہ خاک میں مل گیا (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ضمیمہ 1/3 لغت اضداد (تحت، ترب) قرآن میں ہے:اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ (سورۃ البلد آیت 14 تا 16)
یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا۔ کسی رشتہ دار یتیم کو۔ یا مٹی میں پڑے کسی نادار کو۔
یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا۔ کسی رشتہ دار یتیم کو۔ یا مٹی میں پڑے کسی نادار کو۔
ماحصل:
- فقر: انتہائی تنگدستی۔
- مسکنت: بمشکل گزر بسر کرنا۔
- عیلۃ: عیال کے خرچ تلے دب جانا۔
- املاق: تنگدست ہونے کی فکر رہنا۔
- قتر: اپنے عیال پر خرچ کرنے میں بخل کرنا۔
- باساء: فقر و فاقہ کا دور۔
- متربۃ: غربت کی وجہ سے خاک میں رل جانا۔