مترادفات القرآن (ر)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رات​

کے لیے لیل اور بیات کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: لیل

رات (ضد نھار بمعنی دن) معروف لفظ ہے۔ غروب آفتاب سے لے ک طلوع آفتاب تک کا وقت۔ اور قرآن میں بہت مقامات پر لیل و نہار کا یکجا ذکر ہوا ہے۔ رات کو 12 گھڑیوں یا 12 گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان گھڑیوں کے بالترتیب نام یہ ہیں۔
شفق، غسق، عتمہ، دقۃ، فحمہ، زلفۃ، زلقۃ، بھرۃ، سحر، فجر، صبح، صباح (فل 292)۔

2: بیاتا

بات بمعنی رات گزرانا، شب بسری کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (سورۃ الفرقان آیت 64)
اور وہ جو اپنے پروردگار کے آگے سجدے کر کے اور عجزوادب سے کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔
اور بیاتا بمعنی رات کے دوران کسی بھی وقت، سوتے میں، حالت خواب میں۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوۡ نَہَارًا مَّاذَا یَسۡتَعۡجِلُ مِنۡہُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 50)
کہدو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر ناگہاں آجائے رات کو یا دن کو تو پھر گناہگار کس بات کی جلدی کرتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رات کے کام​

کے لیے بات، بیّت، اسری، طرق، نفش اور تھجّد کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: بات

بمعنی رات گزرانا، شب بسری کرنا، اور وہ جگہ جہاں رات گزاری جائے، وہ بیت (یعنی گھر) ہے (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (سورۃ الفرقان آیت 64)
اور وہ جو اپنے پروردگار کے آگے سجدے کر کے اور عجزوادب سے کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔

2: بیّت

بمعنی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر گھر پر جمع ہو کر کسی معاملہ میں مشورہ کرنا (م ل)۔ قرآن میں ہے:
یَّسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمۡ اِذۡ یُبَیِّتُوۡنَ مَا لَا یَرۡضٰی مِنَ الۡقَوۡلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطًا (سورۃ النساء آیت 108)
یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے حالانکہ جب یہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جنکو وہ پسند نہیں کرتا تو وہ انکے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ اور اللہ انکے تمام کاموں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
نیز بیّت بمعنی رات کو دشمن پر اچانک حملہ کر دینا۔ شب خون مارنا (مف) بھی ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَالُوۡا تَقَاسَمُوۡا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَ اَہۡلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوۡلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدۡنَا مَہۡلِکَ اَہۡلِہٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 49)
کہنے لگے کہ اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو اس پر اور اسکے گھر والوں پر شبخون ماریں گے۔ پھر اسکے وارثوں سے کہدیں گے کہ ہم تو اسکے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر تھے ہی نہیں اور ہم سچ کہتے ہیں۔

3: اسری

بمعنی رات کو سیر کرانا، لے چلنا، لے نکلنا۔ ارشاد باری ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 1)
وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔

4: طرق

طریق کے معنی راستہ اور طارق کے معنی راستہ پر چلنے والا۔ مگر عرف عام میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات کو آئے۔ اور ستارے کو طارق کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عموماً رات کو ظاہر ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ (سورۃ الطارق آیت 1)
آسمان کی اور رات کے وقت آنے والے کی قسم۔
اس آیت میں طارق سے مراد ستارے بھی ہو سکتے ہیں اور رات کو آنے والا مہمان بھی۔

5: نفش

نفش الغنم بمعنی رات کے وقت بکریوں کا بغیر چرواہے کے چرنے کے لیے منتشر ہونا۔ اور النّفش ان بکریوں کو کہتے ہیں جو رات کو بغیر چرواہے کے چرنے کے لیے منتشر ہو گئی ہوں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 78)
اور داؤد اور سلیمان کا حال بھی سن لو کہ جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کر چر گئیں اور اسے روند گئ تھیں اور ہم انکے فیصلے کے گواہ تھے۔

6: تھجّد

ھجد بمعنی رات کو سونا بھی اور جاگنا بھی (لغت اضداد) اور ھجد اور تھجّد بمعنی رات کو سلانا بھی اور جگانا بھی، نیند سے جگانا، رات کو سونا، رات کو جاگ کر نماز پڑھنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 79)
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے ایک اضافی عمل ہے امید ہے کہ اللہ تمکو مقام محمود پر فائز فرمائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

راہ – راستہ​

کے لیے صراط، طیرق، سبیل، فجّ، امام (ام)، ھدی، نجد اور سبب کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: طریق

(جمع طرائق) یہ لفظ ہر طرح کے راستہ کے لیے استعمال ہوتا ہے (فل 269) اس لفظ کا استعمال بھی مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی طور پر استعمال کی مثال یہ ہے:
وَ لَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخۡشٰی (سورۃ طہ آیت 77)
اور ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ پھر انکے لئے سمندر میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ فرعون کے آ پکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ غرق ہونے کا ڈر۔
اور معنوی کی مثال یہ ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ظَلَمُوۡا لَمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا اِلَّا طَرِیۡقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 128، 129)
جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم کرتے رہے اللہ انکو بخشنے والا نہیں اور نہ انہیں رستہ ہی دکھائے گا۔ ہاں سوائے دوزخ کے رستے کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔

2: صراط

صراط لمبی اور تیز دھار تلوار کو کہتے ہیں (منجد) اور وہ راستہ جو جہنم کو عبور کرنے کے لیے بنایا جائے گا جسے عام طور پر پل صراط کہ جاتا ہے۔ اس کی بھی یہی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ تلوار سے تیز اور بال سے باریک ہو گا۔ گویا صراط وہ راستہ ہے جسے انتہائی حزم و احتیاط سے طے کرنا پڑے۔ اور جس کے ارد گرد بہت خطرات ہوں۔ اس انتہائی حزم و احتیاط سے راستہ طے کرنے کا نام تقوی ہے۔ صراط کا یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ معنوی صورت میں اس کا مفہوم بالعموم ہدایت کا راستہ ہوتا ہے۔ اور ابو ہلال کے نزدیک صراط سہل راستہ کو کہتے ہیں (فق ل 246) واللہ اعلم۔ ارشاد باری ہے:
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (سورۃ الفاتحہ آیت 5)
ہم کو سیدھے رستے چلا۔
اور مادی طور پر استعمال کی مثال یہ ہے:
وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا (سورۃ الاعراف آیت 86)
اور ہر رستے پر مت بیٹھا کرو کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اسے تم ڈراتے اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔

3: سبیل

ہر وہ راستہ جس پر بسہولت چل سکیں (مف) ابن السبیل بمعنی مسافر اور عابری سبیل (سورۃ البقرۃ آیت 177) بمعنی راہ گیر (جمع سبل) اور سبیل بمعنی کھلی سڑک۔ اسبل الطریق بمعنی راستہ کا بہت آمد و رفت والا ہونا۔ اور اسبل الدمع والمطر بمعنی آنسو یا بارش کا بکثرت بہنا اور برسنا۔ گویا سبیل ایسے راستہ کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے آمد و رفت ہوتی ہو (منجد)۔
اللہ تعالی شہد کی مکھی سے فرماتے ہیں:
ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 69)
پھر ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے بیشک سوچنے والوں کے لئے اس میں بھی نشانی ہے۔
یہاں سبل سے مراد وہ فطری رہنمائی ہے جو اللہ تعالی نے ہر چیز میں ودیعت کر رکھی ہے اور جن پر بآسانی چلا جا سکتا ہے۔ اور سب یکساں چلتی ہیں۔ اس لفظ کا استعمال بھی معنوی اور مادی دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ اوپر کی مثال معنوی صورت ہے اور مادی کی مثالی یہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّہَا لَبِسَبِیۡلٍ مُّقِیۡمٍ (سورۃ الحجر آیت 76)
اور وہ بستیاں اب تک شام جانے والے سیدھے رستے پر موجود ہیں۔
اب دیکھیے کہ اللہ تعالی نے اس "ہدایت کے راستہ" کے لیے قرآن کریم میں طریق، صراط اور سبیل تینوں لفظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ طریق اس لحاظ سے ہے کہ طریق کا لفظ عام ہے جو ہر راستہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صراط اس لحاظ سے ہے کہ اوامر و نواہی کی حدود و قیود میں گھرا ہوا ہے۔ اور سبیل اس لحاظ سے ہے کہ جو شخص عزم کے ساتھ اس رستے پر چل کھڑا ہوتا ہے تو شریعت نے اس کے لیے ہر طرح کی آسانیوں کو ملحوظ رکھا ہے اور اس پر چلنے والے افراد کی تعداد بھی کافی ہے۔

4: فجّ

فجّۃ دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو اور فجوۃ دو پہاڑوں کے درمیان کے میدان کو اور فجّ اس کھلے راستے کو کہتے ہیں جو اس میدان میں سے گزر کر ان دونوں پہاڑوں کو ملاتا ہے (فجّ کی جمع فجاج ہے) (سورۃ نوح آیت 20) ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ (سورۃ الحج آیت 27)
اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کر دو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہوں سوار ہو کر چلے آئیں۔

5: امام

امام بمعنی پیشوا اور بمعنی شاہراہ، بڑی اور کھلی سڑک (منجد)۔ قرآن میں ہے:
فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ ۘ وَ اِنَّہُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ الحجر آیت 79)
تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا اور یہ دونوں شہر کھلے رستے پر موجود ہیں۔

6: نجد

بمعنی گھاٹی اور بمعنی وہ راستہ جو اوپر بلندی کی طرف چڑھتا ہے یا اوپر سے نیچے آتا ہے (فل 269)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ (سورۃ البلد آیت 10، 11)
یہ چیزیں بھی دیں اور اسکو خیر و شر کے دونوں رستے بھی دکھا دیئے۔ مگر یہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گذرا۔

7: ھدی

(ضد ضللۃ) رہنمائی اور راہ۔ اگر کسی بھولے بھٹکے انسان کو صحیح راہ مل جائے تو اسے ھدی کہا جائے گا۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی (سورۃ طہ آیت 10)
جب انہوں نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں شاید اس میں سے میں تمہارے پاس انگارہ لاؤں یا آگ کے مقام سے اپنا رستہ معلوم کر سکوں۔

8: سبب

(جمع اسباب) بمعنی ذریعہ، رسی، راستہ (منجد) راستہ اور اسے طے کرنے کے وسائل، سامان سفر (مف)۔ قرآن میں ہے:
ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا (سورۃ الکہف آیت 89)
پھر اس نے ایک اور سامان سفر کیا۔
وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ (سورۃ مؤمن آیت 36)
اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بناؤ تاکہ میں اس پر چڑھ کر رستوں پر پہنچ جاؤں۔

ماحصل:

  • طریق: راستہ کے لیے عام لفظ
  • صراط: ایسا راستہ جس پر محتاط ہو کر چلنا پڑے۔
  • سبیل: ایسا رستہ جس پر بسہولت چل سکیں اور کافی آمد و رفت رہتی ہو۔
  • فجّ: دو پہاڑوں کا درمیانی کھلا راستہ۔
  • امام: شاہراہ، کھلی سڑک۔
  • نجد: کسی گھاٹی پر چڑھنے اور اترنے والی راہ۔
  • ھدی: بھولے بھٹکے انسان کو اگر ٹھیک رستہ مل جائے۔
  • سبب: رستہ بمعہ سامان، رستہ اور ذرائع۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

راہ ڈالنا – رائج کرنا​

کے لیے سنّ، شرع اور ابتدع کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: سنّۃ

سنّ بمعنی کسی چیز کا جاری یا رائج ہونا اور اس کا درست طور پر چلنا (م ل) لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد نبوی ہے من سنّ سنّۃ۔۔۔۔۔ الحدیث یعنی جن کسی نے کوئی طریقہ رائج کیا۔۔۔۔ اچھے اور برے مفہوم دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور جب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو ا سے مراد قانون الہی یا عادت الہی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا (سورۃ فاطر آیت 43)
سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔

2: شرع

بمعنی واضح اور متعین راستہ، لیکن اس کا اطلاق صرف احکام الہیہ پر ہوتا ہے (مف) اور شرع للقوم بمعنی قوم کے لے قانون بنانا۔ اور شریعت بمعنی اسلامی قانون، خدائی احکام، ضابطہ (منجد)۔ شرع دراصل ایسے قوانین ہیں جن میں اللہ تعالی اقتضات زمانہ کے مطابق تبدیلی فرماتے رہے ہیں (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "طریقہ" اور "دین")۔ ارشاد باری ہے:
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا (سورۃ شوری آیت 13)
اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جسکے اختیار کرنے کا حکم نوح کو دیا تھا۔
تاہم لغوی لحاظ سے اس لفظ کی نسبت غیر اللہ اور معبودان باطل کی طرف بھی ہو سکتی ہے، جیسے فرمایا:
اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃُ الۡفَصۡلِ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ شوری آیت 21)
کیا انکے ایسے شریک ہیں جنہوں نے انکے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اور اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا۔ اور جو ظالم ہیں انکے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔

3: ابتدع

الابداع بمعنی کسی کی تقلید اور اقتدا کے بغیر کوئی چیز ایجاد کرنا۔ اور بدعت ہر وہ نئی رسم و رواج ہے جس کو دین کی بات سمجھ کر اس میں داخل کر دیا جائے اور شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ اور ابتدع بمعنی شریعت میں کسی نئی بات کو اس کا جزو قرار دے کر داخل کر دینا۔ اور ارشاد نبوی ہے کہ ہر بدعت خواہ وہ کتنی ہی اچھی معلوم ہو سراسر گمراہی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا (سورۃ الحدید آیت 27)
اور ترک دنیا والی نئی بات تو خود انہوں نے نکال لی ہم نے انکو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر انہوں نے اپنے خیال میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ ہی ایسا کر لیا تھا پھر جیسا اسکو نباہنا چاہیے تھا نباہ بھی نہ سکے۔

ماحصل:

  • سنّ: ہر اچھے اور برے طریقے کو رواج دینے کے لیے آتا ہے۔ البتہ شرعی اصطلاح میں سنۃ سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال و فرامین ہیں۔
  • شرع: اللہ تعالی کا بندوں کے لیے پیغمبر کے ذریعہ واضح اور متعین راہ مقرر کرنا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے مگر اب دین کا یہ حصہ بھی غیر متبدل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین تھے اور دین بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل کر دیا گیا۔
  • ابتدع: کسی رسم یا طریقہ کو شریعت کا حصہ سمجھ کر اس میں داخل کر دینا جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

راضی کرنا – ہونا​

کے لیے رضی، طوّع اور اعتب کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: رضی

معروف لفظ ہے یعنی کس سے راضی ہونا، خوش ہونا، پسندیدگی یا اس کا اظہار کرنا۔ ارشاد باری ہے:
رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ (سورۃ البیّنۃ آیت 8) (سورۃ المائدۃ آیت 119)
اللہ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔

2: طوّع

اطاع بمعنی دل کی خوشی سے حکم بجا لانا۔ اور طوّع بمعنی کسی مکروہ کام پر اپنے دل کو بہ تکلف رضا مند کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 30)
آخر اسکے یعنی قابیل کے نفس نے اسکو اپنے بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اس نے اسے قتل کر دیا پھر خسارہ پانے والوں میں ہو گیا۔

2: اعتب

عتب بمعنی کسی کو ملامت کرنا، ناراض ہونا۔ اور اعتب بمعنی سبب ناراضگی کو دور کرنا، روٹھے کو منانا (لغت اضدادا) اور عتاب بمعنی دوستی اور ہمدردی کے تعلقات ضائع کرنے پر خفگی کا اظہار (فق ل 39)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ یَّصۡبِرُوۡا فَالنَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّسۡتَعۡتِبُوۡا فَمَا ہُمۡ مِّنَ الۡمُعۡتَبِیۡنَ (سورۃ حم سجدۃ آیت 24)
اب اگر یہ صبر کریں گے تو بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے اور اگر توبہ کریں گے تو انکی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
اگر وہ منانا چاہیں تو منائے نہ جائیں گے۔ (عثمانیؒ)

ماحصل:

  • رضی: راضی ہونا، خوش ہونا، عام لفظ ہے۔
  • طوّع: کسی برے کام پر بہ تکلف رضا مند کرنا۔
  • اعتب: روٹھے ہوئے کو راضی کرنے کی نیت سے شکوہ و شکایت کرنا۔
راندہ کے لیے دیکھیے "دھتکارنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رتبہ – رتبہ پانا​

کے لیے درجہ، زلف، قرّب اور مکن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: درجۃ

بمعنی برتری، فضیلت، رتبہ، مرتبہ۔ درج کی ضد درک ہے۔ اور یہ دونوں الفاظ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں۔ سیڑھی کے زینوں پر اگر اوپر چھت کی طرف چڑھا جائے تو یہی زینے یا ڈنڈے درجات کہلاتے ہیں اور نیچے اترنے کے لحاظ سے یہی زینے درکات کہلاتے ہیں۔ اسی لیے درجات الجنّۃ اور درکات الناّر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے (مف) اور درجۃ سے مراد اتنی برتری یا فضیلت ہے جو ایک اڈے سے دوسرے تک ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 228)
اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے اور اللہ غالب ہے صاحب حکمت ہے۔

2: زلفی

بمعنی قدر و منزلت اور مرتبہ میں نزدیکی (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰی وَ حُسۡنَ مَاٰبٍ (سورۃ ص آیت 40)
اور بیشک ان کے لئے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ ٹھکانہ ہے۔
مگر یہ مادہ جب افعال باب میں جاتا ہے تو فاصلہ میں نزدیکی معنی بھی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَزۡلَفۡنَا ثَمَّ الۡاٰخَرِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 64)
اور دوسروں یعنی فرعونیوں کو وہاں ہم نے قریب کر دیا۔

3: قرّب

قرب بمعنی نزدیک ہونا، اور ایسا عمل کرنا جو رتبہ میں نزدیکی کا ذریعہ بنے۔ اور قربان وہ نذر و نیاز ہے جس کے ذریعہ رتبہ اور درجہ کا حصول مطلوب ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 27)
اور اے نبی انکو آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے حالات جو بالکل سچّے ہیں پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے بارگاہ الٰہی میں ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئ اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی اب قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی نیاز قبول فرمایا کرتا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ السّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ اُولٰٓئِکَ الۡمُقَرَّبُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 10، 11)
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں ان کا کیا کہنا وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں۔ وہی اللہ کے مقرب ہیں۔

4: مکن

بمعنی بلند مرتبہ ہونا۔ اور مکان بمعنی جگہ، جائے رہائش، ایسی جگہ جو جسم رکھتی ہو۔ اور مکّن بمعنی کسی کو اقتدار بخشنا، حکومت عطا کرنا اور مکین بمعنی کسی مکان میں رہنے والا بھی اور صاحب مرتبہ شخص بھی۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ (سورۃ التکویر آیت 19، 20)
کہ بیشک یہ قرآن اس فرشتہ عالی مقام کا سنایا ہوا پیغام ہے۔ جو صاحب قوت ہے مالک عرش کے ہاں اونچے درجے والا ہے۔

ماحصل:

  • درجۃ: فضیلت و برتری کی ایک منزل۔
  • زلفی: قدر و منزلت میں نزدیکی۔
  • قرّب: رتبہ عطا کر کے اپنا مقرب بنانا۔
  • مکن: جب درجہ کے ساتھ اختیار بھی حاصل ہو۔
رجوع کرنا کے لیے دیکھیے "لوٹنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رخ کرنا​

کے لیے توجّہ اور اقبل کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: اقبل

قبل المکان بمعنی کسی جگہ کی طرف رخ کرنا، قابل بمعنی آمنے سامنے یا بالمقابل ہونا، دو چیزوں کو آمنے سامنے رکھنا، مقابلہ کرنا اور قبّل بمعنی کو بوسہ دینا۔ اور اقبل بمعنی کسی ایسی چیز یا شخص کی طرف رخ کرنا جو سامنے ہو۔ ارشاد باری ہے:
فَاَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَلَاوَمُوۡنَ (سورۃ القلم آیت 30)
پھر لگے ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے ملامت کرنے۔

2: توجّہ

وجہ بمعنی چہرہ، منہ اور وجّہ بمعنی کسی کی طرف بھیجنا۔ اور توجّہ الیہ بمعنی متوجہ ہونا، رخ کرنا، منہ اس چیز کی طرف کر لینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ (سورۃ القصص آیت 22)
اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔

ماحصل:

قبل صرف کسی سامنے موجود چیز کی طرف رخ کرنے کے لیے آتا ہے جبکہ توجّہ عام ہے۔ یعنی کسی بھی چیز کی طرف رخ کرنا، دور ہو یا نزدیک۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رخصت کرنا – طلاق دینا​

کے لیے ودّع، سرح اور طلّق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
ودّع "چھوڑنا" میں اور سرّح اور طلّق "آزاد کرنا" میں دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ردی – ناکارہ​

کے لیے نکد، خمط، داحضۃ، ناقص اور بخس، خبیث، ادنی، مزجۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نکد

بمعنی قلیل الخیر جس میں بھلائی اور خوبی کا پہلو کم ہو (م ق) اور امام راغب کے الفاظ میں ہر وہ چیز جو اس کے طالب کو بڑی مشکل سے حاصل ہو۔ اور ناقۃ نکداء اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو دودھ بھی کم دیتی اور اسے دوہا بھی مشکل سے جا سکے (مف) اور نکد بمعنی کسی کو حاجت سے روک دینا، محروم کر دینا یا تھوڑا دینا۔ اور نکد الرجل بمعنی کسی کا بہت سوال کرنے والا اور کم بھلائی والا ہونا (منجد) گویا نکد وہ چیز ہے جو حاصل بھی مشکل سے ہو اور مقدار میں بھی کم ہو اور اس میں بھلائی بھی کم ہو یعنی تھوڑا اور ردی۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 58)
اور جو زمین پاکیزہ ہے اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے نفیس ہی نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگذار لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔

2: خمط

بمعنی ہر کھٹی یا کڑوی چیز، ہر درخت کا تھوڑا پھل، ہر لمبے کانٹے والا درخت (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ (سورۃ سباء آیت 16)
تو انہوں نے شکرگذاری سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب چھوڑ دیا اور انہیں انکے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جنکے میوے بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ کے پیڑ تھے اور تھوڑی سی بیریاں۔

3: داحضۃ

دحض بمعنی مذبوح جانور کی پاؤں پٹکنا۔ اور دحض الحجّۃ بمعنی دلیل کا باطل اور غلط ثابت ہونا۔ اور ادحض بمعنی دلیل کو باطل کرنا اور دحض بمعنی پھسلن، پھسلنی جگہ (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ حُجَّتُہُمۡ دَاحِضَۃٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ عَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ (سورۃ شوری آیت 16)
اور جو لوگ اللہ کے بارے میں بعد اسکے کہ اسے مومنوں نے مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا باطل ہے۔ اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔

4: ناقص

بمعنی نا مکمل۔ درھم ناقص بمعنی کم وزن کے درہم (منجد) یا کھوٹے درہم (م ق) نقص بمعنی کمی، عیب اور نقصان بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِیۡنَ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 130)
اور ہم نے فرعونیوں کو خشک سالیوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

5: بخس

بمعنی ناقص، گھٹیا، کمتر (منجد) اور بمعنی حقیر اور ناقص چیز (مف) قرآن میں ہے:
وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 20)
اور انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت یعنی معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔

6: خبیث

خبث بمعنی پلید و ناپاک ہونا، ردی ہونا، بیکار ہونا، اور خبیث بمعنی نجس، ردی، ناپسندیدہ، ہر خراب اور گندی چیز (ضد طیب)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 2)
اور یتیموں کا مال جو تمہاری تحویل میں ہو ان کے حوالے کر دو اور ان کے پاکیزہ اور عمدہ مال کو اپنے ناقص اور برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔

7: ادنی

(ضد اعلی) وہ چیز جو کسی اچھی چیز کے مقابلہ میں ناقص یا ردی ہو۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
انہوں نے کہا کہ عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو

8: مزجۃ

(زجو) زجا اور ازجی بمعنی چلانا، دفع کرنا، واپس کرنا اور مزجی (مونث مزجاۃ) تھوڑی یا ردی چیز (منجد، م ق) یعنی ایسی چیز جسے کوئی قبول کرنے کو تیار نہ ہو اور واپس کر دے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ وَ جِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰىۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَ تَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 88)
پھر جب وہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے عزیز ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور ہم یہ تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں آپ ہمیں اسکے عوض پورا غلہ دے دیجئے۔ اور ہم پر خیرات کیجئے کہ اللہ خیرات کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے۔

ماحصل:

  • نکد: تھوڑی، مشکل سے حاصل ہونے والی اور ردی۔
  • خمط: کڑوی، کسیلی اور بد مزہ چیز۔
  • داحضۃ: لغو اور بیہودہ، باطل۔
  • ناقص: عیب دار چیز، نا مکمل۔
  • بخس: گھٹیا اور ردی چیز۔
  • خبیث: گندی اور ناپاک یا حرام چیز۔
  • ادنی: جو کسی اچھی چیز کے مقابلہ میں گھٹیا ہو۔
  • مزجۃ: ایسی ردی جسے کوئی کرنے پر تیار نہ ہو۔
رسوا کرنا اور رسوائی کے لیے دیکھیے "ذلت" اور "ذلیل کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رسی​

کے لیے حبل اور سبب کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: حبل

(جمع حبال) رسی اور اس طرح کی کوئی چیز۔ حبل الورید بمعنی شاہ رگ یا رگ جان۔ اور حبالۃ الصیّد بمعنی شکاری کا پھندا۔ اس لفظ کے استعمال میں عمومیت ہے۔ قرآن میں ہے:
فِیۡ جِیۡدِہَا حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ (سورۃ المسد آیت 5)
اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی۔

2: سبب

وہ رسی جس سے درخت خرما پر چڑھا جاتا ہے (مف) اور سبب بمعنی راستہ، سفر، سامان سفر اور سامان سفر باندھنے کی رسی (منجد)۔ قرآن میں ہے:
مَنۡ کَانَ یَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ لۡیَقۡطَعۡ فَلۡیَنۡظُرۡ ہَلۡ یُذۡہِبَنَّ کَیۡدُہٗ مَا یَغِیۡظُ (سورۃ الحج آیت 15)
جو شخص یہ گمان کرتا ہو کہ اللہ اسکو دنیا اور آخرت میں مدد نہیں دے گا تو اسکو چاہیے کہ اوپر کی طرف یعنی اپنے گھر کی چھت میں ایک رسی باندھے پھر اس سے اپنا گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ آیا یہ تدبیر اسکے غصے کو دور کر دیتی ہے۔

ماحصل:

حبل کا لفظ ہر قسم کی رسی کے لیے اور سبب کا لفظ اس رسی کے لیے آتا ہے جسے ذریعہ سفر یا چڑھنے کے لیے راستے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رشتہ دار​

کے لیے اقربون، نسب، صھر، اولو الارحام اور ال کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اقربون

قرب بمعنی نزدیک یا قریب ہونا۔ اور یہ لفظ زمانہ، فاصلہ، مرتبہ، رشتہ داری، غرض ہر لحاظ سے جامع مفہوم رکھتا ہے۔ اقرب بمعنی زیادہ قریب، زیادہ نزدیک۔ اور اقربون یا اقربین یا ذا قربی یا ذوی القربی کے الفاظ قریبی رشتہ داروں کے معنی میں مخصوص ہو جاتے ہیں۔ رشتہ دار دور کے بھی ہوتے ہیں اور نزدیک بھی نزدیکی رشتہ دار وہ ہیں جن کا تعلق اللہ تعالی نے وراثت میں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ یعنی بیٹے، بیٹیاں، ماں، باپ، میاں، بیوی اور بہن بھائی۔ ارشاد باری ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا (سورۃ النساء آیت 7)
جو مال ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔

2: نسب

نسب ینسب بمعنی نسب بیان کرنا اور نسب دریافت کرنا۔ اور استنسب نسب بیان کرنا، نسب پوچھنا اور نسب اور انساب بمعنی قرابت، رشتہ داری (منجد) اور نسب سے مراد وہ رشتہ دار ہوتے ہیں جو باپ کی طرف سے ہوں کیونکہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے اور اس میں اقربون کے علاوہ چچے اور پھوپھیاں اور ان کی اولاد بھی شامل ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 101)
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔
اور امام راغب نے نسب کا معنی ابوین میں سے کسی ایک طرف کے رشتہ دار لکھا ہے (مف) یعنی باپ کے علاوہ ماں کے رشتہ داروں (پنجابی نانکے) کو بھی نسب میں شامل کیا ہے۔

3: صھر

بمعنی سسرال یعنی وہ رشتہ دار جو شادی کے نتیجہ میں پیدا ہوں۔ بیوی کے لیے شوہر کے نسبی رشتہ دار سسرال ہیں اور شوہر کے لیے بیوی کے نسبی رشتہ دار سسرال ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 54)
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا۔ پھر اسکو ددھیال ننھیال اور سسرال والا بنایا۔ اور تمہارا پروردگار ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے۔

4: اولو الارحام

رحم سے تعلق رکھنے والے رشتہ دار۔ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں پھوپھیاں، چچے بھی شامل ہو جاتے ہیں (لیکن علم الفرائض کی رو سے ان کا درجہ ذوی الفروض اور عصبہ کے بعد آتا ہے )۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا مَعَکُمۡ فَاُولٰٓئِکَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (سورۃ الانفال آیت 75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں اور رشتہ دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔

5: الّ

کا ترجمہ عموماً قرابت یا رشتہ داری کیا جاتا ہے لیکن لغوی لحاظ سے اس کا معنی رشتہ داروں سے کیا ہو عہد و پیمان ہے۔ الّ بمعنی عہد، اقرار، پڑوسی (منجد) اور الّ الرجل بمعنی جار بہ یعنی اس کا پڑوسی بنا (م ق) ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَا یَرۡقُبُوۡنَ فِیۡ مُؤۡمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُعۡتَدُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 10)
یہ لوگ کسی مومن کے حق میں نہ تو رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ عہد کا اور یہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
ذمّۃ کا صحیح مفہوم محض عہد نہیں بلکہ عہد امام و حفاظت ہے۔ اور الّ کے معنی اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے کیا ہوا کسی طرح کا بھی عہد و پیمان۔

ماحصل:

  • اقربون: نزدیک رشتہ دار جن کا وراثت میں حصہ مقرر ہے۔
  • نسب: باپ کی طرف سے رشتہ دار۔
  • صھر: سسرال والے۔
  • اولو الارحام: رحم سے تعلق والے رشتہ دار، ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
  • الّ: رشتہ دار اور پڑوسیوں سے کیا ہوا عہد۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رضا مندی – خوشنودی​

کے لیے رضوان، مرضاۃ اور وجہ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: رضوان، مرضاۃ

رضی معروف لفظ ہے بمعنی خوش ہونا، اسی سے رضوان، رضوان اور مرضاۃ بھی مصدر کے طور پر آتے ہیں۔ اور رضا مندی، خوشنودی یا پسندیدگی کا معنی دیتے ہیں (منجد)۔ قرآن میں ہے:
یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رِضۡوَانًا ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 2)
جو اپنے پرروردگار کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلب گار ہوں۔
دوسرے مقام پر ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التحریم آیت 1)
اے پیغمبر ﷺ جو چیز اللہ نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

2: وجہ

بمعنی چہرہ، رخ، منہ رضا مندی اور ہر چیز کا وہ حصہ جو پہلے سامنے آئے۔ وجہ النّھار بمعنی دن کا پہلا حصہ (مف، منجد) اور جب کوئی شخص کسی سے ناراض ہو تو اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور خوش ہو تو اس کی طرف اور زیادہ توجہ دیتا ہے۔ یہی وجہ رضا مندی کا مفہوم ہے یعنی ناراضگی کے کاموں سے بچ کر اور اچھے کام کر کے کسی کی رضا مندی چاہنا۔ ارشاد باری ہے:
لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 272)
اے نبی ﷺ تم ان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ اللہ ہی جسکو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ اور مومنو! تم جو مال خرچ کرو گے تو اس کا فائدہ تمہی کو ہے۔اور تم تو جو خرچ کرو گے اللہ کی خوشنودی کے لئے کرو گے۔ اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا۔ اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گا۔

ماحصل:

رضوان اور مرضاۃ محض رضا مندی کے معنی میں آتا ہے جبکہ وجہ کا لفظ رضا مندی کے ساتھ توجہ کا پہلو بھی شامل کر لیتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رغبت کرنا​

کے لیے رغب اور تنافس کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رغب

بمعنی رغبت کرنا یا رکھنا، کسی چیز کے حصول کی دل سے خواہش رکھنا اور اس کے لیے کوشش کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ (سورۃ الانشراح آیت 7، 8)
سو جب تم فارغ ہوا کرو تو عبادت میں محنت کیا کرو۔ اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔

2: تنافس

نفس بمعنی حسد کرنا اور نفّس (فی الامر) بمعنی کسی کام کی ترغیب دینا۔ اور تنافس بمعنی باہم فخر کرنا، کرم میں مقابلہ کی رغبت کرنا، بطور مقابلہ رغبت کرنا (منجد) رقیبانہ جذبہ سے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی رغبت کرنا۔ ارشاد باری ہے:
خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 26)
جسکی مہر مشک کی ہو گی۔ تو نعمتوں کیلئے ریس کرنے والوں کو چاہیے کہ اسی کی ریس کریں۔

ماحصل:

رغب کا لفظ عام ہے جبکہ تنافس اچھے کاموں میں رغبت میں مقابلہ کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رکھنا​

کے لیے وضع اور القی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: وضع

(ضد رفع بمعنی کسی چیز کو اٹھانا، بلند کرنا) اور وضع بمعنی کسی چیز کو آرام سے نیچے رکھنا اور رفیع کی ضد وضیع ہے بمعنی ایسا انسان جس کی معاشرہ میں کوئی قدر و منزلت نہ ہو۔ اور وضع حمل بمعنی بوجھ کو نیچے رکھنا خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ (سورۃ الانشراح آیت 1، 3)
اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ بھی اتار دیا۔ جس نے تمہاری کمر جھکا دی تھی۔

2: القی

کا اصل معنی ڈالنا ہے۔ اور رکھنا اور ڈالنا میں فرق یہ ہے کہ رکھنا میں آہستگی اور احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اگر بے احتیاطی اور جلدی سے کام لیا جائے تو "پھینکنا" کہتے ہیں۔ اور ڈالنا ان دونوں کی درمیانی کیفیت ہے۔ پھر جب کبھی القا میں بھی آہستگی اور احتیاط کا پہلو موجود تو اور القی بھی رکھنا کا معنی دے گا۔ اور القی میں دوسری خصوصیت یہ ہے کہ القی اس چیز کے ڈالنے یا رکھنے کو کہتے ہیں جسے دوسرے دیکھ سکیں جبکہ وضع میں یہ بات ضروری نہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ اَنۡہٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 15)
اور اسی نے زمین پر پہاڑ بنا کر رکھ دیئے کہ تم کو لے کر کہیں ڈولنے نہ لگے اور ندیاں اور راستے بنا دیئے تاکہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک آسانی سے جا سکو۔

ماحصل:

  • وضع عام ہے، رکھی ہوئی چیز کسی کو نظر آئے نہ آئے۔
  • القی: کسی ایسی چیز کو نیچے رکھنا جسے دوسرے دیکھ سکیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رنگ​

کے لیے لون اور صبغۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لون

قدرتی رنگ مثلاً سیاہ، سفید، سبز، لال، زرد، نیلا وغیرہ (جمع الوان)۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ (سورۃ فاطر آیت 27)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے مینہ برسایا پھر ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے پیدا کئے۔ اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ کی گھاٹیاں ہوتی ہیں۔ جنکے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور بعض کالی سیاہ بھی ہوتی ہیں۔

2: صبغۃ

صبغ بمعنی رنگنا، رنگ چڑھانا، اور صبّاغ بمعنی رنگریز (منجد) اور صبغہ کا لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ معنوی صورت میں اس معنی کسی انسان پر کسی دوسری چیز کا پیدا کردہ اثر اور رنگ ڈھنگ ہونا اور صبّغ بالماء پانی سے بپتسمہ دینا۔ اور تصبّغ فی دینہ کسی پر دین کا رنگ اچھی طرح چڑھنا، مذہب میں پختہ ہونا ہے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 138)
کہہ دو کہ ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔

ماحصل:

لون قدرتی رنگ کو کہتے ہیں۔ اور صبغۃ وہ رنگ ہے جو خود چڑھایا جائے خواہ مادی ہو یا معنوی۔
روانہ ہونا کے لیے دیکھیے "سفر کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

روشنی – روشنی ہونا – کرنا​

کے لیے انار (نور)، اضاء (ضیاء)، نار، جلّی اور تجلّی (جلو)، وھج، اشرق اور اسفر اور ابصر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: انار

(نور) بمعنی جو چیزوں کو ظاہر کرے (منجد) وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیا کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے (مف)۔ نور مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ (سورۃ الزمر آیت 22)
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو سو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہو سکتا ہے۔
اس آیت میں نور سے مراد راہ ہدایت بھی ہے اور دل کا نور بھی۔
نور تین قسم کا ہوتا ہے (1) روشن چیزوں کا مثلاً سورج، چاند، ستاروں اور چراغ وغیرہ کا نور جن کے بغیر انسان ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ (2) آنکھ کا نور کہ اس کی عدم موجودگی میں روشن چیزوں کا نور بے کار ہوتا ہے۔ (3) وحی یا دین کا نور جس کی عدم موجودگی میں انسان ہدایت کے نور سے استفادہ نہیں کر سکتا جس طرح آنکھ کے بغیر ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ اس طرح دل کے اندھے کے لیے تعلیمات الہیہ بے کار ثابت ہوتی ہیں۔
اور نور کا لفظ کبھی منوّر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے بعض علماء درج ذیل آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (سورۃ النور آیت 35)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اور ہمارے خیال میں نور کا ترجمہ نور ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں ہر قسم کا نور شامل ہے اور یہ منوّر سے ابلغ ہے۔

2، 3: ضیاء، نار

(ضوء) اور نور اور نار کا مادہ ایک ہی ہے۔ یعنی ن و ر۔ نور وہ روشنی ہے جس میں روشنی اور چمک تو ہو مگر حرارت، تپش اور رنگ میں سرخی نہ ہو۔ اگر روشنی بھی ہو اور ساتھ حرارت، تپش اور سرخی بھی ہو تو وہ ضیاء ہے۔ اور اگر روشنی کا عنصر نسبتاً بہت کم اور حرارت اور تپش اور سرخی کا عنصر بہت زیادہ ہو تو وہ نار ہے۔ اور النّار کا لفظ بسا اوقات نار جھنّم کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
ہٰذَا فَوۡجٌ مُّقۡتَحِمٌ مَّعَکُمۡ ۚ لَا مَرۡحَبًۢا بِہِمۡ ؕ اِنَّہُمۡ صَالُوا النَّارِ (سورۃ ص آیت 59)
یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ گھستی چلی آ رہی ہے انکو خوش آمدید نہ کہا جائے یہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔
ضیاء نور سے اخص ہے اور نور اعم ہے۔ بالفاظ دیگر ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے جس میں حرارت اور تپش اور سرخی شامل ہوتی ہے۔ اور صاحب فروق اللغویہ کے الفاظ میں ضیاء وہ روشنی ہے جس کے اجزا ہوا میں نفوذ کر کے اسے سفید بنا دیتے ہیں۔ اور اس کا اطلاق دن کے وقت سورج کی روشنی پر ہوتا ہے (فق ل 254)۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا (سورۃ یونس آیت 5)
وہی تو ہے جس نے سورج کو خوب روشن اور چاند کو بھی منور بنایا۔
سورج کے علاوہ آگ اور چراغ کی روشنی کے لیے بھی ضیاء کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 17)
انکی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی۔ جب آگ نے اسکے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔
اور چاند اور ستاروں کی روشنی کے لیے نور کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر آیت گزر چکی۔ اور اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراجا منیرا (سورۃ الاحزاب آیت 46) فرمایا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ میں حرارت اور حدت کا عنصر نہیں تھا۔

4: جلّی

(جلو) جلا بمعنی ظاہر ہونا، نمایاں ہونا، آشکار ہونا اور کسی چیز کو نمایاں و آشکار کرنا۔ خط جلی مشہور لفظ ہے جس کے یہی معنی ہیں۔ جسے عموماً "موٹے قلم" سے لکھے ہوئے کو کہہ دیتے ہیں۔ اور جلّی بمعنی روشن اور منور چیز کا نمایاں طور پر ظہور پذیر ہونا اور روشن کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 3)
اور دن کی جب وہ اسے روشن کر دے۔
اور جلوۃ بمعنی عورت کا ہار سنگھار کر کے اس کو خاوند کے پاس پیش کرنا۔ اور استجلی بمعنی دلہن کا آراستہ ہو کر خاوند کے سامنے جانا۔ اور الاجلی بمعنی روشن، واضح اور خوبصورت چہرہ والا (منجد) اور تجلّی کے معنی کسی روشن اور خوبصورت چیز کا اچھی طرح ظاہر ہونا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا (سورۃ الاعراف آیت 143)
پھر جب انکے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسکو ریزہ ریزہ کر دیا۔

5: وھّج

الوھج بمعنی آگ کی بھڑک، سورج یا آگ کی بھڑک، تپش اور چمک (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا وَّ جَعَلۡنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا (سورۃ النباء آیت 12، 13)
اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔ اور آفتاب کا روشن چراغ بنایا۔

6: اشرق

الاشراق مشہور لفظ ہے۔ دن چڑھنے کے بعد کا وقت اور روشنی۔ اور اشرقت الشّمس بمعنی آفتاب کا طلوع ہو کر اچھی طرح روشن ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 69)
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال کی کتاب کھول کر رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور دوسرے گواہ حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا اور انکے ساتھ بے انصافی نہیں کی جائے گی۔

7: اسفر

سفر بمعنی (عورت کا) چہرہ کھولنا (منجد)، پردہ اٹھانا۔ اور سفر عن الوجہ چہرہ کھولنا (مف)۔ اسفر الوجہ بمعنی چہرہ کا چمکنا، حسین ہونا۔ اور اسفر الصّبح صبح کا روشن ہونا (منجد) صبح کی روشنی، نور کا تڑکا۔ قرآن میں ہے:

وَ الصُّبۡحِ اِذَاۤ اَسۡفَرَ (سورۃ مدثر آیت 34)
اور صبح کی جب روشن ہو جائے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ مُّسۡفِرَۃٌ ضَاحِکَۃٌ مُّسۡتَبۡشِرَۃٌ (سورۃ عبس آیت 38، 39)
اور کتنے چہرے اس روز چمک رہے ہونگے۔ خنداں و شاداں یہ نیکوکار ہیں۔

8: ابصر

بصر بمعنی دیکھنا۔ اور مبصر بمعنی اتنا روشن کے سب چیزیں بآسانی نظر آ جائیں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 76)
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو۔ اور روز روشن بنایا تاکہ اس میں کام کرو جو لوگ قوت سماعت رکھتے ہیں انکے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔

ماحصل:

  • منیر: ایسا روشن جس میں روشنی اور چمک تو ہو مگر حرارت اور سرخی نہ ہو اور یہ اعم ہے۔
  • ضیاء: ایسی روشنی جس میں حرارت اور سرخی بھی ہو۔ یہ اخص ہے۔
  • نار: جب روشنی کا عنصر کم اور حرارت اور حدت زیادہ ہو۔
  • جلّی: کسی خوبصورت چیز کا روشن اور نمودار ہونا۔
  • وھج: ایسی روشنی جس میں حرارت اور بھڑک اور سرخی بہت زیادہ ہو۔
  • الاشراق: چاشت کے وقت کی روشنی اور وقت۔
  • سفر: صبح کی روشنی، نور کا تڑکا اور چہرے کی چمک اور رونق۔
  • مبصر: اتنا روشن جس کی روشنی میں ہر چیز بآسانی دیکھی جا سکے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

روزہ دار​

کے لیے صائم اور سائح کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صائم

صوم (جمع صیام) بمعنی روزہ اور صام بمعنی روزہ رکھنا، یعنی سحری سے افطاری تک احکام شرعیہ کے مطابق کھانے پینے اور بعض دوسرے کاموں سے اجتناب۔ اور صائم بمعنی روزہ دار۔ قرآن میں ہے:
وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ (سورۃ الاحزاب آیت 35)
اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں۔

2: سائح

(سیح) السّاحۃ بمعنی فراخ جگہ اور گھر کا آنگن۔ اور ساح بمعنی سیر و سیاحت کرنا، کھلی زمین میں پھرنا، دور دراز تک سفر کرنا۔
اور ساح بمعنی روزہ رکھنا اور اس کی جمع حکمی پابندیوں کو بھی ملحوظ رکھنا یعنی کھانے پینے کی بندش کے علاوہ جوارح یعنی آنکھ، کان اور زبان وغیرہ معاصی سے روکنا (مف) ہے۔ اور صاحب منجد کے نزدیک سائح مسجد میں رہنے والے روزہ دار کو کہتے ہیں (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 112)
توبہ کرنے والے۔ عبادت کرنے والے۔ حمد کرنے والے۔ روزہ رکھنے والے۔ رکوع کرنے والے۔ سجدہ کرنے والے۔ نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے۔ یہی مومن لوگ ہیں اور اے پیغمبر مومنوں کو بہشت کی خوشخبری سنا دو۔

ماحصل:

سائح صرف وہ روزہ دار ہے جو کھانے پینے کے علاوہ دوسری حکمی پابندیوں کا بھی لحاظ رکھے جبکہ صائم ہر روزہ دار کو کہہ سکتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

روکنا​

کے لیے منع، نھی، عوّق، عضل، امسک، صدّ، احصر، حظر، عکف، ثبّط، کفّ اور ذاد (ذود)، وزع، حبس، حجر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: منع

بنیادی طور پر دو معنوں میں مستعمل ہے۔
1: نہ دینا (عطا کی ضد)، بخل کرنا۔ اور مناّع بمعنی بخیل (مف)۔
2: ہاتھ یا زبان سے کسی کو روک دینا، کوئی کام نہ کرنے دینا، محروم کر دینا، روک دینا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 114)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی کیلئے کوشش کرے۔ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ مسجدوں میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب۔

2: نھی

النّھی کا استعمال بالعموم منکرات سے روکنے اور رکنے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی (سورۃ النازعات آیت 40)
اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور نفس کو بیجا خواہشوں سے روکتا رہا۔

3: عوّق

العوق والعوق بمعنی بے فیض انسان، لوگوں کو اچھے کاموں سے روکنے والا (منجد) اور عوّق بمعنی بھلے کاموں سے روکنے والا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الۡمُعَوِّقِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الۡقَآئِلِیۡنَ لِاِخۡوَانِہِمۡ ہَلُمَّ اِلَیۡنَا ۚ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 18)
اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کو منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔ اور وہ لڑائی میں نہیں آتے مگر کم۔

4: عضل

بمعنی تنگی کرنا، منع کرنا (منجد)، سختی سے روکنا (مف)۔ عضلہ بمعنی پٹھا۔ اور عضّل بمعنی تنگی پہنچانا، حصول مقصد میں حائل ہونا (منجد) یہ لفظ عموماً مرد کا عورت کو نکاح سے روکنے (منجد)، تنگ اور پریشان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ اس فعل سے کچھ مفاد حاصل کیا جا سکے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 19)
مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور دیکھنا اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں گھروں میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں تو اور بات ہے اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔ پھر اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔

5: امسک

کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاظت کرنا (مف) یہ لفظ عموماً اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی چیز پہلے سے اپنے پاس موجود ہو اور اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دیا جائے۔ اور ممسک بخیل کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ (سورۃ البقرۃ آیت 231)
اور جب تم عورتوں کو دو دفعہ طلاق دے چکو اور ان کی عدّت پوری ہو جائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کر دو۔

6: صدّ

بمعنی روکنا، ہٹانا، باز کرنا۔ اور صدّ عن بمعنی اعراض کرنا، مائل کرنا (منجد)، نرم برتاؤ سے روکنا (فل 188)، اعراض و عدول۔ ابن الفارس کے الفاظ میں المیل الی احد الجانبین و عدل عنہ (م ل) اور صدّ بمعنی منع عن قصد الشیء خاصۃ (فق ل 92) یعنی کسی کو اس کے قصد و ارادہ سے روکنا۔ گویا صدّ کا لفظ کسی کو اس کے مقصد سے نرم پالیسی کے ساتھ روکنا کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النحل آیت 94)
اور اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ نہ بناؤ کہ لوگوں کے قدم جم چکنے کے بعد لڑکھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا۔ تم کو سزا چکھنی پڑے۔ اور تمہیں بڑا سخت عذاب ملے۔

7: احصر

بمعنی گھیر لینا، گھیرا ڈالنا، محاصرہ کر لینا، کسی کو جگہ تنگ کرتے جانا۔ اور حصار بمعنی قلعہ۔ اور حاصر بمعنی گھیرا ڈال کر کمک بند کر دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 273)
اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو ان حاجت مندوں کے لئے جو اللہ کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو کہ حاجت مند ہیں اور شرم کے سبب لوگوں سے منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ اسکو جانتا ہے۔

8: حظر

بمعنی کسی چیز کی حفاظت کی غرض سے اس کے ارد گرد باڑ لگانا یا کسی چیز کو احاطہ میں جمع کر کے باڑ لگانا۔ قرآن میں ہے:
کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ وَ مَا کَانَ عَطَـآءُ رَبِّکَ مَحۡظُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 20)
ہم انکو اور انکو سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی سے رکی ہوئی نہیں۔

9: عکف

بمعنی تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سے وابستہ رہنا (مف)، بند رہنا، روکے رکھنا، محبوس ہونا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
ہُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا اَنۡ یَّبۡلُغَ مَحِلَّہٗ (سورۃ فتح آیت 25)
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمکو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔

10: کفّ

کفّ بمعنی ہتھیلی اور کفّ بمعنی ہتھیلی پر وار کو رد کرنا، مدافعت کرنا (مف) پھر یہ لفظ محض وار کو روکنے یا مدافعت کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 11)
اے ایمان والو! اللہ نے جو تم پر احسان کیا ہے اسکو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

11: ثبّط

بمعنی کسی کام میں دیر لگانا اور وہ کام نہ کرنا، اس سے رکے رہنا اور بمعنی دیر اور سستی کرنا۔ اثبطہ المرض بیماری کا کسی کو چمٹ جانا اور اس کو نہ چھوڑنا (منجد) اور ثبّطہ المرض بمعنی بیماری نے اسے روک دیا (منجد) دیر یا سستی کی وجہ سے کوئی کام کرنے نہ پانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 46)
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اسکے لئے سامان تیار کرتے لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا اور نکلنا پسند ہی نہ کیا تو انکو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جہاں معذور بیٹھے ہیں تم بھی انکے ساتھ بیٹھے رہو۔

12: ذاد

بمعنی پرے ہٹانا، دفع کرنا، نزدیک نہ آنے دینا، روکے رکھنا (مف، منجد) اور ذوّد عن حسبہ بمعنی کسی کا اپنے نسب کی حفاظت و حمایت کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ (سورۃ القصص آیت 23)
اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور انکے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔

13: وزع

بمعنی روکنا، منع کرنا۔ اور وزع الجیش بمعنی فوج کو ترتیب وار حصوں میں رکھنا۔ اور الاوزع بمعنی جماعتیں۔ اس کا واحد نہیں۔ اور الوزعۃ (جمع وازع) بمعنی بادشاہ کے مدد گار و محافظ (منجد)۔ گویا وزع کا لفظ انتظام اور ترتیب کے لیے روکنے کے معنوں میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 17)
اور سلیمان کے لئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور پھر انکی جماعتیں بنائی گئیں۔

14: حبس

بمعنی قید کرنا، پورے طریقے سے حفاظت کرنا، منع کرنا (منجد) اور بمعنی کسی کو اٹھنے سے روک دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
تَحۡبِسُوۡنَہُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوۃِ (سورۃ المائدۃ آیت 106)
ان دونوں کے نماز (عصر) کے بعد روک لو۔

15: حجرا

حجر بمعنی سخت پتھر اور حجرا مھجورا محاورہ ہے اس سے مراد ایسی مضبوط رکاوٹ ہے جو دور نہ ہو سکے۔ دور جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی ایسا شخص سامنے آ جاتا جس سے اذیت کا خوف ہوتا تو حجرا مھجورا (یعنی ہم تم سے پناہ چاہتے ہیں) یہ الفاظ سن کر دشمن اسے کچھ نہ کہنا۔ قرآن نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے:
یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 22)
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گناہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہو گی اور کہیں گے کہیں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے۔

ماحصل:

  • منع: ہاتھ یا زبان سے روکنا۔
  • نھی: منکرات سے روکنا۔
  • عوّق: نیکی یا بھلے کاموں سے روکنا۔
  • عضل: کوئی مفاد حاصل کرنے کی خاطر روک رکھنا۔
  • امسک: موجود چیز کو ہاتھ سے نکلنے نہ دینا۔
  • صدّ: نرم برتاؤ سے آہستہ آہستہ کسی کو اس کے قصد و ارادہ سے روکنا۔
  • احصر: گھیرا ڈال کر روکنا اور تنگی کر دینا۔
  • حظر: باڑ لگا کر روک دینا۔
  • عکف: تعظیما اپنے ارادہ سے رکنا۔
  • کفّ: کسی حملہ کو روکنا یا مدافعت کرنا۔
  • ثبّط: سستی اور دیر کی بنا پر رکنا اور روکنا۔
  • ذاد: پرے ہٹانا اور نزدیک نہ نے دینا، روکے رکھنا۔
  • وزع: انتظام اور ترتیب کی خاطر روکنا۔
  • حبس: کھڑا ہونے سے روکنا، جانے سے روکنا۔
  • حجرا مھجورا: محاورۃ استعمال ہوتا ہے۔ مضرت سے رکے رہنے کے لیے التجا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رکنا​

کے لیے نھی سے انتھی، اکدی، اشمازّ اور قلع کے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔

1: انتھی

رک جانا، باز آنا، نواہی کی پابندی اختیار کرنا اور انہیں ترک کر دینا۔ قرآن میں ہے:
اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 91)
شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم لوگ ان کاموں سے باز آؤ گے۔

2: اکدی

الکدیۃ بمعنی سخت اور ٹھوس زمین، سخت چٹان۔ اور حفر فاکدی بمعنی وہ گھڑا کھودتا ہوا سخت زمین تک جا پہنچا (مف) اور کدّی بمعنی سوال کرنا، بخشش مانگنا اور سالہ فاکدی یعنی اس نے اس سے سوال کیا تو اس کو سخت زمین کی مانند پایا اور کچھ نہ دیا (منجد) گویا یہ لفظ تھوڑا سا خرچ کرنے کے بعد رک جانے کے معنوں میں آیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی (سورۃ النجم آیت 34)
اور تھوڑا سا دیا پھر ہاتھ روک لیا۔

3: اشمازّ

شمز بمعنی کسی مکروہ چیز سے نفرت کرنا۔ اور اشمازّ بمعنی منقبض یا دل گرفتہ ہونا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 45)
اور جب ایک اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل گھٹ جاتے ہیں۔ اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو فوراً خوش ہو جاتے ہیں۔

4: قلع

بمعنی کسی کام کو ترک کر دینا، چھوڑنا اور رک جانا (منجد) کسی جاری کام کو یک لخت ترک کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ وَ غِیۡضَ الۡمَآءُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ وَ اسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ وَ قِیۡلَ بُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 44)
اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی خشک ہو گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بےانصاف لوگوں پر لعنت۔

ماحصل:

  • انتھی: منکرات اور نواہی سے رکنا۔
  • اکدی: مال خرچ کرنے سے دل کا رکنا اور سخت ہونا۔
  • اشمازّ: کسی ناپسندیدہ چیز سے دل گرفتہ ہو کر رک جانا۔
  • قلع: کسی شروع کیے ہوئے کام سے یک لخت رک جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

روندنا​

کے لیے حطم اور وطا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حطم

بمعنی توڑنا مروڑنا۔ اور حطوم ایسی تندو تیز ہوا کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو توڑ مروڑ کر رکھ دے۔ اور حطام توڑی مروڑی ہوئی یا ریزہ ریزہ شدہ چیز کو کہتے ہیں (منجد) یہ لفظ کسی چیز کو روند کر ریزہ ریزہ کرنے کے لیے بولا جاتا ہے (مف)، کچل ڈالنا، پیسنا، روندنا۔ قرآن میں ہے:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰی وَادِ النَّمۡلِ ۙ قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 18)
یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ چیونٹیو اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلمیان اور اسکے لشکر تمکو کچل ڈالیں اور انکو خبر بھی نہ ہو۔

2: وطا

بمعنی پامال کرنا، پاؤں کے نیچے روندنا (منجد)، پنجابی لتاڑنا۔ (وطی کا لفظ جماع کے معنوں میں بھی آتا ہے) اگرچہ قرآن میں ان معنوں میں نہیں آیا۔ قرآن میں ہے:
وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡہُمۡ اَنۡ تَطَـُٔوۡہُمۡ فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ لِیُدۡخِلَ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ لَوۡ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا (سورۃ فتح آیت 25)
اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جنکو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم انکو پامال کر دیتے تو تمکو ان کی طرف سے بےخبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح رہتی مگر تاخیر اس لئے ہوئی کہ اللہ اپنی رحمت میں جسکو چاہے داخل کر لے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہو جاتے تو جو ان میں کافر تھے انکو ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے۔
اور (2) بمعنی سخت مشقت اٹھانا، سخت کوفت ہونا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ (سورۃ مزمل آیت 6)
کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا نفس کو سخت پامال کرتا ہے اور اس وقت ذکر بھی خوب درست ہوتا ہے۔

ماحصل:

وطا پامال کرنا یا پاؤں کے نیچے روندنا اور حطم روند کر کچل دینا یا توڑ پھوڑ دینا۔
 
Top