روکنا
کے لیے م
نع، نھی، عوّق، عضل، امسک، صدّ، احصر، حظر، عکف، ثبّط، کفّ اور ذاد (ذود)، وزع، حبس، حجر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: منع
بنیادی طور پر دو معنوں میں مستعمل ہے۔
1: نہ دینا (عطا کی ضد)، بخل کرنا۔ اور مناّع بمعنی بخیل (مف)۔
2: ہاتھ یا زبان سے کسی کو روک دینا، کوئی کام نہ کرنے دینا، محروم کر دینا، روک دینا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 114)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی کیلئے کوشش کرے۔ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ مسجدوں میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب۔
2: نھی
النّھی کا استعمال بالعموم منکرات سے روکنے اور رکنے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی (سورۃ النازعات آیت 40)
اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور نفس کو بیجا خواہشوں سے روکتا رہا۔
3: عوّق
العوق والعوق بمعنی بے فیض انسان، لوگوں کو اچھے کاموں سے روکنے والا (منجد) اور عوّق بمعنی بھلے کاموں سے روکنے والا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الۡمُعَوِّقِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الۡقَآئِلِیۡنَ لِاِخۡوَانِہِمۡ ہَلُمَّ اِلَیۡنَا ۚ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 18)
اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کو منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔ اور وہ لڑائی میں نہیں آتے مگر کم۔
4: عضل
بمعنی تنگی کرنا، منع کرنا (منجد)، سختی سے روکنا (مف)۔ عضلہ بمعنی پٹھا۔ اور عضّل بمعنی تنگی پہنچانا، حصول مقصد میں حائل ہونا (منجد) یہ لفظ عموماً مرد کا عورت کو نکاح سے روکنے (منجد)، تنگ اور پریشان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ اس فعل سے کچھ مفاد حاصل کیا جا سکے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 19)
مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور دیکھنا اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں گھروں میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں تو اور بات ہے اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔ پھر اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
5: امسک
کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاظت کرنا (مف) یہ لفظ عموماً اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی چیز پہلے سے اپنے پاس موجود ہو اور اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دیا جائے۔ اور ممسک بخیل کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ (سورۃ البقرۃ آیت 231)
اور جب تم عورتوں کو دو دفعہ طلاق دے چکو اور ان کی عدّت پوری ہو جائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کر دو۔
6: صدّ
بمعنی روکنا، ہٹانا، باز کرنا۔ اور صدّ عن بمعنی اعراض کرنا، مائل کرنا (منجد)، نرم برتاؤ سے روکنا (فل 188)، اعراض و عدول۔ ابن الفارس کے الفاظ میں المیل الی احد الجانبین و عدل عنہ (م ل) اور صدّ بمعنی منع عن قصد الشیء خاصۃ (فق ل 92) یعنی کسی کو اس کے قصد و ارادہ سے روکنا۔ گویا صدّ کا لفظ کسی کو اس کے مقصد سے نرم پالیسی کے ساتھ روکنا کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النحل آیت 94)
اور اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ نہ بناؤ کہ لوگوں کے قدم جم چکنے کے بعد لڑکھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا۔ تم کو سزا چکھنی پڑے۔ اور تمہیں بڑا سخت عذاب ملے۔
7: احصر
بمعنی گھیر لینا، گھیرا ڈالنا، محاصرہ کر لینا، کسی کو جگہ تنگ کرتے جانا۔ اور حصار بمعنی قلعہ۔ اور حاصر بمعنی گھیرا ڈال کر کمک بند کر دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 273)
اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو ان حاجت مندوں کے لئے جو اللہ کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو کہ حاجت مند ہیں اور شرم کے سبب لوگوں سے منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ اسکو جانتا ہے۔
8: حظر
بمعنی کسی چیز کی حفاظت کی غرض سے اس کے ارد گرد باڑ لگانا یا کسی چیز کو احاطہ میں جمع کر کے باڑ لگانا۔ قرآن میں ہے:
کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ وَ مَا کَانَ عَطَـآءُ رَبِّکَ مَحۡظُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 20)
ہم انکو اور انکو سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی سے رکی ہوئی نہیں۔
9: عکف
بمعنی تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سے وابستہ رہنا (مف)، بند رہنا، روکے رکھنا، محبوس ہونا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
ہُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا اَنۡ یَّبۡلُغَ مَحِلَّہٗ (سورۃ فتح آیت 25)
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمکو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔
10: کفّ
کفّ بمعنی ہتھیلی اور کفّ بمعنی ہتھیلی پر وار کو رد کرنا، مدافعت کرنا (مف) پھر یہ لفظ محض وار کو روکنے یا مدافعت کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 11)
اے ایمان والو! اللہ نے جو تم پر احسان کیا ہے اسکو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
11: ثبّط
بمعنی کسی کام میں دیر لگانا اور وہ کام نہ کرنا، اس سے رکے رہنا اور بمعنی دیر اور سستی کرنا۔ اثبطہ المرض بیماری کا کسی کو چمٹ جانا اور اس کو نہ چھوڑنا (منجد) اور ثبّطہ المرض بمعنی بیماری نے اسے روک دیا (منجد) دیر یا سستی کی وجہ سے کوئی کام کرنے نہ پانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 46)
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اسکے لئے سامان تیار کرتے لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا اور نکلنا پسند ہی نہ کیا تو انکو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جہاں معذور بیٹھے ہیں تم بھی انکے ساتھ بیٹھے رہو۔
12: ذاد
بمعنی پرے ہٹانا، دفع کرنا، نزدیک نہ آنے دینا، روکے رکھنا (مف، منجد) اور ذوّد عن حسبہ بمعنی کسی کا اپنے نسب کی حفاظت و حمایت کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ (سورۃ القصص آیت 23)
اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور انکے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔
13: وزع
بمعنی روکنا، منع کرنا۔ اور وزع الجیش بمعنی فوج کو ترتیب وار حصوں میں رکھنا۔ اور الاوزع بمعنی جماعتیں۔ اس کا واحد نہیں۔ اور الوزعۃ (جمع وازع) بمعنی بادشاہ کے مدد گار و محافظ (منجد)۔ گویا وزع کا لفظ انتظام اور ترتیب کے لیے روکنے کے معنوں میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 17)
اور سلیمان کے لئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور پھر انکی جماعتیں بنائی گئیں۔
14: حبس
بمعنی قید کرنا، پورے طریقے سے حفاظت کرنا، منع کرنا (منجد) اور بمعنی کسی کو اٹھنے سے روک دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
تَحۡبِسُوۡنَہُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوۃِ (سورۃ المائدۃ آیت 106)
ان دونوں کے نماز (عصر) کے بعد روک لو۔
15: حجرا
حجر بمعنی سخت پتھر اور حجرا مھجورا محاورہ ہے اس سے مراد ایسی مضبوط رکاوٹ ہے جو دور نہ ہو سکے۔ دور جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی ایسا شخص سامنے آ جاتا جس سے اذیت کا خوف ہوتا تو حجرا مھجورا (یعنی ہم تم سے پناہ چاہتے ہیں) یہ الفاظ سن کر دشمن اسے کچھ نہ کہنا۔ قرآن نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے:
یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 22)
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گناہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہو گی اور کہیں گے کہیں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے۔
ماحصل:
- منع: ہاتھ یا زبان سے روکنا۔
- نھی: منکرات سے روکنا۔
- عوّق: نیکی یا بھلے کاموں سے روکنا۔
- عضل: کوئی مفاد حاصل کرنے کی خاطر روک رکھنا۔
- امسک: موجود چیز کو ہاتھ سے نکلنے نہ دینا۔
- صدّ: نرم برتاؤ سے آہستہ آہستہ کسی کو اس کے قصد و ارادہ سے روکنا۔
- احصر: گھیرا ڈال کر روکنا اور تنگی کر دینا۔
- حظر: باڑ لگا کر روک دینا۔
- عکف: تعظیما اپنے ارادہ سے رکنا۔
- کفّ: کسی حملہ کو روکنا یا مدافعت کرنا۔
- ثبّط: سستی اور دیر کی بنا پر رکنا اور روکنا۔
- ذاد: پرے ہٹانا اور نزدیک نہ نے دینا، روکے رکھنا۔
- وزع: انتظام اور ترتیب کی خاطر روکنا۔
- حبس: کھڑا ہونے سے روکنا، جانے سے روکنا۔
- حجرا مھجورا: محاورۃ استعمال ہوتا ہے۔ مضرت سے رکے رہنے کے لیے التجا۔