رونق
کے لیے زھرۃ، نضرۃ اور بھجۃ کے الفاظ آئے ہیں۔1: زھرۃ
خوشنمائی، چمک دمک، ٹیپ ٹاپ۔ اور زھرۃ الدّنیا بمعنی دنیا کی ظاہری چمک اور رونق (منجد)۔ اس لفظ کا استعمال عموماً اس بے ثبات دنیا کی دلفریبیوں اور رنگینیوں کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی (سورۃ طہ آیت 131)
اور کئ طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے نوازا ہے تاکہ انکی آزمائش کریں ان پر نگاہ نہ کرنا اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
اور کئ طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے نوازا ہے تاکہ انکی آزمائش کریں ان پر نگاہ نہ کرنا اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
2: نضرۃ
چہرے کی رونق، بشاشت اور تر و تازگی، خوبصورتی (منجد، م ل) گو لغوی لحاظ سے اس کا استعمال چہرے اور نباتات دونوں کے لیے درست ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ جہاں کہیں بھی استعمال ہوا ہے چہرہ کی رونق ہی کے لیے ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (سورۃ القیامۃ آیت 22، 23)
اس روز بعض چہرے رونق دار ہوں گے۔ اپنے پروردگار کی طرف نظر کئے ہوں گے۔
اس روز بعض چہرے رونق دار ہوں گے۔ اپنے پروردگار کی طرف نظر کئے ہوں گے۔
3: بھجۃ
ہر وہ چیز جو دل کی اچھی لگے اور اس کا بنیادی معنی سرور ہے۔ اور خلیل کے نزدیک اس کا تعلق کسی چیز کی اچھی رنگ اور تازگی سے ہے (فق ل 216) انسانوں کے لیے بھی آتا ہے۔ تاہم نباتات کی تر و تازگی، سرسبزی، شادابی، نباتات کے پر بہار ہونے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَہَا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ یَّعۡدِلُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 60)
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس سے سر سبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم انکے درختوں کو اگاتے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں۔
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس سے سر سبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم انکے درختوں کو اگاتے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں۔
ماحصل:
زھرۃ کا لفظ نباتات دنیا کی ظاہری چمک اور رونق کے لیے۔ نضرۃ چہرہ کی رونق کے لیے اور بھجۃ نباتات کی رونق کے لیے آتا ہے۔رہنا کے لیے دیکھیے "آباد ہونا" اور "ٹھہرنا"۔