زمین اور اس کی اقسام
کے لیے لفظ ارض استعمال ہوا ہے یعنی وہ جرم جس پر ہم آباد ہیں۔ اور اس کی ضد سماء (سمو) بمعنی آسمان ہے۔ ارض کا لفظ پستی کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اسی لحاظ سے سماء بلندی کے معنی میں۔ قرآن میں ہے:
وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ (سورۃ الاعراف آیت 176)
گر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔
ارض و سماء اسمائے نسبیہ سے ہیں یعنی ہر چیز اپنے فوق کے لحاظ سے ارض ہے اور وہی چیز اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے بجز سب سے اوپر کے آسمان کہ وہ ارض نہیں بنتا۔ قرآن میں ہے:
اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ؕ یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۬ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا (سورۃ الطلاق آیت 12)
اللہ ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمینیں بھی۔ ان میں اللہ کا حکم اترتا رہتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
تو یہاں ارض کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ورنہ اللہ تعالی نے قرآن میں باقی سب مقامات پر سات آسمانوں کے ساتھ ایک زمین کا ذکر فرمایا ہے۔
پھر ارض کا لفظ کسی ایک ہی چیز کے نچلے حصہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور سماء کا اس کے اوپر کے حصہ کے لیے۔ لیکن اس کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔
زمین کی بڑی بڑی دو اقسام ہیں (1) برّ۔ (2) بحر۔
1: برّ
بمعنی زمین کا وہ حصہ جو خشک ہے اور اس پر انسان یا دوسرے خشکی کے جانور آباد ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ اور یہ حصہ کل سطح زمین کا چوتھا حصہ ہے۔
2: بحر
زمین کا وہ حصہ جو زیر آب ہے یعنی جس حصہ پر سمند واقع ہے۔ اور یہ حصہ رقبہ کے لحاظ سے خشکی کے حصہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس حصہ میں صرف آبی جانور ہی زندہ رہ سکتے ہیں بحر سے مراد وہ دریا اور نہریں بھی ہیں جو خشکی میں بہتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ (سورۃ یونس آیت 22)
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
اور خشکی کی مختلف اقسام جو قرآن میں مذکور ہوئی ہیں وہ یہ ہیں۔
جرز، سھول، ساھرۃ، صعید، قیعۃ (قوع)، صفصف، عراء (عری)، زلق، صفوان (صفو)، فجوۃ (فج)، صلدا، ساحۃ (سیح)، ربوۃ (ربو)، نجد، ریع، وادی، مواطن اور
جدد کے الفاظ آئے ہیں۔
1: جرز
جرز بمعنی کاٹنا اور سیف جراز بمعنی کاٹنے والی تلوار (م ل) وار ارض الجرز بمعنی خشک، بنجر اور ناقابل کاشت زمین، ایسی زمین جہاں بارش بہت کم ہوتی ہو (ف ل 70، 266)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَسُوۡقُ الۡمَآءَ اِلَی الۡاَرۡضِ الۡجُرُزِ فَنُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا تَاۡکُلُ مِنۡہُ اَنۡعَامُہُمۡ وَ اَنۡفُسُہُمۡ ؕ اَفَلَا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ سجدۃ آیت 27)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس میں سے انکے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی کھاتے ہیں تو یہ دیکھتے کیوں نہیں؟
2: سھول
(سھل کی جمع) نرم اور ہموار زمین۔ میدانی حصے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 74)
اور یاد تو کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد سردار بنایا اور زمین پر آباد کیا۔ کہ نرم زمین میں محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کر تراش تراش کر گھر بناتے ہو۔ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
3: ساھرۃ
بمعنی زمین یا سطح زمین (منجد) ایسی زمین جہاں بکثرت آمد و رفت ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمۡ بِالسَّاہِرَۃِ (سورۃ النازعات آیت 13، 14)
تو بس وہ ایک ڈانٹ ہو گی۔ اس وقت وہ سب میدان حشر میں آ جمع ہوں گے۔
4: صعید
صعد بمعنی چڑھنا۔ اور صعید بمعنی زمین کا بالائی حصہ، بالائی سطح اور اس پر موجود گرد و غبار جو اوپر چڑھ جاتا ہے (مف) ہر ہموار زمین صعد ہے (فل 16) اور بمعنی وجہ الارض زمین کے اوپر کی مٹی اور گرد و غبار وغیرہ (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ (سورۃ المائدۃ آیت 6)
تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح یعنی تیمم کر لو۔
5: قیعۃ
قیعۃ اور قاعا (قوع) بمعنی کھلا میدان (م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰٮہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ (سورۃ النور آیت 39)
اور جن لوگوں نے کفر کیا انکے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اسکے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ اور اللہ ہی کو اپنے پاس دیکھے تو وہ اسے اس کا حساب پورا پورا چکا دے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔
6: صفصف
بمعنی مستوی اور ہموار میدان (فل 264) قرآن میں ہے:
فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفۡصَفًا لَّا تَرٰی فِیۡہَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمۡتًا (سورۃ طہ آیت 106، 107)
پھر زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا۔ جس میں تم کوئی نشیب و فراز نہ دیکھو گے۔
7: عراء
عرا بمعنی ننگا ہونا۔ اور عراء ایسے میدان کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز آڑ کے لیے نہ ہو (مف) چھوٹا صحرا (فل 26)۔ قرآن میں ہے:
فَنَبَذۡنٰہُ بِالۡعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیۡمٌ (سورۃ الصافات آیت 145)
پھر ہم نے انکو جب کہ وہ بیمار تھے چٹیل میدان میں ڈالدیا۔
8: زلق
بمعنی پھسلنا۔ اور صعیدا زلقا بمعنی چکنی زمین، جہاں سے انسان پھسل جائے۔ قرآن میں ہے:
فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا (سورۃ الکہف آیت 40)
تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے۔
9: صفوان
بمعنی صاف سطح کی چھوٹی چٹان، سل، پتھریلی زمین اور
10: صلدا
بمعنی ٹھوس اور چکنا پتھر۔ راس صلد گنجا سر اور صلد بمعنی خشک پتھر (ف ل 45)۔ قرآن میں ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ كَالَّذِىۡ يُنۡفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَيۡهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلۡدًاؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ عَلٰى شَىۡءٍ مِّمَّا كَسَبُوۡاؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِىۡ الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 264)
مومنو! اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کر دینا جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کے مال کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ اسی طرح یہ ریاکار لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
11: فجوۃ
دو پہاڑوں کے درمیان کھلا میدان، وادی، اور جو راستہ اس میدان میں سے گزرتا ہو اسے فجّ کہتے ہیں (منجد، م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا (سورۃ الکہف آیت 17)
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ دھوپ انکے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس غار کے کشادہ حصے میں تھے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جسکو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے۔ اور جسکو گمراہ رہنے دے تو تم اسکے لئے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔
12: ساحۃ
گھروں سے ملحقہ یا نزدیک فراخ جگہ، آنگن، صحن، پارک وغیرہ، مل بیٹھنے کی جگہیں۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ (سورۃ الصافات آیت 177)
مگر جب وہ انکے آنگن میں آ اترے گا تو جنکو ڈر سنایا گیا تھا انکے لئے برا دن ہو گا۔
بری صبح ہو گی ڈرائے ہوؤں کی (عثمانیؒ)
13: ربوۃ
ربا بمعنی بڑھنا، پھلنا پھولنا۔ اور ربوۃ بمعنی ابھری ہوئی زمین (فل 266) عام سطح سے تھوڑی بلند اور شاداب زمین۔ قرآن میں ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 265)
اور جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو جب اس پر زور کا مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے پھر اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
14: نجد
بمعنی گھاٹی، عام سطح زمین سے بلند اور سخت جگہ (ف ل 267، مف) نیز نجد اس راستے کو بھی کہتے ہیں جو گھاٹی پر چڑھتا یا اترتا ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (سورۃ البلد آیت 10)
یہ چیزیں بھی دیں اور اسکو خیر و شر کے دونوں رستے بھی دکھا دیئے۔
15: ریع
(ریعۃ کی جمع) ایسی زمین جو ربوۃ سے اونچی ہو (فل 267) اور سخت ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَتَبۡنُوۡنَ بِکُلِّ رِیۡعٍ اٰیَۃً تَعۡبَثُوۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 128)
بھلا تم ہر اونچی جگہ پر فضول نشان تعمیر کرتے ہو۔
16: وادی
ایسی ڈھلوان جگہ جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہو، وسیع اور کشادہ ہو۔ اور پہاڑوں پر جو بارش وغیرہ کا پانی نیچے آتا ہے وہ بھی اس میں بہتا ہو۔ پھر اس وادی میں بہنے والے نالہ کو بھی وادی (جمع اودیۃ) کہہ دیتے ہیں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ (سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔
17: مواطن
وطن بمعنی اقامت کرنا۔ اور وطن بمعنی انسان کی سکونت کی جگہ خواہ وہ وہاں پیدا ہو ہو یا نہ پیدا ہوا ہو۔ اور موطن (جمع مواطن) کے معنی وطن بھی اور لڑائی کا میدان بھی۔ اور میطان اس مقام کو کہتے ہیں جہاں گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑے چھوڑے جائیں (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ (سورۃ التوبہ آیت 25)
اللہ نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے
18: جدد
جدّ بمعنی کسی چیز کا نیا ہونا، کسی چیز کو کاٹنا۔ جادّۃ بمعنی شاہراہ، سڑک کا پیچ اور جدد بمعنی ہموار اور سخت زمین۔ اور جدّۃ بمعنی نشان طریقہ (جمع جدد) (منجد)۔ گویا جدّۃ سخت اور ہموار زمین کے ایسے قطعہ کو کہتے ہیں جو صاف طور پر الگ اور کٹا ہو نظر آ رہا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ (سورۃ فاطر آیت 27)
اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ کی گھاٹیاں ہوتی ہیں۔ جنکے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور بعض کالی سیاہ بھی ہوتی ہیں۔
ماحصل:
- جرز: خشک اور بنجر زمین۔
- سھول: نرم زمین۔
- ساھرۃ: روئے زمین یا سطح زمین۔
- صعید: زمین کے اوپر کی خشک مٹی جو اڑتی پھرتی ہے۔
- قیعۃ: کھلا میدان۔
- صفصف: ہموار اور مستوی میدان۔
- عراء: چٹیل میدان جس میں کوئی آڑ نہ ہو۔
- زلق: چکنا میدان، پھسلا دینے والی زمین۔
- صفوان: سل، صاف سطح کی چھوٹی چٹان۔
- صلدا: چکنا اور خشک پتھر۔
- فجوۃ: دو پہاڑوں کا درمیانی میدان۔
- ساحۃ: گھروں سے ملحق یا نزدیک کھلی جگہ۔
- ربوۃ: عام سطح زمین سے تھوڑی بلند اور شاداب زمین۔
- نجد: گھاٹی، بلند اور سخت زمین۔
- ریع: ربوہ سے قدرے بلند زمین۔
- وادی: پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی فراخ جگہ جہاں پانی بہتا ہو۔
- مواطن: لڑائی کے میدان۔
- جدّۃ: سخت اور ہموار زمیں کا الگ تھلگ نظر آنے والا قطعہ۔