مترادفات القرآن (ز)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زائد​

کے لیے عفو، نافلۃ اور ضعف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عفو

عفا کے معنی میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) کسی چیز کو چھوڑ دینا اور (2) زیادہ کرنا۔ عفا الشعر بمعنی اس سے بالوں کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اور زیادہ لمبے ہو جائیں۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے قصّو الشوارب و اعفو اللحی یعنی اپنی مونچھوں کو کتراؤ اور داڑھیوں کو چھوڑ دو یا بڑھنے دو۔ اور عفا الشی بمعنی زیادہ کرنا اور العفو بمعنی زائد چیز، عمدہ چیز اور عفو من المال بمعنی خرچ یا ضرورت سے زیادہ مال جس کا دینا دشوار نہ ہو (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (سورۃ البقرۃ آیت 219)
اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔

2: نافلۃ

نفل بمعنی عطیہ دینا۔ اور انفل بمعنی مال غنیمت۔ اور نفل ہر وہ کام ہے جو واجبات اور ادا کی جائیں خواہ وہ نماز ہو یا صدقہ و خیرات یا روزے یا حج و عمرہ۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 79)
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے ایک اضافی عمل ہے امید ہے کہ اللہ تمکو مقام محمود پر فائز فرمائے۔
گویا یہ نماز اس حکم کی رو سے آپ پر فرض تھی جبکہ دوسروں کے لیے یہ نفلی عبادت ہے۔ دوسرے مقام پر ہے:
وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 72)
اور ہم نے ابراہیم کو اسحٰق عطا کئے۔ اور اسکے بعد مزید یعقوب بھی۔ اور ہم نے سب کو نیک بنایا تھا۔

3: ‌ضعف

بمعنی جتنی چیز ہو اتنی ہی اور زیادہ (م ل)، دگنی۔ ارشاد باری ہے:
اِذًا لَّاَذَقۡنٰکَ ضِعۡفَ الۡحَیٰوۃِ وَ ضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیۡنَا نَصِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 75)
اس وقت ہم تمکو زندگی میں بھی عذاب کا دگنا اور مرنے پر بھی دگنا مزہ چکھاتے۔ پھر تم ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے۔
اور ضعف کا تثنیہ ضعفین ہے جو تاکید مزید کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 265)
اور جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو جب اس پر زور کا مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے پھر اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

ماحصل:

  • عفو: ضرورت سے زائد، پس انداز شدہ۔
  • نفل: فرائض و واجبات سے زائد۔
  • ضعف: اصل مقدار کے برابر زائد۔
نیز دیکھیے "بڑھنا – بڑھانا"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زبردستی کرنا​

کے لیے اکرہ، جبر، قھر، سخر، رھق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اکرہ

کرہ بمعنی کسی چیز کو ناپسند کرنا، نفرت کرنا۔ اور اکرہ بمعنی کسی کو ایسے کام پر مجبور کرنا جسے کرنے کو اس کا جی نہ چاہے۔ گویا اس کے معنی میں دو بنیادی باتیں ہیں۔ ناپسندیدگی اور زبردستی۔ ارشاد باری ہے:
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (سورۃ البقرۃ آیت 256)
دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
نیز فرمایا:
وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ (سورۃ النور آیت 33)
اور اپنی باندیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔

2: جبر

اس کے معنی میں بھی دو باتیں بنیادی ہیں (1) زبردستی (2) اصلاح (م ل)۔ یعنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنا (مف) جبر العظم بمعنی ٹوٹی ہڈی کو درست کرنا اور جبر علی الامر کسی کو کسی کام پر مجبور کرنا۔ اللہ تعالی اپنی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 23)
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ حقیقی ہر عیب سے پاک سلامتی دینے والا امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔
پھر یہ لفظ کبھی محض زبردستی کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ اِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 130)
اور جب کسی کو پکڑتے ہو تو جابرانہ پکڑتے ہو۔

3: قھر

میں بھی دو باتیں بنیادی طور پائی جاتی ہیں (1) غلبہ (2) ذلت یعنی کسی پر غلبہ ہونا اور مغلوب کو ذلیل کرنا، کسی زبردست کا کسی کمزور کو دبانا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ (سورۃ الضحی آیت 9، 10)
تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا۔

4: سخّر

سخر بمعنی ہنسی مذاق اڑنا۔ اور سخّر میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) زبردستی (2) مقصد براری (م ل) یعنی کسی چیز کو کسی مقصد کی طرف زبردستی لے جانا، زبردستی کام پر لگا دینا، حکم کا بندھا ہونا۔ اس میں کسی کی مرضی یا پسندیدگی کو کچھ دخل نہیں۔ یہ لفظ بالعموم کائنات کے تسخیری امور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ (سورۃ ابراہیم آیت 33)
اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں دن رات ایک ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 32)
کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں انکی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے۔

5: رھق

بمعنی ایک چیز کے اوپر دوسری چیز کا چڑھ جانا اور اسے چھپا لینا (مف) اور رھقہ الامر بمعنی کسی معاملہ نے اسے بزور جبر دیا لیا (منجد)۔ گویا رھق میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) زبردستی (2) چڑھ کر ڈھانپنا یا چھپانا۔ ارشاد باری ہے:
خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَ قَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ (سورۃ القلم آیت 43)
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہو گی حالانکہ پہلے اس وقت سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے۔ جبکہ وہ صحیح و سالم تھے۔

ماحصل:

  • اکراہ: دل کی ناپسندیدگی اور زبردستی۔
  • جبر: زبردستی اور اصلاح
  • قھر: زبردستی اور دباؤ۔
  • سخّر: زبردستی اور مقصد براری۔
  • رھق: زبردستی اور چھانا یا چھپانا کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زخم​

کے لیے قرح اور جروح کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: قرح

بمعنی پھوڑا پھنسی، خارش، زخم (جمع قروح) یہ اندرونی اثر سے بھی ہو سکتا ہے اور خارجی سے بھی۔ بمعنی پھوڑے پھنسیاں اور ان کی وجہ سے پیدا شدہ زخم (منجد) پھر ان زخموں سے پیدا ہونے والے درد و الم پر بھی قرح کا اطلاق ہوتا ہے (مف)۔ قروح دراصل ایسے زخموں کو کہتے ہیں جن کا اثر جلد تک محدود ہو خواہ جلد چھل جائے یا خراشیں ہوں یا پھوڑے پھنسیاں۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 140)
اگر تمہیں زخم شکست لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے۔ اور یہ ایام زمانہ ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جدا کر دے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ بے انصافوں کو پسند نہیں کرتا۔

2: جروح

(واحد جرح) جرح بمعنی گھاؤ، گہرا زخم، ضربات شدیدہ۔ اور جراح بمعنی سرجن، زخموں کی چیر پھاڑ کرنے والا (منجد) اور جوارح (واحد جارحۃ) بمعنی شکار کرنے والے جانور یا پرندے (فل 16) جو شکار میں گہرا زخم کر کے اسے ادھ موا کر دیتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 45)
اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے

ماحصل:

قرح ایسا زخم جس کا اثر جلد تک محدود ہو اور جرح گہرے زخم کو کہتے ہیں۔
زلزلہ کے لیے دیکھیے "کانپنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زمانہ اور اس کی تقسیم​

کے لیے دھر، عصر، قرن، حقبۃ اور ریب المنون کے الفاظ آئے ہیں۔

1: دھر

زمانہ کائنات، مدت عالم، جب سے کائنات شروع ہوئی اس وقت سے لے کر اس کے اختتام تک کا وقت (مف) اور ابن الفارس کہتے ہیں کہ دھر میں غلبہ اور قھر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور دھر کا یہ نام اس لیے کہ وہ ہر چیز پر گزرتا ہے اور اس پر غالب آتا ہے (م ل) اور دھر کا تعلق مشیت الہی سے ے۔ ارشاد نبوی ﷺ لا تسبوا الدھر فان اللہ ھو الدھر یعنی دہر کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اللہ تعالی ہی دہر ہے۔ اور دھری وہ شخص جو کائنات کو ابد الآباد سے شمار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی صانع نہیں ہے۔ فرقہ دہریہ مشہور ہے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا (سورۃ الدھر آیت 1)
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
یعنی دوران دہر ایک وقت ایسا بھی تھا جب انسان کا نام و نشان بھی نہ تھا۔

2: عصر

بمعنی (1)دن کا آخری حصہ (2) شب و روز، روزگار، زمانہ (منجد، م ا) یعنی جب سے دن رات وجود میں آئے اور جب تک موجود رہیں گے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ معنی یا تعریف محل نظر ہے عصر کا معنی یہ ہونا چاہیے "بنی نوع انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کا عرصہ"۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی بنی نوع انسان پر عصر کو بطور شاہد بیان فرماتے ہیں۔ اور جب انسان کا وجود ہی نہ تھا تو شہادت کیسی؟ واللہ اعلم بالصواب۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡعَصۡرِ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ (سورۃ العصر آیت 1، 2)
عصر کی قسم۔ کہ انسان نقصان میں ہے۔
اور ظاہر ہے کہ شب و روز تخلیق آدم سے مدتوں پہلے وجود میں آ چکے تھے۔
دھر اور عصر کی مندرجہ بالا تصریح کے لحاظ سے ان الفاظ کی جمع نہیں ہونی چاہیے لیکن کتب لغت میں دھر کی جمع دھور اور عصر کی جمع عصور آتی ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ عرف عام میں دھر اور عصر سے مراد محض ایک طویل زمانہ لے لیا جاتا ہے۔

3: قرن

بمعنی سو سال کا عرصہ، ایک زمانہ کے لوگ، ایک امت کے بعد دوسری امت، ایک نسل کے لوگ اور اس کا عرصہ (منجد)۔ گویا قرن کا اطلاق کسی ایک دور یا زمانہ پر بھی ہوتا ہے اور اس دور کے لوگوں پر بھی جیسے قریۃ کا لفظ بستی اور بستی والوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (جمع قرون) قرآن میں یہ کسی دور کے لوگوں کے لیے بالعموم استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا:
قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰی (سورۃ طہ آیت 51)
کہا تو پہلی قوموں کا کیا حال ہوا؟

4: حقبۃ

اسی (80) سال کا عرصہ یا اس سے یا اس سے زائد مدت، طویل مدت، غیر معینہ مدت (مف) اور اس کی جمع حقب بھی ہے اور احقاب بھی بمعنی مدتوں۔ اور صاحب فروق اللغویہ کے نزدیک یہ لفظ حقیبۃ سے ماخوذ ہے۔ اور حقیبہ چمڑے کے اس تھیلے کو کہتے ہیں جس میں سوال اپنا سامان رکھ کر کاٹھی یا خرجی کے ساتھ رکھ لیتا ہے۔ لہذا حقب وقت کا حصہ نہیں بلکہ ظرف کی قسم ہے۔ یعنی وہ زمانہ جس میں اعمام و امور سر انجام پائیں (فق ل 224) ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا (سورۃ الکہف آیت 60)
اور جب موسٰی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ٹلنے کا نہیں خواہ صدیوں چلتا رہوں۔

5: ریب المنون

ان کے علاوہ قرآن میں ایک محاورہ "ریب المنون" بمعنی زمانہ کی گردش بھی استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مراد حوادث زمانہ ہے جو عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر آفت ارضی و سماوی سے برے دن پڑنے کی انتظار (نیز دیکھیے "گردش ایام") قرآن میں ہے:
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ (سورۃ الطور آیت 30)
کیا کافر یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے اور ہم اسکے لئے زمانے کی گردش کا انتظار کر رہے ہیں۔

ماحصل:

  • دھر: تخلیق کائنات سے آخر تک کا وقت۔
  • عصر: تخلیق انسان سے قیامت تک کا وقت۔
  • قرن: کوئی ایک دور یا اس دور کے لوگ۔
  • حقبۃ: طویل مدت، اسی سال کا زمانہ یا اس سے زائد۔
  • ریب المنون: حوادث زمانہ (نیز دیکھیے "گردش ایام")۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زمین اور اس کی اقسام​

کے لیے لفظ ارض استعمال ہوا ہے یعنی وہ جرم جس پر ہم آباد ہیں۔ اور اس کی ضد سماء (سمو) بمعنی آسمان ہے۔ ارض کا لفظ پستی کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اسی لحاظ سے سماء بلندی کے معنی میں۔ قرآن میں ہے:
وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ (سورۃ الاعراف آیت 176)
گر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔
ارض و سماء اسمائے نسبیہ سے ہیں یعنی ہر چیز اپنے فوق کے لحاظ سے ارض ہے اور وہی چیز اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے بجز سب سے اوپر کے آسمان کہ وہ ارض نہیں بنتا۔ قرآن میں ہے:
اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ؕ یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۬ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا (سورۃ الطلاق آیت 12)
اللہ ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمینیں بھی۔ ان میں اللہ کا حکم اترتا رہتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
تو یہاں ارض کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ورنہ اللہ تعالی نے قرآن میں باقی سب مقامات پر سات آسمانوں کے ساتھ ایک زمین کا ذکر فرمایا ہے۔
پھر ارض کا لفظ کسی ایک ہی چیز کے نچلے حصہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور سماء کا اس کے اوپر کے حصہ کے لیے۔ لیکن اس کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔
زمین کی بڑی بڑی دو اقسام ہیں (1) برّ۔ (2) بحر۔

1: برّ

بمعنی زمین کا وہ حصہ جو خشک ہے اور اس پر انسان یا دوسرے خشکی کے جانور آباد ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ اور یہ حصہ کل سطح زمین کا چوتھا حصہ ہے۔

2: بحر

زمین کا وہ حصہ جو زیر آب ہے یعنی جس حصہ پر سمند واقع ہے۔ اور یہ حصہ رقبہ کے لحاظ سے خشکی کے حصہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس حصہ میں صرف آبی جانور ہی زندہ رہ سکتے ہیں بحر سے مراد وہ دریا اور نہریں بھی ہیں جو خشکی میں بہتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ (سورۃ یونس آیت 22)
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
اور خشکی کی مختلف اقسام جو قرآن میں مذکور ہوئی ہیں وہ یہ ہیں۔
جرز، سھول، ساھرۃ، صعید، قیعۃ (قوع)، صفصف، عراء (عری)، زلق، صفوان (صفو)، فجوۃ (فج)، صلدا، ساحۃ (سیح)، ربوۃ (ربو)، نجد، ریع، وادی، مواطن اور جدد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جرز

جرز بمعنی کاٹنا اور سیف جراز بمعنی کاٹنے والی تلوار (م ل) وار ارض الجرز بمعنی خشک، بنجر اور ناقابل کاشت زمین، ایسی زمین جہاں بارش بہت کم ہوتی ہو (ف ل 70، 266)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَسُوۡقُ الۡمَآءَ اِلَی الۡاَرۡضِ الۡجُرُزِ فَنُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا تَاۡکُلُ مِنۡہُ اَنۡعَامُہُمۡ وَ اَنۡفُسُہُمۡ ؕ اَفَلَا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ سجدۃ آیت 27)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس میں سے انکے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی کھاتے ہیں تو یہ دیکھتے کیوں نہیں؟

2: سھول

(سھل کی جمع) نرم اور ہموار زمین۔ میدانی حصے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 74)
اور یاد تو کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد سردار بنایا اور زمین پر آباد کیا۔ کہ نرم زمین میں محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کر تراش تراش کر گھر بناتے ہو۔ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔

3: ساھرۃ

بمعنی زمین یا سطح زمین (منجد) ایسی زمین جہاں بکثرت آمد و رفت ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمۡ بِالسَّاہِرَۃِ (سورۃ النازعات آیت 13، 14)
تو بس وہ ایک ڈانٹ ہو گی۔ اس وقت وہ سب میدان حشر میں آ جمع ہوں گے۔

4: صعید

صعد بمعنی چڑھنا۔ اور صعید بمعنی زمین کا بالائی حصہ، بالائی سطح اور اس پر موجود گرد و غبار جو اوپر چڑھ جاتا ہے (مف) ہر ہموار زمین صعد ہے (فل 16) اور بمعنی وجہ الارض زمین کے اوپر کی مٹی اور گرد و غبار وغیرہ (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ (سورۃ المائدۃ آیت 6)
تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح یعنی تیمم کر لو۔

5: قیعۃ

قیعۃ اور قاعا (قوع) بمعنی کھلا میدان (م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰٮہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ (سورۃ النور آیت 39)
اور جن لوگوں نے کفر کیا انکے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اسکے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ اور اللہ ہی کو اپنے پاس دیکھے تو وہ اسے اس کا حساب پورا پورا چکا دے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔

6: صفصف

بمعنی مستوی اور ہموار میدان (فل 264) قرآن میں ہے:
فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفۡصَفًا لَّا تَرٰی فِیۡہَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمۡتًا (سورۃ طہ آیت 106، 107)
پھر زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا۔ جس میں تم کوئی نشیب و فراز نہ دیکھو گے۔

7: عراء

عرا بمعنی ننگا ہونا۔ اور عراء ایسے میدان کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز آڑ کے لیے نہ ہو (مف) چھوٹا صحرا (فل 26)۔ قرآن میں ہے:
فَنَبَذۡنٰہُ بِالۡعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیۡمٌ (سورۃ الصافات آیت 145)
پھر ہم نے انکو جب کہ وہ بیمار تھے چٹیل میدان میں ڈالدیا۔

8: زلق

بمعنی پھسلنا۔ اور صعیدا زلقا بمعنی چکنی زمین، جہاں سے انسان پھسل جائے۔ قرآن میں ہے:
فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا (سورۃ الکہف آیت 40)
تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے۔

9: صفوان

بمعنی صاف سطح کی چھوٹی چٹان، سل، پتھریلی زمین اور

10: صلدا

بمعنی ٹھوس اور چکنا پتھر۔ راس صلد گنجا سر اور صلد بمعنی خشک پتھر (ف ل 45)۔ قرآن میں ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ كَالَّذِىۡ يُنۡفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَيۡهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلۡدًا‌ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ عَلٰى شَىۡءٍ مِّمَّا كَسَبُوۡا‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِىۡ الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 264)
مومنو! اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کر دینا جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کے مال کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ اسی طرح یہ ریاکار لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

11: فجوۃ

دو پہاڑوں کے درمیان کھلا میدان، وادی، اور جو راستہ اس میدان میں سے گزرتا ہو اسے فجّ کہتے ہیں (منجد، م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا (سورۃ الکہف آیت 17)
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ دھوپ انکے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس غار کے کشادہ حصے میں تھے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جسکو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے۔ اور جسکو گمراہ رہنے دے تو تم اسکے لئے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔

12: ساحۃ

گھروں سے ملحقہ یا نزدیک فراخ جگہ، آنگن، صحن، پارک وغیرہ، مل بیٹھنے کی جگہیں۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ (سورۃ الصافات آیت 177)
مگر جب وہ انکے آنگن میں آ اترے گا تو جنکو ڈر سنایا گیا تھا انکے لئے برا دن ہو گا۔
بری صبح ہو گی ڈرائے ہوؤں کی (عثمانیؒ)

13: ربوۃ

ربا بمعنی بڑھنا، پھلنا پھولنا۔ اور ربوۃ بمعنی ابھری ہوئی زمین (فل 266) عام سطح سے تھوڑی بلند اور شاداب زمین۔ قرآن میں ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 265)
اور جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو جب اس پر زور کا مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے پھر اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

14: نجد

بمعنی گھاٹی، عام سطح زمین سے بلند اور سخت جگہ (ف ل 267، مف) نیز نجد اس راستے کو بھی کہتے ہیں جو گھاٹی پر چڑھتا یا اترتا ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (سورۃ البلد آیت 10)
یہ چیزیں بھی دیں اور اسکو خیر و شر کے دونوں رستے بھی دکھا دیئے۔

15: ریع

(ریعۃ کی جمع) ایسی زمین جو ربوۃ سے اونچی ہو (فل 267) اور سخت ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَتَبۡنُوۡنَ بِکُلِّ رِیۡعٍ اٰیَۃً تَعۡبَثُوۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 128)
بھلا تم ہر اونچی جگہ پر فضول نشان تعمیر کرتے ہو۔

16: وادی

ایسی ڈھلوان جگہ جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہو، وسیع اور کشادہ ہو۔ اور پہاڑوں پر جو بارش وغیرہ کا پانی نیچے آتا ہے وہ بھی اس میں بہتا ہو۔ پھر اس وادی میں بہنے والے نالہ کو بھی وادی (جمع اودیۃ) کہہ دیتے ہیں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ (سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔

17: مواطن

وطن بمعنی اقامت کرنا۔ اور وطن بمعنی انسان کی سکونت کی جگہ خواہ وہ وہاں پیدا ہو ہو یا نہ پیدا ہوا ہو۔ اور موطن (جمع مواطن) کے معنی وطن بھی اور لڑائی کا میدان بھی۔ اور میطان اس مقام کو کہتے ہیں جہاں گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑے چھوڑے جائیں (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ (سورۃ التوبہ آیت 25)
اللہ نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے

18: جدد

جدّ بمعنی کسی چیز کا نیا ہونا، کسی چیز کو کاٹنا۔ جادّۃ بمعنی شاہراہ، سڑک کا پیچ اور جدد بمعنی ہموار اور سخت زمین۔ اور جدّۃ بمعنی نشان طریقہ (جمع جدد) (منجد)۔ گویا جدّۃ سخت اور ہموار زمین کے ایسے قطعہ کو کہتے ہیں جو صاف طور پر الگ اور کٹا ہو نظر آ رہا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ (سورۃ فاطر آیت 27)
اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ کی گھاٹیاں ہوتی ہیں۔ جنکے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور بعض کالی سیاہ بھی ہوتی ہیں۔

ماحصل:

  • جرز: خشک اور بنجر زمین۔
  • سھول: نرم زمین۔
  • ساھرۃ: روئے زمین یا سطح زمین۔
  • صعید: زمین کے اوپر کی خشک مٹی جو اڑتی پھرتی ہے۔
  • قیعۃ: کھلا میدان۔
  • صفصف: ہموار اور مستوی میدان۔
  • عراء: چٹیل میدان جس میں کوئی آڑ نہ ہو۔
  • زلق: چکنا میدان، پھسلا دینے والی زمین۔
  • صفوان: سل، صاف سطح کی چھوٹی چٹان۔
  • صلدا: چکنا اور خشک پتھر۔
  • فجوۃ: دو پہاڑوں کا درمیانی میدان۔
  • ساحۃ: گھروں سے ملحق یا نزدیک کھلی جگہ۔
  • ربوۃ: عام سطح زمین سے تھوڑی بلند اور شاداب زمین۔
  • نجد: گھاٹی، بلند اور سخت زمین۔
  • ریع: ربوہ سے قدرے بلند زمین۔
  • وادی: پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی فراخ جگہ جہاں پانی بہتا ہو۔
  • مواطن: لڑائی کے میدان۔
  • جدّۃ: سخت اور ہموار زمیں کا الگ تھلگ نظر آنے والا قطعہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زمین بوس کرنا​

کے لیے دکّ اور دمدم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: دکّ

کے معنی میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) کوٹنا (2) ہموار کر دینا (م ل)۔ یعنی کسی چیز کو کوٹ کر اور ریزہ ریزہ کر کے اسے زمین کی سطح کے برابر کر دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (سورۃ الاعراف آیت 143)
پھر جب انکے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسکو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
دوسرے مقام پر ہے:
کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا (سورۃ الفجر آیت 21)
یوں نہیں جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی۔

2: دمدم

دمدم الشئ بمعنی کسی چیز کو زمین سے چپکانا۔ اور دمدم اللہ علیھم بمعنی اللہ تعالی نے ہلاک کر ڈالا (منجد) اور دیمومۃ بمعنی صحرا، ریگستان (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَکَذَّبُوۡہُ فَعَقَرُوۡہَا ۪۬ۙ فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 14)
مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا پھر اونٹنی کو مار ڈالا۔ تو انکے رب نے انکے گناہ کے سبب انکو نیست و نابود کر دیا پھر سب کو برابر کر دیا۔

ماحصل:

  • دکّ: بے جان اشیا کو کوٹ کاٹ کر زمین بوس کر دینا۔
  • دمدم: عذاب کے ذریعہ ہلاک کر کے ملیامیٹ کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زنجیریں​

کے لیے سلاسل، (سلّ)، اغلال، انکال اور اصفاد کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: سلاسل

(واحد سلسلہ) سلّ بمعنی ایک چیز سے دوسری چیز کو کھینچ لینا جیسے نیام سے تلوار کو سونتنا۔ اور سلسلہ بمعنی زنجیر جس کی ایک کڑی سے دوسری کڑی نکلی چلی جاتی ہے (مف) اور تسلسل بمعنی ایک چیز کا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ فِیۡ سِلۡسِلَۃٍ ذَرۡعُہَا سَبۡعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسۡلُکُوۡہُ (سورۃ الحاقۃ آیت 32)
پھر زنجیر سے جس کی لمبائی ستر گز ہے جکڑ دو۔

2: اصفاد

(واحد صفد اور صفاد) بمعنی لوہے کا طوق یا زنجیر جس سے قیدیوں کو جکڑا جاتا ہے (مف) اور صفد بمعنی باندھنا، قید کرنا اور اصفد بمعنی قید کرنا ہے (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَّ اٰخَرِیۡنَ مُقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ (سورۃ ص آیت 38)
اور کچھ دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

3: انکال

(واحد نکل) نکل جانور کی بیڑی اور لوہے کے لگام کو کہتے ہیں جو اسے قابو میں رکھتے ہیں (مف) اور بمعنی کڑیالہ کا لوہا (م ق) اور "نکال" ایسی عبرتناک سزا کو کہتے ہیں جس سے کسی کو نتھ پڑ جائے۔ اور نکّل بمعنی کسی کو عبرت ناک سزا دینا یا کسی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا یا لگام دینا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا (سورۃ مزمل آیت 12، 13)
کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بڑی زبردست آگ ہے۔ اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور درد دینے والا عذاب ہے۔

4: اغلال

واحد غلّ۔ اور اس کی جمع غلول بھی آتی ہے۔ اور غلّ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی کے اعضا کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے (مف) اور اس کا اطلاق ہتھکڑی، بیڑیاں اور طوق سب پر ہوتا ہے۔ اور غلّ بمعنی ہتھکڑی یا طوق ڈالنا (منجد) اور زنجیر تو ان سب کے ساتھ ہوتی ہی ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠ وَ اَغۡلٰلًا وَّ سَعِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 4)
بیشک ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

ماحصل:

  • سلاسل: زنجیریں معروف لفظ ہے۔
  • اصفاد: بمعنی طوق یا زنجیر
  • انکال: لگام، کڑیالہ، بیڑیاں۔
  • اغلال: اعم ہے اور سب معنوں میں آتا ہے خواہ ہتھکڑی ہو یا بیڑیاں یا طوق۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زندہ کرنا​

کے لیے احیا، بعث اور انشر کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: احیا

حیی بمعنی جینا، زندہ کرنا اور احیا (ضد امات) بمعنی مردے کو زندہ کرنا، معروف لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ (سورۃ البقرۃ آیت 73)
اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے۔

2: بعث

بنیادی طور پر اس میں دو معنی پائے جاتے ہیں (1) اٹھانا، ابھارنا۔ (2) تنہا روانہ کرنا۔ اور جب اس لفظ کا استعمال مردوں سے متعلق ہو جو قبروں میں پڑے ہیں تو اس کا مطلب انہیں قبروں میں زندہ کر کے اٹھانا اور میدان محشر کی طرف چلانا ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبۡعَثُ مَنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ (سورۃ الحج آیت 7)
اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں اور یہ کہ اللہ سب لوگوں کو جو قبروں میں ہیں جلا اٹھائے گا۔

3: انشر

نشر کا بنیادی معنی پھیلانا (ضد طوی) اور نشر المیّت نشورا کے معنی میت کے از سر نو زندہ ہونے کے ہیں (مف) اور الیہ النّشور میں زندہ ہونا، اٹھنا اور پھیلنا تین معنی پائے جاتے ہیں۔ یعنی لوگ زندہ ہو کر پھیل جائیں گے اور اس کی طرف روانہ ہوں گے۔ اور انشر کے معنی زندہ کر کے میدان محشر میں پھیلانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ (سورۃ عبس ایت 21، 22)
پھر اسکو موت دی سو اسے قبر میں پہنچایا۔ پھر وہ جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کریگا۔

ماحصل:

  • احیا: کسی بھی مردے کو زندہ کرنا، اس کا استعمال عام ہے۔
  • بعث: قبر میں پڑے ہوئے مردوں کو زندہ کرنا اور اٹھانا۔
  • انشر: زندہ کرنا، اٹھانا اور پھیلانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زندہ ہونا – رہنا – رکھنا​

کے لیے حیی (حیّ)، عاش اور استحیاء کے الفاظ قرآن میں پائے جاتے ہیں۔

1: حیی

بمعنی جینا، زندہ رہنا اور حیوۃ بمعنی زندگی۔ یہ لفظ بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ حیوانات تو زندہ ہیں ہی، موجودہ تحقیق یہ ہے کہ جمادات میں بھی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالی، فرشتے اور جن بھی زندہ ہیں۔ لہذا اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ اور حیّ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو زندہ ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 37)
زندگی تو یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے کہ اسی میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہم پھر نہیں اٹھائے جائیں گے۔

2: عاش

بمعنی زندہ رہنا، اور عیش اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوانات میں پائی جاتی ہے۔ یعنی جو جاندار کھا پی کر زندہ رہ سکیں اس کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ لفظ حیی سے اخص ہے اور معیشت (جمع معائش) بمعنی سامان زیست (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ قَلِیۡلًا مَّاتَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 10)
اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے اسباب معیشت پیدا کئے مگر تم کم ہی شکر کرتے ہو۔

3: استحیا

حیی سے مصدر حیوۃ بھی ہے۔ اور حیاء (بمعنی شرم بھی) اور استحیاء بمعنی شرم کرنا بھی اور زندہ رکھنا یا زندہ چھوڑنا بھی (منجد) ہے۔ اور اس لفظ کا استعمال اس وقت ہو گا جب مقابلہ میں کسی دوسرے کو مارا جا رہا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 49)
اور ہمارے ان احسانات کو یاد کرو جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے نجات بخشی وہ لوگ تمکو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی سخت آزمائش تھی۔

ماحصل:

  • حیی: ہر جاندار کا جینا۔
  • عاش: ایسے جاندار کا جینا جس کی زندگی کا انحصار کھانے پینے پر ہو۔
  • استحیاء: کسی دوسرے کو زندہ رہنے دینا۔
زیادہ ہونا – کرنا کے لیے دیکھیے "بڑھنا اور بڑھانا"۔
زیادتی کرنا کے لیے دیکھیے "حد سے بڑھنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

زینت​

کے لیے زینۃ، زخرف، ریش، زھرۃ اور جمال کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زینۃ

بمعنی آرائش کرنا، سجانا، خوبصورت بنانا، زیب و زینت معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے۔ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح بدنی اور خارجی زینت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اب مثالیں دیکھیے:
خارجی کی مثال:
فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙ اِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ (سورۃ القصص آیت 79)
تو ایک روز قارون بڑی آرائش اور ٹھاٹھ سے اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے کہ جیسا مال و متاع قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے۔ وہ تو بڑے نصیب والا ہے۔
بدنی کی مثال:
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ (سورۃ الاعراف آیت 32)
پوچھو تو کہ جو زینت و آرائش اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟
معنوی کی مثال:
فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 43)
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا وہ کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو ان کی نظروں میں آراستہ کر دکھاتا تھا۔

2: زخرف

بمعنی (1) ظاہری سجاوٹ، ملمع سازی وہ زینت جو ملمع سازی سے حاصل ہو (مف)۔ زخرف الکلام بمعنی کلام کو جھوٹ سے آراستہ کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 112)
اور اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا۔ وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے سو ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دو۔
اور (2) بمعنی نباتات کے مختلف رنگ و روپ (منجد) بہار اور نکھار۔ قرآن میں ہے:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَہَا (سورۃ یونس آیت 24)
یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی۔

3: ریش

ریش الطائر بمعنی پرندوں کے پر۔ خصوصاً بازوں کے پر (مف) اور ریّاش بمعنی تیروں پر پرندوں کے پر لگانے والا (منجد) چونکہ پرندوں کے پر بمنزلہ لباس کے ہوتے ہیں لہذا یہ لفظ استعارۃ فاخرانہ لباس کے لیے استعمال ہونے لگا، آرائش کے کپڑے۔ ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا (سورۃ الاعراف آیت 26)
اے بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور تمہارے بدن کو زینت دے۔

4: زھرۃ

خوشنمائی، چمک دمک، ٹیپ ٹاپ (منجد) اور زھرۃ الدنیا بمعنی دنیا کی ظاہری چمک اور رونق (منجد) اس لفظ کا اطلاق عموماً اس بے ثبات دنیا کی خوشنمائی اور رنگینیوں پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (سورۃ طہ آیت 131)
اور کئ طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے نوازا ہے تاکہ انکی آزمائش کریں ان پر نگاہ نہ کرنا۔

5: جمال

کا لفظ کسی چیز کے (1) ظاہری حسن (2) سیرت کی خوبی (3) ماحول کی آرائش و خوبصورتی سب طرح استعمال ہوتا ہے (فق ل 217) قرآن میں یہ لفظ مؤخر الذکر دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنی اصل کے لحاظ سے ان کا معنی افعال، اخلاق اور ظاہری اعمال میں اچھائی ہے۔ بعد میں یہ لفظ ظاہری حسن پر بھی استعمال ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَ حِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 6)
اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو جنگل چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت و شان کا اظہار ہوتا ہے۔

ماحصل:

  • زینت: کا لفظ سجاوٹ اور آرائش کے لیے عام ہے۔
  • زخرف: ملمع سازی سے حاصل کردہ زینت۔
  • ریش: لباس فاخرانہ اور آرائش سے حاصل شدہ زینت۔
  • زھرۃ: دنیا کی دلفریبیوں اور رنگینیوں کے لیے۔
  • جمال: ظاہری حسن اور کردار کی خوبی اور ماحول کی آرائش و زینت سب طرح مستعمل ہے۔
"زینت دینا" کے لیے دیکھیے "مزین کرنا"۔
"زینہ" کے لیے دیکھیے "سیڑھی"۔
 
Top