مترادفات القرآن (س)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ساتھ​

کے لیے مع اور ب (مکسور) استعمال ہوتے ہیں۔
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مع مصاحبت کے لیے آتا ہے۔ جیسے
اَرۡسِلۡہُ مَعَنَا غَدًا یَّرۡتَعۡ وَ یَلۡعَبۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 12)
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے ہم اسکے نگہبان ہیں۔
جبکہ باقی صورتوں میں ب آتا ہے۔ جیسے:
وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 45)
اور رنج و تکلیف میں صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر گراں نہیں جو عجز کرنے والے ہیں۔
یا جیسے:
وَ اِذِ اسۡتَسۡقٰی مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ فَقُلۡنَا اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے ہم سے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ساتھی​

کے لیے صاحب، عشیر، قرین اور ازواج کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: صاحب

بمعنی عرصہ دراز تک ساتھ رہنے والا، خواہ یہ مصاحبت کسی انسان سے ہو یا حیوان سے اور خواہ یہ مصاحبت زمانی ہو یا مکانی (مف) اور ابن الفارس کے نزدیک صحب میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) مقارنۃ اور (2) مقاربۃ یعنی قرین بھی ہو اور قریب بھی یا ساتھ بھی رہتا ہو (م ل) (جمع اصحاب اور مونث صاحبہ) اور صاحب فروق اللغویہ کے نزدیک اس لفظ کا استعمال آدمیوں سے مخصوص ہے (فق ل 234)۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (سورۃ التوبہ آیت 40)
جب وہ دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

2: عشیرۃ

انسان کے باپ کی طرف سے مشتمل رشتہ داروں کی جماعت کو کہتے ہیں۔ خاندان کے آدمی اور عاشر بمعنی یوں اکٹھے مل جل کر گزر اوقات کرنا جیسے ایک خاندان کے لوگ رہتے ہیں۔ اور عشیر ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو مل جل کر رہے خواہ وہ رشتہ دار ہو یا اجنبی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یَدۡعُوۡا لَمَنۡ ضَرُّہٗۤ اَقۡرَبُ مِنۡ نَّفۡعِہٖ ؕ لَبِئۡسَ الۡمَوۡلٰی وَ لَبِئۡسَ الۡعَشِیۡرُ (سورۃ حج آیت 13)
بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جسکا نقصان فائدے سے زیادہ قریب ہے۔ ایسا دوست بھی برا اور ایسا ساتھی بھی برا۔​

3: قرین

بمعنی ہم عمر اور ہر وہ شخص جو بہادری، قوت یا دوسری صفات میں ہم سر اور ہم پلہ ہو اور اس کا استعمال غیر جاندار میں بھی ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے "دوست"۔

4: ازواج

زوج بمعنی جوڑا، خاوند، بیوی، دونوں ایک دوسرے کے بھی زوج ہیں اور مل کر بھی زوج ہی ہیں (جمع ازواج) یہ لفظ قرآن میں ایک مقام پر قرین (ساتھی یا ہم جنس) کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ۔ (تفصیل "مختلف" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
اُحۡشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ (سورۃ الصافات آیت 22)
فرشتوں کو حکم ہو گا جو لوگ ظلم کرتے تھے انکو اور انکے ہم جنسوں کو اور جنکو وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کر لو۔

ماحصل:

  • صاحب: عرصہ دراز تک ساتھ رہنے والا۔
  • عشیر: وہ شخص جو ایسے مل جل کر رہے جیسے ایک خاندان کے لوگ۔
  • قرین: بمعنی ہم پلہ و ہم سر، ہم عمر۔
  • ازواج: بمعنی ہم جنس، عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ
ساکن ہونا کے لیے دیکھیے "تھمنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سال​

کے لیے عام (عوم)، سنین (سنو)، حول اور حجج کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عام

(جمع عوام) وہ سال جس میں وسعت اور فراوانی ہو (مف)، خیر و عافیت کا سال۔ قرآن میں ہے:
ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیۡہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیۡہِ یَعۡصِرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 49)
پھر اسکے بعد ایک سال آئے گا کہ خوب مینہ برسے گا اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے۔
اور اسی لحاظ سے عام کا لفظ بطور دعا بھی استعمال ہوتا ہے۔ عید کے موقعہ پر اہل عرب ایک دوسرے کو عید مبارک کی بجائے انتم و کل عام بخیر کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تمہارا یہ سال خیر و عافیت سے گزرے۔

2: سنۃ

(جمع سنین) سختی کا سال، تکلیف، خشک سالی اور قحط سالی کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اَخَذۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ بِالسِّنِیۡنَ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 130)
اور ہم نے فرعونیوں کو خشک سالیوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
اور آیت:
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 14)
اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے۔ پھر ان لوگوں کو طوفان کے عذاب نے آ پکڑا۔ اور وہ ظالم تھے۔
میں سے ساڑھے نو سو سال جو حضرت نوح علیہ السلام کے قوم سے مخالفت اور تکلیف میں گزرے، انہیں لفظ سنین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور نبوت سے پیشتر کے پچاس سال کو، جن میں کچھ جھگڑا اور پریشانی نہ تھی، لفظ عام سے۔
تقویم یا وقت اور زمانہ کا حساب رکھنے کے لیے سنۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ خوشحالی کے ایام تنگی ترشی اور پریشانی سے بالعموم کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 5)

وہی تو ہے جس نے سورج کو خوب روشن اور چاند کو بھی منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور کاموں کا حساب معلوم کرو یہ سب کچھ اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے سمجھنے والوں کے لئے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔

3: حول

حال بمعنی ایک حالت سے دوسری حالت بدلنا (حال جمع حالات) حالات الدھر بمعنی گردش ہائے ایام، انقلابات زمانہ۔ اور حال الحول بمعنی سال کا عرصہ گزر جانا (منجد) اور حول بمعنی سال کا پورا چکر یعنی کسی سال کی ایک معینہ تاریخ سے لے کر اگلے سال کی اسی تاریخ کا عرصہ حول ہے۔ زکوۃ بھی حول کے حساب سے ادا کی جاتی ہے۔ اور رضاعت اور طلاق میں بھی حول ہی کا حساب رکھا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 240)
اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیّت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔ ہاں اگر وہ خود گھر سے چلی جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام یعنی نکاح کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔

4: حجج

(واحد حجّۃ) حجّ بمعنی بار بار آنا جانا، بکثرت آمد و رفت رکھنا (منجد)۔ حجّۃ، حجّ سے اسم مرہ ہے اور چونکہ حج سال میں ایک بار ہوتا ہے لہذا سال کو حج کہہ دیا جاتا ہے (م ل، م ق) قرون اولی میں باقاعدہ کیلنڈر اور ایام، ماہ و سال کا حساب تو ہوتا نہیں تھا لہذا عام لوگ حجوں کے حساب سے ہی سالوں کی گنتی کر لیا کرتے تھے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ عَلٰۤی اَنۡ تَاۡجُرَنِیۡ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 27)
انہوں نے موسٰی سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس عہد پر کہ تم آٹھ برس میری خدمت کرو پھر اگر دس سال پورے کر دو تو وہ تمہاری طرف سے احسان ہو گا اور میں تم پر تکلیف ڈالنی نہیں چاہتا۔ تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔

ماحصل:

  • عام: خیر و عافیت کا سال۔
  • سنۃ: خشک سالی اور قحط سالی کا سال۔
  • حول: کسی معینہ تاریخ سے سال کا پورا چکر۔ قمری حساب سے۔
  • حجج: سال گننے کا موٹا موٹا طریق۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سامان​

کے لیے عرض، متاع، اثاث، رحل، وعاء (وعی)، جھاز، زاد (زود)، اسلحۃ، عدّۃ، نعمۃ، ریش، بضاعۃ، ماعون (معن)، حذر اور معایش کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: عرض

بمعنی ہر وہ چیز جسے ثبات نہ ہو (مف) اور بمعنی دنیا کے سامان میں سے ہر چیز عرض ہے (فل 16) جب دنیا اور اس کے سر و سامان کی بے ثباتی اور ناپیداری کا پہلو نمایاں کرنا مقصود ہو تو عرض کا لفظ استعمال ہو گا، دنیائے دون کے ہیچ قسم کے فائدے اور مال و اسباب۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (سورۃ النساء آیت 94)
جو شخص تم کو سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ کہ اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو۔

2: متاع

(جمع امتعۃ) متع بمعنی عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا (مف) اور متاع ہر کار آمد چیز یا ہر چیز کا اتنا حصہ جو فائدہ دے سکے، فائدہ، استعمال، سامان دنیا سے بہرہ مند ہونا۔ جب سامان دنیا اور اس سے فائدہ اٹھانے کا پہلو اجاگر کرنا مقصود ہو تو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ (سورۃ البقرۃ آیت 36)
پھر شیطان نے دونوں کو اس طرف کے بارے میں پھسلا دیا اور جس عیش و نشاط میں تھے اس سے انکو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ بہشت بریں سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانہ اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے۔

3: اثاث

اثاثۃ کی جمع ہے مگر یہ عموماً جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ اثاث البیت مشہور لفظ ہے۔ بمعنی گھریلو سامان جو استعمال میں آ رہا ہو۔ ضروریات خانہ داری مثلاً برتن، چارپائی، کپڑے، فرنیچر وغیرہ۔ یہ سب کچھ اثاث البیت میں شامل ہے۔ پھر یہ لفظ ہر قسم کے فراواں اور فالتو قسم کے مال پر بھی بولا جانے لگا۔ اور بمعنی فروخت خانہ اور کباڑ خانہ بھی استعمال ہوتا ہے (مف) نیز وہ جانور یا غلام جو کسی کی ملکیت اور ذاتی استعمال میں ہوں وہ بھی اثاث البیت میں شامل ہیں۔ مثلاً گھوڑا، گائے، اونٹ وغیرہ (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ہُمۡ اَحۡسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءۡیًا (سورۃ مریم آیت 74)
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کر دیں۔ وہ لوگ ان سے ٹھاٹھ باٹھ اور نمود و نمائش میں کہیں اچھے تھے۔

4: رحل

رحل بمعنی اونٹ پر پالان کسنا (مف) اور بمعنی کوچ کرنا، سوار ہونا۔ اور رحل بمعنی سفر میں ساتھ رہنے والا سامان (منجد)۔ رحل کا لفظ سفر پر روانہ ہونے کے لیے بولا جاتا ہے (م ل)۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے:
لا تشدّوا الرّحال الّا لثلثۃ مساجد
یعنی تین مساجد (بیت اللہ، مسجد نبوی، مسجد اقصی) کے سوا کسی جگہ کے لیے (برائے زیارت و اجر و ثواب) اپنے اونٹوں پر پالان مت کسو۔
قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 70)
پھر جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے تھیلے میں آبخورہ رکھ دیا پھر جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔

5: وعاء

(واحد اوعیۃ) وعی بمعنی کسی چیز کو تھیلی وغیرہ میں محفوظ کر کے اوپر منہ باند دینا اور اوعیۃ وہ سامان ہے جسے کسی ظرف میں رکھ کر اسے بند کر دیا ہو یا مقفل کر دیا جائے (مف)۔ قرآن میں ہے:
فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ (سورۃ یوسف آیت 76)
پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے انکے تھیلوں کو دیکھنا شروع کیا۔ پھر اپنے بھائی کے تھیلے میں سے اسکو نکال لیا۔

6: جھاز

جھّز بمعنی سامان تیار کرنا، لادنا اور بھیجنا (مف) اور جھاز وہ سامان ہے جو مسافر سفر پر روانہ ہوتے وقت تیار کر کے رکھتا ہے۔ اور تجھیز وہ سامان ہے جو میت کو دفن کرنے سے پہلے تیار کیا جاتا ہے۔ اور جھیز وہ سامان ہے جو لڑکی کو شادی کے موقع پر رخصت کرتے وقت والدین ساتھ دیتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 70)
پھر جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے تھیلے میں آبخورہ رکھ دیا پھر جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔

7: زاد

زاد بمعنی زیادہ ہوا، زیادہ، ضرورت سے زائد اندوختہ (مف) اور زاد کا لفظ بالعموم راہ سے متعلق ہے، زاد راہ، دوران سفر راستہ کا خرچ اور کھانے پینے کا سامان۔ اور المزادہ بمعنی پانی کا مشکیزہ جو دوران سفر کام آئے۔ اور المزود بمعنی توشہ دان۔ اور تزوّد بھی زاد راہ ساتھ لینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی (سورۃ البقرۃ آیت 197)
اور زاد راہ یعنی رستے کا خرچ ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہترین زاد راہ پرہیزگاری ہے۔

8: اسلحۃ

(واحد سلاح) یہ لفظ جنگ یا لڑائی کے ساتھ متعلق ہے۔ بمعنی سامان جنگ، آلات حرب و ضرب، لڑائی کے ہتھیار، اور ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ لڑائی کی جائے یا مدافعت کی جائے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ (سورۃ النساء آیت 101)
اور اے پیغمبر جب تم ان مجاہدین کے لشکر میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے۔

9: عدّۃ

(واحد عدد) عدّ بمعنی تیاری کرنا۔ اور اعدّ اور اعتد بمعنی تیار کر رکھنا اور عدّۃ بمعنی تیاری سے متعلقہ سامان۔ قرآن میں یہ لفظ چونکہ جنگی تیاری کے سلسلہ میں استعمال ہوا ہے لہذا اس لفظ کا معنی ہر قسم کی تیاری اور سامان کو بھی شامل ہو گا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 46)
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اسکے لئے سامان تیار کرتے لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا اور نکلنا پسند ہی نہ کیا تو انکو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جہاں معذور بیٹھے ہیں تم بھی انکے ساتھ بیٹھے رہو۔

10: نعمۃ

نعم بمعنی خوشحالی اور پسندیدہ گزران (م ل) اور نعمۃ بمعنی عیش و عشرت کا سامان، سامان تعیش (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ (سورۃ الدخان آیت 27)
اور آرام کی چیزیں جن میں وہ عیش کیا کرتے تھے۔

11: ریشا

ریش الطائر بمعنی پرندہ کے بازو اور پر۔ اور ریّاش بمعنی تیروں پر پرندوں کے پر لگانے والا (منجد) چونکہ پرندوں کے پر بمنزلہ لباس کے ہوتے ہیں تو اس نسبت سے ریشا کا لفظ انسان کے فاخرانہ لباس اور اس کی زیب و زینت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زیب و زینت کا سامان۔ ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ (سورۃ الاعراف آیت 26)
اے بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور تمہارے بدن کو زینت دے۔

12: بضاعۃ

بمعنی مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لیے الگ کر لیا گیا ہو (مف) فروختنی سامان، بکاؤ مال، اور وہ سرمایہ یا راس المال جو تجارت کے لیے مخصوص کیا جائے۔ قرآن میں ہے:
وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ (سورۃ یوسف آیت 19)
اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے

13: ماعون

العمن بمعنی مفید چیز۔ اور ماعون ہر اس برتنے والی چیز کو کہتے ہیں جو عام لوگوں کے استعمال میں آئے، برتنے کی اشیا، گھر میں برتنے کی چھوٹی موٹی چیزیں۔ مثلاً کلہاڑی، ہنڈیا یا دیگر خانگی اشیا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ ہُمۡ یُرَآءُوۡنَ وَ یَمۡنَعُوۡنَ الۡمَاعُوۡنَ (سورۃ ماعون آیت 6، 7)
جو ریاکاری کرتے ہیں۔ اور جو برتنے کی چیزیں مانگنے پر نہیں دیتے۔

14: حذر

حذر بمعنی محتاط اور چوکنا رہنا (م ل) اور حذر ہر وہ سامان ہے جو بچاؤ اور حفاظت کا کام دے۔ گویا جنگ کے دوران حملہ سے بچاؤ کا ہر سامان حذر ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ (سورۃ النساء آیت 102)
اور اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر اپنا بچاؤ ضرور کر رکھو۔ اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

15: معائش

(واحد معیشۃ) بمعنی سامان زیست، عاش بمعنی زندہ رہنا، جینا اور ہر وہ سامان جو زندگی کو برقرار یا بحال رکھنے کے لیے ہو۔ مثلاً خوراک، دانہ، پانی، غلہ وغیرہ وہ معائش کہلائے گا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ قَلِیۡلًا مَّاتَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 10)
اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے اسباب معیشت پیدا کئے مگر تم کم ہی شکر کرتے ہو۔

ماحصل:

  • عرض: دنیا ور اس کے سامان کے بے ثباتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
  • متاع: ہر وہ سامان جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
  • اثاث: گھر کا متفرق سامان، ضروریات خانہ۔
  • رحل: سفر میں ساتھ رہنے والا سامانا۔
  • وعاء: ہر وہ سامان جو منہ بند یا مقفل ہو۔
  • جھاز: ہر وہ سامان جو روانہ ہونے تک تیار کیا جائے خواہ زاد ہو یا رحل۔
  • زاد: دوران سفر خورد و نوش کا سامان۔
  • اسلحۃ: آلات حرب و ضرب۔
  • عدّۃ: جنگی تیاری اور اس سے متعلقہ ہر قسم کا سامان اور تیاری۔
  • نعمۃ: سامان تعیش۔
  • ریش: فاخرانہ لباس اور اس کے متعلقات۔
  • بضاعۃ: فروختنی سامان یا سرمایہ۔
  • ماعون: عام استعمال کی چھوٹی چھوٹی گھریلو اشیا۔
  • حذر: اپنے بچاؤ کا سامان۔
  • معایش: سامان زیست اور لوازمات زندگی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سامنے آنا​

کے لیے اقبل اور برز کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: اقبل

قبل المکان بمعنی کسی جگہ کی طرف رخ کرنا۔ اور قابل دو چیزوں کا آمنے سامنے یا بالمقابل ہونا، مقابلہ کرنا اور قبّل بمعنی بوسہ دینا۔ اور اقبل بمعنی کسی کی طرف رخ کر کے اس کے سامنے ہونا یا آ جانا، رو در رو ہونا ،سامنے سے آنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا وَ اَقۡبَلُوۡا عَلَیۡہِمۡ مَّا ذَا تَفۡقِدُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 71)
وہ انکی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے۔

2: برز

برز بمعنی فضا اور کھلا میدان۔ اور برز بمعنی نکل کر کھلے میدان میں آ جانا (مف) اور بمعنی گمنامی اور پوشیدگی کے بعد ظاہر ہونا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ جَمِیۡعًا (سورۃ ابراہیم آیت 21)
اور قیامت کے دن سب لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سانپ​

کے لیے حیّۃ (حوی) جآنّ اور ثعبان کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حیّۃ

اسم جنس ہے۔ ہر قسم کا سانپ، مذکر و مونث دونوں کے لیے مستعمل ہے (فل 16) اور صاحب منجد کے نزدیک حیّۃ بمعنی کنڈلی مارنے والا سانپ۔ اور حوایا ان آنتوں کو کہتے ہیں جو سانپ کی طرح کنڈی مارے ہوئے ہوتی ہیں۔ اور تحوی الحیّۃ بمعنی سانپ کا کنڈلی مارنا اور حاوی سانپ کا منتر پڑھنے والے کو کہتے ہیں (منجد) یہ دونوں معانی درست معلوم ہوتے ہیں ہر سانپ بالعموم کنڈل مارنے والا ہوتا ہے۔ اور غالباً اسی وجہ سے اسے حیّۃ کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اَلۡقِہَا یٰمُوۡسٰی فَاَلۡقٰہَا فَاِذَا ہِیَ حَیَّۃٌ تَسۡعٰی (سورۃ طہ آیت 19، 20)
فرمایا کہ موسٰی اسے زمین پر ڈال دو۔ تو انہوں نے اسکو ڈال دیا اور وہ یکایک سانپ بن کر دوڑنے لگا۔

2: جآنّ

بمعنی جن، دیو، پری، قوی ہیکل اور ہر وہ جن جو سانپ کی شکل میں ہو (مف) جیسا کہ حدیث میں بھی وارد ہے۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ سانپ کی سٹک، سفید پتلا سانپ کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰی لَا تَخَفۡ ۟ اِنِّیۡ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 10)
اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔ سو جب اسے دیکھا تو اس طرح حرکت کر رہی تھی گویا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا فرمایا اے موسٰی ڈرو مت۔ میرے پاس پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔

3: ثعبان

بمعنی اژدھا، بہت بڑا سانپ (فل 40، 160)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ الاعراف آیت 107)
موسٰی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اسی وقت ایک بڑا اژدھا بن گیا۔
اب دیکھیے اللہ تعالی نے عصا سے سانپ بننے کے ایک ہی واقعہ میں سانپ کے لیے حیّۃ، جآنّ اور ثعبان تینوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ حیّۃ تو اس لیے کہ ہر قسم کے سانپ کو حیّۃ کہہ سکتے ہیں۔ جانّ عصا سے سانپ بننے کی ابتدائی حالت اور ثعبان اس کی دوسری اور آخری حالت کے لحاظ سے ہے اور یہ سب کام آن کی آن میں واقع ہو گئے تھے۔

ماحصل:

  • حیّۃ: ہر قسم کے سانپ کے لیے۔
  • جانّ: پتلے اور لمبے سانپ کے لیے۔
  • ثعبان: اژدھا کے لیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سب – سارے​

کے لے کلّ، کافّۃ اور اجمعون کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: کلّ

بمعنی سب، سارے (ضد جزء) اس کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کل کئی ایک اکائیوں کا مجموعہ ہو۔ پھر اس لفظ کا استعمال ہر جزء کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس کا معنی ہوتا ہے ہر ایک، ہر کوئی، ہر شخص، ہر چیز۔ جیسے فرمایا:
قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ؕ فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 84)
کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے۔
اور اکائیوں کے اس مجموعہ پر بھی جیسے اس کا معنی ہو گا سب، سارے۔ جیسے فرمایا:
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 31)
اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

2: کافّۃ

الکفاف کسی چیز کے پورے گھیر کو کہتے ہیں۔ کافّ اسم فاعل ہے اور کافّۃ اس سے مونث ہے (مف) اس کا استعمال بھی دو طرح پر ہے۔
1: جب کلّ بہت سی اکائیوں کا مجموعہ ہو تو یہ اس سارے مجموعہ کے لیے آئے گا اور اس لحاظ سے کلّ سے ابلغ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ سباء آیت 28)
اور اے محمد ﷺ ہم نے تمکو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
2: جب کل ایک ہی اکائی ہو تو اس کے کل اجزا کو احاطہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ کامل سے ابلغ ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ البقرۃ آیت 208)
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اس آیت میں کافّۃ کا لفظ اپنے دونوں معنی دے رہا ہے۔ یعنی سارے کے سارے بھی اور پورے کے پورے بھی۔

3: اجمعون

جمع بمعنی اکٹھا کرنا۔ اور اجمع بمعنی سب کا مل کر کوئی کام کرنا۔ اور اجمع علی الامر بمعنی کسی معاملہ پر سب کا متفق ہو جانا۔ جیسے فرمایا:
فَلَمَّا ذَہَبُوۡا بِہٖ وَ اَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ یَّجۡعَلُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 15)
غرض جب وہ اسکو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اسکو اندھے کنوئیں میں ڈالدیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم انہیں انکے اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو اس وحی کی کچھ خبر نہ ہو گی۔
اور اجمعون بمعنی سب کا مل کر یا ایک ساتھ ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو کر کوئی کام کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ (سورۃ حجر آیت 30)
چنانچہ فرشتے تو سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔

ماحصل:

  • کلّ: بمعنی ہر ایک بھی اور سب بھی۔
  • کافّۃ: معنی پورے کا پورا بھی اور سارے کے سارے بھی۔ یہ کلّ سے ابلغ ہے اور کامل سے بھی۔
  • اجمعون: بمعنی سب اکٹھے ہو کر، مل کر، ایک ساتھ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سپرد کرنا – حوالے کرنا​

کے لیے اکفل اور کفّل، وکّل اور دفع (الی)، سلّم، فوّض، استودع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اکفل اور کفّل

کفل بمعنی کسی کے نان و نفقہ اور خبر گیری کا ذمہ دار ہونا، ضامن ہونا۔ اور اکفل اور کفّل بمعنی خبر گیری اور تربیت کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سپرد کرنا، دوسرے کو ضامن بنانا، کفالت میں دینا (منجد، مف)۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ (سورۃ ص آیت 23)
بات یہ ہے کہ یہ میرا بھائی ہے اسکے ہاں ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔ یہ کہتا ہے کہ یہ بھی میرے حوالے کر دے اور گفتگو میں مجھ پر حاوی ہو رہا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّ اَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّ کَفَّلَہَا زَکَرِیَّا (سورۃ آل عمران آیت 37)
تو اسکے پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا۔

2: وکّل

وکل بمعنی اپنے معاملہ میں کسی دوسرے پر اعتماد کرنا (م ل) اور وکّل بمعنی کسی دوسرے پر اعتماد کر کے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دینا، اپنا وکیل بنانا یا نائب مقرر کرنا (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 11)
کہدو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

3: دفع (الی)

بمعنی کسی کی چیز اس کے حوالے کرنا، اسے دے دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ (سورۃ النساء آیت 6)
اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو اور جانچتے رہو پھر بالغ ہونے پر اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو

4: سلّم

سلم بمعنی عیب اور آفت سے نجات پانا (م ق) اور سلّم کے معنی السلام علیکم کہنا بھی ہے، آفت سے بچانا بھی۔ اور سلّمہ الی فلان بمعنی کسی چیز کو کسی کے سپرد کر دینا بھی اور سلّمہ الشئ فتسلّمہ بمعنی کسی کا کسی کو کوئی چیز سپرد کرنا اور اس کا اس چیز کو قبول کر لینا (منجد)۔ گویا کسی تکلیف سے بچنے کے لیے اور کسی چیز کی سپردگی کے لیے سلّم آئے گا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا (سورۃ النساء آیت 92)
اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔ مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں۔

5: فوّض

(تفویضا) الیہ الامر بمعنی کسی کام کا اختیار کسی کے سپرد کر دینا اور حاکم بنا دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَسَتَذۡکُرُوۡنَ مَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ ؕ وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ (سورۃ مؤمن آیت 44)
جو بات میں تم سے کہتا ہوں تم اسے آگے چل کر یاد کرو گے۔ اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بیشک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے۔

6: استودع

ودع بمعنی چھوڑنا۔ اور اودع الشئ بمعنی کوئی چیز امانت رکھنا۔ اور ودّع بمعنی مسافر کو رخصت کرنا۔ اور استودع فلانا شیئا بمعنی کسی کے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھنا (منجد)۔ گویا یہ سپردگی بطور امانت ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 98)
اور وہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر تمہارے لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپرد ہونے کی۔ سمجھنے والوں کے لئے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔
یعنی تم دنیا میں ایک مدت تک زندہ رکھے جاتے ہو، پھر زمین میں دفن ہو کر خدا کے سپرد کیے جاتے ہو (جالندھریؒ)۔

ماحصل:

  • کفلّ: کسی کی تربیت کی ذمہ داری کسی کے سپرد کرنا۔
  • وکّل: کسی پر اعتماد کر کے اپنا معاملہ اس کے سپرد کرنا۔
  • دفع الی: کسی کی چیز اس کے حوالے کرنا، باز ادائی۔
  • سلّم: کسی تکلیف سے بچنے کے لیے کوئی چیز کسی کے سپرد کرنا۔
  • فوّض: کسی معاملہ کا اختیار کسی کے سپرد کرنا اور حاکم بنانا۔
  • استودع: بطور امانت کوئی چیز کسی کے حوالے کرنا۔
"ستارا" کے لیے دیکھیے "تارا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سچ​

کے لیے صدق اور حقّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صدق

صدق بمعنی سچ بولنا (ضد کذب) یعنی خلاف واقعہ کوئی بات نہ کہنا۔ معروف لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَ کَذَّبَ بِالصِّدۡقِ اِذۡ جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ الزمر آیت 32)
پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ بولے اور سچی بات جب اسکے پاس پہنچ جائے تو اسے جھٹلائے۔ کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں ہے؟

2: حقّ

(ضد باطل) حقّ ہر وہ بات یا چیز ہے جو تجربہ اور مشاہدہ کے بعد سچ اور درست ثابت ہو، حقیقت، سچائی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 52)
ہم عنقریب انکو اطراف عالم میں بھی اور خود انکی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تمکو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سخت​

کے لیے اشقّ، اشدّ، ادھی، رابیہ (ربو)، عصیب، قمطریر (قمطر)، قاسیۃ (قسو)، غلیظ اور عرم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اشقّ

شقّ الامر بمعنی کسی کام کا دشوار ہونا۔ اور شقّ علی فلان بمعنی کسی کو مشقت میں ڈال دینا (منجد) اور اشقّ کا لفظ بالعموم ایسی مشقت کے لیے آتا ہے جو طاقت یا مقدور سے زیادہ ہو، تکلیف ما لا یطاق، جان پر بن جانا۔ ارشاد باری ہے:
لَہُمۡ عَذَابٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَقُّ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّاقٍ (سورۃ الرعد آیت 34)
انکو دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے۔ اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے اور انکو اللہ کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں۔

2: اشدّ

قوۃ فی شیء (م ل) یعنی کسی چیز کا بذات خود طاقتور اور سخت ہونا۔ قوت، طاقت اور زور میں سخت ہونا، زبردست بدن، قوت اور عذاب کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 85)
اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان سے غافل نہیں۔

3: ادھی

دھی بمعنی کس کو مصیبت پہنچانا۔ اور داھیۃ بمعنی سخت مصیبت، بڑا سخت معاملہ (منجد) اور دھی بمعنی ایک چیز کا دوسری کو ناگوار طریق سے پہنچنا یا مصیبت میں ڈالنا۔ اور دواھی الدّھر بمعنی حادثات زمانہ (م ل) اور ادھی بمعنی مصائب و مشکلات کے لحاظ سے سخت۔ ارشاد باری ہے:
بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَ السَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَ اَمَرُّ (سورۃ القمر آیت 46)
اصل میں انکے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت تلخ ہو گی۔

4: رابیۃ

(ربو) ربا بمعنی بڑھنا، پھلنا، پھولنا، زیادہ ہونا۔ اور رابیہ بمعنی ہر آن بڑھتی جانے والی۔ ارشاد باری ہے:
فَعَصَوۡا رَسُوۡلَ رَبِّہِمۡ فَاَخَذَہُمۡ اَخۡذَۃً رَّابِیَۃً (سورۃ الحاقۃ آیت 10)
سو انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغمبر کی نافرمانی کی تو اللہ نے بھی انکو بڑا سخت پکڑا۔

5: عصیب

عصب میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک چیز کا دوسری سے ربط و ارتباط۔ اور (2) سختی، عصبۃ (جمع اعصاب) بمعنی پٹھے نیز عصبۃ اس مضبوط جماعت کو کہتے ہیں جن کی تعداد دس یا دس سے زائد ہو اور ان کا آپس میں ربط و ارتباط ہو اور اسی وجہ سے وہ جماعت طاقتور اور مضبوط ہو (م ل) جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا و نحن عصبۃ (سورۃ یوسف آیت 14) یعنی ہم ایک طاقتور جماعت ہیں۔ اور تعصب، نظریہ و عقیدہ کی سختی کو کہتے ہیں کہ انسان حق معلوم ہو جانے کے بعد بھی اسے قبول نہ کرے۔ اور عصیب ایسی چیز ہے جو سخت بھی ہو اور خیر عافیت سے خالی بھی۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ (سورۃ ھود آیت 77)
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے سے غمناک اور تنگدل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے۔

6: قمطریر

بمعنی دلوں کو سخت مضطر کر دینے والا (مف) قمطر اس لکڑی کو کہتے ہیں جو مجرموں کے پاؤں پھیلانے اور سزا دینے کے لیے ہوتی ہے (م ق) اور قمطریر بمعنی سخت شر یا شدید ایام (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 10)
ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو چہروں کو بگاڑنے والا اور بڑی سختی والا ہو گا۔

7: قاسیۃ

قسو کا لفظ شدت اور صلابت پر دلالت کرتا ہے (م ل) قسا بمعنی سخت اور ٹھوس ہونا (منجد) حجر قاس بمعنی سخت پتھر۔ اور القسوۃ بمعنی سنگدل ہونا (مف)۔ گویا قسوۃ کا لفظ بالعموم دل کی سختی اور لطیف اور رحم کے جذبات سے عاری ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ کہتے ہیں الذنب مسقاۃ للقلب گناہ دل کو سخت بنانے والا ہے (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ الزمر آیت 22)
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو سو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہو سکتا ہے پس ان پر افسوس ہے جنکے دل اللہ کی یاد سے غافل اور سخت ہو رہے ہیں۔ اور یہی لوگ سراسر گمراہی میں ہیں۔

8: غلیظ

غلظ بمعنی موٹا ہونا، گاڑھا ہونا، سخت ہونا، کھردرا ہونا یا ناہموار ہونا۔ اور غلظ الرجل بمعنی مرد کا تند خو اور سخت کلام ہونا (منجد) اور غلیظ (ضد لین) بمعنی سخت گاڑھا یا کھردرا۔ اور غلیظ القلب یعنی ایسا آدمی جو سنگدل بھی ہو اور تند خو بھی (جمع غلاظ)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ (سورۃ تحریم آیت 6)
مومنو! اپنے آپکو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے اور جس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں وہ کسی حکم کی جو اللہ انکو دیتا ہے نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انکو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔

9: عرم

عرامہ بمعنی مزاج کی تندی اور درشتی جس کا اثر انسان کے عمل میں ظاہر ہو اور عرام الجیش بمعنی لشکر کی تندی، تیزی اور کثرت (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ (سورۃ سباء آیت 16)
تو انہوں نے شکرگذاری سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب چھوڑ دیا اور انہیں انکے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جنکے میوے بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ کے پیڑ تھے اور تھوڑی سی بیریاں۔

ماحصل:

  • اشقّ: ایسی تکلیف جو ما لا یطاق ہو۔
  • اشدّ: کسی چیز کا بذات خود سخت ہونا۔
  • ادھی: مصائب کے لحاظ سے سخت۔
  • رابیۃ: ہر آن بڑھ جانے والا۔
  • عصیب: سخت اور خیر سے خالی۔
  • قمطریر: شر کے لحاظ سے سخت۔
  • قاسیۃ: دل کی سختی یا سنگدلی۔
  • غلیظ: سنگدل اور تند خو۔
  • عرم: ایسی تندی اور سختی جو کسی عمل سے ظاہر ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سختی​

کے لیے غلظۃ، قسوۃ، باساء (بؤس یا بئس) اور کبد کے الفاظ آئے ہیں۔

1، 2: قسوۃ اور غلظۃ

پر پہلے بحث ہو چکی ہے۔ قسوۃ دل کی سختی یا سنگدلی کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً (سورۃ البقرۃ آیت 74)
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔
اور غلظۃ سنگدلی اور تند خوئی کے مجموعہ کو کہتے ہیں جب کہ اس لفظ کی نسبت دل کی طرف ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الۡکُفَّارِ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 123)
اے اہل ایمان! اپنے نزدیک کے رہنے والے کافروں سے جنگ کرو۔ اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

3: باساء

بؤس میں تنگی اور سختی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ خواہ یہ لڑائی کی وجہ سے ہو یا بھوک کی وجہ سے۔ اور باس کا لفظ قرآن کریم میں جنگ کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے (و حین الباس) (سورۃ البقرۃ آیت 177) اور عذاب کے لیے بھی (اذ جاء ھم باسنا) (سورۃ الانعام آیت 43) اور آفت کے لیے بھی (باسا شدیدا) (سورۃ الکہف آیت 2) ان سب میں تنگی اور سختی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اور باسآء ایسی تنگی اور سختی کے طویل دور کو کہتے ہیں خواہ یہ معاشی تنگ دستی اور بدحالی ہو یا لڑائی کی سختی۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 42)
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ پھر ان کی نافرمانیوں کے سبب ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں۔

4: کبد

بمعنی جگر معروف عضو۔ اور کبد کے لفظ میں سختی اور قوۃ کا مفہوم پایا جاتا ہے (م ل) اور تکبّد اور کابد بمعنی تکلیف برداشت کرنا (منجد) فی کبد محاورہ استعمال ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے تو اس کو پورا کرنے کے لیے کئی طرح کے رنج و الم سہتا ہے اور ابھی وہ پوری نہیں ہو پاتی تو اتنے چند اور خواہشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ پھر انسان انہیں پورا کرنے میں رنج و محن سہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور یوں ہی تمام عمر گزر جاتی ہے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے:
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ (سورۃ البلد آیت 4)
کہ ہم نے انسان کو محنت و مشقت میں رہنے والا بنایا ہے۔

ماحصل:

  • قسوۃ: دل کی سختی۔
  • غلظۃ: سنگدلی اور تند خوئی۔
  • باساء: سختی اور تنگی کا دور ۔
  • کبد: تا زیست سختی برداشت کرنے والی فطرت انسانی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سر اٹھانا​

کے لیے اقمح، اقنع اور علا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اقمح

اونٹ جب پانی سے سیر ہو کر سر اوپر اٹھاتا ہے اور نظر نیچے رکھتا ہے تو اس کیفیت کو کہتے ہیں اقمح البعیر (ف ل 186) اور جب انسان نیچے دیکھنا چاہے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے سر کو نیچا نہ کر سکے صرف نگاہ نیچے کر سکے تو بھی اسے اقمح الرجل و غضّ بصرہ ہی کہتے ہیں (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ (سورۃ یس آیت 8)
ہم نے انکی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ تھوڑیوں تک پھنسے ہوئے ہیں تو انکی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔

2: اقنع

بمعنی آواز یا سر کو اٹھانا، بلند کرنا۔ اور مقنع بمعنی سر کو اٹھا کر دیکھنے والا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
مُہۡطِعِیۡنَ مُقۡنِعِیۡ رُءُوۡسِہِمۡ لَا یَرۡتَدُّ اِلَیۡہِمۡ طَرۡفُہُمۡ ۚ وَ اَفۡـِٕدَتُہُمۡ ہَوَآءٌ (سورۃ ابراہیم آیت 43)
اور لوگ سر اٹھائے ہوئے میدان قیامت کی طرف دوڑ رہے ہوں گے ان کی نگاہیں خود اپنی طرف لوٹ نہ سکیں گی۔ اور انکے دل مارے خوف کے ہوا ہو رہے ہوں گے۔

3: علا

علا یعلوا علوّا بلند ہونا، سر اٹھانا (منجد) (علو ضد سفل) ہے۔ گویا ہے لفظ عام ہے تاہم زیادہ تر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی اور معنوی دونوں طرح آتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں علی یعلی عموماً اچھے مفہوم میں آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 4)
کہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کر گروہ گروہ بنا رکھا تھا ان میں سے ایک گروہ کو یہاں تک کمزور کر دیا تھا کہ انکے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور انکی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ بیشک وہ مفسدوں میں تھا۔

ماحصل:

  • اقمح: میں سر اٹھا ہو اور نظر نیچے
  • اقنع: میں سر اٹھا ہوا اور نظر سامنے یا اوپر کو۔
  • علا: بمعنی سرکشی کے طور پر بلند ہونا یا سر اٹھانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سردار​

کے لیے سیّد (سود)، ملا، رھط، ائمّۃ اور نقیب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سیّد

ساد بمعنی شریف ہونا، بزرگ ہونا، قوم کا سردار ہونا، شان و شرف میں کسی پر غالب آنا (منجد)۔ سواد بمعنی بڑی جماعت اور سیّد اس بڑی جماعت کے سردار کو کہتے ہیں۔ چونکہ سردار کا مہذب ہونا لازمی ہے اس لیے ہر شریف النفس آدمی کو بھی سید کہہ سکتے ہیں۔ اور اسی نسبت سے آقا اور خاوند کو بھی سیدّ کہا جاتا ہے (مف) (جمع سادت (سورۃ الاحزاب آیت 67) اور سادات) یہ لفظ اچھے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا (سورۃ الاحزاب آیت 67)
اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمکو رستے سے بھٹکا دیا۔

2: ملا

ملا بمعنی بھرنا اور ملا بمعنی وہ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو۔ اور نظر کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت سے بھر دے (مف) اور اس کا سردار جو آنکھوں کو تکبر اور سینہ کو ہیبت سے پھیرتے ہیں (م ق) اور عرف عام میں ملا سے مراد وہ سرکاری درباری لوگ ہوتے ہیں جو شاہی اثر و نفوذ کی بنا پر لوگوں پر مسلط رہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 88)
تو انکی قوم میں جو لوگ سردار تھے جو تکبر کرتے تھے وہ کہنے لگے۔ کہ شعیب یا تو ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے مذہب میں واپس آ جاؤ۔ انہوں نے کہا خواہ ہم تمہارے دین سے بیزار ہی ہوں تو بھی؟

3: رھط

قبیلہ، ایک قبیلہ کے لوگوں کی مختصر جماعت جن کی تعداد 10 سے کم ہو اور ان میں کوئی عورت نہ ہو، پھر اس جماعت کے سردار کو رھط کہتے ہیں (مف) اور یہ عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اور رھط اس چیتھڑے کو بھی کہتے ہیں جو عورت ایام حیض میں جائے مخصوص میں رکھتی ہے۔ اس سے محاورہ ہے ھو اذل من الرھط یعنی وہ حیض کے چیتھڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔ اور جب لفظ رھط کی اضافت کسی عدد کی طرف ہو تو اس سے افراد و اشخاص مراد لیے جاتے ہیں۔ جیسے عشرون رھطا بمعنی بیس اشخاص (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ کَانَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ تِسۡعَۃُ رَہۡطٍ یُّفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا یُصۡلِحُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 48)
اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے۔

4: ائمّۃ

(امام کی جمع) وہ شخص یا کتاب یا قول جس کی اقتدا کی جائے۔ خواہ وہ انسان ہو یا اس کے اقوال یا کوئی کتاب ہو خواہ وہ حق پر وہ یا باطل پر (مف) انسان کی صورت میں عموماً مذہبی پیشوا کے معنوں میں آتا ہے یا نماز میں جماعت کا امام۔ اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ یس آیت 12)
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور جو انکے نشان پیچھے رہ گئے ہم انکو قلم بند کر لیتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔
ہدایت کے امام:
وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 24)
اور ان میں سے ہم نے پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے۔ جب کہ وہ صبر بھی کرتے تھے۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
کفر کے امام:
وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 12)
اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کرنے لگیں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو انکی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ اپنی حرکات سے باز آجائیں۔

5: نقیب

نقب بمعنی دیوار میں سوراخ کرنا، نقب لگانا اور نقب عن الاخبار بمعنی خبروں کی تحقیق کرنا۔ اور ناقب بمعنی اپنے کارناموں پر فخر کرنا۔ اور ناقب بمعنی کسی قوم کے حالات جاننے والا اور منقبت بمعنی شریفانہ کارنامہ۔ اور نقیب بمعنی قوم کے حالات جاننے والا، قوم کا سردار، نمبر دار، قوم کا گواہ اور ضامن (مف، منجد) یہ لفظ بھی اچھے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 12)
اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا تھا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے تھے۔

ماحصل:

  • سیّد: کسی بڑی جماعت کا سردار (اچھے مفہوم میں)۔
  • ملا: سرکاری درباری حضرات اور قوم پر چھائے ہوئے افراد (برے مفہوم میں)۔
  • رھط: ایک ہی قبیلہ کی ایک مختصر سی جماعت، شریر ٹولہ اور اس کا سردار۔
  • امام: پیشوا، جس کی اقتدا کی جائے، اچھا ہو یا برا۔
  • نقیب: نمبر دار اور ضامن، نگران۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سرد – سردی​

کے لیے شتآء، صرّ اور صرصر، نفحۃ اور زمھریر کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: شتآء

بمعنی سردی کا موسم (ضد صیف بمعنی گرمی کا موسم) اور شتویّ بمعنی موسم سرما کی بارش (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ (سورۃ القریش آیت 1، 2)
قریش کے مانوس کرنے کی بنا پر۔ یعنی انکو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کی بنا پر۔

2: صرّ

صرّ البنات بمعنی پودوں کا ٹھنڈی ہوا کا مار جانا (منجد) اور صرّ بمعنی سخت سردی، پالا، کہر (پنجابی ککر)۔ ارشاد باری ہے:
مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 117)
یہ لوگ جو مال دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال آندھی کی سی ہے جس میں سخت سردی ہو اور وہ ایسے لوگوں کی کھیتی پر جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے چلے اور اسے تباہ کر دے اور اللہ نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔

3: صرصر

بمعنی سخت ٹھنڈی اور تیز ہوا، سناٹے کی ہوا جو ٹھنڈی اور تیز بھی ہوتی ہے اور آواز بھی پیدا کرے، سائیں سائیں کرنے والی شدید ٹھنڈی ہوا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۙ (سورۃ الحاقۃ آیت 6)
رہے عاد تو انکو نہایت زور دار آندھی سے تباہ کر دیا گیا۔

4: نفحۃ

بمعنی سردی میں ہوا کا چلنا یا سرد ہوا کا چلنا۔ اور نفحۃ اسم مرۃ ہے یعنی ٹھنڈا ہوا کا ایک جھونکا (ضد لفحۃ بمعنی گرم ہوا کا ایک جھونکا)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَئِنۡ مَّسَّتۡہُمۡ نَفۡحَۃٌ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 46)
اور اگر انکو تمہارے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی پہنچے تو کہنے لگیں کہ ہائے کم بختی ہم بیشک گناہگار تھے۔

5: زمھریر

ازمھرّ (الیوم) بمعنی دن کا سخت سرد ہونا۔ اور زمھریر بمعنی سخت سردی بھی اور وہ طبقہ بھی جہاں شدت کی سردی ہو (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 13)
اس میں وہ تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ کی حدّت دیکھیں گے نہ سردی کی شدت۔

ماحصل:

  • شتآء: موسم سرما
  • صرّ: پالا، ککر، کہر۔
  • صرصر: سناٹے کی ٹھنڈی اور تیز ہوا۔
  • نفحۃ: ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا یا لپٹ۔
  • زمھریر: انتہائی سرد طبقہ یا سخت سردی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سرکشی کرنا​

کے لیے طغی، عتا (عتو)، علا (علو) اور مرد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طغی

بمعنی نافرمانی میں حد سے گزر جانا، بہت زیادہ نافرمان ہونا۔ اور طغا الماء بمعنی پانی کا بلند ہو کر کناروں کی طرف پھیل جانا، طغیانی آ جانا (منجد) طاغیۃ بمعنی حد سے بڑھا ہوا عذاب، طوفان، زبردست کڑک۔ اور طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا غلامی اختیار کی جائے (مف) خواہ یہ کوئی نظام ہو یا کوئی شخصیت گویا طغیانی میں حد سے بڑھنے کے علاوہ غلبہ اور قہر بھی پایا جاتا ہے (فق ل 190)۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ (سورۃ العلق آیت 6)
مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے۔

2: عتا

عتو یدی علی استکبار (م ل) یعنی ایسی سرکشی جو تکبر کی بنا پر ہو ۔انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اللہ کے حکم سے سرکشی کرے۔ قرآن میں ہے:
اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ یَرۡزُقُکُمۡ اِنۡ اَمۡسَکَ رِزۡقَہٗ ۚ بَلۡ لَّجُّوۡا فِیۡ عُتُوٍّ وَّ نُفُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 21)
بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کر لے تو کون ہے جو تمکو رزق دے سکے؟ لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں۔

3: علا

بمعنی بلند ہونا، غالب ہونا، تکبر کرنا (منجد) غلبہ و اقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے سرکشی اختیار کرنا، سر اٹھانا۔ قرآن میں ہے:
وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 4)
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سےکہدیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔

4: مرد

بمعنی نافرمان اور سرکش ہونا، ہمسروں سے آگے نکلنا (منجد)۔ گویا مرد سے ایسی سرکشی مراد ہے جس میں کوئی دوسروں سے آگے نکل جائے۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 117)
یہ لوگ اللہ کے سوا جو پرستش کرتے ہیں تو کچھ دیویوں کی۔ اور پکارتے بھی ہیں تو شیطان سرکش ہی کو۔

ماحصل:

  • طغی: ایسا تجاوز جس میں غلبہ اور قہر بھی ہو۔
  • عتا: ایسی سرکشی جس کی وجہ تکبر ہو۔
  • علا: غلبہ و اقتدار حاصل ہونے پر سرکشی اختیار کرنا۔
  • مرد: سکرش ہونا پھر اس میں آگے نکل جانا، اڑ جانا۔
سرگرداں پھرنا کے لیے دیکھیے "آوارہ پھرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سرگوشی کرنا​

کے لیے تخافت اور تناجی نجوی (نجی) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: تخافت

خفت بمعنی آواز کا پست ہونا۔ اور تخافت بمعنی پست آواز سے گفتگو کرنا (منجد)، آپس میں کھسر پھسر کرنا۔ خواہ یہ بات کوئی سن بھی لے۔ قرآن میں ہے:
یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا (سورۃ طہ آیت 103)
تو وہ آپس میں آہستہ آہستہ کہیں گے کہ تم دنیا میں صرف دس ہی دن رہے ہو۔

2: تناجی

نجوی، نجا بمعنی سرگوشی کرنا، راز داری کی بات چیت کرنا۔ اور تناجی بمعنی کسی کو راز دار بنانا (منجد)، خفیہ مجلس کرنا، علیحدہ مقام پر راز داری کی بات چیت کرنا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ المجادلۃ آیت 10)
منافقوں کی سرگوشیاں تو شیطان کے اکسانے سے ہیں جو اس لئے کی جاتی ہیں کہ مومن ان سے رنجیدہ ہوں مگر اللہ کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔
دوسرے مقام پر ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ (سورۃ المجادلۃ آیت 9)
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور اللہ سے جسکے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا۔

ماحصل:

تخافت محض پست آواز سے کھسر پھسر کرنا اور نجوی یہ بات چیت راز دارانہ ہو اور علیحدگی میں کی جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سرنگ​

کے لیے نفق اور سرب کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: نفق

ایسا راستہ جس کی دونوں اطراف کھیل ہوں۔ آر پار نکل جانے والا کوچہ یا سرنگ (ف ل 30) جیسے پہاڑ کو کاٹ کر نیچے سے ریل یا ٹریفک کے لیے راستہ یا سرنگ بنائی جاتی ہے۔ نیفق السراویل بمعنی پاجامے کا نیفہ اور نافقاء الیربوع بمعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دو دہانے ہوں۔ اور نافق الیربوع و نف بمعنی چوہا بل میں ایک دہانے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نکل گیا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 35)
اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گذرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی تلاش کرو پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ پس تم ہر گز نادانوں میں نہ ہونا۔

2: سرب

ایسی سرنگ جس کا ایک ہی منہ ہو۔ اور سرب بمعنی برابر گھستے چلے جانا (ف ل 30) اور انسربت الحیّۃ الی جحرھا بمعنی سانپ کا اپنے بل میں اتر جانا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا (سورۃ الکہف آیت 61)
پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے پھر اس مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنا لیا۔

ماحصل:

سرنگ کے اگر دو دہانے ہوں تو وہ نفق اور اگر ایک ہی ہو تو وہ سرب ہے۔
سزا کے لیے دیکھیے "عذاب"۔
سزا وار کے لیے دیکھیے "لائق ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سستی کرنا – سست ہونا​

کے لیے کسل، وھن، ونی، استحسر (حسر) اور بطّا (بطا) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: کسل

بے رغبتی یا بے دلی کی وجہ سے طبیعت کا گراں ہونا، کاہل ہونا، ڈھیلا ڈھالا ہونا یا رہنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 142)
منافق ان چالوں سے اپنے نزدیک اللہ کو دھوکا دیتے ہیں۔ یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر صرف لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کو یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم۔

2: وھن

جسمانی یا اخلاقی کمزوری کی وجہ سے سست ہونا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 104)
اور ان کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا۔ اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم تو اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے بڑی حکمت والا ہے۔

3: ونی

بمعنی کوتاہی کرنا، لاپروائی کرنا، سستی کرنا (منجد)، کسی کام کے کرنے میں بلا وجہ مقدور بھر کوشش نہ کرنا۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ اَخُوۡکَ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ (سورۃ طہ آیت 42)
تو تم اور تمہارا بھائی دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔

4: استحسر

حسر بمعنی تھک جانا۔ اور حسر البصر بمعنی نگاہ کا تھک جانا، بینائی کا کمزور ہو جانا۔ اور حسیر بمعنی تھکا ماندہ (منجد)۔ گویا حسر سستی کرنے کو کہتے یں جو تھکاوٹ کی وجہ سے واقع ہو، اکتا جانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ لَا یَسۡتَحۡسِرُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 19)
اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کا مال ہیں اور جو فرشتے اسکے پاس ہیں وہ اسکی عبادت سے نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔

5: بطّا

البطؤ بمعنی چلنے میں دیر لگانا اور سستی کرنا اور ابطاء بمعنی سست رفتاری سے متصف ہونا۔ اور بطّا بمعنی بہت زیادہ سستی کرنا اور دیر لگانا (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ اِنَّ مِنۡکُمۡ لَمَنۡ لَّیُبَطِّئَنَّ ۚ فَاِنۡ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالَ قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذۡ لَمۡ اَکُنۡ مَّعَہُمۡ شَہِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 72)
اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ خواہ مخواہ دیر لگاتا ہے اور پیچھے رہ جاتا ہے۔ پھر اگر تم پر کوئی مصیبت پڑ جائے تو کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں ان میں موجود نہ تھا۔

ماحصل:

  • کسل: بے دلی کی وجہ سے سستی۔
  • وھن: جسمانی یا اخلاقی کمزوری کی وجہ سے سستی۔
  • ونی: لا پروائی کی وجہ سے سستی۔
  • استحسر: تھکاوٹ کی وجہ سے سستی۔
  • بطا: سست رفتاری یا عادتا سست ہونا اور پھر دیر لگا دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سفر کرنا​

کے لیے سفر، ساح (سیح)، ظعن، نفر اور ضرب فی الارض کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سفر

بمعنی اپنی رہائش گاہ سے دور نکل جانا (م ل) اور بمعنی مسافت طے کرنا۔ یہ لفظ عام ہے۔ خواہ سفر کسی مقصد کے لیے ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ (سورۃ النساء آیت 43)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو۔

2: ساح

ساح الماء بمعنی پانی کا آوارہ پھرنا اور ساحۃ بمعنی فراخ جگہ، ساحۃ الدار بمعنی گھر کا آنگن، گھر سے ملحقہ یا نزدیک فراخ جگہ (مف) اور ساح بمعنی فراخ جگہ میں چلنا پھرنا۔ سیر و سیاحت خواہ یہ محض تفریحی ہو یا کسی دوسری غرض کی بنا پر۔ قرآن میں ہے:
فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 2)
سو مشرکو تم زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔

3: ظعن

بمعنی کوچ کرنا، ایک جگہ سے کوچ کر کے دوسری جگہ جانا، نقل مکانی کرنا (مف، م ل)۔ ظعان بمعنی ہودج باندھنے کا رستہ۔ ظعون بمعنی بار برداری کا اونٹ، ظعینہ بمعنی ہودج اور وہ عورت جو اکثر سفر اور ہودج میں رہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ سَکَنًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُیُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَہَا یَوۡمَ ظَعۡنِکُمۡ وَ یَوۡمَ اِقَامَتِکُمۡ ۙ وَ مِنۡ اَصۡوَافِہَا وَ اَوۡبَارِہَا وَ اَشۡعَارِہَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰی حِیۡنٍ (سورۃ النحل آیت 80)
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لئے ڈیرے بنائے جنکو تم ہلکا پھلکا دیکھ کر سفر اور حضر میں کام میں لاتے ہو اور انکی اون اور پشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں بناتے ہو جو مدت تک کام دیتی ہیں۔

4: نفر

النّفیر دس آدمیوں سے کم کا گروہ، لڑائی کی طرف کوچ کرنے والے لوگ۔ اور النّفیر العام بمعنی دشمن کا مقابلہ میں عوام کا اٹھ کھڑا ہونا (منجد) اور نفر بمعنی کسی مہم یا جنگ پر دشمن کے مقابلہ کے لیے جانا۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا (سورۃ النساء آیت 71)
مومنو! جہاد کے لئے ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔

5: ضرب فی الارض

لفظی معنی زمین پر پاؤں مارنا، سفر کے لیے محاورۃ استعمال ہوتا ہے اور عموماً ایسے سفر کے لیے جو دور دراز کا بھی اور با مقصد بھی۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰخَرُوۡنَ یَضۡرِبُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ یَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ (سورۃ مزمل آیت 20)
اور بعض اللہ کے فضل یعنی معاش کی تلاش میں ملک میں سفر کرینگے۔

6: رحل

الرّحل بمعنی کجاوہ، پالان، منزل، قیام گاہ، سفر میں ساتھ رہنے والا سامان۔ اور رحل بمعنی اونٹ یا کسی جانور کی پشت پر کجاوہ یا پالان باندھنا، سوار ہونا، کوچ کرنا، سفر پر روانہ ہونا (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ (سورۃ القریش آیت 2)
یعنی انکو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کی بنا پر۔

ماحصل:

  • سفر: سفر کے لیے عام لفظ۔
  • ساح: وسیع میدان میں مختلف سمتوں میں سفر، سیر و سیاحت۔
  • ظعن: نقل مکانی کے سلسلہ میں کوچ کرنا۔
  • نفر: کسی مہم یا دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلنا۔
  • ضرب فی الارض: دور دراز کا با مقصد سفر۔
  • رحل: کوچ اور اس کی تیاری سب رحل میں شامل ہے۔
سمت کے لیے دیکھیے "جانب"۔
سکڑنا کے لیے دیکھیے "خشک ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سمجھنا – سمجھانا​

کے لیے شعر، فھم، فقہ اور عقل کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: شعر

الشّعر بمعنی بال اور شعر بمعنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرنا ہے (مف) کسی معاملہ کی باریکی اور لطافت کو سمجھ لینا۔ ارشاد باری ہے:
یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 9)
یہ اپنے خیال میں اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں۔

2: فھم

الفھم انسان کی اس ذہنی قوت کا نام ہے جس سے وہ مطالب کو بہتری اور عمدگی کے ساتھ اخذ کر لینا ہے۔ اور فھم بمعنی کسی چیز کو اچھی طرح سمجھ لینا (مف) اور بمعنی کلام سنتے ہی معانی کو جان لینا یا سمجھ لینا (فق ل 69) اور سریع الفھم بمعنی بات کو فورا سمجھ جانے والا۔ اور سئ الفھم بمعنی کند ذہن (فق ل 69) اور فھّم کسی چیز کی حقیقت دوسرے کو سمجھا دینا۔ قرآن میں ہے:
وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ (سورۃ الانبیاء آیت 78، 79)
اور ہم انکے فیصلے کے گواہ تھے۔ تو ہم نے فیصلہ کرنے کا طریق سلیمان کو سمجھا دیا۔

3: فقہ

الفقہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ علم حاضر سے علم غیب تک پہنچتے ہیں (مف) دوسری مثالوں اور احکام کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ معاملات کا حل تلاش کرنا۔ قرآن میں ہے:
اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 65)
دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔
تفقّہ بمعنی کسی معاملہ میں سمجھ بوجھ پیدا کرنا اور بصیرت حاصل کرنا۔ اور معاملہ کی تہ تک پہنچنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 122)
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو انکو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔

4: عقل

بمعنی سمجھ بوجھ والا ہونا، غلطی کا احسان کرنے کے قابل ہونا (منجد) اور عقل بمعنی روکنا اور منع کرنا اور عقال وہ پائے بند جس سے اونٹ کا پاؤں باندھا جاتا ہے۔ اور المعقل بمعنی پناہ گاہ، پہاڑ یا قلعہ جس میں پناہ لی جائے (مف) گویا عقل کا یہ کام ہے کہ وہ نفع و نقصان کا امتیاز کرے اور نقصان دہ باتوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے (فق ل 65) اور فائدہ مند چیزوں کے حصول اور قبول علم کے لیے ہر وقت تیار رہے، پھر سوچ و بچار کرے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 44)
یہ کیا عقل کی بات ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو حالانکہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں؟

ماحصل:

  • شعر: کسی معاملہ کی باریکی اور لطافت کو سمجھنا۔
  • فھم: کسی معاملہ کے معانی و مطالب کو سمجھنا۔
  • فقہ: موجودہ مثالوں پر غور کر کے اس جیسے دوسرے مسائل کا حل نکالنا۔
  • عقل: اپنے نفع و نقصان کو سمجھنا پھر اسے اختیار کرنے یا چھوڑنے کی تدبیر کرنا۔
نیز دیکھیے "غور کرنا" اور "عقل والے"۔
سمیٹنا کے لیے دیکھے "اکٹھا کرنا"۔
 
Top