مترادفات القرآن (س)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سننا – سنانا​

کے لیے سمع، سمّا‏، اسمع، استمع، اذن اور اٰذن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سمع

کوئی بات یا آواز کانوں میں سننا اور السّمع بمعنی قوت سماعت بھی اور کان بھی۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ المجادلۃ آیت 1)
اے پیغمبر ﷺ جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث و جدال کرتی اور اللہ سے شکایت رنج و ملال کرتی تھی۔

2: سمّاع

سامع بمعنی سننے والا۔ اور سمّاع بمعنی جاسوس، وہ شخص جو جاسوسی کے لیے کان دھرے۔
ارشاد باری ہے:
سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ لَمۡ یَاۡتُوۡکَ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 41)
یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرتے پھرتے ہیں اور ان دوسرے لوگوں کے لئے جاسوس بنے ہیں جو ابھی تمہارے پاس نہیں آئے۔

3: اسمع

بمعنی کوئی بات دوسرے کو سنانا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 80)
کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جبکہ وہ پیٹھ پھیر لیں آواز سنا سکتے ہو۔

4: استمع

بمعنی کان لگانا، کان دھرنا، کوئی بات یا آواز سننے میں کوشش سے کام لینا (منجد، مف) جبکہ آواز اچھی طرح سنائی نہ دے رہی ہو۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا (سورۃ الجن آیت 1)
اے پیغمبر ﷺ لوگوں سے کہدو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے اس کتاب کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا۔

5: اذن

کان لگا کر دھیان سے سنن (مف) تعمیل ارشاد کے لیے بات کو اچھی طرح سننا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ (سورۃ الانشقاق آیت 2)
اور اپنے پروردگار کا فرمان سن لے گا اور یہی اسکے لائق بھی ہے۔

6: اٰذن

بمعنی کسی کو سنانا اور خبر دار کرنا، آگاہ کرنا (منجد، مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ اَیۡنَ شُرَکَآءِیۡ ۙ قَالُوۡۤا اٰذَنّٰکَ ۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَہِیۡدٍ (سورۃ حم سجدۃ آیت 47)
اور جس دن وہ انکو پکارے گا اور کہے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں تو وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے عرض کرتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو انکی خبر ہی نہیں۔

ماحصل:

  • سمع: کوئی بات یا آواز سننا، عام معنوں میں۔
  • سماّع: بمعنی جاسوسی کے طور پر سننے والا۔
  • اسمع: کسی دوسرے کو کوئی بات سنانا۔
  • استمع: کان لگانا اور آواز یا بات سننے کی کوشش کرنا۔
  • اذن: تعمیل ارشاد کے لیے غور سے سننا۔
  • اٰذن: سنا کر کسی کو خبردار کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سنوارنا​

کے لیے اصلح اور زکّی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اصلح

(ضد افسد) بمعنی خرابی اور بگاڑ کو درست کرنا۔ مادی اور معنوی ہر لحاظ سے اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 2)
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو کتاب محمد ﷺ پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ انکے پروردگار کی طرف سے برحق ہے کہ جس نے انکے گناہ دور کر دیئے اور انکی حالت سنوار دی۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 56)
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف رکھتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔

2: زکّی

(زکو) زکی اور زکّی کا لغوی معنی کھیتی وغیرہ کا بڑھنا اور زیادہ ہونا ہے۔ اور زکی مالہ بمعنی مال کی زکوۃ ادا کرنا۔ اور زکّی نفسہ بمعنی اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے (منجد)۔ لیکن شریعت نے لفظ تزکیہ کو اصطلاح کے طور پر پاک کرنا اور اصلاح کرنا کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اور تزکیہ نفس بمعنی نفس کو اخلاق رزیلہ سے پاک کرنا اور اچھے اخلاق میں اضافہ کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 9، 10)
کہ جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ نامراد رہا۔

ماحصل:

اصلاح کا لفظ ہر قسم کے بگاڑ کو سنوارنے کے لیے آتا ہے جبکہ زکّی کا لفظ نفس کے بگاڑ کو درست کرنے پھر اس میں اعلی اخلاق کا اضافہ کرنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سوار ہونا – کرنا​

کے لیے رکب اور استوی (سوی) علی اور حمل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رکب

بمعنی کسی سواری پر سوار ہونا، کسی جانور کی پیٹھ ہو یا کشتی وغیرہ۔ اور رکاب بمعنی سوار، سواری کا اونٹ۔ اور راکب بمعنی سوار۔ بالعموم شتر سوار کے لیے مستعمل ہے۔ اور رکب بمعنی شتر سواروں کا قافلہ۔ قرآن میں ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا (سورۃ الکہف آیت 71)
تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ موسٰی نے کہا کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی۔

2: استوی (علی)

بمعنی سوار ہونے کے بعد سنبھلنا، جم کر بیٹھ جانا، قرار پکڑنا۔ ارشاد باری ہے:
لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 13)
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسکو ہمارے زیرفرمان کر دیا اور ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسکو بس میں کر لیتے۔

3: حمل

کا بنیادی معنی بوجھ اٹھانا اور احمل بمعنی بوجھ اٹھانے میں مدد دینا ہے۔ پھر جب یہ بوجھ کسی انسان کا ہو اور اسے کسی جانور یا سواری پر لادنا ہو تو حمل کا لفظ ہی سوار کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 92)
اور نہ ان بے سروسامان لوگوں پر الزام ہے کہ جو تمہارے پاس آئے کہ انکو سواری دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس پر تم کو سوار کروں تو وہ لوٹ گئے اور اس غم سے کہ انکے پاس خرچ موجود نہ تھا انکی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔

ماحصل:

  • رکب: کسی بھی سوار ہونے والی چیز پر سوار ہونا۔
  • استوی علی: کسی سواری پر سوار ہونے کے بعد جم کر بیٹھ جانا۔
  • حمل: کا معنی بوجھ اٹھانا اور لادنا ہے اور حمل علی بمعنی سوار کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سوائے (علاوہ)​

کے لیے الّا، دون، غیر، وراء اور استثناء کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: الّا

بمعنی مگر، سوائے، کلمہ استثنا ہے۔ اس صورت میں یہ نکرہ کی صفت بن سکتا ہے (مف) جیسے ارشاد باری ہے:
وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 163)
اور لوگو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس بڑے مہربان اور رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
علاوہ ازیں یہ لفظ حصر کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 9)
مگر حقیقت میں اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں۔

2: غیر

کا لفظ کبھی تو محض نفی کے لیے آتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے:
اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ (سورۃ الزخرف آیت 18)
کیا وہ ہستی جو زیوروں میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کر سکے اللہ کی اولاد ہو سکتی ہے؟
اور کبھی استثناء کے لیے آتا ہے۔ اس صورت میں یہ نکرہ کی صفت بن سکتا ہے (مف) جیسے ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۖ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ (سورۃ فاطر آیت 3)
لوگو اللہ کے جو تم پر احسانات ہیں انکو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق اور رازق ہے جو تمکو آسمان اور زمین سے رزق دے؟ اسکے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کیسے الٹائے جاتے ہو۔

3: دون

دان بمعنی خسیس ہونا، کمزور ہونا۔ اور دون بمعنی پست، نیچے، قدر و منزلت میں فروتر۔ اور شیء دون بمعنی حقیر، گھٹیا چیز (منجد) اور دون بمعنی جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہو (مف) اور دون جب سوائے کا معنی دیتا ہے تو اس میں کمتری اور خست یا کمزوری کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ (سورۃ آل عمران آیت 118)
مومنو! کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدار نہ بنانا۔
اس میں مسلمانوں کے علاوہ اہل مذاہب کی کمتری کا اظہار مقصود ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 48)
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے۔ اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا۔
اسی طرح فرمایا:
اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ (سورۃ البقرۃ آیت 107)
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں۔
اس آیت میں بھی دون سوائے کے علاوہ کمتری کا معنی دے رہا ہے۔

4: وراء

لغت اضداد سے ہے۔ اس کے معنی آگے بھی اور پیچھے بھی۔ اس پار بھی اس پار بھی۔ ادھر بھی اور ادھر بھی۔ اسی لحاظ سے یہ سوائے کا معنی بھی دے جاتا ہے۔ یعنی ان سب اطراف یا چیزوں کے علاوہ۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ (سورۃ المؤمنون آیت 7)
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے نکل جانے والے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص خدا کے احکام کے علاوہ ادھر ادھر، آگے یا پیچھے کچھ تلاش کرتا ہے تو وہ غلط کار ہے۔

5: استثناء

(ثنی) بمعنی کسی چیز کو عام حکم سے خارج کرنا (منجد) اس مقصد کے لیے الّا استعمال ہوتا ہے مگر شرعی اصطلاح میں کسی چیز کو مشیت الہی کے تابع سمجھ کر اسے عام حکم سے خارج کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا (سورۃ الکہف آیت 24)
مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر اللہ چاہے تو کر دوں گا اور جب اللہ کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو۔ اور کہدو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔
اور استثناء کا لفظ ان شاء اللہ کہنے کے بدل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ (سورۃ القلم آیت 17، 18)
جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے۔ اور ان شاء اللہ نہ کہا۔

ماحصل:

  • الّا: استثناء کے ساتھ حصر کا فائدہ دیتا ہے۔
  • غیر: میں استثناء کے ساتھ نفی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔
  • دون: استثناء کے ساتھ کمتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
  • وراء: ہمہ جہتی استثناء کے لیے آتا ہے۔
  • استثناء: ان شاء اللہ کہہ کر کسی چیز کو عام حکم سے خارج کرنا۔
سوچنا کے لیے دیکھیے "غور کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سونا​

کے لیے نام، ھجع، رقد، قال (قیل)، ضجع اور تھجّد کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: نام

بمعنی سونا معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے (فل 292) سونا یا نیند بھی ایک قسم کی موت ہے جس میں روح نفسانی بدن سے جدا ہو کر سیر کرتی پھرتی ہے اور حواس خمسہ کی کار گزاری بہت حد تک کم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ماند پڑ جاتے ہیں۔ دریں اثنا انسان کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور وہ ذہنی اور جسمانی سکون کی وجہ سے راحت و آرام حاصل کرتا ہے۔ نوم بمعنی نیند اور منام بمعنی حالت خواب، نیند کی حالت۔ ارشاد باری ہے:
اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 97)
کیا بستیوں میں رہنے والے اس سے بے خوف ہیں۔ کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ بیخبر سو رہے ہوں۔

2: ھجع

بمعنی غفلت کی نیند سونا (فل 161)، گھوڑے بیچ کر سونا، سوتے میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جنا اور صاحب منجد الھجعۃ کے معنی رات کے پہلے حصہ کی ہلکی نیند بتلاتے ہیں لیکن یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود ہی الھجع کے معنی غافل، بے وقوف اور بہت سونے والا کہتے ہیں (منجد) نیز قرآن سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ لہذا صاحب فقہ اللغۃ کے معنی ہی صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ ھجوع کا لفظ رات کو سونے سے مختص ہے جیسے دوپہر کے سونے کو قیلولہ کہتے ہیں (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ (سورۃ الذریات آیت 17)
رات کے تھوڑے سے حصے میں سوتے تھے۔

3: رقد

بمعنی لمبی نیند سونا (فل 161) الرّقاد بمعنی خوشگوار اور ہلکی سے نیند (مف) الرقدۃ اور الیرقود بمعنی بہت سونے والا اور الرقود بمعنی ہمیشہ سونے والا (منجد) ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رقد ایسی نیند ہے جو لمبی بھی ہو، خوشگوار بھی اور ہلکی بھی۔ یعنی انسان آہٹ سے جاگ اٹھے۔ ارشاد باری ہے:
وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ (سورۃ الکہف آیت 18)
اور تم ان کے متعلق خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سوتے ہیں۔

4: قال

(یقیل قیلا و قیلولۃ) دوپہر کو سونا، دن کے وقت استراحت کرنا (فل 292)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا فَجَآءَہَا بَاۡسُنَا بَیَاتًا اَوۡ ہُمۡ قَآئِلُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 4)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب یا تو رات میں آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا دن کو جب وہ قیلولہ یعنی دوپہر کو آرام کرتے تھے۔

5: ضجع

پہلو یا کروٹ کے بل لیٹنا، سستانا، آرام کرنا (منجد) خواہ اونگھ یا نیند آ جائے یا نہ آئے، نیم خوابی کی حالت۔ اور مضاجع بمعنی بچھونے، بستر اور اضجعہ بمعنی اس کو سلایا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 16)
انکے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

6: تھجّد

ھجود بمعنی رات کو سونا بھی اور جاگنا بھی (لغت اضداد) کبھی سونا کبھی جاگنا۔ اور سوتے جاگتے شب بسری کرنا۔ اور ھجّد بمعنی رات کو جاگ کر نماز پڑھنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 79)
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے ایک اضافی عمل ہے امید ہے کہ اللہ تمکو مقام محمود پر فائز فرمائے۔

ماحصل:

  • نام: سونے کے لیے عام لفظ۔
  • ھجع: گہری اور غفلت کی نیند سونا۔
  • رقد: لمبی اور ہلکی نیند سونا۔
  • قال: دوپہر کو سونا۔
  • ضجع: سستانے کے لیے پہلو کے بل لیٹنا، خواہ نیند آ جائے یا نہ آئے۔
  • ھجّد: رات کو سونا بھی اور جاگنا بھی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سیاہ – سیاہی​

کے لیے اسود، غرابیب، احوی، مدھامّتان (دھم)، قترۃ اور مداد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اسود

کالا رنگ (ضد ابیض) معروف معنوں میں مستعمل ہے اور اس کا استعمال عام ہے (جمع سود) (مونث سوداء)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ (سورۃ البقرۃ آیت 187)
اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ رکھ کر رات تک پورا کرو۔

2: غرابیب

غراب بمعنی کوا اور غربیب بمعنی کوے کی طرح بہت سیاہ۔ جمع غرابیب (مف) اور غربیب بمعنی وہ آدمی جو وسمہ لگا کر بالوں کو سیاہ کرے۔ جمع غرابیب (م ق)۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ (سورۃ فاطر آیت 27)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے مینہ برسایا پھر ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے پیدا کئے۔ اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ کی گھاٹیاں ہوتی ہیں۔ جنکے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور بعض کالی سیاہ بھی ہوتی ہیں۔

3: احوی

سبزی مائل سیاہ رنگ یا سیاہی مائل سرخ رنگ (منجد)۔ قرآن میں غثاء احوی کے الفاظ ہیں۔ غثآء ان ٹہنیوں، پتوں اور کوڑا کرکٹ کو کہتے ہیں جو جھاگ میں پھنس جاتے ہیں اور دریا اس جھاگ ملے کوڑا کرکٹ کو کنارے پر پھینک دیتا ہے۔ اور جب یہ کوڑا کرکٹ پاؤں تلے کچلا جاتا رہتا ہے اس کی رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے تو یہ رنگت احوی کہلاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰی فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحۡوٰی (سورۃ الاعلی آیت 4، 5)
اور جس نے چارہ اگایا۔ پھر اسکو سیاہ رنگ کا کوڑا کر دیا۔

4: ادھم

دھم بمعنی کسی چیز کا تاریکی میں ڈھک جانا۔ اور الدّھمۃ بمعنی سیاہی (م ل)۔ کہتے ہیں دھّمۃ النار القدر آگ نے ہنڈیا کو سیاہ کر دیا۔ قرآن میں ہے:
مُدۡہَآ مَّتٰنِ (سورۃ الرحمن آیت 64)
دونوں خوب گہرے سبز۔

5: قترۃ

قتر النّار بمعنی آگ کا دھواں دینا (منجد) اور قترۃ بمعنی دھوئیں جیسے رنگ والا گرد و غبار، سیاہی۔ ارشاد باری ہے:
وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ عَلَیۡہَا غَبَرَۃٌ تَرۡہَقُہَا قَتَرَۃٌ (سورۃ عبس آیت 40، 41)
اور اس روز کتنے چہرے ایسے ہونگے جن پر گرد پڑ رہی ہو گی۔ اور ان پر سیاہی چڑھ رہی ہو گی۔

6: مداد

مددت الدّواۃ بمعنی دوات میں سیاہی یا روشنائی ڈالنا۔ اور مداد سیاہی جس سے لکھا جاتا ہے، روشنائی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا (سورۃ الکہف آیت 109)
کہدو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی ہو تو قبل اسکے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور اسکی مدد کو لائیں۔

ماحصل:

  • اسود: کالا رنگ، سفید کے مقابلہ میں۔
  • غرابیب: بہت زیادہ سیاہ۔
  • احوی: سبزی مائل سیاہ رنگ۔
  • دھم: سیاہی مائل گہرا سبز رنگ۔
  • قترۃ: دھوئیں جیسا رنگ۔
  • مداد: سیاہی جس سے لکھا جاتا ہے۔ روشنائی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سیدھا – سیدھی​

کے لیے مستقیم، سواء اور سویّ (سوی)، قصد اور سدید کے الفاظ آئے ہیں۔

1: مستقیم

قام علی الامر بمعنی کسی بات پر قائم اور برقرار رہنا۔ اور اقام الشئ بمعنی کسی چیز کو کھڑا کرنا اور سیدھا کرنا۔ اور مستقیم وہ چیز ہے جو سیدھی ہو اور متوازن و معتدل بھی۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 35)
اور جب کوئی چیز ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کر دو۔ تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
کیونکہ اگر ترازو کی ڈنڈی جو پہلے ہی سیدھی ہوتی ہے اگر افقی لائن میں متوازی نہ رہے گی تو تول بھی متوازن نہ رہے گا حالانکہ ڈنڈی تو بہرحال سیدھی ہی ہوتی اور رہتی ہے خواہ ایک پلڑا نیچے جھکا ہوا ہو۔ گویا یہاں سیدھی سے مراد افقی سمت میں سیدھی ہے یعنی وہ متوازی بھی رہے۔ اور علم جیومیٹری کی رو سے دو نقاط یا دو مقامات کے درمیاں کم سے کم فاصلہ کو خط مستقیم کہتے ہیں۔ گویا صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو سیدھا ہو اور اس میں کسی طرح کی جھول، لچک اور ڈھلک بھی نہ ہو یعنی افراط و تفریط سے پاک ہو۔ قرآن میں ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی ہے:
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ (سورۃ الفاتحہ آیت 5)
ہم کو سیدھے رستے چلا۔

2: سوی اور سویّ

سوی یسوی بمعنی کسی چیز کا درست ہونا۔ اور سوّی بمعنی درست اور ہموار کرنا۔ اور سویّ بمعنی ہموار اور درست، تندرست۔ ارشاد باری ہے:
فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا (سورۃ مریم آیت 17)
پھر انہوں نے انکی طرف سے پردہ کر لیا تو ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا سو وہ انکے سامنے ایک خوبصورت مرد کی صورت میں آیا۔
اور صراط سویّا بھی ایسے راستے کو کہتے ہیں جو درست، ہموار اور سیدھا ہو اس میں نہ اونچ نیچ ہو اور نہ ٹیڑھا پن۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا (سورۃ مریم آیت 43)
ابا مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا تو میرے ساتھ ہو جائیے میں آپ کو سیدھی راہ پر لے چلوں گا۔
اور سواء کا لفظ برابر کے معنوں میں آتا ہے۔ یہ برابری اگر دونوں اطراف سے فاصلہ یا تعداد کے لحاظ سے ہو تو اس کے لیے وسط کا لفظ آئے گا۔ اور اگر ہر لحاظ سے برابری مقصود ہو تو سواء کا لفظ استعمال ہو گا۔ گویا اس کا معنی مرکزی نقطہ یا بیچوں بیچ ہو گا۔ قرآن میں ہے:
خُذُوۡہُ فَاعۡتِلُوۡہُ اِلٰی سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ (سورۃ الدخان آیت 47)
حکم دیا جائے گا کہ اسکو پکڑ لو اور کھینچتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔
اور سوآء السبیل کے معنی وہ راستہ ہو گا جو ہر طرح کی ضلالت، کفر اور گمراہیوں کو اپنی اطراف میں چھوڑتا ہوا درمیان سے سیدھا نکل جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ (سورۃ القصص آیت 22)
اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔

3: قصد

کسی چیز کے جائز استعمال کو قصد کہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص اگر ایک بالٹی پانی سے نہا سکتا ہے اگر وہ اتنا ہی استعمال کرے تو یہ قصد ہے تو اگر زیادہ استعمال کرے گا تو یہ اسراف ہے اور بالٹی سے کم پانی استعمال کرے گا تو یہ بخل ہے۔ اور ہر معاملہ میں اس بات کا لحاظ رکھنے اور اسے عادت بنا لینے کا نام اقتصاد ہے۔ اب معنوی لحاظ سے دیکھیے تو ہر جگہ نہ صرف نرم سے کام نکل سکتا ہے نہ ہی سختی سے۔ اب کسی جگہ کتنی سختی کی جائے یا کسی حد تک نرمی سے کام لیا جائے تاکہ منزل مقصود حاصل ہو سکے تو یہ بتلانا شریعت کا کام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورۃ النحل آیت 9)
اور سیدھا رستہ تو اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا۔
قصد کا معنی درمیانی یا معتدل کرنے سے بھی صحیح مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ لہذا اس کا معنی سیدھا ہی کر لیا جاتا ہے۔

4: سدیدا

سدّ بمعنی روک، آڑ یا دیوار ہے جو دو چیزوں کے درمیان بنائی گئی ہو۔ اور سدّ بمعنی پتھروں سے شگاف بند کرنا۔ اور سداد اس مسالہ کو کہتے ہیں جس سے رخنہ یا شگاف پر کیا جائے اور قول سدید وہ بات ہے جس میں کوئی رخنہ کوئی ایچ پیچ اور چکر نہ ہو۔ صحیح، درست، سچی اور سیدھی بات۔ اور اس کی ضد قول الزور ہے جو جھوٹ سے بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 9)
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو ایسی حالت میں ہوں کہ اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا ہو گا پس چاہیے کہ یہ لوگ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں۔

ماحصل:

  • مستقیم: متوازن، معتدل اور سیدھا۔
  • سویّ: ہموار، سیدھا اور درست۔
  • سواء: درمیان سے گزرنے والا اور سیدھا۔
  • قصد: اقدار کی صحیح تعین کرنے والا اور افراد و تفریط سے پاک۔
  • سدید: ایسی چیز جس میں کوئی رخنہ اور ایچ پیچ نہ وہ۔ مضبوط، صاف اور سیدھا۔
سیر کرنا کے لیے دیکھیے "چلنا" اور "سفر کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سیر کرانا​

کے لے سیّر اور اسری (سری) کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں بڑا واضح سا فرق ہے۔ اگر یہ سیر رات کو کرائی جائے تو اسری کا لفظ آئے گا۔ اور اسری بمعنی رات کو لے چلنا، لے نکلنا۔ جیسے فرمایا:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 1)
وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔
اور اگر یہ سیر دن کو یا عام حالات میں کرائی جائے تو سیّر کا استعمال ہو گا۔ گویا سیّر کا لفظ عام ہے اور اسری خاص۔ جیسے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ (سورۃ یونس آیت 22)
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سیڑھی​

کے لیے سلّم اور معارج دو الفاظ آئے ہیں۔

1: سلّم

یہ لفظ معارج یا معراج سے اعم ہے۔ گو سلّم کا لفظ مکان میں اینٹ پتھر سے بنی ہوئی چھت پر جانے والی سیڑھی اور لکڑی کے زینہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم سلم اس چیز کو کہہ سکتے ہیں جو کسی بلند جگہ تک پہنچنے کا وسیلہ بنے (مف) (جمع سلالم اور سلالیم) اور ادراج السّلم بمعنی سیڑھی کے ڈنڈے یا اڈے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 35)
اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گذرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی تلاش کرو پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ پس تم ہر گز نادانوں میں نہ ہونا۔

2: معارج

معراج کی جمع۔ عرج بمعنی لنگڑا کر چلنا۔ اور اعرج بمعنی لنگڑا عرج فی السّلم بمعنی سیڑھی پر چڑھنا۔ اور معراج بمعنی چڑھنے کی جگہ بھی اور سیڑھی بھی (منجد)۔ گویا معراج کا لفظ سلّم سے اخص ہے۔ اس میں سیڑھی کے ذریعہ کسی بلند مقام پر پہنچ جانے کا تصور پایا جاتا ہے جبکہ سلّم محض سیڑھی کو کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلۡنَا لِمَنۡ یَّکۡفُرُ بِالرَّحۡمٰنِ لِبُیُوۡتِہِمۡ سُقُفًا مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیۡہَا یَظۡہَرُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 33)
اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہو جائیں گے تو جو لوگ اللہ سے انکار کرتے ہیں۔ ہم انکے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سیکھنا – سکھلانا​

کے لیے تعلّم اور علّم، تلقّی (لقی) اور کلّب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: تعلّم

علم بمعنی جاننا یا کسی چیز کی حقیقت کو پانا۔ اور علّم بمعنی بار بار کثرت کے ساتھ کسی کو خبر دینا یعنی سکھلانا اور تعلّم بمعنی آہستہ آہستہ اس خبر کے اثر کو قبول کرتے جانا ہے، سیکھتے جاننا، سیکھنا (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 31)
اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔
فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ (سورۃ البقرۃ آیت 102)
غرض لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈالدیں۔

2: تلقّی

لقی بمعنی ملنا، ملاقات کرنا، پانا، دیکھنا۔ اور تلقّی بمعنی کسی کا استقبال کرنا۔ اور تلقّی الشئ منہ کسی سے کچھ سیکھنے کے معنوں میں آتا ہے (منجد) اور تلقّی بمعنی القاء یعنی دل میں بات ڈالے جانے سے کچھ سیکھنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 37)
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے اور معافی مانگی تو اسنے انکا قصور معاف کر دیا بیشک وہ معاف کرنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔

3: کلّب

کلب بمعنی کتا۔ اور کلّب الکلب بمعنی کتے کو شکار کی تعلیم دینا اور سدھانا۔ اور مکلب اور کلاّب اس شخص کو کہتے ہیں جو شکار کرنے کی تعلیم دیتا یا سدھاتا ہے۔ پھر کلّب کا استعمال صرف کتوں کو سکھلانے کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسرے شکاری جانوروں، پرندوں وغیرہ کے لیے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ (سورۃ المائدۃ آیت 4)
اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جنکو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس طریق سے اللہ نے تمہیں شکار کرنا سکھایا ہے۔

ماحصل:

  • علّم: کسی کو کچھ سکھلانا اور تعلّم بمعنی خود سیکھنا۔
  • تلقّی: القاء کے ذریعہ سے کچھ سیکھنا۔
  • کلّب: شکاری جانوروں کو شکار کی تعلیم دینا، سکھلانا، سدھانا۔
 
Top