شک و شبہ
کے لیے شکّ، شبہ، مریج، مریۃ، لبس اور ریب کے الفاظ قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔
1: شکّ
دو نظریات کا ذہن میں مساوی اور برابر ہونا جبکہ کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا شک کی بنیاد جہالت یا کم علمی ہوتی ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ (سورۃ فاطر آیت 10)
انکے پیغمبروں نے کہا کیا تم کو اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔
2: شبّہ
شبہ بمعنی دو یا زیادہ چیزیں آپس میں اس قدر مماثل ہوں کہ ان میں صحیح طرح سے تمیز نہ ہو سکے (مف)۔ اور یہ شبہ رنگ یا اوصاف میں ہوتا ہے (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا (سورۃ النساء آیت 157)
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو جو اللہ کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے اللہ نے انکو ملعون کر دیا حالانکہ انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھا پائے لیکن ان لوگوں کو انکی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ انکے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ انکے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سوا انکو اسکا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسٰی کو یقیناً قتل نہیں کیا۔
قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 70)
انہوں نے کہا اب کے پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی۔
3: مریۃ
مری کے معنی میں دو باتیں پائی بنیادی ہیں (1) کسی حقیقت یا نظریہ کا مسلم ہونا (2) اس حقیقت کو مشکوک باتوں سے مشکوک کرتے رہنا (م ل) اسی لیے یہ لفظ جھگڑا کرنے کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ اور اس جھگڑا کی بنیاد یہی شک کی باتیں ہوتی ہیں۔ جیسے فرمایا:
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی (سورۃ النجم آیت 55)
تو اے انسان تو اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت پر جھگڑے گا۔
اور مریۃ کسی حقیقت کے متعلق لوگوں کے پیدا کردہ شک کو کہتے ہیں۔ جیسے فرمایا:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (سورۃ السجدۃ آیت 23)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم ان سے ملاقات ہونے سے متعلق شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا۔
4: مریج
مرج بمعنی دو چیزوں یا نظریات کا رل مل جانا۔ اور غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی کو کہتے ہیں (مف)، بے ترتیب ہونا (منجد)، معاملہ کا گڈمڈ اور پیچیدہ ہونا۔ اور مرج بمعنی کسی خیال کا آنا اور جانا اور اضطراب ہونا (م ل) گویا یہ لفظ تردد اور اضطراب کا مجموعہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ فَہُمۡ فِیۡۤ اَمۡرٍ مَّرِیۡجٍ (سورۃ ق آیت 5)
بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب انکے پاس دین حق آ پہنچا تو انہوں نے اسکو جھوٹ سمجھا سو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں پڑے ہیں۔
5: لبس
لبس بمعنی مخالطۃ اور مداخلۃ (م ل) یعنی دو چیزوں کو آپس میں خلط ملط کر دینا اور کسی چیز میں دوسری کو داخل کرنا۔ جیسے حق میں باطل کی آمیزش اور جھوٹ میں کچھ سچ ملا دینا اور اس طرح حقیقت کو ایسا مشکوک کر دینا کہ حق و باطل کی تمیز نہ ہو سکے۔ اور اسی طرح کے پڑے ہوئے شک و شبہ کو لبس کہتے ہیں۔ اور اس لفظ کا استعمال اعراض میں اور کلام کی صورت میں ہوتا ہے (فق ل 249)۔ قرآن میں ہے:
اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (سورۃ ق آیت 15)
تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور فرمایا:
وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 42)
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچّی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ۔
6: ریب
ایسا شک جس میں اضطرار کا عنصر بھی شامل ہو۔ ریب الدّھر گردش ایام، حوادث زمانہ اور ریب المنون بمعنی زندگی کے خطرات (م ل) اور ریب ایسا شک ہے جو خلجان اور کھٹکا پیدا کرے۔ کہتے ہیں دع ما یریبک الی ما لا یریبک ایسی بات چھوڑ دے جو دل میں خلجان پیدا کرے اور وہ اختیار کہ جس میں کوئی خلجان نہ ہو۔ ریبۃ بمعنی قلق، اضطراب (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ (سورۃ حم سجدۃ آیت 45)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا۔ اور یہ اس قرآن کی طرف سے بڑے بھاری شک میں پڑے ہیں۔
نیز فرمایا:
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ (سورۃ البقرۃ آیت 2)
یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے پرہیزگاروں کیلئے راہنما ہے۔
ماحصل:
- شکّ: دو نظریات میں سے کسی ایک کو کم علمی کی بنا پر ترجیح نہ دے سکنا۔
- شبہ: چند چیزوں کے اوصاف و الوان ایک جیسے ہونے کی وجہ سے شک۔
- مریۃ: کسی مسلمہ حقیقت کو ظنی باتوں سے مشکوک کر دینا۔
- لبس: دو نظریات کو ایسے ملا ک مشتبہ کر دینا کہ کسی ایک کی بھی تمیز نہ ہو سکے۔
- مریج: کبھی ایک خیال آنا، کبھی دوسرا، پھر پہلا۔ اور اس بنا پر شک میں رہنا۔
- ریب: ایسا شک جس میں اضطراب اور خلجان بھی شامل ہو۔