مترادفات القرآن (ش)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شاخ​

کے لیے فرع، شعب اور افنان کے الفاظ قرآن کریم میں ملتے ہیں۔

1: فرع

بمعنی شاخ (ضد اصل بمعنی جڑ) اس کی جمع فروع ہے۔ بمعنی درخت کی ٹہنیاں اور امام راغب کہتے ہیں کہ ہر شے کا اوپر کا حصہ جو جڑ سے نکلا ہو وہ فرع الشجر ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (سورۃ ابراہیم آیت 24)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے وہ ایسی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں۔
اور اس لفظ کا استعمال مادی اور معنوی دونوں شکلوں میں ہوتا ہے۔ فروعی مسائل ایسے مسائل کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز (اصل) پر مبنی ہوں اور اس پر ان کو قیاس کیا گیا ہو۔ مگر اس کی مثال قرآن میں نہیں۔

2: شعب

شعبۃ کی جمع۔ شعب کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہے۔ (1) افتراق یا جدا ہونا اور (2) اجماع۔ لیکن یہ لغت اضداد سے نہیں بلکہ ہر ایسی چیز پر ہر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے جو آگے جا کر کئی حصوں میں بٹ جائے (م ل) مثلاً تشعب النھر بمعنی نہر کی کئی شاخیں نکلنا یا جیسے ہاتھ کی انگلیاں (اور شعب بڑے قبیلہ کے معنوں میں بھی آتا ہے ) (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ (سورۃ المرسلات آیت 30)
یعنی اس سائے کی طرف چلو جسکی تین شاخیں ہیں۔

3: افنان

(فنن کی جمع) فنن بمعنی کسی درخت کی بت موٹی اور شاخ (پنجابی ٹہن) اور شجرۃ فنان بمعنی بہت لمبی اور موٹی شاخوں والا درخت (م ق)۔ قرآن میں ہے:
ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ (سورۃ الرحمن آیت 48)
ان دونوں میں بہت سی شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں۔

ماحصل:

  • فرع: کسی چیز کی اصل کے علاوہ جو کچھ اسے سے نکلے وہ اس کی فرع ہے۔
  • شعبۃ: کسی چیز کا کئی حصوں میں اس طرح بٹنا کے اصل سے تعلق بدستور باقی رہے۔
  • فنن: کسی بڑی اور موٹی شاخ کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شام کے اوقات​

کے لیے رواح، اصیل، عشیّا اور امسی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رواح

ظھر کے بعد یہ وقت شروع ہو جاتا ہے۔ بمعنی پچھلا پہر اور اس کی ضد غدوّ یا غدوۃ ہے (فل 191) اور الغدو والرواح پہلے اور پچھلے پہر کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ (سورۃ سباء آیت 12)
اور ہوا کو ہم نے سلیمان کے تابع کر دیا تھا اسکی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ ہوتی اور شام کی منزل بھی مہینے بھر کی ہوتی۔

2: اصیلا

(جمع اصال) عصر کے بعد کا وقت اور اس کی ضد بکرۃ ہے (ف ل 292)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا (سورۃ الدھر آیت 25)
اور صبح و شام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو۔

3: عیشّا

عشی کا وقت غروب آفتاب سے پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ضد اشراق ہے۔
(فل 292) اور غدوّ بھی آتی ہے اور بکرۃ بھی۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے۔
اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ (سورۃ المؤمن آیت 46)
یعنی آتش جہنم کہ صبح و شام اسکے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔
وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 52)
اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہیں اور اسکی توجہ کے طالب ہیں انکو اپنے پاس سے مت نکالو۔ انکے حساب اعمال کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں۔ پس ایسا نہ کرنا اگر انکو نکالو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔
قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحۡ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ (سورۃ آل عمران آیت 41)
زکریا نے کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دن اشارے کے سوا بات نہ کر سکو گے تو ان دنوں میں اپنے پروردگار کی کثرت سے یاد اور صبح و شام اس کی تسبیح کرنا۔
اور عشاء کی نماز کا وقت جو مشروع ہے وہ رات کا اندھیرا چھا جانے سے لے کر آدھی رات تک ہے۔ ارشاد باری ہے:
مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ (سورۃ النور آیت 58)
ایک تو نماز فجر سے پہلے اور دوسرے گرمی کی دوپہر کو جب تم کپڑے اتار دیتے ہو اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد یہ تین وقت تمہارے پردے کے ہیں۔
شام کرنا کے لیے امسا (مسو) کا لفظ آیا ہے۔

4: امسا

مسا بمعنی شام کا وقت۔ اور امسا بمعنی شام کرنا۔ شام میں داخل ہونا یا شام کے وقت کوئی کام کرنا اور اس کی ضد اصبح ہے۔ یعنی صبح، صبح کرنا، صبح میں داخل ہونا یا صبح کے وقت کوئی کام کرنا۔ قرآن میں ہے:
فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 17)
تو جس وقت شام ہو اور جس وقت صبح ہو اللہ کی تسبیح کرو یعنی نماز پڑھو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شاید​

کے لیے عسی اور لعلّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عسی

افعال مقاربہ میں سے ہے اور جامد ہے۔ صرف ماضی استعمال ہوتا ہے مضارع نہیں آتا۔ محبوب چیز میں امید غالب کے لیے اور مکروہ چیز میں خوف کے لیے آتا ہے (منجد) مثلاً محبوب چیز میں امید غالب کے لیے:
وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ (سورۃ القصص آیت 22)
اور جب انہوں نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے۔
اور مکروہ چیز میں خوف کے لیے:
فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ (سورۃ محمد آیت 22)
سو اے منافقو عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔

2: لعلّ

حروف مشبہ بہ فعل ہے۔ صرف غالب امکان کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَسۡـَٔلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوۡنُ قَرِیۡبًا (سورۃ الاحزاب آیت 63)
لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ کب آئے گی کہدو کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اور تمہیں کیا پتہ ہو سکتا ہے کہ قیامت قریب ہی آ گئ ہو۔
اور جب اس کی نسب اللہ تعالی کی طرف ہو تو اس کے معنی واجب کے ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا:
لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا (سورۃ الطلاق آیت 1)
اے طلاق دینے والے تجھے کیا معلوم شاید اللہ اسکے بعد رجعت کی کوئی سبیل پیدا کر دے۔

ماحصل:

عسی امید غالب کے لیے اور لعلّ امکان غالب کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شراب​

کے لیے خمر، معین اور رحیق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: خمر

شراب کے لیے اسم جامع ہے (فل 250) خمر بمعنی ڈھانپنا۔ اور خمار (جمع خمر) (سورۃ النور آیت 31) بمعنی اوڑھنی، دوپٹہ جس سے چہرہ وغیرہ ڈھانپا جا سکے۔ اور شراب کو خمر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عمل و حواس پر پردہ ڈال ک اسے زائل کر دیتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 90)
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

2: معین

معن الماء بمعنی پانی کا آہستہ آہستہ سطح زمین پر بہنا اور معن النظر فی الامر بمعنی کسی معاملہ میں گہرائی تک سوچنا (منجد) اور معین اسے پانی کو کہتے ہیں جو خوش ذائقہ، میٹھا اور صاف شفاف ہو۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ (سورۃ الملک آیت 30)
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی جو تم پیتے ہو اور برتتے ہو خشک ہو جائے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہارے لئے شفاف پانی کا چشمہ بہا لائے۔
مگر درج ذیل آیت میں کاس (بھرا ہوا جام) کا لفظ معین کے معنی کو خوشگوار شراب کے معنی میں بدل دیا ہے۔ ایسی شراب جو خمر کی مضرت سے پاک ہو۔ کیونکہ کاس کا لفظ عموماً شراب کے بھرے ہوئے جام کے لیے آتا ہے اور شراب کے لیے بھی۔ ارشاد باری ہے:
بِاَکۡوَابٍ وَّ اَبَارِیۡقَ ۬ۙ وَ کَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ (سورۃ الواقعۃ آیت 18)
یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے جام لے لے کر۔

3: رحیق

بمعنی خالص، شفاف اور خوشبودار شراب (فل 54) اور جس میں تلچھٹ یا ذرات مطلق نہ ہوں (فل 250)۔ ارشاد باری ہے:
یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ (سورۃ المطففین آیت 25)
ان کو شراب خالص سربمہر پلائی جائے گی۔

ماحصل:

  • خمر: عام شراب جو عقل و حواس کھو دیتی ہے۔ اور ہر قسم کی شراب کے لیے عام لفظ ہے۔
  • معین: خوش ذائقہ اور خوشگوار شراب جو مضرت سے پاک اور جنت میں ملے گی۔
  • رحیق: اعلی تر قس کی خوشبو دار شراب جو مضرت سے پاک اور جنت میں ملے گی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شرمانا​

کے لیے استحیاء (حیّ) اور استنکف کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استحیاء

حیی یحیی حیوۃ بمعنی زندہ ہونا۔ اور حی یحی حیاء بمعنی شرمندہ ہونا اور شرمانا ہے۔ ان دونوں سے باب استفعال استحیاء آتا ہے جو "کسی کو زندہ چھوڑنے اور کسی سے شرم محسوس کرنے" دونوں معنوں میں قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ پھر استحیاء بمعنی شرم یا جھجک محسوس کرنا۔ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مادی استعمال کی مثال یہ ہے:
فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰٮہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ (سورۃ القصص آیت 25)
تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک عورت جو شرماتی اور لجاتی چلی آتی تھی۔
اور معنوی استعمال کی مثال یہ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 26)
اللہ اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھکر کسی چیز مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ کی مثال بیان فرمائے۔

2: استنکف

نکف بمعنی ناک بھوں چڑھنا۔ اور استنکف بمعنی از راہ تکبر کسی چیز کو باعث ننگ و عار سمجھنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لَنۡ یَّسۡتَنۡکِفَ الۡمَسِیۡحُ اَنۡ یَّکُوۡنَ عَبۡدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ یَّسۡتَنۡکِفۡ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یَسۡتَکۡبِرۡ فَسَیَحۡشُرُہُمۡ اِلَیۡہِ جَمِیۡعًا (سورۃ النساء آیت 172)
مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔

ماحصل:

استحیاء محمود صفت ہے بمعنی از راہ حیا کسی سے شرمانا۔ اور استنکف مذموم صفت ہے یعنی از راہ تکبر جھجک محسوس کرنا اور شرمانا، عار سمجھنا۔
شرمندگی کے لیے دیکھیے "پچھتانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شروع کرنا​

کے لیے بدا اور طفق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بدا

دو معنوں میں آتا ہے (1) کسی کام کا آغاز کرنا، افتتاح کرنا، ابتدا کرنا (م ل)۔ (2) کوئی کام پہلے کرنا۔ اور اگر اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو اس کے معنی پہلی بار پیدا کرنا ہوتے ہیں (ضد عود بمعنی پھر وہی کام کرنا)۔ قرآن میں ہے:
فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ (سورۃ یوسف آیت 76)
پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے انکے تھیلوں کو دیکھنا شروع کیا۔ پھر اپنے بھائی کے تھیلے میں سے اسکو نکال لیا۔
اس آیت میں بدا کے دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ ایک مفہوم تو یہ ہے کہ تلاشی کا کام دوسرے بھائیوں کے سامان سے اور دوسرے یہ کہ اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لے لی۔
نیز فرمایا:
اِنَّہٗ ہُوَ یُبۡدِئُ وَ یُعِیۡدُ (سورۃ البروج آیت 13)
وہی پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔

2: طفق

فعل ناقص ہے جو اپنے ساتھ دوسرا فعل چاہتا ہے (منجد) کلام مثبت میں استعمال ہوتا ہے (مف) بمعنی (کوئی کام) کرنے لگنا، شروع کرنا۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ؕ (سورۃ الاعراف آیت 22)
سو جب انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھالیا تو انکی شرمگاہیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے اور ستر چھپانے لگے۔
دوسرے مقام پر ہے:
رُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ (سورۃ ص آیت 33)
بولے کہ انکو میرے پاس واپس لاؤ۔ پھر انکی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

ماحصل:

بدا کوئی پہلے کرنا یعنی اس کام کا آغاز کرنا اور طفق فعل ناقص ہے یعنی اصل کام تو کوئی اور ہوتا ہے یہ اس کے ساتھ مل کر اس فعل کے آغاز کا معنی دیتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شرم گاہ​

کے لیے فرج اور سوءۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فرج

(جمع فروج) فرج میں کشادگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ فرج بمعنی کھولنا، کشادہ کرنا، کھلا کرنا (منجد) اور فرج بمعنی دو چیزوں کا ایک چیز کے دو حصوں کے درمیان وسعت۔ اور فرج الطریق بمعنی راستہ کا درمیانی حصہ، دیوار میں شگاف کو بھی فرج کہتے ہیں۔ اور دو ٹانگوں کے درمیان کشادگی کو بھی۔ پھر کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 5)
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

2: سوءۃ

(سوء) سوء بمعنی ہر وہ چیز جو عقلی یا شرعی لحاظ سے بری ہو یا دیکھنے میں بری معلوم ہو اسی لحاظ سے انسان کے ستر کی چیزیں اگر ننگی ہوں تو اسے سوءۃ کہا جاتا ہے۔ اور سوءۃ کا اطلاق صرف شرمگاہ پر ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام ستر کی چیزوں مثلاً عورت کے بدن اور پستانوں وغیرہ پر بھی اگر وہ ننگے ہوں تو ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ (سورۃ الاعراف آیت 26)
اے بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور تمہارے بدن کو زینت دے۔
دوسرے مقام پر ہے:
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ؕ (سورۃ الاعراف آیت 22)
سو جب انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھالیا تو انکی شرمگاہیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے اور ستر چھپانے لگے۔
پھر اسی لحاظ سے سوءۃ کا لفظ انسان کی لاش کے لیے بھی استعمال ہوا ہے کہ وہ بھی کچھ عرصہ گزرنے پر اگر دفن نہ کی جائے تو کریہہ المنظر بن جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 31)
اب اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔

ماحصل:

  • فرج: دو چیزوں کے درمیان کھلی جگہ، شرمگاہ۔
  • سوءۃ: ستر کی چیزیں اگر کھلی ہوں اور ہر وہ چیز جس کا ظاہر ہونا برا ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شریک​

کے لیے خلیط، شریک اور انداد (ندّ) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: خلیط

خلط بمعنی ایک چیز کو دوسری سے ملانا (ضد خلص) الخلط بمعنی لوگوں سے میل جول رکھنے ولا۔ خلیط وہ لوگ جن کا معاملہ ایک ہو۔ اور الخلطۃ شرکت کو کہتے ہیں (منجد) اور اصطلاحی معنوں میں خلیط بمعنی "جزوی شریک کار" ہے۔ یعنی ایسے شرکائے کار جن کے کچھ انتظامات تو الگ الگ ہوں اور کچھ اجتماعی ہوں۔ مثلاً زید اور بکر دونوں کے پاس الگ الگ ریوڑ ہیں جو ان کی اپنی ملکیت ہیں لیکن ان کی حفاظت کے لیے انہوں نے جگہ مشترکہ طور پر کرایہ پر لے رکھی ہے یا چراوہے کو مشترکہ معاوضہ ادا کرتے ہیں تو ایسے شریک کار خلیط کہلاتے ہیں (احادیث صحیحہ کی رو سے ایسے خلطاء کے مشترکہ مال پر زکوۃ عائد ہوتی ہے)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیۡلٌ مَّا ہُمۡ ؕ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ (سورۃ ص آیت 24)
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے بیشک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔ اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔ ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد نے خیال کیا کہ اس واقعے سے ہم نے انکو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر سجدے میں گر پڑے اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔

2: شریک

بمعنی ساجھی جو ایک دوسرے سے الگ نہ ہو سکیں۔ شراکت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔ مادی یہ ہے کہ مثلاً دو آدمی ایک کاروبار میں شریک ہیں ان کی ذمہ داریاں اس طرح کی ہیں کہ کسی ایک کے نکل جانے سے نہ کاروبار کا آغاز ہو سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 111)
اور کہو کہ سب تعریف اللہ ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اسکی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز و ناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اسکو بڑا جان کر اسکی بڑائی کرتے رہو۔
اور معنوی شراکت یہ ہے جیسے انسان اور گھوڑا حیوانیت میں شریک ہیں۔ یہ شراکت صفاتی ہوئی۔ اللہ تعالی اس سے بھی پاک ہے جیسا کہ بہت سی آیتوں سے واضح ہے۔

3: اندادا

(ندّ کی جمع) ندّ بمعنی سخت نفرت کرنا اور بھاگنا۔ اور نادّہ بمعنی اس نے مخالفت کی (م ق) اور بمعنی کسی کی ذات یا جوہر میں شریک ہونا (مف)۔ گویا ندّ ساجھی نہیں بلکہ مد مقابل یا رقیب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی ایک کی تمام تر صفات یا تھوڑی بہت دوسروں میں بھی پائی جاتی ہیں، نظیر (لغت اضداد) بمعنی مخالف اور حریف بھی اور نظیر اور مثل بھی (ک ض)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ یت 22)
پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم جانتے تو ہو۔

ماحصل:

  • خلیط: جزوی شریک کار۔
  • شریک: کسی ایک کام میں مکمل اشتراک رکھنے والا۔
  • ندّ: ذات اور جوہر میں شریک، مد مقابل، نظیر کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شعلہ​

کے لیے لھب، شواظ، نحاس، مارج اور شرر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لھب

بمعنی آگ کا حرکت کرنا اور بلند ہونا (فل 172) اور بمعنی آگ کی زبان بلند ہونا (م ل) شعلہ معروف معنوں میں مستعمل ہے اور شعلہ کے لیے عام لفظ ہے۔ قرآن میں ہے:
سَیَصۡلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ (سورۃ مسد آیت 3)
وہ ضرور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔

2، 3: شواظ، نحاس

شواظ ایسے شعلہ کو کہتے ہیں جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہو (مف) اور اگر دھوئیں کی آمیزش ہو تو نحاس کہتے ہیں۔ بشرطیکہ دھوئیں کی آمیزش کم اور آک زیادہ ہو تو چونکہ اس کا رنگ تانبے جیسا ہو جاتا ہے لہذا اسے نحاس بمعنی تانبہ کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
یُرۡسَلُ عَلَیۡکُمَا شُوَاظٌ مِّنۡ نَّارٍ ۬ۙ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنۡتَصِرٰنِ (سورۃ الرحمن آیت 35)
تم پر آگ کے شعلے صاف اور دھواں ملے چھوڑ دیئے جائیں گے تو پھر تم انکا مقابلہ نہ کر سکو گے۔

4: مارج

شعلہ کا اوپر کا گرم ترین حصہ جو دھوئیں سے یکسر پاک ہوتا ہے (فل 58)، آگ کی لپٹ۔ ارشاد باری ہے:
وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ (سورۃ الرحمن آیت 15)
اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

5: شرر

آگ کے بڑے شعلے سے کٹ کر اڑنے والے چھوٹے چھوٹے حصے، چنگارے، چنگاریاں، شرارے (مف) قرآن میں ہے:
اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ (سورۃ المرسلات آیت 32)
اس سے آگ کی اتنی اتنی بڑی چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل۔

ماحصل:

  • لھب: شعلہ کے لیے عام لفظ۔
  • شواظ: ایسا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔
  • نحاس: ایسا شعلہ جس میں دھوئیں کی آمیزش ہو مگر آگ زیادہ ہو۔
  • مارج: شعلہ کا اوپر کا گرم ترین حصہ۔
  • شرر: کسی شعلہ سے کٹ کر اڑنے والے چھوٹے چھوٹے حصے، چنگارے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شک و شبہ​

کے لیے شکّ، شبہ، مریج، مریۃ، لبس اور ریب کے الفاظ قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔

1: شکّ

دو نظریات کا ذہن میں مساوی اور برابر ہونا جبکہ کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا شک کی بنیاد جہالت یا کم علمی ہوتی ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ (سورۃ فاطر آیت 10)
انکے پیغمبروں نے کہا کیا تم کو اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔

2: شبّہ

شبہ بمعنی دو یا زیادہ چیزیں آپس میں اس قدر مماثل ہوں کہ ان میں صحیح طرح سے تمیز نہ ہو سکے (مف)۔ اور یہ شبہ رنگ یا اوصاف میں ہوتا ہے (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا (سورۃ النساء آیت 157)
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو جو اللہ کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے اللہ نے انکو ملعون کر دیا حالانکہ انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھا پائے لیکن ان لوگوں کو انکی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ انکے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ انکے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سوا انکو اسکا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسٰی کو یقیناً قتل نہیں کیا۔
قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 70)
انہوں نے کہا اب کے پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی۔

3: مریۃ

مری کے معنی میں دو باتیں پائی بنیادی ہیں (1) کسی حقیقت یا نظریہ کا مسلم ہونا (2) اس حقیقت کو مشکوک باتوں سے مشکوک کرتے رہنا (م ل) اسی لیے یہ لفظ جھگڑا کرنے کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ اور اس جھگڑا کی بنیاد یہی شک کی باتیں ہوتی ہیں۔ جیسے فرمایا:
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی (سورۃ النجم آیت 55)
تو اے انسان تو اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت پر جھگڑے گا۔
اور مریۃ کسی حقیقت کے متعلق لوگوں کے پیدا کردہ شک کو کہتے ہیں۔ جیسے فرمایا:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (سورۃ السجدۃ آیت 23)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم ان سے ملاقات ہونے سے متعلق شک میں نہ ہونا اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا۔

4: مریج

مرج بمعنی دو چیزوں یا نظریات کا رل مل جانا۔ اور غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی کو کہتے ہیں (مف)، بے ترتیب ہونا (منجد)، معاملہ کا گڈمڈ اور پیچیدہ ہونا۔ اور مرج بمعنی کسی خیال کا آنا اور جانا اور اضطراب ہونا (م ل) گویا یہ لفظ تردد اور اضطراب کا مجموعہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ فَہُمۡ فِیۡۤ اَمۡرٍ مَّرِیۡجٍ (سورۃ ق آیت 5)
بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب انکے پاس دین حق آ پہنچا تو انہوں نے اسکو جھوٹ سمجھا سو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں پڑے ہیں۔

5: لبس

لبس بمعنی مخالطۃ اور مداخلۃ (م ل) یعنی دو چیزوں کو آپس میں خلط ملط کر دینا اور کسی چیز میں دوسری کو داخل کرنا۔ جیسے حق میں باطل کی آمیزش اور جھوٹ میں کچھ سچ ملا دینا اور اس طرح حقیقت کو ایسا مشکوک کر دینا کہ حق و باطل کی تمیز نہ ہو سکے۔ اور اسی طرح کے پڑے ہوئے شک و شبہ کو لبس کہتے ہیں۔ اور اس لفظ کا استعمال اعراض میں اور کلام کی صورت میں ہوتا ہے (فق ل 249)۔ قرآن میں ہے:
اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (سورۃ ق آیت 15)
تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور فرمایا:
وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 42)
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچّی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ۔

6: ریب

ایسا شک جس میں اضطرار کا عنصر بھی شامل ہو۔ ریب الدّھر گردش ایام، حوادث زمانہ اور ریب المنون بمعنی زندگی کے خطرات (م ل) اور ریب ایسا شک ہے جو خلجان اور کھٹکا پیدا کرے۔ کہتے ہیں دع ما یریبک الی ما لا یریبک ایسی بات چھوڑ دے جو دل میں خلجان پیدا کرے اور وہ اختیار کہ جس میں کوئی خلجان نہ ہو۔ ریبۃ بمعنی قلق، اضطراب (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ (سورۃ حم سجدۃ آیت 45)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا۔ اور یہ اس قرآن کی طرف سے بڑے بھاری شک میں پڑے ہیں۔
نیز فرمایا:
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ (سورۃ البقرۃ آیت 2)
یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے پرہیزگاروں کیلئے راہنما ہے۔

ماحصل:

  • شکّ: دو نظریات میں سے کسی ایک کو کم علمی کی بنا پر ترجیح نہ دے سکنا۔
  • شبہ: چند چیزوں کے اوصاف و الوان ایک جیسے ہونے کی وجہ سے شک۔
  • مریۃ: کسی مسلمہ حقیقت کو ظنی باتوں سے مشکوک کر دینا۔
  • لبس: دو نظریات کو ایسے ملا ک مشتبہ کر دینا کہ کسی ایک کی بھی تمیز نہ ہو سکے۔
  • مریج: کبھی ایک خیال آنا، کبھی دوسرا، پھر پہلا۔ اور اس بنا پر شک میں رہنا۔
  • ریب: ایسا شک جس میں اضطراب اور خلجان بھی شامل ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شکل و صورت​

کے لیے ھیئۃ (ھیا)، شکل، صورت اور تماثیل کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: ھیئۃ

کسی چیز کی رف سی ابتدائی شکل و صورت کو کہا جاتا ہے خواہ یہ شکل محسوسہ ہو یا معقولہ (مف) یعنی مادی طور پر موجود ہو یا صرف ذہن میں ہو۔ اور ھیئۃ اور ھیئۃ (ھ مکسور) بمعنی چیز کی حالت، کیفیت، شکل و صورت (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ (سورۃ آل عمران آیت 49)
میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔

2: شکل

مشاکلۃ بمعنی شکل و صورت میں مشابہ ہونا (مف) اور اشکال بمعنی کسی معاملہ میں ایسی پیچیدگی جس میں کئی ملتی جلتی صورتیں سامنے آ جائیں۔ اور مشکل بھی ایسے ہی پیچیدہ امر کو کہتے ہیں۔ اور شکل الامر بمعنی مشتبہ ہونا۔ اور شکل بمعنی مشابہت، مثل، نظیر۔ اور اشکال بمعنی موتی یا چاندی کے زیورات جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَّ اٰخَرُ مِنۡ شَکۡلِہٖۤ اَزۡوَاجٌ (سورۃ ص آیت 58)
اور اسی طرح کے اور بہت سے عذاب ہوں گے۔

3: صورت

بمعنی کسی مادی چیز کے ظاہری خد و خال جس سے اسے پہچانا جا سکے۔ اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہو سکے (مف) ارشاد باری ہے:
فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ (سورۃ انفطار آیت 8)
جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔

4: تمثال

(جمع تماثیل) مثل بمعنی کسی دوسری چیز کی شکل و صورت اختیار کرنا اور سیدھا کھڑا ہونا اور ممثّل وہ چیز ہے جو نمونہ کے مطابق بنائی جائے۔ اور تمثّل کسی کی شکل بن جانا (مف)، کسی کا روپ دھار لینا۔ اور تمثال بمعنی تصویر، صورت یا کسی چیز کا مجسمہ (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 52)
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی برادری والوں سے کہا یہ کیسی مورتیں ہیں جنکی پرستش پر تم لوگ جمے ہوئے ہو۔

ماحصل:

  • ھیئت: کسی چیز کا رف سا ڈھانچہ، خواہ حسی ہو یا ذہنی۔
  • شکل: صورت میں مشابہت رکھنے والی چیزیں۔
  • صورت: کسی کے امتیازی خد و خال۔
  • تمثال: کسی اصل چیز کی نقل، تصویر، مورت، مجسمہ وغیرہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شکل و صورت بنانا​

کے لیے صوّر، خلق اور تمثّل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صوّر

بمعنی تصویر کھینچنا، شکل بنانا (منجد)۔ اس لفظ کا اطلاق بالعموم جاندار اشیا پر ہوتا ہے اور جاندار اشیا کی صورت بنانا اللہ تعالی کا خاصہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ آل عمران آیت 6)
وہی تو ہے جو ماں کے پیٹ میں جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

2: خلّق

مادہ پر صورت کی تکمیل سے پہلے کے ابتدائی نقش و نگار بنانا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ (سورۃ الحج آیت 5)
لوگو اگر تمکو مرنے کے بعد جی اٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تمکو پہلی بار بھی تو پیدا کیا تھا یعنی ابتدا میں مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ جسکی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر اپنی خالقیت ظاہر کر دیں

3: تمثّل

بمعنی اپنی شکل و صورت میں تبدیلی پیدا کر کے کسی دوسرے کی شکل و صوت کی مانند بن جانا، روپ دھار لینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا (سورۃ مریم آیت 17)
پھر انہوں نے انکی طرف سے پردہ کر لیا تو ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا سو وہ انکے سامنے ایک خوبصورت مرد کی صورت میں آیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شگاف​

کے لیے فطور اور فروج کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

1: فطور

فطر بمعنی کسی چیز کو لمبائی کے رخ پھاڑنا (مف) یا چیرنا ہے۔ اور انفطر کے معنی چر جانا ہے (عثمانی) گویا فطور ایسے شگاف کو کہتے ہیں جس کی چوڑائی لمبائی کی نسبت بہت کم ہو۔ درز یا دراڑ۔ قرآن میں ہے:
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ اے دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو آسمان میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟

2: فروج

فرج کے معنی میں کشادگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ پھٹنے یا چرنے کا نہیں۔ فرج بمعنی کھولنا، کشادہ کرنا، کھلا کرنا (منجد) فرج بمعنی دو چیزوں یا ایک ہی چیز کے دو حصوں کے درمیان وسعت۔ اور فرج الطریق بمعنی راستہ کا درمیانی حصہ (منجد، مف) سوراخ یا شگاف خواہ اس کی ساخت میں ہو یا بعد میں واقع ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَفَلَمۡ یَنۡظُرُوۡۤا اِلَی السَّمَآءِ فَوۡقَہُمۡ کَیۡفَ بَنَیۡنٰہَا وَ زَیَّنّٰہَا وَ مَا لَہَا مِنۡ فُرُوۡجٍ (سورۃ ق آیت 6)
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اسکو کیسے بنایا اور سجایا اور اس میں کوئی شگاف تک نہیں۔

ماحصل:

فطور وہ لمبا شگاف ہے جو کسی چیز کے پھٹنے یا چرنے سے پیدا ہو جبکہ فروج صرف درمیان میں کھلی جگہ کو کہتے ہیں۔ خواہ یہ شگاف پیدائشی ہو یا بعد میں واقع ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شہر – بستی​

کے لیے مدینۃ، بلد، مصر، دیار اور قریۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: مدینۃ

مدن بمعنی اقامت کرنا، شہر میں بسنا۔ اور تمدّن بمعنی مہذب و شائستہ ہونا (منجد) اور مدینۃ ہر ایسے شہر کو کہتے ہیں جہاں لوگ مل جل کر اصول و قواعد کے تحت رہتے ہوں (جمع مدائن) قرآن میں ہے:
وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ یس آیت 20)
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو۔

2: بلد

ہر وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ہوں (مف) (جمع بلاد)۔
لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ (سورۃ البلد آیت 1)
میں اس شہر یعنی مکے کی قسم کھاتا ہوں۔

3: مصر

بمعنی حد (جمع مصور)۔ کہتے ہیں اشتری فلان الدار بمصورھا فلاں نے وہ مکان اس کی حدود تک خرید لیا۔ اور مصر بمعنی پرگنہ تحصیل (جس کی حد بندی کی گئی ہو) اور بعض کے نزدیک مصر ایسا شہر ہے جہاں فے اور صدقات تقسیم ہوتے ہوں (م ل) اور بعض کے نزدیک یہ فصیل والا شہر ہوتا ہے۔ نیز ایک ملک کا نام قرآن میں ہے:
اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں تو کسی شہر میں جا اترو وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا۔

4: دیار

(واحد دار اور اس کی جمع دور بھی آتی ہے) دور بمعنی کسی چیز کا چاروں طرف سے گھرا ہونا اور دار بمعنی گھر، مکان۔ اور دیر بمعنی کسی عابد کی رہائش گاہ۔ اور دار بمعنی رہائش کے لحاظ سے اس کا مفہوم بڑا وسیع ہے جس کا اطلاق کسی بستی، قصبہ، شہر اور ملک سب پر ہوتا ہے۔ دار الحرب بمعنی دشمن کا ملک۔ دار القرار بمعنی آخرت، دار الدنیا بمعنی دنیا کا گھر، تمام دنیا۔ اور داران یا دارین بمعنی دنیا یا آخرت۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 5)
پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کر دیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔ اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔

5: قریۃ

(جمع قری) بمعنی (1) بستی (2) بستی میں رہنے والے لوگ۔ اس لفظ کا اطلاق الگ الگ معنوں میں بھی ہوتا ہے اور مجموعی طور پر بھی (مف) بستی خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، گاؤں ہو یا شہر، سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور صاحب منجد کے نزدیک صرف بڑی بستی پر ہوتا ہے (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہَا وَ رُسُلِہٖ فَحَاسَبۡنٰہَا حِسَابًا شَدِیۡدًا ۙ وَّ عَذَّبۡنٰہَا عَذَابًا نُّکۡرًا (سورۃ الطلاق آیت 8)
اور بہت سی بستیوں کے رہنے والوں نے اپنے پروردگار اور اسکے پیغمبروں کے احکام سے سرکشی کی تو ہم نے انکو سخت حساب میں پکڑ لیا اور ان پر ایسا عذاب نازل کیا جو نہ دیکھا تھا نہ سنا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ تِلۡکَ الۡقُرٰۤی اَہۡلَکۡنٰہُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَ جَعَلۡنَا لِمَہۡلِکِہِمۡ مَّوۡعِدًا (سورۃ الکہف آیت 59)
اور یہ بستیاں جو ویران پڑی ہیں جب انہوں نے کفر کر کے ظلم کیا تو ہم نے انکو تباہ کر دیا۔ اور انکی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا تھا۔

ماحصل:

  • مدینۃ: وہ بستی ہے جہاں لوگ اصول و قواعد کے تحت رہتے ہیں۔
  • بلد: وہ شہر جس کی حد بندی کی گئی ہو۔
  • مصر: حد بندی شدہ اور فصیل والا شہر۔
  • دیار: کا اطلاق گھر، گاؤں، قصبہ، شہر، ملک اور پوری دنیا پر بھی ہو سکتا ہے۔
  • قریۃ: بڑی بستی، شہر یا گاؤں، بستی اور اس کے رہنے والے لوگ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

شیشہ​

کے لیے زجاجۃ (زجّ) اور قواریر (قرر) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زجاجۃ

بمعنی شیشہ GLASS کانچ، بلور، معروف لفظ ہے۔ شیشہ کا ٹکڑا یا شیشے کا برتن سب کے لیے مستعمل ہے۔ الزجاجی بمعنی شیشہ بیچنے والا۔ اور زجاجۃ بمعنی شیشہ گری کا پیشہ (منجد) اور بمعنی آبگینہ (م ا) یعنی زجاجۃ سے مراد ایسا شیشہ ہے جس کے آر پار دیکھا جا سکے۔ قرآن میں ہے:
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ (سورۃ النور آیت 35)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اسکے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں ایک چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف شفاف ہے کہ گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے۔

2: قواریر

(واحد قارورہ) بمعنی کوئی پینے کی چیز (مشروب) یا کھجور یا چھوہارے رکھنے کا برتن (منجد)، شیشے کا برتن اور حکیموں کی اصطلاح میں شیشے کا وہ برتن جس میں مریض کا پیشاب برائے ملاحظہ حکیم کو پیش کیا جائے۔ اور قارورہ ہر اس شیشہ کو کہتے ہیں جو کسی غرض کے لیے بنایا گیا ہو خواہ یہ چہرہ دیکھنے کا ہو یا عمارتوں کی زیبائش کے لیے رنگدار بنایا گیا ہو یا برتن سازی میں استعمال ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکۡوَابٍ کَانَتۡ قَؔوَارِیۡرَا۠ (سورۃ الدھر آیت 15)
اور خدّام چاندی کے برتن لئے ہوئے انکے اردگرد پھریں گے اور شیشے کے نہایت شفاف پیالے۔

ماحصل:

  • زجاجۃ: بمعنی آبگینہ، کانچ، بلور جس کے آر پار دیکھا جا سکے۔
  • قواریر: وہ شیشہ ہے جس کو کسی غرض کے لیے بنایا جائے، شیشہ کی مصنوعات خواہ پھولدار اور رنگین ہوں۔
شیطان کے لیے دیکھیے "جن"۔
 
Top