مترادفات القرآن (ص)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

صاف کرنا​

کے لیے محّص، طھر، صفا اور مسح کے الفاظ آئے ہیں۔

1: محّص

کسی ایسی چیز کو صاف کرنا جس میں ملاوٹ رچ بس گئی ہو۔ مادی اشیا میں اس کا اطلاق مرکبات COMPOUNDS کو الگ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے محّص الذھب بمعنی سونے کو کٹھالی میں ڈال کر دوسری دھاتوں کے آمیزے اور آلائش دور کرنا۔ اور معنوی لحاظ سے اس کا اطلاق کسی کو رنج و مصائب میں مبتلا کر کے اسے پاک و صاف بنانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 141)
اور یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو پاک صاف بنا دے اور کافروں کو نابود کردے۔

2: طھر

(ضد دنس بمعنی میل کچیل ہے) یعنی میل کچیل اور غلاظت سے پاک، صاف، نتھرا ہوا، شفاف۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 48)
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت یعنی مینہ کے آگے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک نتھرا ہوا پانی برساتے ہیں۔

3: صفّا

ایسی چیزوں کو آلائش اور آمیزش سے پاک صاف کرنا جن کو الگ کرنا کیمیاوی عمل کے بغیر ممکن ہو۔ یعنی آمیزہ MIXTURE جیسے شہد کو موم اور ستھا وغیرہ سے پاک و صاف کرنا یا نمکین پانی کو گرم کر کے پانی اور نمک کو الگ الگ کر دینا۔ قرآن میں ہے:
وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی (سورۃ محمد آیت 15)
اور صاف شدہ شہد کی نہریں ہیں۔

4: مسح

بمعنی چیز پر ہاتھ پھیر کر اس سے گرد اور آلائش وغیرہ کو دور کرنا، جھاڑنا، پونچھنا۔ جیسے فرمایا:
رُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ (سورۃ ص آیت 33)
بولے کہ انکو میرے پاس واپس لاؤ۔ پھر انکی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
اور شرعی اصطلاح میں مسح کا معنی پاک مٹی یا پانی کو پہلے کسی جگہ پر ملنا یا لگانا پھر اسے جھاڑ کر صاف کر دینا ہے۔ جیسے فرمایا:
فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ (سورۃ المائدۃ آیت 6)
تو پاک مٹی کا ارادہ کرو۔ پھر اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔

ماحصل:

  • محّص: مرکبات سے آمیزش کو دور کرنا اور صاف بنانا۔
  • طھّر: ظاہری نجاست کو پانی وغیرہ سے صاف کرنا۔
  • صفّی: آمیزے سے آمیزش کو علیحدہ ک کے صاف کرنا۔
  • مسح: ہاتھ پھیر کر گرد اور آلائش وغیرہ کو پونچھنا، جھاڑنا، صاف کرنا۔
نیز دیکھیے "پاک و صاف کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

صبح​

کے لیے بالترتیب اور بلحاظ وقت اسحار (واحد سحر)۔ فجر، صبح کے لیے دیکھیے عنوان "رات"۔ اور اشراق (یا شروق)، بکرۃ (یا بکور)، غداۃ (یا غدوّ) اور ضحی کے لیے دیکھیے عنوان "دن"۔
اہل عرب نے دن کی مدت کو بھی بارہ حصوں یا بارہ گھڑیوں میں تقسیم کر کے ان کے الگ الگ نام تجویز کیے ہیں اور رات کو بھی بارہ گھڑیوں میں تقسیم کر کے ان کے نام تجویز کر رکھے ہیں۔ مندرجہ بالا الفاظ ان ہی مختلف گھڑیوں کے نام ہے جن کی تفصیل دن اور رات کے عنوان کے تحت دے دی گئی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

صبح کو کرنا​

کے لیے اصبح اور غدا (غدو) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اصبح اور صبّح

صبح (صبحا) بمعنی روشن اور چمکدار ہونا۔ اور مصباح بمعنی چراغ اور صبح دن چڑھنے سے پیشتر روشنی ہو جانے کے وقت کو کہتے ہیں۔ اصبح بمعنی صبح میں داخل ہونا۔ اور صبّح بمعنی صبح کے وقت آنا، صبح کا سلام کہنا (منجد) اور اصبح صبّح کسی کام کا صبح کے وقت ہونا یا کرنا کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَصۡبَحَتۡ کَالصَّرِیۡمِ فَتَنَادَوۡا مُصۡبِحِیۡنَ (سورۃ القلم آیت 20، 21)
تو وہ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی۔ پھر جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ لَقَدۡ صَبَّحَہُمۡ بُکۡرَۃً عَذَابٌ مُّسۡتَقِرٌّ (سورۃ القمر آیت 38)
اور ان پر صبح سویرے ہی ٹھہر جانے والا عذاب آ نازل ہوا۔
پھر کثرت استعمال کی وجہ سے اصبح کا لفظ صرف "ہو جانا" کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ جیسے فرمایا:
فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے۔

2: غدا

غد بمعنی آنے والا کل۔ آج سے بعد آنے والا دن TOMORROW اور غدوۃ دن چڑھنے کے بعد اشراق اور بکرۃ کے بعد تیسری گھڑی کو کہتے ہیں۔ اور غدا بمعنی دوسرے دن پہلے پہر کوئی کام کرنا۔ پھر اس لفظ کا استعمال بھی کسی دن غدوۃ یا پہلے پہر کوئی کام کرنے پر ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( سورۃ آل عمران آیت 121)
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر موقع بہ موقع متعین کرنے لگے اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

صبر کرنا​

کے لیے صبر اور قنع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صبر

بمعنی کسی تکلیف یا صدمہ پہنچنے پر اسے برداشت کر جانا اور بے قراری و جزع و نزع کا اظہار نہ کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 36)
اور تم سے پہلے بھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے۔ تو وہ تکذیب اور ایذا پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی۔ اور اللہ کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں۔ اور تمکو پیغمبروں کے احوال کی خبریں پہنچ چکی ہیں تو تم بھی صبر سے کام لو۔

2: قنع

بمعنی جو کچھ حصہ میں آئے اس پر صبر کرنا (منجد) اور قناعت بمعنی ضروریات زندگی سے متعلق تھوڑی چیز پر راضی ہونا (مف) تھوڑی چیز پر صبر و شکر کرنا اور کسی کے سامنے شکوہ شکایت نہ کرنا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ حج آیت 36)
پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اس طرح ہم نے انکو تمہارے زیر فرمان کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

ماحصل:

  • صبر: مصائب و مشکلات پڑنے پر برداشت کر جانا۔
  • قناعت: ضروریات زندگی میں تھوڑے پر صبر و شکر کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

صلح​

کے لیے صلح اور سلم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صلح

الاصلاح کی ضد فساد بمعنی بگاڑ ہے۔ اور اصلح بمعنی بگاڑ کو درست کرنا۔ اور صلح ان فریقین کے درمیان باہمی سمجھوتہ کو کہتے ہیں جن میں پہلے سے بگاڑ، جھگڑا یا لڑائی موجود ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ (سورۃ حجرات آیت 9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔
وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 128)
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کر لیں۔ اور صلح خوب چیز ہے اور طبعیتیں تو خود غرضی کی طرف مائل ہوتی ہی ہیں۔ اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

2: سلم

السّلم بمعنی سلامتی، تابعدار اور سلم بمعنی نجات پانا، محفوظ ہونا۔ اور سلم صلح کرانے والے کو بھی کہتے ہیں (منجد) اور ایسے سمجھوتہ یا صلح کو بھی جو لڑائی یا بگاڑ پیدا ہونے سے پہلے ہی ہو جائے، مطیع ہونا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 90)
پھر اگر وہ تم سے کنارہ کشی کریں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر زبردستی کرنے کی کوئی سبیل مقرر نہیں کی۔

ماحصل:

لڑائی یا فساد سے پہلے سمجھوتہ کے لیے سلم اور بگاڑ واقع ہونے کے بعد باہمی سمجھوتہ کے لیے صلح کا لفظ آتا ہے۔
 
Top