طریقہ – دستور
کے لیے سنّۃ، امّۃ، شریعۃ، منہاج، منسک، شاکلۃ، معروف اور خلق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: طریقۃ
بمعنی عادت، حالت، مذہب (منجد) ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہا جاتا ہے جو انسان کوئی کام اختیار کرنے کے لیے کرتا ہے۔ خواہ وہ فعل محمود ہو یا مذموم (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡۤا اِنۡ ہٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیۡدٰنِ اَنۡ یُّخۡرِجٰکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہِمَا وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی (سورۃ طہ آیت 63)
کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمکو تمہارے ملک سے نکال دیں۔ اور تمہارے بہترین مذہب کو نابود کر دیں۔
دوسرے مقام پر ہے:
نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا (سورۃ طہ آیت 104)
جو باتیں یہ کریں گے ہم خوب جانتے ہیں۔ اس وقت ان میں سب سے اچھی راہ والا یعنی عاقل و ہوشمند کہے گا کہ نہیں بلکہ صرف ایک ہی روز ٹھہرے ہو۔
گویا شرعی اصطلاح میں طریقہ، لوگوں کی ان رسوم و عادات کو کہتے ہیں جنہیں لوگوں نے مذہبی شعائر کا درجہ دے رکھا ہو۔
2: سنّۃ
سنّ بمعنی کسی چیز کا جری ہونا اور اس کا درست طور پر چلنا (م ل) لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ جیسے من سنّ سنّۃ جس کسی نے کوئی بات (طریقہ، رسم، دستور) رائج کیا۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو اس سے قانون الہی (جسے عموماً قانون قدرت کہہ دیتے ہیں) مراد ہو گا۔ جیسے فرمایا:
اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٔ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا (سورۃ فاطر آیت 43)
یعنی انہوں نے ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا اختیار کیا اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی روش کے سوا اور کسی چیز کے منتظر نہیں سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔
اور جب صرف لفظ سنت بولا جائے تو اس سے مراد بالعموم وہ طریق ہے جو رسول اکرم ﷺ نے رائج فرمایا ہو (جمع سنن)۔ اسوۂ رسول ﷺ ۔
3: امّۃ
ایک ہی عقیدہ یا نظریہ کے ہم خیال لوگوں کو امت کہتے ہیں (مف) پھر اس لفظ کا اطلاق اس عقیدہ یا نظریہ پر بھی ہوتا ہے جس پر لوگ ہم خیال ہو جائیں خواہ یہ عقیدہ یا نظریہ غلط ہو یا صحیح۔ قرآن میں ہے:
بَلۡ قَالُوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 22)
بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔
4: شریعۃ
شرع بمعنی کسی چیز کا کھنچ کر یا بلند ہو کر سامنے آنا یا ظاہر ہونا۔ کہتے ہیں شرع البعیر عنقہ اونٹ نے گردن اس طرح بلند کی کہ وہ نمایاں طور پر نظر آنے لگی (م ل) اور شرع للقوم بمعنی قوم کے لیے قانون بنانا۔ اور شریعۃ بمعنی اسلامی قانون، خدائی احکام، ضابطہ (منجد) اور شریعت اسلامیہ اسلامی قوانین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور شریعۃ بمعنی واضح اور متعین راستہ، لیکن اس کا اطلاق صرف احکام الہیہ پر ہوتا ہے (مف)۔
ہمارے خیال میں امام راغب کی تعریف یا معنی زیادہ صحیح ہے یعنی لفظ شریعت کے معنی اسلام قانون نہیں بلکہ اللہ کے احکام ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دین تو سب انبیا و رسل کا ایک ہی رہا ہے مگر شریعت میں (اقتضات زمانہ کے تحت) تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ دین کی حیثیت باپ ہے اور شریعت کی حیثیت ماں کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ہم انبیا کا باپ تو ایک ہی ہے مگر مائیں الگ الگ ہیں۔ گویا دین ایسے غیر متبدل احکامات الہیہ پر مشتمل ہے جو ابتدائے تخلیق آدم سے ایک ہی رہے ہیں جیسے ایمان بالغیب، اللہ فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان اور قانون جزا و سزا وغیرہ نماز، روزہ و زکوۃ کے احکام اور حدود تعزیرات وغیرہ اور شریعت کے احکام کی مثال یوں سمجھیے جیسے نمازوں کی تعداد، ان کی رکعتیں اور طریق ادائیگی۔ شریعت ہر صاحب شریعت نبی یا رسول کی الگ تھی مگر دین ایک ہی رہا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ جاثیۃ آیت 18)
پھر ہم نے تمکو دین کے کھلے رستے پر قائم کر دیا تو اسی رستے پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا۔
اس آیت سے واضح ہے کہ آپ کو الگ شریعت دی گئی تھی۔
5: منہاج
نھج الامر والطریق بمعنی کام کا راستہ کا واضح ہونا (منجد) اور منہاج بمعنی واضح دستور العمل ہے (مف) یعنی شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار۔ اور یہ طریق کار بھی انبیا کو اللہ ہی کی طرف سے بتلا دیا جاتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو دن آ کر دن کی پانچوں نمازیں پڑھاتے رہے۔ پہلے دن اول اوقات میں دوسرے دن آخر اوقات میں۔ اور بتلایا، ان اوقات کے درمیان کسی وقت بھی نماز ہو سکتی ہے۔ یہ منہاج ہے۔ گویا شریعت ہی کی وسعت اور وضاحت کا نام منھاج ہے (فق ل 11) ارشاد باری ہے:
لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا (سورۃ المائدۃ آیت 48)
ہم نے تم میں سے ہر ایک ملت کے لئے ایک دستور اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔
6: منسک
نسک بمعنی زاہد بننا، درویش بننا اور نسک للہ بمعنی اللہ کے لیے قربانی کرنا (منجد) منسک کا لفظ منہاج سے اخص ہے اور اس سے مراد صرف وہ طریق کار ہے جو عبادات سے تعلق رکھتا ہو۔ جیسے فرمایا:
لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ (سورۃ الحج آیت 67)
ہم نے ہر ایک امت کے لئے بندگی کی ایک راہ مقرر کر دی ہے کہ اسی طرح وہ بندگی کرتے ہیں۔ تو یہ لوگ تم سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں اور تم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ بیشک تم سیدھے رستے پر ہو۔
منسک کا لفظ بالعموم حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہو گیا ہے۔ مناسک حج، بمعنی اعمال حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے۔ اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے عنوان "قربانی")۔ جیسے فرمایا:
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ (سورۃ البقرۃ آیت 196)
اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو۔ تو اگر وہ سر منڈوا لے تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔
7: شاکلۃ
شکل بمعنی مشتبہ ہونا، اور شکل الدابۃ بمعنی جانور کو پائے بند ڈالنا (منجد) اور النّاس اشکال و الاّف بمعنی لوگ آپس میں مشابہ اور الفت کرنے والے ہیں (مف)۔ گویا شکل کے معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں شکل و صورت میں اشتباہ اور پابندی۔ اور شاکلۃ وہ مخصوص انداز، ڈھب، ڈھنگ یا طریقہ ہے جو انسان کی اپنی طبیعت کی افتاد کی بنا پر اختیار کرتا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کلّ میسّر لما خلق لہ۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک شخص کھلے بندوں صدقہ و خیرات اس بنا پر پسند کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی رغبت ہو، نمائش مقصود نہ ہو مگ دوسرا اسے یوں دینا پسند کرتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ اب یہ دونوں طریق جائز اور درست ہیں۔ عمل بھی ملتا جلتا ہے بلکہ ایک ہی ہے لیکن طریق ادائیگی دنوں کا الگ الگ ہے جو ان کی اپنی اپنی پسند اور صوابدید کے مطابق ہے۔ یہ شاکلۃ ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ؕ فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 84)
کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے۔
8: معروف
(ضد منکر) عرف بمعنی پہچاننا۔ اور معروف ہر وہ طریقہ، ملکی دستور یا رسم و رواج ہے جو معاشرہ میں جانا پہچانا ہو اور اسے اچھا سمجھا جاتا ہو اور شریعت میں اس کے متعلق خواہ کوئی رہنمائی ملے یا نہ ملے جیسے اپنے سے بڑوں کے سامنے ادب سے بیٹھنا اور انہیں جی یا آپ کہہ کر پکارنا، ان باتوں کا شریعت میں حکم نہیں، تاہم اچھی باتیں ہیں۔ یہ معروف ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 241)
اور مطلّقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیے پرہیزگاروں پر یہ بھی حق ہے۔
9: خلق
خلق خلقت یعنی اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق ادراک بصر سے ہوتا ہے اور خلق کا تعلق قوائے باطنہ اور عادات و خصائل کے معنی میں ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہے (مف)۔ خلق اور خلق (خ ضمہ) بمعنی طبیعت، خصلت، سرشت (منجد) یا وہ عادت و طریقہ جو طبیعت کے ساتھ رچ بس گیا ہو۔ (جمع اخلاق)۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 137)
یہ تو اگلوں ہی کی عادت ہے۔
ماحصل:
- طریقۃ: وہ رسم و رواج جنہیں انسان مذہبی امور سمجھنے لگتا ہے۔
- سنّۃ: وہ قوانین الہیہ جو کائنات میں جاری و ساری ہیں یا وہ طریق جس کی کوئی داغ بیل ڈالے اور وہ چل نکلے۔
- امّۃ: کسی ہم خیال جماعت کا نظریہ یا عقیدہ اور اس کے ہم خیال لوگ۔
- شریعۃ: ایسے قوانین الہیہ جو ضرورت اور حالات کے تحت تبدیل کیے جاتے رہے۔
- منہاج: شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار، وضاحت اور وسعت۔
- منسک: عبادات اور بالخصوص حج کے شعائر و احکام۔
- شاکلتہ: کسی انفرادی رجحان کے سبب اس کا طرز عمل۔
- معروف: ایسا رسم و رواج جو معاشرہ میں پسندیدہ ہو۔ اس پر شرعا کوئی پابندی نہ و۔
- خلق: ایسی عادات یا طور طریقے جو کسی کی طبیعت میں رچ چکے ہوں۔