مترادفات القرآن (ط)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طاقت​

کے لیے طاقۃ (طوق)، قوّۃ (قوّ)، مرّۃ (مرّ)، رکن، محل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طاقۃ

معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے، بمعنی ہمت، سکت جو کسی کا کے لیے درکار ہو (مف) POWER۔ ارشاد باری ہے:
رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا بوجھ ہم پر نہ رکھیو۔

2: قوّۃ

زور، استعداد اور صلاحیت جو کسی چیز کے اندر پائی جائے FORCE (مف) ضد ضعف (مف)۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الۡکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَۃِ اُولِی الۡقُوَّۃِ اِذۡ قَالَ لَہٗ قَوۡمُہٗ لَا تَفۡرَحۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 76)
قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان پر زیادتی کرنے لگا۔ اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دیئے تھے کہ انکی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں جب اس سے اسکی قوم نے کہا کہ اترایئے مت کہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

3: مرّۃ

مرّ بمعنی (1) گزرنا (2) تلخ ہونا اور (3) بمعنی مضبوطی سے بٹنا۔ اور مرّۃ بمعنی شدت، کسی چیز کی دائمی حالت، طاقت، مضبوطی (منجد)، شدت اور عزم (ق ج) اور ذو مرۃ محاورہ ہے یعنی مضبوط اور طاقتور، توانا، بڑا زور آور۔ اور مریر بمعنی بٹی ہوئے رسی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی (سورۃ النجم آیت 5، 6)
انکو نہایت قوت والے نے سکھایا۔ یعنی جبرائیل نے جو طاقتور ہیں پھر وہ پوری طرح بیٹھے۔

4: رکن

کسی چیز کا رکن اس کی قوی تر جانب ہے (م ل)۔ اور بمعنی ستون، قلعہ اور بل بوتا استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ (سورۃ ھود آیت 80)
لوط نے کہا اے کاش مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط قلعے میں پناہ لے لیتا۔
5: محل
بمعنی کسی کے خلاف قوت اور سختی کے ساتھ بری تدبیر کرنا (مف، منجد) گویا محل کے معنی میں قوۃ اور حیلۃ دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی کسی شخص پر حیلہ و تدبیر سے گرفت شدید کرتے جانا۔ اور محل بمعنی دھوکا، مکر، عناد، شدت، قحط، سخت بھوک (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ یُسَبِّحُ الرَّعۡدُ بِحَمۡدِہٖ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مِنۡ خِیۡفَتِہٖ ۚ وَ یُرۡسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیۡبُ بِہَا مَنۡ یَّشَآءُ وَ ہُمۡ یُجَادِلُوۡنَ فِی اللّٰہِ ۚ وَ ہُوَ شَدِیۡدُ الۡمِحَالِ (سورۃ الرعد آیت 13)
اور رعد اور فرشتے سب اسکے خوف سے اسکی تسبیح و تحمید کرتے رہتے ہیں اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ جبکہ وہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور وہ بڑی قوت والا ہے۔
اور اس کی پکڑ سخت ہے (عثمانی)

ماحصل:

  • طاقت: عام لفظ ہے۔ اتنی سکت جو کسی کام کے لیے درکار ہو۔
  • قوۃ: و استعداد اور صلاحیت جو کسی چیز کے اندر موجود ہو۔
  • مرۃ: قوت شدت اور عزم، ذو مرّۃ یعنی بل والا زور آور (محاورہ)۔
  • رکن: کسی چیز کی قوی تر جانب۔
  • محل: قوت اور حیلہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طاقت رکھنا​

کے لیے اطاق اور استطاع کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: اطاق

بمعنی کسی کام کی ہمت اور سکت رکھنا۔ معروف لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ (سورۃ البقرۃ آیت 184)
اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں لیکن رکھیں نہیں وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔

2: استطاع (الامر)

بمعنی کسی کام کی طاقت رکھنا، لائق ہونا (منجد) اور بمعنی کسی کام کو سر انجام دینے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجود ہونا (مف)۔ طاقت کا تعلق محض کسی کی اپنی ذات تک محدود ہے جبکہ استطاعت کا تعلق ذاتی طاقت کے علاوہ بعض دوسرے اسباب و ذرائع سے بھی متعلق ہے۔ جیسے حج کے لیے خرچ، سواری، راستہ کا پر امن ہونا، گھر والوں کے لیے خرچ وغیرہ۔
اسی لیے استطاع کا معنی مقدور رکھنا، توفیق رکھنا یا کسی کام کا کر سکنا کیا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 97)
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس مبارک گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا۔ اور لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔ اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہل عالم سے بے نیاز ہے۔
ایک اور مقام پر ہے:
فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَ مَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا (سورۃ الکہف آیت 97)
پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں۔ اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں۔
طرف کے لیے دیکھیے "جانب"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طریقہ – دستور​

کے لیے سنّۃ، امّۃ، شریعۃ، منہاج، منسک، شاکلۃ، معروف اور خلق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: طریقۃ

بمعنی عادت، حالت، مذہب (منجد) ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہا جاتا ہے جو انسان کوئی کام اختیار کرنے کے لیے کرتا ہے۔ خواہ وہ فعل محمود ہو یا مذموم (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡۤا اِنۡ ہٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیۡدٰنِ اَنۡ یُّخۡرِجٰکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہِمَا وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی (سورۃ طہ آیت 63)
کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمکو تمہارے ملک سے نکال دیں۔ اور تمہارے بہترین مذہب کو نابود کر دیں۔
دوسرے مقام پر ہے:
نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا (سورۃ طہ آیت 104)
جو باتیں یہ کریں گے ہم خوب جانتے ہیں۔ اس وقت ان میں سب سے اچھی راہ والا یعنی عاقل و ہوشمند کہے گا کہ نہیں بلکہ صرف ایک ہی روز ٹھہرے ہو۔
گویا شرعی اصطلاح میں طریقہ، لوگوں کی ان رسوم و عادات کو کہتے ہیں جنہیں لوگوں نے مذہبی شعائر کا درجہ دے رکھا ہو۔

2: سنّۃ

سنّ بمعنی کسی چیز کا جری ہونا اور اس کا درست طور پر چلنا (م ل) لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ جیسے من سنّ سنّۃ جس کسی نے کوئی بات (طریقہ، رسم، دستور) رائج کیا۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو اس سے قانون الہی (جسے عموماً قانون قدرت کہہ دیتے ہیں) مراد ہو گا۔ جیسے فرمایا:
اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٔ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا (سورۃ فاطر آیت 43)
یعنی انہوں نے ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا اختیار کیا اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی روش کے سوا اور کسی چیز کے منتظر نہیں سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔
اور جب صرف لفظ سنت بولا جائے تو اس سے مراد بالعموم وہ طریق ہے جو رسول اکرم ﷺ نے رائج فرمایا ہو (جمع سنن)۔ اسوۂ رسول ﷺ ۔

3: امّۃ

ایک ہی عقیدہ یا نظریہ کے ہم خیال لوگوں کو امت کہتے ہیں (مف) پھر اس لفظ کا اطلاق اس عقیدہ یا نظریہ پر بھی ہوتا ہے جس پر لوگ ہم خیال ہو جائیں خواہ یہ عقیدہ یا نظریہ غلط ہو یا صحیح۔ قرآن میں ہے:
بَلۡ قَالُوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 22)
بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔

4: شریعۃ

شرع بمعنی کسی چیز کا کھنچ کر یا بلند ہو کر سامنے آنا یا ظاہر ہونا۔ کہتے ہیں شرع البعیر عنقہ اونٹ نے گردن اس طرح بلند کی کہ وہ نمایاں طور پر نظر آنے لگی (م ل) اور شرع للقوم بمعنی قوم کے لیے قانون بنانا۔ اور شریعۃ بمعنی اسلامی قانون، خدائی احکام، ضابطہ (منجد) اور شریعت اسلامیہ اسلامی قوانین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور شریعۃ بمعنی واضح اور متعین راستہ، لیکن اس کا اطلاق صرف احکام الہیہ پر ہوتا ہے (مف)۔
ہمارے خیال میں امام راغب کی تعریف یا معنی زیادہ صحیح ہے یعنی لفظ شریعت کے معنی اسلام قانون نہیں بلکہ اللہ کے احکام ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دین تو سب انبیا و رسل کا ایک ہی رہا ہے مگر شریعت میں (اقتضات زمانہ کے تحت) تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ دین کی حیثیت باپ ہے اور شریعت کی حیثیت ماں کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ہم انبیا کا باپ تو ایک ہی ہے مگر مائیں الگ الگ ہیں۔ گویا دین ایسے غیر متبدل احکامات الہیہ پر مشتمل ہے جو ابتدائے تخلیق آدم سے ایک ہی رہے ہیں جیسے ایمان بالغیب، اللہ فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان اور قانون جزا و سزا وغیرہ نماز، روزہ و زکوۃ کے احکام اور حدود تعزیرات وغیرہ اور شریعت کے احکام کی مثال یوں سمجھیے جیسے نمازوں کی تعداد، ان کی رکعتیں اور طریق ادائیگی۔ شریعت ہر صاحب شریعت نبی یا رسول کی الگ تھی مگر دین ایک ہی رہا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ جاثیۃ آیت 18)
پھر ہم نے تمکو دین کے کھلے رستے پر قائم کر دیا تو اسی رستے پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا۔
اس آیت سے واضح ہے کہ آپ کو الگ شریعت دی گئی تھی۔

5: منہاج

نھج الامر والطریق بمعنی کام کا راستہ کا واضح ہونا (منجد) اور منہاج بمعنی واضح دستور العمل ہے (مف) یعنی شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار۔ اور یہ طریق کار بھی انبیا کو اللہ ہی کی طرف سے بتلا دیا جاتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو دن آ کر دن کی پانچوں نمازیں پڑھاتے رہے۔ پہلے دن اول اوقات میں دوسرے دن آخر اوقات میں۔ اور بتلایا، ان اوقات کے درمیان کسی وقت بھی نماز ہو سکتی ہے۔ یہ منہاج ہے۔ گویا شریعت ہی کی وسعت اور وضاحت کا نام منھاج ہے (فق ل 11) ارشاد باری ہے:
لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا (سورۃ المائدۃ آیت 48)
ہم نے تم میں سے ہر ایک ملت کے لئے ایک دستور اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔

6: منسک

نسک بمعنی زاہد بننا، درویش بننا اور نسک للہ بمعنی اللہ کے لیے قربانی کرنا (منجد) منسک کا لفظ منہاج سے اخص ہے اور اس سے مراد صرف وہ طریق کار ہے جو عبادات سے تعلق رکھتا ہو۔ جیسے فرمایا:
لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ (سورۃ الحج آیت 67)
ہم نے ہر ایک امت کے لئے بندگی کی ایک راہ مقرر کر دی ہے کہ اسی طرح وہ بندگی کرتے ہیں۔ تو یہ لوگ تم سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں اور تم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ بیشک تم سیدھے رستے پر ہو۔
منسک کا لفظ بالعموم حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہو گیا ہے۔ مناسک حج، بمعنی اعمال حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے۔ اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے عنوان "قربانی")۔ جیسے فرمایا:
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ (سورۃ البقرۃ آیت 196)
اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو۔ تو اگر وہ سر منڈوا لے تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔

7: شاکلۃ

شکل بمعنی مشتبہ ہونا، اور شکل الدابۃ بمعنی جانور کو پائے بند ڈالنا (منجد) اور النّاس اشکال و الاّف بمعنی لوگ آپس میں مشابہ اور الفت کرنے والے ہیں (مف)۔ گویا شکل کے معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں شکل و صورت میں اشتباہ اور پابندی۔ اور شاکلۃ وہ مخصوص انداز، ڈھب، ڈھنگ یا طریقہ ہے جو انسان کی اپنی طبیعت کی افتاد کی بنا پر اختیار کرتا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کلّ میسّر لما خلق لہ۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک شخص کھلے بندوں صدقہ و خیرات اس بنا پر پسند کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی رغبت ہو، نمائش مقصود نہ ہو مگ دوسرا اسے یوں دینا پسند کرتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ اب یہ دونوں طریق جائز اور درست ہیں۔ عمل بھی ملتا جلتا ہے بلکہ ایک ہی ہے لیکن طریق ادائیگی دنوں کا الگ الگ ہے جو ان کی اپنی اپنی پسند اور صوابدید کے مطابق ہے۔ یہ شاکلۃ ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ؕ فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 84)
کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے۔

8: معروف

(ضد منکر) عرف بمعنی پہچاننا۔ اور معروف ہر وہ طریقہ، ملکی دستور یا رسم و رواج ہے جو معاشرہ میں جانا پہچانا ہو اور اسے اچھا سمجھا جاتا ہو اور شریعت میں اس کے متعلق خواہ کوئی رہنمائی ملے یا نہ ملے جیسے اپنے سے بڑوں کے سامنے ادب سے بیٹھنا اور انہیں جی یا آپ کہہ کر پکارنا، ان باتوں کا شریعت میں حکم نہیں، تاہم اچھی باتیں ہیں۔ یہ معروف ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 241)
اور مطلّقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیے پرہیزگاروں پر یہ بھی حق ہے۔

9: خلق

خلق خلقت یعنی اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق ادراک بصر سے ہوتا ہے اور خلق کا تعلق قوائے باطنہ اور عادات و خصائل کے معنی میں ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہے (مف)۔ خلق اور خلق (خ ضمہ) بمعنی طبیعت، خصلت، سرشت (منجد) یا وہ عادت و طریقہ جو طبیعت کے ساتھ رچ بس گیا ہو۔ (جمع اخلاق)۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 137)
یہ تو اگلوں ہی کی عادت ہے۔

ماحصل:

  • طریقۃ: وہ رسم و رواج جنہیں انسان مذہبی امور سمجھنے لگتا ہے۔
  • سنّۃ: وہ قوانین الہیہ جو کائنات میں جاری و ساری ہیں یا وہ طریق جس کی کوئی داغ بیل ڈالے اور وہ چل نکلے۔
  • امّۃ: کسی ہم خیال جماعت کا نظریہ یا عقیدہ اور اس کے ہم خیال لوگ۔
  • شریعۃ: ایسے قوانین الہیہ جو ضرورت اور حالات کے تحت تبدیل کیے جاتے رہے۔
  • منہاج: شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار، وضاحت اور وسعت۔
  • منسک: عبادات اور بالخصوص حج کے شعائر و احکام۔
  • شاکلتہ: کسی انفرادی رجحان کے سبب اس کا طرز عمل۔
  • معروف: ایسا رسم و رواج جو معاشرہ میں پسندیدہ ہو۔ اس پر شرعا کوئی پابندی نہ و۔
  • خلق: ایسی عادات یا طور طریقے جو کسی کی طبیعت میں رچ چکے ہوں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طعنہ دینا​

کے لیے طعن، لمز اور ھمز کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طعن

بمعنی نیزہ، سینگ یا کس دوسری تیز اور نوکیلی چیز کے ساتھ زخم کرنا (مف) پھر استعارہ کے طور پر اس لفظ کا استعمال کسی شخص کے متعلق یا اس کے منہ پر ایسی بات کہنا جو اسے نیزہ کی طرح لگے، کے لیے بھی ہوتا ہے یعنی کسی کا کوئی عیب اس طرح بیان کرنا جو اسے سخت ناگوار ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 12)
اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کرنے لگیں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو انکی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ اپنی حرکات سے باز آجائیں۔

2: لمز

بمعنی عیب جوئی یا عیب چینی کرنا، کس کی عیوب تلاش کرتے رہنا اور اس مقصد کے لیے اس کی غیبت کرنا (مف) تاکہ کسی کا کوئی کمزور پہلو ہاتھ آ جائے۔ پھر اس پر حرف گیری یا طعنہ زنی کرنا اور بمعنی کسی کے فعل پر بے انصافی کا الزام لگانا (فق 39)۔ قرآن میں ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِیۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ اِلَّا جُہۡدَہُمۡ فَیَسۡخَرُوۡنَ مِنۡہُمۡ ؕ سَخِرَ اللّٰہُ مِنۡہُمۡ ۫ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 79)
جو مسلمان دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور جو بیچارے غریب صرف اتنا ہی کما سکتے ہیں جتنی مزدوری کرتے اور تھوڑی سی کمائی میں سے بھی خرچ کرتے ہیں ان پر جو منافق طعن کرتے اور ہنستے ہیں اللہ ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے۔

3: ھمز

بمعنی چٹکی لینا، چبھونا، غیب کرنا۔ اور ھامز بمعنی بڑا عیب گیر اور ھمّاز بمعنی عیب گیر اور طعن و تشنیع کرنے والا (منجد) اور ھمزات الشیاطین بمعنی شیطان کی چھیڑ چھاڑ اور وساوس (منجد) اور ھامز بمعنی غیب میں طعن آمیز اشارتیں کرنے والا (مف) اور ھمز بمعنی آنکھ سے اشارہ کیا، کاٹا، مارا اور غیب کی۔ اور ھمز الفرس بمعنی گھوڑے کو ایڑ لگائی (م ق)۔ قرآن میں ہے:
ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ (سورۃ القلم آیت 11)
شرارت سے اشارے کرنے والا لگائی بجھائی کرنے والا۔

ماحصل:

  • طعن: کسی شخص کا کوئی عیب یا کمزوری اس طرح بیان کرنا جو اسے نوک کی طرح چبھ جائے۔
  • لمز: کسی کے فعل پر بے انصافی کا طعنہ دینا۔
  • ھمز: اشارہ کنایہ میں طعنہ زنی کرنا۔
طلاق کے لیے دیکھیے "رخصت کرنا"۔
طلب کرنا کے لیے دیکھیے "مانگنا" اور "چاہنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طوق ڈالنا​

کے لیے طوّق اور غلّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طوّق

طوق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو گولائی کی شکل اختیار کیے ہو (م ل) اور طوق بمعنی گلے کا ایک زیور، ہر احاطہ کرنے والی چیز (جمع اطواق) (منجد) گویا طوق گلے کا ہار، گلے کا زیور، گلے کا پھندا، لوہے کا کڑا جو گردن میں ڈالا جائے، سب کے لیے استعمال ہو سکتا ہے اور اطّوّق الحیّۃ بمعنی سانپ کا کنڈی مارنا۔ اور طوّق بمعنی کسی کو طوق پہنانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمۡ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورۃ آل عمران آیت 180)
جو لوگ مال میں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے بخل کرتے ہیں وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں وہ اچھا نہیں بلکہ ان کے لئے برا ہے وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا اور آسمانوں اور زمین کا وارث اللہ ہی ہے اور جو عمل تم کرتے ہو اللہ کو معلوم ہے۔

2: غلّ

(جمع اغلال) یہ لفظ طوق سے اعم ہے۔ غلّ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی کے اعضا کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے (مف) اور اس کا اطلاق ہتھکڑی، بیڑیاں اور طوق سب پر ہوتا ہے۔ غلّ بمعنی ہتھکڑی یا طوق ڈالنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
خُذُوۡہُ فَغُلُّوۡہُ ثُمَّ الۡجَحِیۡمَ صَلُّوۡہُ (سورۃ الحاقۃ آیت 30، 31)
حکم ہو گا کہ اسے پکڑ لو اب اسے طوق پہنا دو۔ پھر دوزخ کی آگ میں اسے جھونک دو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طمع رکھنا​

کے لیے طمع، حرص اور شحّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: طمع

دل میں کسی چیز کے لیے قوی امید پیدا ہونے کو کہتے ہیں (م ل) قوی امید رکھنا۔ ارشاد باری ہے:
وَّ مَہَّدۡتُّ لَہٗ تَمۡہِیۡدًا ثُمَّ یَطۡمَعُ اَنۡ اَزِیۡدَ (سورۃ مدثر آیت 14، 15)
اور اسکو ہر طرح کے سامان میں وسعت دی۔ پھر بھی لالچ رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔

2: حرص

کسی چیز کے لیے طمع یا رغبت جب بڑھ جائے تو اسے حرص کہتے ہیں (م ل) خواہ وہ اپنے فائدے کے لیے ہو یا دوسرے کے فائدہ کے لیے (مف)، لالچ۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ تَحۡرِصۡ عَلٰی ہُدٰىہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّضِلُّ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ (سورۃ النحل آیت 37)
اگر تم ان کفار کی ہدایت کے لئے بہت زیادہ خواہش رکھو جس کو اللہ گمراہ رہنے دے اس کو وہ ہدایت نہیں دیا کرتا اور ایسے لوگوں کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوتا۔

3: شحّ

شحّ بمعنی بخل کرنا، حرص و لالچ کرنا۔ اور الشّیح اور الشّحاح بمعنی بخیل، حریص (منجد)۔ گویا شحّ میں دو باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں (1) مال کے حصول کی حرص (2) اسے خرچ کرنے میں امساک، بخل (مف) اور یہ بد ترین صفت ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ (سورۃ الاحزاب آیت 19)
پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں باتیں کریں اور مال میں بخل کریں
دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۚ (سورۃ الحشر آیت 9)
اور جو شخص خود غرضی سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ بامراد ہیں۔

ماحصل:

  • طمع: کسی بات کی دل میں قوی امید رکھنا۔
  • حرص: جب اس طمع میں شدت پیدا ہو جائے تو یہ حرص ہے۔
  • جب مال کے حصول کی حرص کے ساتھ بخل کا اضافہ بھی ہو تو یہ شحّ ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

طے کرنا (راستہ کو)​

کے لیے عبر اور قطع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عبر

کا بنیادی معنی پانی سے گزر جانا ہے۔ خواہ تیر ک گزرا جائے یا کسی سواری یا پل کے ذریعہ اور عبر النّھر نہر کے اس کنارہ کو کہتے ہیں جہاں سے اتر کر نہر کو عبور کیا جا سکے۔ اور عبر العین بمعنی آنسوؤں کا جاری ہونا۔ اور العبرات (جمع) بمعنی آنسو ہے (مف) پھر اس کا استعمال ہر طرح کے راستے کو طے کرنے پر بھی ہونے لگا خواہ راستہ پانی وہ یا نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ (سورۃ النساء آیت 43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک ان الفاظ کو جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو۔ نماز کے پاس نہ جاؤ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ کہ غسل کر لو۔

2: قطع

کا بنیادی معنی کاٹنا اور الگ کرنا ہے۔ اور قطع النّھر بمعنی نہر کو عبور کرنا۔ قطع السبیل بمعنی رہزنی۔ اور قطع الوادی بمعنی کسی میدان کو طے کر جانا۔ اور قطع الامر بمعنی کسی کام کو سر انجام دینے کے لیے پروگرام طے کرنا ہے۔ گویا یہ لفظ راستہ طے کرنے کے معنوں میں بھی عبر سے اعم ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ نَفَقَۃً صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً وَّ لَا یَقۡطَعُوۡنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمۡ لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 121)
اور اسی طرح وہ جو خرچ کرتے ہیں تھوڑا یا بہت یا کوئی میدان طے کرتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کے لئے اعمال صالحہ میں لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ انکو انکے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دے۔
دوسرے مقام پر ہے:
قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ (سورۃ النمل آیت 32)
خط سنا کر کہنے لگی کہ کے اے اہل دربار میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو جب تک کہ تم حاضر نہ ہو اور صلاح نہ دو میں کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔

ماحصل:

عبر کا لفظ صرف راست بالخصوص پانی طے یا عبور کرنے کے لیے اور قطع کا لفظ عام ے جو معاملات کے طرف کرنے اور قطعات ارضی کو پار کر جانے کے لیے آتا ہے۔
 
Top