ظاہر ہونا
کے لیے ظھر، جھر، بدا (بدو)، عشر، تبیّن اور استبان، حصحص، تجلّی اور شرّعا کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔1: ظھر
ظھر بمعنی پیٹھ اور ہر چیز کا ظاہری حصہ جس کا ادراک آنکھوں سے ہو سکے اور اس کی ضد بطن بمعنی پیٹ یا ہر چیز کا اندرونی حصہ ہے جسے آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں (مف) اور ظھر بمعنی کسی چیز کا دکھائی دینا، رونما ہونا، سامنے آنا اور غالب ہونا ہے۔ ارشاد باری ہے:ہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 41)
خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انکو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آ جائیں۔
پھر اس لفظ کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انکو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آ جائیں۔
قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 33)
کہدو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے۔ اور اسکو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جسکی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اسکو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جنکا تمہیں کچھ علم نہیں۔
کہدو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے۔ اور اسکو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جسکی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اسکو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جنکا تمہیں کچھ علم نہیں۔
2: جھر
کوئی اس طرح کرنا کہ دوسروں کو اس کا علم ہو جائے (ضد اسرّ) (مف)۔ قرآن میں ہے:وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 55)
اور جب تم نے موسٰی سے کہا کہ موسٰی جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔
لیکن یہ لفظ بالعموم آواز کو ظاہر کرنے اور اعلان کرنے (م ل) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جہری نماز وہ ہے جس میں امام قرات بلند آواز سے پڑھتا ہے یعنی فجر، شام اور عشاء۔ اور سرّی وہ ہے جس میں امام بھی قرات اس طرح پست آواز سے کرتا ہے جسے دوسرے نہ سن سکیں۔ ظاہر کر کے کہنا پکار کر کہنا کہ دوسرے سن لیں (م ق)۔ ارشاد باری ہے:اور جب تم نے موسٰی سے کہا کہ موسٰی جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔
لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 148)
اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
2: بدا
بمعنی کسی چیز کا نمایاں طور پر ظاہر ہو جانا (مف) اور اس میں کسی کے قصد و ارادہ کو دخل نہیں ہوتا (فق ل 237)۔ ارشاد باری ہے:بَلۡ بَدَا لَہُمۡ مَّا کَانُوۡا یُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 28)
ہاں یہ جو کچھ پہلے چھپایا کرتے تھے آج ان پر ظاہر ہو گیا ہے اور اگر یہ دنیا میں لوٹائے بھی جائیں تو جن کاموں سے ان کو منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگیں کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:ہاں یہ جو کچھ پہلے چھپایا کرتے تھے آج ان پر ظاہر ہو گیا ہے اور اگر یہ دنیا میں لوٹائے بھی جائیں تو جن کاموں سے ان کو منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگیں کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں۔
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ (سورۃ الاعراف آیت 22)
سو جب انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھالیا تو انکی شرمگاہیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے اور ستر چھپانے لگے۔
پھر اس لفظ کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:سو جب انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھالیا تو انکی شرمگاہیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے اور ستر چھپانے لگے۔
ثُمَّ بَدَا لَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰیٰتِ لَیَسۡجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیۡنٍ (سورۃ یوسف آیت 35)
پھر باوجود اسکے کہ وہ لوگ انکی بیگناہی کے نشان دیکھ چکے تھے۔ انکی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصے کے لئے ان کو قید ہی کر دیں۔
پھر باوجود اسکے کہ وہ لوگ انکی بیگناہی کے نشان دیکھ چکے تھے۔ انکی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصے کے لئے ان کو قید ہی کر دیں۔
4: عثر
عثر بمعنی پھسل جانا اور گر پڑنا (مف) اور عثر کا استعمال ظاہر ہونے کے معنی میں اس وقت ہو گا جب کوئی شخص جھوٹ بول کر بات چھپانے کی کوشش کر رہا ہو لیکن کوئی سچی بات از خود اس کے منہ سے نکل جائے جس سے حقیقت ظاہر ہو جائے۔ ارشاد باری ہے:فَاِنۡ عُثِرَ عَلٰۤی اَنَّہُمَا اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡاَوۡلَیٰنِ فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَہَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنۡ شَہَادَتِہِمَا وَ مَا اعۡتَدَیۡنَاۤ ۫ۖ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 107)
پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے جھوٹ بول کر گناہ حاصل کیا تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو آدمی کھڑے ہوں جو میت سے قرابت قریبہ رکھتے ہوں۔ پھر وہ اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہماری شہادت انکی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ ایسا کیا ہو تو ہم بے انصاف ہیں۔
پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے جھوٹ بول کر گناہ حاصل کیا تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو آدمی کھڑے ہوں جو میت سے قرابت قریبہ رکھتے ہوں۔ پھر وہ اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہماری شہادت انکی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ ایسا کیا ہو تو ہم بے انصاف ہیں۔
5: تبیّن اور استبان
بان بمعنی کسی چیز کا دوسری سے الگ ہو کر ظاہر ہونا اور واضح ہونا (م ل) گویا اس کے معنی میں تین باتوں کا تصور پایا جاتا ہے (1) افتراق، (2) بعد اور (3) وضوح (م ل)۔ اور تبیّن بھی انہی معنوں میں استعمال ہو گا۔ ارشاد باری ہے:لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ (سورۃ البقرۃ آیت 256)
دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔
وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 55)
اور اسی طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ تم لوگ ان پر عمل کرو اور اس لئے کہ گناہگاروں کا رستہ ظاہر ہو جائے۔
اور اسی طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ تم لوگ ان پر عمل کرو اور اس لئے کہ گناہگاروں کا رستہ ظاہر ہو جائے۔
6: حصحص
جب کوئی بات کسی کے دباؤ کی وجہ سے پردہ اخفا میں رہے اور دباؤ اٹھ جانے کے بعد وہ ظاہر ہو جائے (مف) تو حصحص کا لفظ استعمال ہو گا۔ قرآن میں ہے:قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۫ اَنَا رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 51)
عزیز کی بیوی نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئ ہے اصل یہ ہے کہ میں نے اسکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور وہ بیشک سچا ہے۔
عزیز کی بیوی نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئ ہے اصل یہ ہے کہ میں نے اسکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور وہ بیشک سچا ہے۔
7: تجلّی
کسی روشن اور خوبصورت چیز کا اچھی طرح ظاہر ہونا (تفصیل کے لیے "روشن ہونا" میں دیکھیے) ارشاد باری ہے:فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (سورۃ الاعراف آیت 143)
پھر جب انکے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسکو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
پھر جب انکے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسکو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
8: شرّعا
شرع بمعنی کسی چیز کا کھچ کر یا بلند ہو کر سامنے آنا یا ظاہر ہونا۔ کہتے ہیں شرع البیعر عنقہ یعنی اونٹ نے اس طرح گردن بلند کی کہ وہ نمایاں طور پر نظر آنے لگی (م ل) قرآن میں ہے:وَ سۡـَٔلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 163)
اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو لب دریا واقع تھا۔ جب وہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے جبکہ انکے تعطیل کے دن یعنی سنیچر کو مچھلیاں انکے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو انکی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔
اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو لب دریا واقع تھا۔ جب وہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے جبکہ انکے تعطیل کے دن یعنی سنیچر کو مچھلیاں انکے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو انکی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔
ماحصل:
- ظھر: اس طرح ظاہر ہونا کہ آنکھوں سے ادراک ہو سکے۔ یہ لفظ عام ہے۔
- جھر: اعلانیہ کہنا، عموماً آواز ظاہر ہونے کے لیے۔
- بدا: بغیر ارادہ کسی بات کا ظاہر ہونا جسے چھپانے کی کوشش کی جائے یا وہ اس لائق ہو۔
- عثر: باتوں باتوں میں اصل حقیقت کا ظاہر ہو جانا۔
- تبیّن: جب افتراق، بعد اور وضوح تینوں باتیں پائی جائیں۔
- حصحص: دباؤ اٹھنے کے بعد حقیقت کا ظاہر ہونا۔
- تجلّی: کسی روشن اور خوبصورت چیز کا ظاہر ہونا۔
- شرّعا: کسی چیز کا کھچ کر یا بلند ہو کر ظاہر ہونا۔