عہد – وعدہ – اقرار
کے لیے وعد، وعید، موعدۃ اور میعاد، عھد، ذمّۃ، اصر، میثاق اور عقود کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: وعد
بمعنی وعدہ کرنا، کسی بات کی امید دلانا (م ل) معروف لفظ ہے اور یہ یکطرفہ ہوتا ہے۔ اور اخلف الوعد بمعنی وعدہ کا ایفا یا پورا نہ کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالَ الشَّیۡطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ وَ وَعَدۡتُّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُکُمۡ ؕ (سورۃ ابراہیم آیت 22)
اور جب حساب کتاب کا کام فیصل ہو چکے گا تو شیطان کہے گا جو وعدہ اللہ نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔
2: وعید
ایسا وعدہ ہے جو شر پر مبنی ہو (م ل)، تہدید، دھمکی، ڈراوا۔ ارشاد باری ہے:
نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ (سورۃ ق آیت 45)
یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ پس جو میرے عذاب کی دھمکی سے ڈرے اسکو قرآن کے ذریعے نصیحت کرتے رہو۔
موعدۃ موعدا یہ سب الفاظ وعد یعد سے مصدر ہیں۔ وعد یعد وعدا وعدۃ و موعدا و موعدۃ اور ان کا معنی وعدہ یا وعدہ کرنا ہے (منجد) اور انہیں معنوں میں یہ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔
میعاد: اس ظرف ہے۔ زمانی کی صورت میں اس کے معنی وعدہ کا وقت اور مکانی کی صورت میں وعدہ کی جگہ ہو گا۔ جیسے فرمایا:
وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ (سورۃ الانفال آیت 42)
اور اگر تم جنگ کے لئے آپس میں قرارداد کر لیتے تو وقت معین پر جمع ہونے میں تقدیم و تاخیر ہو جاتی
دوسرے مقام پر فرمایا:
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (سورۃ آل عمران آیت 9)
اے پروردگار تو اس روز جس کے آنے میں کچھ بھی شک نہیں سب لوگوں کو اپنے حضور میں جمع کر لے گا بیشک اللہ خلاف وعدہ نہیں کرتا۔
2: عھد
بمعنی کسی چیز کی پیہم نگہداشت اور خبر گیری کرنا، اقرار کرنا، اور اس کی حفاظت کرنا (مف)، حفاظت کرنا اور پورا کرنا (منجد) اور عھد بمعنی وفا، دوستی، امان، ذمہ، وصیت اور ولی العہد بمعنی بادشاہ کا جانشین (منجد)۔ اور بعض اہل لغت کے نزدیک عہد و دو طرفہ وعدہ ہوتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک مشروط وعدہ کا نام عہد ہے (فق ل 439۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 34)
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ مگر ایسے طریق سے کہ بہت بہتر ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہو گی۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ (سورۃ البقرۃ آیت 40)
اے آل یعقوب! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو۔
3: ذمّۃ
ذمّہ دراصل عہد کی ایک قسم ہے۔ یعنی عہد وفا، نیز بمعنی امان، حفاظت کی ذمہ داری، کسی کو پناہ دینے کا عہد۔ اور اہل الذمّۃ وہ لوگ ہیں جنہیں جزیہ کے عوض امان دی گئی ہو۔ ارشاد باری ہے:
کَیۡفَ وَ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ لَا یَرۡقُبُوۡا فِیۡکُمۡ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ؕ یُرۡضُوۡنَکُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ تَاۡبٰی قُلُوۡبُہُمۡ ۚ وَ اَکۡثَرُہُمۡ فٰسِقُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 8)
بھلا ان سے عہد کیونکر پورا کیا جائے جب ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن انکے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔
4: اصر
اصر بمعنی کسی چیز میں گرہ لگانا اور اسے زبردستی سے روک لینا (م ل)۔ اصر بمعنی جکڑ بندی، بھاری بوجھ، رسم و رواج کے بندھن، شریعت کی حدود، قیود، بڑی ذمہ داری۔ گویا اس لفظ میں عہد، ثقل اور حبس کا تصور پایا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 157)
وہ لوگ جو اس رسول یعنی نبی امّی کی پیروی کرتے ہیں جنکے اوصاف کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں۔ اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو انکے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اسکی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
5: میثاق
الوثاق اس رسی یا زنجیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کر باندھا جائے۔ اور میثاق وہ عہد و پیمان یا اقرار ہے جسے مؤکد کیا گیا ہو (مف) یا ضبط تحریر میں لا کر فریقین معاہدہ کو پابند کر دیا گیا ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ (سورۃ النساء آیت 90)
مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو یا اس حال میں کہ ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے بھنچ رہے ہوں تمہارے پاس آ جائیں تو اور بات ہے
6: عقود
عقد بمعنی گرہ لگانا۔ اور عقدۃ بمعنی گرہ گانٹھ (جمع عقد) مادی طور پر بھی مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ (سورۃ الفلق آیت 4)
اور گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے۔
اور معنوی طور پر بھی جیسے عقد البیع، عقد النکاح اور عقد العہد جس کا معنی معاہدہ کو ایسا مضبوط کرنا ہے جیسے گانٹھ لگا دی گئی ہو۔ اور ابن الفارس کے نزدیک عقد، شدت وثوق پر دلالت کرتا ہے (م ل) گویا ایسا عہد جو میثاق سے بھی مضبوط تر ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ (سورۃ المائدۃ آیت 1)
اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کرو۔
عقد بھی بسا اوقات قسموں سے مضبوط تر بنایا جاتا ے۔ کبھی تکرار اقرار سے اور کبھی تحریر سے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 33)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو حقداروں میں تقسیم کر دو کہ ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کر دیئے ہیں۔ اور جن لوگوں سے تم عہد کر چکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
ماحصل:
- وعد: جب کسی کو کوئی امید لگائی جائے تو اسے وعدہ کہتے ہیں۔ اور اگر یہ وعدہ کسی بے انجام سے تعلق رکھتا ہو تو وعید ہے۔ وعدہ کے وقت یا جگہ کو میعاد کہتے ہیں۔ یہ عموماً یکطرفہ ہوتا ہے۔
- عھد: ایسا اقرار جس کی حفاظت بھی کی جائے اسے پورا کرنے کا ہر وقت خیال رکھا جائے۔ یہ دو طرفہ بھی ہو سکتا ہے اور مشروط بھی۔
- ذمّۃ: عہد سے اخص ہے۔ پناہ دینے کا عہد۔
- اصر: ایسا عہد جو پابندی کی وجہ سے بوجھل یا گراں بار ہو۔ خواہ یہ رسو و رواج کا ہو یا شریعت کا۔
- میثاق: عہد کو جب تحریر یا تکرار سے مضبوط تر بنا دیا جائے تو یہ میثاق ہے۔
- عقد: میثاق سے زیادہ مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ جو بعض دفعہ قسموں سے بھی مؤکد بنایا جاتا ہے۔