مترادفات القرآن (ع)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عاجز آنا​

کے لیے عجز، عیّ اور استکان کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عجز

کسی کام کے کرنے سے قاصر ہونا، سر انجام دینے کی استطاعت نہ رکھنا (فل 214) اور عجز کی ضد قدرت ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِثۡلَ ہٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوۡءَۃَ اَخِیۡ ۚ (سورۃ المائدۃ آیت 31)
کہنے لگا ہائے کمبختی مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے جیسا ہی ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔

2: عیّ

کام کرتے کرتے تھک جانا اور سر انجام دینے کی قابل نہ رہنا یا دوبارہ وہی کام کرنے کی استطاعت نہ ہونا (فل 214) یا درست نہ کر سکنا (منجد) اور داء عیاء لا علاج مرض کو کہتے ہیں (مف) عیاء عجز سے کمتر ہے (منجد) کیونکہ پہلے اس میں کام کرنے کی استعداد موجود تھی۔ ارشاد باری ہے:
اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (سورۃ ق آیت 15)
تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

3: استکان فلان

بمعنی فلاں نے عاجزی کا اظہار کیا۔ گویا وہ ٹھہر گیا (مف) اور مقابلہ میں دب جانا اور بمعنی عاجزی کرنا، مطیع ہونا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 146)
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ کے دشمنوں سے لڑے ہیں۔ تو جو مصیبتیں ان پر اللہ کی راہ میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ کافروں سے دبے اور اللہ استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

ماحصل:

  • عجز: کوئی کام نہ کر سکنا۔
  • عیّ: تھکاوٹ کی وجہ سے کام جاری نہ رکھ سکنا یا دوبارہ نہ کر سکنا۔
  • استکان: مقابلہ میں دب جانا اور عاجزی کا اظہار۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عاجزی کرنا​

کے لیے اخبت، خشع، خضع اور تضرّع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اخبت

خبت نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں۔ اور اخبت الرجل بمعنی کسی شخص کا نرم زمین کا قصد کرنا یا وہاں اترنا۔ اس کے بعد یہ لفظ نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا (مف) بمعنی سکون اور اطمینان سے اللہ کی طرف رجوع کرنا (فق 208)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخۡبَتُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ ۙ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 23)
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے۔ اور اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔ یہی صاحب جنت ہیں۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

2: خشع

ایسے ڈر کو کہتے ہیں جس کا اثر دل سے آگے اعضا و جوارح پر بھی نمایاں ہونے لگ۔ اور اس سے نگاہیں اور آواز پست ہو جائیں (م ل) (تفصیل "ڈرنا" میں دیکھیے) لہذا یہ لفظ ڈرنا اور عاجزی کرنا دونوں معنوں میں استعمال ہو گا۔ ڈر کی وجہ سے دل کے نرم ہونے یہ ظاہری کیفیت ہے کہ نگاہ اور آواز پست ہو جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَمَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ خٰشِعِیۡنَ لِلّٰہِ (سورۃ آل عمران آیت 199)
اور بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں

3: خضع

خضع بمعنی کسی کا مطیع ہونا اور خضوع بمعنی عاجزی، انکساری اور فروتنی ہے (مف) اور خاضع بمعنی فروتن۔ اور رجل خضیع ایسے شخص کو کہتے ہیں جسے ذلت کی پرواہ نہ ہو (م ق)۔ خضوع میں عاجزی کا تصور نمایاں ہے جبکہ خشوع میں خوف اور اعضا و جوارح پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَۃً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُہُمۡ لَہَا خٰضِعِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 4)
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں پھر انکی گردنیں اسکے آگے جھک جائیں۔

4: تضرّع

بمعنی ذلیل ہونا، چپکے چپکے قریب آنا (منجد) اس کے مفہوم میں خشوع اور خضوع کی دونوں صفات پائی جاتی ہیں۔ دل کی نرمی، رقت اور عجز و انکسار جب زیادہ ہو جائیں تو تضرّع کا لفظ استعمال ہو گا۔ بمعنی گڑگڑانا، یعنی چپکے چپکے رو رو کر اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور تذلل کا اظہار کرنا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 143)
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا وہ کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو ان کی نظروں میں آراستہ کر دکھاتا تھا۔

ماحصل:

  • اخبت: دل کا نرم اور متواضع ہونا۔
  • خشوع: خوف الہی کی وجہ سے عاجزی۔
  • خضو‏ع: تذلل کی حد تک عاجزی۔
  • تضرّع: خشوع اور خضوع دونوں کا مجموعہ، دل کی نرمی اور تذلل کہ انسان گڑگڑانے لگے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عالم​

کے لیے عالم، احبار اور قسّیسین کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عالم

بمعنی علم رکھنے والا، کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنے والا، معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے (جمع علماء) علاّم اور علیم مبالغے کے صیغے ہیں۔ علّام بمعنی بہت زیادہ علم رکھنے والا اور علیم بمعنی ہر یک چیز کو جاننے والا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ عٰلِمُ غَیۡبِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ (سورۃ فاطر آیت 38)
بیشک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔

2: احبار

(واحد حبر اور حبر (ح زبر) حبر بمعنی سیاہی بھی اور لکھی ہوئی تحریر بھی جس سے لکھا جائے وہ بھی حبر ہے (دوات، سیاہی، قلم وغیرہ) ہے اور جو کچھ لکھا جائے وہ بھی حبر ہے۔ اور حبر اور حبر لکھنے والے کو بھی کہتے ہیں اور پڑھنے والے کو بھی۔ اور احبار بھی لکھنے، پڑھنے والے یا لکھے پڑھے لوگ (م ل) اور احبار کا اطلاق قرآن میں یہود و نصاری دونوں کے لکھے پڑے لوگوں پر ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 31)
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا حالانکہ انکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ معبود واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔

3: قسّیسین

قسّی الشئ بمعنی کسی چیز کی جستجو اور طلب کرنا۔ اور قسیسۃ بمعنی راہب ہونا، پادری بن جانا (منجد) قسّیسین قسّ کی جمع ہے۔ بمعنی عیسائیوں کے مدرس، پادری حضرات۔ قسّ کا درجہ اسقف اور شماس کے درمیان ہوتا ہے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 82)
اے پیغمبر تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔ اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصارٰی ہیں۔ یہ اس لئے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور یہ کہ یہ تکبر نہیں کرتے۔

ماحصل:

  • عالم: جاننے والا، علم رکھنے والا۔ عام ہے خواہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو۔
  • احبار: لکھے پڑھے اور اہل قلم حضرات
  • قسّیسین: عیسائیوں کے مدرس اور معلم۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عبادت گاہیں​

کے لیے صوامع، بیع، صلوات اور مساجد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: صوامع

صومعہ کی جمع ہے۔ بمعنی خانقاہ، راہبوں کی عبادت گاہیں۔

2: بیع

بیعۃ کی جمع ہے جس کا معنی عیسائیوں کا عبادت خانہ ہے۔

3: صلوات

صلاۃ کی جمع ہے۔ یہودیوں کی عبادت گاہیں، یہودیوں کی عبادت گاہوں کو کنائس (کنیسہ کی جمع) کہتے ہیں (فل 275) لیکن قرآن نے یہودیوں کے معبد کے لیے کنیسہ کی جگہ صلوۃ، جو عبادت کی معروف شکل ہے کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

4: مساجد

(مسجد کی جمع) بمعنی سجدہ گاہ، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (سورۃ الحج آیت 40)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اسکی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ توانا ہے غالب ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عذاب​

کے لیے عذاب، عقاب، باس، نکیر، نکال، وبال اور مثلت کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: عذاب

عذب الرجل بمعنی اس نے شدت پیاس کی وجہ سے کھانا اور سونا چھوڑ دیا۔ اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب و عذوب کہا جاتا ہے۔ اور عذاب بمعنی سخت تکلیف دینا (مف) یہ تکلیف خواہ جسمانی سزا ہو یا ذہنی وہ۔ اور تعذیب کے معنی کوڑے مارنا۔ اور بعض کے نزدیک صرف مارنا یا عذاب دینا (مف) قرآن میں ہے:
فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 10)
ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا اللہ نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بو لنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔

2: عقاب

عقب بمعنی پاؤں کا پچھلا حصہ یا ایڑی۔ اور عاقبت بمعنی ہر چیز کا انجام۔ اور عقبہ بمعنی وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا یا اس کا تعاقب کیا (مف)۔ عقاب، عقوبۃ اور معاقبۃ کے الفاظ کا اطلاق انسان کے برے اعمال کے بدلہ پر ہوتا ہے اور یہ اس برے عمل کا لازمی نتیجہ یعنی اس کا انجام ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۪ وَ ہَمَّتۡ کُلُّ اُمَّۃٍۭ بِرَسُوۡلِہِمۡ لِیَاۡخُذُوۡہُ وَ جٰدَلُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ فَاَخَذۡتُہُمۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ عِقَابِ (سورۃ مؤمن آیت 5)
ان سے پہلے نوح کی قوم اور انکے بعد اور امتوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی اور ہر امت نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہی قصد کیا کہ اسکو پکڑ لیں اور بیہودہ شبہات سے جھگڑتے رہے کہ اس سے حق کو زائل کر دیں تو میں نے انکو پکڑ لیا سو دیکھ لو میرا عذاب کیسا ہوا۔

3: باس

(باس یا بؤس) اس کے معنوں میں تنگی اور سختی کا تصور پایا جاتا ہے (م ل) قرآن میں یہ لفظ جنگ، عذاب اور آفت تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور ان تینوں میں تنگی اور سختی کا تصور موجود ہے۔ اگر یہ عذاب یا سزا کے معنوں میں استعمال ہو گا تو وہ عذاب سخت ہی کے معنوں میں آئے گا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 143)
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا وہ کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو ان کی نظروں میں آراستہ کر دکھاتا تھا۔

4: نکیر

نکرہ کی ضد معرفہ ہے بمعنی اچنبھا پن، اجنبیت اور نکر بمعنی ناگوار، نازیبا اور نامعقول چیز اور منکر ایسے کام کو کہتے ہیں جس میں اللہ تعالی کی رضا مندی نہ ہو۔ اور نکر الامر بمعنی کسی کام کا سخت دشوار ہو جانا (م ل) اور نکیر نا گوار چیز، انکار اور عذاب سب معنوں میں آتا ہے جب اس کا معنی عذاب ہو گا تو اس سے مراد ایسا نا گوار عذاب ہو گا جو غیر متوقع طور پر واقع ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَّ اَصۡحٰبُ مَدۡیَنَ ۚ وَ کُذِّبَ مُوۡسٰی فَاَمۡلَیۡتُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ثُمَّ اَخَذۡتُہُمۡ ۚ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ (سورۃ الحج آیت 44)
اور مدین کے رہنے والے بھی اور موسٰی بھی تو جھٹلائے جا چکے ہیں۔ لیکن میں کافروں کو مہلت دیتا رہا پھر میں نے انکو پکڑ لیا۔ تو دیکھ لو کہ میرا عذاب کیسا سخت تھا۔

5: نکال

نکل بمعنی لوہے کا کڑیالہ، لگام (م ق) مہار اور ہر وہ چیز جس کے استعمال میں کسی کو چلنے سے پابند اور مجبور کر دیا جائے۔ اس کی جمع انکال ہے۔ اور نکّل بمعنی کسی کو بیڑیاں پہنانا اور بمعنی کسی کو عبرت ناک سزا دینا ہے۔ اور نکال بمعنی ایسی عبرتناک سزا جسے دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کریں (مف، م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ المائدۃ آیت 38)
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ان کا ایک ایک ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کے کرتوتوں کی سزا اور اللہ کی طرف سے عبرت کے طور پر ہے۔ اور اللہ زبردست ہے صاحب حکمت ہے۔

6: وبال

وبل میں ثقل اور سختی کا تصور پایا جاتا ہے۔ الوبل اور الوابل ایسی بارش کو کہتے ہیں جو موٹی اور بھاری بوندوں والی ہو (مف) اور وبل بالعصا بمعنی عصا سے مارا اور متواتر مارا۔ اور وبیل کپڑا دھونے والے ڈنڈے کو کہتے ہیں (م ق) اور وبال ایسی سزا یا بدلہ ہے جو سخت ہو اور زیادہ بھی۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ التغابن آیت 5)
کیا تمکو ان لوگوں کے حال کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہوئے تھے تو انہوں نے اپنی کرتوت کی سزا کا مزا چکھ لیا اور ابھی دکھ دینے والا عذاب اور ہونا ہے۔

7: مثلت

مثل بمعنی (1) ایک چیز کا اس کی نظیر سے مقابلہ کرنا (2) وہ نمونہ جس کے مطابق کوئی چیز بنائی جائے۔ اور المثلۃ ایسی عبرتناک سزا کی ایسی مثال قائم کرنا کہ دوسرے ارتکاب جرم سے باز آ جائیں (م ل) اور بمعنی قتل کرنے کے بعد ناک اور کان یا دوسرے اعضا کاٹ دینا (م ق) اور اس کی جمع مثلات ہے۔ اور مثل بمعنی کسی چیز کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھرنا۔ اور مثل بمعنی ایسا عذاب جس کی یاد آتے ہی اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ مثالی عذاب۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبۡلَ الۡحَسَنَۃِ وَ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمُ الۡمَثُلٰتُ ؕ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ مَغۡفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلۡمِہِمۡ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (سورۃ الرعد آیت 6)
اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی جلدی سے مانگتے ہیں یعنی طالب عذاب ہیں حالانکہ ان سے پہلے عذاب واقع ہو چکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بےانصافیوں کے معاف کرنے والا ہے۔ اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔

ماحصل:

  • عذاب: دکھ، سزا، برے کام کا برا بدلہ۔ عام ہے۔
  • عقاب: کسی برے کام کا انجام اور اس کا لازمی نتیجہ۔
  • باس: ایسی سزا جس میں سختی بھی ہو اور تنگی بھی۔
  • نکیر: نا گوار، سخت اور غیر متوقع عذاب۔
  • نکال: عبرت ناک سزا۔
  • وبال: شدید اور متواتر عذاب۔
  • مثلت: ایسا عبرتناک عذاب جس کی یاد سے اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عذاب دینا​

کے لیے قرآن میں عذّب اور نکّل کے الفاظ آئے ہیں جن کے معنوں کی تشریح اوپر گزر چکی اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمُ الۡجَلَآءَ لَعَذَّبَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا ؕ وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ (سورۃ الحشر آیت 3)
اور اگر اللہ نے انکے بارے میں جلا وطن کرنا نہ لکھ رکھا ہوتا تو انکو دنیا میں بھی عذاب دے دیتا۔ اور آخرت میں تو انکے لئے آگ کا عذاب تیار ہے ہی۔

فَقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفۡسَکَ وَ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّکُفَّ بَاۡسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّ اَشَدُّ تَنۡکِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 84)
سو اے پیغمبر تم اللہ کی راہ میں لڑو۔ تم اپنے سوا کسی کے ذمے دار نہیں ہو۔ اور مومنوں کو بھی ترغیب دو۔ قریب ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی کو بند کر دے۔ اور اللہ شدید ترین جنگ کرنے والا ہے اور سزا دینے کہ لحاظ سے بھی بہت سخت ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عذاب کی مختلف اقسام​

کے لیے قرآن میں حسبان، حاص، صیحۃ، رجفۃ، رجز، خسف کے الفاظ آئے ہیں۔ علاوہ ازیں ریح صرصر، سموم، عاصف، اعصار، قاصف، نفخۃ اور نفحۃ "ہوائی عذاب" میں دیکھیے۔

1: حسبان

بمعنی گننا، شمار کرنا اور بمعنی چھوٹا تیر (منجد) اور امام راغب کے نزدیک ہر ہو چیز جس کا محاسبہ کیا جائے پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے اور بعض کے نزدیک اس کے معنی آگ اور عذب ہے (مف) اور ابن فارس کے نزدیک اس کے معنی چھوٹے چھوٹے تیر پھنکنا بھی ہیں اور اولے بھی (م ل) اور قرآن کی درج ذیل آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ایسا عذاب جو کھیتی وغیرہ کو خاکستر بنا دے خواہ یہ آگ کا عذاب ہو یا اولے کا۔ ارشاد باری ہے:
فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا (سورۃ الکہف آیت 40)
تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے۔

2: حاصب

حصب المکان بمعنی کنکری کا فرش بنانا۔ اور احصب الفرس کے معنی گھوڑا اتنا دوڑا کہ اس کے پاؤں سے کنکریاں ہوا میں اڑنے لگیں (م ق) ارض حصبۃ بمعنی کنکریلی زمین اور وادی۔ محصّب اس وادی کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی کنکریاں اٹھاتے ہیں اور حاصب بمعنی ایسی تند و تیز آندھی جو کنکر پتھر ہوا میں اڑائے اور نیز وہ بادل جو ژالہ باری کرے (منجد، م ق)۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ (سورۃ الملک آیت 17)
کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے۔ سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا رہا۔

3: صیحۃ

صاح بمعنی گلا پھاڑ پھاڑ کر آواز بلند کرنا، چیخ و پکار کرنا اور صائحۃ بمعنی مجلس، نوحہ خوانی کی چیخ و پکار اور صیحۃ ایسی گرجدار آواز کو کہتے ہیں جس سے لوگ چیخ و پکار کرنے لگیں (مف)۔ قرآن میں ہے:
فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشۡرِقِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 73)
سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آ پکڑا۔

4: رجز

میں بنیادی تصور اضطراب یعنی بے قراری اور ہیجان ہے (م ل) رجزیہ اشعار ایسے شعروں کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے موقعہ پر ہیجان پیدا کرنے کے لیے پڑھے جاتے ہیں۔ اور رجز وہ عذاب ہے جو دل کو مضطرب اور بے قرار کر دے۔ ارشاد باری ہے:
فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 59)
تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا پس ہم نے ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے۔

5: رجف

بمعنی اضطراب شدید (مف) رجفت الارض بمعنی زمین میں زلزلہ آنا، کانپنے لگنا۔ اور بحر رجاف بمعنی متلاطم سمندر (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 78)
پس انکو زلزلے نے آ پکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

6: خسف

خسف القمر بمعنی چاند کا گہنانا۔ اور خسف العین بمعنی آنکھ کا جاتا رہنا یا اپنے گڑھے میں بیٹھ جانا۔ اور خسف فلانا کسی کو ذلت اور نا گواری کی بات پر مجبور کرنا۔ اور خسف فی الارض بمعنی زمین میں دھنسا دینا (منجد) خسف میں دو باتوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ (1) ڈبونا (2) ذلت اور نا گواری (م ل)۔ یعنی کسی چیز کا قہراً یا اضطرارا ڈوبنا یا اسے ڈبو دینا۔ ارشاد باری ہے:
فَخَسَفۡنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الۡاَرۡضَ ۟ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنۡ فِئَۃٍ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ٭ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُنۡتَصِرِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 81)
پس ہم نے قارون کو اور اسکی حویلی کو زمین میں دھنسا دیا۔ تو اللہ کے سوا کوئی جماعت اسکی مددگار نہ ہو سکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔

ماحصل:

  • حسبان: آگ یا اولے کا عذاب جو نباتات کو خاکستر بنا دے۔
  • حاصب: تند و تیز ہوا جس میں کنکریاں شامل ہوں۔
  • صیحۃ: ایسی گرجدار آواز جس سے لوگ چیخ و پکار کرنے لگں۔
  • رجز: بے قرار کر دینے والا عذاب۔
  • رجف: زلزلہ اور اس کی ہیبت، شدید اضطراب۔
  • خسف: قہراً یا اضطرارا کسی چیز کو ڈبو دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عزت دینا – بخشنا​

کے لیے اعزّ، اکرم اور کرّم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اعزّ

(ضد اذلّ) عزّ کا بنیادی معنی بالادستی ہے۔ اور ذلّ بمعنی زیر دستی۔ اور عزّت ایسی حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ آل عمران آیت 26)
کہو کہ اے اللہ اے بادشاہی کے مالک تو جسکو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بےشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

2: اکرم

کرم ایسے شرف کو کہتے ہیں جو کسی چیز میں فی نفسہ موجود ہو یا اس کے اخلاق کی وجہ سے ہو (م ل) اور کسی شخص کو اس وقت تک کریم نہیں کہا جا سکتا جب تک اس سے کرم کا ظہور نہ ہو چکا ہو (مف) اور اکرام کے معنی کسی کو اس طرح نفع پہنچانا کہ اس میں سبکی اور خفت بھی نہ ہو اور وہ نہایت اشرف اور اعلی ہو (مف) اور رسول اکرم ﷺ نے اکرام ضیف (مہمان کی عزت افزائی) کی جو تاکید فرمائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے متواضع بن کر اس کی خدمت کی جائے اور اسے صاحب عزت سمجھا جائے۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ (سورۃ الفجر آیت 17)
یوں نہیں۔ بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے۔

3: کرّم

کرّم اور کرم کسی چیز کے فی نفسہ شرف پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 70)
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انکو خشکی اور تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔

ماحصل:

  • اعزّ: کا لفظ عام ہے، عزت دینا، زیر دستی سے بچانا اور بالا دست بنانا۔
  • اکرام: کسی کی عزت افزائی کرنا۔
  • تکریم: کسی کے ذاتی جوہر یا اوصاف کی بنا پر عزت بخشنے کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عقل – عقلمند​

کے لیے حجر، عقل، حلم، اولی الالباب، اولی الابصار، اولی النھی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حجر

حجر بمعنی پتھر، اور بمعنی ہر ٹھوس اور سخت چیز جو آڑ کا کام دے اور بمعنی عقل۔ اور حجر بمعنی کسی چیز کے گرد احاطہ کر کے اسے محفوظ کر لینا اور دوسروں کو تصرف سے روک دینا۔ اور عقل کو حجر کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ بھی ہر اس چیز کو نقصان دہ ہو روک دیتی ہے (م ل) اور حجر بمعنی رکاوٹ، ممانعت، عقل (منجد) اور ذی حجر بمعنی صاحب عقل یا عقلمند یا عقل والے۔ (تفصیل "آڑ" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ (سورۃ الفجر آیت 5)
اور بیشک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں اس بات پر کہ کافروں کو ضرور عذاب ہو گا۔

2: عقل

عقل بمعنی سوجھ بوجھ والا ہونا، غلطی کا احساس کرنے کے قابل ہونا (منجد) اور عقل بمعنی روکنا اور منع کرنا۔ اور عقال چو پائے بند جس سے اونٹ کا پاؤں باندھا جاتا ہے (مف) گویا عقل کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کا امتیاز کرے۔ نقصان دہ باتوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے (فق ل 65) اور فائدہ مند چیزوں اور قبول علم کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ پھر سوچ بچار کرے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ (سورۃ الملک آیت 10)
اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو دوزخیوں میں نہ ہوتے۔

3: حلم

حلم بمعنی درگزر کرنا، بردبار ہونا۔ اور حلیم بمعنی متحمل مزاج، بردبار اور حلم بمعنی متانت و بردباری۔ یعنی طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ و غضب کے موقعہ پر بھڑک نہ اٹھے (جمع احلام) (مف، منجد)۔ گویا حلم وہ عقل ہے جو طبیعت پر ضبط رکھے اور اسے مشتعل نہ ہونے دے۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ تَاۡمُرُہُمۡ اَحۡلَامُہُمۡ بِہٰذَاۤ اَمۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ (سورۃ الطور آیت 32)
کیا انکی عقلیں انکو یہی سکھاتی ہیں۔ یا یہ لوگ ہیں ہی شریر۔

4: اولی الالباب

الباب، لبّ کی جمع ہے۔ اور لبّ بمعنی کسی چیز کا خلاصہ، خالص حصہ (فق ل 66) اور لبیب بمعنی دنا۔ اور اولی الالباب سے مراد وہ لوگ ہیں جو کوئی بات سن کر اس کا خلاصہ اخذ کر سکیں، تیز فہم لوگ۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیۡعَ فِی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ حُطَامًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ (سورۃ الزمر آیت 21)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا پھر اسکو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا پھر اس سے کھیتی اگاتا ہے جسکے طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں۔ پھر وہ تیار ہو جاتی ہے پس تم اسکو دیکھتے ہو کہ زرد ہو گئ ہے پھر اسے چورا چورا کر دیتا ہے۔ بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے۔

5: اولی الابصار

بصر بمعنی آنکھ سے دیکھنا بھی ہے اور دیدہ دل سے دیکھنا بھی (تفصیل "دیکھنا" میں دیکھیے)۔ اور اولی الابصار بمعنی صاحب بصیرت لوگ، غور و فکر کرنے والے حضرات خواہ تیز فہم ہوں یا نہ ہوں۔ ارشاد باری ہے:
فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ (سورۃ الحشر آیت 2)
تو اے بصیرت کی آنکھیں رکھنے والو عبرت حاصل کرو۔

6: اولی النھی

نھی بمعنی کسی چیز کی انتہا کو پہنچنا (م ل) اور نھو ینھوا بمعنی بہت زیادہ ذہین ہونا، کامل العقل ہونا اور نھی نھیۃ کی جمع ہے۔ اور اولی النھی بمعنی صاحب فراست، اچھی رائے رکھنے والے لوگ، تجربہ کار (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
کُلُوۡا وَ ارۡعَوۡا اَنۡعَامَکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی (سورۃ طہ آیت 54)
کہ خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ۔ بیشک ان باتوں میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

ماحصل:

  • حجر: وہ عقل جو نقصان سے بچائے۔
  • عقل: وہ عقل جو نقصان سے بچائے اور فائدہ مند چیزوں کو اختیار کرنے کی تدبیر کرے۔
  • حلم: ایسی عقل جو طبیعت پر ضبط رکھے اور مشتعل نہ ہونے دے۔
  • اولی الالباب: تیز فہم لوگ، بات کا خلاصہ سمجھنے والے لوگ۔
  • اولی الابصار: غور و فکر کرنے والے لوگ۔
  • اولی النھی: بات کی تہ تک پہنچنے والے صاحب فراست لوگ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عقل مار دینا​

کے لیے استفزّ اور استخفّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استفزّ

فزّ بمعنی دھوکہ دے کے غالب آنا، ہوش اڑا دینا، گھبرا کر نکال دینا۔ اور استفز بمعنی مضطرب کر دینا، ہلکا جاننا، ذلیل سمجھنا، گھر سے باہر نکال دینا (منجد) اور استفزّ بمعنی اضطراب میں ڈالنا، عقل کھو دینا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَرَادَ اَنۡ یَّسۡتَفِزَّہُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ فَاَغۡرَقۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ جَمِیۡعًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 103)
تو اس نے چاہا کہ انکو سرزمین مصر سے نکال دے تو ہم نے اسکو اور جو اسکے ساتھ تھے۔ سب کو ڈبو دیا۔

2؛ استخفّ

خفّ بمعنی ہلکا ہونا۔ خفیف بمعنی ہلکا (ضد ثقیل) اور خفّف بمعنی ہلکا کرنا، اور استخفّ بمعنی ہلکا جاننا، جاہل سمجھنا، حق و راستی سے ہٹا دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَہٗ فَاَطَاعُوۡہُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 54)
غرض اس نے اپنی قوم کو بے عقل کر دیا۔ اور ان لوگوں نے اسکی بات مان لی بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔

ماحصل:

  • استفزّ: کسی کو پریشان اور مضطرب کر کے یا دھوکہ سے اس کی عقل مار دینا۔
  • استخفّ: کسی کو ذلیل اور حقیر بنا کر اس کی عقل مار دینا۔
علاوہ دیکھیے "سوائے"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عورت​

ہمارے ہاں عورت کا لفظ مرد کے مقابلہ میں یعنی مادہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عربی زبان میں عورت کا مفہوم یہ نہیں۔ عورت بمعنی ستر اور عورات بمعنی مقامات ستر ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ (سورۃ النور آیت 31)
ا یسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں غرض ان لوگوں کے سوا کسی پر اپنی زینت اور سنگھار کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں۔
قرآن کریم میں عورت کے لیے انثی، امراۃ (مرء)، نساء اور نسوۃ (نسو) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں (ان میں آخر تین الفاظ بیوی کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں)۔

1: انثی

بمعنی مادہ (ذکر یا نر کے مقابلہ میں)، مونث۔ اس لفظ کا اطلاق سب جانداروں کی مادہ پر ہوتا ہے۔ اور ایسے ہی جب بنی نوع انسان کا ذکر ہو تو اس سے مراد عورت ہو گا۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 178)
مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کا حکم دیا جاتا ہے اس طرح پر کہ آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔

2: امراۃ

امرء یا مرء کے مقابلہ میں آتا ہے۔ بمعنی کوئی شخص، کوئی مرد۔ اور اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب مرد یا عورت نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں (ف ل 17) امراۃ کی تثنیہ امراتان اور جمع نساء یا نسوۃ ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا (سورۃ النساء آیت 128)
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو

3: نساء

(ضد رجال جو امرء کی جمع ہے امراۃ کی جمع نساء اور نسوۃ ہے)۔ مرد کو رجل اسے وقت کہیں گے جب اس کی قوت کا پہلو اجاگر کرنا مقصود ہو۔ (تفصیل "آدمی – انسان" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ (سورۃ الحجرات آیت 11)
مومنو! مرد مردوں سے تمسخر نہ کریں ممکن ہے جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ممکن ہے وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں ان سے اچھی ہوں۔

4: نسوۃ

نسوۃ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کا کسی خاص معاملہ سے تعلق ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 50)
اور یہ تعبیر سن کر بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو میرے پاس لے آؤ۔ سو جب قاصد انکے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ بیشک میرا پروردگار انکے فریب سے خوب واقف ہے۔

ماحصل:

  • انثی: ہر جاندار کی مادہ جب مذکر و مونث یا نوع انسان کا ذکر ہو تو یہ لفظ عورت کے لیے استعمال ہو گا۔
  • امراۃ: مرء اور امرء کا تانیث۔ جب وہ عمر نکاح کو پہنچ جائے۔ اور اس کی جمع نساء بھی آتی ہے اور نسوۃ کسی خاص معاملہ سے متعلق عورتوں کا گروہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

عہد – وعدہ – اقرار​

کے لیے وعد، وعید، موعدۃ اور میعاد، عھد، ذمّۃ، اصر، میثاق اور عقود کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: وعد

بمعنی وعدہ کرنا، کسی بات کی امید دلانا (م ل) معروف لفظ ہے اور یہ یکطرفہ ہوتا ہے۔ اور اخلف الوعد بمعنی وعدہ کا ایفا یا پورا نہ کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالَ الشَّیۡطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ وَ وَعَدۡتُّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُکُمۡ ؕ (سورۃ ابراہیم آیت 22)
اور جب حساب کتاب کا کام فیصل ہو چکے گا تو شیطان کہے گا جو وعدہ اللہ نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔

2: وعید

ایسا وعدہ ہے جو شر پر مبنی ہو (م ل)، تہدید، دھمکی، ڈراوا۔ ارشاد باری ہے:
نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ (سورۃ ق آیت 45)
یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ پس جو میرے عذاب کی دھمکی سے ڈرے اسکو قرآن کے ذریعے نصیحت کرتے رہو۔
موعدۃ موعدا یہ سب الفاظ وعد یعد سے مصدر ہیں۔ وعد یعد وعدا وعدۃ و موعدا و موعدۃ اور ان کا معنی وعدہ یا وعدہ کرنا ہے (منجد) اور انہیں معنوں میں یہ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔
میعاد: اس ظرف ہے۔ زمانی کی صورت میں اس کے معنی وعدہ کا وقت اور مکانی کی صورت میں وعدہ کی جگہ ہو گا۔ جیسے فرمایا:
وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ (سورۃ الانفال آیت 42)
اور اگر تم جنگ کے لئے آپس میں قرارداد کر لیتے تو وقت معین پر جمع ہونے میں تقدیم و تاخیر ہو جاتی
دوسرے مقام پر فرمایا:
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (سورۃ آل عمران آیت 9)
اے پروردگار تو اس روز جس کے آنے میں کچھ بھی شک نہیں سب لوگوں کو اپنے حضور میں جمع کر لے گا بیشک اللہ خلاف وعدہ نہیں کرتا۔

2: عھد

بمعنی کسی چیز کی پیہم نگہداشت اور خبر گیری کرنا، اقرار کرنا، اور اس کی حفاظت کرنا (مف)، حفاظت کرنا اور پورا کرنا (منجد) اور عھد بمعنی وفا، دوستی، امان، ذمہ، وصیت اور ولی العہد بمعنی بادشاہ کا جانشین (منجد)۔ اور بعض اہل لغت کے نزدیک عہد و دو طرفہ وعدہ ہوتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک مشروط وعدہ کا نام عہد ہے (فق ل 439۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 34)
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ مگر ایسے طریق سے کہ بہت بہتر ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہو گی۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ (سورۃ البقرۃ آیت 40)
اے آل یعقوب! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو۔

3: ذمّۃ

ذمّہ دراصل عہد کی ایک قسم ہے۔ یعنی عہد وفا، نیز بمعنی امان، حفاظت کی ذمہ داری، کسی کو پناہ دینے کا عہد۔ اور اہل الذمّۃ وہ لوگ ہیں جنہیں جزیہ کے عوض امان دی گئی ہو۔ ارشاد باری ہے:
کَیۡفَ وَ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ لَا یَرۡقُبُوۡا فِیۡکُمۡ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ؕ یُرۡضُوۡنَکُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ تَاۡبٰی قُلُوۡبُہُمۡ ۚ وَ اَکۡثَرُہُمۡ فٰسِقُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 8)
بھلا ان سے عہد کیونکر پورا کیا جائے جب ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن انکے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔

4: اصر

اصر بمعنی کسی چیز میں گرہ لگانا اور اسے زبردستی سے روک لینا (م ل)۔ اصر بمعنی جکڑ بندی، بھاری بوجھ، رسم و رواج کے بندھن، شریعت کی حدود، قیود، بڑی ذمہ داری۔ گویا اس لفظ میں عہد، ثقل اور حبس کا تصور پایا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 157)
وہ لوگ جو اس رسول یعنی نبی امّی کی پیروی کرتے ہیں جنکے اوصاف کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں۔ اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو انکے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اسکی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔

5: میثاق

الوثاق اس رسی یا زنجیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کر باندھا جائے۔ اور میثاق وہ عہد و پیمان یا اقرار ہے جسے مؤکد کیا گیا ہو (مف) یا ضبط تحریر میں لا کر فریقین معاہدہ کو پابند کر دیا گیا ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ (سورۃ النساء آیت 90)
مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو یا اس حال میں کہ ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے بھنچ رہے ہوں تمہارے پاس آ جائیں تو اور بات ہے

6: عقود

عقد بمعنی گرہ لگانا۔ اور عقدۃ بمعنی گرہ گانٹھ (جمع عقد) مادی طور پر بھی مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ (سورۃ الفلق آیت 4)
اور گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے۔
اور معنوی طور پر بھی جیسے عقد البیع، عقد النکاح اور عقد العہد جس کا معنی معاہدہ کو ایسا مضبوط کرنا ہے جیسے گانٹھ لگا دی گئی ہو۔ اور ابن الفارس کے نزدیک عقد، شدت وثوق پر دلالت کرتا ہے (م ل) گویا ایسا عہد جو میثاق سے بھی مضبوط تر ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ (سورۃ المائدۃ آیت 1)
اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کرو۔
عقد بھی بسا اوقات قسموں سے مضبوط تر بنایا جاتا ے۔ کبھی تکرار اقرار سے اور کبھی تحریر سے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 33)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو حقداروں میں تقسیم کر دو کہ ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کر دیئے ہیں۔ اور جن لوگوں سے تم عہد کر چکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔

ماحصل:

  • وعد: جب کسی کو کوئی امید لگائی جائے تو اسے وعدہ کہتے ہیں۔ اور اگر یہ وعدہ کسی بے انجام سے تعلق رکھتا ہو تو وعید ہے۔ وعدہ کے وقت یا جگہ کو میعاد کہتے ہیں۔ یہ عموماً یکطرفہ ہوتا ہے۔
  • عھد: ایسا اقرار جس کی حفاظت بھی کی جائے اسے پورا کرنے کا ہر وقت خیال رکھا جائے۔ یہ دو طرفہ بھی ہو سکتا ہے اور مشروط بھی۔
  • ذمّۃ: عہد سے اخص ہے۔ پناہ دینے کا عہد۔
  • اصر: ایسا عہد جو پابندی کی وجہ سے بوجھل یا گراں بار ہو۔ خواہ یہ رسو و رواج کا ہو یا شریعت کا۔
  • میثاق: عہد کو جب تحریر یا تکرار سے مضبوط تر بنا دیا جائے تو یہ میثاق ہے۔
  • عقد: میثاق سے زیادہ مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ جو بعض دفعہ قسموں سے بھی مؤکد بنایا جاتا ہے۔
 
Top