مترادفات القرآن (غ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غار​

کے لیے غار اور مغارات اور کھف کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: غار

غور نشیبی زمین کو بھی کہتے ہیں اور گہرائی کو بھی۔ غار الرجل بمعنی آدمی نشیبی زمین میں اتر گیا۔ اور غار الماء بمعنی پانی زیر زمین چلا گیا۔ غور بمعنی گہرا، گہری سوچ۔ اور غار بمعنی ایسی نشیبی جگہ یا گہرائی جہاں انسان پناہ لے سکے۔ عام اس سے کہ وہ کسی پہاڑ میں ہو یا زیر زمین ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ (سورۃ التوبہ آیت 40)
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کا مددگار ہے وہ وقت تم کو یاد ہو گا جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا اس وقت دو ہی شخص تھے جن میں ایک ابوبکر تھے اور دوسرے ہمارے پیغمبر ﷺ جب وہ دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اور مغار غور سے اسم ظرف (مکانی) ہے جو غار ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کی جمع مغارات ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَوۡ یَجِدُوۡنَ مَلۡجَاً اَوۡ مَغٰرٰتٍ اَوۡ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوۡا اِلَیۡہِ وَ ہُمۡ یَجۡمَحُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 57)
اگر انکو کوئی بچاؤ کی جگہ جیسے قلعہ یا غار یا زمین کے اندر گھسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرح رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں۔

2: کہف

(جمع کہوف) کھف غار سے اخص ہے۔ کہف ایسی غار یا کھوہ کو کہتے ہیں پہاڑ میں ہو (م ل) اور بڑی ہو۔ اگر چھوٹی ہو تو اسے غار کہیں گے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡـكَهۡفِ وَالرَّقِيۡمِۙ كَانُوۡا مِنۡ اٰيٰتِنَا عَجَبًا‏ (سورۃ الکہف آیت 9)
کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف و رقیم (یعنی غار اور لوحِ غار یا وادئ رقیم) والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے (کتنی) عجیب نشانی تھے؟
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ([1]) تھے۔
غارت ہونا – کرنا کے لیے دیکھیے "برباد ہونا" اور "ہلاک کرنا"۔

([1]) یعنی جب ہم اس سے بہت بڑی نشانیاں پیدا کر چکے ہیں اور دکھلا چکے ہیں تو یہ اصحاب کہف کا واقعہ اتنا کونسا اچنھا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غافل ہونا – کرنا​

کے لیے غفل اور اغفل، سھی، سمد اور الھی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: غفل

بمعنی کسی کام کو چھوڑ دینا، ارادۃ ہو یا بلا ارادہ (م ل) حقائق کی معرفت سے بے خبر ہونا (مف) کوئی کرنے کا کام سستی یا بھول کی وجہ سے نہ کرنا۔ اور غافل کوئی شخص اپنے کام یا ذات سے بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں سے بھی (فق ل 78) جیسے ارشاد باری ہے:
وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 140)
اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔
نیز فرمایا:
وَدَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِكُمۡ وَاَمۡتِعَتِكُمۡ فَيَمِيۡلُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ مَّيۡلَةً وَّاحِدَةً‌ (سورۃ النساء آیت 102)
افر چاہتے ہیں کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر دفعۃً حملہ کر دیں۔
اور اغفل بمعنی دوسرے کی توجہ کسی اور طرف لگا کر اسے کسی چیز کے کرنے سے غافل کر دینا یا روک دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَاصۡبِرۡ نَفۡسَكَ مَعَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ‌ وَلَا تَعۡدُ عَيۡنَاكَ عَنۡهُمۡ‌ۚ تُرِيۡدُ زِيۡنَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَهٗ عَنۡ ذِكۡرِنَا وَاتَّبَعَ هٰوٮهُ وَكَانَ اَمۡرُهٗ فُرُطًا‏ (سورۃ الکہف آیت 28)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔

2: سھی

بمعنی بھولنا، دل کا دوسری طرف پھر جانا۔ اور سھو بمعنی نرمی، سکون (منجد)، سھو دراصل اس عمل کو کہتے ہیں جو غفلت کی وجہ سے سرزد ہو۔ اگر اس میں ارادہ کو دخل نہ ہو تو قابل عفو ہے۔ جیسے کسی مجنون کا گالی دینا اور اگر ارادہ ہو تو قابل مواخذہ ہے (مف) سجدہ سہو مشہور لفظ ہے۔ یعنی نماز میں توجہ دوسری طرف پھر جانے کی وجہ سے نماز کے اعمال میں کمی بیشی کرنے کی تلافی کے طور پر جو سجدہ کیا جاتا ہے اور یہ لفظ غیر کے فعل سے متعلق نہیں آتا (فق ل 78)۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ صَلَاتِهِمۡ سَاهُوۡنَۙ‏ (سورۃ الماعون آیت 5)
جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں۔

3: سمد

بمعنی حیران کھڑا ہونا، مبہوت ہونا اور سمد فی العمل بمعنی کسی کام میں مشغول ہونا اور سمّد بمعنی کسی کو کھیل کود میں مشغول کرنا (منجد)۔ گویا غفلت میں پڑ کر اصل کام کرنے کی بجائے کھیل کود میں پڑ جانے کے لیے سمد استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَتَضۡحَكُوۡنَ وَلَا تَبۡكُوۡنَۙ‏ وَاَنۡتُمۡ سٰمِدُوۡنَ‏ فَاسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ وَاعۡبُدُوۡا (سورۃ النجم آیت 60 تا 62)
اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور تم (غفلت کی) کھیل میں پڑے ہو سو اﷲ کے لئے سجدہ کرو اور (اُس کی) عبادت کرو۔

4: الھی

لھو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اصل مقصد سے ہٹائے رکھے (م ل) اور لھا یلھو بمعنی کھیلنا، شوقین ہونا۔ اور لھی اور الھی بمعنی مشغول کر دینا، خیال ہٹا دینا (منجد)۔ گویا الھی میں خیال ہٹا دینے کا سبب غفلت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے فضول کام ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اَلۡهٰٮكُمُ التَّكَاثُرُۙ‏ (سورۃ التکاثر آیت 1)
تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔

ماحصل:

  • غفل: بھول (بلا ارادۃ) یا سستی (ارادتاً) کی وجہ سے کوئی کام نہ کرنا۔ یا کسی دوسرے کے کام سے غفلت کرنا۔
  • سھی: بھول کی وجہ سے اصل کام کی بجائے دوسرا کام کرنا یا اس میں کمی بیشی کر دینا۔ اس کا تعلق غیر سے نہیں ہوتا۔
  • سمد: غفلت میں پڑ کر اصل کام کی بجائے کوئی کھیل کود میں مشغول ہو جانا۔
  • لھو: جب اصل کام سے توجہ ہٹنے کی وجہ سے بھول کے بجائے لہو و لعب یا دوسرے کام ہوں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غالب آنا – ہونا – کرنا​

کے لیے ظھر، عزّ، غلب، استعلی (علو) اور قھر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ظھر

کے معنی میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) ظاہر ہونا، سامنے آنا، نمایاں ہونا اور (2) قوت (م ل) پھر یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِىۡ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِىۡ النَّاسِ لِيُذِيۡقَهُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ (سورۃ الروم آیت 41)
بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں
نیز فرمایا:
لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 48)
یہ پہلے بھی طالب فساد رہے ہیں اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور وہ برا مانتے ہی رہ گئے۔
گویا ظھر کے معنی قوت اور بالادستی کے ساتھ کسی چیز کا ظہور ہے۔
اور غالب کرنا کے لیے اظھر استعمال ہو گا۔ جیسے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 33)
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

2: عزّ

(ضد ذلّ) بمعنی بالادست ہونا۔ اور ذلّ بمعنی زیردست ہونا۔ جیسے آج کے دیہاتی ماحول میں زمیندا طبقہ بالادست اور کمین یا مزدور لوگ ان کے زیردست ہوتے ہیں۔ یہی عزیز اور ذلیل کا صحیح مفہوم ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ هٰذَاۤ اَخِىۡ لَهٗ تِسۡعٌ وَّتِسۡعُوۡنَ نَعۡجَةً وَّلِىَ نَعۡجَةٌ وَّاحِدَةٌ فَقَالَ اَكۡفِلۡنِيۡهَا وَعَزَّنِىۡ فِىۡ الۡخِطَابِ‏ (سورۃ ص آیت 23)
بے شک یہ میرا بھائی ہے، اِس کی ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دُنبی ہے، پھر کہتا ہے یہ (بھی) میرے حوالہ کر دو اور گفتگو میں (بھی) مجھے دبا لیتا ہے۔

3: غلب

میں قوت، قہر اور شدت کا مفہوم پایا جاتا ہے (م ل) یعنی بزور بازو فوقیت و برتری حاصل کرنا، فتح کرنا۔ اور مغلوب وہ ہے جسے بزور بازو زبردستی پر مجبور کر دیا جائے۔ ارشاد باری ہے:
کَمۡ مِّنۡ فِئَةٍ قَلِيۡلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً کَثِيۡرَةً ۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ (سورۃ البقرۃ آیت 249)
کئی مرتبہ اﷲ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے۔

4: استعلی

علی یعلو بمعنی بلند ہونا۔ اور استعلی بمعنی بلند ہونے کی خواہش کرنا، فوقیت اور برتری حاصل کرنے کی طلب۔ اور تعلّی بمعنی شیخی بگھارنا ہے۔ یہ تعلّی اور استعلی عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اور علا یعلو اچھے اور برے دونوں میں۔ اور علی یعلی اچھے مفہوم میں آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَجۡمِعُوۡا کَیۡدَکُمۡ ثُمَّ ائۡتُوۡا صَفًّا ۚ وَ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡیَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰی (سورۃ طہ آیت 64)
تو تم جادو کا سامان اکٹھا کر لو اور پھر قطار باندھ کر آؤ۔ آج جو غالب رہا وہی کامیاب ہوا۔

5: قھر

میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) غلبہ پانا (2) مغلوب کی تذلیل کرنا، اسے دبانا (م ل) پھر یہ لفظ دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 127)
اس نے کہا کہ ہم ان کے لڑکوں کو تو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بلاشبہ ہم ان پر غالب ہیں۔
اس آیت میں قہر کا لفظ دونوں معنی دے رہا ہے۔ اور درج ذیل آیت میں صرف دبانے کا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ (سورۃ الضحی آیت 9، 10)
تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا۔

ماحصل:

  • ظھر: بمعنی قوت کے ساتھ سامنے آنا، رونما ہونا، ابھرتی ہوئی قوت۔
  • عزّ: بمعنی بالادست ہونا۔
  • غلب: بزور بازو بالادستی حاصل کرنا۔
  • استعلی: غالب آنے کی مذموم ہوس رکھنا۔
  • قھر: غالب آنا اور تذلیل کرنا، کمزور کو دبانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غبار​

کے لیے غبرۃ، نقعا اور ھباء (ھبو) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: غبرۃ

بمعنی گرد و غبار، مٹی اڑنے کے جو خاکی ذرات ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَوُجُوۡهٌ يَّوۡمَٮِٕذٍ عَلَيۡهَا غَبَرَةٌۙ‏ تَرۡهَقُهَا قَتَرَةٌؕ‏ (سورۃ عبس آیت 40، 41)
اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہوگی (مزید) ان (چہروں) پر سیاہی چھائی ہوگی۔

2: نقعا

بمعنی گرد راہ، وہ گرد و غبار جو کوئی تیز رفتار سواری اپنے پیچھے چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ خاکی ذرات بوجھل ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ پھر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
فَاَثَرۡنَ بِهٖ نَقۡعًاۙ‏ فَوَسَطۡنَ بِهٖ جَمۡعًاۙ‏ (سورۃ العادیات آیت 4، 5)
پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں پھر وہ اسی وقت (دشمن کے) لشکر میں گھس جاتے ہیں،

3: ھباء

ھبوۃ بمعنی غبار کے باریک ذرات (م ل) ایسے باریک خاکی ذرات جو ہوا میں ہر وقت موجود رہتے ہیں اور نظر بھی نہیں آتے۔ ارشاد باری ہے:
وَقَدِمۡنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰهُ هَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 23)
اور (پھر) ہم ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) انہوں نے (زندگی میں) کئے تھے تو ہم انہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے۔

ماحصل:

  • غبرۃ: گرد و غبار، خاکی ذرات جو نظر آ سکیں۔
  • نقع: گرد و غبار کے بھاری ذرات جو کوئی تیز رفتار سواری اپنے پیچھے چھوڑتی جاتی ہے۔
  • ھباء: گرد و غبار کے وہ باریک ذرات ہیں جو ہر وقت فضا میں بکھرے رہتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔
غروب کرنے کے لیے غرب، اقبل اور وقب "چھپنا" میں دیکھیے۔
غرور کرنا کر لیے دیکھیے "اترانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غصہ​

کے لیے سخط، غیض، غضب اور حرد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سخط

بمعنی خلاف مرضی کام کرنا۔ اور سخط بمعنی نا پسندیدگی، یہ غصہ کا پہلا درجہ ہے (فل 169) اور یہ ہمیشہ بڑے کا چھوٹے پر ہوتا ہے۔ یہ تو کہا سکتا ہے سخط الامیر علی الحاجب لیکن سخط الحاجب علی الامیر نہیں کہ جاتا (فق ل 106)۔ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَ اللّٰهِ كَمَنۡۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاۡوٰٮهُ جَهَنَّمُ‌ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ (سورۃ آل عمران آیت 162)
بھلا وہ شخص جو اللہ کی مرضی کے تابع ہو گیا اس شخص کی طرح کیسے ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب کا سزاوار ہوا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

2: غیظ

ایسی ناراضگی جو انسان کا دوران خون تیز کر دے اور یہ غصہ کا دوسرا درجہ ہے (فل 169) لیکن کوئی انتقامی کاروائی نہ کرے یا نہ کی ہو۔ اور غیظ کا تعلق کسی کی اپنی ذات سے بھی ہو سکتا ہے (فق ل 106)۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِىۡ السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ آل عمران آیت 134)
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے

3: غضب

صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک یہ لفظ عام ہے جو ہر طرح کے غصہ پر بولا جاتا ہے (ف ل 169) لیکن یہ تعریف صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ رسول اکرم ﷺ نے جو غضب کی تعریف فرمائی وہ یوں ہے:
اتقوا من الغضب فانّت جمرۃ توقد فی قلب ابن آدم الم تروا الی انتفاخ اوداجہ و جمرۃ عینیہ
غضب سے بچو کہ وہ آگ کی چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں جلتی ہے تم دیکھتے نہیں کہ ایسے شخص کی رگیں پھول جاتی ہیں اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت اس وقت واقع ہوتی ہے جب انسان مغلوب الغضب ہو کر انتقام پر اتر آتا ہے۔ اور ابن الفارس نے اس کے معنی اشد السخط بمعنی انتہائی ناراضگی (م ل) کیا ہے۔ اور صاحب منجد نے غضب کے معنی بغض رکھنا، غضبناک ہونا لکھا ہے (منجد) اور بمعنی ارادۃ الضّر للمغضوب علیہ۔ اور غضب ہمیشہ دوسرے پر آتا ہے یعنی چھوٹ کا بڑے پر بھی ہو سکتا ہے اور بڑے کا چھوٹے پر بھی (فق ل 106)۔ ارشاد باری ہے:
كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ وَلَا تَطۡغَوۡا فِيۡهِ فَيَحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبِىۡ‌ۚ وَمَنۡ يَّحۡلِلۡ عَلَيۡهِ غَضَبِىۡ فَقَدۡ هَوٰى‏ (سورۃ طہ آیت 81)
(اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہو گیا۔

4: حرد

حرد بمعنی کس پر ناراض ہونا۔ اور حرد بمعنی منع کرنا (منجد)۔ حرد بمعنی مغلوب الغضب ہو کر کسی پر تیزی سے حملہ ک دینا یا چارہ جوئی کرنا (فل 169) حرد دراصل غصہ کی کسی کیفیت کا نام نہیں بلکہ اس چارہ جوئی یا انتقامی کاروائی کی کیفیت ہے جو انسان غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کرتا ہے اور ابو ہلال کے نزدیک حرد کا معنی غصہ کی حالت میں مغضوب الیہ سے دور ہو کر اسے انجام تک پہنچانا (فق ل 106)۔ ارشاد باری ہے:
وَغَدَوۡا عَلٰى حَرۡدٍ قٰدِرِيۡنَ‏ (سورۃ القلم آیت 25)
وہ علی الصبح لپکتے وہاں جا پہنچے (کھیتی پر) گویا قادر ہیں۔

ماحصل:

  • سخط: محض ناراضگی، نا پسندیدگی، پہلا درجہ، بڑے کا چھوٹے پر۔
  • غیط: جب دوران خون تیز ہو جائے، دوسرا درجہ اور غیظ انسان کو اپنے آپ بھی آ سکتا ہے۔
  • غضب: جب انسان غصہ سے بپھر کر انتقام پر اتر آئے خواہ چھوٹا یا بڑا، اس کا تعلق اپنی ذات سے نہیں، دوسرے سے ہوتا ہے۔
  • حرد: غصہ کی وجہ سے انتقامی کاروائی کی کیفیت، تیزی سے لپکنا، اور مغضوب علیہ سے دور ہو کر کام سر انجام دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غصہ دلانا​

کے لیے اسخط، غاظ (غیظ) اور اسف کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اسخط

تفصیل اوپر گزر چکی ہے، بمعنی ناراض کرنا۔ ارشاد باری ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوۡا مَاۤ اَسۡخَطَ اللّٰهَ وَكَرِهُوۡا رِضۡوَانَهٗ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَهُمۡ (سورۃ محمد آیت 28)
یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اُس (رَوِش) کی پیروی کی جو اﷲ کو ناراض کرتی ہے اور انہوں نے اس کی رضا کو ناپسند کیا تو اس نے ان کے (جملہ) اعمال اکارت کر دیئے۔

2: غاظ

بمعنی غصہ دلانا۔ تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ قرآن میں ہے:
وَلَا يَطَـُٔــوۡنَ مَوۡطِئًا يَّغِيۡظُ الۡكُفَّارَ (سورۃ التوبہ آیت 120)
اور نہ وہ کسی ایسی جگہ کو پامال کرتے ہیں جو کافروں کو غصہ دلائے۔

3: اسف

الاسف ایسا غصہ جو افسوس اور حزن (غم) کی بنا پر ہو۔ اگر غصہ کمزور پر ہو تو غیظ و غضب کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور اگر قوی پر ہو تو بس نہ چلنے کی وجہ سے منقبض ہو کر حزن کی صورت اختیار کر لیتا ہے (مف) اور اسف بمعنی کسی چیز کا کھو جانا اور اس پر افسوس کرنا (م ل) نیز اسف بمعنی غصہ دلانا، غمگین کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انتَقَمۡنَا مِنۡهُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ (سورۃ الزخرف آیت 55)
پھر جب انہوں نے (موسٰی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر کے) ہمیں شدید غضبناک کر دیا (تو) ہم نے اُن سے بدلہ لے لیا اور ہم نے اُن سب کو غرق کر دیا

ماحصل:

  • اسخط: محض ناراض کرنے کے لیے۔
  • غاظ: غصہ دلانے کے لیے
  • اسف: ایسے غصہ دلانے کے لیے آتا ہے جو طاقتور میں غضب پیدا کر دے اور کمزور کم غم و افسوس میں مبتلا کر دے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غم​

کے لیے غم، حزن اور بثّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: غم

غمّ کا بنیادی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہے۔ غمّی بمعنی غبار اور تاریکی اور غمام بمعنی بادل جو سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اور غم بے چینی، اندوہ (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغۡشٰى طَآٮِٕفَةً مِّنۡكُمۡ‌ۙ (سورۃ آل عمران آیت 154)
پھر اس نے غم کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی۔

2: حزن

بمعنی غم (ضد فرح) کسی معاملہ میں طبیعت کے بے چین رہنا، اندوہ۔ اور یہ انسان کی اضطراری کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب بے چینی کا کوئی علاج نظر نہ آ رہا ہو تو غم کی صورت بن جاتی ہے۔ اور حزن مصائب کو بھی کہتے ہیں۔ لہذا وہ غم جو کسی مصیبت کی وجہ سے لاحق ہو اسے حزن کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَتَوَلّٰى عَنۡهُمۡ وَقَالَ يٰۤاَسَفٰى عَلٰى يُوۡسُفَ وَابۡيَـضَّتۡ عَيۡنٰهُ مِنَ الۡحُـزۡنِ فَهُوَ كَظِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 84)
اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے۔

3: بثّ

بمعنی شدّۃ الحزن (فل 48) شدید غم، قلق، وہ غم جو اندر ہی اندر کسی انسان کو کھائے جاتا ہے، غم و اندوہ کا طویل دور۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 86)
انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

ماحصل:

  • غمّ: بے چینی اندوہ کے لیے عام لفظ۔
  • حزن: ایسا غم جس کا سبب کوئی لا علاج مصیبت وہ۔
  • بثّ: شدت غم، قلق۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غمگین ہونا – غم کھانا​

کے لیے حزن، اسی (اسی)، ابلس اور ابتئس (بئس) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حزن

بمعنی غم کرنا، غم کھانا (تفصیل اوپر گزر چکی ہے) جیسے فرمایا:
لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (سورۃ التوبہ آیت 40)
غم زد نہ ہوں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

2: اسی

بمعنی کسی چیز کے کھو جانے پر غم کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ (سورۃ الحدید آیت 23)
تاکہ جو فائدہ تمہیں حاصل نہ ہو سکا اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تمکو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

3: ابلس

بمعنی سخت مایوسی کے باعث غمگین ہونا (مف) اور بمعنی بے خیر ہونا، غمگین اور شکستہ دل ہونا (منجد) یعنی ایسا غم جو کسی امر میں سخت مایوسی ہو جانے کی وجہ سے لاحق ہو۔ اور شیطان بھی ابلیس اس لیے کہا گیا کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس اور شکستہ دل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمُبۡلِسِیۡنَ (سورۃ الروم آیت 49)
جبکہ وہ اسکے برسنے سے پہلے یقیناً ناامید ہو رہے تھے۔

4: ابتئس

بئس میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں (مف) اور ابتئس کے کسی بات کو ناگوار محسوس کرنا اور اس پر غم لگ جانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤۡمِنَ مِنۡ قَوۡمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدۡ اٰمَنَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 36)
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے لاچکے ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کر رہے ہیں انکی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔

ماحصل:

  • حزن: کسی حادثہ یا مصیبت کی وجہ سے غم کھانا۔
  • اسی: ایسی چیز پر غم کھانا جو ہاتھ سے نکل چکی ہو۔
  • ابلس: ایسا غم جو کسی امر پر مایوسی کی وجہ سے لاحق ہو۔
  • ابتئس: کسی دوسرے کی ناگوار اور ناقابل برداشت چیز کی وجہ سے غم کا لاحق ہونا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

غور کرنا​

کے لیے رای، نظر اور بصر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی تفصیل "دیکھنا" میں ملے گی۔ جب یہ معنوی طور پر استعمال ہوتے ہیں تو اس سے مراد سوچنا یا غور کرنا ہی ہوتا ہے۔ تاہم یہ غور یا سوچ وقتی قسم کا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں غور و فکر کے لیے تفکّر، تدبّر، تفقّہ، ادّکر اور استنبط کے الفاظ آئے ہیں۔

1: تفکّر

الفکرۃ علم کو معلوم کی طرف لے جانے والی قوت کو کہتے ہیں (مف) اور تفکّر بمعنی سوچنا، غور کرنا، تامل کرنا (منجد) کسی معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا۔ فکر، افکر اور فکّر اور تفکّر سب قریب المعنی ہیں۔ فکر بمعنی سوچ (جمع افکار) (منجد) اور بمعنی کسی معاملہ میں دلائل پر غور کرنا (فق ل 58)۔ ارشاد باری ہے:
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 219)
اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم سوچو۔

2: تدبّر

دبر کسی چیز کی پچھلی طرف، پشت یا پچھلے حصہ کو کہتے ہیں۔ اور ادبر بمعنی پیٹھ پھیرنا ہے (منجد) اور تدبّر بمعنی کسی کام کے انجام کو سوچنا، نتائج پر غور و فکر کرنا، پھر اس کے مطابق لائحہ عمل بنانا۔ اور اسی بات کا نام تدبیر ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَہُمۡ مَّا لَمۡ یَاۡتِ اٰبَآءَہُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 68)
کیا انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا یا انکے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو انکے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آئی تھی۔

3: تفقّہ

الفقہ بمعنی علم حاضر سے غائب تک پہنچنا (مف)، کسی چیز کو پا لینا اور اس کے متعلق علم ہو جانا۔ پھر یہ علم شریعت کے ساتھ مختص ہو گیا (م ل)، ہر عالم جو حلال و حرام کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ فقیہ ہے۔ اور تفقّہ سے مراد یہ ہے کہ چند معلوم اشیا یا احکام میں غور کر کے ایسے مسئلہ کے لیے علم تک پہنچنا جس کے متعلق واضح حکم نہ ہو، سمجھ پیدا کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 122)
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو انکو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔

4: ادّکر

ذکر کے بمعنی کسی چیز کو یاد کرنا، رکھنا۔ اور ذکّر بمعنی کسی کو کوئی بات اس طرح یاد دلانا کہ وہ اس سے نصیحت حاصل کرے۔ اور ادّکر بمعنی کسی چیز کو خود یاد میں لانا (م ا) ذہن میں لانا اس پر توجہ اور سوچ بچار کرنا تاکہ وہ خود نصیحت حاصل کرے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ (سورۃ القمر آیت 17)
اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟

5: استنبط

کنواں کھودنے کے بعد پہلی دفعہ جو پانی نکالا جائے اسے استنبط کہتے ہیں۔ اور نبط بمعنی کنویں کی تہ سے پانی نکالنا۔ اور استنباط استخراج کے معنی میں آتا ہے (مف) اور استنبط بمعنی پوشیدگی کے بعد ظاہر کرنا، اختیار سے نکالنا، ایجاد کرنا، فقیہ کا غور و فکر سے کوئی بات نکالنا (منجد) استنباط دراصل اجتہاد یا تفقہ کی ایک قسم ہے جس میں علم معلوم میں غور و فکر کے کرے اور اس کی تہہ تک پہنچ کر اسے ضمنی مسائل یا نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 83)
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اسکو اگر پیغمبر اور اپنے ذمہ داروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند آدمیوں کے سوا تم سب شیطان کے پیرو ہو جاتے۔

ماحصل:

  • تفکّر: کسی معاملہ کے مختلف پہلوؤں اور دلائل پر غور کرنا۔
  • تدبّر: کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھنا اور اس کے لیے لائحہ عمل سوچنا۔
  • تفقّہ: معلوم اشیا پر غور کر کے سمجھ پید کرنا اور اس سے ملتے جلتے مسائل کا حل تلاش کرنا۔
  • ادّکر: کسی معاملہ کو یاد میں لا کر سوچ بچار کرنا پھر اس سے نصیحت حاصل کرنا۔
استنبط: معلوم علم میں غور و فکر کر کے اس میں سے ضمنی مسائل اخذ کرنا یا نتائج حاصل کرنا۔
 
Top