غار
کے لیے غار اور مغارات اور کھف کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔1: غار
غور نشیبی زمین کو بھی کہتے ہیں اور گہرائی کو بھی۔ غار الرجل بمعنی آدمی نشیبی زمین میں اتر گیا۔ اور غار الماء بمعنی پانی زیر زمین چلا گیا۔ غور بمعنی گہرا، گہری سوچ۔ اور غار بمعنی ایسی نشیبی جگہ یا گہرائی جہاں انسان پناہ لے سکے۔ عام اس سے کہ وہ کسی پہاڑ میں ہو یا زیر زمین ہو۔ ارشاد باری ہے:اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ (سورۃ التوبہ آیت 40)
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کا مددگار ہے وہ وقت تم کو یاد ہو گا جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا اس وقت دو ہی شخص تھے جن میں ایک ابوبکر تھے اور دوسرے ہمارے پیغمبر ﷺ جب وہ دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اور مغار غور سے اسم ظرف (مکانی) ہے جو غار ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کی جمع مغارات ہے۔ ارشاد باری ہے:اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کا مددگار ہے وہ وقت تم کو یاد ہو گا جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا اس وقت دو ہی شخص تھے جن میں ایک ابوبکر تھے اور دوسرے ہمارے پیغمبر ﷺ جب وہ دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
لَوۡ یَجِدُوۡنَ مَلۡجَاً اَوۡ مَغٰرٰتٍ اَوۡ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوۡا اِلَیۡہِ وَ ہُمۡ یَجۡمَحُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 57)
اگر انکو کوئی بچاؤ کی جگہ جیسے قلعہ یا غار یا زمین کے اندر گھسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرح رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں۔
اگر انکو کوئی بچاؤ کی جگہ جیسے قلعہ یا غار یا زمین کے اندر گھسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرح رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں۔
2: کہف
(جمع کہوف) کھف غار سے اخص ہے۔ کہف ایسی غار یا کھوہ کو کہتے ہیں پہاڑ میں ہو (م ل) اور بڑی ہو۔ اگر چھوٹی ہو تو اسے غار کہیں گے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡـكَهۡفِ وَالرَّقِيۡمِۙ كَانُوۡا مِنۡ اٰيٰتِنَا عَجَبًا (سورۃ الکہف آیت 9)
کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف و رقیم (یعنی غار اور لوحِ غار یا وادئ رقیم) والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے (کتنی) عجیب نشانی تھے؟
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ([1]) تھے۔
غارت ہونا – کرنا کے لیے دیکھیے "برباد ہونا" اور "ہلاک کرنا"۔کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف و رقیم (یعنی غار اور لوحِ غار یا وادئ رقیم) والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے (کتنی) عجیب نشانی تھے؟
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ([1]) تھے۔
([1]) یعنی جب ہم اس سے بہت بڑی نشانیاں پیدا کر چکے ہیں اور دکھلا چکے ہیں تو یہ اصحاب کہف کا واقعہ اتنا کونسا اچنھا ہے۔