مترادفات القرآن (ف)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فائدہ – فائدہ دینا​

کے لیے نفع، متّع، ربح اور مارب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نفع

بمعنی کسی اچھی چیز کا یا اس سے کچھ حصہ ملنا، فائدہ ہونا (م ل) ضد اس کی ضرر ہے۔ بمعنی تکلیف، نقصان۔ اس کا استعمال عام ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے:
قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا (سورۃ الرعد آیت 16)
تم ہی کہدو کہ اللہ۔ ان سے کہو کہ کیا تم نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے

2: متّع

متاع بمعنی سامان زیست میں سے ہر وہ چیز جس سے انسان یا کوئی جاندار پنے زندہ رہنے کے لیے فائدہ اٹھاتا ہے وہ متاع ہے (جمع امتعۃ) اور متّع بمعنی ایسے ہی سامان سے فائدہ اٹھانا۔ ارشاد باری ہے:
اَخۡرَجَ مِنۡہَا مَآءَہَا وَ مَرۡعٰہَا وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ (سورۃ النازعات آیت 31 تا 33)
اسی نے زمین میں سے اسکا پانی نکالا اور چارہ اگایا۔ اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے کیا۔
اور متّع بمعنی کسی دوسرے کو ایسا سامان دینا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکے، فائدہ پہنچانا۔ ارشاد باری ہے:
لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ ایت 236)
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔
اور تمتّع بمعنی خود فائدہ حاصل کرنا، مزے اڑانا۔ جیسے فرمایا:
فَعَقَرُوۡہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوۡا فِیۡ دَارِکُمۡ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ وَعۡدٌ غَیۡرُ مَکۡذُوۡبٍ (سورۃ ھود آیت 65)
مگر انہوں نے اسکو کاٹ ڈالا۔ تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں تین دن اور فائدے اٹھا لو۔ یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا۔

3: ربح

وہ فائدہ جو خرید و فروخت سے حاصل ہو (مف)، مال تجارت میں فائدہ ہونا۔ اور اس کی ضد خسر ہے۔ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 16)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ تو انکی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ یہ ہدایت یاب ہی ہوئے۔

4: مارب

ارب بمعنی سخت حاجت جس کے بغیر گزارہ نہ ہو سکے۔ اور اسے حاصل کرنے کے لیے کوشش کی جائے (مف) اور بمعنی حاجت، ضرورت، انتہا (منجد) اور مارب، ماربۃ، ماربہ اور ماربۃ (ر ضمہ) بمعنی حاجت اور اس کی تکمیل۔ اور اس کی جمع مارب ہے۔ اور وہ چیز بھی جس کے ذریعہ وہ ضرورت پوری ہو۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی (سورۃ طہ آیت 18)
انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے اور بھی کئ فائدے ہیں۔

ماحصل:

  • نفع: عام لفظ کسی خیر سے حصہ ملنا۔ اس کی ضد ضرر۔ ہے۔
  • متّع: سامان زیست سے فائدہ اٹھانا۔
  • ربح: مال تجارت سے فائدہ اٹھانا۔
  • مارب: ضروریات اور ان کی تکمیل کا ذریعہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فتح ہونا – دینا​

کے لیے فتح اور اظفر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فتح

بمعنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنا (مف)۔ یہ لفظ کھولنا، فیصلہ کرنا اور فتح دینا سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے (ضد اغلاق) اور جب یہ لفظ دشمن کے مقابلہ پر فتح (ضد ھزیمت) کے لیے استعمال ہو تو اس کے یہ معنی ہوں کے ایسے واضح اور کھلا ہوا فیصلہ جس کے بعد دشمن کو اپنی شکست کے متعلق کچھ شک نہ رہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا (سورۃ النصر آیت 1، 2)
جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور فتح حاصل ہو گئ۔ اور اے نبی ﷺ تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔

2: اظفر

ظفر بمعنی انسان یا حیوان کے ناخن۔ اور ظفر فلان بمعنی فلاں نے اس میں پنے ناخن گاڑ دئیے (مف) یا فتح پائی۔ اور اظفر بمعنی ایسی فتح دینا کہ دشمن کے سینہ میں ناخن گڑ جائیں۔ یعنی فتح اور اس کے بعد دشمن پر تسلط۔ ابن الفارس کے الفاظ میں یدلّ علی القھر والفوز والغلبۃ (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا (سورۃ فتح آیت 24)
اور وہی تو ہے جس نے تمکو ان کافروں پر فتحیاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں انکے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسکو دیکھ رہا ہے۔

ماحصل:

فتح کا لفظ صرف غلبہ کے لیے ہے جبکہ اظفر میں فتح کے بعد دشمن پر تسلط بھی شامل ہے۔
فخر کرنا کے لیے دیکھیے "اترانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فراخی – آسودگی​

کے لیے میسرۃ، طول، بسطۃ اور سعۃ (وسع) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: میسرۃ

یسر بمعنی آسانی (ضد عسر بمعنی تنگی) اور میسرۃ بمعنی آسانی کا وقت، ایسا وقت جب کوئی شخص معاشی لحاظ سے اپنی گزر اوقات آسانی سے کر سکے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ ایت 280)
اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔

2: طول

طول بمعنی لمبائی، دراز اور (زمانہ کی ) درازی ہے۔ اور طول کا لفظ فضل و احسان کے معنی میں آتا ہے جو محض وقتی نہ ہو (مف) اور طول بمعنی نان و نفقہ پر گزر بسر کے اخراجات، فضل، بخشش، غنا (منجد)۔ جیسے کہ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ (سورۃ النساء آیت 25)
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے

3: بسطۃ

بسط بمعنی کھولنا اور پھیلانا۔ اور اس کی ضد قبض بھی ہے اور قدر بھی اور بسطۃ بمعنی کشادگی (جگہ کی)،فراخی اور فراوانی (مف) خواہ یہ فراخی مال و دولت میں یا کسی اور چیز میں ہو۔ یہ لفظ مادی اور معنوی ہر طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 247)
پیغمبر نے کہا کہ اللہ نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور بادشاہی کے لئے منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی بڑا عطا کیا ہے
دوسرے مقام پر ہے:
اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (سورۃ العنکبوت آیت 62)
اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جسکے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جسکے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔

4: سعۃ

وسع بمعنی کسی چیز میں وسعت اور گنجائش ہونا، اور الوسع بمعنی رزق کی فراوانی، غنا (م ل) اور وسعۃ کی ضد ضیق بھی ہے اور عسر بھی (م ل) اور سعۃ رزق کی فراوانی کے لیے آتا ہے۔ اور اولو السّعۃ بمعنی ایسے لوگ جو اپنی گزر اوقات کے علاوہ پس انداز بھی کر سکتے ہیں اور صدقات و خیرات دینے کی گنجائش رکھتے ہوں۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 22)
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل اور صاحب مال ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ اور انکو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگذر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمکو بخش دے؟ اور اللہ تو بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

ماحصل:

  • میسرۃ: آسانی سے گزر بسر ہونا، تنگی کے بعد۔
  • طول: گز بسر کا کفیل ہونا۔
  • بسطۃ: فراخی اور کشادگی خواہ کسی چیز میں ہو۔
  • اولو السعۃ: آسودہ حال لوگ، جو پس انداز کر سکیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فراخ ہونا – کرنا​

کے لیے رحب، وسع اور تفسّح کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: رحب

رحب اور رحب (ح ضمہ) بمعنی جگہ کا فراخ ہونا۔ صرف وسعت مکانی کے لیے آتا ہے۔ کسی جگہ یا مکان کا فراخ ہونا اور اس کی ضد ضاق ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 25)
اللہ نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور جنگ حنین کے دن جب کہ تم کو اپنی جماعت کی کثرت پر غرہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہو گئ۔ پھر تم پیٹھ پھیر گئے۔
اور مرحب کا لفظ بطور دعا استعمال ہوتا ہے۔ مرحبا بمعنی خوش آمدید اور بد دعا کے لیے لا مرحبا کہتے ہیں یعنی تمہارے لیے کوئی گنجائش یا جگہ نہیں۔ قرآن میں ہے:
ہٰذَا فَوۡجٌ مُّقۡتَحِمٌ مَّعَکُمۡ ۚ لَا مَرۡحَبًۢا بِہِمۡ ؕ اِنَّہُمۡ صَالُوا النَّارِ (سورۃ ص آیت 59)
یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ گھستی چلی آ رہی ہے انکو خوش آمدید نہ کہا جائے یہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔

2: وسع

جگہ اور حالت دونوں کے لیے آتا ہے۔ بمعنی فراخی، سمائی، گنجائش CAPACITY ۔ ارشاد باری ہے:
وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔
نیز فرمایا:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا ذمہ دار نہیں بناتا

3: تفسّح

بمعنی فسح بمعنی کشادہ قدم رکھنا، اور فسح اور تفسّح فی المجلس بمعنی مجلس میں جگہ دینا (منجد) یعنی کھل کر اس طرح بیٹھنا کہ دوسروں کے لیے جگہ نکل آئے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورۃ المجادلۃ آیت 11)
مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو اللہ تمکو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنکو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

ماحصل:

  • رحب: صرف جگہ کی فراخی کے لیے۔
  • وسع: گنجائش، سمائی اور وسعت خواہ کسی چیز میں ہو۔ اوسع کسی جگہ کو کشادہ کرنا۔
  • تفسّح: کھل کر دوسرے کے لیے جگہ بنانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فرشتہ​

کے لیے ملک اور ملائکۃ اور روح کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: ملک

(جمع ملائکۃ) کا مادہ لاک ہے۔ جس کا معنی پیغام پہنچانا ہے۔ الاکۃ الی فلان بمعنی کو پیغام پہنچانا۔ اور الکنی بمعنی میرا اسے پیغام دینا۔ اور ملاک اور ملک بمعنی پیغام رساں فرشتہ (منجد) اور ملک بمعنی فرشتہ شرعی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس میں یہ تخصیص بھی نہیں کہ وہ ضرور پیغام رساں ہو۔ فرشتے اللہ تعالی کی طرف سے تدبیر کائنات پر مامور ہیں۔ بادلوں کا فرشتہ، موت کا فرشتہ، جنت کے اور دوزخ کے فرشتے، سب کے لیے ملک اور ملائکۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے حالانکہ یہ پیغام رساں نہیں۔ اور کبھی اللہ تعالی کی طرف سے پیغام ندائے غیبی یا ہاتف غیبی کی صورت میں واقع ہوتا ہے تو وہاں ملک کی بجائے ملائکۃ (جمع) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 45)
وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسٰی ابن مریم ہو گا اور جو دنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔
اس مقام یا اس جیسے دوسرے مقامات پر ملک کی بجائے ملائکۃ کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا ہے یہ بات انسانی عقل سے ماورا ہے۔

2: روح

جس طرح روح کی حقیقت کا علم انسان کو بہت کم دیا گیا ہے اسی طرح روح کے معنی پر احاطہ کرنا بھی انسانی دسترس سے باہر ہے۔ روح بمعنی رحمت بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے اور بمعنی وحی اور قرآن بھی اور بمعنی فرشتہ بھی۔ وہ فرشتہ جو بالخصوص اللہ تعالی کی طرف سے انبیا کی طرف پیغام رسانی پر مامور ہے اس کا نام جبریل ہے۔ اسے اللہ تعالی نے روح اور روح الامین اور رسول کریم کے القاب سے پکارا ہے۔ اور جو فرشتہ مریم علیہ السلام کی طرف آیا اور انسانی روپ دھار کر اللہ کا پیغام دیا اسے سورۃ مریم میں روح کہا گیا ہے اور سورۃ آل عمران میں ملک کی بجائے ملئکۃ کہا گیا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ روح جبریل علیہ السلام تھے۔ یہ ممکن ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ مریم نبیہ نہیں تھیں۔ پھر بھی ان کی طرف جبریل علیہ السلام یا کوئی اور فرشتہ یا فرشتے آئے۔ خدا کا پیغام پہنچایا اور ان سے ہم کلام ہوئے۔ یہ پیغام حضرت مریم کی ذات سے ہی متعلق تھا۔ دوسروں کو پہنچانا تو در کنار، دوسروں سے اس پیغام کا کچھ تعلق بھی نہ تھا جو امور نبوت اور رسالت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا (سورۃ مریم آیت 17)
پھر انہوں نے انکی طرف سے پردہ کر لیا تو ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا سو وہ انکے سامنے ایک خوبصورت مرد کی صورت میں آیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فرق​

کے لیے بعد اور تفاوت کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: بعد

بعد (ع کسرہ) اور بعد (ع ضمہ) بمعنی دور ہونا۔ اور بعد کا اصل معنی دور ہی ہے۔ تاہم یہ لفظ بد دعا کے لیے دوری اور پھٹکار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور جب اس لفظ کا استعمال ظرف مکانی کے طور پر ہو تو یہ فرق یا فاصلہ کے معنی دیتا ہے۔ جیسے فرمایا:
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیۡتَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِیۡنُ (سورۃ الزخرف آیت 38)
یہاں تک کہ جب ہمارے پاس آئے گا تو اس شیطان سے کہے گا کہ اے کاش مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا تو برا ساتھی ہے۔

2: تفاوت

(ضد استوا) فات الامر بمعنی کسی کام کا وقت ہاتھ سے نکل جانا اور واپس نہ ہو سکنا اور تفات الشّیئین بمعنی دو چیزوں کا آپس میں لگّا نہ کھانا اور عدم مناسبت ہونا (منجد، م ق) اور یہ لفظ ہمیشہ برے معنوں میں آتا ہے۔ فات بمعنی کسی چیز کا انسان سے اتنا دور ہو جانا کہ اس کا حاصل کر لینا اس کے لیے دشوار ہو۔ اور تفاوت بمعنی دو چیزوں کے اوصاف مختلف ہونا، گویا ہر ایک کا وصف دوسری کو فوت کر رہا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ اے دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھکو آسمان میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟

ماحصل:

  • بعد: فاصلہ کی دوری اور فرق۔
  • تفاوت: دو چیزوں کے اوصاف الگ الگ ہونے کی بنا پر فرق، عدم مناسبت۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فرقہ – گروہ​

کے لیے فرقۃ، فریق، طائفۃ، زمر، شیعۃ اور اناس کے الفاظ آئے ہیں (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "جماعت" اور لشکر")۔

1: فرقۃ

فرق بمعنی الگ کرنا، پھاڑنا اور فرق بمعنی الگ شدہ حصہ (سورۃ الشعراء آیت 63) اور فرقۃ بمعنی لوگوں کا کسی بڑی جماعت سے الگ شدہ حصہ (مف) کسی قوم یا جماعت سے جدا شدہ کثیر تعداد اور ہم خیال لوگوں کا گروہ۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 122)
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو انکو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔

2: فریق

فرقۃ اور فریق تقریباً ہم معنی ہیں۔ فریق کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب اس کے مقابل کوئی دوسرا فریق بھی موجود یا مذکور ہو۔ جیسے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ (سورۃ شوری آیت 7)
اور اسی طرح ہم نے تمہارے پاس قرآن عربی بھیجا ہے تاکہ تم اس مرکزی شہر یعنی مکے کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اسکے اردگرد رہتے ہیں انکو خبردار کرو اور انہیں قیامت کے دن کا بھی جسمیں کچھ شک نہیں خوف دلاؤ۔ اس روز ایک فریق بہشت میں جائے گا اور ایک فریق دوزخ میں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا ۙ اَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ خَیۡرٌ مَّقَامًا وَّ اَحۡسَنُ نَدِیًّا (سورۃ مریم آیت 73)
اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے مکان کس کے اچھے اور مجلسیں کس کی بہتر ہیں؟

3: طائفۃ

ایک رائے اور مذہب کے لوگ (منجد) اس لفظ کا اطلاق چھوٹی سے چھوٹی جماعت بلکہ فرد واحد پر بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ بعض مفسرین اس آیت کے متعلق کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ (سورۃ الحجرات آیت 9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔
کہ اس آیت میں طائفۃ کے لفظ کا اطلاق فرد واحد پر ہوا ہے۔

4: زمر

(زمرۃ کی جمع بمعنی ٹولہ) جب کوئی بڑی جماعت یا لشکر چھوٹے چھوٹے دستوں یا ٹولوں میں بٹ کر نقل و حرکت کرے تو ایسے ٹولے زمر کہلائیں گے (تفصیل "جماعت" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ (سورۃ الزمر آیت 73)
اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں انکو گروہ گروہ کر کے بہشت کی طرف لیجایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ اسکے پاس پہنچ جائیں گے اس حال میں کہ اسکے دروازے کھولے جا چکے ہونگے تو اسکے داروغہ ان سے کہیں گے کہ تم پر سلام ہو تم بہت اچھے رہے۔ اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل ہو جاؤ۔

5: شیعۃ

بمعنی پارٹی، دھڑا، سیاسی فرقہ، وہ لوگ جس سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں (مف)، کسی کے پیروکار اور مددگار (منجد)، ایسی پارٹی یا دھڑے کی بنیاد عموماً عقیدہ کا اختلاف ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ دَخَلَ الۡمَدِیۡنَۃَ عَلٰی حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ اَہۡلِہَا فَوَجَدَ فِیۡہَا رَجُلَیۡنِ یَقۡتَتِلٰنِ ٭۫ ہٰذَا مِنۡ شِیۡعَتِہٖ وَ ہٰذَا مِنۡ عَدُوِّہٖ ۚ فَاسۡتَغَاثَہُ الَّذِیۡ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ عَلَی الَّذِیۡ مِنۡ عَدُوِّہٖ ۙ فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ ٭۫ قَالَ ہٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ القصص آیت 15)
اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے بیخبر ہو رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں دو شخص لڑ رہے تھے ایک تو موسٰی کی قوم کا ہے اور دوسرا انکے دشمنوں میں سے تو جو شخص انکی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسٰی کے دشمنوں میں سے تھا مدد طلب کی تو موسٰی نے اسکو مکا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا کہنے لگے کہ یہ تو شیطانی کام ہوا بیشک وہ انسان کا دشمن ہے کھلا بہکانے والا ہے۔
اور شیعۃ کی جمع شیعا بھی ہے اور اشیاع بھی۔ اشیاع بمعنی ایک جیسے عادات و اطوار رکھنے والے لوگ خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں، ہم جنس۔ ارشاد باری ہے:
وَ حِیۡلَ بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ مَا یَشۡتَہُوۡنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشۡیَاعِہِمۡ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا فِیۡ شَکٍّ مُّرِیۡبٍ (سورۃ سباء آیت 54)
اور ان میں اور انکی خواہشوں میں پردہ حائل کر دیا گیا جیسا کہ پہلے انکے ہم جنسوں سے کیا گیا وہ بھی الجھن میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے۔

6: اناس

تقسیم کار کے لحاظ سے بنے ہوئے یا بنائے ہوئے گروہ یا مختلف قبائل کے تعلق رکھنے والے الگ الگ گروہ (بعض کے نزدیک ناس اور اناس میں کوئی فرق نہیں)۔ قرآن میں ہے:
قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر کے پانی پی لیا

ماحصل:

  • فرقۃ: کسی بڑی جماعت سے بہت سے لوگوں کا الگ شدہ حصہ۔
  • فریق: وہ فرقہ جس کے مقابل بھی کوئی فرقہ موجود ہو یا مذکور ہو۔
  • طائفۃ: بمعنی چھوٹے چھوٹے دستے، ٹولے۔
  • شیعۃ: عقیدہ کے اختلاف پر مبنی پارٹی یا دھڑا۔
  • اناس: قبیلہ یا تقسیم کار کے حساب سے بنے ہوئے فرقے۔
فرمانبرداری کرنا کے لیے دیکھیے "اطاعت کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فریاد رسی​

کے لیے استجاب (جوب) اور اصرخ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استجاب

جاب بمعنی پتھر کو تراشنا۔ اور اجاب بمعنی مراجعۃ الکلام (م ل) یعنی کسی سوال کا جواب دینا۔ اور سئل بھی دو معنوں میں آتا ہے۔ (1) کسی بات کے متعلق استفسار کرنا اور (2) کوئی چیز مانگنا اور طلب کرنا۔ لہذا اجاب بھی ان دونوں معنوں میں آتا ہے کسی استفسار کا جواب دینے کے معنوں میں بھی۔ جیسے فرمایا:
یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ (سورۃ المائدۃ آیت 109)
وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے جس دن اللہ پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔
اور کسی چیز کے طلب کرنے کے جواب میں بھی اس وقت اس کے معنی قبول کرنا ہوں گے۔ جیسے فرمایا:
اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 62)
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون اسکی تکلیف کو دور کرتا ہے اور کون تمکو زمین میں اگلوں کا جانشین بناتا ہے یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ ہرگز نہیں مگر تم بہت کم غور کرتے ہو۔
اور استجاب بمعنی دعا کو قبول کرنا یعنی پکارنے والے کی حاجت روائی یاد اور رسی کرنا ہے بالخصوص جب ندا کی جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ نُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الانبیاء آیت 76)
اور نوح کا قصہ بھی یاد کرو جب اس سے پیشتر انہوں نے ہمیں پکارا تو ہم نے انکی دعا قبول فرمائی اور انکو اور انکے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی۔

2: اصرخ

صرخ بمعنی چیخنا، چلانا تاکہ کوئی فریاد کو پہنچے اور صریخ بمعنی فریاد کو پہنچنا۔ (سورۃ یس آیت 43)۔ اور اصرخ کا بھی یہی مفہوم ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالَ الشَّیۡطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ وَ وَعَدۡتُّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُکُمۡ ؕ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُکُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِیۡ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِیَّ ؕ اِنِّیۡ کَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَکۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ ابراہیم آیت 22)
اور جب حساب کتاب کا کام فیصل ہو چکے گا تو شیطان کہے گا جو وعدہ اللہ نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو گمراہی اور باطل کی طرف بلایا تو تم نے جلدی سے اور بےدلیل میرا کہنا مان لیا۔ تو آج مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے بیشک جو ظالم ہیں انکے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔

ماحصل:

اگر اللہ سے فریاد رسی کی دعا یا ندا کی جائے اور وہ قبولیت بخشے اور یہ استجاب ہے جبکہ اصرخ میں ہر چیخ و پکار سننے والا فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فریاد کرنا​

کے لیے استغاث اور استصرخ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استغاث

غاث بمعنی سختی کے وقت کسی کی اعانت اور مدد کرنا (م ل) اور غیث اس بارش کو کہتے ہیں جو بر وقت بھی ہو اور ضرورت کے مطابق بھی۔ اور استغاث کے معنی خدا سے ایسی بارش کے لیے فریاد کرنا بھی اور سختی کے وقت خدا یا دوسرے حاکم سے اعانت اور مدد طلب کرنا بھی۔ استغاثہ مشہور لفظ ہے۔ بمعنی حاکم یا عدالت کے سامنے اپنے پر ظلم یا زیادتی کی فریاد کرنا۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 9)
جب تم لوگ اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ تسلی رکھو ہم ہزار فرشتوں سے جو ایکدوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے۔

2: استصرخ

بمعنی چیخ و پکار کر کے اپنی فریاد عام لوگوں کو سنانا اور ان سے مدد چاہنا (تفصیل پیچھے گزر چکی)۔ قرآن میں ہے:
فَاَصۡبَحَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسۡتَنۡصَرَہٗ بِالۡاَمۡسِ یَسۡتَصۡرِخُہٗ ؕ قَالَ لَہٗ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ القصص آیت 18)
الغرض صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی پھر انکو پکار رہا ہے۔ موسٰی نے اس سے کہا کہ تو تو بڑا بہکا ہوا ہے۔

ماحصل:

فریاد اگر اللہ یا حاکم مجاز کے سامنے پیش کی جائے تو استغاث کا لفظ آئے گا اور اگر چیخ و پکار کے ذریعہ عوام کو مدعو کیا جائے تو استصرخ آئے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فساد کرنا – ڈالنا​

کے لیے افسد، عثا یا عاث، نزغ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: افسد

فسد بمعنی کسی چیز کا بگڑنا، خراب ہو جانا۔ اور افسد بمعنی کسی چیز کو بگاڑنا اور خراب کر دینا (فساد ضد اصلاح) فساد کا لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 56)
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف رکھتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔

2: عثا یا عاث

قرآن میں ہے:
کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
ہم نے حکم دیا کہ اللہ کی عطا فرمائی ہوئی روزی کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا۔
تعثوا کا مادہ بعض اہل لغت نے ع ث ی لکھا ہے۔ یعنی عثی یعثی عثیّا (مف) اور یہ ذہنی اور فکر بگاڑ کے لیے آتا ہے۔ مثلاً لٹریچر یا تقریروں کے ذریعہ غلط عقائد و نظریات کی ترویج۔
اور بعض اہل لغت نے اس کا مادہ ع ی ث لکھا ہے۔ عاث یعیث عثیّا (مف) جو حسی یا مادی فساد پر دلالت کرتا ہے (م ل) جیسے کسی پر ظلم و زیادتی کرنا۔ دونوں صورتوں میں نہی کا صیغہ لا تعثوا ہی آتا ہے۔

3: نزغ

بمعنی دو چیزوں کے درمیان فساد ڈالنا (م ل) اور بمعنی جھگڑا بپا کرنا، فساد پر آمادہ کر دینا، بگاڑ پیدا کر دینا، جھڑپ کرا دینا، دشمنی ڈالنا (م ق) اور بمعنی کسی کام کو بگاڑنا اور اس میں دخل انداز ہونا (مف) یا مداخلت کر کے فساد کرا دینا۔ قرآن میں ہے:
وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اس نے مجھ پر بہت سے احسان کئے ہیں کہ مجھ کو قید خانے سے نکالا۔ اور اسکے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے وہ علم والا ہے حکمت والا ہے۔

ماحصل:

افسد کا اطلاق صرف ایک بار فساد کرنے پر بھی ہو سکتا ہے اور جب فساد عادت کی شکل اختیار کر جائے تو عاث یا عثا آئے گا۔ اور نزغ میں اصل بات مداخلت کرنا ہے خواہ یہ کسی ایک چیز میں یا زیادہ میں پھر ان میں فساد ڈال دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فضول باتیں کرنا​

کے لیے الغی (لغو)، خاض (خوض)، فکہ، سمر اور ھجر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: الغی

لغا بمعنی بے سوچے سمجھے بولنا، بیہودہ کلام (منجد) اور بمعنی چڑیوں کا چہچہانا۔ اور اس طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنا (م ق) اور الغی کے معنی اس طرح بک بک اور جھک جھک کرنا کہ مخاطب کی بات اس شور میں دب کر رہ جائے تاکہ دوسرے بھی نہ سن سکیں۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ (سورۃ حم سجدۃ آیت 26)
اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور جب پڑھنے لگیں تو شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو۔

2: خاض

بمعنی گھسنا۔ خاض فی الماء پانی میں گھس جانا۔ خاض فی الحدیث باتوں میں مشغول ہونا (منجد) اور بمعنی کسی چیز کے درمیان تک داخل ہونا (م ل) یعنی باتوں یا کاموں میں پورے انہماک سے مشغول ہونا۔ قرآن میں اس کا استعمال زیادہ تر فضول کاموں یا باتوں کے لگے رہنے پر ہوا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 68)
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہو جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں۔ اور اگر یہ بات شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے رہو۔

3: فکہ

بمعنی خوش گپیاں اڑانا، ہنسنا ہنسانا (فل 145) اور فکاھۃ بمعنی خوش طبعی کی باتیں (منجد) اور تفکّت بعرض فلان بمعنی کسی کی غیبت کر کے لطف اندوز ہونا (منجد)، باتوں سے لذت حاصل کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمُ انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ (سورۃ المطففین آیت 31)
اور جب اپنے گھر کو لوٹتے تو اتراتے ہوئے لوٹتے۔

4: سمر

رات کو سونے سے پہلے قصے کہانیاں بیان کرنا، سونے سے پہلے کی باتیں، قصہ گوئی (مف، فل)۔ اور

5: ھجر

ھجر یھجر بیہودہ باتیں کرنا، بکواس کرنا (مف)۔ ھجر بمعنی نامناسب کلام، بد گوئی، بیہودہ بکواس (منجد)، نیند یا مرض میں بڑبڑانا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہۡجُرُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 67)
ان سے سرکشی کرتے گویا ایک قصہ گو کو چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔

ماحصل:

  • الغی: اس طرح بک بک کرنا کہ دوسرے کی بات نہ سنی جا سکے۔
  • خاض: کسی مذموم بات یا کام میں منہمک ہو جانا۔
  • فکہ: ایسا ہنسی مذاق جس سے لذت حاصل ہو۔ خوش گپیاں۔
  • سمر: رات کو سونے سے پہلے قصے کہانیاں بیان کرنا۔
  • ھجر: نیند یا مرض میں بڑبڑانا، بیہودہ بکواس کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فضول خرچی کرنا​

کے لیے اسرف اور بذّر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اسرف

سرف اور اسرف بمعنی حد اعتدال سے آگے بڑھ جانا (مف) اور اس کا استعمال مال و دولت یا خورد و نوش میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر عام ہے۔ اور حد اعتدال اسی چیز کی ہوتی ہے جو امر مباح یا جائز ہو۔ گویا اسراف کے معنی جائز کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 31)
اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے آپکو مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیئو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

2: بذّر

بذر اور بذر بمعنی بیج۔ اور بذّر بمعنی بیج بکھیرنا۔ تو جس طرح بیج زمین میں بکھر دیا جاتا ہے اسی طرح اگر مال و دولت بکھیرا جائے تو اسے تبذیر کہتے ہیں (مف)۔ گویا ضرورت جائز ہو یا ناجائز اس پر بے دریغ مال اڑانے کو تبذیر کہتے ہیں (مف) اور یہ اسراف سے بھی مذموم فعل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 26، 27)
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ۔ کہ فضل خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی ناشکرا ہے۔

ماحصل:

اسراف جائز کاموں میں فضول خرچی کے لیے اور تبذیر جائز و ناجائز (اور بالعموم ناجائز) کاموں میں مال اڑانے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فضیلت دینا (بزرگی دینا)​

کے لیے فضّل اور کرّم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فضّل

فضل بمعنی کسی اچھی کا اقتصاد اور متوسط درجہ سے زیادہ ہونا۔ اور فضّل بمعنی از راہ احسان کسی کو کسی اچھی چیز میں اس کے استحقاق سے زیادہ بخشنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 122)
اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی۔

2: کرّم

کرم ایسے شرف کو کہتے ہیں جو کسی چیز میں فی نفسہ موجود ہو یا اس کے اخلاق کی وجہ سے ہو (م ل) اور کرّم بمعنی کسی چیز کے اندر فضیلت کے جوہر ودیعت کر دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 70)
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انکو خشکی اور تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

فیصلہ کرنا​

کے لیے فتح، فصل، حکم اور قضی اور حتم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فتح

بمعنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنا (مف) ضد اغلاق (م ل) اور بمعنی فتح دینا اور فیصلہ کرنا۔ ایسا فیصلہ کہ حق و باطل میں تمیز ہو جائے اور پیچیدگی دور ہو جائے اور کسی فریق کو شک و شبہ نہ رہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدِ افۡتَرَیۡنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِیۡ مِلَّتِکُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنۡہَا ؕ وَ مَا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِیۡہَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 89)
اگر ہم اسکے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بیشک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں اللہ جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ہم مجبور ہیں ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ہمارا اللہ ہی پر بھروسہ ہے اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

2: فصل

بمعنی ایک چیز کو دوسری چیز سے تمیز کرنا اور اس کا اس سے دور ہونا (م ل) گویا فتح کے مقابلہ میں فصل اخص ہے۔ فتح میں صرف تمیز اور فصل میں تمیز اور جدائی دو باتیں پائی جاتی ہیں اور یہ تمیز اور جدائی بعض دفعہ ایک ہی چیز میں بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے کتاب کی فصل۔ اسی طرح فتح کا تعلق بھی بعض دفعہ ایک چیز سے ہوتا ہے، بعض دفعہ زیادہ چیزوں سے (فق ل 113)۔ ارشاد باری ہے:
ہٰذَا یَوۡمُ الۡفَصۡلِ ۚ جَمَعۡنٰکُمۡ وَ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ المرسلات آیت 38)
یہی فیصلے کا دن ہے جس میں ہم نے تمکو اور پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے۔

3: حکم

بمعنی منع عن الظلم (م ل) ایسا فیصلہ جس میں ظلم و زیادتی کو روکا جائے اور بمعنی منع عن الخصومۃ (فق ل 156) یعنی لڑائی جھگڑے سے روکنے کا حکم۔ قرآن میں ہے:
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 78)
اور داؤد اور سلیمان کا حال بھی سن لو کہ جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کر چر گئیں اور اسے روند گئ تھیں اور ہم انکے فیصلے کے گواہ تھے۔

4: قضی

قضی یقضی قضیا و قضاء و قضیّۃ بمعنی (1) کسی کام سے فارغ ہونا، پورا کر چکنا اور (2) فریقین کے درمیان جھگڑا کا آخری فیصلہ کرنا DECISION اور فیصلہ کے سلسلہ میں قضی کا استعمال اس وقت ہو گا جبکہ اس فیصلہ کے نفاذ کی قوت بھی موجود ہو۔ قاضی مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 65)
پس تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں۔ اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ بھی نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہونگے۔

5: حتم

بمعنی فیصلہ کرنا، مضبوط کرنا، کسی چیز کا حکم لگانا، واجب کرنا اور حاتم بمعنی حاکم۔ کہتے ہیں حتم الحاتم کذا حاکم نے اس چیز کا فیصلہ دیا۔ اور ھذا ولد حتم بمعنی یہ لڑکا ہے جس کے نسب میں کوئی شک نہیں (منجد) اور حتم بمعنی قضا و قدر (مف) گویا حتم اس فیصلہ کو کہتے ہیں جو آخری اور اٹل ہو (فق ل 187)۔ قرآن میں ہے:
وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا (سورۃ مریم آیت 71)
اور تم میں سے کوئی شخص نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہو گا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم ہے اور مقرر ہے۔

ماحصل:

  • فتح: اغلاق دور کر کے واضح طور پر ایک بات کا فیصلہ دینا، تمیز کر دینا۔
  • فصل: تمیز اور جدائی۔
  • حکم: ایسا فیصلہ جس سے کسی کو زیادتی سے روک دیا جائے اور اس کا مداوا کیا جائے۔
  • قضی: اس شخص کا آخری فیصلہ دینا جس کے پاس قوت نافذہ بھی موجود ہو۔
  • حتم: قطعی اور اٹل فیصلہ۔ مشیت الہی کا فیصلہ۔
 
Top