قابو پانا
کے لیے قدر (علی)، اقرن، استحوذ (حوذ) اور احتنک کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔1: قدر
قدر، قدر (د کسرہ) (قدرا، قدرۃ) قدر بمعنی کسی معاملہ کی تدبیر کرنا۔ قدر الرّزق بمعنی رزق کی تقسیم کرنا، رزق میں تنگی کرنا۔ اور قدر علی الشئ بمعنی کسی چیز پر قدرت رکھنا، قابو پانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 87)
اور مچھلی والے پیغمبر یعنی یونس کو یاد کرو جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر گرفت نہیں کریں گے مگر پھر اندھیروں میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے اور بیشک میں قصوروار ہوں۔
اور مچھلی والے پیغمبر یعنی یونس کو یاد کرو جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر گرفت نہیں کریں گے مگر پھر اندھیروں میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے اور بیشک میں قصوروار ہوں۔
2: اقرن
قرن بمعنی ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملانا، باندھنا۔ اور قرن اس رسی کو کہتے ہیں جس سے دو اونٹوں کو باندھا جائے (مف) اور اقرن بمعنی دو چیزوں کو ایک چیز سے جمع کرنا اور اقرن للامر بمعنی کسی چیز کی طاقت رکھنا اور اس پر قادر ہونا۔ جبکہ اقرن علیہ کے معنی کسی چیز سے عاجز آنا ہوتا ہے (منجد)۔ گویا اقرن میں ساتھ والی چیز پر قابو پانے کا مفہوم پایا جاتاہے۔ قرآن میں ہے:لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 13)
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسکو ہمارے زیرفرمان کر دیا اور ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسکو بس میں کر لیتے۔
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسکو ہمارے زیرفرمان کر دیا اور ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسکو بس میں کر لیتے۔
3: استحوذ
حاذالدّآبّۃ بمعنی جانور کو تیز ہانکنا (منجد) اور حوذ بمعنی کسی کام میں سرعت، پھرتی اور سبک رفتاری (م ل) اور حاذ بمعنی سختی کے ساتھ ہانکنا۔ اور استحوذ کے معنی کسی پ مسلط ہو کر اسے سختی سے ہانکنا ہے۔ کہتے ہیں استحوذ العیر علی الاتان یعنی گدھے کا گدھی کی پشت پر چڑھ کر اسے دونوں جانب سے دبا لینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ المجادلۃ آیت 19)
شیطان نے انکو قابو میں کر لیا ہے اور اللہ کی یاد انکو بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطان کا ٹولہ ہیں اور سن رکھو کہ شیطان کا ٹولہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔
شیطان نے انکو قابو میں کر لیا ہے اور اللہ کی یاد انکو بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطان کا ٹولہ ہیں اور سن رکھو کہ شیطان کا ٹولہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔
4: احتنک
حنک بمعنی تالو۔ اور احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ پر رسی یا لگام دینا۔ اور الحنک اس آدمی کو بھی کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنا دیا ہو (منجد)۔ گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل و تجربہ سے قابو پانا ہے۔ قرآن میں ہے:قَالَ اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا الَّذِیۡ کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 62)
اور ازراہ طنز کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک کی مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اسکی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔
اور ازراہ طنز کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک کی مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اسکی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔
ماحصل:
- قدر علی: قدرت رکھنا، قابو پانا، یہ استعمال میں عام ہے۔
- اقرن: ساتھ والی چیز پر قابو پانے کی طاقت رکھنا۔
- استحوذ: زبردستی اور سختی سے قابو پانا۔
- احتنک: عقل اور تدبیر سے قابو پا لینا۔