مترادفات القرآن (ق)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قابو پانا​

کے لیے قدر (علی)، اقرن، استحوذ (حوذ) اور احتنک کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: قدر

قدر، قدر (د کسرہ) (قدرا، قدرۃ) قدر بمعنی کسی معاملہ کی تدبیر کرنا۔ قدر الرّزق بمعنی رزق کی تقسیم کرنا، رزق میں تنگی کرنا۔ اور قدر علی الشئ بمعنی کسی چیز پر قدرت رکھنا، قابو پانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 87)
اور مچھلی والے پیغمبر یعنی یونس کو یاد کرو جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر گرفت نہیں کریں گے مگر پھر اندھیروں میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے اور بیشک میں قصوروار ہوں۔

2: اقرن

قرن بمعنی ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملانا، باندھنا۔ اور قرن اس رسی کو کہتے ہیں جس سے دو اونٹوں کو باندھا جائے (مف) اور اقرن بمعنی دو چیزوں کو ایک چیز سے جمع کرنا اور اقرن للامر بمعنی کسی چیز کی طاقت رکھنا اور اس پر قادر ہونا۔ جبکہ اقرن علیہ کے معنی کسی چیز سے عاجز آنا ہوتا ہے (منجد)۔ گویا اقرن میں ساتھ والی چیز پر قابو پانے کا مفہوم پایا جاتاہے۔ قرآن میں ہے:
لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 13)
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسکو ہمارے زیرفرمان کر دیا اور ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسکو بس میں کر لیتے۔

3: استحوذ

حاذالدّآبّۃ بمعنی جانور کو تیز ہانکنا (منجد) اور حوذ بمعنی کسی کام میں سرعت، پھرتی اور سبک رفتاری (م ل) اور حاذ بمعنی سختی کے ساتھ ہانکنا۔ اور استحوذ کے معنی کسی پ مسلط ہو کر اسے سختی سے ہانکنا ہے۔ کہتے ہیں استحوذ العیر علی الاتان یعنی گدھے کا گدھی کی پشت پر چڑھ کر اسے دونوں جانب سے دبا لینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ المجادلۃ آیت 19)
شیطان نے انکو قابو میں کر لیا ہے اور اللہ کی یاد انکو بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطان کا ٹولہ ہیں اور سن رکھو کہ شیطان کا ٹولہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔

4: احتنک

حنک بمعنی تالو۔ اور احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ پر رسی یا لگام دینا۔ اور الحنک اس آدمی کو بھی کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنا دیا ہو (منجد)۔ گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل و تجربہ سے قابو پانا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا الَّذِیۡ کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 62)
اور ازراہ طنز کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک کی مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اسکی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔

ماحصل:

  • قدر علی: قدرت رکھنا، قابو پانا، یہ استعمال میں عام ہے۔
  • اقرن: ساتھ والی چیز پر قابو پانے کی طاقت رکھنا۔
  • استحوذ: زبردستی اور سختی سے قابو پانا۔
  • احتنک: عقل اور تدبیر سے قابو پا لینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قافلہ​

کے لیے سیّارۃ، عیرا اور رکب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سیّارۃ

سار بمعنی چلنا پھرنا۔ اور سیّارۃ بمعنی ہر چلنے پھرنے والی یا گھومنے والی چیز جو مسلسل چلتی رہے یا بہت چلے (مبالغہ کا صیغہ ہے) اجرام فلکی کو بھی سیّارات کہتے ہیں۔ اور عام اصطلاح میں سیّارۃ سے مراد ایک ساتھ چلنے والی جماعت یا ہم سفر لوگ ہیں۔ قافلہ (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 19)
اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسکو قیمتی سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا۔

2: عیر

ہر وہ قافلہ جو غلہ بردار ہو۔ غذائی سامان لے جانے والے اونٹ اور لوگ سب اس میں شامل ہیں (مف) اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک خواہ یہ قافلہ اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں پر مشتمل ہو (ف ل 16) نیز قبیلہ حمیری کے قافلہ کو بھی عیر کہتے ہیں (م ق)۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 70)
پھر جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے تھیلے میں آبخورہ رکھ دیا پھر جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔

3: رکب

رکب بمعنی سوار ہونا اور رکاب بمعنی سواری۔ اور راکب بمعنی سوار۔ مگر عرف میں راکب کا لفظ شتر سوار کے لیے مخصوص ہو چکا ہے (مف)۔ اور راکب کی جمع رکب، رکبان اور رکوب آتی ہے (منجد) اور رکب بمعنی گھڑ سوار یا اونٹ سوار قافلہ۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ؕ (سورۃ الانفال آیت 42)
جس وقت تم مدینے سے قریب کے ناکے پر تھے اور کافر دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا۔

ماحصل:

  • سیّارۃ: ہم سفر لوگ، پیدل ہوں یا سوار۔ یہ لفظ عام ہے۔
  • عیر: غلہ بردار قافلہ۔
  • رکب: شتر سوار یا گھڑ سوار قافلہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قبر​

کے لیے قبر، مرقد اور جدث کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قبر

بمعنی میت کو زمین میں دفن کرنے کی جگہ۔ معروف لفظ ہے (جمع قبور) اور مقبرہ بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے (جمع مقابر)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 84)
اور اے پیغمبر ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اسکے جنازے پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اسکی قبر پر جا کر کھڑے ہونا۔ یہ اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان ہی مرے۔

2: مرقد

رقد بمعنی ہلکی اور لمبی نیند سونا۔ اور مرقد بمعنی ایسی نیند سے آرام کرنے کی جگہ، آرام گاہ، خواب گاہ۔ قبر کے لیے یہ لفظ مجازاً استعمال ہوا ہے کیونکہ کافر قیامت کی سختیوں کے مقابلہ میں قبر کی سختی کو آرام سے تعبیر کریں گے۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ٜۘؐ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (سورۃ یس آیت 52)
کہیں گے ہائے بربادی ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے جگا اٹھایا؟ یہ وہی تو ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

3: جدث

جدث اور قبر میں گو کسی اہل لغت نے فرق نمایاں نہیں کیا۔ تاہم قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر کا لفظ عام ہے جبکہ جدث وہ ہے جس کے نشان بھی مٹ چکے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض دفعہ یوں ہوتا ہے کہ کسی کو درندہ کھا جاتا ہے، بعض دفعہ انسان دریا میں غرق ہو تو اسے دریائی جانور کھا جاتے ہیں۔ ہندو لوگ اپنی میت کو جلا کر اس کی راکھ گنگا میں بہا دیتے ہیں۔ جو صورت بھی ہو اس میت کے ذرات منتقل ہوتے ہوئے بالآخر زمین میں مل جاتے ہیں تو وہی اس کی جدث ہے۔ قرآن میں جدث (جمع اجداث) کا ذکر دو بار آیا ہے اور دونوں بار ایسے مواقع کے لیے آیا ہے جبکہ قبروں کے نشانات کا تصور بھی محال ہے۔ جیسے فرمایا:
یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ (سورۃ المعارج آیت 43)
اس دن یہ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے کسی مقابلے کے نشان کی طرف دوڑے جا رہے ہوں۔
اس آیت میں یوم النشور کا ذکر ہے جب سب قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں گے۔ دوسری آیت بھی ایسا ہی منظر پیش کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ (سورۃ یس آیت 51)
اور جس وقت صور پھونکا جائے گا یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے۔

ماحصل:

  • قبر: عام ہے ایسا مدفن جس کے نشان موجود ہوں یا نہ ہوں۔
  • جدث: اخص ایسا مدفن جس کے نشانات موجود نہ ہوں۔
  • مرقد: کنایۃ قبر کے لیے استعمال ہوا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قبول کرنا​

کے لیے قبل اور تقبّل، اجاب اور استجاب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قبل

قبولا بمعنی کسی کو برضا و رغبت لے لینا، قبول کرنا (منجد) اور صاحب فروق اللغویہ کے نزدیک یہ صرف اعمال کے لیے آتا ہے (فق ل 184)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (سورۃ النور آیت 4)
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو انکو اسّی درے مارو اور کبھی انکی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بدکردار ہیں۔

2: تقبّل

اور تقبّل اور قبل تقریباً ہم معنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تقبّل کسی ایسی چیز کے قبول کرنے کے لیے آتا ہے جو عوض کی مقتضی ہو (مف) جیسے ہدیہ وغیرہ جبکہ قبل عام ہے۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (سورۃ آل عمران آیت 35)
وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو بچہ میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو اسے میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا ہے جاننے والا ہے۔

3: اجاب اور استجاب

کا استعمال بالعموم دعا کی قبولیت کے لیے ہوتا ہے (دیکھیے "فریاد رسی") یعنی دعا قبول کرنا اور پھر داد رسی کرنا بھی استجاب میں شامل ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 62)
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون اسکی تکلیف کو دور کرتا ہے اور کون تمکو زمین میں اگلوں کا جانشین بناتا ہے یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ ہرگز نہیں مگر تم بہت کم غور کرتے ہو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ (سورۃ المؤمن آیت 60)
اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔

ماحصل:

  • قبل: کسی چیز کو برضا و رغبت لے لینا، اعمال کے لیے۔
  • تقبّل: قبل سے اخص ہے یعنی ایسی چیز لینا جو عوض کی مقتضی ہو اور
  • استجاب: عموماً دعا کو قبول کرنے اور پھر داد رسی کرنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قبیلہ اور خاندان​

کے لیے شعوب، قبائل، فصیلۃ، رھط، عشیرۃ اور اسباط کے الفاظ آئے ہیں۔

1: شعوب

کسی ایک آدمی کی اولاد اور پھر اولاد اور اولاد۔ آگے چل کر ایک ذات بن جاتی ہے جسے عربی زبان میں شعب کہتے ہیں۔ اور شعب شاخ کو بھی کہتے ہیں (جمع شعوب)۔ شعب کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (1) افتراق (2) اجتماع۔ یعنی ایسی چیز جو آگے چل کر تو کئی حصوں میں بٹ جائے۔ مگر اس کا اصل ایک ہو اور اصل سے اس کا رابطہ قائم رہے۔ خلیل کہتے ہیں کہ یہ عربی زبان کی ندرت ہے کہ شعب میں افتراق بھی ہے اور اجتماع بھی (م ل)۔

2: قبائل

(واحد قبیلہ) اب یہ ذات یا شعب پھر کئی چھوٹے حصوں میں بٹ جاتی ہے جسے قبیلہ کہتے ہیں جن کا آپس میں رابطہ قائم ہوتا ہے۔ قبائل الراس بمعنی سر کی ہڈیاں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں (منجد) اسے ہم اپنی زبان میں برادری کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (سورۃ حجرات آیت 13)
لوگو! ہم نے تمکو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے سب سے خبردار ہے۔

3: فصیلۃ

بمعنی خاندان، کنبہ، کسی ایک فرد کا اپنا خاندان، ایک ہی گھر کے افراد، اہل خانہ، چھوٹ قبیلہ جس میں اس کی بیوی، بیٹے بیٹیاں، بہن بھائی، والد، والدہ وغیرہ شامل ہیں (ف ل 206)۔ ارشاد باری ہے:
یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ وَ فَصِیۡلَتِہِ الَّتِیۡ تُــٔۡوِیۡہِ (سورۃ المعارج آیت 11 تا 13)
حالانکہ ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے اس روز گنہگار چاہے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دیدے یعنی اپنے بیٹے۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی۔ اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا۔

4: رھط

کسی قبیلہ کے نوجوانوں کی مختصر سی جماعت جن کی تعداد 3 سے 9 تک ہو اور اس میں کوئی عورت نہ ہو (فل 205) ایسی جماعت کو بھی رھط کہتے ہیں اور اس جماعت کے سردار کو بھی (نیز دیکھیے "سردار") اور صاحب منجد کے نزدیک رھط کی طرف اگر عدد کی اضافت کریں تو اس سے اشخاص و افراد مراد ہوتے ہیں مثلاً خمسۃ رھط بمعنی پانچ اشخاص (منجد)۔ قرآن میں ہے:
قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَہۡطِیۡۤ اَعَزُّ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اتَّخَذۡتُمُوۡہُ وَرَآءَکُمۡ ظِہۡرِیًّا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ (سورۃ ھود آیت 92)
انہوں نے کہا کہ اے قوم! کیا میرے بھائی بندوں کا دباؤ تم پر اللہ سے زیادہ ہے؟ اور اسکو تم نے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے۔ میرا پروردگار تو تمہارے سب اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

5: عشیرۃ

عشر بمعنی ایک ساتھ مل جل کر رہنا (م ل) اور عشیرۃ اس چھوٹے سے قبیلہ کو کہتے ہیں جو صرف مرد کے رشتہ داروں پر مشتمل ہو۔ جیسے بیٹے، بیٹیاں، باپ دادا، چچے، تائے، پھوپھیاں وغیرہ (ف ل 206)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 214)
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو۔

6: اسباط

سبط بمعنی اولاد کی اولاد مثلاً پوتے اور نواسے وغیرہ (مف) مگر یہ لفظ تر نواسے (لڑکیوں کی اولاد) کے لیے مخصوص ہے۔ جس طرح حفید پوتے کے لیے (منجد) اور اگر اس لفظ کی نسبت یہود کی طرف ہو تو اس سے قبیلہ مراد ہو گا (منجد) اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک بنو اسماعیل میں جو حیثیت قبیلہ کی ہے وہی حیثیت بنو اسحاق میں سبط کی ہے (ف ل 25) قرآن میں اسباط کا لفظ بنو اسحاق کے قبائل کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَطَّعۡنٰہُمُ اثۡنَتَیۡ عَشۡرَۃَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا ؕ (سورۃ الاعراف آیت 160)
اور ہم نے انکو یعنی بنی اسرائیل کو الگ الگ کر کے بارہ قبیلے اور بڑی بڑی جماعتیں بنا دیا

ماحصل:

  • شعوب: بمعنی ذاتیں۔
  • قبیلۃ: بمعنی برداری۔
  • فصیلۃ: بمعنی خاندان یا کنبہ۔
  • رھط: کسی قبیلہ کے نوجوانوں کی 9 تک کی جماعت اور ان کا سردار۔
  • عیشرۃ: مرد کی طرف کے قریبی رشتہ داروں پر مشتمل چھوٹا قبیلہ۔
  • اسباط: نواسے نواسیاں وغیرہ یا یہود کے قبائل۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قتل کرنا​

کے لیے قتل، سفک، حسّ اور اثخن کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: قتل

کا لفظ عام ہے۔ بمعنی مار دینا، روح کو تن سے جدا کر دینا، خواہ یہ گردن اڑانے سے ہو یا کسی دوسری صورت میں۔ ارشاد باری ہے:
وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 89)
وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو کر سب برابر ہو جاؤ تو جب تک وہ اللہ کی راہ میں وطن نہ چھوڑ جائیں ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا۔ اگر ترک وطن کو قبول نہ کریں تو انکو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو۔ اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بناؤ۔

2: سفک

بمعنی خون یا پانی بہانا اور سفوک بمعنی جھوٹا آدمی۔ اور سفّاک بمعنی خونریز انسان (مف، م ا) یہ لفظ عموماً کسی کو ناجائز طور پر قتل کرنا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 30)
اور وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانیوالا ہوں انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اللہ نے فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

3: حسّ

بمعنی کسی چیز کو جڑ سے اکھیڑ دینا (منجد) اور حسّ بمعنی شدۃ القتل (ف ل 47) گویا حسّ کے معنی میں اس طرح چن چن کے مارنا ہے کہ دشمن کی جڑ کر جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ (سورۃ آل عمران آیت 152)
اور اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کردیا یعنی اس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے۔

4: اثخن

ثخن بمعنی کسی چیز کو اٹھا کر اس کے وزن کا اندازہ کرنا (م ل) اور ثخن بمعنی موٹا اور سخت ہونا اور اثخن فی الارض بمعنی خونریزی میں حد سے آگے بڑھنا (منجد) گویا اثخن میں قتل کے دوران سختی کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور قتل عام کا بھی، بے دریغ قتل کرنا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ (سورۃ محمد آیت 4)
پس جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو انکی گردنیں اڑا دو۔ یہاں تک کہ جب انکو خوب قتل کر چکو تو جو زندہ پکڑے جائیں انکو مضبوطی سے قید کر لو۔

ماحصل:

  • قتل: کا لفظ عام ہے۔
  • سفک: ناجائز قتل کے لیے آتا ہے۔
  • حسّ: بمعنی چن چن کے مار کر دشمن کی جڑ کاٹ دینا۔
  • اثخن: بے دریغ قتل کرنا اور جتنا ممکن ہو قتل کرتے جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قدم​

کے لیے قدم، خطوۃ اور اثر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قدم

(جمع اقدام) بمعنی پاؤں، پیر، مشہور انسانی عضو (جمع اقدام) قدم اور رجل میں وہی فرق ہے جو بصر اور عین میں ہے یعنی قدم کا اطلاق پاؤں پر بھی ہوتا ہے اور پاؤں آگے رکھنے پر بھی۔ اس لحاظ سے قدم کا اطلاق صرف پیر پر نہیں گھٹنا کے نیچے کے تمام حصہ پر ہو گا (نیز دیکھیے پاؤں)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النحل آیت 94)
اور اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ نہ بناؤ کہ لوگوں کے قدم جم چکنے کے بعد لڑکھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا۔ تم کو سزا چکھنی پڑے۔ اور تمہیں بڑا سخت عذاب ملے۔

2: خطوۃ

(جمع خطوات) بمعنی دو قدموں کا درمیان فاصلہ اور بمعنی کسی چیز کو تجاوز کر کے آگے بڑھ جنا (م ل) اور خطوات لازمہ بمعنی ضروری اقدامات (منجد) گویا خطوات کے معنی اقدامات STEPS پیش رفت اور اس سے مراد پورا راستہ بھی ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ البقرۃ آیت 168)
لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیّب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

3: اثر

(جمع آثار) بمعنی بقیہ علامت، نقش پا (م ل) اور آثار بمعنی پاؤں کے نشانات، چھوڑے ہوئے نشانات، نقوش راہ۔ نیز دیکھیے "نشان"۔ اور آثار قدیمہ بمعنی پرانے وقتوں کے نقوش اور نشانیاں۔ قرآن میں ہے:
قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا (سورۃ الکہف آیت 64)
موسٰی نے کہا یہی تو وہ مقام ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔

ماحصل:

  • قدم: بمعنی پاؤں، مشہور عضو۔ اور آگے چلنا بھی۔
  • خطوۃ: دو قدموں کا درمیانی فاصلہ۔ اور خطوات بمعنی اقدامات STEPS۔
  • اثر: پاؤں کا نشان، نشان راہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قرار پکڑنا​

کے لیے قرّ اور استوی علی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قرّ

بمعنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانا۔ اور قرّ کے معنی ٹھنڈا ہونا بھی ہے۔ اور ان دونوں کا آپس میں تعلق یہ ہے کہ سردی یا ٹھنڈک بھی سکون چاہتی ہے جیسا کہ اس کے برعکس حرارت حرکت چاہتی ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 33)
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح پہلے جاہلیت کے دنوں میں زیب و زینت کی نمائش کیجاتی تھی اس طرح اظہار زینت نہ کرو اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے پیغمبر کی گھر والیو اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے۔

2: استوی علی

کے معنی کسی چیز پر سوار ہونا پھر اس کے بعد جم کر بیٹھ جانا ہے (دیکھیے "سوار ہونا") اور قرّ اور استوی علی کا بنیادی فرق یہ ہے کہ استوی علی ایک حالت سے دوسری حالت میں قرار پکڑنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ وَ غِیۡضَ الۡمَآءُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ وَ اسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ وَ قِیۡلَ بُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 44)
اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی خشک ہو گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بےانصاف لوگوں پر لعنت۔
نیز فرمایا:
فَاِذَا اسۡتَوَیۡتَ اَنۡتَ وَ مَنۡ مَّعَکَ عَلَی الۡفُلۡکِ فَقُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ نَجّٰنَا مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 28)
پس جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جاؤ تو اللہ کا شکر کرنا اور کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمکو ظالم لوگوں سے نجات بخشی۔
اسی طرح تیسر مقام پر ہے:
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ (سورۃ الاعراف آیت 54)
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا

ماحصل:

قرّ: سابقہ صورت پر قرار پکڑنے کے لیے اور استوی علی پہلی صورت سے دوسری صورت میں جا کر قرار پکڑنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قرآن کے مختلف نام​

کے لیے قرآن، فرقان، ذکر اور تذکرۃ، کتاب مبین اور حدیث کے الفاظ آئے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں۔

1: قران

قرء بمعنی پڑھنا سے اسم مبالغہ یعنی بار بار، کثرت سے اور ہمیشہ پڑھی جانے والی کتاب۔ ارشاد باری ہے:
قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ (سورۃ ق آیت 1)
ق۔ قرآن مجید کی قسم کہ تم پیغمبر ہو۔

2: فرقان

فرق بمعنی الگ کرنا، علیحدہ کرنا سے اسم مبالغہ ہے۔ یعنی ایسی کتاب جو حق و باطل کے ایک ایک پہلو میں تفریق و تمیز کر دے۔ ارشاد باری ہے:
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا (سورۃ الفرقان آیت 1)
وہ ذات بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو خبردار کرے۔

3: ذکر اور تذکرۃ

ذکر کی ضد نسی ہے۔ ذکر بمعنی یاد کرنا اور یاد آنا جو بھولنا کے خلاف ہے۔ اور قرآن کو ذکر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ انسان کے بھلائی کے فطری داعیہ کو بھی یاد دلاتی ہے اور عہد الست کو بھی۔ لہذا یہ نصیحت بھی ہے اور تذکرۃ بھی اسی لحاظ سے نصیحت بھی اور یاد داشت بھی۔ اور کسی سواری مثلاً ریل، ہوائی جہاز وغیرہ کے ٹکٹ کو تذکرۃ کہتے ہیں اور سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ کو بھی (ق ج)۔ ارشاد باری ہے:
ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡ ذِکۡرِیۡ ۚ بَلۡ لَّمَّا یَذُوۡقُوۡا عَذَابِ (سورۃ ص آیت 8)
کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت کی کتاب اتری ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ میری نصیحت کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔
نیز فرمایا:
اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا (سورۃ مزمل آیت 19)
یہ قرآن تو نصیحت ہے۔ سو جو چاہے اپنے پروردگار تک پہنچنے کا راستہ اختیار کر لے۔

4: کتاب مبین

بان بمعنی دور ہونا اور الگ ہونا۔ بین میں تین باتیں پائی جاتی ہیں (1) افتراق (2) بعد اور (3) وضوح (م ل) اور بیّن بمعنی کسی بات کو کھول کر بیان کرنا۔ اور کتاب مبین یعنی ایسی کتاب جس میں ہدایت سے متعلق ہر ایک چیز کو پوری وضاحت اور تشریح سے بیان کیا گیا ہے۔ واضح اور روشن کتاب یعنی قرآن کریم۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ المائدۃ آیت 15)
اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آخرالزماں آ گئے ہیں کہ جو کچھ تم کتاب الہٰی میں سے چھپاتے تھے وہ اس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں۔ اور تمہارے بہت سے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

5: حدیث

(حدیث کی ضد عدم ہے) اور حدث بمعنی کسی نئی چیز کا ظہور میں آنا۔ اور حدیث سے مراد ہر وہ بات ہے جو پہلے نہ ہو اور از سر نو ظہور میں آئے، نئی چیز۔ جیسے فرمایا:
لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا (سورۃ الطلاق آیت 1)
اے طلاق دینے والے تجھے کیا معلوم شاید اللہ اسکے بعد رجعت کی کوئی سبیل پیدا کر دے۔
پھر حدیث کا اطلاق ہر اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو پہلے موجود تو ہو لیکن مرور زمانہ سے لوگوں کے ذہن سے اتر چکی ہو۔ اب اگر یہ از سر نو زندہ ہو گی تو اس پر بھی حدیث کا اطلاق ہو گا۔ نئی بات، قرآن کو انہی معنوں میں حدیث کہا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ (سورۃ الزمر آیت 23)
اللہ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں یعنی کتاب جسکی آیتیں باہم ملتی جلتی ہیں اور دہرائی جاتی ہیں
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قربانی کا جانور​

کے لیے بدن، نسک، ھدی، قلائد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: بدن

(بدنہ کی جمع) بدن ہر جاندار کے جسم کو کہتے ہیں بشرطیکہ اس کا خون خشک نہ ہوا ہو (فل 115) اور بدن اور بدّن بمعنی موٹا ہونا ہے۔ اور بدن بمعنی قربانی کے اونٹ جنہیں مکہ میں لے جا کر ذبح کیا جائے (مف) اور قربانی کے اونٹوں کو بھی بدن ان کے جسیم اور موٹا ہونے کی مناسبت سے کہا جاتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الحج آیت 36)
اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں تو قربانی کرنے کے وقت قطار باندھ کر ان پر اللہ کا نام لو۔ پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اس طرح ہم نے انکو تمہارے زیر فرمان کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

2: نسک

نسک کا لفظ عبادت اور تقرب الی اللہ پر دلالت کرتا ہے۔ ناسک بمعنی زاہد اور نسیکہ اس قربانی کے جانور کو کہتے ہیں جو تقرب الی اللہ کے لیے کی جاوے (م ل) اور نسک نسیکہ کی جمع ہے۔ پھر یہ لفظ بالعموم حج سے متعلق ہو گیا ہے۔ مناسک حج بمعنی حج کے ارکان و احکام۔ اور وہ مقامات بھی جہاں یہ احکام بجا لائے جاتے ہیں۔ اسی طرح نسک سے مراد وہ قربانی کے جانور ہیں جو ایام تشریق میں منی کے مقام پر ذبح کیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ (سورۃ البقرۃ آیت 196)
اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو۔ تو اگر وہ سر منڈوا لے تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔

3: ھدی

(ھدیۃ کی جمع) قربانی کا وہ جانور جو ذبح کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف بھیجا جائے خواہ اونٹ ہو یا گائے یا بھیڑ بکری اور خواہ وہ نر ہو یا مادہ (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 196)
اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔

4: قلائد

(واحد قلادۃ) قلّد بمعنی کسی کے گلے میں ہار ڈالنا۔ اور قلادۃ بمعنی ہار (منجد) پھر قلادۃ ایسے قربانی کے جانور کو بھی کہتے ہیں جس کے گلے میں نشانی کے طور پر ہار یا پٹا ڈال دیا گیا ہو۔ خواہ یہ حج سے متعلق ہو یا نذر پوری کرنے سے ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ لَا الۡہَدۡیَ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ (سورۃ المائدۃ آیت 2)
مومنو! اللہ کے نام کی چیزوں کی بیحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی جو اللہ کی نذر کر دیئے گئے ہوں کہ جن کے گلوں میں پٹے پڑے ہوں۔

ماحصل:

  • بدن: قربانی کے اونٹ جو حج کے دوران ذبح کیے جائیں۔
  • ھدی: وہ قربانی کے جانور جو ذبح کے لیے حاجی ساتھ لے جائیں۔
  • قلائد: ایسے قربانی کے جانور جن کے گلے میں پٹا ڈالا گیا ہو۔
قرض کے لیے دیکھیے "ادھار"۔
قریب ہونا – کرنا کے لیے دیکھیے "نزدیک ہونا – کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قسم – قسم اٹھانا​

کے لیے و، ت اور ل کے حروف بھی اہل عرب استعمال کرتے ہیں۔ یہ حروف یا تو بطور عادت اور تکیہ کلام استعمال کیے جاتے ہیں یا بعض دفعہ کلام میں تاکید اور مزید زور پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور اگر ان حروف کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس سے مراد اس چیز کو بطور شہادت پیش کرنا ہوتا ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہو۔ اب مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد باری ہے:

1: و

وَالۡعَصۡرِۙ‏ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍۙ‏ (سورۃ العصر آیت 1،2)
زمانہ کی قَسم۔ بیشک انسان خسارے میں ہے۔

2: ت

کا لفظ صرف اللہ تعالی کے ساتھ قسم کھانے کے لیے مخصوص ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِيۡدَنَّ اَصۡنَامَكُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِيۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 57)
اور اﷲ کی قسم! میں تمہارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک تدبیر عمل میں لاؤں گا اس کے بعد کہ جب تم پیٹھ پھیر کر پلٹ جاؤ گے۔

3: ل

قسمیہ قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔
ان حروف کے علاوہ مندرجہ ذیل افعال و اسماء قسم اٹھانے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
قسم، یمین، حلف، الیّۃ (الو) اور ایلاء کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قسم

قسم بمعنی تقسیم کرنا یا بانٹنا ہے اور قسم اٹھانا بھی۔ اور قسم بمعنی دل میں ظن پیدا ہونا جو بعد میں یقین تک پہنچ جائے (منجد) اور قسامت وہ قسمیں ہیں جو خون کے بدلے میں اولیا کو مشکوک قبیلہ کے لوگ دیتے ہیں (منجد) گویا قسم کا لفظ کسی معاملہ میں شک کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال جھگڑے کی صورت میں ہوتا ہے (فق ل 42)۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِيۡمٌۙ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 76)
اور اگر تم سمجھو تو بیشک یہ بہت بڑی قَسم ہے
دوسرے مقام پر ہے:
وَقَاسَمَهُمَاۤ اِنِّىۡ لَـكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 21)
اور ان دونوں سے قَسم کھا کر کہا کہ بیشک میں تمہارے خیرخواہوں میں سے ہوں۔

2: یمین

رفع الزام کے لیے آتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
البیّنۃ علی المدعی والیمین علی المدّعی علیہ (بخاری)
یعنی بار ثبوت (شہادات فراہم کرنا) تو مدعی کے ذمہ ہے (اور اگر وہ یہ نہ کر سکے تو پھر) مدعا علیہ پر قسم ہے۔
اور یمین داہنا ہاتھ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ جب کسی وعدہ کی توثیق قسم سے کرنا مطلوب ہوتی تو قسم اٹھانے والا شخص اپنا داہنا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ پھر مارتا۔ لہذا یمین کا لفظ قسم کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور اس کی جمع ایمان آتی ہے (مف) یمین کا لفظ قسم کے لیے مستعار ہے (فق ل 43)۔
پھر بعض دفعہ اہل عرب محض کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اور قسم اٹھا لیتے مگر ان کا حقیقت سے کچھ تعلق نہ ہوتا تھا۔ ایسی قسموں کو اللہ تعالی نے لغو قرار دیا ہے اور قابل معافی بھی۔ اور جو قسم فی الواقعہ حقیقت پر مبنی ہو اسے یمین منعقدۃ کہتے ہیں جو قابل گرفت ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡٓ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا كَسَبَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 225)
اﷲ تمہاری بے ہودہ قَسموں پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرمائے گا مگر ان کا ضرور مؤاخذہ فرمائے گا جن کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہو، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت حلم والا ہے۔

3: حلف

حلف بمعنی کسی بات پر ثابت قدم رہنا (م ل) حلف وفاداری، دوسی کے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہنے کی قسم۔ اور حلیف قبائل وہ تھے جو صلح و جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی قسمیں اٹھاتے تھے۔ گویا حلف سابقہ مخاصمت کو ختم کرنے اور وفا داری کے تعلقات قائم کرنے کے معنوں میں ہے (فق ل 42) قرآن میں ہے:
وَسَيَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَـرَجۡنَا مَعَكُمۡۚ (سورۃ التوبہ آیت 42)
اور (اب) وہ عنقریب اللہ کی قَسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں استطاعت ہوتی تو ضرور تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے۔

4 :الیّۃ

الا (یالوا الوا) میں بنیادی طور پر دو معنی پائے جاتے ہیں (1) کسی کام میں کوتاہی کرنا اور دیر لگانا جیسے فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا (سورۃ آل عمران آیت 118)
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے۔
اور (2) قسم کھانا۔ اور الیّۃ بمعنی قسم۔ ایسی قسم جس پر قسم کھانے والے کو تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے (مف) اور ابن الفارس کے نزدیک کوئی اچھا کام پورا نہ کرنے کی قسم (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِىۡ الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (سورۃ النور آیت 22)
اور تم میں سے (دینی) بزرگی والے اور (دنیوی) کشائش والے (اب) اس بات کی قَسم نہ کھائیں کہ وہ (اس بہتان کے جرم میں شریک) رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مالی امداد نہ) دیں گے۔

5: ایلا

الی یؤلوا ایلاء بمعنی اپنی بیوی سے علیحدہ رہنے اور جنسی تعلقات منقطع کرنے کی قسم اٹھانا (مف) دور جاہلیت میں لوک اس قسم کے ذریعہ اپنی بیویوں کو بہت پریشان اور تنگ کرتے تھے۔ شریعت نے اس کی مدت زیادہ سے زیادہ چار مقرر کر کے اس قباحت کا سد باب کر دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
لِّـلَّذِيۡنَ يُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآٮِٕهِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَةِ اَشۡهُرٍ‌‌ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 226)
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

ماحصل:

  • قسم: رفع شک کے لیے۔
  • یمین: رفع الزام کے لیے اور عہد و پیمان کی توثیق کے لیے۔
  • حلف: دوستی کے عہد و پیمان کی توثیق کے لیے۔
  • الیّۃ: کسی اچھے کام کو پورا نہ کرنے کی قسم۔
  • ایلا: بیوی سے ترک تعلقات کی قسم۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قسم توڑنا​

کے لیے نکث، نقض اور حنث کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نکث

قسم توڑنے کے لیے عام اور معروف لفظ ہے۔ معاہدہ، بیع یا عہد و پیمان وغیرہ کی قسم توڑ دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ (سورۃ التوبہ آیت 13)
کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قَسمیں توڑ ڈالیں۔

2: نقض

نقض کے معنی تخریب کے ہیں۔ نقض البناء بمعنی عمارت ڈھانا۔ نقض الحبل بمعنی رسی کے بل کھولنا۔ نقض العہد والامر بمعنی پختگی کے بعد عہد کو حیلوں بہانوں سے خراب کرنا ہے۔ اور نقض امن یعنی بد امنی پھیلانا، امن کو خراب کرنا (منجد)۔ گویا نقض کا لفظ نکث سے بہت زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے (نیز دیکھیے "توڑنا")۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَوۡفُوۡا بِعَهۡدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدتُّمۡ وَلَا تَنۡقُضُوۡا الۡاَيۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡكِيۡدِهَا (سورۃ النحل آیت 91)
اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو۔

3: حنث

حنث بمعنی غلط اور جھوٹی قسم اور بمعنی گناہ، نافرمانی (مف) اور حنث فی الیمین بمعنی قسم کی خلاف ورزی کرنا (م ل) یعنی جس کام کے کرنے کی قسم اٹھائی ہو وہ نہ کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَخُذۡ بِيَدِكَ ضِغۡثًا فَاضۡرِب بِّهٖ وَلَا تَحۡنَثۡ‌ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰهُ صَابِرًا‌ؕ نِّعۡمَ الۡعَبۡدُ‌ؕ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ (سورۃ ص آیت 44)
(اے ایوب!) تم اپنے ہاتھ میں تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور (اپنی قسم پوری کرنے کے لئے) اس سے (ایک بار اپنی زوجہ کو) مارو اور قسم نہ توڑو، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا، (ایّوب علیہ السلام) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا۔

ماحصل:

  • نکث: قسم توڑنے کا عام لفظ۔
  • نقض: حیلوں بہانوں سے قسم کو غیر مؤثر اور خراب کرنا۔
  • حنث: قسم کو جھٹلانا۔ جس کام کو کرنے کی قسم اٹھائی ہو وہ نہ کرنا۔
قصد کرنا کے لیے دیکھیے "ارادہ کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قلعہ​

کے لیے حصون، صیاصی، بروج اور محاریب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حصون

(واحد حصن) حصن ہر ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں حفاظت ہو سکے، وہ محیط بھی ہو اور پناہ کا کام دے سکے (م ل) قلعے جہاں مورچے بھی ہوں تاکہ وہاں پناہ لے کر اپنی حفاظت بھی کی جا سکے اور دشمن کا مقابلہ بھی۔ قرآن میں ہے:
وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ مَّانِعَتُهُمۡ حُصُوۡنُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ (سورۃ الحشر آیت 2)
اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے۔

2: صیاصی

(صیصیۃ کی جمع) ہر وہ چیز جس سے اپنے آپ کو محفوظ کیا جا سکے۔ گائے کو سینگ کو بھی اس لیے صیصیۃ کہتے ہیں کہ وہ اس سے اپنی حفاظت کرتی ہے (مف) بمعنی حفاظت گاہیں یا قلعے، قلعہ نما کوئی بھی چیز، یہود کے جنگی قلعے۔ اطام۔ ارشاد باری ہے:
وَاَنۡزَلَ الَّذِيۡنَ ظَاهَرُوۡهُمۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مِنۡ صَيَاصِيۡهِمۡ وَقَذَفَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الرُّعۡبَ فَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَتَاۡسِرُوۡنَ فَرِيۡقًاۚ‏ (سورۃ الاحزاب آیت 26)
اور جن اہلِ کتاب نے ان کافروں کی مدد کی تھی اﷲ نے انہیں بھی ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، تم (ان میں سے) ایک گروہ کو قتل کرتے ہو اور ایک گروہ کو جنگی قیدی بناتے ہو۔

3: بروج

(برج کی جمع) برج بمعنی ظاہر ہونا، بلند ہونا۔ اور برّج بمعنی برج بنانا۔ اور برج بمعنی گنبد نما کوئی سی بلند عمارت، قلعہ، گنبد، محل وغیرہ (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يُدۡرِككُّمُ الۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُرُوۡجٍ مُّشَيَّدَةٍ‌ؕ (سورۃ النساء آیت 78)
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں وہیں آ پکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو۔

4: محاریب

(واحد محراب) محراب بمعنی گھر کا شروع کا حصہ، صدر مجلس، لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ اور محراب بمعنی جنگجو، لڑاکا اور بہادر (منجد) اور ہر وہ جگہ جہاں پلان یا سامان تیار ہو یا لڑائی کی جا سکے۔ لہذا قلعہ کے معنوں میں بھی آتا ہے (م ق)۔ قرآن میں ہے:
يَعۡمَلُوۡنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِيۡبَ وَتَمَاثِيۡلَ وَجِفَانٍ كَالۡجَـوَابِ وَقُدُوۡرٍ رّٰسِيٰتٍؕ (سورۃ سباء آیت 13)
وہ (جنّات) ان کے لئے جو وہ چاہتے تھے بنا دیتے تھے۔ اُن میں بلند و بالا قلعے اور مجسّمے اور بڑے بڑے لگن تھے جو تالاب اور لنگر انداز دیگوں کی مانند تھے۔

ماحصل:

  • حصن: ایسا قلعہ جو محیط ہو اور اس میں حفاظت اور پناہ کا انتظام ہو۔
  • صیصیۃ: ہر ایسی جگہ جہاں اپنا بچاؤ کیا جا سکے، قلعہ نما کوئی بھی چیز، یہودیوں کے قلعے۔
  • بروج: کوئی بلند، مضبوط اور گنبد نما عمارت۔
  • محراب: ایسی جگہ جہاں لڑائی سے متعلقہ امور طے پائیں اور وہ محفوظ ہو۔
قوت کے لیے دیکھیے "طاقت"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قمیص​

کے لیے قمیص اور سرابیل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قمیص

پوشاک کا ایک معروف جزو، کرتا۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ كَانَ قَمِيۡصُهٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَكَذَبَتۡ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 27)
اور اگر اس کا قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچوں میں سے ہے۔

2: سرابیل

(واحد سربال) قمیص اور پاجامہ دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اور صاحب منجد کے نزدیک قمیص یا ہر پہنے جانے والا لباس (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَّجَعَلَ لَـكُمۡ سَرَابِيۡلَ تَقِيۡكُمُ الۡحَـرَّ وَسَرَابِيۡلَ تَقِيۡكُمۡ بَاۡسَكُمۡ (سورۃ النحل آیت 81)
اور اس نے تمہارے لئے کچھ ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور کچھ ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں بچاتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قوت دینا​

کے لیے ایّد، ازر اور عزّز کے الفاظ قران کریم میں آئے ہیں۔

1: ایّد

الاید بمعنی سخت قوت (مف) اور ایّد بمعنی کسی کی بھرپور امداد کرنا اور اسے قوت بہم پہنچانا، تائید کرنا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا (سورۃ التوبہ آیت 40)
پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں فرشتوں کے ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے۔

2: ازر

الازر بمعنی جڑ، تہبند۔ اور الازار چادر، تہبند، پردہ، پشتہ دیوار۔ اور ازر البنات بمعنی نباتات کا گتھ جانا۔ اور ازّر بمعنی کسی کو مضبوط کرنا، قوت پہنچانا (منجد) گویا ازر کا لفظ کسی چیز میں فی نفسہ قوت پہنچانے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطَاهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ (سورۃ الفتح آیت 29)
وہ کھیتی کی طرح ہیں جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی تاکہ اِن کے ذریعے وہ کافروں کے دل جلائے۔

3: عزّز

عزّ کی ضد ذلّ ہے۔ اور عزّ بمعنی بالا دست ہونا۔ اور اعزّ بمعنی کسی کو عزت بخشنا۔ اور عزّز بمعنی کسی زیر دست کو اس قدر قوت دینا یا مدد بہم پہنچانا کہ وہ معاشرہ میں معزز بن جائے اور اسے عزت حاصل ہو۔ اور عزت ایسی حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو زیر دست یا مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 14)
جبکہ ہم نے اُن کی طرف (پہلے) دو (پیغمبر) بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے (ان کو) تیسرے (پیغمبر) کے ذریعے قوت دی، پھر اُن تینوں نے کہا: بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

ماحصل:

  • ایّد: کسی کو بھرپور قوت پہنچا کر اس کی مدد کرنا۔
  • ازر: فی نفسہ کسی چیز کو قوت دے کر مضبوط بنا دینا۔
  • عزّز: کسی زیر دست کو اتنی قوت دینا کے وہ زیر دست نہ رہے۔
نیز دیکھیے "مدد دینا" اور "مضبوط کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قیامت اور اس کے نام​

کے لیے قیامۃ (قوم)، السّاعۃ (سوع)، یوم الدین، یوم الخروج، یوم الحساب، یوم الفصل کے علاوہ کچھ صفاتی نام مثلاً غاشیۃ، الواقعۃ، الحاقۃ، صاخّۃ، ازفۃ، قارعۃ، طامۃ الکبری بھی قرآن میں آئے ہیں۔

1: قیامۃ

بمعنی ہر طور قائم ہونے والی۔ ایسا دن یا دور جو حق و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے قائم ہو گا۔ اس دور کے مختلف حالات و امتیازات کی بنا پر ہی قیامت کے مختلف نام قرآن کریم میں مذکور ہوئے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآٮِٕقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ (سورۃ آل عمران آیت 185)
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے۔

2: السّاعۃ

ساعۃ بمعنی گھڑی۔ اور الساعۃ مخصوص گھڑی۔ قرآن کریم میں الساعۃ سے مراد بالعموم وہ گھڑی ہے جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰٓى اِذَا جَآءَتۡهُمُ السَّاعَةُ بَغۡتَةً قَالُوۡا يٰحَسۡرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطۡنَا فِيۡهَاۙ (سورۃ الانعام آیت 31)
یہاں تک کہ جب ان کے پاس اچانک قیامت آپہنچے گی (تو) کہیں گے: ہائے افسوس! ہم پر جو ہم نے اس (قیامت پر ایمان لانے) کے بارے میں (تقصیر) کی۔

3: یوم الدین

وہ دن یا دور جس میں ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی، روز مکانات، اعمال کا بدلہ ملنے کا دن، قیامت۔ قرآن میں ہے:
مٰلِكِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ‏ (سورۃ الفاتحہ آیت 4)
روزِ جزا کا مالک ہے۔

4: یوم الخروج

قبروں سے باہر نکل آنے کا دن، دوسرے نفخہ صورت کے ساتھ ہی مردے قبوں سے زندہ ہو کر باہر نکل کھڑے ہوں گے۔ ارشاد باری ہے:
يَوۡمَ يَسۡمَعُوۡنَ الصَّيۡحَةَ بِالۡحَـقِّ‌ؕ ذٰلِكَ يَوۡمُ الۡخُـرُوۡجِ‏ (سورۃ ق آیت 42)
جس دن لوگ سخت چنگھاڑ کی آواز کو بالیقین سنیں گے، یہی قبروں سے نکلنے کا دن ہوگا۔

5: یوم الحساب

لوگوں کے اعمال کے حساب کتاب کا دن، محاسبہ کا دن، اور یہ حساب لینے کا کام خود اللہ تعالی کے ذمہ ہو گا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اِلَيۡنَاۤ اِيَابَهُمۡۙ‏ ثُمَّ اِنَّ عَلَيۡنَا حِسَابَهُمْ (سورۃ الغاشیہ آیت 25، 26)
بیشک بالآخر ہماری ہی طرف ان کا پلٹنا ہے۔ پھر یقیناً ہمارے ہی ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَقَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡحِسَابِ‏ (سورۃ ص آیت 16)
اور وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! روزِ حساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلد دے دے۔

6: یوم الفصل

جدا ہونے کا دن، مومنوں اور کافروں کے الگ الگ ہونے کا دن۔ اور یہ کام حساب کے بعد ہو گا۔ اہل جنت اور اہل دوزخ الگ الگ ہو جائیں گے۔ ارشاد باری ہے:
هٰذَا يَوۡمُ الۡفَصۡلِ‌ۚ جَمَعۡنٰكُمۡ وَالۡاَوَّلِيۡنَ‏ (سورۃ المرسلات آیت 38)
یہ فیصلے کا دن ہے (جس میں) ہم تمہیں اور (سب) پہلے لوگوں کو جمع کریں گے۔

7: غاشیۃ

غشی بمعنی ایک چیز پر دوسری چیز کا چھا کر اسے ڈھانپ لینا۔ اور غشی ایسی حالت کو کہتے ہیں جبکہ انسان کے ہوش و حواس زائل ہو جائیں۔ غاشیۃ بمعنی وہ چیز جس کی ہیبت ہر ایک پر چھا جائے، ہوش و حواس گم کر دینے والی۔ ارشاد باری ہے:
هَلۡ اَتٰٮكَ حَدِيۡثُ الۡغَاشِيَةِؕ‏ (سورۃ الغاشیہ آیت 1)
کیا آپ کو (ہر چیز پر) چھا جانے والی قیامت کی خبر پہنچی ہے؟

8: الواقعۃ

بمعنی ہو کر رہنے والی، وقوع پذیر ہونے والی۔ ارشاد باری ہے:
اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَةُۙ‏ لَيۡسَ لِـوَقۡعَتِهَا كَاذِبَةٌ‌ۘ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 1، 2)
جب واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔ اُس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔

9: الحاقّۃ

حقّ بمعنی واجب اور ثابت ہونا (منجد) اور حاقّۃ جس چیز کا قیام حق کا تقاضا ہے، پائیدار حقیقت۔ قرآن میں ہے:
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الۡحَــآقَّةُؕ‏ (سورۃ الحاقہ آیت 3)
اور تمہیں کیا معلوم وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے؟

10: صآخّۃ

صخّ ایسی آواز کو کہتے ہیں جو کانوں کو بہرا کر دے (م ل) ایسی سخت اور کرخت آواز جس سے کان پھٹ پڑیں۔ یہ کیفیت پہلے نفخہ صور کے وقت ہو گی۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ (سورۃ عبس آیت 33)
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی۔‏

11: ازفۃ

ازف میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے (مف) جیسے ہم کہتے ہیں کہ ٹرین روانہ ہونے کا وقت تنگ ہو گیا ہے۔ اور ازفۃ بمعنی عنقریب نزدیک پہنچ جانے والی۔ ارشاد باری ہے:
وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡاٰزِفَةِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَى الۡحَـنَاجِرِ كٰظِمِيۡنَؕ مَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ حَمِيۡمٍ وَّلَا شَفِيۡعٍ يُّطَاعُ (سورۃ مؤمن آیت 18)
اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‏

12: قارعۃ

قرع بمعنی ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنا کہ آواز پیدا ہو۔ اور قرع الباب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اور قارعۃ بمعنی کھڑکھڑانے والی۔ اور ابن الفارس کے نزدیک ہر وہ چیز جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو وہ قارعۃ ہے (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الۡقَارِعَةُؕ‏ (سورۃ القارعہ آیت 3)
اور آپ کیا جانیں کھڑ کھڑانے والی کیا ہے؟

13: طآمّۃ الکبری

الطّمّ بمعنی پانی سے بھرا ہوا سمندر۔ اور طمّ بمعنی کسی چیز کا بھر جانا۔ طمّ البئر اس سے کنویں کو مٹی سے بھر دیا۔ طامّۃ بمعنی ایسی آفت جو دوسری تمام مصیبتوں پر حاوی ہو جائے۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الۡكُبۡرٰى (سورۃ النازعات آیت 34)
پھر جب بڑی آفت آئے گی۔
قیام کرنا کے لیے دیکھیے "آباد ہونا" اور "ٹھہرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قید خانہ​

کے لیے سجن اور حصیر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سجن

بمعنی قید خانہ، جیل، معروف لفظ ہے۔ ایسی جگہ جہاں عدالت سے سزا یافتہ لوگ رکھے جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
فَلَبِثَ فِىۡ السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِيۡنَ (سورۃ یوسف آیت 42)
پھر یوسف علیہ السلام کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے۔

2: حصیر

حصر بمعنی کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیر لینا، گھیراؤ کرنا، محاصرہ کرنا۔ اور حصیر بمعنی کسی کو نظر بند کرنے کی جگہ۔ قرآن میں ہے:
عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يَّرۡحَمَكُمۡ‌ۚ وَاِنۡ عُدتُّمۡ عُدۡنَا‌ۘ وَجَعَلۡنَا جَهَنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ حَصِيۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 8)
امید ہے تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر وہی کیا تو ہم بھی وہی (عذاب دوبارہ) کریں گے، اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا دیا ہے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

قید کرنا – قیدی بنانا​

کے لیے حبس، اثبت، اسر اور سجن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حبس

بمعنی کسی کو اٹھنے سے روک دینا (مف) اور حبس الشئ بمعنی کسی چیز کو پوری طرح سے حفاظت کرنا۔ اور محبسۃ بمعنی قید خانہ، نیز عابدوں اور زاہدوں کا گوشۂ عزلت۔ اور حابس بمعنی کسی کو روکے رکھنا، حراست میں رکھنا (منجد) نیز حبس بمعنی منع عن التصرف (فق ل 93) یعنی کسی کو اس کی ملکیت میں تصرف کرنے سے روک دینا۔ اور محبس بمعنی حوالات جہاں پر تھانہ میں ملزم دوران تفتیش قید رکھے جاتے ہیں (ق ج)۔ ارشاد باری ہے:
تَحۡبِسُوۡنَهُمَا مِنۡۢ بَعۡدِ الصَّلٰوةِ (سورۃ المائدۃ آیت 106)
تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو۔

2: اثبت

بمعنی کسی کو تسموں سے باندھنا (منجد) یعنی کسی کو جکڑ بند کر کے نقل و حرکت سے روک دینا اور اپنی تحویل میں رکھنا۔ قرآن میں ہے:
وَاِذۡ يَمۡكُرُ بِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِيُثۡبِتُوۡكَ اَوۡ يَقۡتُلُوۡكَ اَوۡ يُخۡرِجُوۡكَ‌ؕ وَيَمۡكُرُوۡنَ وَيَمۡكُرُ اللّٰهُ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمٰكِرِيۡنَ‏ (سورۃ الانفال آیت 30)
اور جب کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو نکال دیں، اور وہ سازشی منصوبے بنا رہے تھے اور اللہ تدبیر فرما رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔

3: اسر

کے معنی بھی کسی کو رسی سے باندھنا ہے (م ق) اسر اور اثبت میں فرق یہ ہے کہ اسر صرف دوران جنگ کسی کو قید کرنے کو کہتے ہیں۔ اسیر بمعنی جنگی قیدی (جمع اسری اور اساری) قرآن میں ہے:
وَاِنۡ يَّاۡتُوۡكُمۡ اُسٰرٰى تُفٰدُوۡهُمۡ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيۡڪُمۡ اِخۡرَاجُهُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 85)
اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پا س آجائیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو حالانکہ ان کا وطن سے نکالا جانا بھی تم پر حرام کر دیا گیا تھا۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَاَنۡزَلَ الَّذِيۡنَ ظَاهَرُوۡهُمۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مِنۡ صَيَاصِيۡهِمۡ وَقَذَفَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الرُّعۡبَ فَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَتَاۡسِرُوۡنَ فَرِيۡقًاۚ‏ (سورۃ الاحزاب آیت 26)
اور جن اہلِ کتاب نے ان کی مدد کی تھی اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، تم ایک گروہ کو قتل کرتے ہو اور ایک گروہ کو جنگی قیدی بناتے ہو۔

4: سجن

عدالت کا ثبوت جرم کے بعد بطور سزا کسی کو قید میں ڈالنا، جیل میں بھیج دینا، کسی جرم کی سزا کے طور پر حاکم کا کسی کو قید میں ڈالنا۔ قرآن میں ہے:
قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَهۡلِكَ سُوۡۤءًا اِلَّاۤ اَنۡ يُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 25)
وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے۔

ماحصل:

  • حبس: کسی کو اس کی ضرورت اور ملکیت میں تصرف سے روک دینا۔
  • اثبت: کسی کو جکڑ بند کر کے اپنی تحویل میں لینا، زیر حراست کر لینا۔
  • اسر: دوران جنگ کسی کو باندھ کر قیدی بنانا۔
  • سجن: عدالت کا بطور سزا کسی مجرم کو قید میں ڈالنا۔
 
Top