مترادفات القرآن (ک)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کاٹنا​

کے لیے حصد، صرم، قطع، قطّع، بتر، بتک، عضّ، جزّ، عقرّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: حصد

بمعنی خشک اور پکی ہوئی فصل کا کاٹنا (فل 211) اور حصید بمعنی کٹی ہوئی کھیتی۔ اور محصد بمعنی درانتی اور حصیدۃ اس نیچے والی چھوڑی ہوئی فصل کو کہتے ہیں جس تک درانتی نہ پہنچ سکے (پنجابی ‎سڈے) (م ق، منجد) گویا حصد کا لفظ عموماً درانتی سے فصل کاٹنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ تَزۡرَعُوۡنَ سَبۡعَ سِنِيۡنَ دَاَبًا‌ۚ فَمَا حَصَدتُّمۡ فَذَرُوۡهُ فِىۡ سُنۡۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِيۡلاً مِّمَّا تَاۡكُلُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 47)
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ دائمی عادت کے مطابق مسلسل سات برس تک کاشت کرو گے سو جو کھیتی تم کاٹا کرو گے اسے اس کے خوشوں (ہی) میں (ذخیرہ کے طور پر) رکھتے رہنا مگر تھوڑا سا (نکال لینا) جسے تم (ہر سال) کھا لو۔

2: صرم

کسی تیز دھار آلہ سے درختوں کے گچھے وغیرہ کاٹنا۔ صارم بمعنی تلوار اور صرم بمعنی تلوار سے کاٹنا۔ اور صروم بمعنی کاٹنے والی تلوار (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّا بَلَوۡنٰهُمۡ كَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ‌ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَيَصۡرِمُنَّهَا مُصۡبِحِيۡنَۙ‏ (سورۃ القلم آیت 17)
بے شک ہم ان کی آزمائش کریں گے جس طرح ہم نے ان باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ ہم صبح سویرے یقیناً اس کے پھل توڑ لیں گے

3: قطع

بمعنی کسی چیز کو کاٹ کر اس کا کچھ حصہ علیحدہ کر دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّيۡنَةٍ اَوۡ تَرَكۡتُمُوۡهَا قَآٮِٕمَةً عَلٰٓى اُصُوۡلِهَا فَبِاِذۡنِ اللّٰهِ وَلِيُخۡزِىَ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ (سورۃ الحشر آیت 5)
جو کھجور کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا تم نے انہیں اُن کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو (یہ سب) اللہ ہی کے حکم سے تھا اور اس لئے کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل و رسوا کرے

4: قطّع

بمعنی کسی چیز کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَسُقُوۡا مَآءً حَمِيۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَهُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 15)
اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا

5: بتر

یہ لفظ کسی جانور کی دم کاٹنے کے لیے مخصوص ہے اور معنوی لحاظ سے مقطوع النسل یا لا ولد کو کہتے ہیں یا جس کا ذکر خیر باقی نہ رہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الۡاَبۡتَرُ (سورۃ الکوثر آیت 3)
بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔‏

6: بتک

خلیل کے نزدیک بتک سے مراد قطع اذن (کان کاٹنا) ہے (م ل) اور امام راغب کے نزدیک اس کے معنی جانوروں کے کان چیرنا یا دوسرے اعضا اور بال وغیرہ کاٹنا ہے (مف)۔ دور جاہلیت میں نذر و نیاز کی علامت کے طور پر لوگ ایسے کام کرتے تھے۔ قرآن میں ہے:
وَّلَاُضِلَّـنَّهُمۡ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمۡ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاَمُرَنَّهُمۡ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰهِ‌ؕ (سورۃ النساء آیت 119)
میں انہیں ضرور گمراہ کردوں گا اور ضرور انہیں غلط اُمیدیں دلاؤں گا اور انہیں ضرور حکم دیتا رہوں گا سو وہ یقیناً جانوروں کے کان چیرا کریں گے اور میں انہیں ضرور حکم دیتا رہوں گا سو وہ یقیناً اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو بدلا کریں گے۔

7: عضّ

کسی جاندار کو دانتوں سے کاٹنا (ف ل 110)۔ ارشاد باری ہے:
وَيَوۡمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيۡهِ يَقُوۡلُ يٰلَيۡتَنِىۡ اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِيۡلاً‏ (سورۃ الفرقان آیت 27)
اور اس دن ہر ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ ﷺ کی معیّت میں راستہ اختیار کر لیا ہوتا۔

8: خضد

(الشجر) کسی خار دار درخت کے کانٹے کاٹ کر یا توڑ کر اسے صاف کر دینا، بے خار بنا دینا (مف، منجد)۔ قرآن میں ہے:
فِىۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍۙ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 28)
وہ بے خار بیریوں میں۔

9: جذّ

کے معنی اصل میں کسی سخت چیز کو کاٹ کر یا توڑ کر ریزہ ریزہ کر دینا ہے۔ اور الجذّ بمعنی کٹی ہوئی شے کا چھوٹا ٹکڑا اور جداد یا جذاذ بمعنی کٹا ہوا ٹکڑا، سونے کا ڈلا۔ اور جذات بمعنی کٹی ہوئی شے کے باریک ریزے یا ٹکڑے (مف، منجد) اور انہی معنوں میں یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔
فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ لَعَلَّہُمۡ اِلَیۡہِ یَرۡجِعُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 58)
پھر انکو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا مگر ایک بڑے بت کو نہ توڑا تاکہ وہ اسکی طرف رجوع کریں۔
پھر یہ لفظ صرف کاٹنا یا توڑنا کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:
وَاَمَّا الَّذِيۡنَ سُعِدُوۡا فَفِىۡ الۡجَـنَّةِ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ‌ؕ عَطَآءً غَيۡرَ مَجۡذُوۡذٍ‏ (سورۃ ھود آیت 108)
اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے (وہ) جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے، یہ وہ عطا ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔

10: عقر

میں گھاؤ، زخم لگانے کا مفہوم پایا جاتا ہے (م ل) الکلب العقور بمعنی کاٹنے والا کتا اور عقر النخلۃ بمعنی کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دینا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
فَکَذَّبُوۡہُ فَعَقَرُوۡہَا فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 14)
مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا پھر اونٹنی کو مار ڈالا۔ تو انکے رب نے انکے گناہ کے سبب انکو نیست و نابود کر دیا پھر سب کو برابر کر دیا۔

ماحصل:

  • حصد: پکی ہوئی فصل کو درانتی سے کاٹنا۔
  • صرم: تیز دھار آلہ سے پھلوں کے گچھے کاٹنا۔
  • قطع: کسی بھی چیز کو کاٹ کر جدا کر دینا۔
  • قطّع: کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔
  • بتر: جانور کی دم کاٹنا، مطقوع النسل ہونا۔
  • بتک: کان وغیرہ کاٹنا یا چیرنا۔
  • عضّ: دانتوں سے کاٹنا۔
  • خضد: درخت کے کانٹے کاٹنا اور صاف کرنا۔
  • جذّ: کسی سخت چیز کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔
  • عقر: کاٹ کر کاری زخم لگانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کٹنا​

کے لیے تقطّع، منّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: تقطّع

کسی چیز کا کٹ کر یا ٹوٹ کر الگ ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ (سورۃ البقرۃ آیت 166)
اس دن کفر کے پیشوا اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور دونوں عذاب الٰہی دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔

2: منّ

کئی معنوں میں آتا ہے مثلاً (1) کسی سے بھلائی کرنا (2) احسان جتلانا اور (3) کٹ جانا (منجد) بمعنی قطع و انقطاع (م ل) لازم و متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ اور یہی تیسرا معنی ہمارے زیر بحث ہے۔ منّ الرجل بمعنی کسی شخص کا تھکانا یا کمزور کر دینا۔ اور منّ الحبل بمعنی رسی کاٹنا اور منّ الشئ بمعنی کسی چیز کا کم ہونا (منجد) گویا منّ کسی چیز کے آہستہ آہستہ کم ہو کر ختم ہو جانے یا اس کا سلسلہ منقطع ہو جانے کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ (سورۃ حم سجدۃ آیت 8)
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے انکے لئے ایسا ثواب ہے جو ختم ہی نہ ہو۔

ماحصل:

  • تقطّع: بمعنی کٹ کر علیحدہ ہو جانا۔
  • منّ: بمعنی آہستہ آہستہ کم ہو کر سلسلہ منقطع ہو جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کاغذ​

کے لیے رقّ اور قرطاس کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رقّ

رقّ بمعنی پتلا اور نرم ہونا۔ اور رقّت دل کی نرمی کو کہتے ہیں (ضد قساوت) اور رقّ ہر وہ چیز ہے جو پتلی اور نرم ہو۔ مثلاً درخت کا پتا، جھلی، پتلا چمڑا یا کاغذ (مف) گویا اس لفظ میں عمومیت ہے۔ رقّ اور ورق ہم معنی ہیں (جمع اوراق)۔ ارشاد باری ہے:
فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ (سورۃ الطور آیت 3)
کشادہ ورق میں۔

2: قرطاس

بمعنی لکھی ہوئی تحریری چٹھی (منجد) خواہ یہ کئی صفحات یا اوراق پر مشتمل ہو (م ق)۔ قرطاس ابیض مشہور لفظ ہے۔ بمعنی کسی اہم معاملہ کے متعلق شائع شدہ واضح اور مکمل رپورٹ۔ قرطاس دراصل کاغذ کی اس ابتدائی رف سی شکل کو بھی کہتے ہیں جسے مصریوں نے ایجاد کیا تھا نزول قرآن کے وقت ایسا کاغذ ملتا تھا لیکن بہت کمیاب تھا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ فَلَمَسُوۡہُ بِاَیۡدِیۡہِمۡ لَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ الانعام آیت 7)
اور اے پیغمبر اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کوئی تحریر نازل کرتے اور یہ اسے اپنے ہاتھوں سے ٹٹول بھی لیتے۔ تو جو کافر ہیں وہ یہی کہہ دیتے کہ یہ تو صاف صاف جادو ہے۔

ماحصل:

  • رقّ: ہر پتلی اور نرم چیز جس پر لکھا جا سکے۔ خواہ یہ خالی ہو یا لکھی ہوئی۔
  • قرطاس: تحریر شدہ کاغذ یا کاغذات، موجودہ کاغذ کی ابتدائی رف سی شکل۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کافی ہونا​

کے لیے کفی اور حسب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: کفی

بمعنی کافی ہونا، کسی چیز پر کفایت کرنا اور دوسری سے بے نیاز ہونا۔ کفی کے فاعل پر بعض دفعہ با زائد بھی آتا ہے جیسے کفی باللہ شھیدا یعنی اللہ کی شہادت اتنی کافی اور مکمل ہے کہ وہ کسی دوسرے کی شہادت سے بے نیاز کر دیتی ہے (منجد) اور کفایۃ وہ چیز ہے جو کافی اور غیر سے بے نیاز کر دے۔ اور مکافات بمعنی احسان کا اتنے ہی احسان یا اس سے زیادہ چیز سے بدلہ دینا (منجد) کفی کا لفظ دراصل کسی چیز کا پورا پورا بدلہ دینا، پھر اس سے کچھ زیادہ بھی دینا کے معنی میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا (سورۃ الاحزاب آیت 25)
اور جو کافر تھے انکو اللہ نے پھیر دیا وہ اپنے غصے میں بھرے ہوئے تھے کچھ بھلائی حاصل نہ کر سکے۔ اور اللہ مومنوں کیلئے لڑائی میں کافی ہو گیا اور اللہ زورآور ہے غالب ہے۔

4: حسب

حسب بمعنی حساب کرنا، گننا، شمار کرنا، پھر اس کا حساب رکھنا۔ اور حسب اسم فعل ہے یعنی ایک ایک چیز کو مد نظر رکھ کر اس کے عوض کا حساب رکھنا۔ اس مفہوم کے لیے اردو میں کوئی مخصوص لفظ نہیں۔ لہذا اس کا ترجمہ "کافی" کر دیا جاتا ہے۔ البتہ پنجابی میں اس کے لیے ایک لفظ ہے "ایچی بیچی" کا حساب رکھنا جو اس مفہوم کو ادا کرتا ہے۔ یعنی یہ بات یا یہ کام ہماری ایک ایک ضرورت اور احتیاج کے لیے کافی ہے۔ بالفاظ دیگر حسب کا لفظ کفی سے ابلغ ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (سورۃ آل عمران آیت 173)
جب ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے مقابلے کے لئے لشکر کثیر جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا۔ اور کہنے لگے ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔

ماحصل:

یہ دونوں لفظ اتنے قریب المعنی ہیں کہ ایک کے بجائے دوسرا لفظ بلا تکلف استعمال ہو جاتا ہے جیسے حسبہ جہنّم (سورۃ البقرۃ آیت 206) اور کفی بجھنّم (سورۃ النساء آیت 54) فرق صرف یہ ہے کہ اگر مجموعی حیثیت کو سامنے رکھا جائے تو کفی استعمال ہو گا۔ اور اگر ایک ایک پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو حسب کا۔ جیسے فرمایا: و کفی باللہ حسیبا (سورۃ النساء آیت 6)۔
کالا کے لیے دیکھیے "سیاہ"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کام آنا​

کے لیے جزا (جزی) اور اغنی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جزا

جزا یجزی جزاء (1) کسی کام کا پورا پورا بدلہ دینا پھر اسے آزاد کرنا یا بچانا کا معنی دیتا ہے (م ق، مف) (2) کسی کام کا بدل بننا، کام آنا۔ مثلاً:
وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 48)
اوراس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ کسی اور طرح مدد حاصل کرسکیں۔
اور بدلہ دے کر بچانے کے لیے:
اِنِّیۡ جَزَیۡتُہُمُ الۡیَوۡمَ بِمَا صَبَرُوۡۤا ۙ اَنَّہُمۡ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 111)
آج میں نے انکو ان کے صبر کا بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہو گئے۔

2: اغنی

کسی چیز کا کافی ہونا اور فائدہ بخشنا (مف) کہ دوسری چیز کی احتیاج نہ رہے۔
مَاۤ اَغۡنٰی عَنِّیۡ مَالِیَہۡ ہَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطٰنِیَہۡ (سورۃ الحاقہ آیت 28، 29)
آج میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ مجھ سے میرا اقتدار جاتا رہا۔

ماحصل:

  • جزاء: کام آنا اور مصیبت سے بچ جانا۔
  • اغنی: کام آنا اور فائدہ پہنچانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کام – کام کرنا​

کے لیے فعل، عمل، صنع، صدع، جح، اجترح، تعمّد، امر، شان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: فعل

فعل ہر وہ کام جو کسی اثر انداز کی اثر اندازی کا نتیجہ ہو، کام کرنے والے کا خواہ ارادہ ہو یا نہ اور خواہ اس کا مادی وجود ہو یا نہ ہو سب پر اس کا اطلاق ہو گا (جمع افعال) (مف) اور فعلۃ بمعنی ایک دفعہ کوئی کام کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ فَعَلۡتَ فَعۡلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلۡتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 19)
اور تم نے ایک اور کام کیا تھا جو کیا تم ناشکرے معلوم ہوتے ہو۔
دیکھیے اس آیت میں جس قتل کا ذکر ہے وہ حضرت موسی علیہ السلام سے بلا ارادہ سر زد ہو گیا تھا۔ اور ارادۃ کام کرنے کے لیے درج ذیل آیت کا حصہ ملاحظہ فرمائیے:
فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 68)
سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو۔

2: عمل

عمل ہ وہ کام جو کسی جاندار سے ارادتاً صادر ہو خواہ اچھا ہو یا برا (عمل جمع اعمال) (مف) اور عمل کا لفظ محنت مزدوری کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔

3: صنع

کسی کام کو فنی مہارت سے سر انجام دینا۔ یہ عمل سے اخص ہے حیوانات کے لیے نہیں بولا جاتا (مف) اور صنّاع بمعنی کاریگر، اپنے کام میں ماہر۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 38)
اور نوح نے کشتی بنانی شروع کر دی اور جب انکی قوم کے سردار انکے پاس سے گذرتے تو ان سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ایک وقت ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے۔

4: صدع

بمعنی کسی کام کو کر گزرنا (منجد)، مشکلات کے باوجود تکلیف سہ کر کوئی کام کرنا۔ اور صدع بالحقّ حق کا کھلے طور سے اظہار کرنا۔ اور صدع الشئ بمعنی کسی شے کو پھاڑنا مگر جدا نہ کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 94)
پس جو حکم تم کو اللہ کی طرف سے ملا ہے وہ لوگوں کو بے دھڑک سنا دو اور مشرکوں کا ذرا خیال نہ کرو۔

5: جرح

جرح بمعنی زخم (جمع جروح) اور جرح زخم لگانا، جرح باللسان بمعنی کسی کو زبان سے زخم لگانا، زبان سے اذیت پہنچانا، کسی کا عیب و نقص بیان کرنا۔ اور جرح الشّھادۃ بمعنی شہادت کو باطل کرنا (منجد) جب یہ فعل کام کرنے کے مفہوم میں استعمال ہو تو عموماً برے مفہوم میں ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبۡعَثُکُمۡ فِیۡہِ لِیُقۡضٰۤی اَجَلٌ مُّسَمًّی ۚ ثُمَّ اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 60)
اور وہی تو ہے جو رات کو سونے کی حالت میں تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی مدت معین پوری کر دی جائے پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے رہتے ہو ایک ایک کر کے بتائے گا۔
اور اجترح بالخصوص ارتکاب کے معنوں میں آتا ہے (مف، منجد) اجترح الاثم اس نے گناہ کا ارتکاب کیا۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجۡتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَہُمۡ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡیَاہُمۡ وَ مَمَاتُہُمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ (سورۃ جاثیہ آیت 21)
جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم انکو ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور انکی زندگی اور موت یکساں ہو گی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں۔

6: تعمّد

عمد بمعنی کسی چیز کا قصد کرنا اور ٹیک لگانا۔ اور عمد بمعنی ستون (جمع عماد) اور عمود اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ اور تعمّد بمعنی دیدہ دانستہ یا جان بوجھ کر کوئی کام کرنا یعنی ایسا کام کرنا جس کے متعلق پہلے علم ہو کہ برا ہے (اور اس کی ضد سہو ہے) (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 93)
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اسکی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ جلتا رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

7: امر

بمعنی کام، حالت، معاملہ، بات، قولا ہو یا فعلا (جمع امور)۔ یہ لفظ فعل سے بھی زیادہ عام ہے کیونکہ اس کا اطلاق افعال کے علاوہ اقوال پر بھی ہوتا ہے۔ نیز ایسے کام یا معاملات پر بھی جن کا تعلق مشیت ایزدی سے ہو (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ (سورۃ النمل آیت 32)
خط سنا کر کہنے لگی کہ کے اے اہل دربار میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو جب تک کہ تم حاضر نہ ہو اور صلاح نہ دو میں کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔
اس آیت میں امر کا لفظ کام، بات، معاملہ تینوں معنی دے رہا ہے اور کام کا قولا یا فعلا کوئی وجود بھی نہیں۔
اور امر بمعنی حکم بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس کی جمع اوامر (ضد نواہی) ہو گی۔ اور جب امر بطور فعل آئے تو اس کے معنی میں کام کرنا نہیں بلکہ حکم کرنا ہوتا ہے۔

8: شان

(جمع شؤون) بمعنی بڑے بڑے امور، احوال، معاملات، حالت، اور من شانہ کذا بمعنی ایسا کرنا اس کی فطرت و طبیعت سے ہے (منجد) گویا شان سے مراد ایسے کام کرنا ہے جو کسی کے شایان شان یا مناسب حال ہوں۔ اللہ تعالی اپنے متعلق فرماتے ہیں:
یَسۡـَٔلُہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ (سورۃ الرحمن آیت 29)
آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی کام میں ہوتا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 62)
سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے اجازت مانگا کریں تو ان میں سے جسے چاہا کرو اجازت دے دیا کرو اور انکے لئے اللہ سے بخشش مانگا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

ماحصل:

  • فعل: ایسا کام جو خواہ ارادتاً کیا جائے یا بلا ارادہ سرزد ہو۔
  • عمل: وہ کام جو وہ کام جو کوئی غرض پوری کرنے کے لیے ارادتاً کیا جائے۔
  • صنع: کسی کام کو فنی مہارت سے کرنا۔
  • صدع: مشکلات کے باوجود کوئی کام کر گزرنا۔
  • جرح: عموماً برا کام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
  • تعمّد: دیدہ دانستہ کوئی برا کام کرنا۔
  • امر: یہ فعل سے بھی اعم ہے۔ اور قول و فعل اور حالت سب کو شامل ہے۔
  • شان: کسی کا اپنے شایان شان کوئی کام۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کامیاب ہونا – مراد پانا​

کے لیے افلح اور فاز کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: افلح

فلح کے معنی میں تین باتیں پائی جاتی ہیں (1) پھاڑنا (2) کامیابی (3) بقا (م ل) اور فلّاح بمعنی کسان جو بیج بونے کے لیے زمین کو پھاڑتا ہے۔ فصل پکنے پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا اور اس سے فائدہ اٹھانے پر اپنی مراد پاتا ہے۔ اور افلح بمعنی کامیاب ہونا، مراد کو پہنچنا جو کسی کے اپنے عمل اور محنت کا نتیجہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 1، 2)
بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو نماز میں عجزونیاز کرتے ہیں۔

2: فاز

بمعنی کسی مصیبت سے بچ جانا اور ساتھ ہی ساتھ کسی محبوب چیز تک پہنچنا (فق ل 273) اور بمعنی سلامتی کے ساتھ بھلائی حاصل کر لینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ آل عمران آیت 185)
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا تو جو شخص دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
فاز کا لفظ لغت اضداد سے ہے۔ فاز بمعنی کامیاب ہونا اور نجات پانا بھی اور ہلاک ہونا یا مرنا بھی۔ فوّز الرجل بمعنی آدمی مر گیا۔ اور مفازۃ (سورۃ آل عمران آیت 188) بمعنی کامیابی کا سبب یا جگہ بھی اور ہلاکت کا سبب اور جگہ بھی (منجد) جیسا کہ محولہ آیت میں یہ ہلاکت کی جگہ یا سبب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تاہم یہ لفظ عموماً مصیبت سے نجات پا کر اور مرغوب چیز سے ہمکنار ہو کر کامیاب ہونے اور مراد کو پہنچنے کے معنوں میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَئِنۡ اَصَابَکُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوۡلَنَّ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 73)
اور اگر اللہ تم پر فضل کرے تو اس طرح سے کہ گویا تم میں اس میں دوستی تھی ہی نہیں افسوس کرتا اور کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل ہوتا۔

ماحصل:

  • افلح: محنت کا جائز ثمرہ مل جانے کی کامیابی۔
  • فاز: ایسے عمل کے لیے آتا ہے جس میں کوتاہی کا نتیجہ ہلاکت اور کامیابی پر بہت زیادہ انعامات بھی ملیں۔
"کان" کے لیے اذن اور سمع کے الفاظ آئے ہیں اور ان میں وہی فرق ہے جو عین اور بصر یا رجل اور قدم میں ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کانپنا​

کے لیے زلزل، مار (مور)، رجّ اور رجف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: زلزل

زلّ بمعنی قدم کا پھسلنا۔ اور زلزل میں تکرار لفظی ہے جو تکرار معنوی پر دال ہے یعنی بار بار ادھر ادھ پھسل پڑنا (مف) اور زلزلۃ بمعنی بھونچال، زمین کا جھٹکے کھانا، ادھر ادھر ہلنا اور کانپنا (فل 172) یہ لفظ بھونچال کے لیے خاص ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا (سورۃ الزلزال آیت 1)
جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی۔

2: رجّ

کسی چیز کو جنبش دینا، جھٹکا لگانا (مف) یہ زلزلہ کی ابتدائی حالت ہے (فل 60)۔ ارشاد باری ہے:
اِذَا رُجَّتِ الۡاَرۡضُ رَجًّا (سورۃ الواقعہ آیت 4)
جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے۔

3: رجف

کا بنیادی معنی اضطراب شدید ہے (م ل) بحر رجّاف بمعنی متلاطم سمندر۔ والمرجفون فی المدینۃ (سورۃ احزاب آیت 60) بمعنی سنسنی پیدا کرنے والے، بے چینی کی لہر دوڑانے والے، اور جب اس کی نسبت زمین کی طرف ہو تو بمعنی شدید جھٹکے، زلزلہ کی شدید کیفیت (فل 60)۔ قرآن میں ہے:
یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا (سورۃ مزمل آیت 14)
جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے ہو جائیں گے جیسے ریت کے ٹیلے۔

4: مار

مار میں بنیادی تصور حرکت اور تیز رفتاری ہے۔ النّاقۃ تمور فی سیرھا بمعنی اونٹنی کا تیز رفتاری سے غبار اڑاتے چلے جانا (مف) اور مور بمعنی غبار بن کر ہوا میں اڑنا (فل 31) اور مار الشئ بمعنی کسی شے کا تیز رفتاری کی وجہ سے آگے پیچھے ہلنا اور لرزنا، توازن کھو دینا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
یَّوۡمَ تَمُوۡرُ السَّمَآءُ مَوۡرًا (سورۃ الطور آیت 9)
جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔

ماحصل:

زلزل، رجّ اور رجف تینوں بالعموم زلزلہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ زلزل عام ہے۔ رجّ ابتدائی کیفیت اور رجف شدید کیفیت کو کہتے ہیں۔ اور مار کسی بھی چیز میں تیز رفتاری کی وجہ سے لرزش اور ڈگمگاہٹ کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کب؟​

کے لیے ایّان اور متی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ایّان

کسی کام کا وقت پوچھنے کے لے آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا (سورۃ النازعات آیت 42)
اے پیغمبر ﷺ لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کب ہے۔

2: متی

وقت کے علاوہ شرط کے معنی بھی دیتا ہے (م ق) قرآن میں ہے:
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡفَتۡحُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 28)
اور کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہو گا؟
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ یس آیت 48)
اور کہتے ہیں اگر تم سچ کہتے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کتاب​

کے لیے کتاب، اسفار، سجل، نسخۃ، زبر، صحف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: کتاب

ہر لکھی ہوئی چیز، چٹھی، اعمال نامہ اور معروف معنوں میں کتاب (جمع کتب)۔ قرآن میں ہے:
اِذۡہَبۡ بِّکِتٰبِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقِہۡ اِلَیۡہِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَانۡظُرۡ مَا ذَا یَرۡجِعُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 28)
یہ میرا خط لے جا اور اسے انکی طرف ڈال دے پھر انکے پاس سے ہٹ جانا اور دیکھنا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔

2: اسفار

(سفر کی جمع) سفر بمعنی بڑی کتاب، اجزائے تورات میں سے ایک جزو (منجد) اور سفر بمعنی کشف یا کی چیز کو بے نقاب کرنا۔ اور سفر بمعنی ایسی کتاب جو حقائق کو بے نقاب کرنے والی ہو (مف، فق ل 241)، تورات کی بڑی بڑی شروح و تفاسیر۔ ارشاد باری ہے:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ جمعہ آیت 5)
جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا پھر انہوں نے اسکے حامل ہونے کا حق ادا نہ کیا انکی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں انکی مثال بری ہے۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

3: سجل

بمعنی معاہدات کا رجسٹر، احکام و عادی کے ضبط کرنے کا رجسٹر جس کو قاضی اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے، جوڈیشل ریکارڈ۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ (سورۃ الانبیا آیت 104)
جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے کائنات کو پہلےپیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کر دیں گے یہ وعدہ ہے جس کا پورا کرنا لازم ہے۔ ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔

4: نسخۃ

نسخ بمعنی مٹانا، منسوخ کرنا۔ اور نسخ الکتاب بمعنی کتاب کو حرف بحرف نقل کرنا۔ اور نسخۃ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے، اور اس کو بھی جو نقل کی گئی ہو (م ق) ہر نسخہ کتاب تو ہوتا ہے مگر ہر کتاب نسخہ نہیں ہوتی (فق ل 240)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 154)
اور جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو تورات کی تختیاں اٹھا لیں۔ اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ہدایت اور رحمت تھی۔

5: زبر

زبرۃ بمعنی لوہے کا بڑا تختہ یا چادر (جمع زبر) اور زبر الکتاب بمعنی کتاب کو موٹے خط میں لکھنا۔ اور زبر گو مصدر ہے مگر اسم کے معنوں میں بھی آتا ہے اور کتاب کا معنی دیتا ہے (جمع زبر) اور زبور وہ الہامی کتاب ہے جو داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اور مزبر بمعنی قلم (مف، منجد) اور زبر بمعنی پتھر پر لکھنا، اور اس کا بنیادی معنی ضخامت اور غلظت ہے (فق ل 240)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 196)
اور اسکی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔

6: صحف

(واحد صحیفۃ) صحیفۃ بمعنی پھیلی ہوئی چیز جس پر کچھ لکھا جائے (مف) اور صحیفۃ بمعنی لکھا ہوا کاغذ، ورق اور صحافۃ بمعنی اخبار نویسی اور اصحف بمعنی صحیفوں یا لکھے ہوئے اوراق کو کتاب کی صورت میں جمع کرنا۔ اور مصحف (جمع مصاحف) بمعنی کتاب، مجلد کتاب (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی (سورۃ الاعلی آیت 18، 19)
یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی درج ہے۔ یعنی ابراہیم اور موسٰی کے صحیفوں میں۔

ماحصل:

کتاب: ہر لکھی ہوئی چیز اور معروف معنوں میں کتاب۔
اسفار: بڑی بڑی کتب (تورات کی ) شروح و تفاسیر۔
سجل: ریکارڈ رکھنے کے قابل تحریریں اور مکتوب۔
نسخۃ: نقل شدہ کتاب یا جس سے نقل کیا جائے۔
زبر: موٹے حروف میں لکھی ہوئی کتابیں۔
صحف: وہ لکھے ہوئے اوراق جن کو کتاب کی صورت میں جمع کیا جا سکے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کترا جانا – بچ کر نکل جانا​

کے لیے زاور، قرض، حاد (حید) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: زاور

قول الزور بمعنی ایچ پیچ والی اور غلط بات۔ ازور جس شخص کے سینہ میں ٹیڑھا پن ہو (منجد) اور بئر زوارء بمعنی ایسا کنواں جس کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہو۔ اور زاور بمعنی ٹیڑھا ہونا یا ٹیڑھا ہو کر نکل جانا۔
2: قرض
بمعنی کترنا اور کترا کر نکل جانا۔ قرض المکان بمعنی وہ اس مقام سے ادھر ادھر ہو کر نکل گیا اور قرض فی السّیر بمعنی چلتے ہوئے ادھر ادھر جھکنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ (سورۃ الکہف آیت 17)
اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ دھوپ انکے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس غار کے کشادہ حصے میں تھے۔

3: حاد

بمعنی سیدھے راستہ سے پہلو تہی کرنا اور دور بھاگنا (مف، م ل) سمت بدل لینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ (سورۃ ق آیت 19)
اور موت کی بیہوشی حقیقت کھولنے کو طاری ہو گئ۔ اے انسان یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

ماحصل:

  • زاور: ٹیڑھا ہو کر نکل جانا۔
  • قرض: کترا کر نکلنا اور پھر سیدھے راستے پر ہو لینا۔
  • حاد: کترانا اور دور بھاگنا اور پھر سیدھی راہ پر نہ آنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کتنے؟​

کے لیے کم اور کایّ یا کایّن کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: کم

مبہم عدد، مدت یا مقدار کے پوچھنے کے لیے یہ لفظ آتا ہے۔ بمعنی کتنا، کتنے، کتنی یعنی بطور استفہام آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ (سورۃ البقرۃ آیت 259)
اللہ تعالی نے پوچھا تم کتنا عرصہ (ٹھہرے) رہے ہو؟

2: کایّ یا کاّین

کم اور کایّن قریب المعنی ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ کایّن میں زیادتی کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ بمعنی کتنا ہی، کتنے ہی، یعنی بہت سی اور بطور استفہام نہیں آتا۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ یَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہَا وَ ہُمۡ عَنۡہَا مُعۡرِضُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 105)
اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ گذرتے ہیں اور انکو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
کجی کے لیے دیکھیے "ٹیڑھ" اور "ٹیڑھا ہونا"۔
کروٹ کے لیے دیکھیے "پہلو"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کریدنا​

کے لیے بحث اور بعثر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: بحث

کریدنا، کھودنا، مٹی کے نیچے سے کچھ ڈھونڈنا (فل 171، م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 31)
اب اللہ نے ایک کوابھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے

2: بعثر

امام راغب کے نزدیک بعثر کا لفظ بعث اور اثیر سے مرکب ہے۔ بمعنی قبروں کو الٹ پلٹ کرنا اور مردوں کو اٹھانا (مف) اور بعثر المتاع بمعنی سامان الٹانا پلٹانا (منجد) بعثرہ نظر کی اور تفتیش کی، باہر لایا اور ظاہر کیا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
اَفَلَا یَعۡلَمُ اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِی الۡقُبُوۡرِ (سورۃ العادیات آیت 9)
کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا کہ جب مردے قبروں میں سے باہر نکال لئے جائیں گے۔

ماحصل:

  • بحث: زیر زمین کریدنا۔
  • بعثر: کرید کر کوئی چیز برآمد کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کڑوا​

کے لیے امرّ، اجاج اور خمط کے الفاظ آئے ہیں۔

1: امرّ

مرّ (مرارۃ) بمعنی کڑوا ہونا، تلخ ہونا۔ مرّ بمعنی کڑوا اور امرّ بمعنی بہت کڑوا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَ السَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَ اَمَرُّ (سورۃ القمر آیت 46)
اصل میں انکے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت تلخ ہو گی۔

2: اجاج

بمعنی بہت کھاری اور کڑوا پانی۔ اور اجّ الماء بمعنی پانی کو کڑوا یا نمکین بنانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰہُ اُجَاجًا فَلَوۡ لَا تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الواقعۃ آیت 70)
اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کر دیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟

3: خمط

بمعنی کھٹا، کسیلا اور بمعنی ہر خار دار اور کڑوا درخت (منجد، م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ (سورۃ سباء آیت 16)
تو انہوں نے شکرگذاری سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب چھوڑ دیا اور انہیں انکے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جنکے میوے بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ کے پیڑ تھے اور تھوڑی سی بیریاں۔

ماحصل:

  • امرّ: خالص کڑوا اور سخت کڑوا۔
  • اجاج: کڑوا اور نمکین (کھاری) پانی۔
  • خمط: کڑوا اور کھٹا (کسیلا)، بد مزہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کسان​

کے لیے زرّاع اور کفّار کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: زرّاع

زراع کی جمع۔ بمعنی زراعت یا کھیتی باڑی کرنے والا، کاشتکار، کسان۔ اس کا استعمال عام ہے۔ قرآن میں ہے:
کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ (سورۃ فتح آیت 29)
وہ گویا ایک کھیتی ہیں جس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی پھر اسکو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئ اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔

2: کفّار

(کافر کی جمع)۔ کفر بمعنی کسی چیز کو چھپانا۔ اور کافر کئی معنوں میں آتا ہے (1) خدا کا منکر (2) خدا کی نعمتوں کا منکر، نا شکرا (3) حقیقت چھپانے والا، پوشیدہ طور پر رہنے والا، لوگوں سے دور الگ تھلگ، زمین، پودے، کاشتکار (منجد) اور الکفر بمعنی لوگوں سے دور دراز زمین، دیہات (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ الحدید آیت 20)
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت و آرائش اور تمہارے آپس میں فخرو ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب و خواہش ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے اگنے والی کھیتی کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ کھیتی خوب زور پر آتی ہے پھر اے دیکھنے والے تو اسکو دیکھتا ہے کہ پک کر زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں کافروں کے لئے عذاب شدید اور مومنوں کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔

ماحصل:

کسان بیج کو زمین میں دفن کرنے کے لحاظ سے کافر اور بعد میں اس کی نگہداشت کرنے کے لحاظ سے زراع ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کشتی – جہاز​

کے لیے جاریۃ، سفینۃ اور فلک کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: جاریۃ

جری یجری بمعنی چلنا اور بہنا۔ پانی اور ہوا کی طرح چلنے والی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے کشتی کو جاریۃ کہتے ہیں جمع جوار (مف) اور اس سے مراد بادبانی کشتی ہے جو ہوا اور پانی کے رخ اور بہاؤ کی مناسبت سے چلتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ (سورۃ الرحمن آیت 24)
اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں۔

2: سفینۃ

سفن بمعنی چھیلنا اور نرم بنانا۔ اور سفن چوب تراشی کا آلہ۔ اور سفین بمعنی لکڑی پھاڑنے کی کیل یا پھانہ اور مسفن بمعنی چوب تراشی کے اوزار۔ اور سفانۃ بمعنی جہاز سازی کا پیشہ۔ اور سفینۃ بمعنی جہاز، کشتی (منجد) گویا سفینۃ سے مراد ایسی کشتی ہے جو تراش خراش کر ہموار اور آرام دہ بنائی گئی ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔

3: فلک

فلک کا لفظ کسی چیز کے گول ہونے، چکر کھانے اور گھومنے پر دلالت کرتا ہے (م ل) فلک من البحر بمعنی دریا کا بھنور جہاں چاروں طرف سے پانی جمع ہو کر چکر کھانے لگے۔ اور فلک بمعنی مدار، سیاروں کے گھومنے کا راستہ، آسمان اور الفلکۃ بمعنی ہر وہ چیز جو بلند، ابھری ہوئی اور گول ہو (منجد) گویا چکر لگاتے رہنے کی نسبت سے کشی کو فلک کہتے ہیں۔ (اس کی جمع نہیں آتی) اور قرآن میں فلک کے ساتھ اکثر مشحون کا لفظ آیا ہے۔ شحن بمعنی کشتی میں سامان لادنا اور اسے بھرنا۔ اور الشّحنۃ وہ چیز جس سے کشتی بھری جائے (منجد) گویا فلک ایسی کشتی ہوتی ہے جو مسافروں کے علاوہ بار برداری کا کام بھی دے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ (سورۃ الصافات آیت 139، 140)
اور یونس بھی پیغمبروں میں سے تھے۔ جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے۔

ماحصل:

کشتی چلنے کے لحاظ سے جاریۃ، ہموار اور آرام دہ ہونے کے لحاظ سے سفینۃ اور کشتی نما ہونے کے لحاظ سے فلک ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کعبہ کے مختلف نام​

کے لیے کعبۃ، البیت، بیت العتیق، حرم، بیت الحرام، بیت المحرّم اور مسجد الحرام کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

1: کعبۃ

بمعنی ہر وہ چیز کو مکعب شکل کی بنی ہو۔ اسی نسبت سے کعبہ کو کعبہ کہتے ہیں (مف) جس کے طول و عرض اور اونچائی برابر یا تقریباً برابر ہوں، مربع یا مربع نما تعمیر (ف ل 16)۔ ارشاد باری ہے:
یَحۡکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ ہَدۡیًۢا بٰلِغَ الۡکَعۡبَۃِ (سورۃ المائدۃ آیت 95)
جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کر دیں قربانی کرے اور یہ قربانی کعبے پہنچائی جائے۔

2: البیت

مخصوص گھر، بیت اللہ شریف۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمۡنًا (سورۃ البقرۃ آیت 125)
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا

3: بیت العتیق

بمعنی قدیمی گھر۔ عتیق سے مراد ایسی چیز ہے جو پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ شرافت و نجابت سے بھی متصف ہو اور اس میں کمی نہ آئے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ الحج آیت 29)
پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر یعنی بیت اللہ کا طواف کریں۔

4: حرم

بمعنی المنع الشدید (م ل) (1) حرام وہ اشیا جن کے استعمال سے شریعت نے سختی سے روک دیا ہو اور اس کی ضد حلال ہے یعنی وہ چیز جس کے استعمال پر کوئی پابندی نہ ہو (2) اور حرم اور حرام بمعنی قابل احترام، ادب اور تعظیم کے لائق۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡۤا اِنۡ نَّتَّبِعِ الۡہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَ لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّہُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجۡبٰۤی اِلَیۡہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 57)
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ کیا ہم نے انکو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں بطور رزق ہماری طرف سے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

5، 6: بیت الحرام، بیت المحرّم

قابل ادب و احترام گھر۔ قرآن میں ہے:
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ انکی طرف جھکے رہیں اور انکو میووں سے روزی دیتے رہنا تاکہ تیرا شکر کریں۔

7: مسجد الحرام

قابل عزت و احترام مسجد، بیت اللہ شریف۔ ارشاد باری ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 1)
وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کل​

کے لیے امس اور غد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: امس

آج سے ایک دن پہلے گزا ہوا دن۔ دیروز YESTERDAY اور اگر اعرابی حالت میں ہو تو الامس بمعنی گزشتہ ایام میں سے کوئی دن (منجد) اور محاورتا امس کا لفظ بول کر ماضی قریب کا زمانہ بھی مراد لیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَصۡبَحَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسۡتَنۡصَرَہٗ بِالۡاَمۡسِ یَسۡتَصۡرِخُہٗ ؕ قَالَ لَہٗ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ القصص آیت 18)
الغرض صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی پھر انکو پکار رہا ہے۔ موسٰی نے اس سے کہا کہ تو تو بڑا بہکا ہوا ہے۔
اس آیت میں امس سے مراد کل کا گزرا ہوا دن ہے۔ اور آیت ذیل میں زمانہ ماضی قریب مراد ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَجَعَلۡنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 24)
تو ہم نے اسکو کاٹ کر ایسا کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ جو لوگ غور کرنے والے ہیں انکے لئے ہم اپنی قدرت کی نشانیاں اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔

2: غد

بمعنی آنے والا اگلا دن۔ فردا TOMORROW یہ لفظ بھی امس کی طرح آنے والے دن کے بھی اور زمانہ مستقبل قریب کے معنی دیتا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیت میں اس کا معنی آنے والا دن ہے۔
اَرۡسِلۡہُ مَعَنَا غَدًا یَّرۡتَعۡ وَ یَلۡعَبۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 12)
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے ہم اسکے نگہبان ہیں۔
اور درج ذیل آیت میں غد کا لفظ صرف مستقبل قریب کا ہی نہیں بلکہ اخروی زندگی کا معنی دے رہا ہے جو قرآن کی رو سے قریب ہی ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 18)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل یعنی آخرت کے لئے کیا سامان بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کم کرنا – کمی کرنا – گھٹانا​

کے لیے ظلم، الا (الو)، قصر، الت، ھضم، فتر، قلّ، خسر، نقض، بخس، فرّط اور وتر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ظلم

بمعنی "کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے علاوہ کسی دوسری جگہ رکھنا" اور اس کی ضد عدل ہے۔ یعنی جو چیز بھی عدل و انصاف کے منافی ہو گی وہ ظلم ہے۔ گویا ظلم کے لفظ کا دائرہ استعمال بہت وسیع ہے۔ کسی بھی چیز میں کمی ہو یا بیشی، اور اس کمی بیشی کی مقدار بھی خواہ کتنی ہی کم ہو یا کتنی ہی زیادہ ہو سب پر ظلم کا اطلاق ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا (سورۃ الکہف آیت 33)
دونوں باغ کثرت سے پھل لاتے۔ اور اسکی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔

2: الا

بمعنی کوتاہی کرنا، کوئی کام جیسے چاہیے ویسے نہ کرنا، کسر چھوڑنا (مف، م ل)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا (سورۃ آل عمران آیت 118)
مومنو! کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔

3: قصر

کوئی کام جتنا چاہیے اتنا نہ کرنا۔ اور امام راغب کے الفاظ میں کسی چیز کی لمبائی یا اس کی انتہا کو نہ پہنچنا (مف) مقررہ مقدار یا تعداد پوری نہ کرنا، تھوڑا کرنا، چھوٹا کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ (سورۃ النساء آیت 101)
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو۔

4: الت

بمعنی کسی کے حق سے کچھ گھٹانا (منجد)، مزدوری میں سے کچھ گھٹانا، کام کا پورا بدلہ نہ دینا یا دیر سے دینا۔ القصر و ابطاء (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ کُلُّ امۡرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ (سورۃ الطور آیت 21)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انکی اولاد بھی راہ ایمان میں انکے پیچھے چلی۔ ہم انکی اولاد کو بھی انکے درجے تک پہنچا دیں گے اور انکے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔

5: ھضم

بمعنی کسی نرم چیز کو کچلنا، بھینچنا، نچوڑنا اور اس میں کمی کرنا (م ل)، کسی کمزور کا حق دبانا، غصب کرنا۔ اور ھضیم بمعنی نرم و نازک بھی (سورۃ الشعراء آیت 48) اور جلد ہضم ہونے والا بھی (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلۡمًا وَّ لَا ہَضۡمًا (سورۃ طہ آیت 112)
اور جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اسکو نہ ظلم کا خوف ہو گا اور نہ نقصان کا۔

6: فتر

بمعنی کسی چیز میں کمزوری واقع ہونا (م ل) کام کرتے کرتے یا تھکنے کی وجہ سے رفتار میں کمی واقع ہونا یا تھم جانا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 74، 75)
اور گنہگار یعنی کفار ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہیں گے۔ جو ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے۔

7: قلّ

بنیادی طور پر اس کے دو معنی ہیں (1) بلند ہونا (2) کم ہونا۔ یہاں دوسرا زیر بحث ہے۔ یعنی تعداد یا مقدار میں کم ہونا (ضد کثر)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا (سورۃ الکہف آیت 39)
اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ کیوں نہ کہا؟ اگر تم مجھے مال و اولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو۔

8: طفّف

طفیف بمعنی حقیر اور معمولی چیز۔ اور طفّف بمعنی ماپ کا پیمانہ بھرتے وقت تھوڑا سا کم بھرنا (مف) یا پیمانہ ہی تھوڑا سا چھوٹا رکھنا۔ ارشاد باری ہے:
وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 1، 2)
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے۔ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں۔

9: خسر

بمعنی راس المال میں کمی واقع ہونا (مف) یہ لفظ عموماً تجارت سے مخصوص ہے (ضد ربح)، گھٹا پانا، نقصان اٹھانا۔ اور خسر المیزان بمعنی کسی کا حق دبا کر وزن میں کم کرنا ہے۔ جیسا کہ سورۃ مطففین کی اگلی آیت یوں ہے:
وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 3)
اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم دیں۔

10: نقص

کم کرنا، گھٹانا (ضد زاد اور نقصان ضد زیادۃ) یہ لفظ خسر سے اعم ہے۔ ہر خسارہ نقصان ہے مگر ہر نقصان خسارہ نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے:
نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا (سورۃ مزمل آیت 3، 4)
یعنی نصف رات یا اس سے کچھ کم قیام کرو۔ یا کچھ زیادہ اور قرآن کو اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔

11: بخس

بخس بمعنی ناقص، گھٹیا، کمتر (منجد) اور بخس بمعنی بدل میں ناقص یا کمتر چیز دینا یا تھوڑی دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 20)
اور انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت یعنی معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔
نیز فرمایا:
وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 85)
اور مدین کی طرف انکے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اسکے سوا تمہار کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔

12: فرّط

بمعنی کوتاہی کرنا، حد اعتدال سے پیچھے رہ جانا یا اس میں کمی کرنا (تفصیل کے لیے دیکھیے "حد سے بڑھنا" اور "کم کرنا")۔ فرط لغت اضداد سے ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا ۙ وَ ہُمۡ یَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَہُمۡ عَلٰی ظُہُوۡرِہِمۡ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 31)
جن لوگوں نے اللہ کے روبرو حاضر ہونے کو جھوٹ سمجھا وہ گھاٹے میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب ان پر قیامت ناگہاں آ موجود ہو گی تو بول اٹھیں گے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو ہم نے قیامت کے بارے میں کی۔ اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔

13: وتر

بمعنی ستانا، تکلیف پہنچانا، مال یا حق کو کم کرنا۔ اور الوتر اور الوتر (و کسرہ) بمعنی بدلہ لینا یا بدلہ لینے میں ظلم کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَا تَہِنُوۡا وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ ٭ۖ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ (سورۃ محمد آیت 35)
تو مسلمانو تم ہمت نہ ہارو اور دشمنوں کو صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم اور ضائع نہیں کرے گا۔

ماحصل:

  • ظلم: وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ ہر قسم کی کمی بیشی کے لیے آتا ہے۔
  • الا: کام جیسا چاہیے اس میں کمی کرنا۔
  • قصر: کام جتنا چاہیے اس میں کمی کرنا۔
  • الت: بدلہ یا مزدوری سے کچھ کم دینا یا دیر کر کے دینا۔
  • ھضم: کمزور کا حق دبانا، نرم چیز کو کچلنا۔
  • فتر: کمزوری کی وجہ سے کمی واقع ہونا۔
  • قلّ: تعداد یا مقدار میں کمی کرنا۔
  • طفّف: پیمانے تھوڑے بھرنا یا چھوٹے رکھنا۔
  • خسر: تجارت میں نقصان اٹھانا۔
  • نقص: خسر اسے اعم ہے، ہر طرح کے معاملات میں کم کے لیے۔
  • بخس: اچھی چیز کے بدلے کمتر یا پوری کی بجائے تھوڑی دینا۔
  • فرّط: حد اعتدال سے کم کرنا، کوتاہی کرنا۔
  • وتر: بدلہ لینے یا دینے میں کمی کرنا یا نہ دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کمانا – کمائی کرنا​

کے لیے عمل، کسب اور اکتسب اور اقترف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عمل

ہر وہ کام جو انسان ارادتاً کرے وہ اس کا عمل ہے۔ اور چونکہ کمائی کرنا بھی ایک عمل ہے لہذا ان معنوں میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔

2: کسب

کمانا یا کمائی کرنا کے لیے یہ لفظ عمل سے اخص ہے۔ یعنی جلب نفع یا خوش نصیبی کے لیے کوئی کام کرنا، خواہ یہ کام اپنے لیے ہو یا دوسروں کے لیے، خواہ یہ کسب اچھا ہو یا برا، حلال ہو یا حرام اور کاسب بمعنی محنت مزدوری کرنے والا، پیشہ ور۔ ارشاد باری ہے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ المائدۃ آیت 38)
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ان کا ایک ایک ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کے کرتوتوں کی سزا اور اللہ کی طرف سے عبرت کے طور پر ہے۔ اور اللہ زبردست ہے صاحب حکمت ہے۔

3: اکتسب

اور اکتسب وہ کام ہے جو انسان صرف اپنے مفاد کو ملحوظ رکھ کر کرے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ (سورۃ النساء آیت 32)
مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے۔ اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے

4: اقترف

قرف بمعنی زخم کا چھلکا اتارنا۔ اور اقترف بمعنی مذموم کام کرنا، ناجائز طریقے سے کمائی کرنا۔ محاورہ ہے الاعتراف یزیل الاقتراف یعنی اعتراف (جرم) جرم کو زائل کر دیتا ہے (مف)۔ گویا اقتراف گناہ اور جم کے کاموں کے لیے مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 120)
اور ظاہری اور پوشیدہ ہر طرح کا گناہ ترک کر دو۔ جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔

ماحصل:

  • عمل: کام کرنا عام ہے۔ کمائی کرنا کے معنوں میں بھی آتا ہے۔
  • کسب: جلب منفعت کے لیے کوئی کام کرنا، اپنے لیے ہو یا دوسرے کے لیے۔
  • اکتسب: اپنے نفع اور فائدہ کے لیے کوئی کام کرنا۔
  • اقترف: ناجائز کام کرنا، ناجائز طریقوں سے کمائی کرنا۔
 
Top