مترادفات القرآن (ک)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کمرہ​

کے لیے حجرۃ اور غرفۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: حجرۃ

بمعنی کمرہ، قبر (منجد) (جمع حجرات) اور بمعنی خانۂ خورد (م ا) گویا حجرۃ وہ معمولی سا کمرہ ہے جس سے پورے گھر کا کام لیا جاتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ حجرات آیت 4)
اے نبی ﷺ جو لوگ تمکو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں۔

2: غرفۃ

بمعنی بالا خانہ (منجد) اور غرف اور غرفات بمعنی جنت کے منازل اور درجات (مف) گویا غرفہ سے اعلی تعمیر شدہ اور بلند کمرہ مراد ہے۔ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا (سورۃ الفرقان آیت 75)
ان صفات کے لوگوں کو انکے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے۔ اور وہاں فرشتے ان سے دعا و سلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کمزور​

کے لیے ضعیف، واھیۃ، اوھن اور اذلّۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ضعیف

(ضد قوی) طاقت اور قوت میں کمتر، کمزور، معروف لفظ ہے۔ اور ضعف اور ضعف بمعنی کمزوری (جمع ضعفاء اور ضعاف)۔ قرآن میں ہے:
فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا (سورۃ البقرۃ آیت 282)
پھر اگر قرض لینے والا کم عقل یا کمزور ہو۔

2: واھیۃ

وھی بمعنی کہنگی کی وجہ سے کمزور ہونا جیسے کپڑے کا بوسیدہ ہونا (فل 29) اور وھی بمعنی کسی چیز کا ڈھیلا پڑ جانا، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جانا (م ل) اس لفظ کا استعمال بالعموم کپڑے اور رسی وغیرہ کے لیے ہوتا ہے (ف ل 29) اور الوھی بمعنی چمڑے میں سوراخ ہو جانا (م ل) گویا کہنگی کی وجہ سے کسی چیز کے بوسیدہ ہونے، کمزور ہو کر پھٹ جانے کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پنجابی لفظ "بھگّا" اس کا صحیح مفہوم ادا کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ انۡشَقَّتِ السَّمَآءُ فَہِیَ یَوۡمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ (سورۃ الحاقہ آیت 16)
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہو گا۔

3: اوھن

وھن بمعنی کمزور ہونا، اس کا استعمال مادی طور پر ہو تو ہڈی یا سخت چیز کے کمزور ہونے کے لیے اور معنوی ہو تو معاملہ عمل کی کمزوری یا اخلاقی کمزوری کے لیے ہوتا ہے (فل 29) (فق ل 94) اور وھن بمعنی طاقت نہ رہنے کی وجہ سے کمزور اور سست پڑنا (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 41)
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو کارساز بنا رکھا ہے انکی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک طرح کا گھر بناتی ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ اس بات کو جانتے۔
نیز فرمایا:
وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 104)
اور ان کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا۔ اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم تو اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے بڑی حکمت والا ہے۔

4: اذلّۃ

(واحد ذلیل ضد عزیز) بمعنی زیر دست، عزت اور قدر و منزلت میں کم تر۔ معاشرہ میں ثانوی حیثیت رکھنے والے لوگ۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 123)
اور اللہ نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی جبکہ اس وقت بھی تم بے سروسامان تھے۔ پس اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ شکر گزار بن جاؤ۔

ماحصل:

  • ضعیف: طاقت اور قوت میں کمتر۔
  • واھی: بوسیدگی کی وجہ سے کمزور۔
  • وھن: طاقت میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے کمزور اور سست ہونا۔
  • اذلّۃ: زیر دست اور بے سر و سامان لوگ۔
کمزور کرنا – بنانا اور رکھنا کے لیے استضعف اور سست اور کمزور کرنے کے لیے اوھن کے الفاظ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے فرمایا:
ذٰلِکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 18)
ہوا بھی یوں ہی اور کچھ شک نہیں کہ اللہ کافروں کی تدبیر کو کمزور کر دینے والا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کنارہ​

کے لیے طرف، حد، حرف، افق، اقطار، ارجاء، شفاء، معزل، شاطی، ساحل، اقصا، عدوہ اور صدف کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: طرف

بمعنی ہر چیز کی آخری حد، سرا، مکعب چیز کے گوشے، نوکدار پہلو، نگاہ، سمت (منجد) (جمع اطراف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 114)
اور دن کے دونوں سروں یعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ انکے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔

2: حدّ

حدّ (السکین) بمعنی چھری کو تیز کرنا۔ اور حدّ السیف بمعنی تلوار کی دھار۔ اور حد بمعنی دو چیزوں کے درمیان کی روک حد المکان اس نے مکان کی حد بنائی۔ اسی سے حدود اربعہ ہے یعنی چاروں طرف کی حدود۔ گویا حد کسی چیز کا انتہائی اور آخری کنارہ ہے جو اسے دوسری چیزوں سے جدا کرتا ہے۔ اور حدود اللہ بمعنی اللہ کے وہ احکام جن سے تجاوز کرنا باعث گناہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 229)
اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔

3: حرف

حرف الجبل بمعنی پہاڑ کا تیز سرا، بلند ترین چوٹی۔ کہتے ہیں فلان علی حرف من امرہ یعنی فلاں شخص معاملہ کے کنارہ پر ہے۔ یعنی اگر کوئی چیز بھی خلاف مرضی ظاہر ہوئی تو اس سے کنارہ کش ہو جائے گا (منجد) تذبذب کی انتہائی منزل۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ (سورۃ الحج آیت 11)
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسکو کوئی دنیاوی فائدہ پہنچے تو اسکے سبب مطمئن ہو جائے اور اگر کوئی آفت آ پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے یعنی پھر کافر ہو جائے اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی یہی تو صاف نقصان ہے۔

4: افق

افق دو چیزوں کے اطراف دور اور آخر حد پر پہنچ کر آپس میں مل جانا (م ل) یا ایسا نظر آنا۔ اور اس ملے ہوئے کنارے کو افق کہتے ہیں جیسے فضا کی ایک طرف زمین ہے اور دوسری طرف آسمان۔ تو یہ آخر حد نگاہ پر جہاں ملتے نظر آئیں وہ افق ہے (جمع افاق) اور آفاق بمعنی وسعت عالم جن میں کافی وسعت اور بعد ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی (سورۃ النجم آیت 7)
جبکہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 53)
ہم عنقریب انکو اطراف عالم میں بھی اور خود انکی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تمکو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے۔

5: اقطار

قطر بمعنی قطار میں کھڑا کرنا۔ کہتے ہیں قطر البعیر الی البعیر اونٹوں کو ایک نظم (قطار) میں کھڑا کر دیا۔ اور اقطار الدنیا بمعنی دنیا کے چاروں گوشے، علم ہندسہ کی اصطلاح میں وہ خط مستقیم جو مرکز سے گزرتا ہو دائرہ کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دے (منجد)۔ گویا قطر میں خط مستقیم کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور گول چیز کا بھی۔ اور نیز یہ کہ ایسے قطر ہزاروں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں جس میں تمام اطراف اور جوانب آ جاتی ہیں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے، سیدھی اور مخالف سمتیں سب آ جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 14)
اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر ان سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو فوراً کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ (سورۃ الرحمن آیت 33)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تو تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔

6: ارجاء

رجا کی جمع ہے۔ بمعنی کسی گول چیز کا کنارہ۔ رجاء البئر کنویں کا کنارہ اور رجا السماء بمعنی آسمان کا کنارہ (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ (سورۃ الحاقۃ آیت 17)
اور فرشتے اسکے کناروں پر ہوں گے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

7: شفا

یہ لفظ قرب ہلاکت کے لیے ضرب المثل ہے۔ شفا ہر اس چیز کے کنارہ کو کہتے ہیں جو اندر سے خالی اور کھوکھلی ہو اور جس کے کنارے پر کھڑے ہونے سے انسان کو گر کر ہلاک ہونے کا خطرہ رہتے ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اس نے تم کو اس سے بچا لیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 109)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اسکی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرنے والے کنارے پر رکھی پھر وہ اسکو دوزخ کی آگ میں لے گرا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

8: معزل

عزل بمعنی کنارہ کشی کرنا، ایک طرف ہونا اور بچ جانا۔ ابن الفارس کے الفاظ میں تدلّ علی تنجیۃ و امالۃ و ابعاد (م ل) یعنی معزل وہ کنارہ ہے جس طرف جانے سے انسان کی مصیبت سے بچ جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 42)
اور وہ انکو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کشتی سے الگ تھا پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔

9: شاطئ

بمعنی کسی چیز کے دو کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ (م ل) دریا یا وادی کی کوئی طرف یا کنارا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّاۤ اَتٰٮہَا نُوۡدِیَ مِنۡ شَاطِیَٴ الۡوَادِ الۡاَیۡمَنِ فِی الۡبُقۡعَۃِ الۡمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنۡ یّٰمُوۡسٰۤی اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 30)
سو جب اس کے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ اے موسٰی یہ میں ہوں اللہ تمام جہانوں کا پروردگار۔

10: ساحل

کا لفظ دریا یا سمندر کے کنارہ کے لیے مخصوص ہے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اَنِ اقۡذِفِیۡہِ فِی التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِیۡہِ فِی الۡیَمِّ فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ (سورۃ طہ آیت 39)
وہ یہ تھا کہ اسے یعنی موسٰی کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا میں ڈالدو تو دریا اسکو کنارے پر ڈال دے گا اور میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا۔

11: اقصا

قصو میں دور ہونے اور دور رہنے کا تصور پایا جاتا ہے (م ل) اور اقصی بمعنی پرلی طرف کا، پرلا کنارہ۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ یس آیت 20)
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو۔

12: عدوۃ

عدا بمعنی دور ہونے والا مسافر، اور بمعنی وادی کا کنارہ۔ اور عدوۃ بمعنی بلند جگہ، وادی کا کنارہ (منجد) یعنی عدوۃ کسی وادی یا میدان کے ایسے کنارہ کو کہتے ہیں جو دور بھی ہو اور جگہ بھی بلند ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ (سورۃ الانفال آیت 42)
جس وقت تم مدینے سے قریب کے ناکے پر تھے اور کافر دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا۔

13: صدف

پہاڑوں کے درمیان کھلے میدان کو وادی کہتے ہیں۔ اور پہاڑوں کے کنارے جو اس وادی کی حدود ہوتی ہیں صدف کہلاتی ہیں۔ لہذا صدف کا ترجمہ وادی کا کنارہ بھی کر لیا جاتا ہے لیکن پہاڑ کا کنارہ اس کا موزوں تر ترجمہ ہے۔ چنانچہ امام راغب اس کا معنی پہاڑ کا کنارہ ہی کرتے ہیں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا (سورۃ الکہف آیت 96)
تم لوہے کے بڑے بڑے تختے میرے پاس لاؤ چنانچہ کام جاری کر دیا گیا یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا حصہ برابر کر دیا اور کہا کہ اب اسے دھونکو۔ یہانتک کہ جب اس کو دھونک دھونک کر آگ کر دیا تو کہا کہ اب میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔

ماحصل:

  • طرف: ہر شے کی آخر حد، سرا۔
  • حدّ: ہر شے کی آخری حد جو دوسری چیزوں سے علیحدہ کر دے۔
  • حرف: نوکدار کنارہ، تذبذب کی انتہائی منزل
  • افق: دو گول چیزوں کی اطراف کا دور جا کر مقام اتصال۔
  • اقطار: کسی گول چیز کے اندر کے اطراف و جوانب۔
  • ارجاء: گول چیز مثلاً کنویں یا آسمان کا کنارہ۔
  • شفا: ایسی چیز کا کنارہ جو اندر سے کھوکھلی ہو اور گرنے سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، ہلاکت کا کنارہ۔
  • معزل: ایسا کنارہ جو پناہ کا کام دے۔
  • شاطئ: میدان یا دریا کے کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ۔
  • ساحل: دریا یا سمندر کا کنارہ۔
  • اقصا: پرلا کنارہ۔
  • عدوۃ: دور کا کنارہ جو بلندی پر ہو۔
  • صدف: پہاڑ کا کنارہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کنواں​

کے لیے بئر، جبّ اور رسّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بئر

بمعنی کنواں۔ عام لفظ ہے۔ آباد ہو یا غیر آباد (فل 262) ایسے کنویں کو بھی کہہ سکتے ہیں جس میں پانی نہ ہو (ف ل 31)۔ قرآن میں ہے:
فَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ بِئۡرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصۡرٍ مَّشِیۡدٍ (سورۃ حج آیت 45)
چنانچہ بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے انکو تباہ کر ڈالا کہ وہ نافرمان تھیں۔ سو وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں۔ اور بہت سے کنوئیں بیکار اور بہت سے مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔

2: جبّ

ایسا کنواں جو صرف کھودا گیا ہو۔ اینٹ پتھر سے تعمیر نہ کیا گیا ہو (ف ل 262) کچا کنواں۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا ذَہَبُوۡا بِہٖ وَ اَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ یَّجۡعَلُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 15)
غرض جب وہ اسکو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اسکو اندھے کنوئیں میں ڈالدیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم انہیں انکے اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو اس وحی کی کچھ خبر نہ ہو گی۔

3: رسّ

بہت بڑا کنواں (ف ل 39) جس میں پانی کافی مقدار میں ہو (ف ل 262) قرآن میں ہے:
کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ (سورۃ ق آیت 12)
ان سے پہلے نوح کی قوم اور کنوئیں والے اور ثمود والے لوگ جھٹلا چکے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کوڑا​

کے لیے سوط اور جلدۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سوط

بمعنی بٹا ہوا چمڑا، کوڑا، چابک (مف) اور ساط بمعنی کوڑے لگانا۔ اور سوّاط بمعنی کوڑا یا چابک رکھنے والا سپاہی۔ اور مسواط اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو بغیر چابک کے نہ چلتا ہو (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَصَبَّ عَلَيۡهِمۡ رَبُّكَ سَوۡطَ عَذَابٍۙ‌ۚ‏ (سورۃ الفجر آیت 13)
تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

2: جلدۃ

جلد کسی جاندار کی کھال کو جلد کہتے ہیں۔ اور جلد بمعنی کسی کو کھال پر مارنا کہ اس مار کا اثر کھال سے آگے نہ جائے۔ اور جلدۃ ہر وہ چیز ہے جس سے کھال پر مارا جائے اور وہ سخت ہو لیکن زخم نہ کرے خواہ یہ کسی چیز کا ہو، درہ، ارض جلدۃ بمعنی سخت زمین (مف) اور جلّاد بمعنی کوڑے مارنے والا۔ ارشاد باری ہے:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ‌ (سورۃ النور آیت 2)
بدکار عورت اور بدکار مرد تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو
ماحصل:
جلدۃ عام ہے خواہ یہ چمڑے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا مگر سخت ہو اور زخم نہ کرے جبکہ سوط چمڑے کے کوڑے یا چابک کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کوشش کرنا​

کے لیے سعی، جہد اور کدح کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سعی

بمعنی تیز تیز چلنا، آدھی دوڑ دوڑنا (مجازاً) کسی اچھے یا برے کام کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہونا۔ قرآن میں ہے:
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ‏ (سورۃ النجم آیت 39)
اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی۔

2: جہد

کسی کام کی تکمیل میں اپنی امکانی کوششوں کو صرف کرنا، سعی بلیغ۔ ابن الفارس کے الفاظ میں اصلہ المشقّۃ و م یقاربہ (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا ‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 69)
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد کرتے ہیں تو ہم یقیناً انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔

3: کدح

الکدح بمعنی خراش اور کدح بمعنی کام میں بہت محنت کرنا (منجد) اور بمعنی تکلیفیں سہہ سسہ کر کام کرنا، بمشقت کوئی کام کرتے جانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدۡحًا فَمُلٰقِيۡهِ‌ۚ‏ (سورۃ الانشقاق آیت 6)
اے انسان! تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے بالآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے۔

ماحصل:

  • سعی: کسی کام کے لیے کوشش کرنا۔
  • جہد: اس کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لانا۔
  • کدح: دکھ اٹھا اٹھا کر کام کرتے جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کون​

کے لیے من اور ایّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: من

ذوی العقول کے لیے واحد، جمع، مذکر و مونث سے کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی کون۔ جیسے من ربک تیرا رب کون ہے؟ (منجد) ارشاد باری ہے:
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش کر سکے۔

2: ایّ

استفہام کی صورت میں ضمائر پر داخل ہو کر "کون" کا معنی دیتا ہے اور اس میں اضافت لازمی ہے (جس میں کبھی شرط کے معنی پائے جاتے ہیں) یعنی مذکورہ چیزوں میں سے کون۔ یہ بھی ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ‏ (سورۃ الملک آیت 2)
جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
لَا تَدۡرُوۡنَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ لَـكُمۡ نَفۡعًا (سورۃ النساء آیت 11)
تم نہیں جانتے کہ فائدے کے لحاظ سے کون تم سے قریب تر ہے؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کوئی​

کے لیے احد اور من اور من کے الفاظ آئے ہیں۔

1: احد

بمعنی بے نظیر، لاثانی، یکتا، اکیلا۔ جیسے قل ھو اللہ احد (سورۃ اخلاص آیت 1) اور اسمائے ترکیبی میں ایک کے معنی دیتا ہے۔ جیسے احد عشر وغیرہ (مونث احدی) اور اس کا تیسرا استعمال یہ ہے کہ کسی ایک جزو کو ظاہر کرتا ہے۔ مثبت اور منفی دونوں طرح آتا ہے۔ اور عموماً ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ مثلاً:
قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 78)
وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اسکے والد بہت بوڑھے ہیں اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں تو اسکو چھوڑ دیجئے اور اسکی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں۔
اور جب یہ منفی استعمال ہو تو "کوئی بھی" کا معنی دے گا۔ مثلاً:
فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ (سورۃ الحاقۃ آیت 47)
پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

2: من اور من

یہ دونوں حروف بعض دفعہ کل کے غیر معین جزو یا اجزا کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ من ذوی العقول کے لیے آتا ہے اور جو کوئی، جو شخص کا معنی دیتا ہے۔ جیسے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 8)
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔
اور من عموماً غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 44)
ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں مگر اسکی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم انکی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بیشک وہ بردبار ہے غفار ہے۔

ماحصل:

  • احد: کا استعمال کل کے ایک جزو اور عموماً ذوی العقول کے لیے۔
  • من: کا استعمال ایک جزو یا کئی اجزا عموماً ذوی العقول کے لیے اور من کا استعمال غیر ذوی العقول کے لیے بھی ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کہ – گویا کہ​

کے لیے ان، کان، کانّ، کانّما اور الّا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ان

(انّ مخففۃ) جملہ کے درمیان واقع ہو کر "کہ" یا "یہ کہ" کا معنی دیتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا (سورۃ البقرۃ آیت 36)
اللہ اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ کی مثال بیان فرمائے۔

2: کان، کانّ، کانّما

یہ سب حروف ک تشبیہ اور ان یا انّ سے مرکب ہیں۔ اور "گویا کہ" کا معنی دیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا کَاَنَّ فِیۡۤ اُذُنَیۡہِ وَقۡرًا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ (سورۃ لقمان آیت 7)
اور جب اسکو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اکڑ کر منہ پھیر لیتا ہے گویا انکو سنا ہی نہیں۔ جیسے اسکے کانوں میں ثقل ہے تو اسکو درد دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔
ان اور کان فعل پر داخل ہوتے ہیں جبکہ انّ اور کانّ اسم پر داخل ہوتے ہیں جیسا کہ آیت بالا سے واضح ہے۔
یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ الانفال آیت 6)
وہ لوگ حق بات میں اسکے ظاہر ہونے کے بعد تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔

3: الّا

دراصل ان – لا ہے۔ بمعنی "یہ کہ نہ" جملہ کے درمیان میں واقع ہو کر یہ معنی دے گا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ حم سجدۃ آیت 30)
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے۔ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے خوشی مناؤ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کہاں؟​

کے لیے این، اینما، انّی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: این، اینما

این ظرف مکانی ہے۔ جگہ پوچھنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُخۡزِیۡہِمۡ وَ یَقُوۡلُ اَیۡنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تُشَآقُّوۡنَ فِیۡہِمۡ (سورۃ النحل آیت 27)
پھر وہ انکو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنکے بارے میں تم جھگڑا کرتے تھے؟
این کے بعد ما کا اضافہ کرنے سے "جہاں کہیں" کا معنی دیتا ہے۔ یعنی جملہ شرطیہ بن جاتا ہے جو جزا چاہتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ (سورۃ النساء آیت 78)
اے جہاد سے ڈرنے والو تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ مضبوط قلعوں میں رہو۔
یا جیسے فرمایا:
وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
اور مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔ تو جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کی ذات ہے۔ بیشک اللہ صاحب وسعت ہے باخبر ہے۔
اور ثم دراصل این کا جواب ہے۔ این بمعنی کہاں اور ثمّ بمعنی وہاں۔ اس جگہ۔

2: انّی

جگہ اور حالت دونوں باتیں پوچھنے کے لیے آتا ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ (سورۃ آل عمران آیت 37)
مریم سے پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ بولیں کہ اللہ کے ہاں سے آتا ہے
اور جب صرف ظرف مکانی کے لیے آئے تو کس طرف یا کدھر کا معنی دے گا۔ جیسے فرمایا:
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 30)
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ انکے منہ کی باتیں ہیں۔ پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہی کی ریس کرنے لگے ہیں اللہ ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

ماحصل:

این صرف جگہ پوچھنے کے لیے اور انّی جگہ کے ساتھ حالت یا کیفیت بھی پوچھنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کہانیاں – واقعات​

کے لیے اساطیر، احادیث اور قصص کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اساطیر

اسطورہ، اسیطرۃ اور اسطار تینوں اساطیر کے واحد ہیں۔ اور اسطار، سطر سے مشتق ہے بمعنی ہر ہو چیز جو سطور میں لکھی گئی ہو یا ضبط تحریر میں آ چکی ہو لیکن حقیقت میں کچھ نہ ہو، بے اور بے بنیاد بات (منجد) ایسی کہانیاں یا افسانے جو حقیقت پر مبنی نہ ہوں۔ قرآن میں ہے:
یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 25)
تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

2: احادیث

(واحد حدیث) ہر وہ بات جو معرض وجود میں آئے اور پہلے نہ ہو وہ حدیث ہے پھر اس لفظ کا اطلاق ایسے واقعات پر بھی ہوتا ہے جنہیں لوگ مرور زمانہ کی وجہ سے بھول چکے ہیں، سبق آموز پرانے واقعات۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا ؕ کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوۡلُہَا کَذَّبُوۡہُ فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّ جَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ ۚ فَبُعۡدًا لِّقَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 44)
پھر ہم لگاتار اپنے پیغمبر بھیجتے رہے جب کسی امت کے پاس اس کا پیغمبر آتا تھا تو وہ اسے جھٹلا دیتے تھے۔ تو ہم بھی بعض کو بعض کے پیچھے ہلاک کرتے اور ان پر عذاب لاتے رہے اور انکو داستانیں بنا کر چھوڑتے رہے پس جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان پر لعنت۔

3: قصص

(قصّہ کی جمع) قصّ بمعنی نشان قدم پر چلنا۔ اور قصّ بمعنی واقعہ بیان کرنا (م ق) اور قصص سے مراد ایسے واقعات ہیں جو عام لوگوں میں مشہور اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے، زبان زد واقعات۔ ارشاد باری ہے:
نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَ اِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 3)
اے پیغمبر ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں۔ اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے۔

ماحصل:

  • اساطیر: بے بنیاد واقعات
  • احادیث: بھولے بسرے مگر سبق آموز واقعات۔
  • قصص: زبان زد واقعات
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھال​

کے لیے جلد اور شوی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: جلد

کسی جاندار کے جسم کی کھال اور پورے جسم کا اوپر کا حصہ اس کی کھال یا جلد ہے (مف) اور یہ لفظ عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 56)
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی ان کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم انکو اور کھالیں بدل کر دیں گے تاکہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

2: شوی

بمعنی جسم کے اطراف، ہاتھ پاؤں اور وہ اعضا جن پر زخم لگنے سے موت واقع نہ ہو۔ محاورہ ہے رماہ فاشواہ یعنی میں نے اسے تیر مارا تو اس کے اطراف پر لگا، یعنی کسی ایسے عضو پر نہیں لگا جس پر زخم لگنے سے موت واقع ہوتی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّا ؕ اِنَّہَا لَظٰی نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی (سورۃ المعارج آیت 15، 16)
لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ کھال ادھیڑ کر کلیجہ نکال لینے والی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھال اتارنا​

کے لیے سلخ اور کشط کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: سلخ

سلخ الحیّۃ بمعنی سانپ کا کینچلی اتارنا۔ اور سلخ الحیّۃ بمعنی سانپ کی کینچلی اور مسلاخ کا معنی بھی سانپ کی کینچلی۔ اور سلخ المراۃ عورت کا اپنا کرتہ اتارنا۔ اور سلخ الخروف بمعنی بکری کے بچے کی کھال اتارنا (منجد) گویا سلخ کا لفظ کچی کھال، کچا چمڑا یا کچا سا پردہ اتارنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚۖ نَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ (سورۃ یس آیت 37)
اور ایک نشانی انکے لئے رات ہے کہ اس پر سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اسی وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

2: کشط

کشط (البغیر) اونٹ کی کھال اتارنا۔ اور کشاط بمعنی اتری ہوئی کھال اور کشّاط بمعنی قصائی، قصاب (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتۡ (سورۃ التکویر آیت 11)
اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔

ماحصل:

عارضی جلد یا پردہ اتارنے کے لیے سلخ اور مضبوط جلد یا پردہ اتارنے کے لیے کشط کا لفظ آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھانا (مصدر)​

کے لیے اکل اور طعم اور رتع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اکل

یہ لفظ عام ہے اور ہر کھانے کی چیز خواہ یہ طعام ہو، روٹی ہو یا مٹھائی ہو، پھل ہو یا کوئی دوسری کھانے کی چیز، سب جگہ استعمال ہوتا ہے۔ انسان اور غیر انسان سب کے لیے یکساں مستعمل ہے۔ محاورہ ہے اکلت النار الحطب یعنی آگ لکڑیوں کو کھا گئی (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ (سورۃ المائدۃ آیت 3)
وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کر لو۔

2: طعم

اکل کے مقابلے میں بہت محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی غذا کھانا، روٹی کھانا، کھانا کھانا (مف) اور ہر وہ چیز جو بطور غذا کھائی جائے۔ اور اس لفظ کا اطلاق بالعموم انسانوں کے لیے ہوتا ہے۔ طعامیّ بمعنی روٹی بیچنے والا اور مطعم بمعنی ہوٹل (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ (سورۃ الاحزاب آیت 53)
لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔

3: رتع

کا بنیادی معنی جانوروں کا چرنا چگنا ہے۔ پھر استعارہ کے طور پر انسانوں کے جی بھر کر کھانے پینے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ یعنی جانوروں کی طرح بہت کھانا۔ قرآن میں ہے:
اَرۡسِلۡہُ مَعَنَا غَدًا یَّرۡتَعۡ وَ یَلۡعَبۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 12)
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے ہم اسکے نگہبان ہیں۔

ماحصل:

  • اکل: ہر کسی کے ہر چیز کو کھانے کے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
  • طعم: انسانوں کا غذا کھانا۔
  • رتع: خوب سیر ہو کر کھانا، جانوروں کا چرنا چگنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھلانا​

کے لیے اطعم اور رزق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اطعم

کسی انسان کو غذا کھلانا۔ قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ (سورۃ الشعراء ایت 79)
اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔

2: رزق

وسیع مفہوم میں آتا ہے اور مادی اور روحانی ہر طرح کی غذا دینے کے لیے آتا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے "خوراک")۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا (سورۃ النساء آیت 5)
اور کم عقلوں کو ان کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھجور​

کے لیے نخلۃ، نخل اور نخیل، لینۃ اور رطب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نخلۃ

بمعنی کھجور کا پودا یا درخت۔ ارشاد باری ہے:
فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا (سورۃ مریم آیت 23)
پھر دردزہ انکو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکتی اور بھولی بسری ہو گئ ہوتی۔
اور نخل، نخلۃ کی جمع ہے۔ کھجور کے درخت اور ان کا پھل، کھجوریں، خرما۔ ارشاد باری ہے:
وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا (سورۃ الکہف آیت 32)
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عنایت کئے تھے اور انکے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور انکے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی۔
اور نخیل ایسے باغ کو کہتے ہیں جس میں کھجور کے درخت بکثرت ہوں۔ ارشاد باری ہے:
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ لَہٗ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَ اَصَابَہُ الۡکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُ ۪ۖ فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 266)
بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آ پکڑے اور اس کے ننّھے ننّھے بچے بھی ہوں تو ناگہاں اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے پس وہ جل جائے اس طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم سوچو اور سمجھو۔

2: لینۃ

عجوہ (کھجور کی ایک عمدہ قسم) کے علاوہ ہر قسم کی کھجور کا درخت اور اس کا پھل (منجد فل 116)۔ ارشاد باری ہے:
مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوۡ تَرَکۡتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ وَ لِیُخۡزِیَ الۡفٰسِقِیۡنَ (سورۃ حشر آیت 5)
مومنو! کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو انکی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو یہ اللہ کے حکم سے تھا اور اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔

3: رطب

بمعنی تر و تازہ کھجور (پھل) (فل 46)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا (سورۃ مریم آیت 25)
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ عمدہ کھجوریں گرائے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھڑا کرنا – ہونا​

کے لیے قام اور اقام (قوم)، وقف، نتق، نشز کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: قام

بمعنی کھڑا ہوا (ضد جلس اور قعد) معروف لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 142)
منافق ان چالوں سے اپنے نزدیک اللہ کو دھوکا دیتے ہیں۔ یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر صرف لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کو یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم۔
اور اقام بمعنی کھڑا کرنا، کھڑا کر دینا، قائم کرنا، سیدھا کھڑا کر دینا، پڑی چیز کو راسی سمت میں کر دینا (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا (سورۃ الکہف آیت 77)
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے انکی ضیافت کرنے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو خضر نے اسکو سیدھا کر دیا۔ موسٰی نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کا معاوضہ لے لیتے تاکہ کھانے کا کام چلتا۔

2: وقف

بمعنی کام کرتے کرتے یا چلتے چلتے کجھ وقت کے لیے رک جانا، بے حس و حرکت کھڑا ہونا (م ق) ٹھہر جانا اور ٹھہرا لینا، متعدی و لازم دونوں طرح آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
1: لازم
وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ وُقِفُوۡا عَلٰی رَبِّہِمۡ ؕ قَالَ اَلَیۡسَ ہٰذَا بِالۡحَقِّ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ رَبِّنَا ؕ قَالَ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 30)
اور کاش تم انکو اس وقت دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے وہ فرمائے گا کیا یہ دوبارہ زندہ ہونا برحق نہیں تو کہیں گے کیوں نہیں ہمارے پروردگار کی قسم بالکل برحق ہے اللہ فرمائے گا اب کفر کے بدلے جو دنیا میں کرتے تھے عذاب کے مزے چکھو۔
2: متعدی
وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ (سورۃ الصافات آیت 24)
اور انکو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔

3: نتق

بمعنی ہلانا، بلند کرنا، پھیلانا (منجد) اور بمعنی کسی چیز کو کھینچ کر ڈھیلا کر دینا (مف) اور بمعنی کسی چیز کو اتنے زور سے ہلانا کہ وہ اپنی جڑ پر تو قائم رہے مگر ایک طرف جھک جائے (م ل) پنجابی میں اس مفہوم کے لیے "الارنا" مخصوص لفظ ہے جو اس کا صحیح مفہوم ادا کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 171)
اور جب ہم نے ان کے سروں پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے۔ تو ہم نے کہا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو تاکہ پرہیزگار بن جاؤ۔

4: نشز

بمعنی اٹھ کھڑا ہونا۔ نشز الرجل جو آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور نشز عن مکانہ یعنی اپنی جگہ سے اٹھا اور چل دیا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورۃ المجادلہ آیت 11)
مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو اللہ تمکو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنکو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

ماحصل:

  • قام: (ضد قعد اور جلس) کھڑا ہونے کے لیے عام لفظ اور اقام کسی چیز کو راسی سمت میں کھڑا کرنا، قائم کرنا۔
  • وقف: بے حس و حرکت کھڑا کرنا یا ہونا، چلتے چلتے یا کام کرتے تھوڑی دیر تک رک جانا، ٹھہر جانا۔
  • نتق: کسی چیز کو الار دینا۔
  • نشز: بمعنی کھڑے ہونا اور چل دینا، اٹھ جانا۔
کھلا میدان کے لیے دیکھیے "زمین اور اس کی اقسام"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھولنا​

کے لیے انی اور غلی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: انی

انی یانی بمعنی پانی وغیرہ حرارت میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا (مف، م ل) یعنی کسی مائع چیز کا شدت حرارت سے کھولنے لگنا۔ قرآن میں ہے:
تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ (سورۃ الغاشیۃ آیت 5)
انکو ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے گا۔

2: غلی

شدت حرارت کی وجہ سے پانی کا کھولنا اور اوپر کو ابھرنا، ابال آنا۔ غلی القدر بمعنی ہانڈی میں ابال آنا اور ہانڈی کی اشیا کا ابھرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کَالۡمُہۡلِ ۚۛ یَغۡلِیۡ فِی الۡبُطُوۡنِ کَغَلۡیِ الۡحَمِیۡمِ (سورۃ الدخان آیت 45، 46)
جیسے پگھلا ہوا تانبا۔ وہ تھوہر پیٹوں میں اس طرح کھولے گا۔ جس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھولنا

کے لیے بسط، فتح، حلّ، شرح، کشف، نشط، فرج کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: بسط

بمعنی کسی چیز کو کھولنا اور پھیلانا (ضد قبض اور قدر) کسی چیز کو پھیلانا اور توسیع کرنا، کشادہ کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ (سورۃ الرعد آیت 26)
اللہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اور کافر لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سامان ہے۔

2: فتح

کسی پیچیدہ معاملہ کی پیچیدگی دور کرنا (ضد اغلاق) بندھا ہوا سامان کھولنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ (سورۃ یوسف آیت 65)
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔

3: حلّ

حلّ (العقدۃ) یعنی گرہ کھولنا، عقدہ کشائی کرنا، مشکل حل کرنا (م ا، منجد) ارباب حل و عقد مشہور لفظ ہے۔
وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ (سورۃ طہ آیت 27، 28)
اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ لیں۔

4: شرح

بمعنی مشکل کلام کے معنی کھولنا (مف) اور ابن الفارس کے نزدیک شرح میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) فتح کھولنا اور (2) بیان (وضاحت) (م ل) اور شرح صدر بمعنی سینہ کو کھولنا یعنی کسی مشکل اور پیچیدہ معاملہ کا سمجھ میں آ جانا۔ قرآن میں ہے:
قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ (سورۃ طہ آیت 25، 26)
کہا اے میرے پروردگار اس کام کے لئے میرا سینہ کھول دے۔ اور میرا کام آسان کر دے۔

5: کشف

کھولنا اور پرے ہٹا دینا، بے نقاب کرنا، ایک چیز سے دوسری چیز کو ہٹا دینا، اور پہلی چیز کا نمایاں اور ظاہر ہونا۔ ارشاد باری ہے:
قِیۡلَ لَہَا ادۡخُلِی الصَّرۡحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡہُ حَسِبَتۡہُ لُجَّۃً وَّ کَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَیۡہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ ۬ؕ قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 44)
اسکے بعد اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے۔ جب اس نے اسکے فرش کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا اور کپڑا اٹھا کر اپنی پنڈلیاں کھول دیں سلیمان نے کہا یہ ایسا محل ہے جس کے نیچے بھی شیشے جڑے ہوئے ہیں وہ بول اٹھی کہ پروردگار میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی تھی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔

6: نشط

لغت اضداد سے ہے۔ نشط الحبل بمعنی رسی کو گرہ لگائی۔ اور نشط العقدہ بمعنی گرہ کو مضبوط کیا۔ اور النشوط بمعنی آسانی سے کھل جانے والی گرہ (منجد) اور النشط بمعنی آسانی سے کھل جانے والی گرہ۔ اور نشط بمعنی گرہ کھولنا (مف) گویا یہ لفظ حلّ سے اخص ہے۔ جو معنی حل العقدۃ کے ہیں وہی معنی نشط کے ہیں۔ بمعنی گرہ کھولنا، جوڑ بند ڈھیلا کرنا، گرہ کو ڈھیلا کرنا۔ وغیرہ۔ قرآن میں ہے:
وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا (سورۃ النازعات آیت 1، 2)
ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کافروں کی جان کھینچ لیتے ہیں۔ اور ان کی جو مومنوں کی جان آسانی سے نکالتے ہیں۔

7: فرج

فرج میں کشادگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ فرج بمعنی کھولنا، کشادہ کرنا، کھلا کرنا، فراخ کرنا (مزید تفصیل "شگاف" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡ (سورۃ المرسلات آیت 9)
اور جب آسمان میں شگاف پڑ جائیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھیتی باڑی کرنا​

کے لیے حرث، زرع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حرث

بمعنی زمین میں ہل چلا کر اس میں بیج بونا اور کھیتی باڑی کے لیے تیار کرنا (مف) اور محرث (جمع محارث) بمعنی زمین جوتنے کے اوزار، ہل وغیرہ (م ق) لیکن بعض دفعہ کھیتی کو بھی حرث کہہ دیا جاتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَنِ اغۡدُوۡا عَلٰی حَرۡثِکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰرِمِیۡنَ (سورۃ القلم آیت 22)
کہ اگر تمکو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو۔

2: زرع

کے اصل معنی انبات یا اگانا ہے۔ اور اس (زمین) میں بیج ڈال کر اس کو پانی سے سیراب کرنا اور مناسب دیکھ بھال کرنا بھی شامل ہے اس کو اگانے کی نسبت مجازاً انسان کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ دیکھ بھال کے فرائض سر انجام دیتا ہے ورنہ حقیقت میں کھیتی اگانا تو اللہ ہی کا کام ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَ ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 63، 64)
بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو۔ تو کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟

ماحصل:

  • حرث: بمعنی ہل جوتنا اور بیج بونا۔
  • زرع: بمعنی بیج بونے کے بعد اسے سیراب کرنا اور مناسب دیکھ بھال کرنا۔
 
Top