کنارہ
کے لیے
طرف، حد، حرف، افق، اقطار، ارجاء، شفاء، معزل، شاطی، ساحل، اقصا، عدوہ اور
صدف کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: طرف
بمعنی ہر چیز کی آخری حد، سرا، مکعب چیز کے گوشے، نوکدار پہلو، نگاہ، سمت (منجد) (جمع اطراف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 114)
اور دن کے دونوں سروں یعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ انکے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔
2: حدّ
حدّ (السکین) بمعنی چھری کو تیز کرنا۔ اور حدّ السیف بمعنی تلوار کی دھار۔ اور حد بمعنی دو چیزوں کے درمیان کی روک حد المکان اس نے مکان کی حد بنائی۔ اسی سے حدود اربعہ ہے یعنی چاروں طرف کی حدود۔ گویا حد کسی چیز کا انتہائی اور آخری کنارہ ہے جو اسے دوسری چیزوں سے جدا کرتا ہے۔ اور حدود اللہ بمعنی اللہ کے وہ احکام جن سے تجاوز کرنا باعث گناہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 229)
اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔
3: حرف
حرف الجبل بمعنی پہاڑ کا تیز سرا، بلند ترین چوٹی۔ کہتے ہیں فلان علی حرف من امرہ یعنی فلاں شخص معاملہ کے کنارہ پر ہے۔ یعنی اگر کوئی چیز بھی خلاف مرضی ظاہر ہوئی تو اس سے کنارہ کش ہو جائے گا (منجد) تذبذب کی انتہائی منزل۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ (سورۃ الحج آیت 11)
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسکو کوئی دنیاوی فائدہ پہنچے تو اسکے سبب مطمئن ہو جائے اور اگر کوئی آفت آ پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے یعنی پھر کافر ہو جائے اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی یہی تو صاف نقصان ہے۔
4: افق
افق دو چیزوں کے اطراف دور اور آخر حد پر پہنچ کر آپس میں مل جانا (م ل) یا ایسا نظر آنا۔ اور اس ملے ہوئے کنارے کو افق کہتے ہیں جیسے فضا کی ایک طرف زمین ہے اور دوسری طرف آسمان۔ تو یہ آخر حد نگاہ پر جہاں ملتے نظر آئیں وہ افق ہے (جمع افاق) اور آفاق بمعنی وسعت عالم جن میں کافی وسعت اور بعد ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی (سورۃ النجم آیت 7)
جبکہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 53)
ہم عنقریب انکو اطراف عالم میں بھی اور خود انکی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تمکو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے۔
5: اقطار
قطر بمعنی قطار میں کھڑا کرنا۔ کہتے ہیں قطر البعیر الی البعیر اونٹوں کو ایک نظم (قطار) میں کھڑا کر دیا۔ اور اقطار الدنیا بمعنی دنیا کے چاروں گوشے، علم ہندسہ کی اصطلاح میں وہ خط مستقیم جو مرکز سے گزرتا ہو دائرہ کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دے (منجد)۔ گویا قطر میں خط مستقیم کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور گول چیز کا بھی۔ اور نیز یہ کہ ایسے قطر ہزاروں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں جس میں تمام اطراف اور جوانب آ جاتی ہیں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے، سیدھی اور مخالف سمتیں سب آ جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 14)
اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر ان سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو فوراً کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ (سورۃ الرحمن آیت 33)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تو تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔
6: ارجاء
رجا کی جمع ہے۔ بمعنی کسی گول چیز کا کنارہ۔ رجاء البئر کنویں کا کنارہ اور رجا السماء بمعنی آسمان کا کنارہ (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ (سورۃ الحاقۃ آیت 17)
اور فرشتے اسکے کناروں پر ہوں گے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔
7: شفا
یہ لفظ قرب ہلاکت کے لیے ضرب المثل ہے۔ شفا ہر اس چیز کے کنارہ کو کہتے ہیں جو اندر سے خالی اور کھوکھلی ہو اور جس کے کنارے پر کھڑے ہونے سے انسان کو گر کر ہلاک ہونے کا خطرہ رہتے ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اس نے تم کو اس سے بچا لیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 109)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اسکی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرنے والے کنارے پر رکھی پھر وہ اسکو دوزخ کی آگ میں لے گرا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
8: معزل
عزل بمعنی کنارہ کشی کرنا، ایک طرف ہونا اور بچ جانا۔ ابن الفارس کے الفاظ میں تدلّ علی تنجیۃ و امالۃ و ابعاد (م ل) یعنی معزل وہ کنارہ ہے جس طرف جانے سے انسان کی مصیبت سے بچ جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 42)
اور وہ انکو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کشتی سے الگ تھا پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔
9: شاطئ
بمعنی کسی چیز کے دو کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ (م ل) دریا یا وادی کی کوئی طرف یا کنارا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّاۤ اَتٰٮہَا نُوۡدِیَ مِنۡ شَاطِیَٴ الۡوَادِ الۡاَیۡمَنِ فِی الۡبُقۡعَۃِ الۡمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنۡ یّٰمُوۡسٰۤی اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 30)
سو جب اس کے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ اے موسٰی یہ میں ہوں اللہ تمام جہانوں کا پروردگار۔
10: ساحل
کا لفظ دریا یا سمندر کے کنارہ کے لیے مخصوص ہے (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اَنِ اقۡذِفِیۡہِ فِی التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِیۡہِ فِی الۡیَمِّ فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ (سورۃ طہ آیت 39)
وہ یہ تھا کہ اسے یعنی موسٰی کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا میں ڈالدو تو دریا اسکو کنارے پر ڈال دے گا اور میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا۔
11: اقصا
قصو میں دور ہونے اور دور رہنے کا تصور پایا جاتا ہے (م ل) اور اقصی بمعنی پرلی طرف کا، پرلا کنارہ۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ یس آیت 20)
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو۔
12: عدوۃ
عدا بمعنی دور ہونے والا مسافر، اور بمعنی وادی کا کنارہ۔ اور عدوۃ بمعنی بلند جگہ، وادی کا کنارہ (منجد) یعنی عدوۃ کسی وادی یا میدان کے ایسے کنارہ کو کہتے ہیں جو دور بھی ہو اور جگہ بھی بلند ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ (سورۃ الانفال آیت 42)
جس وقت تم مدینے سے قریب کے ناکے پر تھے اور کافر دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا۔
13: صدف
پہاڑوں کے درمیان کھلے میدان کو وادی کہتے ہیں۔ اور پہاڑوں کے کنارے جو اس وادی کی حدود ہوتی ہیں صدف کہلاتی ہیں۔ لہذا صدف کا ترجمہ وادی کا کنارہ بھی کر لیا جاتا ہے لیکن پہاڑ کا کنارہ اس کا موزوں تر ترجمہ ہے۔ چنانچہ امام راغب اس کا معنی پہاڑ کا کنارہ ہی کرتے ہیں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا (سورۃ الکہف آیت 96)
تم لوہے کے بڑے بڑے تختے میرے پاس لاؤ چنانچہ کام جاری کر دیا گیا یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا حصہ برابر کر دیا اور کہا کہ اب اسے دھونکو۔ یہانتک کہ جب اس کو دھونک دھونک کر آگ کر دیا تو کہا کہ اب میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔
ماحصل:
- طرف: ہر شے کی آخر حد، سرا۔
- حدّ: ہر شے کی آخری حد جو دوسری چیزوں سے علیحدہ کر دے۔
- حرف: نوکدار کنارہ، تذبذب کی انتہائی منزل
- افق: دو گول چیزوں کی اطراف کا دور جا کر مقام اتصال۔
- اقطار: کسی گول چیز کے اندر کے اطراف و جوانب۔
- ارجاء: گول چیز مثلاً کنویں یا آسمان کا کنارہ۔
- شفا: ایسی چیز کا کنارہ جو اندر سے کھوکھلی ہو اور گرنے سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، ہلاکت کا کنارہ۔
- معزل: ایسا کنارہ جو پناہ کا کام دے۔
- شاطئ: میدان یا دریا کے کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ۔
- ساحل: دریا یا سمندر کا کنارہ۔
- اقصا: پرلا کنارہ۔
- عدوۃ: دور کا کنارہ جو بلندی پر ہو۔
- صدف: پہاڑ کا کنارہ۔