مترادفات القرآن (ک)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھینچنا​

کے لیے مدّ، جرّ، اضطرّ، سلخ، نزع اور سفع کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: مدّ

بمعنی کسی چیز کو کھینچ کر لمبا یا دراز کرنا اور پھیلا دینا (مف) اس طرح کہ اتصال قائم رہے (م ل) اور مدّت بمعنی زمانہ کی لمبائی۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِخۡوَانُہُمۡ یَمُدُّوۡنَہُمۡ فِی الۡغَیِّ ثُمَّ لَا یُقۡصِرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 202)
اور ان کفار کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں پھر اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔
اور مدّد تاکید مزید کے طور پر آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ (سورۃ الھمزۃ آیت 9)
یعنی آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں۔

2: جرّ

بمعنی کھینچنا اور گھسیٹنا (م ل) زمین پر کھینچنا۔ اور جیش جرّار بمعنی بہت بڑا لشکر جو وسیع رقبے میں پھیلا ہوا آگے بڑھتا ہے جیسے کھچا چلا آ رہا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ (سورۃ الاعراف آیت 150)
اور شدت غضب سے تورات کی تختیاں ڈالدیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔

3: اضطرّ

کسی کو جبرا کسی کام کی طرف کھینچنا، مجبور و بے بس کر کے کام پر کھینچ لانا (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّہٗۤ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ (سورۃ البقرۃ آیت 126)
تو اللہ نے فرمایا کہ جو کافر ہو گا میں اس کو بھی کچھ مدت تک سامان زندگی دوں گا مگر پھر اس کو عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے مجبور کر دوں گا اور وہ بری جگہ ہے۔

4: سلخ

کسی جاندار کی کھال کھینچ کر اتارنا (مف) سانپ کی کینچلی اتارنا۔ اور ابن الفارس کے الفاظ میں جلد پر سے کوئی شے نکالنا (م ل) اور سلخت الشّھر بمعنی مہینے کا آخری دن ہو جانا (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚۖ نَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ (سورۃ یس آیت 37)
اور ایک نشانی انکے لئے رات ہے کہ اس پر سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اسی وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

5: نزع

بمعنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنا (مف) جیسے جسم سے روح کو نکالنا، کھینچ کر کوئی چیز نکال لینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ (سورۃ الاعراف آیت 43)
اور جو کینے انکے سینوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے ان کے محلوں کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی

6: سفع

بمعنی گھوڑے کے پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر کھینچنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ (سورۃ العلق آیت 15)
دیکھو اگر وہ باز نہ آئے گا تو ہم اسکی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔

ماحصل:

  • مدّ: کھینچنا اور پھیلانا، لمبا کرنا کہ چیز متصل ہی رہے۔
  • جرّ: کسی کو زمین پر کھینچنا اور گھسیٹنا۔
  • اضطرّ: قہراً اور جبرا کسی کو کھینچ کر کسی کام کی طرف لانا۔
  • سلخ: جلد سے کھال کھینچنا۔
  • نزع: کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنا۔
  • سفع: (بالناصیۃ) پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کھیلنا​

کے لیے لعب، لھی (لھو) اور عبث کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: لعب

بمعنی کھیلنا، تفریح کی خاطر کوئی کام کرنا، ایسا کام کرنا جس پر کوئی فائدہ مرتب نہ ہو۔ اور لعبۃ بمعنی کھیل، کھیل کی باری جس سے کھیلا جائے۔ اور لاعب اور لعب بمعنی کھلاڑی۔ اور ملاعب بمعنی کھیل کا ساتھی (منجد)۔ قرآن میں ہے:
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 83)
تو انکو بک بک کرنے اور کھیلنے دو۔ یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اسکو دیکھ لیں۔

2: لھی

بمعنی تماشا اور ہر وہ کام جو تفریح طبع کے لیے کیا جائے۔ اور یہ لعب سے اعم ہے۔ لھو میں کھیلنا بھی شامل ہے اور کھیل کو دیکھنا یا تماشا کرنا یا دیکھنا وغیرہ سب شامل ہے۔ یعنی ہر وہ کام جو با مقصد کاموں سے توجہ ہٹائے رکھے اور دل لگی کا باعث ہو وہ لھو ہے۔ اور الھی بمعنی ایسے دل لگی کے کاموں کا اصل مقصد کے کاموں سے غافل کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 32)
اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور مشغلہ ہے۔ اور بہت اچھا گھر تو آخرت کا گھر ہے یعنی انکے لئے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں۔

3: عبث

یہ لھو سے بھی اعم ہے۔ یعنی کام تو با مقصد کیا جائے لیکن اس کو کھیل کود سمجھ کر ہی کیا جائے۔ اور اس آمیزش سے اس کام کو بے مقصد اور بے نتیجہ بنا دیا جائے (مف) اور عبث بمعنی کھیل کود کرنا بھی ہے اور ایک چیز میں دوسری کو ملانا بھی۔ عبث الشئ بالّشئ بمعنی ایک چیز کو دوسری میں ملا دینا۔ اور عبث بمعنی مذاق کرنا، کھیل کود کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 115)
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمکو بے مقصد پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟

ماحصل:

  • لعب: بمعنی کھیلنا۔
  • لھی: لعب سے اعم ہے۔ ہر وہ کام جو مقصد سے غافل کر دے۔
  • عبث: بے مقصد کام کنا یا با مقصد کام میں کھیل کو ملا کر اسے بے فائدہ بنا دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کیا؟​

کے لیے ء، ھل (حروف) اور ما (اسمیہ) اور ماذا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ء

"کیا" کے معنوں میں اس حرف کا استعمال عام ہے۔ اسم، فعل، حرف سب پر داخل ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 144)
اور محمد ﷺ ایک پیغمبر ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گذرے ہیں۔ بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ شکرگذاروں کو بڑا ثواب دے گا۔
قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ (سورۃ الانبیاء آیت 62)
جب ابراہیم آئے تو بت پرستوں نے کہا کہ ابراہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے کیا ہے؟

2: ھل

حروف استفہام۔ اسم اور فعل پر داخل ہوتا ہے۔ حرف پر نہیں ہوتا۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ (سورۃ الرعد آیت 16)
ہو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟

3: ما (اسمیہ – استفہامیہ)

صرف غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 52)
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی برادری والوں سے کہا یہ کیسی مورتیں ہیں جنکی پرستش پر تم لوگ جمے ہوئے ہو۔

4: ماذا

ما اسمیہ استفہامیہ کے ساتھ ذا کے اضافہ سے اس کے معنوں میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ "کیا اور کونسا" دونوں مفہوم ادا کرتا ہے۔ نیز ذوی العقول کے لیے بھی آ سکتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 219)
اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کونسا مال خرچ کریں۔
وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُ مَاذَاۤ اَجَبۡتُمُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 65)
اور جس روز اللہ انکو پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کیسے؟​

کے لیے کیف اور انّی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: کیف

کسی چیز کی کیفیت اور ماہیت پوچھنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 17)
تو کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب پیدا کئے گئے ہیں۔

2: انّی

کسی کام کی وجہ پوچھنے کے لیے آتا ہے، کیونکر۔ جیسے فرمایا:
قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ (سورۃ البقرۃ آیت 247)
وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

کیوں – کیوں نہ​

کے لیے لم، لو لا اور لو ما کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لم

بمعنی کیوں، کس لیے۔ جیسے فرمایا:
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا (سورۃ طہ آیت 125)
وہ کہے گا کہ میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔

2: لو لا

بمعنی کیوں نہ۔ ھلّا کے معنی میں توبیخ اور تخصیص کے لیے آتا ہے اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا بھی ضروری ہے۔ تخصیص کی صورت میں فعل مضارع کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جیسے:
قَالَ یٰقَوۡمِ لِمَ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبۡلَ الۡحَسَنَۃِ ۚ لَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرُوۡنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 46)
صالح نے کہا کہ اے قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو اور اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اور توبیخ کی صورت میں فعل ماضی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جیسے:
لَوۡ لَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ ۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ (سورۃ النور آیت 13)
یہ بہتان لگانے والے اپنی بات کی تصدیق کے لئے چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں۔

3: لو ما

حروف تخصیص ہے۔ اور مضارع پر داخل ہو کر لو لا کے معنی دیتا ہے۔ قرآن میں ہے:
لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ حجر آیت 7)
اگر تو سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتا۔
 
Top