گرنا – گرانا
کے لیے
سقط، خرّ، ھدم، انقض، ھبط، وق، ھار، انھار (ھور)، ھوی، خوی، وجب، ردی، صرع، تلّ، تعس، ادّرک، انھمر، صبّ، سکب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: سقط
کسی چیز کا بلندی سے زمین پر گرنا۔ اس کا استعمال عام ہے تاہم اس میں تحقیر کا پہلو پایا جاتا ہے۔ جیسے رجل ساقط بمعنی کمینہ آدمی (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ لَا یَعۡلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ الانعام آیت 59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنکو اسکے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اسکو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔
پھر جس طرح یہ لفظ مادی طور پر استعمال ہوتا ہے معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 49)
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑ گئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
اور سقط فی یدہ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے بمعنی کسی کا نادم و شرمندہ ہونا۔ صرف ضمیر کی تبدیلی سے صیغہ بدلتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 149)
اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
اور گرانا کے لیے اسقط استعمال ہو گا۔ قرآن میں ہے:
فَاَسۡقِطۡ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 187)
سو اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ۔
2: خرّ
کسی چیز کا آواز اور اضطراب کے ساتھ گرنا (م ل) یعنی گرتے وقت بے چینی یا لرزش بھی ہو اور گرنے پر آواز بھی پیدا ہو اور خریر بمعنی پانی کے گرنے کی یا ٹپکنے کی آواز (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ (سورۃ سباء آیت 14)
پھر جب ہم نے انکے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو انکے عصا کو کھاتا رہا پھر جب وہ گر پڑے تب جنوں کو معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔
3: ھدم
کسی عمارت یا تعمیر کا گرنا (م ل) اور ھدّم بمعنی کسی عمارت کو مسمار کرنا، گرانا، ڈھا دینا۔ انھدام مشہور لفظ ہے جو ھدم کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (سورۃ الحج آیت 40)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اسکی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ توانا ہے غالب ہے۔
4: ھدّ
کسی عمارت وغیرہ کا ٹوٹ کر دھڑام سے زمین پر گرنا جس سے آواز پیدا ہو (م ل) اور بمعنی شدۃ الہدم (ف ل 47)۔ ارشاد باری ہے:
تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا (سورۃ مریم آیت 90)
قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔
5: انقضّ
کسی عمارت یا دیوار کا تڑخ جانا اور گرنے کے قریب ہونا (ف ل 297) قضّ الحائط بمعنی دیوار کو گرانا۔ اور انقضّ الحائط بمعنی دیوار پھٹی اور گر پڑی (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا (سورۃ الکہف آیت 77)
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے انکی ضیافت کرنے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو خضر نے اسکو سیدھا کر دیا۔ موسٰی نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کا معاوضہ لے لیتے تاکہ کھانے کا کام چلتا۔
6: ھبط
بمعنی گرنا، اترنا، نکلنا۔ اس لفظ میں قہر اور اضطرار کا پہلو پایا جاتا ہے (مف) ھبط الثمن بمعنی قیمت گر گئی۔ ھبط الزمان زمانہ نے اسے امیر سے غریب بنا دیا۔ ھبط المرض بیماری نے اس کا گوشت کھا کر اسے دبلا اور کمزور بنا دیا (منجد، م ق) لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ آیت 74)
اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
پھر ھبط میں قہر اور اضطرار کے علاوہ کبھی تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ نکل جاؤ GETOUT کے معنی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 38)
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ
اس مفہوم کو کسی شاعر نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے
اور درج ذیل آیت:
قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ ھود آیت 48)
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر نازل کی گئ ہیں اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جنکو ہم دنیا کے فوائد سے بہرہ مند کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔
میں بسلم کا لفظ ھبط اور قہر و اضطرار یا تحقیر کے سب پہلوؤں کو خارج کر کے مشیت ایزدی کے مطابق بنا رہا ہے۔
7: وقع
بمعنی گرنا، ثابت ہونا، واقع ہونا۔ یہ لفظ عموماً کراہت شدت اور تکلیف کا ذکر کرنے کے لیے آتا ہے۔ اور واقعہ سے مراد ایسا حادثہ ہوتا ہے جس میں سختی ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 171)
اور جب ہم نے ان کے سروں پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے۔ تو ہم نے کہا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو تاکہ پرہیزگار بن جاؤ۔
8: ھار
(ھور) بمعنی کسی چیز کا اس طرح گرنا کہ اس کا کچھ حصہ دوسرے پر گر پڑے (م ل) اور انھار اور انھدام قریب المعنی ہیں۔ انھدام صرف عمارت یا تعمیر یا دیوار کے لیے آتا ہے جبکہ انھار کا دائر وسیع ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 109)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اسکی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرنے والے کنارے پر رکھی پھر وہ اسکو دوزخ کی آگ میں لے گرا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
9: ھوی
ھوا مشہور لفظ ہے۔ یعنی آسمان اور زمین کے درمیان فضا کو کہتے ہیں۔ اور ھوی بمعنی فضا یا بہت بلندی سے کسی چیز کا زمین پر گرنا (م ل) ستارہ کے گرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (فل 297)۔ ارشاد باری ہے:
وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی (سورۃ النجم آیت 1)
ستارے کی قسم جب غائب ہونے لگے۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ (سورۃ حج آیت 31)
صرف ایک اللہ کے ہو کر اور اسکے ساتھ شریک نہ ٹھہرا کر اور جو شخص کسی کو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے پھر اسکو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور کی جگہ اڑا کر پھینک دے۔
10: خوی
خوی اور ھوی قریب المعنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ھوا زمین اور آسمان کے درمیان خالی جگہ کو کہتے ہیں اور خوی کوئی بھی دو چیزی کے درمیان خالی جگہ کو۔ جیسے ستارے کے گرنے کے لیے ھوی النّجم کا لفظ استعمال ہوتا ہے ویسے ہی خوی النجم کا بھی ہوتا ہے (م ل) تخویۃ بمعنی دو چیزوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا۔ اور خوی الدار بمعنی ایسے مکان کا گرنا جو بے آباد اور ویران ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 259)
یا اسی طرح اس شخص کو نہیں دیکھا جس کا ایک بستی پر جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی گذر ہوا۔
11: وجب
الوجبۃ بمعنی کسی چیز کا دھماکے کے ساتھ گرنا (منجد) پھر اس میں موت کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ضربہ فوجب اس نے اس کو مارا اور وہ گر کر مر گیا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ (سورۃ الحج آیت 35)
تو قربانی کرنے کے وقت قطار باندھ کر ان پر اللہ کا نام لو۔ پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔
12: ردی
بمعنی کسی چیز کو اس طرح بلندی سے زمین پر یا زمین سے گڑھے میں پٹخ دینا کہ وہ ہلاک ہونے کو پہنچ جائے (مف، م ق)۔ قرآن میں ہے:
فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی (سورۃ طہ آیت 16)
تو جو شخص اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے کہیں تمکو اس کے یقین سے روک نہ دے تو اس صورت میں تم ہلاک ہو جاؤ۔
اور اردی الرّجل بمعنی کسی کو کنویں میں گرا دینا۔ اور ردّی الرجل بمعنی آدمی کو گرانا، ہلاک کرنا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ تَاللّٰہِ اِنۡ کِدۡتَّ لَتُرۡدِیۡنِ (سورۃ الصافات آیت 56)
کہے گا کہ اللہ کی قسم تو تو مجھے بھی ہلاک کرنے لگا تھا۔
اور تردّی بمعنی کنویں یا گڑھے میں گر پڑنا ہے (م ق) اور متردّیۃ وہ جانور جو کسی گڑھے یا کنویں میں گر کر مر جائے (سورۃ المائدۃ آیت 2)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَا لُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی (سورۃ اللیل آیت 11)
اور جب وہ دوزخ کے گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اسکے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔
13: صرع
بمعنی گھبراہٹ اور اضطراب کی وجہ سے زمین پر گر پڑنا (فل 130) اور بمعنی سر کے عارضہ (مرگی) کی وجہ سے زمین پر پچھڑنا (منجد) اور صرع بمعنی مرگی جس کی وجہ سے مریض بے خود ہو کر دھڑام سے زمین پر گر پڑتا ہے۔ اور صرع بمعنی کشتی میں اپنے حریف کو زمین پر پٹخ دینا اور پچھاڑنا بھی ہے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ (سورۃ الحاقہ آیت 7)
اللہ نے اسکو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو اے مخاطب تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح گرے ہوئے دیکھتا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔
14: تلّ
بمعنی کسی کو اوندھے منہ یعنی پیشانی کے بل گرانا (ف ل 189)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ (سورۃ الصافات آیت 103)
اس طرح جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا۔
15: تعس
بمعنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا، پستی میں گر کر کسی چیز کا ٹوٹ جانا (مف) اور بمعنی منہ کے بل گرا اور ہلاک ہوا (م ق) اور تعس بمعنی پھسلنا اور منہ کے بل گرنا اور التّعسۃ بمعنی ہلاکت (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 8)
اور جو کافر ہیں انکے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ انکے اعمال کو برباد کر دے گا۔
وہ منہ کے بل گرے (عثمانی)
16: ادّرک
درک بمعنی کسی چیز کا پیچھے سے دوسری سے ملنا اور پھر اس کے ساتھ مل جانا (م ل) درک سمندر کی تہہ کو بھی کہتے ہیں اور اس رسی کو بھی جس کے ساتھ پانی کی تہ تک پہنچنے کے لیے دوسری رسی باندھ کر ملائی جاتی ہے (مف) اور اس طرح کسی ذریعہ سے کسی چیز کی غایت کو پہنچنے کو ادرک کہتے ہیں۔ قرآن میں فرعون کے متعلق ہے:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ (سورۃ یونس آیت 90)
یہاں تک کہ جب اسکو غرق کرنے والے عذاب نے آ پکڑا۔
کا مطلب یہ ہے کہ فرعون کی منزل مقصود یا غایت یہی تھی کہ وہ غرق ہو۔ تو ایسے اسباب ملتے گئے جو اسے غرق ہونے تک لے آئے۔ اور ادّرک میں بھی یہی تصور پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۟ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا ۫۟ بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 66)
بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہو چکا ہے بلکہ یہ اسکی طرف سے شک میں ہیں بلکہ یہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں۔
گویا علم کے تمام ذرائع کو اکٹھا اور مربوط کرنے کے بعد بھی وہ تھک ہار کر عاجز ہو کر منہ کی کھائیں گے۔ دوسرے مقام پر ہے:
کُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّۃٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَکُوۡا فِیۡہَا جَمِیۡعًا (سورۃ الاعراف آیت 38)
جب ایک جماعت وہاں جا داخل ہو گی تو اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کریگی۔ یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہو جائیں گے۔
گویا غایت یا منتہی جہنم میں پہنچنا ہے۔ اور تسلسل و ارتباط ایک جماعت کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کا آتے جانا اور گرتے جانا ہے۔
17: انھمر
ھمر الماء بمعنی اس نے پانی گرایا جو بہہ گیا۔ اور انھمر الماء بمعنی پانی گرا اور بہہ گیا (م ق) بمعنی پانی یا آنسو کا گرنا اور بہنا۔ ارشاد باری ہے:
فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ (سورۃ القمر آیت 11)
پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے۔
18: صبّ
صبّ (الماء) بمعنی اوپر سے ایک ہی دفعہ پانی انڈیلنا یا گرانا ہے (مف، فق ل 257) اور صبّ علیہ البلاء بمعنی اس پر مصیبت نازل کی (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا (سورۃ عبس آیت 24، 25)
تو انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے۔ بیشک ہم ہی نے پانی برسایا۔
19: سکب
سکب الماء بمعنی پانی کا گرانا اور گرنا۔ اور اسکب بمعنی لگاتار بارش۔ اور الاسکوب بمعنی لگاتار جھڑی۔ اور ماء مسکوب بمعنی جار دائما ہمیشہ بہنے والا پانی (م ق) گویا سکب میں پانی وغیرہ کو اوپر سے گرنا، بہنا اور تسلسل یا دوام تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ (سورۃ الواقعہ آیت 30، 31)
اور لمبے لمبے سایوں۔ اور بہتے پانی کے چشموں۔
ماحصل:
1) سقط: اوپر سے کوئی چیز گرنا۔
2) خرّ: اضطراب اور آواز کے ساتھ کسی چیز کا گرنا۔
3) ھدم: عمارت یا دیوار ی تعمیر کا گرنا۔
4) ھد: عمارت یا تعمیر کا دھڑام سے گرنا۔
5) انقض: دیوار یا عمارت کا پھٹ جانا اور گرنا یا گرنے کے قریب ہونا۔
6) ھبط: اضطرار یا تکلیف سے گرنا، اترنا، نکلنا۔
7) وقع: کسی چیز کے گرنے میں کراہت اور سختی بھی ہونا۔
8) ھار: کسی چیز کے کچھ حصے کا دوسرے پر گرنا۔
9) ھوی: آسمان یا بہت بلندی سے گرنا۔
10) خوی: دو چیزوں کے درمیان خلا سے گرنا۔
11) وجب: دھڑام سے گر کر مرنا، یا مرتے مرتے دھڑام سے گرنا۔
12) ردی: کسی گڑھے میں گر کر ہلاکت کو پہنچنا۔
13) صرع: پچھاڑنا اور پچھڑنا جیسے کشتی میں یا موت یا مرض سے۔
14) تلّ: ماتھے کے بل گرانا۔
15) تعس: ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنا۔
16) ادّرک: تھک ہار کر اور عاجز ہو کر گر پڑنا۔
17) انھمر: پانی کا گرنا اور بہنا۔
18) صبّ: پانی کا گرانا یا انڈیلنا اور بہنا (یکبارگی بہنا)۔
19) سکب: پانی کا لگا تار گرنا اور بہتے جانا۔