مترادفات القرآن (گ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گاڑنا​

کے لیے نصب، ارسی (رسو)، دسّ اور واد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نصب

بمعنی کسی چیز کو کھڑا کرنا اور گاڑنا، اس طرح کے اس کا کچھ حصہ زمین کے اندر ہو اور زیادہ حصہ باہر راسی اور سمت میں ہو جیسے زمین میں جھنڈا یا نیزہ گاڑنا یا عمارت یا پتھر کو کھڑا کرنے پر نصب کا لفظ بولا جاتا ہے (م ل، مف) اور نصب اس بت کو بھی کہتے ہیں جو کسی جگہ فٹ کر دیا گیا ہو، تھا (جمع انصاب اور نصب)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 19)
اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ (سورۃ المائدۃ آیت 3)
اور وہ جانور بھی جو غیر اللہ کے آستانے پر ذبح کیا جائے وہ بھی حرام ہے۔

2: ارسی

رسو بمعنی ثابت و استوار ہونا۔ اور ارسی بمعنی کسی چیز کو زمین میں اس طرح گاڑنا کہ اس کا زیادہ حصہ زمین کے اندر ہو اور تھوڑا باہر۔ کہتے ہیں رسا الوتد فی الارض بمعنی کھونٹے کو زمین میں گاڑا یا ٹھونک دیا (منجد) اور راسیہ بمعنی پہاڑ اور اس کی جمع رواسی ہے۔ راسیۃ ایسے پہاڑوں کو کہتے ہیں جو زمین پر دور دراز رقبہ میں پھیلے ہوں کہ ان کا زیادہ حصہ زیر زمین ہی ہوتا ہے۔ اور رواسی بمعنی سلسلہ ہائے کوہ۔ اور پہاڑ کے گاڑنے کے لیے اللہ نے نصب اور رسو دونوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا (سورۃ النازعات آیت 32)
اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔
نیز فرمایا:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡہٰرًا ؕ (سورۃ الرعد آیت 3)
اور وہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے۔

3: دسّ

بمعنی کسی چیز کو مٹی میں چھپا کر گم کر دینا (م ق) اور بمعنی ایک چیز کو دوسری چیز میں زبردستی داخل کرنا (مف) اور بمعنی کسی شے کو مٹی کے نیچے چھپانا، دھنسانا۔ اور دسّ علیہ بمعنی سازش کرنا، خفیہ حیلہ کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 10)
اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ نامراد رہا۔

4: واد

کسی زندہ کو مٹی کے بوجھ تلے دبا دینا (م ل)، زندہ در گور کرنا۔ یہ دسّ سے اخص ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ (سورۃ التکویر آیت 8، 9)
اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا۔ کہ وہ کس گناہ کے سبب قتل کر دی گئی۔

ماحصل:

  • نصب: جھنڈے کی طرح گاڑنا، تھورا حصہ زمین میں باقی سیدھا اوپر۔
  • ادسی: کھونٹے کی طرح ٹھونکنا، زمین کے اندر زیادہ حصہ۔
  • دسّ: کسی چیز کو زیر زمین دبا دینا یا گاڑ دینا۔
  • واد: کسی جاندار کو زمین میں دبانا۔
گرد و غبار کے لیے دیکھیے "غبار"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گردش (زمانہ کی)​

کے لیے ریب (المنون)، دائرۃ (دورر)، دولۃ اور داول کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ریب (المنون)

ریب بمعنی شک اور خلجان، اضطراب (تفصیل شک و شبہ میں دیکھیے)، تہمت، گردش۔ اور منی بمعنی آزمانا، مبتلا کرنا۔ نیز منیّۃ بمعنی موت، قصد، تقدیر الہی۔ اور منیّۃ کی جمع مانیا اور منون آتی ہے (منجد) اور ریب المنون محاورتا اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص دوسرے کے برے انجام کا منتظر ہو اور اس کا ترجمہ زمانہ کی گردش (حوادث زمانہ) سے کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ (سورۃ الطور آیت 30)
کیا کافر یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے اور ہم اسکے لئے زمانے کی گردش کا انتظار کر رہے ہیں۔

2: دائرۃ

دار بمعنی گھومنا، چکر کاٹنا۔ اور دائرۃ ایک تو معروف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ علم ہندسہ کی اصطلاح میں ایسا گول اور مستوی خط جس کا فاصلہ ہر مقام پر مرکز سے یکساں ہو۔ اور معنی گردش ایام، زمانہ کی آفتیں اور مصیبتیں (منجد) ہے۔ گویا یہ لفظ بھی برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر مصائب و شدائد کے نزول کی انتظار (جمع دوائر)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ مَغۡرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 98)
اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں۔ انہی پر بری مصیبت واقع ہو۔ اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔

3: دولۃ

دولۃ (د ضمہ) اور دولۃ (د فتحہ) دائرہ کے برعکس اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے (مف) دال الزمان بمعنی زمانہ کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پھرنا (منجد)، روپے پیسے کی گردش، خوشحالی کے ایام اور ان کی انتظار کے لیے آتا ہے۔ فے کے مال کی تقسیم اور مستحقین کی تفصیل بتلانے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں:
کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ (سورۃ حشر آیت 7)
تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 140)
اگر تمہیں زخم شکست لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے۔ اور یہ ایام زمانہ ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جدا کر دے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ بے انصافوں کو پسند نہیں کرتا۔

ماحصل:

ریب المنون اور دائرۃ میں فرق یہ ہے کہ ریب المنون کسی کی ہلاکت اور سخت شدائد کے لیے آتا ہے جبکہ دائرۃ میں اتنی شدت نہیں پائی جاتی اور دولۃ اچھے ایام کی طرف گردش کے لیے مستعمل ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گردن​

کے لیے عنق، جید، رقبۃ اور وتین کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عنق

گردن یا گلا، مشہور عضو انسانی۔ اس کا استعمال عام ہے (جمع اعناق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 13)
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال نامے کو بہ صورت کتاب اسکے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ اور قیامت کے روز وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔

2: جید

پتلی اور لمبی گردن (ف ل 110)، ہرن کی طرح کی خوبصورت گردن۔ قرآن میں ہے:
وَّ امۡرَاَتُہٗ ؕ حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ فِیۡ جِیۡدِہَا حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ (سورۃ المسد آیت 4، 5)
اور اسکی بیوی بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے۔ اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی۔

3: رقبۃ

بمعنی گردن یا اس کے پیچھے کا حصہ (گدی) اور رقب بمعنی کسی کے گلے میں رسی یا پھندا ڈالنا، نگرانی اور نگہبانی کرنا۔ اور اہل عرب عموماً جزء اشرف بول کر کل مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح رقبۃ سے مراد غلام لیا جاتا ہے کیونکہ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہوتا ہے (جمع رقاب) (منجد، مف) اور تحریر رقبۃ بمعنی گردن کو پھندے سے آزاد کرنا، یعنی غلام آزاد کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ (سورۃ البلد آیت 12، 13)
اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا؟ کسی کی گردن کا چھڑانا۔

4: وتین

بمعنی رگ گردن، دل سے سر کو جانے والی شاہ رگ (ف ل 114) گردن کی وہ جانب جدھر شاہ رگ ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ (سورۃ الحاقہ آیت 45، 46)
تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔

ماحصل:

  • عنق: گردن کے لیے عام لفظ۔
  • جید: لمبی اور خوبصورت گردن۔
  • رقبۃ: گردن اور اس کا پچھلا حصہ، گدی، غلامی کا پھندا۔
  • وتین: گردن کا سامنے کا حصہ جہاں شاہ رگ ہوتی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گرفت کرنا​

کے لیے اخذ، ثرّب اور لام (لوم) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اخذ

اخذ بمعنی کسی چیز کو پکڑنا، حاصل کر لینا، احاطہ میں لینا اور اخذ بمعنی مواخذہ کرنا، گرفت کرنا (مف) خواہ یہ مواخذہ قول سے ہو یا عمل سے۔ ارشاد باری ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہو گئ ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجیو۔

3: ثرّب

ثرب اور ثرّب بمعنی کسی کے فعل کو قبیح اور برا بتانا (منجد) اور بمعنی غلطی پر سرزنش اور زجر و توبیخ کرنا (مف) (فق ل 397)۔ قرآن میں ہے:
قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 92)
یوسف نے کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تم کو معاف کرے۔ اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

3: لام

بمعنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنا، ملامت کرنا (مف) اور بمعنی کسی کو اس کے کسی فعل کے نتیجہ پر تنبیہ کرنا (فق ل 39) اور لوم بمعنی ملامت اور خوف (منجد) گویا لام کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب فاعل کو کوئی فعل کرتے وقت یہ خدشہ ہو کہ اسے ملامت کی جائے گی خواہ یہ فعل فی نفسہ اچھا ہو یا برا۔ ارشاد باری ہے:
یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 54)
اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔

ماحصل:

  • اخذ: کسی نا پسندیدہ کام پر مواخذہ یا گرفت کرنا۔
  • تثریب: بمعنی زجر و توبیخ، ڈانٹ ڈپٹ، ملامت سے سخت تر ہے۔
  • لوم: برا بھلا کہنا۔ خواہ کام برا ہو یا نہ ہو، اس میں تثریب جیسی شدت نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گرمی – گرم کرنا – ہونا​

کے لیے صیف، حرپ، حمّ، حمی، سقر اور سموم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: صیف

موسم گرما اور صیّف بمعنی موسم گرما کی بارش بھی اور اس سے اگنے والی گھاس بھی اور صاف اور صیّف (بالمکان) بمعنی کسی جگہ موسم گرما گزارنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ (سورۃ القریش آیت 2)
یعنی انکو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کی بنا پر۔

2: حرّ

بمعنی حرارت، گرمی، خواہ یہ آگ کی ہو یا سورج یعنی دھوپ کی یا کسی دوسرے سبب سے ہو جیسے دو چیزوں کے رگڑنے سے حرارت پیدا ہو جاتی ہے۔ تاہم اس لفظ کا اطلاق عموماً دھوپ کی حدت پر ہوتا ہے۔ اور حرور بمعنی تپش، لو (نیز دیکھیے "دھوپ")۔ قرآن میں ہے:
فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَ کَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 81)
جو لوگ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے وہ اللہ کے پیغمبر کی مرضی کے برخلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور دوسروں سے بھی کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا ان سے کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے کاش یہ اس بات کو سمجھتے۔

3، 4: حمّ، حمی

یہ دونوں الفاظ اتنے قریب المعنی ہیں کہ ان میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل لغت ان دونوں کے مشتقات دونوں مادوں کے تحت لے آتے ہیں۔ گرمی حاصل ہونے کے ذرائع چار ہیں۔ آگ اور دھوپ مادی ذرائع ہیں۔ اور جذبات کی گرمی اور حرارت غریزی معنوی۔ ان چاروں ذرائع میں یہ دونوں مادے استعمال ہوتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ حمّ بطور متعدی استعمال ہوتا ہے اور حمی بطور لازم آتا ہے۔ لیکن جب صیغہ مجہول استعمال ہوتا ہے تو پھر ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً حمّ الماء بمعنی پانی گرم کرنا ہے۔ اور حمّ الرجل بمعنی آدمی کو بخار ہو گیا۔ اور حمّی بمعنی بخار۔ دونوں مادوں کے تحت اہل لغت نے درج کیا ہے۔ اور حمّ التّنور بمعنی تنور گرم کیا۔ اور حمی النار بمعنی آگ بھڑک اٹھی۔ اور حمیم بمعنی گرم پانی بھی اور ٹھنڈا پانی بھی (لغت اضداد) (م ا، منجد) اور بمعنی گرم جوش دوست یا رشتہ دار بھی۔ اس کا تعلق جذبات سے ہے۔ اور حمّ الظّھیرۃ بمعنی دوپہر کے وقت شدت کی گرمی۔ اور حمّۃ بمعنی گرم پانی کا چشمہ۔ اور حمّۃ بمعنی کوئلہ، راکھ یا آگر میں جلی ہوئی ہر شے۔ اور حمام بمعنی گرم پانی سے غسل کرنے کی جگہ (مف، منجد)۔ اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 70)
انکے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور دکھ دینے والا عذاب ہے اس لئے کہ کفر کرتے تھے۔
وَ لَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا (سورۃ المعارج آیت 10)
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔
وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا ہِیَہۡ نَارٌ حَامِیَۃٌ (سورۃ القارعہ آیت 10، 11)
اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا چیز ہے؟ وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔
اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الۡجَاہِلِیَّۃِ (سورۃ الفتح آیت 26)
جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی اور ضد بھی جاہلیت کی۔

5: سقر

بمعنی آگ یا دھوپ کا جھلس دینا۔ سقرتہ الشمس بمعنی دھوپ نے اسے جھلس دیا۔ پھر یہ لفظ جہنم کا علم بن گیا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ یُسۡحَبُوۡنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ ؕ ذُوۡقُوۡا مَسَّ سَقَرَ (سورۃ القمر آیت 48)
اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے کہا جائے گا لو اب آگ کا مزہ چکھو۔

6: سموم

سمّ بمعنی تنگ سوراخ جیسے سوئی کا ناکہ یا کان یا ناک کا سوراخ۔ نیز سمّ بمعنی زہر قاتل۔ اور سموم بمعنی لو اور گرم ہوا جو زہر کی طرح بدن کے اندر تک سرایت کر جائے۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ (سورۃ الطور آیت 27)
تو اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور دوزخ کی گرم ہوا کے عذاب سے ہمیں بچا لیا۔

ماحصل:

  • صیف: موسم گرما۔
  • حرّ: حرارت، سورج کی تپش۔
  • حمّ، حمی: ہم معنی ہیں اور گرمی اور گرم جوشی میں ہر طرح سے استعمال ہوتے ہیں۔
  • سقر: دوزخ، تپش کا جسم کو جھلس ڈالنا۔
  • سموم: سخت گرم ہوا جو بدن میں سرایت کر جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گرمی حاصل کرنا​

کے لیے دفء اور اصطلی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: دفء

دفئ (من البرد) بمعنی گرم ہونا، گرمی پانا یا گرمی محسوس کرنا، ٹھنڈک سے بچنا اور گرم ہونا (پنجابی نگّھا ہونا) اور دفّا بمعنی گرم کرنا اور ادفا بمعنی گرم کپڑا پہننا۔ اور دفء بمعنی سخت گرمی بھی اور گرمی حاصل کرنے کا سامان بھی۔ اور الدّفاء بمعنی گرم کپڑے، گرمی حاصل کرنے کا سامان (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 5)
اور مویشیوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ ان میں تمہارے لئے سردی سے بچاؤ اور بہت سے دوسرے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔

2: اصطلی

صلی بمعنی آگ میں داخل ہونا۔ اور اصطلی اور صلّی بمعنی آگ میں داخل کرنا۔ اور اصطلی بمعنی آگ سے گرمی حاصل کرنا، آگ تاپنا، سینکنا اور جسم کو ٹھنڈک سے بچنے کے لیے گرم کرنا۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِاَہۡلِہٖۤ اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا ؕ سَاٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ اٰتِیۡکُمۡ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 7)
جب موسٰی نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے رستے کا پتہ لاتا ہوں یا کوئی شعلہ یعنی ایک انگارہ تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم آگ تاپو۔

ماحصل:

گرم کپڑوں سے گرمی حاصل کرنے کے لیے دفا اور آگ سے گرمی حاصل کرنے کے لیے اصطلی آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گرنا – گرانا​

کے لیے سقط، خرّ، ھدم، انقض، ھبط، وق، ھار، انھار (ھور)، ھوی، خوی، وجب، ردی، صرع، تلّ، تعس، ادّرک، انھمر، صبّ، سکب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سقط​

کسی چیز کا بلندی سے زمین پر گرنا۔ اس کا استعمال عام ہے تاہم اس میں تحقیر کا پہلو پایا جاتا ہے۔ جیسے رجل ساقط بمعنی کمینہ آدمی (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ لَا یَعۡلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ الانعام آیت 59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنکو اسکے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اسکو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔
پھر جس طرح یہ لفظ مادی طور پر استعمال ہوتا ہے معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 49)
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑ گئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
اور سقط فی یدہ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے بمعنی کسی کا نادم و شرمندہ ہونا۔ صرف ضمیر کی تبدیلی سے صیغہ بدلتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 149)
اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
اور گرانا کے لیے اسقط استعمال ہو گا۔ قرآن میں ہے:
فَاَسۡقِطۡ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 187)
سو اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ۔

2: خرّ​

کسی چیز کا آواز اور اضطراب کے ساتھ گرنا (م ل) یعنی گرتے وقت بے چینی یا لرزش بھی ہو اور گرنے پر آواز بھی پیدا ہو اور خریر بمعنی پانی کے گرنے کی یا ٹپکنے کی آواز (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ (سورۃ سباء آیت 14)
پھر جب ہم نے انکے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو انکے عصا کو کھاتا رہا پھر جب وہ گر پڑے تب جنوں کو معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔

3: ھدم​

کسی عمارت یا تعمیر کا گرنا (م ل) اور ھدّم بمعنی کسی عمارت کو مسمار کرنا، گرانا، ڈھا دینا۔ انھدام مشہور لفظ ہے جو ھدم کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (سورۃ الحج آیت 40)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اسکی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ توانا ہے غالب ہے۔

4: ھدّ​

کسی عمارت وغیرہ کا ٹوٹ کر دھڑام سے زمین پر گرنا جس سے آواز پیدا ہو (م ل) اور بمعنی شدۃ الہدم (ف ل 47)۔ ارشاد باری ہے:
تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا (سورۃ مریم آیت 90)
قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔

5: انقضّ​

کسی عمارت یا دیوار کا تڑخ جانا اور گرنے کے قریب ہونا (ف ل 297) قضّ الحائط بمعنی دیوار کو گرانا۔ اور انقضّ الحائط بمعنی دیوار پھٹی اور گر پڑی (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا (سورۃ الکہف آیت 77)
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے انکی ضیافت کرنے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو خضر نے اسکو سیدھا کر دیا۔ موسٰی نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کا معاوضہ لے لیتے تاکہ کھانے کا کام چلتا۔

6: ھبط​

بمعنی گرنا، اترنا، نکلنا۔ اس لفظ میں قہر اور اضطرار کا پہلو پایا جاتا ہے (مف) ھبط الثمن بمعنی قیمت گر گئی۔ ھبط الزمان زمانہ نے اسے امیر سے غریب بنا دیا۔ ھبط المرض بیماری نے اس کا گوشت کھا کر اسے دبلا اور کمزور بنا دیا (منجد، م ق) لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ آیت 74)
اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
پھر ھبط میں قہر اور اضطرار کے علاوہ کبھی تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ نکل جاؤ GETOUT کے معنی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 38)
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ
اس مفہوم کو کسی شاعر نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے

اور درج ذیل آیت:
قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ ھود آیت 48)
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر نازل کی گئ ہیں اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جنکو ہم دنیا کے فوائد سے بہرہ مند کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔
میں بسلم کا لفظ ھبط اور قہر و اضطرار یا تحقیر کے سب پہلوؤں کو خارج کر کے مشیت ایزدی کے مطابق بنا رہا ہے۔

7: وقع​

بمعنی گرنا، ثابت ہونا، واقع ہونا۔ یہ لفظ عموماً کراہت شدت اور تکلیف کا ذکر کرنے کے لیے آتا ہے۔ اور واقعہ سے مراد ایسا حادثہ ہوتا ہے جس میں سختی ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 171)
اور جب ہم نے ان کے سروں پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے۔ تو ہم نے کہا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو تاکہ پرہیزگار بن جاؤ۔

8: ھار​

(ھور) بمعنی کسی چیز کا اس طرح گرنا کہ اس کا کچھ حصہ دوسرے پر گر پڑے (م ل) اور انھار اور انھدام قریب المعنی ہیں۔ انھدام صرف عمارت یا تعمیر یا دیوار کے لیے آتا ہے جبکہ انھار کا دائر وسیع ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 109)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اسکی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرنے والے کنارے پر رکھی پھر وہ اسکو دوزخ کی آگ میں لے گرا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

9: ھوی​

ھوا مشہور لفظ ہے۔ یعنی آسمان اور زمین کے درمیان فضا کو کہتے ہیں۔ اور ھوی بمعنی فضا یا بہت بلندی سے کسی چیز کا زمین پر گرنا (م ل) ستارہ کے گرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (فل 297)۔ ارشاد باری ہے:
وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی (سورۃ النجم آیت 1)
ستارے کی قسم جب غائب ہونے لگے۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ (سورۃ حج آیت 31)
صرف ایک اللہ کے ہو کر اور اسکے ساتھ شریک نہ ٹھہرا کر اور جو شخص کسی کو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے پھر اسکو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور کی جگہ اڑا کر پھینک دے۔

10: خوی​

خوی اور ھوی قریب المعنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ھوا زمین اور آسمان کے درمیان خالی جگہ کو کہتے ہیں اور خوی کوئی بھی دو چیزی کے درمیان خالی جگہ کو۔ جیسے ستارے کے گرنے کے لیے ھوی النّجم کا لفظ استعمال ہوتا ہے ویسے ہی خوی النجم کا بھی ہوتا ہے (م ل) تخویۃ بمعنی دو چیزوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا۔ اور خوی الدار بمعنی ایسے مکان کا گرنا جو بے آباد اور ویران ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 259)
یا اسی طرح اس شخص کو نہیں دیکھا جس کا ایک بستی پر جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی گذر ہوا۔

11: وجب​

الوجبۃ بمعنی کسی چیز کا دھماکے کے ساتھ گرنا (منجد) پھر اس میں موت کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ضربہ فوجب اس نے اس کو مارا اور وہ گر کر مر گیا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ (سورۃ الحج آیت 35)
تو قربانی کرنے کے وقت قطار باندھ کر ان پر اللہ کا نام لو۔ پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔

12: ردی​

بمعنی کسی چیز کو اس طرح بلندی سے زمین پر یا زمین سے گڑھے میں پٹخ دینا کہ وہ ہلاک ہونے کو پہنچ جائے (مف، م ق)۔ قرآن میں ہے:
فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی (سورۃ طہ آیت 16)
تو جو شخص اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے کہیں تمکو اس کے یقین سے روک نہ دے تو اس صورت میں تم ہلاک ہو جاؤ۔
اور اردی الرّجل بمعنی کسی کو کنویں میں گرا دینا۔ اور ردّی الرجل بمعنی آدمی کو گرانا، ہلاک کرنا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ تَاللّٰہِ اِنۡ کِدۡتَّ لَتُرۡدِیۡنِ (سورۃ الصافات آیت 56)
کہے گا کہ اللہ کی قسم تو تو مجھے بھی ہلاک کرنے لگا تھا۔
اور تردّی بمعنی کنویں یا گڑھے میں گر پڑنا ہے (م ق) اور متردّیۃ وہ جانور جو کسی گڑھے یا کنویں میں گر کر مر جائے (سورۃ المائدۃ آیت 2)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَا لُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی (سورۃ اللیل آیت 11)
اور جب وہ دوزخ کے گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اسکے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔

13: صرع​

بمعنی گھبراہٹ اور اضطراب کی وجہ سے زمین پر گر پڑنا (فل 130) اور بمعنی سر کے عارضہ (مرگی) کی وجہ سے زمین پر پچھڑنا (منجد) اور صرع بمعنی مرگی جس کی وجہ سے مریض بے خود ہو کر دھڑام سے زمین پر گر پڑتا ہے۔ اور صرع بمعنی کشتی میں اپنے حریف کو زمین پر پٹخ دینا اور پچھاڑنا بھی ہے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ (سورۃ الحاقہ آیت 7)
اللہ نے اسکو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو اے مخاطب تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح گرے ہوئے دیکھتا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔

14: تلّ​

بمعنی کسی کو اوندھے منہ یعنی پیشانی کے بل گرانا (ف ل 189)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ (سورۃ الصافات آیت 103)
اس طرح جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا۔

15: تعس​

بمعنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا، پستی میں گر کر کسی چیز کا ٹوٹ جانا (مف) اور بمعنی منہ کے بل گرا اور ہلاک ہوا (م ق) اور تعس بمعنی پھسلنا اور منہ کے بل گرنا اور التّعسۃ بمعنی ہلاکت (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 8)
اور جو کافر ہیں انکے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ انکے اعمال کو برباد کر دے گا۔
وہ منہ کے بل گرے (عثمانی)

16: ادّرک​

درک بمعنی کسی چیز کا پیچھے سے دوسری سے ملنا اور پھر اس کے ساتھ مل جانا (م ل) درک سمندر کی تہہ کو بھی کہتے ہیں اور اس رسی کو بھی جس کے ساتھ پانی کی تہ تک پہنچنے کے لیے دوسری رسی باندھ کر ملائی جاتی ہے (مف) اور اس طرح کسی ذریعہ سے کسی چیز کی غایت کو پہنچنے کو ادرک کہتے ہیں۔ قرآن میں فرعون کے متعلق ہے:
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ (سورۃ یونس آیت 90)
یہاں تک کہ جب اسکو غرق کرنے والے عذاب نے آ پکڑا۔
کا مطلب یہ ہے کہ فرعون کی منزل مقصود یا غایت یہی تھی کہ وہ غرق ہو۔ تو ایسے اسباب ملتے گئے جو اسے غرق ہونے تک لے آئے۔ اور ادّرک میں بھی یہی تصور پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۟ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا ۫۟ بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 66)
بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہو چکا ہے بلکہ یہ اسکی طرف سے شک میں ہیں بلکہ یہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں۔
گویا علم کے تمام ذرائع کو اکٹھا اور مربوط کرنے کے بعد بھی وہ تھک ہار کر عاجز ہو کر منہ کی کھائیں گے۔ دوسرے مقام پر ہے:
کُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّۃٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَکُوۡا فِیۡہَا جَمِیۡعًا (سورۃ الاعراف آیت 38)
جب ایک جماعت وہاں جا داخل ہو گی تو اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کریگی۔ یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہو جائیں گے۔
گویا غایت یا منتہی جہنم میں پہنچنا ہے۔ اور تسلسل و ارتباط ایک جماعت کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کا آتے جانا اور گرتے جانا ہے۔

17: انھمر​

ھمر الماء بمعنی اس نے پانی گرایا جو بہہ گیا۔ اور انھمر الماء بمعنی پانی گرا اور بہہ گیا (م ق) بمعنی پانی یا آنسو کا گرنا اور بہنا۔ ارشاد باری ہے:
فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ (سورۃ القمر آیت 11)
پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے۔

18: صبّ​

صبّ (الماء) بمعنی اوپر سے ایک ہی دفعہ پانی انڈیلنا یا گرانا ہے (مف، فق ل 257) اور صبّ علیہ البلاء بمعنی اس پر مصیبت نازل کی (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا (سورۃ عبس آیت 24، 25)
تو انسان کو چاہیئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے۔ بیشک ہم ہی نے پانی برسایا۔

19: سکب​

سکب الماء بمعنی پانی کا گرانا اور گرنا۔ اور اسکب بمعنی لگاتار بارش۔ اور الاسکوب بمعنی لگاتار جھڑی۔ اور ماء مسکوب بمعنی جار دائما ہمیشہ بہنے والا پانی (م ق) گویا سکب میں پانی وغیرہ کو اوپر سے گرنا، بہنا اور تسلسل یا دوام تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ (سورۃ الواقعہ آیت 30، 31)
اور لمبے لمبے سایوں۔ اور بہتے پانی کے چشموں۔

ماحصل:​

1) سقط: اوپر سے کوئی چیز گرنا۔
2) خرّ: اضطراب اور آواز کے ساتھ کسی چیز کا گرنا۔
3) ھدم: عمارت یا دیوار ی تعمیر کا گرنا۔
4) ھد: عمارت یا تعمیر کا دھڑام سے گرنا۔
5) انقض: دیوار یا عمارت کا پھٹ جانا اور گرنا یا گرنے کے قریب ہونا۔
6) ھبط: اضطرار یا تکلیف سے گرنا، اترنا، نکلنا۔
7) وقع: کسی چیز کے گرنے میں کراہت اور سختی بھی ہونا۔
8) ھار: کسی چیز کے کچھ حصے کا دوسرے پر گرنا۔
9) ھوی: آسمان یا بہت بلندی سے گرنا۔
10) خوی: دو چیزوں کے درمیان خلا سے گرنا۔
11) وجب: دھڑام سے گر کر مرنا، یا مرتے مرتے دھڑام سے گرنا۔
12) ردی: کسی گڑھے میں گر کر ہلاکت کو پہنچنا۔
13) صرع: پچھاڑنا اور پچھڑنا جیسے کشتی میں یا موت یا مرض سے۔
14) تلّ: ماتھے کے بل گرانا۔
15) تعس: ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنا۔
16) ادّرک: تھک ہار کر اور عاجز ہو کر گر پڑنا۔
17) انھمر: پانی کا گرنا اور بہنا۔
18) صبّ: پانی کا گرانا یا انڈیلنا اور بہنا (یکبارگی بہنا)۔
19) سکب: پانی کا لگا تار گرنا اور بہتے جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گروی رکھنا​

کے لیے رھن اور ابسل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رھن

بمعنی قرض وغیرہ کے عوض مقروض کا قرض خواہ کے پاس کوئی چیز ضمانت کے طور پر رکھنا، گروی رکھنا اور رھن بمعنی گروی رکھی ہوئی چیز۔ عام ہے خواہ بے جان ہو یا جاندار۔ اور رھان مقابلہ میں شرط کے طور پر رکھی ہوئی چیز کو بھی کہتے ہیں۔ اور قرضہ یا عام حالات کے تحت رکھی ہوئی چیز کو بھی (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 283)
اور اگر تم سفر پر ہو اور دستاویز لکھنے والا نہ مل سکے تو کوئی چیز رہن با قبضہ رکھ کر قرض لے لو
جس طرح یہ لفظ مادی طور پر استعمال ہوتا ہے معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ (سورۃ مدثر آیت 38)
ہر شخص اپنے کرتوتوں کے باعث گرفتار ہو گا۔

2: ابسل

بمعنی کسی کو ہلاکی کے سپرد کرنا، رہن رکھنا (منجد)، یرغمال رکھنا۔ جب مرہونہ چیز کوئی جاندار ہو تو اس لفظ کا استعمال ہو گا جبکہ رہن کا لفظ عام ہے۔ اور بمعنی اسلمہ للھلاک، ابسل نفسہ للموت (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ذَرِ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَعِبًا وَّ لَہۡوًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ اَنۡ تُبۡسَلَ نَفۡسٌۢ بِمَا کَسَبَتۡ (سورۃ الانعام آیت 70)
اور جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے انکو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ان سے کچھ کام نہ رکھو۔ ہاں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہو تاکہ قیامت کے دن کوئی اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے

ماحصل:

  • رھن: قرض وغیرہ کے عوض کوئی چیز گروی رکھنا۔
  • ابسل: اپنے آپ کو یا کسی جاندار کو گرفتاری اور ہلاکت (یرغمال) کے طور پر پیش کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گڑھا​

کے لیے حفرۃ اور جرف، اخدود، غائط کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حفرۃ

حفرۃ اور حفیرہ بمعنی گڑھنا۔ حفر بمعنی گڑھا کھودنا۔ اور حفر بمعنی گڑھے سے نکالی ہوئی مٹی اور محفر وہ آلہ جس سے گڑھا کھودا جائے (منجد)۔ مثل ہے مردود فی الحافرۃ بمعنی "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا" ارشاد باری ہے:
وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اس نے تم کو اس سے بچا لیا۔

2: جرف

ندی یا دریا کا کنارا جسے پانی نے اندر سے ڈھا کر کھوکھلا کر دیا ہو (منجد) کھائی (پنجابی لفظ من یا منی) اس مفہوم کو ٹھک ادا کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 109)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اسکی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرنے والے کنارے پر رکھی پھر وہ اسکو دوزخ کی آگ میں لے گرا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

3: اخدود

الخد و الاخدودق([1]) بمعنی زمین میں مستطیل اور گہرا گڑھا (جمع اخادید) (مف) اور الخدّ بمعنی پانی کی نہر، لمبا گڑھا۔ اور الخدّۃ و الاخدود بمعنی گڑھا (منجد) یعنی اخدود وہ لمبا، گہرا اور مستطیل شکل کا گڑھا ہے جو خود کھودا گیا ہو، خندق، کھائی۔ ارشاد باری ہے:
قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ (سورۃ البروج آیت 4)
کہ خندقوں والے ہلاک کر دیئے گئے۔

4: غائط

غوط بمعنی پست زمین اور غاط الحفرۃ بمعنی گڑھا کھودنا۔ اور غوّط البئر کنویں کو گہرا کھودنا۔ اور الغائط بمعنی پست زمین، قضائے حاجت کی جگہ، پائخانہ (منجد) اور یہ کنایہ ہے کہ شرم و حیا والا آدمی پیشاب کے لیے گہری جگہ کا متلاشی ہوتا ہے (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ (سورۃ المائدۃ آیت 6)
یا تم میں سے کوئی بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو۔

ماحصل:

  • حفرۃ: گڑھا، عام لفظ۔
  • جرف: ندی، نہر یا دریا کا کنارہ جسے پانی نے نیچے سے مٹی بہا کر کھوکھلا کر دیا وہ۔
  • اخدود: خندق، کھائی، خود کھودا ہو مستطیل اور گہرا گڑھا۔
  • غائط: پست زمین، کنایۃ قضائے حاجت کی جگہ۔

    ([1]) اخدود کا لفظ صاحب منجد کے نزدیک واحد ہے جبکہ جالندھری رحمہ الہ نے اس کا ترجمہ جمع کی صورت میں کیا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گزرنا​

کے لیے سبق، خلا، سلف، مرّ، مضی اور انسلخ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سبق

بمعنی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے نکل جانا، بڑھ جانا (مف، م ق) گویا سبق ضرور اپنے سبوق کا متقاضی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحشر آیت 10)
اور انکے لئے بھی جو ان مہاجرین کے بعد آئے اور دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ و حسد نہ پیدا ہونے دے اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا ہے مہربان ہے۔
اور جب یہ گزرنا کے معنوں میں آئے تو اس کا معنی "پہلے گزرنا" ہو گا۔ یعنی اس کے بعد کئی چیزیں گزر چکی یا گزری ہیں۔ ارشاد باری ہے:
کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ ۚ وَ قَدۡ اٰتَیۡنٰکَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا (سورۃ طہ آیت 99)
اس طرح ہم تم سے وہ حالات بیان کرتے ہیں جو گذر چکے ہیں۔ اور ہم نے تمہیں اپنے پاس سے نصیحت کی کتاب عطا فرمائی ہے۔

2: خلا

بمعنی خالی ہونا، ایک چیز کا دوسری سے جدا ہونا (م ل) اس حال میں گزر جانا کہ کسی نے مزاحمت نہ کی ہو۔ زمان و مکان دونوں کے لیے آتا ہے (مف) اور خلّی بمعنی خالی کر دینا۔ قرآن میں ہے فخلوا سبیلھم (سورۃ التوبہ آیت 5) یعنی ان کا راستہ خالی کر دو، راستہ سے پرے ہٹ جاؤ اور انہیں جانے دو یا راستہ چھوڑ دو اور مزاحمت نہ کرو۔ اور خلاء خالی مکان کو بھی کہتے ہیں اور زمین و آسمان کے درمیان خالی جگہ کو بھی۔ گویا خلا میں کسی چیز کے گزر جانے کے ساتھ جگہ یا وقت کے خالی ہونے کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 141)
یہ انبیاء کی جماعت گذر چکی۔ ان کو وہ ملے گا جو انہوں نے کیا اور تم کو وہ جو تم نے کیا اور جو عمل وہ کرتے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہو گی۔

3: سلف

بمعنی آگے بڑھنا۔ اور سلف القوم بمعنی قوم سے آگے نکلنا (منجد) اور سلف بمعنی متقدم یعنی پہلے گزر جانے والا (مف) اور اس کی ضد خلف ہے اور جمع اسلاف اور اسلاف بمعنی گزرے ہوئے نیک آباؤ اجداد۔ اور سلفی وہ شخص جو ان سے تعلق رکھنا پسند کرے۔ اور اخلف بمعنی پیچھے آنے والے نالائق جانشین گویا سلف جب گزرنا کے معنوں میں آئے تو اس میں بعد میں آنے والی نسلوں یا اسی جیسے آنے والے واقعات کا تصور پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ (سورۃ النساء آیت 23)
اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے مگر جو ہو چکا سو ہو چکا۔

4: مرّ

بمعنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانا (مف)۔ قرآن میں ہے:
اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا (سورۃ البقرۃ آیت 259)
یا اسی طرح اس شخص کو نہیں دیکھا جس کا ایک بستی پر جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی گذر ہوا
اور استمرّ بمعنی گزرتے جانا، ایک حالت یا طریقہ پر باقی رہنا، ہمیشگی کرنا (منجد) اور مرور ایام بمعنی دنوں کا گزرتے جانا۔ اور مرّ بھی استمرّ کے معنوں میں قرآن میں آیا ہے۔ جیسے فرمایا:
فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ (سورۃ الاعراف آیت 189)
سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ (سورۃ القمر آیت 2)
اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک پہلے سے چلا آتا جادو ہے۔
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ یَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہَا وَ ہُمۡ عَنۡہَا مُعۡرِضُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 105)
اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ گذرتے ہیں اور انکو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
گویا مرّ میں گزرنے کے ساتھ استمرار کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔

5: مضی

بمعنی گزر جانا اور چلے جانا (مف) اور مضی کی ضد استقبل ہے۔ یعنی سامنے سے آنا۔ اور مضی بمعنی سامنے سے چلے جانا اور ہٹ جانا (فق ل 252) اور ماضی بمعنی گزرا ہوا زمانہ (ضد مستقبل یعنی آنے والا زمانہ) احداث و اعیان دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ خواہ کوئی بات ہو یا واقعہ (مف) اور مضی علی الامر بمعنی کسی کام پر ہمیشگی کرنا (منجد) قرآن میں ہے:
قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۚ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 38)
اے پیغمبر کفار سے کہدو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہو چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا اور اگر پھر وہی حرکات کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا جو طریقہ جاری ہو چکا ہے وہی ان کے حق میں بھی برتا جائے گا۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا (سورۃ الکہف آیت 60)
اور جب موسٰی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ٹلنے کا نہیں خواہ صدیوں چلتا رہوں۔

6: انسلخ

سلخ بمعنی کھال کھینچنا۔ اور سلخ اور انسلخ الشھر بمعنی کسی قمری مہینہ کی آخری تاریخ ہو جانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 5)
پس جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

ماحصل:

  • سبق: پہلے گزر جانا، اپنے مسبوق کو بھی چاہتا ہے۔
  • خلا: میں گزرنے کے ساتھ جگہ یا وقت کے خالی ہونے کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور اس جگہ کسی دوسری چیز کے آنے کا۔
  • سلف: گزرنے کے ساتھ پچھلے سے نسبت کا بھی مقتضی ہوتا ہے۔
  • مرّ: میں گزرنے کے ساتھ استمرار یعنی ہمیشہ کرنے کا تصور بھی پایا جاتا ہے یا کسی چیز کے پاس سے گزرنے کا۔
  • مضی: محض گزشتہ زمانہ میں کسی کام کے سر انجام پانے کا معنی دیتا ہے۔
  • انسلخ: کسی قمری مہینے کا گزر جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گلا​

کے لیے حلقوم اور حناجر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حلقوم

بمعنی حلق، گلا، وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے (مف) معروف عضو ہے۔ حلقوم اور حلق کے معنی میں کچھ فرق نہیں۔ قرآن میں ہے:
فَلَوۡ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الۡحُلۡقُوۡمَ (سورۃ الواقعہ آیت 83)
پھر جب جان گلے تک آ پہنچتی ہے۔

2: حناجر

(حنجرہ کی جمع)، سانس کی نال، نرخرہ (منجد)۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا (سورۃ الاحزاب آیت 10)
جب وہ لوگ تمہارے اوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب تمہاری آنکھیں پھر گئیں اور دل مارے دہشت کے گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

ماحصل:

حنجرہ صرف سانس کی موٹی نالی یا نرخرہ کو کہتے ہیں جبکہ حلق میں اس کے باہر کی جلد بھی شامل ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گم ہونا – ہاتھ نہ لگنا​

کے لیے فات، فقد اور ضلّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: فات

کسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا فات الامر بمعنی کام کرنے کا وقت ہاتھ سے نکل گیا اور واپس نہ ہو سکا (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ (سورۃ الحدید آیت 23)
تاکہ جو فائدہ تمہیں حاصل نہ ہو سکا اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تمکو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

2: فقد

کسی چیز کا نہ ملنا، موجود نہ ہونا (م ل) خواہ وہ بعد میں مل جائے۔ اور بمعنی کسی چیز کے موجود ہونے کے باوجود اس کا نہ پایا جانا۔ اور یہ عدم سے اخص ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا وَ اَقۡبَلُوۡا عَلَیۡہِمۡ مَّا ذَا تَفۡقِدُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 71)
وہ انکی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئ ہے۔
اور تفقّد کے معنی میں اس بات کا جائزہ لینا کہ کوئی چیز گم تو نہیں ہوئی۔ امام راغب کے الفاظ میں کسی چیز کے گم ہونے کو معلوم کر لینا (مف) گمشدہ چیز کی تلاش کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَی الۡہُدۡہُدَ ۫ۖ اَمۡ کَانَ مِنَ الۡغَآئِبِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 20)
اور جب انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے مجھے ہد ہد نظر نہیں آتا کیا کہیں غائب ہو گیا ہے؟

3: ضلّ

کا لفظ اصل میں تو راستہ کھو دینے اور گم کر دینے کے معنوں میں آتا ہے لیکن کبھی یہ لفظ خود کسی چیز کے اپنے وجود کو کھو کر دوسری چیز کے مل جانے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالُوۡۤا ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ بَلۡ ہُمۡ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ کٰفِرُوۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 10)
اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیا میٹ ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں۔

ماحصل:

  • فات: موقع ہاتھ سے نکل جانا۔ کسی چیز کے ملنے کی امید نہ رہنا۔
  • فقد: وقتی طور پر کسی چیز کا موجود ہونے کے باوجود نہ ملنا۔
  • ضلّ: کسی چیز کا اپنے وجود کو دوسری میں مدغم کر کے نہ مل سکنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گمان کرنا – خیال کرنا​

کے لیے ظنّ، زعم اور حسب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ظنّ

کسی چیز کی علامات سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اسے ظنّ کہتے ہیں۔ اگر علامات قوی ہوں تو ظنّ علم اور یقین کے معنی دیتا ہے۔ اس صورت میں اس لفظ سے پہلے انّ یا ان آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 46)
جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اسکی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں۔
وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ (سورۃ القیامۃ آیت 28)
اور اس جان بلب نے سمجھا کہ اب جدائی کا وقت ہے۔
بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰۤی اَہۡلِیۡہِمۡ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۚۖ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا (سورۃ فتح آیت 12)
بات یہ ہے کہ تم لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پیغمبر اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر آنے ہی کے نہیں۔ اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوئی۔ اور اسی وجہ سے تم نے برے برے خیال کئے اور آخرکار تم ہلاکت میں پڑ گئے۔
اور جب ظنّ کا معنی محض وہم اور شک کی حد تک ہے تو اس سے پہلے انّ یا ان آتا ہے۔ اور اس کی دوسری علامت یہ ہے کہ ظن کے مقابلہ میں کوئی ایسا لفظ بطور قرینہ موجود ہوتا ہے جو ظن کے معنی وہم اور شک میں بدل دیتا ہے (مف)۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے۔
وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (سورۃ النجم آیت 28)
حالانکہ انکو اسکی کچھ خبر نہیں۔ وہ صرف خیال و گمان پر چلتے ہیں جبکہ خیال و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔
اس مثال میں انّ اور ظنّ کے مقابلہ میں حق، دونوں باتیں ظنّ کے معنی وہم و شک بنا رہی ہیں۔
وَ اِذَا قِیۡلَ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ السَّاعَۃُ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا قُلۡتُمۡ مَّا نَدۡرِیۡ مَا السَّاعَۃُ ۙ اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ (سورۃ جاثیہ آیت 32)
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شک نہیں تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہے۔ ہم اسکو محض خیالی سمجھتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا۔
اس مثال میں ان اور ظن کے مقابلہ میں یقین کے الفاظ ظن کے معنی وہم بنا دیتے ہیں۔
وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ لَعَنَہُمۡ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا (سورۃ فتح آیت 6)
اور اس لئے کہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں برے برے خیال رکھتے ہیں عذاب دے۔ انہی پر برے حادثے واقع ہوں۔ اور اللہ ان پر غصے ہوا اور ان پر لعنت کی اور انکے لئے دوزخ تیار کی اور وہ بری جگہ ہے۔
اس مثال میں ظنّ کے مقابلہ میں ظنّ السوء، ظن کے معنی وہم اور شک سے مختص کر رہا ہے۔ پھر وہم اور یقین کے درمیان شک اور گمان غالب کے بھی درجے ہیں۔ اور ظنّ کا لفظ ان سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے (مف)۔

2: زعم

گمان باطل کے لیے آتا ہے۔ ابن الفارس کے الفاظ میں القول من غیر صحّۃ ولا یقین (م ل) یعنی ایسی بات جو نہ تو یقینی ہو اور نہ درست ہی ہو۔ قران کریم میں یہ لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہاں گمان کرنے والے کی مذمت ہی کی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے:
زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ (سورۃ التغابن آیت 7)
جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ دوبارہ ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہدو کیوں نہیں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے۔ اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔

3: حسب

حسب بمعنی حساب کرنا، شمار کرنا، گننا۔ اور حسب عزت و شرف والا ہونا، حسب بمعنی گمان کرنا یا خیال کرنا۔ اور یہ لفظ ایسے گمان کے لیے آتا ہے جس کے متعلق گمان کرنے والا دل میں امید وابستہ کیے ہوتا ہے اگرچہ اسے یقین کا درجہ نہیں دیتا، گمان غالب۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 214)
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی بہشت میں داخل ہو جاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی مشکلیں تو پیش آئی ہی نہیں۔

ماحصل:

  • ظن: کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور ہر طرح کے خیال و گمان یعنی وہم، گمان غالب اور یقین سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
  • زعم: گمان باطل کے لیے۔
  • حسب: ایسے گمان کے لیے جس کے متعلق گمان کرنے والا پر امید ہو۔
گمراہی – گمراہ ہونا اور کرنا کے لیے دیکھیے "بہکنا اور بہکانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گناہ​

کے لیے ذنب، خطا، حوب، حنث، اثم، اجرام، جناح اور لمم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ذنب

ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام برا ہو (مف) اور بمعنی ما یتبع الذم (فق ل 193) اور اس کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزش سے لے کے بڑے سے بڑے گناہ پر بھی ہو سکتا ہے۔ (جمع ذنوب)۔ ارشاد باری ہے:
لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا (سورۃ الفتح آیت 2)
تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی کوتاہیاں بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمکو سیدھے رستے چلاتا رہے۔
اور ظاہر کہ یہ گناہ رسول اللہ ﷺ کی اجتہادی لغزشیں ہی ہو سکتی ہیں ورنہ آپ ﷺ سے ارادتاً کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ کے صدور کا ایک مسلمان تصور تک نہیں کر سکتا۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 43)
اللہ تمہیں معاف کرے تم نے پیشتر اسکے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی؟
اور بڑے سے بڑا گناہ قتل ناحق ہوتا ہے اس پر بھی لفظ ذنب کا اطلاق ہوا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ (سورۃ الشعراء آیت 14)
اور ان لوگوں کا مجھ پر ایک گناہ یعنی فرعونی کے خون کا دعوٰی بھی ہے سو مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ مجھ کو مار ہی ڈالیں۔

2: خطا

ایسا گناہ جس کے کرنے کا انسان کا ارادہ نہ ہو مگر اتفاقا ہو جائے یا سہوا۔ مثلاً کسی شکاری نے تیر تو شکار کو مارا اور وہ لگ کسی انسان کو گیا جس سے وہ مر گیا۔ ایسی خطا اگر قابل حد یا تعزیر ہو تو سزا میں تخفیف ہو جاتی ہے۔ اور اسے خطا (خ کسر) یا خطا کہتے ہیں۔ اور اگر دوسری نوع کی ہوں تو اللہ تعالی استغفار اور نیک اعمال کے بدلہ میں معاف بھی فرما دیتے ہیں اور اسے خطا کہتے ہیں (فق ل 40) (جمع خطایا) اور خطئ (جمع خطیئات) بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا ؕ (سورۃ النساء آیت 92)
اور جو غلطی سے بھی مومن کو مار ڈالے تو وہ ایک تو ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔ مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 58)
اور جب ہم نے ان سے کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو اور دیکھنا دروازے میں داخل ہونا سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَۃٌ کہنا ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔

3: حوب

الحوبۃ ماں باپ، بہن، بیٹی۔ کہتے ہیں انّ لی حوبۃ اعولھا یعنی میرے بال بچے ہیں جن کی میں کفالت کرتا ہوں (منجد) اور حوب بمعنی اولاد کا والدین کی نافرمانی یا والدین کی اولاد پر شفقت اور تربیت میں کوتاہی کرنا (م ل) اور امام راغب کے نزدیک جن کاموں سے سختی سے روکا گیا ہے ان کا ارتکاب حوب کہلاتا ہے (مف) اور حوب کا بنیادی معنی ڈانٹ (زجر) ہے۔ اور حوب ہر وہ گناہ ہے جس کا فاعل مستحق زجر ہو (فق ل 193)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 2)
اور یتیموں کا مال جو تمہاری تحویل میں ہو ان کے حوالے کر دو اور ان کے پاکیزہ اور عمدہ مال کو اپنے ناقص اور برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔

4: حنث

بمعنی غلط اور جھوٹی قسم، گناہ اور نافرمانی (مف) اور حنث فی الیمین بمعنی قسم کی خلاف ورزی کرنا (م ل) اور حنث بمعنی باطل کی طرف جھکنا، مائل ہونا (منجد) گویا حنث سے مراد ایسا گناہ ہوتا ہے جو عہد و پیمان یا قسم توڑنے سے متعلق ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الواقعہ آیت 46)
اور بڑے گناہ یعنی کفر پر اڑے ہوئے تھے۔

5: اثم

بمعنی ہر وہ عمل جو کار خیر یا ثواب سے پیچھے رکھے یا روکے (مف، م ل) (جمع اثام) (ضد برّ) نیز اثم کا لغوی معنی تقصیر ہے (فق ل 193) ارشاد نبوی ﷺ ہے:
البرّ ما اطمانّت الیہ النفس و الاثم ما حاک فی صدرک
نیکی وہ ہے کہ اس سے دل مطمئن ہو اور اثم وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے۔
گویا اثم ایسی کیفیت کا نام ہے کہ انسان کا دل نیکی کے کاموں سے تو پیچھے رہے اور گناہ کے کاموں کی طرف مائل ہو اور موقعہ ملنے پر اس گناہ سے نہ چوکے۔ یعنی اثم کا تعلق عقل سے زیادہ دل سے ہے اور ایسے شخص کو اثیم کہتے ہیں جس کی ضد سلیم ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ (سورۃ المائدۃ آیت 2)
اور دیکھو نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کرو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 283)
اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گناہگار ہو گا۔

6: اجرام

جرم صرف وہ کام سمجھا جاتا ہے کہ جس کی از روئے قانون سزا مقرر ہو۔ لیکن یہ نہ از روئے قرآن درست ہے نہ از روئے لغت۔ جرم، جریمۃ بمعنی بڑے گناہ والا ہونا۔ اور اجرم بمعنی اکتساب یا ارتکاب مکروہ۔ اور اجرام بمعنی گناہ کا وبال ہے (منجد) جرم کا بنیادی معنی القطع۔ اور جرم ہر وہ کام ہے جس سے کسی واجب الامر کی ادائیگی نہ ہو یا واجب کو ادا نہ کرنا جرم ہے (فق ل 93)۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَعَلَیَّ اِجۡرَامِیۡ وَ اَنَا بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُجۡرِمُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 35)
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر نے قرآن اپنے دل سے بنا لیا ہے کہدو کہ اگر میں نے دل سے بنا لیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔

7: جناح

کے معنی دراصل گناہ نہیں بلکہ گناہ کی طرف جھکاؤ یا میلان ہے۔ جنح بمعنی جھکنا، مائل ہونا (منجد)۔ قرآن میں اکثر آتا ہے، لا جناح علیکم، یا لیس علیکم جناح بمعنی کوئی حرج نہیں، کوئی قابل گرفت یا قابل مواخذہ بات نہیں وغیرہ۔ جیسے فرمایا:
لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً (سورۃ البقرۃ آیت 236)
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
اور جناح (ج مفتوحہ بمعنی باز، پر، پہلو) کا لفظ خیر کی طرف جھکاؤ کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 24)
اور عجزونیاز سے انکے آگے جھکے رہو اور انکے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں شفقت سے پرورش کیا ہے تو بھی انکے حال پر رحمت فرما۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 215)
اور جو مومن تمہارے پیرو ہو گئے ہیں ان سے تواضع سے پیش آؤ۔

8: لمم

بمعنی کسی بڑے گناہ کی طرف لے جانے والے چھوٹے چھوٹے گناہ جو اس کام میں ممد ثابت ہوں اور المّ بمعنی چھوٹے گناہوں کا ارتکاب کرنا (منجد) جیسے زنا سے پہلے کسی غیر عورت کے پاس آنا جانا یا اسے آزادانہ گفتگو، یا چوری سے پہلے اس کے متعلق صلاح و مشورے سب لمم کی تعریف میں آتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (سورۃ النجم آیت 32)
جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے۔ وہ تمکو خوب جانتا ہے۔ جب اس نے تمکو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ تو اپنے آپکو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے۔

ماحصل:

  • ذنب: عام ہے ہر چھوٹے بڑے گناہ کے لیے۔
  • خطا: ایسا گناہ جو بلا ارادہ سر زد ہو۔
  • حوب: عائلی معاملات سے تعلق رکھنے والے بڑے گناہ، قابل زجر گناہ۔
  • حنث: قسم توڑنا، عہد و پیمان سے تعلق رکھنے والے بڑے گناہ۔
  • اثم: گناہ کی طرف طبیعت کا آمادہ رہنا اور وقت آنے پر ارتکاب سے نہ چوکنا۔
  • اجرام: بڑے گناہ کا وبال۔
  • جناح: گناہ کی طرف میلان، حرج کے معنی دیتا ہے۔
  • لمم: صغیرہ گناہ جو کسی بڑے گناہ کی طرف لے جاتے ہوں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گنہگار​

کے لیے اثم سے اثم اور اثیم، خطا اور خطا سے خاطئ، اجرام سے مجرم کے علاوہ فاسق اور فاجر کے الفاظ آئے ہیں۔

ا تا 3: اثم، اثیم، خاطی اور مجرم​

کی تشریح گناہ میں گزر چکی ہے۔

4: فاسق

فسق بمعنی حق و اصلاح کے رستہ سے ہٹ جانا، بد کار ہونا (منجد)، اطاعت سے باہر نکل جانا (م ل)، شرعی احکام کا خیال نہ رکھنا (مف) فاسق کا لفظ عادی نافرمان کے لیے بولا جاتا ہے، بد کردار۔ تاہم ایسا شخص گناہ کے کام کو گناہ اور نافرمانی سمجھتا ضرور ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ (سورۃ حجرات آیت 6)
مومنو! اگر کوئی گناہگار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تمکو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔

5: فاجر

(جمع فجّار، ضد ابرار) فجر بمعنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا۔ اور فاجر بمعنی دین کی پردہ دری اور نافرمانی کرنے والا، بد کار، بد کردار جو گناہ کرتا جائے اور تائب نہ ہو (مف) اور فجور بمعنی گناہوں میں منہمک، زانی (منجد) اور فجر بمعنی ڈھٹائی کرنا، ڈھیٹ بن جانا۔ اور فاجر ایسا گنہگار ہے جو گناہ کو گناہ بھی نہ سمجھے، بد معاش۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ (سورۃ المطففین آیت 7)
سن رکھو کہ بدکاروں کے اعمال نامے سجّین میں ہونگے۔

ماحصل:

  • اثم: کبھی کبھار گناہ کے کام کرنے والا۔
  • اثیم: جس کی طبیعت ہر وقت گناہ کے ارتکاب پر آمادہ رہے۔
  • خاطئ: ایسا گنہگار جس سے بھول چوک سے گناہ ہو جائے۔
  • مجرم: کسی بڑے گناہ کا مرتکب۔
  • فاسق: ایسا نافرمان یا گنہگار جو گناہ کو گناہ سمجھتا ضرور ہو۔
  • فاجر: ایسا گنہگار اور بد کردار جو ڈھیٹ بن چکا ہو اور گناہ کو گناہ بھی نہ سمجھتا ہو، بد معاش۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گندگی – نجاست​

کے لیے تفث، رجز، رجز اور رجس کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: تفث

تفث بمعنی کسی چیز پر میل کچیل کا چڑھ جانا۔ اور قضی تفث بمعنی ایسی میل کچیل کو دور کرنا (منجد) اور ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ناخنوں کا کاٹنا، لبوں کا کترنا، خوشبو لگانا۔ اور نکاح کے علاوہ باقی تمام اشیا جو محرم پر حرام ہوتی ہیں ان کا استعمال ہے (م ل) بمعنی بدن کی صفائی جس میں ناخن کاٹنا اور بڑھے ہوئے بال تراشنا، نہا دھور کر میل صاف کرنا اور بعد میں صاف ستھرے کپڑے پہنے کر خوشبو لگانا سب قضی تفث میں شامل ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ الحج آیت 29)
پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر یعنی بیت اللہ کا طواف کریں۔

2: رجز

رجز بمعنی اضطراب پیدا کرنا۔ اور رجز فلان بمعنی اس سے بحر رجز پر شعر پڑھے۔ اور رجزیہ اشعار وہ ہوتے ہیں جو دوران جنگ لڑائی پر ابھارنے کے لیے پڑھے جاتے ہیں۔ اور عذاب من رجز الیم میں رجز بمعنی اضطراب پیدا کر دینے والا ہے۔ اور رجز سے مراد وہ شیطانی وساوس ہیں جو دل میں اضطراب اور بری خواہشات پیدا کرتے رہتے ہیں (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَ یُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ (سورۃ الانفال آیت 11)
جب اس نے تمہاری تسکین کے لئے اپنی طرف سے تمہیں نیند کی چادر اوڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے نہلا کر پاک کر دے۔ اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے۔
یہاں رجز الشیطان سے مراد وہ شیطانی وساوس ہیں جو جنگ بدر میں شکست کی صورت میں دلوں میں پیدا ہو سکتے تھے۔
رجز: رجز (ر مکسور) اور رجز (ر ضمہ) در اصل ایک ہی لفظ ہے (منجد) اور اس میں وہی فرق ہے جو حمل اور حمل یا وقر اور وقر میں ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے "بوجھ") اور اس لفظ کا اطلاق ان تمام شیطانی وساوس پر ہوتا ہے جو دل میں موجود ہوں۔ خواہ یہ غیر اللہ کی عبادت سے متعلق ہوں یا برے خیالات سے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ (سورۃ مدثر آیت 4، 5)
اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور شرک کی گندگی سے تو الگ ہی رہو۔

3: رجس

ایسی چیزوں کی نجاست جنہیں شریعت نے پلید (ناپاک) یا حرام قرار دیا ہو (منجد) پھر یہ مادی اور معنوی دونوں طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الانعام آیت 145)
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا۔ بجز اسکے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 125)
اور جن کے دلوں میں بیماری ہے تو انکی خباثت کو اور بڑھا دیا۔ اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔
یہاں رجس سے مراد کفر و شرکت کی نجاست ہے۔ اور یہ رجس کا معنوی استعمال ہے (نیز دیکھیے "ناپاک")۔

ماحصل:

  • تفث: بدن کا میل کچیل۔
  • رجز: اضطراب پیدا کرنے والے شیطانی وساوس۔
  • رجس: حرام اور گندی چیزوں کی نجاست۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گننا​

کے لیے عدّ، حسب اور احصی (حصو ، حصی) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عدّ

بمعنی گننا، گنتی کرنا، شمار کرنا۔ معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے۔ عدد بمعنی گنتی، ہندسہ۔ قرآن میں ہے:
فَضَرَبۡنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمۡ فِی الۡکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا (سورۃ الکہف آیت 11)
تو ہم نے غار میں کئی سال تک انکے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے رکھا یعنی انکو سلائے رکھا۔

2: حسب

حسب یحسب حسابا و حسبانا بمعنی گنتی کرنا اور اس کا حساب رکھنا، گنتی میں نظم و ضبط رکھنا (م ل) تاکہ حساب میں کچھ فرق نہ آئے۔ ارشاد باری ہے:
فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیۡلَ سَکَنًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ (سورۃ الانعام آیت 96)
وہی رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات کو موجب آرام ٹھہرایا اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنا دیا یہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں جو غالب ہے علم والا ہے۔

3: احصی

حصی بمعنی کنکری اور حصی یحصی بمعنی کنکر مارنا۔ عرب لوگ عموماً حساب دان نہ ہونے کی وجہ سے کنکریوں پر شمار کرتے تھے۔ لہذا یہ لفظ شمار کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ حصی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) گننا اور (2) اس پر قدرت یا اس کا ریکارڈ رکھنا، اسے یاد رکھنا (م ل) اور یہ عدّ سے اخص ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ (سورۃ ابراہیم آیت 34)
اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف ہے ناشکرا ہے۔
اور کبھی یہ لفظ صرف حساب پر قدرت رکھنے کے لیے بھی آ جاتا ہے۔ جیسے فرمایا:
عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡہُ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ (سورۃ مزمل آیت 20)
اس نے معلوم کیا کہ تم اسکو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی۔

ماحصل:

  • عدد: محض شمار کرنا۔
  • حسب: شمار کرنا اور اس میں نظم و ضبط کہ اس میں غلطی نہ ہو۔
  • احصی: بمعنی شمار کرنا اور اس پر قدرت رکھنا، ریکارڈ رکھنا، یاد رکھنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گود​

کے لیے مھد اور حجور کے الفاظ آئے ہیں۔

1: مھد

بمعنی گہوارہ، پنگھوڑا۔ اور بمعنی دودھ پیتے بچہ کے لیے اس کی ماں کی گود جب تک کہ یہ دودھ پیتا رہے کہ ماں کی گود بھی اس کے لیے گہوارہ ہی ہوتی ہے۔ اور اس لفظ میں تربیت یا سامان تربیت کا تصور بھی پایا جاتا ہے (دیکھیے "بچھونا")۔ ارشاد باری ہے:
وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 46)
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔

2: حجور

(واحد حجر) اور حجر بمعنی گود۔ کہتے ہیں فلان فی حجر فلان فلاں شخص فلاں کی گود یا حفاظت میں پلا بڑھا (منجد) اور فلان فی حجر فلان بمعنی وہ فلاں کی زیر نگرانی ہے۔ یعنی اس کی طرف سے اس کے مال اور اختیارات پر پابندی ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ (سورۃ النساء آیت 23)
اور تمہاری بیویوں کی پہلی لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں۔

ماحصل:

  • مھد: دودھ پیتے بچہ کے لیے ماں کی گود۔
  • حجر: بڑی عمر کے بچوں کے لیے گود اس کا وہ کفیل ہے جو زیر تربیت بچہ کے اموال و اختیار پر پابندی لگا سکتا ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گہرا – گہرائی​

کے لیے لجّۃ، غورا اور عمیق کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لجّۃ

لجّ بمعنی پانی کی گہرائی، پانی کا گہرا حصہ جہاں پاس سب سے گہرا ہو۔ اور لجّ البحر بمعنی سمندر کی انتہائی گہرائی (م ل) بحر لّجّی (سورۃ النور آیت 20) بمعنی گہرا دریا یا سمندر۔ اور لجّۃ بمعنی گہرا پانی۔ ارشاد باری ہے:
قِیۡلَ لَہَا ادۡخُلِی الصَّرۡحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡہُ حَسِبَتۡہُ لُجَّۃً وَّ کَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَیۡہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ ۬ؕ قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 44)
اسکے بعد اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے۔ جب اس نے اسکے فرش کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا اور کپڑا اٹھا کر اپنی پنڈلیاں کھول دیں سلیمان نے کہا یہ ایسا محل ہے جس کے نیچے بھی شیشے جڑے ہوئے ہیں وہ بول اٹھی کہ پروردگار میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی تھی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔

2: غور

غار بمعنی نشیبی زمین کی طرف نیچے اترنا، غار بمعنی کھوہ مشہور لفظ ہے۔ اور غور بمعنی نشیبی زمین۔ اور زیر زمین گہرائی (مف) گویا اس میں گہرائی کے ساتھ مکان کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ (سورۃ الملک آیت 30)
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی جو تم پیتے ہو اور برتتے ہو خشک ہو جائے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہارے لئے شفاف پانی کا چشمہ بہا لائے۔

3: عمیق

عمق بمعنی کسی بھی چیز کی گہرائی (ضد ارتفاع بمعنی بلندی) فاصلہ اگر افقی سمت میں ہو تو یہ لمبائی یا بعد ہے۔ اور اگر راسی سمت میں ہو اور زمین سے اوپر ہو تو بلندی یا ارتفاع ہے اور زمین سے نیچے ہو یا خود اوپر کھڑے ہوں تو یہی بلندی عمق یا گہرائی ہے۔ اور عمیق بمعنی گہرا۔ قرآن میں ہے:
وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ (سورۃ الحج آیت 27)
اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کر دو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہوں سوار ہو کر چلے آئیں۔
تو اس میں عمیق کا معنی دور دراز فجّ کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے۔ فجّ دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو کہتے ہیں جو نشیب و فراز سے ہوتا ہوا گزرتا ہے۔

محاصل:

  • لجّۃ: گہرا پانی اور لجّ پانی کی گہرائی۔
  • غور: زیر زمین گہرائی، سطح زمین سے گہرائی، نشیبی زمین۔
  • عمیق: گہرا۔ عام معنوں میں ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھاٹ​

کے لیے مشرب اور ورد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: مشرب

پانی پینے اور بھرنے کی جگہ، گھاٹ۔ یہ لفظ عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر کے پانی پی لیا

2: ورد

ورد بمعنی پینے کے لیے پانی کی جگہ پر پہنچنا۔ اور اس کی ضد صدر ہے۔ یعنی پانی پی چکنے کے بعد وہاں سے لوٹ جانا۔ اور ورد اس پانی کو کہتے ہیں جو وارد ہونے والوں کے لیے تیار کیا گیا ہو (مف) جیسے ہمارے ہاں مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے پانی کے حوض وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں اور ورد پیاسے کو بھی کہتے ہیں (سورۃ مریم آیت 89)۔ ارشاد باری ہے:
یَقۡدُمُ قَوۡمَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ (سورۃ ھود آیت 98)
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا پھر انکو دوزخ میں جا اتارے گا۔ اور جس مقام پر وہ اتارے جائیں گے وہ برا ہے۔
 
Top