مترادفات القرآن (گ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھاٹی​

کے لیے نجد اور عقبۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نجد

بمعنی گھاٹ، بلند زمین، درختوں سے خالی زمین، بلند راستہ، پستان (منجد) اور نجد بمعنی واضح اور بلند ہونا (منجد) اور بمعنی بلند اور سخت زمین (مف) نجد اصل میں گھاٹی کو بھی کہتے ہیں اور اس راستہ کو بھی جو اس پڑ چڑھتا یا گھاٹی سے نیچے آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (سورۃ البلد آیت 10)
یہ چیزیں بھی دیں اور اسکو خیر و شر کے دونوں رستے بھی دکھا دیئے۔

2: عقبۃ

بمعنی پہار پر چڑھنے کا دشوار گزار راستہ (مف) یعنی عقبہ سے صرف وہ راستہ مراد ہے جو گھاٹی یا پہاڑ پر چڑھتا ہو۔ چنانچہ اس سے اگلی آیت ہے:
فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ (سورۃ البلد آیت 11، 12)
مگر یہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گذرا۔ اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا؟
لیکن صاحب منجد کے نزدیک عقبۃ کے معنی دشوار گزار گھاٹی ہے اور اس پر چڑھنے کا دشوار گزار راستہ بھی۔

ماحصل:

نجد گھاٹی کے لیے عام لفظ ہے اور عقبۃ صرف اس گھاٹی کو کہتے ہیں جو دشوار گزار ہو۔
گھبرانا اور گھبراہٹ کے لیے دیکھیے "بے قرار ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھر​

کے لیے بیت، مسکن، دار اور دیار اور اھل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: بیت

بات رات گزارنا، شب بسری کرنا اور بیت وہ جگہ جہاں شب بسری کی جائے۔ پھر اصطلاحا بیت سے مراد وہ جگہ جہاں کوئی شخص اور اس کے عیال جو اس کے پاس رہتے ہیں رات بسر کر سکیں اور وہ ان کا ملجا و ماوی ہو (مف، م ل) (جمع بیوت)۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 33)
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح پہلے جاہلیت کے دنوں میں زیب و زینت کی نمائش کیجاتی تھی اس طرح اظہار زینت نہ کرو اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے پیغمبر کی گھر والیو اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے۔
اور کعبہ کے لیے بھی اللہ تعالی نے بیت اور البیت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس میں بھی بیان کردہ تعلق پایا جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے الخلق عیال اللہ۔ اور کعبہ شب بسری کی جگہ نہ سہی تاہم ملجا و ماوی ضرور ہے۔

2: مسکن

سکن یعنی آباد ہونا، نیز کام کاج کے بعد آرام کرنا۔ اور مسکن وہ جگہ ہے جہاں انسان رہائش اختیار کرے اور کسی شخص کو بغیر کرایہ وغیرہ کے رہائش دینے کو سکنی کہا جاتا ہے اور ایک مکان میں رہنے والوں کو سکن جو ساکن کی جمع ہے (مف) اور مسکن کا لفظ بیت سے اخص ہے کیونکہ بیت کا لفظ رہائش اور شب بسری دونوں پر دلالت کرتا ہے جبکہ مسکن کا لفظ صرف رہائش کا مقتضی ہے۔ گویا ہر بیت مسکن تو ہے لیکن ہر مسکن بیت نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍۭ بَطِرَتۡ مَعِیۡشَتَہَا ۚ فَتِلۡکَ مَسٰکِنُہُمۡ لَمۡ تُسۡکَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ؕ وَ کُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 58)
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو اپنی عیش والی زندگی میں اترا رہے تھے۔ سو یہ انکے مکانات ہیں جو انکے بعد آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم۔ اور انکے بعد ہم ہی وارث ہوئے۔

3: دار

(جمع دور اور دیار) بمعنی گھر، مکان۔ دار کے استعمال میں بہت وسعت ہے۔ جو گھر، حویلی، بستی، شہر، ملک تمام دنیا بلکہ آخرت پر بھی ہوتا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے "شہر") اور دار سے مراد جب گھر ہو تو گھر کی خارجی حیثیت مراد لی جاتی ہے۔ اور اسے انگریزی میں ہاؤس HOUSE کہتے ہیں جبکہ بیت سے مراد گھر کی داخلی حیثیت لی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اس کے لیے لفظ ہوم HOME ہے۔ نیز دار جب گھر کے معنی میں استعمال ہو گا تو اس کی جمع بھی دار ہو گی۔ قرآن میں ہے:
فَعَقَرُوۡہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوۡا فِیۡ دَارِکُمۡ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ وَعۡدٌ غَیۡرُ مَکۡذُوۡبٍ (سورۃ ھود آیت 65)
مگر انہوں نے اسکو کاٹ ڈالا۔ تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں تین دن اور فائدے اٹھا لو۔ یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا۔

4: اھل

اھل کا لفظ بھی بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے (تفصیل کے لیے اور اھل اور آل میں فرق کے لیے دیکھیے "اولاد") اور معروف معنوں میں اہل الرجل کسی کے گھر والے اور اہل و عیال یعنی بیوی بچے ہیں جو اس کے زیر کفالت و تربیت ہوتے ہیں۔ پھر جس طرح قریۃ کا لفظ بستی اور بستی والے دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے سی طرح اھل کا لفظ گھر والوں کے علاوہ گھر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیُٔ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ آل عمران آیت 121)
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر موقع بہ موقع متعین کرنے لگے اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔

ماحصل:

  • بیت: جہاں انسان کی بمعہ اہل و عیال رہائش ہو اور شب بسری بھی کرتے ہوں۔
  • مسکن: صرف رہائش کا معنی دیتا ہے، خواہ شب بسری کی جگہ نہ ہو گویا یہ بیت سے اخص ہے۔
  • دار: کا استعمال بہت عام ہے۔ گھر کے معنی میں ہو تو اس سے گھر کی خارجی حیثیت مراد ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی دار (حویلی، کٹڑی) کے اندر کئی بیت ہو سکتی ہیں۔
  • اھل: گھر اور گھر والے، اہل و عیال سب اس کے معنی میں شامل ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھڑی​

کے لیے ساعۃ (سوع)، اناء (انی) اور زلف کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: ساعۃ

وقت کا ایک معین حصہ، گھڑی (جمع ساعات) اہل عرب نے رات اور دن کو بارہ بارہ گھڑیوں میں تقسیم کر کے ان کے الگ الگ نام تجویز کیے ہیں جن کی تفصیل "دن اور رات" میں گزر چکی ہے۔ آج کل بھی رات اور دن کے مکمل وقت کو 24 گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گویا ساعۃ سے مراد ایک گھٹنہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ۙ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 35)
پس اے نبی جس طرح اور عالی ہمت پیغمبر صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تم بھی صبر کرو اور انکے لئے عذاب جلدی نہ مانگو۔ جس دن یہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو یہ خیال کریں گے کہ گویا دنیا میں رہے ہی نہ تھے مگر گھڑی بھر دن۔ یہ قرآن پیغام ہے جو پہنچایا جا چکا۔ سو اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے۔
اور گھڑی جسے انگریز ی میں WATCH کہتے ہیں کے لیے بھی ساعۃ سے مدت یا اوقات بھی مراد لی جاتی ہے جو ایک پور دن تو کجا دنوں بلکہ مہینوں اور سالوں پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ فِیۡ سَاعَۃِ الۡعُسۡرَۃِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا کَادَ یَزِیۡغُ قُلُوۡبُ فَرِیۡقٍ مِّنۡہُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّہٗ بِہِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 117)
بیشک اللہ نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اسکے کہ ان میں سے بعضوں کے دل پھر جانے کو تھے مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بیشک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
اور السّاعۃ سے بالعموم قیامت مراد لی گئی ہے۔ جیسے فرمایا:
قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا ۙ وَ ہُمۡ یَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَہُمۡ عَلٰی ظُہُوۡرِہِمۡ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 31)
جن لوگوں نے اللہ کے روبرو حاضر ہونے کو جھوٹ سمجھا وہ گھاٹے میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب ان پر قیامت ناگہاں آ موجود ہو گی تو بول اٹھیں گے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو ہم نے قیامت کے بارے میں کی۔ اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔

2: اناء

ان بمعنی وقت کا کچھ حصہ (جمع اناء) اور انی یانی بمعنی کس چیز کا وقت آ جانا اور اس کا انتہا کا پہنچنا (مف) نیز انی بمعنی پورا دن یا اس کا کچھ حصہ (منجد) لیکن قرآن کریم میں اناء کا لفظ تین بار استعمال ہوا ہے (سورۃ آل عمران آیت 113) (سورۃ طہ آیت 13) اور (سورۃ الزمر آیت 9) اور تینو ں جگہ اناء کے ساتھ لیل کا لفظ آیا ہے۔ دن کے ساتھ اس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ لہذا اس سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ اناء کا لفظ رات کی گھڑیوں سے مختص ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 113)
یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان اہل کتاب میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔ جو رات کے وقت اللہ کی آیتیں پڑھتے اور اس کے آگے سجدے کرتے ہیں۔

3: زلف

رات کا ابتدائی حصہ یا پہلی گھڑیاں (ف ل 34) زلف کے بنیادی معنی مرتبہ اور قرب کے ہیں۔ رات کے ابتدائی حصہ کو زلف اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کا نزدیکی اور قریب کا حصہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 114)
اور دن کے دونوں سروں یعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ انکے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔

ماحصل:

  • ساعۃ: دن اور رات کی گھڑیوں میں سے کوئی ایک، زمانہ، قیامت۔
  • اناء: رات کی گھڑیاں
  • زلف: رات کا ابتدائی حصہ یا گھڑیاں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھسنا​

کے لیے ولج اور جاس (جوس) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ولج

کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا، گھسنا (مف)۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 40)
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی ان کے لئے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے اور گنہگاروں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔

2: جاس

بمعنی کسی چیز کے درمیان تک جا پہنچنا (م ل) اور بمعنی کسی چیز کی طلب میں انتہا کو پہنچ جانا (مف) اور جاس فی البیت بمعنی وہ فساد اور لوٹ کے لیے گھر میں گھس آیا (م ق) اور جوّاس بمعنی قوم میں گھس کر فساد برپا کرنے والا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 5)
پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کر دیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔ اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔

ماحصل:

  • وجل: تنگ جگہ میں داخل ہونے کے لیے۔
  • جاس: لوٹ اور فساد کے لیے گھسنے کے لیے آتا ہے۔

 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھسیٹنا​

کے لیے تین الفاظ جرّ، سحب اور عتل قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اور تینوں کا معنی زمین پر کھینچنا اور گھسیٹنا ہے۔ صرف کیفیت میں فرق ہے۔

1: جرّ

میں کھینچنا کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور گھسیٹنا کا کم۔ افقی سمت میں یا کسی کھڑی چیز کو اس طرح کھینچنا کہ اسے اپنے پاؤں پر قابو نہ رہے اور وہ گھسٹنے لگے تو یہ جرّ ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ (سورۃ الاعراف آیت 150)
اور جب موسٰی اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے بعد بہت ہی برا کام کیا۔ کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم جلد چاہا یہ کہا اور شدت غضب سے تورات کی تختیاں ڈالدیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔
اور جیش جرّار اس بڑے لشکر کو کہتے ہیں جو وسیع رقبے میں پھیلا آگے بڑھتا جاتا ہے جیسا کہ کھچتا یا گھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔

2: سحب

میں گھسٹنے کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کھنچنے کا کم۔ اور امام راغب کے نزدیک اسے کا معنی کسی کو منہ کے بل گھسیٹنا ہے (مف) جب کوئی چیز کھڑی کی بجائے پڑی سمت میں یا راسی کی بجائے افقی سمت میں ہو اور اسے گھسیٹا جائے تو یہ سحب ہے۔ اور سحاب بمعنی بادل کو سحاب اس لیے کہتے ہیں کہ (1) ہوا اسے کھینچ کر لے چلتی ہے اور (2) وہ خود اس طرح آگے بڑھتا ہے جیسے گھسٹتا چلا جا رہا ہو (مف)۔ قرآن میں ہے:
یَوۡمَ یُسۡحَبُوۡنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ ؕ ذُوۡقُوۡا مَسَّ سَقَرَ (سورۃ قمر آیت 48)
اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے کہا جائے گا لو اب آگ کا مزہ چکھو۔

3: عتل

عتل میں جرّ کی نسبت سے سختی اور بیدردی کا تصور پایا جاتا ہے (م ق) اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک گردن میں کوئی چیز ڈال کر نہایت سختی سے آگے کھینچنا (فل 188) قرآن میں ہے:
خُذُوۡہُ فَاعۡتِلُوۡہُ اِلٰی سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ (سورۃ الدخان آیت 47)
حکم دیا جائے گا کہ اسکو پکڑ لو اور کھینچتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔

ماحصل:

جرّ کسی کھڑی چیز کو اس طرح کھینچنا کہ وہ گھسٹنے لگے اور جب اس جرّ میں سختی اور بیدردی بھی ہو تو یہ عتل ہے۔ اور جب کسی پڑی چیز کو کھینچا جائے تو یہ سحب ہے۔

 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھوڑا​

کے لیے خیل، صفنت، جیاد (جود) اور عادیات (عدو) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: خیل

خیل اسم جنس ہے۔ یعنی ہر قسم کے گھوڑے پر اس کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ نر ہو یا مادہ (مف) پھر اس کا استعمال گھوڑوں کے گلہ یا گروہ پر بھی ہوتا ہے جیسے غنم بمعنی بکریوں کا ریوڑ اور اس کے علاوہ گھڑ سوار پر بھی (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 8)
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہارے لئے رونق و زینت بھی ہیں اور وہ اور چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جنکی تم کو خبر نہیں۔
اس آیت میں خیل کا استعمال بطور اسم جنس آیا ہے اور درج ذیل آیت میں خیل کا استعمال گھڑ سوار اور گھوڑے کے لیے مجموعہ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 64)
اور ان میں سے جسکو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ اور انکے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدہ کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
اور خیل کا بنیادی معنی قسم قسم کے تصورات کا دماغ میں حرکت کرنا ہے (م ل) اس سے خیال کا لفظ مشتق ہے۔ اور الخیلاء اس کبر و نخوت کو کہتے ہیں جو گھڑ سوار گھوڑے پر سوار ہو کر پیدل کے مقابلہ میں محسوس کرتا ہے۔ اسی سے لفظ تخیل ہے۔ بمعنی فراست سے کوئی بات معلوم کرنا (منجد) بلند پروازی۔

2: صفنت

(صافن کی جمع) صفن (الفرس) بمعنی گھوڑے کا تین ٹانگوں پر اس طرح کھڑا ہونا کہ چوتھے کھر کا صرف سرا زمین پر ٹکا رہے (منجد، مف) اور اس سے چاک و چوبند گھوڑا مراد لیا جاتا ہے۔

3: جیاد

(جیّد کی جمع) جود بمعنی کسی چیز میں وسعت ہونا۔ اور جوّاد سخی مرد یا عورت کو کہتے ہیں اور جاد الفرس بمعنی گھوڑے کا سبک اور تیز رفتار ہونا (م ل) اور جیّد کا لفظ کسی چیز کی عمدگی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک جیاد بمعنی تیز رفتار اور عمدہ گھوڑے ہے (ف ل 56) قرآن میں ہے:
اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالۡعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِیَادُ (سورۃ ص آیت 31)
جب انکے سامنے شام کو اصیل گھوڑے پیش کئے گئے۔

4: عادیات

عادیۃ کی جمع ہے اور عادیۃ، عادی کی مونث ہے اور عادی بمعنی وہ جماعت جو قتل و قتال کے لیے تیار ہو، لوٹنے والے گھوڑے۔ اور عد الفرس بمعنی گھوڑے نے ایک دوڑ لگائی اور تعادی القوم بمعنی لوگوں نے دوڑ میں مقابلہ کیا (منجد) گویا عادیات سے مارد وہ جنگ پر جانے والے گھوڑے ہیں جو مقابلہ کی دوڑ میں حصہ لیتے رہے ہوں۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا (سورۃ العادیات آیت 1)
ان سرپٹ دوڑانے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں۔

ماحصل:

  • خیل: اسم جنس۔ اس کا استعمال ہے۔ گھوڑے کے لیے بھی اور گھڑ سوار کے لیے بھی اور مجموعہ کے لیے بھی۔
  • صفنت: تین ٹانگوں پر کھڑا ہونے والے چاک و چوبند گھوڑے۔
  • جیاد: سب رفتار اور عمدہ قسم کے گھوڑے۔
  • عادیات: وہ گھوڑے جو گھڑ دوڑ میں حصہ لیتے اور جنگ کے لیے تیار کے گئے ہوں۔
گھومنا کے لیے دیکھیے "پھرنا"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

گھیرنا​

کے لیے حفّ، احاط (حوط)، حصر اور حاق (حیق) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

1: حفّ

بمعنی کسی چیز کو دونوں جانب سے گھیرنا (مف) اور حفّہ بکذا بمعنی احاطہ کر لینا (منجد) اور محفّۃ بمعنی ڈولی، تخت رواں جس پر چاروں طرف سے پردہ ڈالا گیا ہو (م ق) قرآن میں ہے:
وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا (سورۃ الکہف آیت 32)
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عنایت کئے تھے اور انکے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور انکے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ تَرَی الۡمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیۡنَ مِنۡ حَوۡلِ الۡعَرۡشِ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ قِیۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ الزمر آیت 75)
اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیرا باندھے ہوئے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف و تسبیح کر رہے ہیں اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔

2: احاط

بمعنی احاطہ کرنا، چار دیواری بنانا، کسی چیز کو اس طرح گھیرنا کہ اس چیز کی حفاظت رہے (مف) اس طرح کہ نہ تو وہ چیز خود باہر نکل سکے نہ اس میں سے کچھ کوئی دوسرا باہر لے جا سکے۔ جیسے گھر کا احاطہ چار دیواری سے کر لیا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ (سورۃ یونس آیت 22)
اور لہریں ہر طرف سے ان پر جوش مارتی ہوئی آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اب تو لہروں میں گھر گئے۔
اس لفظ کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 81)
ہاں کیوں نہیں جو برے کام کرے اور اس کے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔

3: احصر

بمعنی محاصرہ کرنا، گھیراؤ کرنا، کسی چیز کے گرد اس طرح گھیرا ڈالنا کہ وہ وہیں بند ہو کر رہ جائے اور باہر نہ نکل سکے (م ل، مف) محبوس کر لینا اور باہر سے کسی طرح کی رسد، کمک یا امداد انہیں نہ پہنچنے دینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوب آیت 5)
پس جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

4: حاق

بمعنی کسی چیز کا کسی چیز پر نازل ہونا (م ل) اور بمعنی کسی چیز کا کسی چیز پر نازل ہو کر اسے گھیر لینا (مف) گویا ایسا محاصرہ جو محصور کی اپنی ذات پر واقع ہوتا ہے۔ کسی پر مصیبت، آفت یا عذاب کا نازل ہونا جس سے وہ گھر جائے۔ اور حیق بمعنی مکافات عمل، برے کام کا برا نتیجہ (منجد)۔ گویا یہ لفظ برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 48)
اور انکے اعمال کی برائیاں ان پر ظاہر ہو جائیں گی اور جس عذاب کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انکو آ گھیرے گا۔
دوسرے مقام پر ہے:
اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٔ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا (سورۃ فاطر آیت 43)
یعنی انہوں نے ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا اختیار کیا اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی روش کے سوا اور کسی چیز کے منتظر نہیں سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔
مذکور آیت کا یہ حصہ بطور محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی چاہ کن را چاہ در پیش

ماحصل:

  • حفّ: سے مراد صرف گھیرنا یا گھیرا کرنا ہے۔
  • احاط: بمعنی گھیرا کرنا جس کا مقصد حفاظت ہو۔
  • احصر: گھیراؤ اور حبس یعنی کسی چیز کو بند کرنا۔
  • حاق: بمعنی کسی آفت کا کسی کو آ گھیرنا۔
 
Top