گھیرنا
کے لیے حفّ، احاط (حوط)، حصر اور حاق (حیق) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
1: حفّ
بمعنی کسی چیز کو دونوں جانب سے گھیرنا (مف) اور حفّہ بکذا بمعنی احاطہ کر لینا (منجد) اور محفّۃ بمعنی ڈولی، تخت رواں جس پر چاروں طرف سے پردہ ڈالا گیا ہو (م ق) قرآن میں ہے:
وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا (سورۃ الکہف آیت 32)
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عنایت کئے تھے اور انکے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور انکے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ تَرَی الۡمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیۡنَ مِنۡ حَوۡلِ الۡعَرۡشِ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ قِیۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ الزمر آیت 75)
اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیرا باندھے ہوئے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف و تسبیح کر رہے ہیں اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
2: احاط
بمعنی احاطہ کرنا، چار دیواری بنانا، کسی چیز کو اس طرح گھیرنا کہ اس چیز کی حفاظت رہے (مف) اس طرح کہ نہ تو وہ چیز خود باہر نکل سکے نہ اس میں سے کچھ کوئی دوسرا باہر لے جا سکے۔ جیسے گھر کا احاطہ چار دیواری سے کر لیا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ (سورۃ یونس آیت 22)
اور لہریں ہر طرف سے ان پر جوش مارتی ہوئی آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اب تو لہروں میں گھر گئے۔
اس لفظ کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 81)
ہاں کیوں نہیں جو برے کام کرے اور اس کے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔
3: احصر
بمعنی محاصرہ کرنا، گھیراؤ کرنا، کسی چیز کے گرد اس طرح گھیرا ڈالنا کہ وہ وہیں بند ہو کر رہ جائے اور باہر نہ نکل سکے (م ل، مف) محبوس کر لینا اور باہر سے کسی طرح کی رسد، کمک یا امداد انہیں نہ پہنچنے دینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوب آیت 5)
پس جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
4: حاق
بمعنی کسی چیز کا کسی چیز پر نازل ہونا (م ل) اور بمعنی کسی چیز کا کسی چیز پر نازل ہو کر اسے گھیر لینا (مف) گویا ایسا محاصرہ جو محصور کی اپنی ذات پر واقع ہوتا ہے۔ کسی پر مصیبت، آفت یا عذاب کا نازل ہونا جس سے وہ گھر جائے۔ اور حیق بمعنی مکافات عمل، برے کام کا برا نتیجہ (منجد)۔ گویا یہ لفظ برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 48)
اور انکے اعمال کی برائیاں ان پر ظاہر ہو جائیں گی اور جس عذاب کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انکو آ گھیرے گا۔
دوسرے مقام پر ہے:
اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٔ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا (سورۃ فاطر آیت 43)
یعنی انہوں نے ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا اختیار کیا اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی روش کے سوا اور کسی چیز کے منتظر نہیں سو تم اللہ کی عادت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے طریقے میں کوئی تغیر دیکھو گے۔
مذکور آیت کا یہ حصہ بطور محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی چاہ کن را چاہ در پیش
ماحصل:
- حفّ: سے مراد صرف گھیرنا یا گھیرا کرنا ہے۔
- احاط: بمعنی گھیرا کرنا جس کا مقصد حفاظت ہو۔
- احصر: گھیراؤ اور حبس یعنی کسی چیز کو بند کرنا۔
- حاق: بمعنی کسی آفت کا کسی کو آ گھیرنا۔