مترادفات القرآن (ل)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لاٹھی​

کے لیے عصا (عصو) اور منساۃ (نسا) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عصا

بمعنی چرواہے کا ڈنڈ، سونٹا (ف ل 231) (جمع عصی) (سورۃ طہ آیت 66)۔ قرآن میں ہے:
فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ الاعراف آیت 107)
موسٰی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اسی وقت ایک بڑا اژدھا بن گیا۔

2: منساۃ

مریض یا ضعیف کی لاٹھی (ف ل 231)۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ (سورۃ سباء آیت 14)
پھر جب ہم نے انکے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو انکے عصا کو کھاتا رہا پھر جب وہ گر پڑے تب جنوں کو معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔
اور ایسی لاٹھی جس کا سرا مڑا ہوا ہو اسے محجن کہتے ہیں (ف ل 231) عصا اور منساۃ دونوں کا سرا مڑا ہوا نہیں ہوتا۔ عصا موٹا اور مضبوط سونٹا ہے۔ اور منساۃ نسبتاً کم موٹی اور خوش شکل قسم کی لاٹھی ہوتی ہے۔
لالچ کے لیے دیکھیے "طمع رکھنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لانا​

کے لیے جاء ب، اتی ب، ھلمّ، ھاتوا، اجاء اور اجلب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں اور ان میں سے اکثر کی تفصیل "آنا" کے تحت دی جا چکی ہے۔ جاء اور اتی کا صلہ اگر ب ہو تو لانا کا معنی دیتا ہے۔ مثلاً:

1: جاء ب

فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقَدۡ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ جَآءُوۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ (سورۃ آل عمران آیت 184)
پھر اگر یہ لوگ تم کو جھٹلا رہے ہیں تو تم سے پہلے بہت سے پیغمبر کھلی ہوئی نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آ چکے ہیں کہ انکو بھی جھٹلایا گیا تھا۔

2: اتی بہ

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 23)
اور اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں انکو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔
ان کا ذیلی فرق آنا میں دیکھیے۔

3: ھلمّ

اسم فعل ہے۔ ھلمّ بمعنی پکار۔ یعنی کسی کو پکار پکار کر بلانا (م ل) یہ لفظ لازم و متعدی دونوں طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ لازم ہو تو آنا کا معنی دے گا جیسے ھلمّ الینا (سورۃ الاحزاب آیت 18) یعنی ہمارے پاس چلے آؤ اور بطور متعدی استعمال ہو تو لانا کا معنی دے گا۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ ہَلُمَّ شُہَدَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ یَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ ہٰذَا ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَلَا تَشۡہَدۡ مَعَہُمۡ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ ہُمۡ بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 150)
کہو کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو بتائیں کہ اللہ نے یہ چیزیں حرام کی ہیں۔ پھر اگر وہ آ کر گواہی دیں تو تم ان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور نہ ان کی خواہشوں کی پیروی کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور بتوں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں۔

4: ھاتوا

اہل لغت کے نزدیک یہ لفظ اصل میں اتوا ہی ہے جو اتی سے امر جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے۔ اور یہ لفظ اسم امر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ابن الفارس کے نزدیک اس کا معنی بھی چیخ کر پکارنا ہے۔ "یدلّ علی الصّیحۃ" (م ل) مگر بعض کے نزدیک اس کے معنی ادھر لانے یا جلدی لاؤ کے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 111)
اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا یہ ان لوگوں کے خیالات باطل ہیں اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ اگر سچّے ہو تو دلیل پیش کرو۔

5: اجآء

مجبور اور لاچار کر کے لانا (مف)، اضطرارا لانا یا لانے کا باعث بننا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا (سورۃ مریم آیت 23)
پھر دردزہ انکو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکتی اور بھولی بسری ہو گئ ہوتی۔

6: اجلب

جلب بمعنی کسی چیز کو چلانا اور ہنکانا۔ اور اجلب علیہ بمعنی کسی کو چلا کر اسے زبردستی آگے بڑھانا ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 64)
اور ان میں سے جسکو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ اور انکے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدہ کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔

ماحصل:

  • جاءب: اس کا استعمال عام ہے۔
  • اتی ب: کسی بات کے نتیجہ کے طور پر لانا۔
  • ھلمّ: جب پکار کر لانے کو کہا جائے۔
  • ھاتوا: بمعنی ادھر لاؤ، یہاں لاؤ۔
  • اجآء: کسی چیز کو اضطرارا لانا۔ لانے کا باعث بننا۔
  • اجلب: پیچھے سے کسی کو زبردستی ہنکا کر لانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لائق​

کے لیے ینبغی، اجدر، اولی اور حقّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ینبغی

انبغی بمعنی سہل اور آسان ہونا۔ اور ینبغی بمعنی لائق ہونا، مناسب ہونا (منجد) اور یہ لفظ کسی ایسے فعل کے لیے آتا ہے جس کے لیے وہ مسخ ہو۔ کہتے ہیں النار ینبغی ان یحرق الثّوب یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے (مف) صرف یہی واحد مذکر غائب مضارع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ اور ان امور کے متعلق آتا ہے جو فطرت میں داخل یا شامل ہوں۔ لغوی اعتبار سے یہ نفی اور اثبات دونوں طرح استعمال ہو سکتا ہے۔ اثبات کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔ تاہم اوپر دی جا چکی ہے۔ منفی کی مثال قرآن میں یوں ہے:
لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ (سورۃ یس آیت 40)
نہ تو سورج ہی سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ یس آیت 69)
اور ہم نے ان کو یعنی اپنے پیغمبر ﷺ کو شعرگوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ انکو شایاں ہی ہے۔ یہ تو محض نصیحت ہے اور صاف صاف قرآن ہے۔

2: اجدر

جدر بمعنی لائق اور مناسب ہونا۔ اور اجدر اسم مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ اختیاری امور کے لیے آتا ہے۔ جدیر الذکر بمعنی قابل ذکر اور جدیر الثّنا بمعنی قابل ستائش اور اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی بات کسی کے مناسب حال اور شایان شان ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجۡدَرُ اَلَّا یَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 97)
دیہاتی لوگ پکے کافر اور پکے منافق ہیں اور ایسے ہیں کہ جو احکام شریعت اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ہی نہ ہو پائیں۔ اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔

3: اولی

ولی بمعنی حامی، دوست اور موالی کا ایک معنی ترکہ کا وارث۔ اور ولاء بمعنی آزاد کردہ غلام کا ترکہ اور حق تولیت۔ اور اولی بمعنی لائق تر، مناسب تر، زیادہ حقدار اختیار امور کے لیے آتا ہے۔ اور صرف اثبات کے لیے آتا ہے۔ اور ینبغی سے زیادہ ابلغ ہے (مف) اس کا بھی صرف یہی صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا صلہ ب سے آئے ہیں اور اس کا معنی ہو گا وہی اس کا اہل ہے، وہی زیادہ مناسب یا حقدار ہے۔ قرآن میں ہے:
ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا (سورۃ مریم آیت 70)
پھر ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو اس میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ (سورۃ الاحزاب آیت 6)
پیغمبر مومنوں پر انکی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔
اور اولی کا اصلہ اگر ل سے ہو تو یہ کلمہ نفرین و تہدید بن جائے گا۔ بمعنی خرابی، ہلاکت وغیرہ۔ قران میں ہے:
اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی (سورۃ القیامۃ آیت 34)
خرابی ہے تیری خرابی پر خرابی ہے۔

4: حقّ

بمعنی ثابت ہونا، واجب ہونا۔ اور حقّ ان یفعل کذا یعنی ایسا کرنا ہی اس کے لیے واجب اور سزا وار ہے (منجد) یعنی اس کا یہی حق تھا کہ وہ ایسا کرتا۔ اس کا استعمال بھی صرف اثبات کے طور پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ (سورۃ الانشقاق آیت 1، 2)
جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور اپنے پروردگار کا فرمان سن لے گا اور یہی اسکے لائق بھی ہے۔

ماحصل:

  • ینبغی: صرف تسخیری امور کے لیے۔
  • اجدر: اختیاری امور کے لیے، کسی کے مناسب حال امر پر۔ شایان شان بات کے لیے۔
  • اولی: یہ اجدر سے زیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اختیاری امور میں صرف اثبات کے لیے آتا ہے۔
  • حقّ: جب کسی کے لیے وہی بات ہی سزا وار ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لپیٹنا – لپٹنا​

کے لیے طوی، لفّ اور کوّر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: طوی

بمعنی تہہ کر کے لپیٹنا، بساط لپیٹنا، دستر خوان تہہ کرنا۔ طویت الثوب والکتاب یعنی جیسے کپڑا یا کتاب لپیٹی یا بند کی جاتی ہے (م ل)۔ کہتے ہیں نشرت الکتاب ثم طویئتہ یعنی میں نے کتاب کھولی پھر بند کر دی۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 104)
جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے کائنات کو پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کر دیں گے یہ وعدہ ہے جس کا پورا کرنا لازم ہے۔ ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔

2: لفّ

بمعنی ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملا دینا اور مدغم کر دینا (مف) ایک چیز کی تہہ لگانا۔ پھر اس کے اوپر دوسری چیز کی تہہ لگا کر ملانا۔ پھر اس کے بعد اس کے اوپر تیسری تہ کو (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَّ قُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 104)
اور اسکے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس ملک میں رہو سہو۔ پھر جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لے آئیں گے۔
اور لپٹنا کے لیے التفّ استعمال ہو گا۔ بمعنی ایک چیز پر دوسری چیز کا لگ کر چمٹ جانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ (سورۃ القیامۃ آیت 29، 30)
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے۔ اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف کھنچے چلے چلنا ہے۔

3: کوّر

کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا۔ اور اکتار الفرس بمعنی گھوڑے کا اپنی دم گھمانا (مف) اور پگڑی کی طرح لپیٹنے کے لیے لفّ بھی استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں لففت عمامتی علی راسی یعنی میں نے اپنے سر پر پگڑی لپیٹی۔ وہ اس لحاظ سے ہے کہ ایک تہہ پر دوسری تہہ جمتی جاتی ہے۔ اور پگڑی لپیٹنے کے لیے کوّر کا لفظ زیادہ ابلغ ہے۔ کیونکہ کوّر میں تجمع اور گولائی کے دونوں تصور موجود ہوتے ہیں جو پگڑی میں پائے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ۚ یُکَوِّرُ الَّیۡلَ عَلَی النَّہَارِ وَ یُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیۡلِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اَلَا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفَّارُ (سورۃ الزمر آیت 5)
اسی نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے سب ایک وقت مقرر تک چلتے رہیں گے۔ دیکھو وہی غالب ہے بخشنے والا ہے۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ (سورۃ التکویر آیت 1)
جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔

ماحصل:

  • طوی: بمعنی کسی چیز کو تہ کرنا جیسے دستر خوان لپیٹنا۔
  • لفّ: ایک چیز پر دوسری رکھ کر اسے مدغم کر دینا۔
  • کوّر: گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لٹکنا – لٹکانا​

کے لیے ادلی، تدلّی، علّق، تردّد اور ذبذب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ادلی

دلی بمعنی سہولت اور نرمی کے ساتھ کسی چیز کا قریب ہونا (م ل) دلاہ بمعنی کسی سے نرمی اور مدارات کا سلوک کرنا۔ اور دلو بمعنی خالی ڈول۔ اور دلی الدّلو بمعنی ڈول کو کنوئیں میں ڈالنے اور نکالنے کے لیے کھینچنا۔ اور ادلی دلوہ بمعنی اس نے خالی ڈول پانی سے بھرنے کے لیے کنویں میں لٹکایا۔ قرآن میں ہے:

وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 19)

اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسکو قیمتی سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا۔

تدلّی:

بمعنی خود سہولت اور نرمی سے نیچے لٹکنا۔ کہتے ہیں تدلّی الثمر من الشّجر درخت کا پھل لٹک آیا (منجد) قرآن میں ہے:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی (سورۃ النجم آیت 8)

پھر وہ قریب ہوئے پھر مزید نیچے آ گئے۔

2: علّق

علق بمعنی کسی چیز میں پھنس جانا۔ کہتے ہیں علق الصّید فی الجعالۃ یعنی شکار جال میں پھنس گیا۔ اور علّق بمعنی لٹکانا، پھنسانا۔ اور علق بمعنی لٹکائی ہوئی چیز۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 129)

اور تم خواہ کتنا ہی چاہو بیویوں میں ہرگز عدل نہیں کر سکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ۔ اور دوسری کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ گویا ادھر میں لٹک رہی ہے۔ اور اگر آپس میں مصالحت کر لو اور پرہیزگاری کرو تو اللہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔

3: تردّد

ردّ بمعنی واپس کرنا، لوٹانا، موڑنا۔ اور تردّد بمعنی ایک خیال کا آنا پھر اس کی بجائے دوسرا خیال آنا وہ بھی نکل جانا پھر کوئی اور خیال آ جانا۔ اور تردّد فی الامر بمعنی شک و شبہ میں پڑنا (منجد)، حیران رہ جانا اور کوئی فیصلہ نہ کر پانا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ ارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 45)

اجازت وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ پر اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے اور انکے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں۔

4: ذبذب

الذّبذبۃ اصل میں معلق چیز کے ہلنے کی آواز کو کہتے ہیں۔ پھر بطور استعارہ ہر قسم کی حرکت اور اضطراب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (مف) اور الذّبذبۃ بمعنی ہوا میں حرکت کرنے والی چیز، وہ چیز جو پالکی کی زینت کے لیے لٹکائی جائے۔ اور ذبذب الرجل بمعنی کسی شخص کا حیران اور متردد ہونا (منجد) گویا ذبذب میں مختلف راہوں میں سے کسی راہ کا فیصلہ نہ کر پانے کی وجہ سے اضطراب کے ساتھ خود درمیان میں لٹکے رہنا ہے۔ ارشاد باری ہے:

مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 143)

ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں نہ ان کی طرف ہوتے ہیں نہ ان کی طرف۔ اور جس کو اللہ بھٹکائے تو تم اس کے لئے کبھی بھی رستہ نہ پاؤ گے۔

ماحصل:

  • ادلی: کسی چیز کو آہستہ آہستہ اور نرمی سے لٹکانا۔
  • علّق: کسی چیز کو لٹکائے اور پھنسائے رکھنا۔
  • تردّد: خیالات کے اختلاف کی بنا پر ڈانواں ڈول اور لٹکے رہنا۔
  • ذبذب: ایسا تردد جس میں اضطراب بھی شامل ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لحاظ رکھنا​

کے لیے رقب اور رعی کے الفاظ آئے ہیں۔
1: رقب
کسی کی گردن پر نظر رکھنا، کڑی نگہداشت کرنا (مف) اور بمعنی نگرانی کرنا، نگہبانی کرنا، انتظار کرنا (منجد)، پاسداری کرنا۔ قرآن میں ہے:
لَا یَرۡقُبُوۡنَ فِیۡ مُؤۡمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُعۡتَدُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 10)
یہ لوگ کسی مومن کے حق میں نہ تو رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ عہد کا اور یہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
2: رعی
بمعنی کسی چیز کی حفاظت اچھے طور پر کرنا اور اس کا دھیان رکھنا (مف) کسی عہد یا ذمہ داری کر نباہنا اور اس کی فکر کرنا۔ اور راعی بمعنی چرواہا جو اپنے ریوڑ کی حفاظت پر مامور ہوتا ہے اور بمعنی کسی چیز کی حفاظت کرنا اور بیرونی خطرات کے دور کرنے کے اسباب کو دور کرنا (ضد اھمال یعنی بغیر چرواہا کے ریوڑ کا چرنا) (فق ل 15) قرآن میں ہے:
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 8)
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔
ماحصل:
رقب کا لفظ محض کسی چیز پر کڑی نظر یا بہ کراہت دھیان رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ رعی میں اس چیز کی بطیب خاطر حفاظت بھی مقصود ہوتی ہے۔
لرزنا کے لیے دیکھیے "کانپنا"۔
لڑکا کے لیے دیکھیے "بچہ"۔
لڑائی – لڑائی کرنا کے لیے دیکھیے "جنگ''۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لشکر​

کے لیے جند، حزب، نفیر، فئۃ اور ثبات کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: جند
فوجی لشکر کے لیے کثیر الاستعمال اور معروف لفظ جس کا استعمال عام ہے۔ جندی بمعنی فوجی اور جنّد بمعنی فوج میں بھرتی کرنا (منجد) (جمع جنود)۔ (جند کے علاوہ لشکر کے لیے ایک اور عام لفظ جیش ہے جس کی جمع جیوش ہے۔ اس کا استعمال قرآن میں نہیں ہوا اور دوسرا لفظ عسکر ہے جمع عساکر۔ یہ بھی قرآن میں نہیں ہے۔ عساکر اور جیوش عام طور پر ان لشکروں کو کہا جاتا ہے جو اعلان جہاد پر مختلف پہلوؤں سے جمع ہونے شروع ہو جاتے ہیں خواہ ان کے پاس سامان حرب ہو یا نہ ہو) اور جند صرف مسلح لشکر کو کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ (سورۃ البقرۃ آیت 249)
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا۔
2: فوج
بمعنی تیزی سے گزر جانے والی جماعت، جنگی دستہ (مف) (جمع افواج) طائفۃ سے بڑی جماعت(فل 203) لیکن قرآن میں یہ لفظ بالعموم "ایک جماعت" کے معنوں میں ہی آیا ہے۔ جنگی دستہ کے معنوں میں نہیں آیا۔ گویا جو تصور آج کل فوج کے لفظ سے پیدا ہوتا ہے قرآن سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 83)
اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک بڑے گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے پھر ان کی جماعت بندی کی جائے گی۔
3: حزب
بمعنی گروہ، پارٹی، جتھا، ہم خیال لوگوں کا گروہ، اور احزاب ایسے لوگ جن کے دل اور اعمال مناسبت رکھتے ہوں اگرچہ آپس میں نہ ملیں۔ اور حازب بمعنی کسی پارٹی میں داخل ہونا، مدد کرنا، قوت پہنچانا۔ اور حزّب بمعنی قوم کے گروہ گروہ بنا کر جمع کرنا (منجد) اور حزب بمعنی وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے (مف) اور حزب دراصل سیاسی پارٹی کو کہتے ہیں۔ اور قرآن کی رو سے بڑے حزب صرف دو ہی ہیں۔ ایک حزب اللہ اور دوسرے حزب الشیطان۔ جن میں ہر وقت محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور حزب الشیطان پھر کئی چھوٹے احزاب میں منقسم ہو جاتا ہے جیسے جنگ خندق کے موقعہ پر کفار کے کئی احزاب مل کر مقابلہ پر اتر آئے تھے۔ نیز حزب بمعنی ایک جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ (م ق)۔ قرآن میں ہے:
یَحۡسَبُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ لَمۡ یَذۡہَبُوۡا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ یَوَدُّوۡا لَوۡ اَنَّہُمۡ بَادُوۡنَ فِی الۡاَعۡرَابِ یَسۡاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآئِکُمۡ ؕ وَ لَوۡ کَانُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 20)
یہ لوگ خوف کے سبب خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گئیں۔ اور اگر لشکر آ جائیں تو تمنا کریں کہ کاش خانہ بدوشوں میں جا رہیں اور تمہاری خبر پوچھا کریں۔ اور اگر تمہارے درمیان ہوں تو لڑائی نہ کریں مگر کم۔
4: فئۃ
فای الراس فلان بمعنی کسی کے سر کو تلوار سے پھاڑ دینا (منجد) فئۃ بمعنی ایسی جنگی جماعت جس کے افراد باہمی تعاون کے لیے آپس میں رابطہ قائم رکھتے ہوں (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 249)
بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے۔
5: نفیر
نفر بمعنی جنگ یا کسی مہم پر روانہ ہونا۔ اور نفیر بمعنی لڑائی کی طرف کوچ کرنے والے لوگ اور (2) نفیر بمعنی دس سے کم آدمیوں کا گروہ (منجد)۔
6: ثبات
بمعنی ایسے بہادر شہسوار جن کا حملہ خطا نہ جاتا ہو (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا (سورۃ النساء آیت 71)
مومنو! جہاد کے لئے ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔
ماحصل:
  • جند: بھرتی شدہ مسلح لشکروں کا دستہ۔
  • فوج: تیزی سے گزرنے والی جماعت۔
  • حزب: پارٹی، سیاسی فرقہ۔
  • فئۃ: ایسی جنگجو جماعت جس کا آپس میں تعاون ہو۔
  • نفیر: کسی مہم یا جنگ پر روانہ ہونے والے لوگ۔
  • ثبات: بہادر شہسواروں کا چھوٹا دستہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لکڑی​

کے لیے حطب اور خشب کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: حطب
ایسی لکڑی جو صرف جلانے کے قابل ہو، ایندھن (م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَّ امۡرَاَتُہٗ ؕ حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ (سورۃ المسد آیت 4)
اور اسکی بیوی بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے۔
2: خشب
ایسی لکڑی جو کار آمد ہو، عمارت میں کام آ سکنے والی لکڑی۔ ابن الفارس کے الفاظ میں سخت اور موٹی لکڑی (جمع خشب) TIMBER (م ل)۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (سورۃ المنافقون آیت 4)
اور جب تم انکے تناسب اعضاء کو دیکھتے ہو تو انکے جسم تمہیں کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب یہ گفتگو کرتے ہیں تو تم انکی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئ ہیں بزدل ایسے کہ ہر زور کی آواز کو سمجھیں کہ ان پر بلا آئی۔ یہ تمہارے دشمن ہی ہیں سو ان سے محتاط رہنا۔ اللہ انکو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لکھنا​

کے لیے خطّ، سطر، رقم اور کتب کے الفاظ آئے ہیں۔
1: خطّ
بمعنی لکیریں کھینچنا، نشان لگانا اور انہیں لمبائی میں لمبا کرنا۔ مخطّط بمعنی دھاری دار کپڑا اور خطاط بمعنی بہت لکھنے والا (منجد) گویا خطّ سے مراد محض لمبائی کے رخ کچھ لکھ دینا ہے، وہ تحریر جیسی بھی ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 28)
اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔
2: سطر
سطر بمعنی لکیر، قطار، تحریر کی سطر (منجد) اور سطر بمعنی سطر بندی کرنا، سطریں بنانا، لکھنا، سیدھی سطور لکھنا۔ قرآن میں ہے:
نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ (سورۃ القلم آیت 1)
نٓ۔ قلم کی اور جو کچھ لکھنے والے لکھتے ہیں اسکی قسم۔
3: رقم
بمعنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانا، لکھنا (کپڑے پر) نقش و نگار بنانا۔ اور مرقم بمعنی نقش کنے کا آلہ اور مرقوم بمعنی واضح لکھی ہوئی (منجد) اور رقم بمعنی ایسی تحری کرنا جو واضح اور موٹے خط میں لکھی گئی ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ یَّشۡہَدُہُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 20، 21)
ایک دفتر ہے لکھا ہوا۔ جسکے پاس مقرب فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
4: کتب
ایسے لکھنا جو اپنا مفہوم ادا کرنے میں مکمل ہو (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
مومنو! جب تم آپس میں کسی معیاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اسکو لکھ لیا کرو
ماحصل:
  • خطّ: محض لمبائی کے رخ کچھ لکھ دینا۔
  • سطر: سطور بنا کر لکھنا۔
  • رقم: ایسے لکھنا کہ تحریر واضح اور موٹی ہو۔
  • کتب: ایسی تحریر جو اپنا مفہوم ادا کرنے میں مکمل ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لکھوانا

کے لیے استنسخ، املّ (ملّ) اور اکتتب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: استنسخ
نسخ الکتاب بمعنی کتاب کی کاپی کرنا اور نسخہ وہ کتاب جس سے نقل کی جائے، نقل شدہ کتاب اور استنسخ بمعنی لکھنے یا نقل کرنے کو کہنا (منجد) کتاب کو حرف بہ حرف نقل کرنا۔ ارشاد باری ہے:
ہٰذَا کِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّا کُنَّا نَسۡتَنۡسِخُ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الجاثیۃ آیت 29)
یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کر دے گی جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔
2: املّ
بمعنی تحریر لکھوانا۔ اس طرح کہ ایک آدمی بولتا جائے اور دوسرا لکھتا جائے، لکھوانا، لکھنے کے بعد پڑھ کر سنانا (تفصیل "پڑھنا" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اور چاہیے کہ وہ شخص لکھوائے جس نے قرض لیا ہے۔
3: اکتتب
لکھنا، املا کرانا، لکھانا، لکھنے کی درخواست کرنا (منجد) اکتتب کا لفظ عموماً جھوٹی اور جعلی تحریر کے متعلق استعمال ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا (سورۃ الفرقان آیت 5)
اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنکو اس نے جمع کر رکھا ہے اور وہ صبح و شام اسکو لکھوائی جاتی ہیں۔
ماحصل:
  • استنسخ: کسی کو کوئی چیز نقل کرنے کو دینا، لکھوانا۔
  • املّ: ایک شخص کا بولتے اور دوسرے کو لکھتے جانا۔
  • اکتتب: کا استعمال عموماً جھوٹی اور جعلی نقل سازی کے لیے ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لکھنے والا​

کے لیے کاتب اور سفرۃ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: کاتب
ہر وہ شخص جو کوئی چیز لکھتا ہے وہ کاتب ہے۔ یہ لفظ معروف اور اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ (سورۃ البقرۃ آیت 283)
اور اگر تم سفر پر ہو اور دستاویز لکھنے والا نہ مل سکے تو کوئی چیز رہن با قبضہ رکھ کر قرض لے لو
2: سفرۃ
(سافر کی جمع) السّفر بمعنی وہ کتاب جو حقائق کو بے نقاب کرتی ہو (م ل) اور اسفار بمعنی تورات کی شروح و تفاسیر۔ اور سافر وہ شخص جو ایسی تحریر کرتا یا لکھتا ہو۔ نامۂ اعمال لکھنے والے فرشتے، الہامی تحریر لکھنے والے۔ ارشاد باری ہے:
فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ (سورۃ عبس آیت 13 تا 16)
قابل ادب ورقوں میں لکھا ہوا۔ جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں۔ ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ جو بلند مرتبہ اور نیکو کار ہیں۔
ماحصل:
  • کاتب: عام ہے۔
  • سفرۃ: متبرک اور پاکیزہ تحریریں لکھنے والے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لگا تار – پے در پے​

کے لیے تترا، علی فترۃ، حسوم، ردف، داب، متتابع اور وصّل کے الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں۔
1: تترا
بمعنی ایک کے بعد دوسرا آنا اس طرح کے درمیان میں وقفہ نہ ہو (منجد) تواتر اور متواتر مشہور الفاظ ہیں۔ یعنی بیک وقت کئی ایک تو ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی وقت کوئی بھی نہ۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا ؕ کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوۡلُہَا کَذَّبُوۡہُ فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّ جَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ ۚ فَبُعۡدًا لِّقَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ المؤمنون آیت 44)
پھر ہم لگاتار اپنے پیغمبر بھیجتے رہے جب کسی امت کے پاس اس کا پیغمبر آتا تھا تو وہ اسے جھٹلا دیتے تھے۔ تو ہم بھی بعض کو بعض کے پیچھے ہلاک کرتے اور ان پر عذاب لاتے رہے اور انکو داستانیں بنا کر چھوڑتے رہے پس جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان پر لعنت۔
2: علی فترۃ
فتر بمعنی کام کرتے کرتے کسی چیز کی رفتار کا کم ہونا اور اس میں ضعف واقع ہونا (م ل، مف)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ عَلٰی فَتۡرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا جَآءَنَا مِنۡۢ بَشِیۡرٍ وَّ لَا نَذِیۡرٍ ۫ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَشِیۡرٌ وَّ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ المائدۃ آیت 19)
اے اہل کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصے تک منقطع رہا تو اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں جو تم سے ہمارے احکام بیان کرتے ہیں۔ تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری یا ڈر سنانے والا نہیں آیا۔ سو اب تمہارے پاس خوشخبری اور ڈر سنانے والے آ گئے ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
3: حسوما
حسم بمعنی کسی چیز کے نشان کو زائل کرنا اور مٹا دینا۔ اور حسم الدّاء بمعنی مسلسل داغ دے کر زخم اور اس کے نشان کو مٹا دینا۔ اور نالہ حسوما بمعنی نحوست نے اس کا نام و نشان مٹا ڈالا (مف) اور حسم بمعنی جڑ سے کاٹنا۔ حسم العرق بمعنی رگ کاٹ کر اس کو داغ دینا تاکہ خون بند ہو جائے۔ اور حسوم بمعنی نا مبارک، منحوس (منجد) گویا حسوم میں تین باتوں کا تصور پایا جاتا ہے (1) تکلیف اور نحوست (2) تسلسل (3) قلع قمع۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ (سورۃ الحاقۃ آیت 6، 7)
رہے عاد تو انکو نہایت زوردار آندھی سے تباہ کر دیا گیا۔ اللہ نے اسکو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو اے مخاطب تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح گرے ہوئے دیکھتا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔
اس آیت میں حسوم کا لفظ تینوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
4: ردف
بمعنی کسی کے پیچھے سوار ہونا۔ اور اردف بمعنی کسی کو اپنے پیچھے سوار کرنا، یکے بعد دیگرے آنا، پے در پے آنا۔ اور ترادف ایک دوسرے کی مدد کرنا، ایک دوسرے کے پیچھے سوار ہونا (منجد) اور ارداف الملوک بمعنی بادشاہوں کے جانشین (مف)۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 9)
جب تم لوگ اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ تسلی رکھو ہم ہزار فرشتوں سے جو ایکدوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے۔
5: داب
بمعنی کوشش اور مشقت سے برابر کسی کام کو کرتے جانا (منجد) مسلسل اور بغیر وقفہ کے چلتے رہنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ ۚ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ (سورۃ ابراہیم آیت 33)
اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں دن رات ایک ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا۔
6: متتابع
بمعنی دو چیزوں کا آپس میں اس طرح آگے پیچھے آنا یا ہونا کہ ان میں کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ ۫ تَوۡبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ (سورۃ النساء آیت 92)
اور جس کو یہ میّسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ کفارہ اللہ کی طرف سے قبول توبہ کے لئے ہے۔
7: وصّل
وصل بمعنی ملانا اور جوڑنا (م ل) یعنی کسی چیز کو اس طرح ملانا کہ وہ جڑ جائے۔ اور وصّل میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور واصل الشئ یا واصل بالشئ بمعنی ہمیشگی کے ساتھ کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ وَصَّلۡنَا لَہُمُ الۡقَوۡلَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 51)
اور ہم پے در پے ان لوگوں کے پاس ہدایت کی باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت حاصل کریں
ماحصل:
  • تترا: متواتر، لگا تار، بلا انقطاع۔
  • علی فترۃ: پہلے کا اثر ماند پڑنے پر سلسلہ جاری رکھنا۔
  • حسوم: لگاتار مصیبت اور نحوست جو قلع قمع کر دے۔
  • ردف: ایک کے بعد دوسرا جبکہ وہ سب ایک دوسرے کے ممد و معاون بھی ہوں۔
  • داب: کوشش اور مشقت سے لگاتار چلتے جانا۔
  • متتابع: دو ہم جنس چیزو ں کا اس طرح آگے پیچھے ہونا کہ درمیان میں کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو۔
  • وصّل: ایک چیز کو دوسری سے ملا کر اس طرح جوڑنا کہ وقفہ کا امکان ہی ختم ہو جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لوٹنا – لوٹانا – رجوع کرنا​

کے لیے رجع، اب (اوب)، تاب (توب)، اناب (نو)، باء (بوء)، فاء (فئ)، صدر، صار (صیر)، ارتدّ (ردّ)، افاض اور ھاد کے الفاظ آئے ہیں۔
1: رجع
بمعنی کسی چیز کا اپنے مبداء کی طرف لوٹنا، خواہ یہ چیز کوئی جاندار ہو یا بے جان، قول ہو یا فعل نیز اس لوٹنے کے فعل میں لوٹنے والے کے ارادہ کو دخل ہو یا نہ ہو (مف) مشہور مقولہ ہے کل شیء یرجع الی اصلہ یعنی ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ گویا اس لفظ کا استعمال ہر لحاظ سے عام ہے۔ قرآن میں ہے:
الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 156)
کہ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اور ارجع بمعنی لوٹانا۔ جیسے فرمایا:
ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ البقرۃ آیت 210)
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر اللہ کا عذاب بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں اور کام تمام کر دیا جائے۔ اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔
2: اب
یہ رجع سے اخص ہے۔ اور صرف جاندار کے لیے آتا ہے۔ اور ماب بمعنی مرجع، لوٹنے کی جگہ، ٹھکانا (مف، منجد) اور ایاب بمعنی باز گشت یا واپسی کا سفر اور ذھاب و ایاب بمعنی جانا اور واپس آنا۔ اب میں یہ ضروری نہیں کہ لوٹنے والے کے ارادہ کو دخل ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 25، 26)
بیشک انکو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔ پھر ہمارے ہی ذمے ان سے حساب لینا ہے۔
اور جب یہ فعل ثلاثی مزید فیہ میں جائے گا مثلاً اوب اور اوّب تو اس صورت میں لوٹنے والے کے ارادہ کو بھی دخل ہو گا۔ اوّاب بمعنی لوٹنے والا۔ ہر آن رجوع کرنے والا۔ ارشاد باری ہے:
رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 25)
جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔ اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع لانے والوں کو بخش دینے والا ہے۔
3: تاب
بمعنی گناہ کے کاموں سے لوٹنا، گناہ کا اعتراف اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا، توبہ کرنا (مف) اور اگ اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو توبہ قبول کرنا، گناہ معاف کر دینا یا مہربان ہونا کے معنی میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 160)
ہاں جو توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کر لیتے اور احکام الٰہی کو صاف صاف بیان کر دیتے ہیں تو میں ان کے قصور معاف کر دیتا ہوں اور میں بڑا معاف کرنے والا بڑا مہربان ہوں۔
4: اناب
ناب الیہ بمعنی کسی طرف بار بار آنا اور نوبۃ بمعنی باری، دفعہ، موقعہ، فرصت اور اناب بمعنی نائب ہونا، قائم مقام ہونا۔ اور اناب الی اللہ بمعنی اللہ تعالی کی طرف بار بار متوجہ ہونا اور رجوع کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ (سورۃ الممتحنۃ آیت 4)
اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں ہمیں لوٹ کر آنا ہے۔
5: باء
بوء کے بنیادی معنی دو ہیں (1) لوٹنا اور (2) برابر ہونا (م ل)۔ یعنی اس حال میں لوٹنا کہ ان کے اعمال کا عوض ان کے سامنے آ جائے۔ یا عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی اچھی حالت سے بری حالت کو لوٹنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
اور آخرکار ذلت و رسوائی اور محتاجی و بے نوائی ان سے چمٹا دی گئ اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور اس کے نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یعنی اس لئے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے۔
یعنی ان کی حالت ایسی تھی کہ وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہونے کے مستحق ہو گئے تھے۔
6: فاء
بمعنی اچھی حالت کی طرف لوٹنا (مف) یعنی اپنی اصلاح کر لینا اور بھی حالت سے اچھی کی طرف واپس آنا۔ اور بمعنی قریب سے ہی لوٹ آنا (فق ل 249)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (سورۃ حجرات آیت 9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
7: صدر
صدر اور اصدر بمعنی پانی سے سیر ہو کر واپس لوٹنا۔ کہتے ہیں صدت الابل من الماء یعنی اونٹ پانی سے سیر ہو کر واپس آئے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ (سورۃ القصص آیت 23)
اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور انکے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔
اور صدر کی ضد ورد ہے۔ یعنی پانی پینے کے لیے گھاٹ پر پہنچنا (مف) اور ورد بمعنی گھاٹ بھی (سورۃ ھود آیت 99) اور بمعنی پیاسا بھی آتا ہے۔ اور وارد بمعنی وہ شخص جو پانی لانے کے لیے کنویں یا گھاٹ پر جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 19)
اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسکو قیمتی سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا۔
8: صار
(صیر) کے معنی میں دو بنیادی باتیں ہیں (1) رجوع اور (2) انجام (م ل) تفصیل انجام میں دیکھیے۔ بمعنی آخری باز گشت۔ قرآن میں ہے:
صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ شوری آیت 53)
یعنی اس اللہ کا رستہ جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے۔ دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے اور وہی ان میں فیصلہ کرے گا۔
9: ردّ اور ارتدّ
ردّ بمعنی کسی چیز کے نا قابل قبول ہونے کی وجہ سے اس کو لوٹا دینا، پھیر دینا (م ق) اور ردّ بمعنی مردود بھی آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ (سورۃ یوسف آیت 65)
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے ابا ہمیں اور کیا چاہیے دیکھئے یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کر دی گئ ہے۔ اور ہم اپنے اہل و عیال کے لئے پھر غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے اور ایک بار شتر زیادہ لائیں گے کہ یہ غلہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے۔
اور ارتدّ بمعنی کسی چیز کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے خود پیچھے ہٹ جانا یا واپس لوٹ جانا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 25)
جو لوگ راہ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انکو اچھا کر کے دکھایا۔ اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔
پھر ردّ اور ارتدّ کا استعمال عام ہوا تو محض لوٹانے اور لوٹنے کے معنوں میں بھی آنے لگا۔ جیسے فرمایا:
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۚۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 96)
مگر جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو اس نے کرتہ انکے منہ پر ڈال دیا سو وہ بینا ہو گئے۔ اور بیٹوں سے کہنے لگے۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟
10: انقلب
قلب بمعنی رخ یا حالت کو پلٹنا، اوپر کے حصہ کو نیچے کرنا اور اس کے برعکس، باہر کے حصہ کو اندر کرنا اور اس کے برعکس۔ اور انقلب بمعنی اپنی حالت یا رخ میں ایسی تبدیلی کرنا جو پہلی صورت کے برعکس ہو، الٹ جانا، پلٹنا، مڑنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 95)
جب تم انکے پاس لوٹ کر جاؤ گے تو تمہارے روبرو اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگذر کرو سو انکی طرف توجہ نہ دینا یہ ناپاک ہیں اور جو کام یہ کرتے رہے ہیں انکے بدلے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
11: افاض
فاض الماء بمعنی پانی کا کسی جگہ سے اچھل کر بہہ نکلنا۔ اور افاض الاناء کا معنی برتن کو اتنا لبالب بھر دینا کہ پانی اوپر سے بہنے لگے۔ اسی فیضان الماء سے تشبیہ دے کر ہجوم کے ریلے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 199)
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور اللہ سے بخشش مانگو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔
12 ھاد (ھود)
بمعنی نرم کے ساتھ رجوع کرنا۔ اور ھوّد بمعنی آہستگی اور نرمی سے چلنا اور رینگنا (مف) اور ھاد بمعنی حق کی طرف رجوع کرنا۔ اور ھاد فی المنطق بمعنی نرمی اور آہستگی سے بولنا اور ھوّد بمعنی گلے میں آہستہ آہستہ آواز پھرانا، گانا، آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلنا (منجد) گویا ھاد کے معنی نرمی کے ساتھ اور آہستہ آہستہ حق کی طرف رجوع کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 156)
اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم تیری طرف رجوع ہو چکے۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اسکو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
ماحصل:
  • رجع: کسی چیز کا اپنے مبدا کی طرف لوٹنا، عام ہے۔
  • اب: کسی جاندار کا لوٹنا، بلا ارادہ یا بالارادہ۔ اوّب کسی جاندار کا اپنے ارادہ کے ساتھ بکثرت رجوع کرنا۔
  • تاب: گناہ کے کاموں سے رجوع کرنا۔
  • اناب: بار بار رجوع کرتے رہنا۔
  • باء: بری حالت کی طرف لوٹنا۔
  • فاء: اچھی حالت کی طرف لوٹنا، قریب سے لوٹ آنا۔
  • صدر: گھاٹ یا کنویں سے سیر ہو کر لوٹنا۔
  • صار: آخری باز گشت۔
  • ردّ: ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے لوٹانا، قبول نہ کرنا۔ ارتدّ کسی چیز کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے خود اس سے لوٹ جانا۔
  • انقلب: رخ یا حالت کا اس طرح پلٹنا کہ وہ پہلی کے بالکل برعکس ہو۔
  • افاض: ریلے کے ساتھ لوٹنا، بہتے چلے جانا۔
  • ھاد: آہستہ آہستہ اور نرمی سے رجوع کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لوح محفوظ اور اس کے مختلف نام​

کے لیے لوح محفوظ، کتاب مکنون، ام الکتاب اور امام مبین کے نام قرآن میں آئے ہیں۔
1: لوح محفوظ
کا لغوی معنی صرف "محفوظ تختی" ہے۔ اس کا مکمل ادراک تو انسان کے احاطہ سے باہر ہے البتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک تختی یا کتاب ہے جس میں کائنات کی تقدیر کے متعلق تمام امور پہلے سے لکھ دئیے گئے ہیں اور ان میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات میں اس کے مختلف ناموں سے جو روشنی پڑتی ہے وہ درج ذیل ہے:
بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ (سورۃ البروج آیت 21، 22)
یہ کوئی معمولی کلام نہیں بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے۔ لوح محفوظ میں لکھا ہوا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے ہی ماخوذ ہے۔
2: ام الکتاب
ارشاد باری ہے:
اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ (سورۃ الزخرف آیت 3، 4)
کہ ہم نے اسکو قرآن عربی بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو۔ اور یہ بڑی کتاب یعنی لوح محفوظ میں ہمارے پاس لکھی ہوئی اور بلند مرتبہ ہے حکمت والی ہے۔
قرآن کریم سے متعلق یہ فرمایا کہ یہ ام الکتاب میں ہے۔ ایک اہم حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر جو کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں ان سب میں ایک ہی عقیدہ کی دعوت دی گئی ہے۔ خیر و شر کا ایک ہی معیار اور اخلاق و تہذیب کے اصول یکساں ہیں یعنی دین ایک ہی رہا ہے۔ رہی شریعت یا احوال و ظروف کے مطابق شرعی احکامات میں تغیر و تبدل تو اس کے متعلق فرمایا:
یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (سورۃ الرعد آیت 39)
اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسکو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں شرعی احکامات میں تغیر و تبدل کا ریکارڈ بھی اس کتاب میں موجود ہے۔
3: امام مبین
چنانچہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ یس آیت 12)
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور جو انکے نشان پیچھے رہ گئے ہم انکو قلم بند کر لیتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔
4: کتاب مکنون
نیز فرمایا:
اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ (سورۃ الواقعہ آیت 77، 78)
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات کا اللہ کے سوا کسی کو، حتی کہ جبرئیل علیہ السلام تک کو بھی علم نہیں جو انبیا تک وحی پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
ماحصل:
لوح محفوظ سے مراد وہ تختی یا کتاب ہے جو ہر طرح کی دستبرد سے محفوظ ہے۔ وہ ام الکتاب اس لحاظ سے ہے کہ تمام احکام و فرامین اور کلمات الہی کا مصدر ہے۔ اور امام مبین اس لحاظ سے ہے کہ اس میں سب کچھ پہلے سے ہی لکھ رکھا گیا ہے۔ اور مکنون اس لحاظ سے ہے کہ اس کے مندرجات کی اللہ تعالی کے سوا کسی کو خبر تک نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لونڈی – غلام​

کے لیے عبد، امۃ (امو)، رقبۃ اور ملک یمین کے الفاظ آئے ہیں۔
1: عبد
بمعنی بندہ، غلام، عبودیت بمعنی ذلت اور انکسار کا اظہار کرنا۔ اور عبادۃ کا لفظ عبودیت سے زیادہ ابلغ ہے بمعنی انتہائی ذلت اور انکساری کا اظہار کرنا۔ اور عبادت صرف خدا کے لیے سزا وار ہے۔ گو تسخیری طور پر ساری مخلوق ہی اللہ کی عبد ہے۔ تاہم اللہ تعالی اس بندے کو عبد قرار دیتے ہیں جو اپنے اختیار سے اس کا مخلف بندہ بن جائے۔ اور یہ اختیار صرف انسان اور جن کو ہے۔ عبد کی جمع عباد بھی آتی ہے اور عبید بھی۔ اور عبد کا دوسرا معنی کسی چیز کا بھی غلام بن جانا ہے۔ اس کا معنوی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عبد الدّرہم اور عبد الدینار بمعنی مال و دولت کا غلام یا پرستار عبد الطاغوت اور عبد بمعنی کسی شخص کا غلام بھی ہے (ضد حرّ) خواہ یہ زر خرید ہو یا ورثہ میں ہو یا غنیمت میں ہاتھ لگا ہو۔ اور عبّد بمعنی کسی شخص کو غلام بنا لینا ( سورۃ الشعراء آیت 22) ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 178)
مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کا حکم دیا جاتا ہے اس طرح پر کہ آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔
2: امۃ
عبد کا مونث، بمعنی لونڈی۔ یہ لفظ بھی ان سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن معنوں میں عبد کا ہوتا ہے۔ اور امۃ کی جمع اماء ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 32)
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 221)
مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔
3: رقبۃ
بمعنی گردن یا اس کے پیچھے کا حصہ یا گدی۔ اور رقب بمعنی کسی کے گلے میں رسی یا پھندا ڈالنا۔ اہل عرب عموماً جزء اشرف بول کر اسے کل مراد لے لیتے ہیں۔ اس طرح رقبۃ سے مراد غلام لیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہوتا ہے۔ جمع رقاب (مف، منجد) اور رقبۃ کا لفظ مذکر مذکر و مونث یعنی لونڈی یا غلام دونوں کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ (سورۃ البقرۃ آیت 177)
اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں۔
4: ملک یمین
یمین بمعنی داہنا ہاتھ یا داہنی جانب۔ چونکہ قوت اور کارکردگی کا مظاہرہ عموماً ہاتھوں سے ہی کیا جا سکتا ہے اور ہاتھوں میں بھی داہنا ہاتھ بائیں سے اس لحاظ سے بھی افضل اور بہتر ہے۔ لہذا یمین کا لفظ بول کر انسان ہی مراد لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اہل عرب جزء اشرف بول کر اس سے کل مراد لے لیتے ہیں۔ اور ملک بمعنی وہ چیز جس پر کسی کا قبض بھی ہو اور اختیار بھی۔ اور ملک یمین ہر وہ چیز ہے جس پر کسی کا قبضہ و اختیار ہو مگر عرف عام میں اس لفظ کا استعمال بھی زیادہ تر اس لونڈی یا غلام پر ہونے لگا جو جنگ کے بعد بطور غنیمت حصہ میں ملا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ (سورۃ النساء آیت 24)
اور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر باندیوں کے طور پر تمہارے قبضے میں آ جائیں
ماحصل:
  • عبد: غلام
  • امۃ: لونڈی
  • رقبۃ: غلام یا لونڈی، خواہ کسی طور سے ہاتھ آئے۔
  • ملک یمین: وہ لونڈی یا غلام جو بطور غنیمت ملا ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لینا​

کے لیے اخذ اور تلقّی اور ھاءم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: اخذ
بمعنی کسی چیز کو حاصل کر لینا، احاطہ میں لے لینا، پکڑنا (مف) اور اس کا استعمال حسی اور معنوی دونوں طرح ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ (سورۃ آل عمران آیت 81)
اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 154)
اور جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو تورات کی تختیاں اٹھا لیں۔ اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ہدایت اور رحمت تھی۔
2: تلقّی
لقی بمعنی ملنا، ملاقات کرنا۔ اور تلقی الشئ بمعنی ملنا، استقبال کرنا (منجد) گویا تلقّی کا معنی کسی چیز کو جا کر اور مل کر لینا۔ ارشاد باری ہے:
لَا یَحۡزُنُہُمُ الۡفَزَعُ الۡاَکۡبَرُ وَ تَتَلَقّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ ہٰذَا یَوۡمُکُمُ الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 103)
انکو اس دن کا بڑا بھاری خوف غمگین نہیں کرے گا۔ اور فرشتے انکو لینے آئیں گے اور کہیں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
3: ھاءم
(ھوء) اسم فعل ہے۔ بمعنی خد لو یا پکڑو صرف امر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کی گردان یوں آتی ہے۔ ھاءم، ھاءما، ھاءموا (مف) اور صاحب منجد کے نزدیک صرف لفظ ھا کا معنی بھی لینا ہے۔ ھا الکتاب بمعنی کتاب لو۔ اور ھاء (ھوء) کا معنی بھی یہی ہے۔ اور ھاء یا رجل بمعنی اے مرد کتاب لے لو (منجد)۔ گویا یہ لفظ کسی کو پکار کر اپنے پاس بلانے اور اسے کسی چیز کے لینے کے مطالبہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ (سورۃ الحاقۃ آیت 19)
اب جس کا اعمال نامہ اسکے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ دوسروں سے کہے گا کہ لیجئے میرا نامہ اعمال پڑھیے۔
ماحصل:
  • اخذ: کوئی چیز لینا، پکڑنا، اس لفظ کا استعمال عام ہے۔
  • تلقّی: کسی چیز کے پاس پہنچ کر اسے لینا۔
  • ھاءم: کسی کو بلانا اور کسی چیز کے لینے کا مطالبہ کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

لین دین کرنا​

کے لیے تداین اور ادار کے الفاظ آئے ہیں۔
1: تداین
دین بمعنی قرضہ، ادھار (تفصیل "ادھار" میں دیکھیے) اور تداین بمعنی ایک دوسرے سے ادھار مانگنا، ادھار پر لین دین کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
مومنو! جب تم آپس میں کسی معیاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اسکو لکھ لیا کرو
2: ادار
(دور) دار بمعنی گھومنا، چکر لگنا۔ اور ادارہ بمعنی گھمانا، چکر دینا اور ادار الشئ بمعنی کسی چیز کا لینا، دینا۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا (سورۃ البقرۃ آیت 282)
ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو (تو لکھنے کی ضرورت نہیں)۔
ماحصل:
دست بدست لین دین کے لیے ادار اور ادھار لین دین کرنے کے لیے تداین آیا ہے۔
 
Top