لوٹنا – لوٹانا – رجوع کرنا
کے لیے رجع، اب (اوب)، تاب (توب)، اناب (نو)، باء (بوء)، فاء (فئ)، صدر، صار (صیر)، ارتدّ (ردّ)، افاض اور ھاد کے الفاظ آئے ہیں۔
1: رجع
بمعنی کسی چیز کا اپنے مبداء کی طرف لوٹنا، خواہ یہ چیز کوئی جاندار ہو یا بے جان، قول ہو یا فعل نیز اس لوٹنے کے فعل میں لوٹنے والے کے ارادہ کو دخل ہو یا نہ ہو (مف) مشہور مقولہ ہے کل شیء یرجع الی اصلہ یعنی ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ گویا اس لفظ کا استعمال ہر لحاظ سے عام ہے۔ قرآن میں ہے:
الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 156)
کہ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اور ارجع بمعنی لوٹانا۔ جیسے فرمایا:
ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ البقرۃ آیت 210)
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر اللہ کا عذاب بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں اور کام تمام کر دیا جائے۔ اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔
2: اب
یہ رجع سے اخص ہے۔ اور صرف جاندار کے لیے آتا ہے۔ اور ماب بمعنی مرجع، لوٹنے کی جگہ، ٹھکانا (مف، منجد) اور ایاب بمعنی باز گشت یا واپسی کا سفر اور ذھاب و ایاب بمعنی جانا اور واپس آنا۔ اب میں یہ ضروری نہیں کہ لوٹنے والے کے ارادہ کو دخل ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 25، 26)
بیشک انکو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔ پھر ہمارے ہی ذمے ان سے حساب لینا ہے۔
اور جب یہ فعل ثلاثی مزید فیہ میں جائے گا مثلاً اوب اور اوّب تو اس صورت میں لوٹنے والے کے ارادہ کو بھی دخل ہو گا۔ اوّاب بمعنی لوٹنے والا۔ ہر آن رجوع کرنے والا۔ ارشاد باری ہے:
رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 25)
جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔ اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع لانے والوں کو بخش دینے والا ہے۔
3: تاب
بمعنی گناہ کے کاموں سے لوٹنا، گناہ کا اعتراف اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا، توبہ کرنا (مف) اور اگ اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو توبہ قبول کرنا، گناہ معاف کر دینا یا مہربان ہونا کے معنی میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 160)
ہاں جو توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کر لیتے اور احکام الٰہی کو صاف صاف بیان کر دیتے ہیں تو میں ان کے قصور معاف کر دیتا ہوں اور میں بڑا معاف کرنے والا بڑا مہربان ہوں۔
4: اناب
ناب الیہ بمعنی کسی طرف بار بار آنا اور نوبۃ بمعنی باری، دفعہ، موقعہ، فرصت اور اناب بمعنی نائب ہونا، قائم مقام ہونا۔ اور اناب الی اللہ بمعنی اللہ تعالی کی طرف بار بار متوجہ ہونا اور رجوع کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ (سورۃ الممتحنۃ آیت 4)
اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں ہمیں لوٹ کر آنا ہے۔
5: باء
بوء کے بنیادی معنی دو ہیں (1) لوٹنا اور (2) برابر ہونا (م ل)۔ یعنی اس حال میں لوٹنا کہ ان کے اعمال کا عوض ان کے سامنے آ جائے۔ یا عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی اچھی حالت سے بری حالت کو لوٹنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
اور آخرکار ذلت و رسوائی اور محتاجی و بے نوائی ان سے چمٹا دی گئ اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور اس کے نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یعنی اس لئے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے۔
یعنی ان کی حالت ایسی تھی کہ وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہونے کے مستحق ہو گئے تھے۔
6: فاء
بمعنی اچھی حالت کی طرف لوٹنا (مف) یعنی اپنی اصلاح کر لینا اور بھی حالت سے اچھی کی طرف واپس آنا۔ اور بمعنی قریب سے ہی لوٹ آنا (فق ل 249)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (سورۃ حجرات آیت 9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
7: صدر
صدر اور اصدر بمعنی پانی سے سیر ہو کر واپس لوٹنا۔ کہتے ہیں صدت الابل من الماء یعنی اونٹ پانی سے سیر ہو کر واپس آئے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ (سورۃ القصص آیت 23)
اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور انکے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔
اور صدر کی ضد ورد ہے۔ یعنی پانی پینے کے لیے گھاٹ پر پہنچنا (مف) اور ورد بمعنی گھاٹ بھی (سورۃ ھود آیت 99) اور بمعنی پیاسا بھی آتا ہے۔ اور وارد بمعنی وہ شخص جو پانی لانے کے لیے کنویں یا گھاٹ پر جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 19)
اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسکو قیمتی سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا۔
8: صار
(صیر) کے معنی میں دو بنیادی باتیں ہیں (1) رجوع اور (2) انجام (م ل) تفصیل انجام میں دیکھیے۔ بمعنی آخری باز گشت۔ قرآن میں ہے:
صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ شوری آیت 53)
یعنی اس اللہ کا رستہ جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے۔ دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے اور وہی ان میں فیصلہ کرے گا۔
9: ردّ اور
ارتدّ
ردّ بمعنی کسی چیز کے نا قابل قبول ہونے کی وجہ سے اس کو لوٹا دینا، پھیر دینا (م ق) اور ردّ بمعنی مردود بھی آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ (سورۃ یوسف آیت 65)
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے ابا ہمیں اور کیا چاہیے دیکھئے یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کر دی گئ ہے۔ اور ہم اپنے اہل و عیال کے لئے پھر غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے اور ایک بار شتر زیادہ لائیں گے کہ یہ غلہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے۔
اور ارتدّ بمعنی کسی چیز کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے خود پیچھے ہٹ جانا یا واپس لوٹ جانا۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 25)
جو لوگ راہ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انکو اچھا کر کے دکھایا۔ اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔
پھر ردّ اور ارتدّ کا استعمال عام ہوا تو محض لوٹانے اور لوٹنے کے معنوں میں بھی آنے لگا۔ جیسے فرمایا:
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۚۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 96)
مگر جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو اس نے کرتہ انکے منہ پر ڈال دیا سو وہ بینا ہو گئے۔ اور بیٹوں سے کہنے لگے۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟
10: انقلب
قلب بمعنی رخ یا حالت کو پلٹنا، اوپر کے حصہ کو نیچے کرنا اور اس کے برعکس، باہر کے حصہ کو اندر کرنا اور اس کے برعکس۔ اور انقلب بمعنی اپنی حالت یا رخ میں ایسی تبدیلی کرنا جو پہلی صورت کے برعکس ہو، الٹ جانا، پلٹنا، مڑنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 95)
جب تم انکے پاس لوٹ کر جاؤ گے تو تمہارے روبرو اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگذر کرو سو انکی طرف توجہ نہ دینا یہ ناپاک ہیں اور جو کام یہ کرتے رہے ہیں انکے بدلے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
11: افاض
فاض الماء بمعنی پانی کا کسی جگہ سے اچھل کر بہہ نکلنا۔ اور افاض الاناء کا معنی برتن کو اتنا لبالب بھر دینا کہ پانی اوپر سے بہنے لگے۔ اسی فیضان الماء سے تشبیہ دے کر ہجوم کے ریلے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 199)
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور اللہ سے بخشش مانگو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔
12 ھاد (ھود)
بمعنی نرم کے ساتھ رجوع کرنا۔ اور ھوّد بمعنی آہستگی اور نرمی سے چلنا اور رینگنا (مف) اور ھاد بمعنی حق کی طرف رجوع کرنا۔ اور ھاد فی المنطق بمعنی نرمی اور آہستگی سے بولنا اور ھوّد بمعنی گلے میں آہستہ آہستہ آواز پھرانا، گانا، آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلنا (منجد) گویا ھاد کے معنی نرمی کے ساتھ اور آہستہ آہستہ حق کی طرف رجوع کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 156)
اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ ہم تیری طرف رجوع ہو چکے۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اسکو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
ماحصل:
- رجع: کسی چیز کا اپنے مبدا کی طرف لوٹنا، عام ہے۔
- اب: کسی جاندار کا لوٹنا، بلا ارادہ یا بالارادہ۔ اوّب کسی جاندار کا اپنے ارادہ کے ساتھ بکثرت رجوع کرنا۔
- تاب: گناہ کے کاموں سے رجوع کرنا۔
- اناب: بار بار رجوع کرتے رہنا۔
- باء: بری حالت کی طرف لوٹنا۔
- فاء: اچھی حالت کی طرف لوٹنا، قریب سے لوٹ آنا۔
- صدر: گھاٹ یا کنویں سے سیر ہو کر لوٹنا۔
- صار: آخری باز گشت۔
- ردّ: ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے لوٹانا، قبول نہ کرنا۔ ارتدّ کسی چیز کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے خود اس سے لوٹ جانا۔
- انقلب: رخ یا حالت کا اس طرح پلٹنا کہ وہ پہلی کے بالکل برعکس ہو۔
- افاض: ریلے کے ساتھ لوٹنا، بہتے چلے جانا۔
- ھاد: آہستہ آہستہ اور نرمی سے رجوع کرنا۔