مترادفات القرآن (م)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مارنا​

کے لیے ضرب، وکز، صکّ، دعّ، دمغ، رجم، وقذ، نطح اور جلد کے الفاظ آئے ہیں۔
1: ضرب
عموماً اس کا صلہ ب ہوتا ہے۔ کسی کو ہاتھ یا اور کسی چیز سے مارنا۔ اور صلہ ب کے بعد وہ چیز مذکور ہوتی ہے جس سے مارا جائے۔ یعنی آلہ ضرب، مارنا کے لیے اس لفظ کا استعمال عام ہے (ف ل 188)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذِ اسۡتَسۡقٰی مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ فَقُلۡنَا اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے ہم سے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو
2: وکز
مکہ مارنا۔ اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک سینہ یا پہلو پر ہتھیلی یا مکہ مارنا (ف ل 188) قرآن میں ہے:
فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ (سورۃ القصص آیت 15)
تو موسی علیہ السلام نے اسے مکہ مارا جس سے وہ مر گیا۔
3: صکّ
بمعنی دو چیزوں کا آپس میں شدت اور قوت سے ٹکرانا کہ آواز پیدا ہو۔ صکّ الباب دروازے کے تاکوں کا آپس میں ٹکرانا (م ل) اور بمعنی منہ پر مارنا، طمانچہ مارنا، منہ پیٹنا (ف ل 188)۔ قرآن میں ہے:
فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُہٗ فِیۡ صَرَّۃٍ فَصَکَّتۡ وَجۡہَہَا وَ قَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ (سورۃ الذریات آیت 29)
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی آئیں اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگیں کہ ایک تو میں بڑھیا اوپر سے بانجھ۔
4: دعّ
دھکے مارنا، سختی سے دفع کرنا (ف ل 188)۔ ارشاد باری ہے:
فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ (سورۃ الماعون آیت 2)
یہ وہی بدبخت ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
5: دمغ
بمعنی کسی کو دماغ پر یا سر پر چوٹ لگانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ؕ وَ لَکُمُ الۡوَیۡلُ مِمَّا تَصِفُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 18)
نہیں بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے۔ اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری ہی خرابی ہے۔
6: رجم
دور سے کسی کو پتھر، کنکر مارنا اور (2) دور سے کسی پر پتھر کنکر مار کر اسے مار ڈالنا، سنگسار کرنا دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اور مادی اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ رجما بالغیب (سورۃ الکہف آیت 23) بمعنی بغیر نشانہ دیکھے پتھر پھینکنا بھی اور ظن کی بنیاد پر کلام کرنا بھی ہے (م ق)۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡنَا ضَعِیۡفًا ۚ وَ لَوۡ لَا رَہۡطُکَ لَرَجَمۡنٰکَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡنَا بِعَزِیۡزٍ (سورۃ ھود آیت 91)
انہوں نے کہا کہ شعیب تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر کسی طرح بھی غالب نہیں ہو۔
7: وقذ
بمعنی لاٹھی یا پتھر سے شدید ضرب پہنچانا جس سے وہ مر جائے۔ اور وقذ بمعنی ضرب شدید (مف) اور وقذ بمعنی مہلک ضرب لگانا (منجد)۔
8: نطح
(الثور) بیل کا سینگ سے مارنا۔ تناطح الکبشان مینڈھوں کا ایک دوسرے کو ٹکریں مارنا۔ اور نطیح بمعنی سینگ سے مارا ہوا، سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ (سورۃ المائدۃ آیت 3)
اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کر لو۔
9: جلد
جلد (جمع جلود) بمعنی بدن کی کھال، چمڑہ۔ اور جلد بمعنی چمڑے پر مارنا۔ اور جلدۃ بمعنی کوڑا جس کی مار کا اثر جلد تک محدود رہے اور کوئی زخم نہ کرے، درّے سے مارنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ (سورۃ النور آیت 2)
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد جب انکی بدکاری ثابت ہو جائے تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔
ماحصل:
  • ضرب: اس کا استعمال عام ہے۔
  • وکز: مکہ مارنا۔
  • صکّ: منہ پر ہاتھ سے پیٹنا۔
  • دعّ: دھکے مارنا۔
  • دمغ: سر پ چوٹ لگانا۔
  • رجم: دور سے پتھر مارنا، سنگسار کرنا۔
  • وقذ: لاٹھی یا پتھر سے شدید ضرب پہنچانا۔
  • نطح: کسی چوپائے کا سینگ مارنا۔
  • جلد: کوڑے مارنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مار ڈالنا – مرنا​

کے لیے مات اور امت، قتل اور قتّل، صلب اور صلّب، ھلک اور اھلک، ذبّح، رجم، انخنق، توفّی اور شھادت کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: مات
موت (ضد حیات) بمعنی کسی جاندار سے روح یا قوت کا زائل ہو جانا (م ل) جسم سے روح کا جدا ہونا، مرنا، اس کی خواہ کوئی صورت ہو۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 161)
جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت۔
اور امات بمعنی کسی دوسرے کو موت دینا۔ اس کی زندگی ختم کر دینا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 28)
کافرو تم اللہ سے کیونکر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بے جان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
2: قتل
بمعنی کسی جاندار کا دوسرے جاندار پر غالب آ کر اس کی زندگی ختم کر دینا۔ اور ابن الفارس کے الفاظ میں کسی کو ذلت کی حالت میں مارنا (م ل) قرآن میں ہے:
انۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا (سورۃ الکہف آیت 74)
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ رستے میں ایک لڑکا ملا تو خضر نے اسے مار ڈالا۔ موسٰی نے کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ یہ تو آپ نے بری بات کی۔
اور قتّل کا معنی کسی کو دکھ پہنچا پہنچا کر اور ایذائیں دے دے کر مارنا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 127)
اور قوم فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسٰی اور اسکی قوم کو چھوڑ دیجئے گا کہ ملک میں خرابی کریں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ اس نے کہا کہ ہم ان کے لڑکوں کو تو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بلاشبہ ہم ان پر غالب ہیں۔
3: ھلک
بمعنی فنا ہونا (منجد) جاندار اور بے جان سب کے لیے آتا ہے۔ اور جاندار کی صورت میں اس کے معنی ہیں بے بسی کی موت مرنا۔ ابن الفارس کے الفاظ میں یدلّ علی کر و سقوط (م ل) بری موت مرنا، کسی حادثہ کا شکار ہو کر مر جانا۔ قرآن میں ہے:
اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ (سورۃ النساء آیت 176)
گر کوئی ایسا مرد مر جائے جسکے اولاد نہ ہو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 88)
اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود سمجھ کر نہ پکارنا اسکے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسکی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔
اور اھلک کے معنی کسی کو ایسی ہی بری یا بے بسی کی موت سے دو چار کرنا، ہلاک کر دینا، فنا کر دینا۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَہۡلَکَنِیَ اللّٰہُ وَ مَنۡ مَّعِیَ اَوۡ رَحِمَنَا ۙ فَمَنۡ یُّجِیۡرُ الۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ (سورۃ الملک آیت 28)
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر اللہ مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر مہربانی کرے۔ تو کون ہے جو کافروں کو دکھ دینے والے عذاب سے پناہ دے؟
4: صلب
بمعنی سولی پر لٹکانا یا سولی چڑھانا۔ اور صلیب لکڑی کے اس تختہ کو کہتے ہیں جس کے ساتھ کسی مجرم کو سولی پر چڑھا کر اسے مار ڈالا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا (سورۃ النساء آیت 157)
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو جو اللہ کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے اللہ نے انکو ملعون کر دیا حالانکہ انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھا پائے لیکن ان لوگوں کو انکی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ انکے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ انکے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سوا انکو اسکا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسٰی کو یقیناً قتل نہیں کیا۔
اور صلّب کے معنی کسی کو مزید اذیت پہنچانے کے لیے الٹے رخ لٹکا کر مارنا یا سولی دیتے وقت مزید دکھ پہنچانا۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ فِیۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ ۫ وَ لَتَعۡلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبۡقٰی (سورۃ طہ آیت 71)
فرعون بولا کہ پیشتر اسکے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔ بیشک یہ تمہارا بڑا یعنی استاد ہے جس نے تمکو جادو سکھایا ہے۔ سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالفت سمت سے کٹوا دوں گا اور تمکو کھجوروں کے تنوں پر سولی چڑھوا دوں گا اور تمکو معلوم ہو گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر تک رہنے والا ہے۔
5: ذبّح
ذبح بمعنی کسی جانور کا شرعی طریقہ سے خون نکالنا۔ اور ذبّح بمعنی دکھ پہنچا کر ذبح کرنا یا ذبح کرنے میں مبالغہ کرنا (منجد) اور ذبّح اور قتّل اس لحاظ سے دونوں ہم معنی الفاظ بن جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 4)
کہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کر گروہ گروہ بنا رکھا تھا ان میں سے ایک گروہ کو یہاں تک کمزور کر دیا تھا کہ انکے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور انکی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ بیشک وہ مفسدوں میں تھا۔
6: رجم
کا معنی دور سے پتھر وغیرہ پھینکنا یا پتھر پھینک کر اسے مار دینا ہے۔ اور رجم حدود اللہ میں سے ایک حد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ شادی شدہ زانی مرد یا عورت کو دور سے پتھر پھینک کر اور مار مار کر اسے ہلاک کر دیا جائے، سنگسار کرنا۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِہَتِیۡ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا (سورۃ مریم آیت 46)
اس نے کہا کہ ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں کے خلاف ہے؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو جا۔
7: انخنق
خنق بمعنی گلا گھونٹنا اور خناق اس رسی کو کہتے ہیں جس سے گلا گھونٹا جائے اور خناق وہ بیماری ہے جس میں گلا گھٹ جاتا اور سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے (منجد) اور خنق بمعنی سخت گلا گھونٹنا یہاں تک کہ وہ مر جائے (م ق) منخنق بمعنی وہ جانور جو گلا گھٹ جانے کی وجہ سے مر جائے۔ قرآن میں ہے:
وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ (سورۃ المائدۃ آیت 3)
اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے (سب حرام ہیں)۔
8: توفّی
وفی کا لفظ کسی چیز کے اتمام اور کمال پر دلالت کرتا ہے (م ل) اور توفّی کے معنی ہیں زندگی کی معیاد پوری ہونے پر روح کو بدن سے نکال لینا، اٹھا لینا۔ اور یہ کام اللہ کا ہے یا اس کے مامور فرشتوں کا لہذا اس معنی میں اس کی نسبت انسان یا کسی دوسرے جاندار کی طرف نہیں ہو سکتی۔ قرآن میں ہے:
رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 101)
جب یہ سب باتیں ہو لیں تو یوسف نے اللہ سے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے نوازا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے دنیا سے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو اور آخرت میں اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو۔
9: شھادت
شھد بمعنی گواہی دینا، خواہ یہ شہادت عینی ہو یا قلبی طرز عمل سے ہو اور شاھد اور شھید دونوں گواہ کے معنوں میں آتے ہیں۔ اور شھید کا لفظ راہ خدا میں اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر جان دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے شہادت بمعنی راہ خدا میں جان دینا ہے کیونکہ عقیدہ آخرت میں جزا و سزا پر اتنا پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان دے کر اس کی شہادت پیش کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (سورۃ النساء آیت 69)
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔
ماحصل:
  • مات: روح کا تن سے جدا ہونا، عام ہے۔
  • قتل: کسی جاندار کا غالب آ کر دوسرے جاندار کو مار دینا، قتّل بری طرح سے مار ڈالنا۔
  • ھلک: فنا ہونا، بے بسی کی موت مرنا، غیر جاندار کے لیے بھی آتا ہے۔
  • صلب: سولی پر لٹکا کر مار ڈالنا۔ صلّب ایذائیں دے کر سولی پر لٹکانا۔
  • ذبّح: وقفوں سے ایذائیں پہنچا کر مارنا۔
  • رجم: سنگسار کرنا، پتھر مار مار کر مار دینا۔
  • انخنق: کسی جاندار کا گلا گھٹ کر مر جانا۔
  • توفّی: زندگی کی میعاد پوری کر دینا، روح کو جسم سے اٹھانا۔ اور یہ صرف اللہ تعالی کا کام ہے یا اس کے فرشتوں کا۔
  • شھادت: اللہ کی راہ میں جان دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مال و دولت عطا کرنا​

کے لیے مال، دولۃ، رزق اور رزق، خیر، افاء، مغانم اور انفال کے الفاظ آئے ہیں۔
1: مال
(مول) اہل دیہہ کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق مویشی پر ہوتا ے کہ یہی ان لوگوں کی بڑی جائیداد ہوتی ہے۔ کہتے ہیں خرج الی مالہ یعنی وہ اپنی جائیداد یا اونٹوں کی طرف گیا۔ اور رجل مال بہت مالدار آدمی۔ اور مال یمول بمعنی مالدار ہونا۔ اور تموّل بمعنی مال جمع کرنا یا حاصل کرنا یا بہت مالدار ہونا۔ اور میّل بمعنی بہت مالدار اور مویل بمعنی تھوڑی دولت (منجد) اور عرف عام میں مال کا اطلاق یا تو زر نقد پر ہوتا ہے یا قابل خرید و فروخت مال پر (جمع اموال)۔ ارشاد باری ہے:
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ (سورۃ الحدید آیت 20)
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت و آرائش اور تمہارے آپس میں فخرو ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب و خواہش ہے۔
2: دولۃ
(دول) دال کی ضد دار (دور) ہے۔ اور دور اور دائرۃ کا لفظ تنگ دستی بد حالی اور گردش ایام کے لیے آتا ہے۔ اور دولۃ اور دولۃ (د ضمہ) برے دنوں سے خوشحالی کے ایام پھرنے کو کہتے ہیں (مف) اور داول خوشحالی کے دنوں کا لوگوں پر باری باری یا پھر پھر کر لانا۔ اور دولۃ وہ شے جو لوگوں پر بدل بدل کر آتی رہے۔ آج کسی کے لیے ہو اور کل کسی اور کے لیے (منجد) جیسا کہ محاورہ ہے کہ دولت ڈھلتی چھاؤں ہے اور ارباب سیاست کے نزدیک دولۃ کا معنی بادشاہ و وزراء حکومت، گورنمنٹ، ریاست ہے (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (سورۃ الحشر آیت 7)
جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے وہ اللہ کے اور پیغمبر کے اور پیغمبر کے قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے اور جو چیز تمکو پیغمبر ﷺ دیں وہ لے لو اور جس چیز منع کریں اس سے باز رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
3: رزق
کا بنیادی معنی روزی یا ہر وہ چیز ہے جو جسمانی یا روحانی لحاظ سے انسان کی تربیت و اصلاح کا سبب بنے (مف) مادی لحاظ سے اس کا معنی وہ چیز ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے۔ رزق بمعنی نصیبہ بھی ہے اور مرزوق بمعنی خوش قسمت (منجد) اور رزقت علما بمعنی مجھے علم عطا ہو۔ پھر رزق ہر اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو انسان کی روحانی یا جسمانی غذا کا سبب بنے۔ اس لحاظ سے بارش بھی رزق ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ الذریات آیت 22)
اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے۔
اور رزق بمعنی رزق یا روزی دینا، کھلانا پلانا یا کچھ مال و دولت دے دینا۔ رزّاق تو دراصل صرف خدا کی ذات ہی ہے لیکن کھلانے پلانے کی نسبت دوسروں کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا (سورۃ النساء آیت 8)
اور جب میراث کی تقسیم کے وقت غیر وارث رشتہ دار اور یتیم اور نادار لوگ آ جائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دو۔ اور ان سے معقول بات کہو۔
4: خیر
بمعنی بھلائی اور ہر وہ چیز بھی جو سب کو بھلی معلوم ہو۔ مال و دولت بھی اپنے اصل کے لحاظ سے خیر ہے اور اللہ تعالی کا کسی کو مال و دولت عطا کرنا اس کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے صحیح استعمال اور شرعی احکام کے مطابق خرچ کرنے سے انسان بہت سی بھلائیاں اور نیکیاں کما سکتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 215)
اے نبی لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو چاہو خرچ کرو لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو اور قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو سب کو دو اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔
لیکن مال کی محبت انسان کی فطرت میں رچی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ (سورۃ العادیات آیت 8)
اور بیشک وہ مال سے بہت محبت کرنے والا ہے۔
یعنی انسان مال سے سخت محبت کرنے والا ہے۔ تو انسان جب کمائی میں حرام حلال کی تمیز چھوڑ دے یا اسے شرعی احکام کے مطابق خرچ نہ کرے تو یہی مال و دولت جو سراسر خیر ہے انسان کے لیے فتنہ اور آزمائش بن جاتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے:
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ الانفال آیت 28)
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ اللہ کے پاس نیکیوں کا بڑا ثواب ہے۔
5: افاء
فئ وہ مال و دولت ہے جو بغیر لڑے بھڑے مسلمان مجاہدین کو حاصل ہو جائے۔ یعنی کافر اگر لڑنے سے پیشتر ہی راہ فرار اختیار کر لیں تو ان کی املاک سے جو کچھ حاصل ہو گا وہ مال فے ہے۔ اور افاء بمعنی کسی کو فے کا مال عطا کرنا۔ ارشاد باری ہے:
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (سورۃ الحشر آیت 7)
جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے وہ اللہ کے اور پیغمبر کے اور پیغمبر کے قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے اور جو چیز تمکو پیغمبر ﷺ دیں وہ لے لو اور جس چیز منع کریں اس سے باز رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
6: مغانم
غنم بمعنی بکریوں کے ریوڑ۔ اور الغنم بمعنی بکریوں کا کہیں سے ہاتھ لگ جانا یا ان کو حاصل کرنا۔ پھر یہ لفظ ہر اس مال پر بولا جانے لگا جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو۔ اور مغنم (جمع مغانم) بمعنی مال غنیمت ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں غنیمت یا مغنم صرف وہ مال ہے جو دشمن پر فتح حاصل کرنے کے نتیجہ میں ملے۔ سابقہ امتوں کے لیے ایسا مال نا جائز تھا مگر شریعت محمدیہ ﷺ میں اللہ تعالی نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الانفال آیت 69)
اب جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ کہ وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 94)
مومنو! جب تم اللہ کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم کو سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ کہ اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو۔ سو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا چنانچہ آئندہ تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک جو عمل تم کرتے ہو اللہ کو سب کی خبر ہے۔
7: انفال
نفل بمعنی مال غنیمت، ہبہ، بخشش، زیادتی (جمع انفال) اور نفل بمعنی واجبات اور ضروریات سے زائد کام (منجد) انفال کا اطلاق اموال غنیمت پر بھی ہوتا ہے اور اموال فے پر بھی۔ یہ لفظ صرف اس پہلو پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اموال امت محمدیہ ﷺ پر اللہ تعالی کی طرف سے زائد عطیہ ہیں جو پہلی امتوں کے لیے جائز نہ تھے۔ ارشاد باری ہے:
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 1)
اے نبی مجاہد لوگ تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے کہدو کہ غنیمت اللہ اور اسکے رسول کا مال ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر چلو۔
ماحصل:
  • مال: زر نقد اور ہر وہ چیز جس سے زر نقد حاصل ہو سکتا ہو۔
  • دولۃ: خوشحالی کے دور کا لوٹنا۔
  • رزق: ہر وہ چیز جو جسمانی یا روحانی غذا یا اس کا سبب ہو۔
  • خیر: مال و دولت کا بہتر پہلو یعنی جو مال احکام شرعیہ کے مطابق حاصل اور خرچ کیا جائے۔
  • فئے: ایسا مال جو لڑائی بھڑائی کے بغیر مسلمان مجاہدین کے ہاتھ لگ جائے۔
  • مغانم: ایسا مال جو دشمن پر فتح پانے کے بعد حاصل ہو۔
  • انفال: غنیمت یا فئے۔ یہ لفظ صرف ایسے اموال کے جواز اور اس کے خدا کی طرف سے زائد عطیہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مالک​

کے لیے مالک، ربّ اور اھل کے لفظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: مالک
ملک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی کے قبضہ میں ہو اور کسی دوسرے کو اس میں تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو (مف) اور مالک بمعنی کسی چیز پر قابض اور مختار، متصرف۔ ارشاد باری ہے:
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ (سورۃ الفاتحہ آیت 3)
انصاف کے دن کا حاکم۔
2: ربّ
بمعنی آقا اور مالک۔ یہ لفظ عموماً بطور اسم فاعل استعمال ہوتا ہے لیکن اصل میں ربّ مصدر ہے جس کے معنی کسی کو پرورش کر کے حد کمال تک پہنچانا اور اس کی جملہ ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے (مف) گو حقیقت میں ہر چیز کا رب اللہ تعالی ہی ہے۔ تاہم اس کی نسبت ایسے شخص کی طرف ہو سکتی ہے جو مالک بھی ہو اور اس کی تربیت کا ذمہ دار بھی ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ اَمَّاۤ اَحَدُ کُمَا فَیَسۡقِیۡ رَبَّہٗ خَمۡرًا ۚ وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصۡلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمۡرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسۡتَفۡتِیٰنِ (سورۃ یوسف آیت 41)
اے میرے قید خانے کے رفیقو تم میں سے ایک جو پہلا خواب بیان کرنے والا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا۔ اور جو دوسرا ہے وہ سولی دیا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچیں گے۔ جو بات تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصل ہو چکی ہے۔
3: اھل
بمعنی کنبہ، رشتہ دار۔ اور بمعنی گھر والے، اہل و عیال، بیوی اور بچے۔ اور اھل الرّجل بمعنی بیوی اور اھل الرجل بمعنی شادی کرنا (منجد) اور اھل ہم نسب یا ہم دین لوگ (مف) اور اھل بمعنی گھر والے بھی اور گھر بھی (دیکھیے "گھر") اور درج ذیل آیت میں قرآن نے اہل کا لفظ استعمال کر کے اس سے گھر کے مالک مراد لیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ (سورۃ النساء آیت 25)
پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔
ماحصل:
  • مالک: قبضہ اور تصرف کا اختیار رکھنے والا۔
  • ربّ: جو مالک بھی ہو اور تربیت بھی کرے۔
  • اھل: گھر والے، گھر اور گھر کا مالک۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ماں​

کے لیے والدۃ اور امّ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: والدۃ
وہ عورت جس نے بچہ جنا ہو، ماں، یہ لفظ محدود اور معروف معنوں میں مستعمل ہے۔ اور جب ماں باپ دونوں کا ذکر مقصود ہو تو والدین (تثنیہ مذکر) کا لفظ استعمال ہو گا (جمع والدات)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدّت تک دودھ پلوانا چاہے
2: امّ
کا لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ امّ بمعنی حقیقی والدہ بھی اور ہر وہ چیز بھی جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کے مبدا ہونے یا اس کی اصلاح و تربیت کا سبب بنے (مف) لفظ امّ کا استعمال درج ذیل صورتوں میں ہوتا ہے۔
1: بطور حقیقی والدہ ۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 7)
اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ پھر جب تمکو اسکے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا۔ ہم اسکو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور بعد میں اسے پیغمبر بنا دیں گے۔
2: جس طرح اب کا لفظ حقیقی والد کے علاوہ دادا، پر دادا اور اوپر کی نسلوں تک استعمال ہوتا ہے اسی طرح امّ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام ابو البشر ہیں اسی طرح حوا علیھا السلام بھی ام البشر ہیں
3: بمعنی اصل یا جڑ۔ جیسے ام الکتاب (سورۃ العنکبوت آیت 13) بمعنی اصل کتاب یا لوح محفوظ۔ اور ام القری (سورۃ الانعام آیت 92) بمعنی مرکزی بستی یا کنایۃ شہر مکہ۔ نیز ام الخبائث بمعنی شراب اور ام الامراض بمعنی قبض ام الطریق بمعنی شارع عام۔ اور ام النجوم بمعنی کہکشاں۔
4: بطور عزت و احترام۔ ارشاد باری ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ (سورۃ الاحزاب آیت 6)
پیغمبر مومنوں پر انکی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں لوگوں کی مائیں ہیں
5: بطور کنیت۔ پھر اس کنیت میں کبھی تو کوئی تعلق واضح ہوتا ہے جیسے ام اربع و اربعین بمعنی کنکھجورا اور کبھی کوئی ادنی تعلق بھی نہیں ہوتا جیسے نو مولود بچی کا نام ام کلثوم رکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن میں ایسی کنیت کا ذکر نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مانگنا​

کے لیے طلب، سال، ادّع (دعو)، حفا (حفو) اور اعترّ (عرّ) کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: طلب
طلب الشئ کوئی چیز مانگنا (م ق) اور بمعنی کسی چیز کے لیے کوشش کرنا (فق ل 229) طلب اور طلبۃ بمعنی مانگی ہوئی چیز (منجد) اور بمعنی کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے اس کی تلاش اور جستجو کرنا (مف) یہ لفظ مانگنا، چاہنا اور ڈھونڈنا سب معنوں میں آتا ہے۔ اور یہ مانگنے کی ابتدائی کیفیت ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے:
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ (سورۃ الحج آیت 73)
طالب اور مطلوب یعنی عابد اور معبود دونوں گئے گذرے ہیں۔
2: سال
کا لفظ دو معنوں میں آتا ہے (1) کسی سے کوئی چیز پوچھنا تا کہ اس کا جواب ملے (2) کسی سے کوئی چیز ضرورت کی مانگنا۔ یعنی مال یا کسی دوسری ضرورت کی چیز کے لیے استدعا کرنا۔ اور سؤل بمعنی ایسی حاجت جس پر نفس حریص ہو اور زبان سے اس کا اظہار کیا جائے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 61)
کسی شہر میں جا اترو وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا۔
3: ادّع
دعا بمعنی مانگنا، پکارنا، دعا کرنا۔ اور ادّع میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو پکار کر مانگنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
لَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ (سورۃ یس آیت 57)
وہاں انکے لئے میوے ہوں گے اور جو وہ منگوائیں گے انکو ملے گا۔
4: حفا
بمعنی کسی چیز کی طلب میں مبالغہ سے کام لینا، بہت کدّو کاوش کرنا (مف، م ل)۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ یَّسۡـَٔلۡکُمُوۡہَا فَیُحۡفِکُمۡ تَبۡخَلُوۡا وَ یُخۡرِجۡ اَضۡغَانَکُمۡ (سورۃ محمد آیت 37)
اگر وہ تم سے مال طلب کرے پھر تمہیں تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو اور وہ بخل تمہارے کینے ظاہر کر کے رہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنۡہَا ؕ (سورۃ الاعراف آیت 187)
یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو۔
5: اعتّر
عرّ اور اعترّ دونوں ایک ہی معنی میں آتے ہیں۔ یعنی بخشش طلب کرنا اور اس کے لیے کسی کے سامنے آنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الحج آیت 36)
اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں تو قربانی کرنے کے وقت قطار باندھ کر ان پر اللہ کا نام لو۔ پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اس طرح ہم نے انکو تمہارے زیر فرمان کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
ماحصل:
  • طلب: کسی حاجت پر نفس کا حریص ہونا اور اس کی جستجو کرنا۔
  • سال: کسی حاجت پر نفس کا حریص ہونا اور اس کا کسی دوسرے سے اظہار۔
  • ادّع: کسی حاجت پر نفس کا حریص ہونا اور اس کے لیے تقاضا کرنا۔
  • اعتر: بمعنی بخشش مانگنے کے لیے لوگوں کے سامنے آنا۔
مائل ہونا کے لیے دیکھیے "جھکنا"۔
مایوس ہونا کے لیے دیکھیے "نا امید ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مٹانا​

کے لیے طمس، محق اور محا (محو) اور نسخ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: طمس
رگڑ کر اس طرح مٹانا کہ کچھ اثرات باقی رہ جائیں۔ طمس کا لفظ بالعموم آنکھ، ستارے اور چہرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آنکھوں اور ستاروں کا طمس یہ ہے کہ وہ بے نور ہو جائیں اور چہرے کا طمس یہ ہے کہ وہ مسخ ہو جائے یعنی بد صورت بن جائے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ اَوۡ نَلۡعَنَہُمۡ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصۡحٰبَ السَّبۡتِ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا (سورۃ النساء آیت 47)
اے کتاب والو! قبل اس کے کہ ہم کچھ چہروں کو مٹا دیں اور پھر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت کریں جس طرح ہفتے والوں پر لعنت کی تھی ہماری نازل فرمائی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ۔ اور اللہ نے جو حکم فرمایا سو سمجھ لو کہ ہو چکا۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ (سورۃ المرسلات آیت 8)
جب تاروں کی چمک جاتی رہے۔
2: محق
کسی چیز کو کمزور اور مضمحل بنا دینا، باطل کر دینا، بے برکت اور بے جان بنا دینا (م ل) اور محق بمعنی گھٹنا اور کم ہونا (مف) اور اس کی ضد ربو یا ربی ہے۔ بمعنی پالنا پوسنا، تربیت کرنا اور پروان چڑھانا۔ ارشاد باری ہے:
یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ (سورۃ البقرۃ آیت 276)
اللہ سود کو نابود یعنی بے برکت کرتا اور خیرات کی برکت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔
3: محو
کسی چیز کو یوں مٹانا کہ اس کے نشانات بھی نہ رہنے پائیں۔ کہتے ہیں محت الرّیح السّحاب ہوا بادلوں کو اڑا لے گئی۔ یعنی بادلوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا۔ اور اس کی ضد اثبت بمعنی برقرار رکھنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (سورۃ الرعد آیت 39)
اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسکو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔
4: نسخ
بمعنی زائل کرنا، باطل کرنا، مسخ کرنا، مٹانا (منجد) اور بمعنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری چیز کو اس کی جگہ پر لانا (مف) اور پہلی چیز جو زائل ہوئی یا مٹائی گئی وہ منسوخ ہے اور دوسری چیز جو اس کی جگہ لائی گئی ہے وہ ناسخ ہے۔ پھر کبھی یہ لفظ محض زائل کرنا یا مٹانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ الحج آیت 52)
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اسکی آرزو میں وسوسہ ڈال دیتا تھا تو جو وسوسہ شیطان ڈالتا ہے اللہ اسکو دور کر دیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ اور اللہ علم والا ہے حکمت والا ہے۔
اور کبھی پہلی چیز کو ختم کر کے یا زائل کر کے دوسرے چیز لانے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 106)
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔
ماحصل:
  • طمس: اس طرح مٹانا کہ کچھ اثرات باقی نہ رہ جائیں۔
  • محق: کسی چیز کا زور ختم کر دینا، اسے بے جان اور مضمحل بنا دینا۔
  • محو: ایسے ختم کرنا کہ کوئی نشان باقی نہ رہے۔
  • نسخ: کسی چیز کو مٹا کر اس کی جگہ دوسری چیز لانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مٹی اور اس کی مختلف حالتیں​

کے لیے تراب، طین، لازب، حما، صلصال، فخّار، صعید، سلالۃ اور ثری کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: تراب
بمعنی خاک، خشک مٹی جس میں نمی نہ ہو (ف ل 31) جسے ہوا اڑائے پھرتی ہے۔ مٹی کے لیے عام لفظ ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰکُمۡ عَذَابًا قَرِیۡبًا ۬ۚۖ یَّوۡمَ یَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا (سورۃ النباء آیت 40)
ہم نے تمکو عذاب سے جو عنقریب آنے والا ہے آگاہ کر دیا ہے جس دن ہر شخص ان اعمال کو جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا۔
2: طین
بمعنی گیلی مٹی مگر اس میں بھوسہ نہ ہو (ف ل 31) خواہ اس سے پانی کی رطوبت ختم ہو جائے تو بھی اس سوکھے کیچڑ کو طین ہی کہا جائے گا۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ (سورۃ السجدۃ آیت 7)
وہی جس نے ہرچیز کو بہت اچھی طرح بنایا یعنی اسکو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔
3: لازب
ہاتھ سے چپک جانے والی مٹی (منجد) چپکدار اور لیس دار مٹی (ف ل 268)۔ ارشاد باری ہے:
فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَہُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَا ؕ اِنَّا خَلَقۡنٰہُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ (سورۃ الصافات آیت 11)
تو ان سے پوچھو کہ انکا بنانا مشکل ہے یا جتنی خلقت ہم نے بنائی ہے اس کا؟ انہیں ہم نے چپکنے والے گارے سے بنایا ہے۔
آیت بالا میں لازب کا لفظ محض طین کی صفت کے طور پر نہیں آیا بلکہ لازب کے معنی ہی چپکدار اور لیس دار مٹی ہے جیسا کہ حوالہ سے ظاہر ہے۔
4: حما
بمعنی بد بو دار کیچڑ۔ جب کیچڑ سیاہی مائل رنگت اختیار کرنے لگے اور اسے بد بو آنے لگے (فل 268) حما البئر اس سے کنویں میں سے سڑی ہوئی سیاہ مٹی نکالی۔ اور حما الماء بمعنی پانی سیاہ مٹی میں مل گیا (م ق)۔
5: صلصال
جب سیاہ بد بو دار کیچڑ بالکل خشک ہو جائے اور تھوڑی سی ضرب سے آواز دینے یا بجنے لگے تو یہ صلصال ہے (ف ل 268)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ (سورۃ الحجر آیت 26)
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ (سورۃ الرحمن آیت 14)
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا۔
6: فخّار
بمعنی ٹھیکرا، پکی ہوئی مٹی (منجد) یعنی ایسی پکی ہوئی مٹی یا مٹی کے برتن جو کھنکھنانے اور بجانے سے ٹن سے بجیں۔ اور فخاری بمعنی کمہار جو مٹی کے برتن وغیرہ بنا کر پھر آوہ میں پکا کر انہیں تیار کرتا یا بیچتا ہے (منجد) انسان کی پیدائش بالآخر ایسی ہی مٹی سے ہوئی جیسا کہ آیت بالا سے ظاہر ہے۔
7: صعید
صعد بمعنی اوپر چڑھنا۔ اور صعید بمعنی زمین کا بالائی حصہ اور اس پر موجود گرد و غبار جو اوپر چڑھ جاتا ہے (مف) ہر ہموار زمین صعید ہے (فل 16) اور بمعنی وجہ الارض یعنی زمین کی اوپر کی مٹی اور گرد و غبار وغیرہ (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا (سورۃ المائدۃ آیت 6)
پھر تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔
8: سلالۃ
بمعنی خلاصہ، نچوڑ، کار آمد حصہ، کسی شے سے نکالی ہوئی چیز (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ (سورۃ المؤمنون آیت 12)
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔
9: ثری
زمین کے انتہائی گہرے حصہ کی گیلی مٹی، نمدار مٹی (ف ل 31، 267)۔ ارشاد باری ہے:
لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ مَا تَحۡتَ الثَّرٰی (سورۃ طہ آیت 6)
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔
ماحصل:
  • تراب: خشک مٹی اور ہر طرح کی مٹی کے لیے عام لفظ۔
  • طین: نمدار مٹی بغیر بھوسہ کے۔
  • لازب: لیس دار اور چپکدار مٹی۔
  • حما: سیاہ سڑا ہوا بد بو دار کیچڑ۔
  • صلصال: خشک کھنکھناتا ہوا کیچڑ۔
  • فخّار: کھنکھنانے یا بجنے والی پکی ہوئی مٹی۔
  • صعید: زمین کی اوپر کی سطح در سطح پر کا گرد و غبار۔
  • سلالۃ: خلاصہ، نچوڑ۔
  • ثری: زمین کے انتہائی گہرے حصہ کی نمدار مٹی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مجامعت کرنا​

کے لیے قرآن میں جتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ سب کنایۃ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک بھی لفظ ایسا نہیں جس کا معنی مجامعت ہو۔ اور یہی شرم و حیا کا تقاضا تھا۔ اور جو لفظ استعمال ہوئے وہ یہ ہیں۔
باشر، قضی وطرا، تغشّی، رفث، مسّ، لامس، طمث اور قرب۔
1: باشر
بشر بمعنی کھال چھیلنا، بشرہ بمعنی کھال کے اوپر کا رخ۔ اور باشر بمعنی ایک جسم کی جلد دوسری جسم کی جلد سے لگنا باشر المراۃ بمعنی جماع کرنا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 187)
اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھتے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔
2: قضی وطرا
وطر بمعنی حاجت اور اہم ضرورت (مف) اور قضی وطرا بمعنی حاجت کو پورا کرنا۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا (سورۃ الاحزاب آیت 37)
پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا۔
3: تغشّی
بمعنی ایک چیز کا دوسری کو ڈھانپ لینا۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ ۚ (سورۃ الاعراف آیت 189)
سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔
4: رفث
ہر وہ کلام جس کے اظہار میں شرم محسوس ہو (م ل) بمعنی بے حجاب ہونا، جماع اور اس فعل سے متعلقہ بات چیت کرنا۔ ارشاد باری ہے:
اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 187)
روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے
5: مسّ
بمعنی کسی چیز کو چھونا یا کسی چیز کا جسم سے لگنا (مف)۔ قرآن میں ہے:
قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (سورۃ آل عمران آیت 47)
مریم نے کہا کہ پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ اللہ اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
6: لامس
لمس بمعنی کسی چیز کو انگلیوں سے ٹٹولنا، انگلیوں یا جسم کے کسی دوسرے حصہ سے تلاش کرنا (مف)۔ قرآن میں ہے:
اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ (سورۃ النساء آیت 43)
یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے۔
7: طمث
طمث بمعنی حیض کا خون (فل 115) اور طمث یطمث کے معنی عورت کا حیض والی ہونا بھی ہے (منجد) اور مرد کا عورت کے پردۂ بکارت کو زائل کرنا بھی (مف) گویا یہ لفظ پہلی بار کی مجامعت سے مخصوص ہے۔ قرآن میں ہے:
لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ (سورۃ الرحمن آیت 74)
انکو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ کسی جن نے۔
8: قرب
بمعنی نزدیک ہونا، پاس جانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 222)
اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔
مجبور کرنا کے لیے دیکھیے "زبردستی کرنا"۔
مجبور ہونا کے لیے دیکھے "بے قرار ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مجلس​

کے لیے مجلس اور نادی کے الفاظ آئے ہیں۔
1: مجلس
(جمع مجالس) ہر وہ جگہ جہاں چند آدمی کسی غرض سے اکٹھے ہو بیٹھیں، گھروں میں تقریبات کی مجلس (ف ل 32، 272) معروف لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورۃ المجادلۃ آیت 11)
مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو اللہ تمکو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنکو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
2: نادی
لوگوں کا ایسا اجتماع جس میں گفتگو اور قصے کہانیوں کا شغل ہو (ف ل 272) کلب، بزم، تفریح گاہیں، فحاشی کے مرکز۔ اور الندوۃ بمعنی فلاح و بہبود، ملی یا دینی مشاورت گاہیں (فل 32)۔ قرآن میں ہے:
اَئِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ وَ تَقۡطَعُوۡنَ السَّبِیۡلَ ۬ۙ وَ تَاۡتُوۡنَ فِیۡ نَادِیۡکُمُ الۡمُنۡکَرَ ؕ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 29)
کیا تم مردوں کی طرف مائل ہوتے اور راہزنی کرتے ہو۔ اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو۔ تو انکی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔
ماحصل:
  • مجلس: اہل خانہ، گھر کے افراد اور دوست احباب کے عام اجتماع۔
  • نادی: مخصوص جگہیں مثلاً کلب، بزم، تفریح گاہ جہاں اجتماعات میں عموماً نا پسندیدہ شغل ہی اختیار کیے جاتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مچھلی​

کے لیے حوت اور نون کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: حوت
اسم جنس، ہر قسم کی مچھلی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جمع حیتان (سورۃ الاعراف آیت 163) اور بڑی مچھلی کو سمک کہتے ہیں (م ل) یہ لفظ قرآن میں نہیں ہے۔ اور سب سے بڑی (یعنی وہیل مچھلی ) کو نون (مف) حضرت یونس کے سلسلہ میں حوت اور نون دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے فرمایا:
فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ (سورۃ القلم آیت 48)
سو اپنے پروردگار کے فیصلے کا انتظار کئے رہو اور مچھلی کا لقمہ ہونے والے یونس کی طرح نہ ہونا کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا جبکہ وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 87)
اور مچھلی والے پیغمبر یعنی یونس کو یاد کرو جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر گرفت نہیں کریں گے مگر پھر اندھیروں میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے اور بیشک میں قصوروار ہوں۔
ان دونوں آیت کا مطلب ایک ہی ہے۔ یعنی وہ (وہیل) مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

محبت – محبت کرنا​

کے لیے حبّ، محبّۃ، ودّ اور ودّا، الّف، شغف اور عربا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: حبّ اور محبّۃ
بمعنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا اور چاہنا اور اس کے حصول میں حکمت سے کام لینا (فق ل 99) خواہ یہ عورت اور اولاد سے ہو یا مال و زر سے۔ اور حبّ اور حبّۃ دانہ (گندم یا جو وغیرہ) کو کہتے ہیں۔ اور حبّۃ القلب سویدائے دل کو (مف)۔ قرآن میں ہے:
فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَیۡرِ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ (سورۃ ص آیت 32)
تو کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہو کر مال کی محبت اختیار کی۔ یہاں تک کہ آفتاب پردے میں چھپ گیا۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ ۬ۚ وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ (سورۃ طہ آیت 39)
اور موسٰی میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پرورش پاؤ۔
2: ودّ
بمعنی کسی چیز کی تمنا کرنا، دوستی کرنا، محبت کرنا (منجد) اور یہ لفظ کبھی صرف چاہنے اور تمنا کرنے کے معنی میں آتا ہے (فق ل 99)۔ جیسے فرمایا:
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 2)
کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے۔
اور جب یہ محبت کے معنوں میں استعمال ہو تو اس سے انتہائی محبت مراد ہوتی ہے۔ مؤدۃ باہمی پیار و محبت، شفقت۔ اور ودود بمعنی بہت محبت کرنے والا۔ اور ودّ پیار و محبت کے معنوں میں آتا ہے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا (سورۃ مریم آیت 96)
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے رحمٰن انکی محبت مخلوقات کے دل میں پیدا کر دے گا۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ رَحِیۡمٌ وَّدُوۡدٌ (سورۃ ھود آیت 90)
اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اسکے آگے توبہ کرو۔ بیشک میرا پروردگار بڑا مہربان ہے بہت محبت کرنے والا ہے۔
گویا ودّ کا لفظ جب محبت کرنا کے معنوں میں آئے تو یہ حبّ سے ابلغ ہوتا ہے (مف)
3: الّف
بمعنی کسی چیز کے منتشر اجزا کو جوڑنا۔ اسی سے لفظ تالیف ہے یعنی ہم آہنگی پیدا کرنا اور الفت بمعنی ایسی محبت جو ہم آہنگی کی وجہ سے ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ الانفال آیت 63)
اور انکے دلوں میں الفت پیدا کر دی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی انکے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے۔ مگر اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی بیشک وہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔
4: شغف
شغفۃ القلب بمعنی دل کا اندرونی حصہ (مف) اور بمعنی دل کا غلاف (م ل) اور شغف بمعنی اس کے دل کے پردہ پر چوٹ لگائی۔ اور شغف حبّا بمعنی ایسی محبت جو دل کے اندرونی حصہ تک سرایت کر چکی ہو (مف) (ف ل 168)، محبت میں دیوانہ ہونا (م ق)۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ یوسف آیت 30)
اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے اور اسکی محبت اسکے دل میں گھر کر گئ ہے۔ ہم دیکھتی ہیں کہ وہ کھلی گمراہی میں ہے۔
5: عربا
عروب کی جمع ہے۔ اور عروب کے معنی اپنے خاوند سے محبت کرنے والی عورت (ف ل 146) اور بمعنی بہت ہنسنے ہنسانے والی خوش ذوق عورت (م ل، منجد) قرآن میں ہے:
فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا عُرُبًا اَتۡرَابًا (سورۃ الواقعہ آیت 36، 37)
تو انکو کنواری بنایا۔ اور شوہروں کی پیاری اور ہم عمر۔
ماحصل:
  • حبّ: کسی چیز کا ارادہ کرنا اور چاہنا۔
  • ودّ: حبّ سے ابلغ ہے زیادہ محبت کرنا، پیار کرنا۔
  • الّف: ہم آہنگی کی بنا پر پیدا شدہ محبت۔
  • شغف حبّا: عشقیہ محبت۔
  • عرب: خاوند سے پیار کرنے والی عورت۔
محتاج اور محتاجی کے لیے دیکھے "تنگ دستی"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

محل​

کے لیے قصر اور صرح کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: قصر
قیاصر روم کی اقامت گاہ کو قصر کہا جاتا تھا۔ پھر اس لفظ کا اطلاق ہر بلند و بالا اور عالیشان عمارت پر ہونے لگا (مف)۔ جمع قصور۔ قرآن میں ہے:
فَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ بِئۡرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصۡرٍ مَّشِیۡدٍ (سورۃ حج آیت 45)
چنانچہ بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے انکو تباہ کر ڈالا کہ وہ نافرمان تھیں۔ سو وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں۔ اور بہت سے کنوئیں بیکار اور بہت سے مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔
2: صرح
صرح بمعنی خالص اور آمیزش سے پاک ہونا (منجد) اور صرح بمعنی منقش اور مزین بلند مکان جو ہر طرح کے عیب سے پاک ہو (مف)۔ قرآن میں ہے:
قِیۡلَ لَہَا ادۡخُلِی الصَّرۡحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡہُ حَسِبَتۡہُ لُجَّۃً وَّ کَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَیۡہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ ۬ؕ قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 44)
اسکے بعد اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے۔ جب اس نے اسکے فرش کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا اور کپڑا اٹھا کر اپنی پنڈلیاں کھول دیں سلیمان نے کہا یہ ایسا محل ہے جس کے نیچے بھی شیشے جڑے ہوئے ہیں وہ بول اٹھی کہ پروردگار میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی تھی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔
ماحصل:
  • قصر: کوئی بھی عالیشان اور بلند و بالا عمارت۔
  • صرح: ایسی عمارت جو نقش و نگار سے مزین اور نقائص سے پاک ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

محنت – مشقت – کرنا – اٹھانا​

کے لیے عمل، جھد، نصب، کلّف، کدح، کرہ، شقّ، شقّۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: عمل
عمل ہر وہ کام ہے جو کوئی جاندار اپنے اختیار و ارادہ کرے خواہ یہ کام اچھا ہو یا برا (مف) اور عمل کا لفظ "کوئی کام" کرنے کے علاوہ محنت مزدوری کرنے یا بالفاظ دیگر روزی کمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا (سورۃ الکہف آیت 79)
کہ جو وہ کشتی تھی غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ کرتے تھے۔ اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کر سکے۔
2: جھد
بمعنی کسی کام کے کرنے میں تمام وسائل و ذرائع کو بروئے کار لانا، سعی بلیغ کرنا (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 6)
اور جو شخص محنت کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے محنت کرتا ہے۔ بیشک اللہ تو سارے جہان سے بے نیاز ہے۔
اور جھد بمعنی وہ مقدور بھر محنت جو ایک انسان کر سکتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَّذِیۡنَ یَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِیۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ اِلَّا جُہۡدَہُمۡ فَیَسۡخَرُوۡنَ مِنۡہُمۡ ؕ سَخِرَ اللّٰہُ مِنۡہُمۡ ۫ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 79)
جو مسلمان دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور جو بیچارے غریب صرف اتنا ہی کما سکتے ہیں جتنی مزدوری کرتے اور تھوڑی سی کمائی میں سے بھی خرچ کرتے ہیں ان پر جو منافق طعن کرتے اور ہنستے ہیں اللہ ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے۔
3: نصب
اتنی محنت جو انسان کو تھکا دے (1) محنت مشقت کرنا (2) تھکاوٹ ہونا۔ پھر یہ لفظ الگ الگ معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا (سورۃ الکہف آیت 62)
جب آگے چلے تو موسٰی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارا کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہو گئ ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ (سورۃ الانشراح آیت 7، 8)
سو جب تم فارغ ہوا کرو تو عبادت میں محنت کیا کرو۔ اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔
4: کلّف
بمعنی تکلیف دینا، اتنی محنت کرنے کو کہنا جو کسی کے لیے قابل برداشت ہو اور اس کے مقدور اور قوت سے زیادہ نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ (سورۃ البقرۃ ایت 286)
اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا ذمہ دار نہیں بناتا۔
5: کدح
تکلیف سہہ سہہ کر اور بہ مشقت کوئی کام کرتے جانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ (سورۃ الانشقاق آیت 6)
اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے تک خوب تکلیف اٹھاتا ہے پھر تو اس سے جا ملے گا۔
6: کرہ
بمعنی جبریہ مشقت۔ ایسی مشقت جس میں انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہو اور مشقت کو وہ نا پسند کرتا ہو (کرہ ضد رضا و المحبۃ) (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ (سورۃ الاحقاف آیت 15)
اور ہم نے انسان کو اسکے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اسکی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔
اور اکرہ بمعنی کسی کو کسی ایسے کام یا محنت پر مجبور کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ جیسے فرمایا:
وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (سورۃ النور آیت 33)
اور اپنی باندیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔
7: شقّ
ایسی محنت یا مشقت جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو لاحق ہوتی ہے (مف)۔ قرآن میں ہے:
وَ تَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ النحل آیت 7)
اور دوردراز شہروں میں جہاں تم سخت محنت کے بغیر پہنچ نہیں سکتے وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار نہایت شفقت والا ہے مہربان ہے۔
8: شقّۃ
شقّ اور شقّۃ میں وہی فرق ہے جو حمل اور حمل اور وقر اور وقر میں (تفصیل کے لیے دیکھیے "بوجھ") یعنی وہ منزل جہاں تک بہ مشقت پہنچا جا سکے (مف)۔ قرآن میں ہے:
لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَ لٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ (سورۃ التوبہ آیت 42)
اگر مال غنیمت آسانی سے حاصل ہونے والا اور سفر بھی ہلکا ہوتا تو یہ تمہارے ساتھ شوق سے چل دیتے لیکن مسافت انکو دور دراز نظر آئی تو عذر کریں گے۔
ماحصل:
  • عمل: محنت مزدوری کرنا، لفظ بھی عام ہے اور اس کا استعمال بھی عام۔
  • جھد: کسی کام کے کرنے میں تمام وسائل بروئے کار لانا۔
  • نصب: ایسی محنت جو تھکا دے یا تھکاوٹ کا باعث ہو۔
  • تکلیف: کسی کی قوت اور برداشت کے مطابق محنت۔
  • کدح: دکھ سہہ سہہ کر بھی کوئی کام کرتے جانا۔
  • کرہ: جبریہ مشقت۔
  • شقّ: محنت کرنے کی کوفت۔
  • شقّۃ: وہ منزل جہاں تک بہ مشقت کوئی پہنچ سکے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مخالفت – مخالفت کرنا​

کے لیے خالف، ضدّ، شاق، حادّ، تعاسر، عند کے الفاظ آئے ہیں۔
1: خالف
بمعنی مخالفت کرنا، اعراض کرنا (منجد) اور بمعنی کسی چیز کا خلاف کرنا اور اختلاف کرنا، بتلائی ہوئی بات کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ (سورۃ ھود آیت 88)
اور میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کروں خود اسکو کرنے لگوں۔
2: ضدّ
بمعنی مخالفت کرنا۔ اور ضدّ بمعنی مخالف، مقابل (جمع اضداد)، مقابل کی دو چیزوں کو ضدّین کہتے ہیں۔ امام راغب کے نزدیک ضدّین کی تعریف یہ ہے کہ وہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کے مقابل ہوں اور ایک ہی جنس سے ہوں اور کبھی جمع نہ ہو سکتی ہوں جیسے سفیدی اور سیاہی (مف) کہ ان کی جنس رنگت یا رنگ ہے۔ اور ابن الفارس کے نزدیک ضدّین کی تعریف یہ ہے کہ ایسی دو مقابل اشیا جن کا ایک ہی وقت میں اجتماع نا ممکن ہو جیسے دن اور رات (م ل) گویا یہ لفظ خلاف سے اخص ہے۔ یعنی ہر ضد خلاف ضرور ہے لیکن ہر خلاف ضد نہیں ہوتا۔ قرآن میں ہے:
کَلَّا ؕ سَیَکۡفُرُوۡنَ بِعِبَادَتِہِمۡ وَ یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ ضِدًّا (سورۃ مریم آیت 82)
ہرگز نہیں وہ معبود ان باطل انکی پرستش سے انکار کریں گے اور ان کے دشمن و مخالف ہوں گے۔
اور ضدّ کا لفظ بذات خود لغت اضداد سے ہے۔ یعنی ضد بمعنی مخالف اور مقابل۔ اور ضدّ بمعنی مثل اور نظیر (م ق) بھی۔
3: شاقّ
بمعنی مخالفت کرنا، عداوت رکھنا (منجد) اور شقّ بمعنی شگاف اور شقاق بمعنی افتراق، ان بن، مخالفت۔ ایسی مخالفت جس میں ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کر لیتا ہے (مف) یعنی جو بات کو ناپسند ہو وہی بات دوسرا فریق اختیار کرے۔ ارشاد باری ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَآقِّ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (سورۃ الحشر آیت 4)
یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی مخالفت کی۔ اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرے تو اللہ اسے سخت عذاب دینے والا ہے۔
4: حآدّ
حدّ (النظر) بمعنی تیز نظر سے گھورنا۔ اور حدّ السیف بمعنی تلوار کی دھار اور حدّ السکین بمعنی چھری کو تیز کرنا۔ اور حادّ دشمنی رکھنا، غضبناک ہونا (منجد) گویا حادّ سے مراد ایسی مخالفت اور دشمنی ہے جس سے انسان غضبناک ہو کر مقابلہ اور انتقام پر اتر آئے۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الۡخِزۡیُ الۡعَظِیۡمُ (سورۃ التوبہ آیت 63)
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اسکے رسول سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے جسمیں وہ ہمیشہ جلتا رہے گا۔ یہ بڑی رسوائی ہے۔
5: تعاسر
عسر بمعنی تنگی۔ اور عسّر الامر بمعنی اس نے کسی پر کام کو دشوار کر دیا اور اسے تنگ کر دیا۔ اور تعاسر بمعنی ایک دوسرے کی اس طرح مخالفت کرنا کہ دوسرے کے لیے معاملہ دشوار ہو جائے (منجد) تعاسر میں مخالفت اور دشمنی میں شدت نہیں ہوتی بلکہ ایک فریق کوئی ایسی بات اختیار کرتا ہے جس سے دوسرے پر تنگی واقع ہو جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ ۚ وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَہٗۤ اُخۡرٰی (سورۃ الطلاق آیت 6)
اور بچے کے بارے میں پسندیدہ طریق سے موافقت رکھو اور اگر باہم ضد اور نااتفاقی کرو گے تو بچے کو اسکے باپ کے کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔
6: عند
بمعنی جان بوجھ کر حق اور راہ حق کی مخالفت کرنا (مف، منجد) عنید بمعنی وہ شخص جو راہ حق سے عناد رکھے اور مخالفت کرے۔ اور عنود بمعنی وہ شخص جو صحیح راہ سے ہٹ جائے (مف)۔ ارشاد باری ہے:
کَلَّا ؕ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیۡدًا (سورۃ مدثر آیت 16)
ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ یہ ہماری آیتوں کا بڑا مخالف رہا ہے۔
ماحصل:
  • خالف: بمعنی خلاف کرنا، اعراض کرنا۔
  • ضدّ: خالف سے اخص ہے، خلاف اور مقابل ہونا۔
  • شاق: مخالف اور دشمن ہونا۔
  • تعاسر: ایسی ناچاکی جس میں ایک فریق دوسرے پر تنگی پیدا کر دے۔
  • عند: حق اور راہ حق کی مخالفت کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مختلف​

کے لیے مختلف اور شتّی (شتّ) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: مختلف
(اختلاف ضد اتفاق) چیزوں کا الگ الگ ہونا۔ طرح طرح یا قسم قسم کا ہونا، نوع جدا ہونا، کسی معاملہ میں اختلاف رائے ہونا۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 69)
پھر ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے بیشک سوچنے والوں کے لئے اس میں بھی نشانی ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّ غَیۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّ النَّخۡلَ وَ الزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُکُلُہٗ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّ غَیۡرَ مُتَشَابِہٍ ؕ کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ ۫ۖ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 141)
اور اللہ ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کئے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی۔ اور کھجور اور کھیتی جنکے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو بعض باتوں میں ایکدوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بعض باتوں میں نہیں بھی ملتے جب یہ چیزیں پھلیں تو انکے پھل کھاؤ اور جسدن پھل توڑو اور کھیتی کاٹو تو اس کا حق بھی اس میں سے ادا کرو اور بیجا نہ اڑانا کہ اللہ بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
2: شتّی
(شتّ) بمعنی کسی چیز کا شیرازہ بکھرنا، پراگندہ ہونا ضد الّف (م ل) بمعنی کسی چیز کے منتشر اجزا کو اکٹھا اور مربوط کرنا۔ اور شتیت بمعنی متفرق پھٹا ہوا جمع شتّی (م ق)۔ قرآن میں ہے:
لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍ ؕ بَاۡسُہُمۡ بَیۡنَہُمۡ شَدِیۡدٌ ؕ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 14)
یہ سب جمع ہو کر بھی تم سے نہیں لڑ سکیں گے مگر بستیوں کے قلعوں میں پناہ لے کر یا دیواروں کی اوٹ سے انکے آپس میں بھی بڑی لڑائی رہتی ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ یہ اکٹھے ہیں حالانکہ انکے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ (سورۃ الزلزال آیت 6)
اس دن لوگ طرح طرح کے ہو کر آئیں گے۔ تاکہ انکو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔
3: ازواج
زوج بمعنی جوڑا اور جوڑے کا ہر فرد۔ مثلاً شوہر بیوی کا زوج ہے اور بیوی شوہر کی زوج ہے۔ اور میاں بیوی دونوں مل کر بھی ایک ہی زوج ہے۔ جس مخلوق میں نر اور مادہ کا وجود ہے اس میں زوج کا تصور بھی موجود ہے۔ حیوانات اور نباتات میں تو نر و مادہ کا تصور انسان کے علم میں آ چکا ہے مگر یہ تصور جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (سورۃ الذریات آیت 49)
اور ہر چیز کے ہم نے دو دو جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
چونکہ زوج میں مصاحبت اور ساتھی ہونے کا تصور بھی موجود ہے لہذا چند ہم جنس جاندار چیزوں کے اکٹھا ہو جانے پر بھی زوج کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس صورت میں زوج کا معنی قسم، تقسیم یا فرقہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً (سورۃ الواقعہ آیت 7)
اور تم لوگ تین قسم کے ہو جاؤ گے۔
اور ازواج کا لفظ مختلف قسم کے ہم جنس مجموعوں پر بھی ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مجموعہ کو ایک اکائی تصور کر کے ازواج کا معنی ہو گا، کسی قسم کے ایسے مجموعے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی (سورۃ طہ آیت 131)
اور کئ طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے نوازا ہے تاکہ انکی آزمائش کریں ان پر نگاہ نہ کرنا اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
ماحصل:
  • مختلف: اشیا کی نوعیت جدا تو اس کے لیے۔
  • اگر ایک ہی چیز کے منتشر اجزا کا اظہار مقصود ہو تو شتّی۔
  • ہم جنس کئی طرح کے مجموعوں کا اظہار کرنا ہو تو ازواج آئے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مدت​

کے لیے مدّت، امد، عدت، امّۃ، ملیّا، مھل اور عمر کے الفاظ آئے ہیں۔ (علاوہ ازیں اجل، حین اور میقات "وقت" کے تحت دیکھیے)
1: مدت
مدّ (بمعنی کھینچنا اور کھینچ کر لمبا کرنا) سے مدت مصدر ہے۔ بمعنی وقت کی لمبائی، معروف لفظ ہے اور اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 4)
البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور انہوں نے تمہارا کسی طرح کا قصور نہ کیا ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک انکے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو کہ اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
2: امد
امد کا لفظ مدت دراز کے لیے آتا ہے اور مدت کی نہایت اور غایت کے لیے بولا جاتا ہے (مف) یہ لفظ ظرف زمان اور مکان دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور مکان کی صورت میں فاصلہ کا معنی دیتا ہے (فق ل 141)۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا (سورۃ الکہف آیت 12)
پھر انکو جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ غار میں رہے دونوں جماعتوں میں سے اسکی مقدار کس کو خوب یاد ہے۔
یَوۡمَ تَجِدُ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَیۡرٍ مُّحۡضَرًا ۚۖۛ وَّ مَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ ۚۛ تَوَدُّ لَوۡ اَنَّ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَہٗۤ اَمَدًۢا بَعِیۡدًا ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ (سورۃ آل عمران آیت 30)
جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکی کو موجود پا لے گا اور اپنی برائی کو بھی دیکھ لے گا تو آرزو کرے گا کہ اے کاش اس میں اور اس برائی میں دور کی مسافت ہو جاتی۔ اور اللہ تمکو اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔
3: عدّت
عدّ بمعنی شمار کرنا سے مصدر ہے۔ یعنی وہ مدت جو شمار کر کے گزاری جائے اور اس لفظ کا اطلاق اس مدت پر ہوتا ہے جس میں کوئی مطلقہ یا بیوہ عورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی اور اپنے سابقہ خاوند کے گھر میں یہ مدت گزارتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا (سورۃ الطلاق آیت 4)
اور تمہاری طلاق والی بیویاں جو حیض سے ناامید ہو چکی ہوں اگر تمکو انکی عدّت کے بارے میں شبہ ہو تو انکی عدّت تین مہینے ہے اور جنکو ابھی حیض نہیں آنے لگا انکی عدّت بھی یہی ہے اور حمل والی عورتوں کی عدّت وضع حمل یعنی بچہ جننے تک ہے۔ اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اسکے کام میں سہولت پیدا کر دے گا۔
4: امّۃ
امّ بمعنی ماں اور ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہو جائیں (مف) اور امّۃ بمعنی مدت کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ گزر چکی ہو (مف) قرآن میں ہے:
وَ قَالَ الَّذِیۡ نَجَا مِنۡہُمَا وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمۡ بِتَاۡوِیۡلِہٖ فَاَرۡسِلُوۡنِ (سورۃ یوسف آیت 45)
اور وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آ گئ بول اٹھا کہ میں آپ کو اسکی تعبیر لا بتاتا ہوں مجھے قید خانے جانے کی اجازت دیجئے۔
5: ملیّا
ملی میں درازی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ملیّ من الدّھر بمعنی عرصۂ دراز الملا (الف مقصورہ) بمعنی وسیع ریگستان اور ملاک اللہ بمعنی خدا تیری عمر دراز کرے (منجد) اور ملیّا بمعنی طویل مدت۔ قرآن میں ہے:
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِہَتِیۡ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا (سورۃ مریم آیت 46)
اس نے کہا کہ ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں کے خلاف ہے؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو جا۔
6: مھل
(مصدر مھلت) اور امھل اور مھّل بمعنی ڈھیل دینا، مدت کو آہستہ آہستہ اور نرمی سے بڑھاتے جانا اور جلدی نہ کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا (سورۃ مزمل آیت 11)
اور مجھے ان جھٹلانے والوں سے جو دولتمند ہیں سمجھ لینے دو اور انکو تھوڑی سی مہلت دے دو۔
7: عمر
عمر بمعنی آباد رہنا اور آباد کرنا اور عمر بمعنی روح کے جسم کے اندر آباد رہنے کی مدت، کسی جاندار کی پیدائش سے لے کر حال تک کی مدت۔ قرآن میں ہے:
وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ۚ وَ مَا کُنۡتَ ثَاوِیًا فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ تَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۙ وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 45)
لیکن ہم نے موسٰی کے بعد کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر ایک لمبی مدت گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ انکو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ اور ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔
ماحصل:
  • مدۃ: زمانہ کی طوالت۔ اس کا استعمال عام ہے۔
  • امد: عرصۂ دراز اور اس کی انتہا یا فاصلہ اور بعد مکانی۔
  • عدّت: ایسی مدت جس کا شمار کرنا مطلقہ کے لیے ضروری ہو۔ یہ شرعی اصطلاح ہے۔
  • امّۃ: طویل مدت خلود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
  • مھلت: آہستہ آہستہ مدت کو نرمی سے بڑھاتے جانا، ڈھیل دینا۔
  • عمر: کسی جاندار کی پیدائش سے حال تک کی مدت۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مدد دینا – کرنا اور چاہنا​

کے لیے اعان اور استعان (عون) نصر اور استنصر، ایّد، عزّر، عزّز، ظاھر، رفد، ردا اور امدّ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: اعان
عون بمعنی مدد گار (مف) اور اعان بمعنی کسی کا ہاتھ بٹانا، ساتھ دینا اور تعاون بمعنی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا اور ساتھ دینا۔ یہ لفظ عام ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا (سورۃ الکہف آیت 95)
ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور اللہ نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ تم مجھے قوت بازو سے مدد دو۔ میں تمہارے اور انکے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ بنا دوں گا۔
اور استعان بمعنی کسی سے مدد اور تعاون طلب کرنا۔ قرآن میں ہے:
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (سورۃ الفاتحہ آیت 4)
اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
2: نصر
بمعنی کسی کی تکلیف یا ظلم و زیادتی دور کرنے کے لیے اس کی مدد کرنا (محیط)۔ اور یہ اعانت سے اخص ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 123)
اور اللہ نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی جبکہ اس وقت بھی تم بے سروسامان تھے۔ پس اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ شکزگذار بن جاؤ۔
اور استنصر بمعنی اپنے آپ پر ظلم و زیادتی کو رفع کرنے کے لیے کسی سے مدد طلب کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنِ اسۡتَنۡصَرُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ (سورۃ الانفال آیت 72)
اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔
3: ایّد
الاید بمعنی سخت قوت (مف) اور ایّد بمعنی کسی کی امداد کر کے اسے قوت بہم پہنچانا، تائید کرنا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا (سورۃ التوبہ آیت 40)
تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور انکو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تمکو نظر نہیں آتے تھے۔
4: عزّر
بمعنی کسی کی جذبۂ تعظیم کے ساتھ مدد کرنا (مف، م ل)۔ ارشاد باری ہے:
لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا (سورۃ فتح آیت 9)
تاکہ مسلمانو تم لوگ اللہ پر اور اسکے پیغمبر پر ایمان رکھو اور اسکی مدد کرو اور اسکی تعظیم کرو۔ اور صبح و شام اسکی تسبیح کرتے رہو۔
5: عزّز
بمعنی کسی کی اتنی مدد کرنا جس سے اس کی کمزور رفع ہو جائے۔ (تفصیل "عزت دینا" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ (سورۃ یس آیت 14)
یعنی جب ہم نے انکی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے انکو جھٹلایا۔ پھر ہم نے تیسرے سے تقویت دی تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف پیغمبر ہو کر آئے ہیں۔
6: ظاھر
ظھر میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) ظاہر ہونا، سامنے آنا، نمایاں ہونا اور (2) ظھر بمعنی پشت اور ظاھر بمعنی ایسی قوت دینا جس کے بل بوتے پر کوئی کام کرے، پشت پناہی کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا(سورۃ الاحزاب آیت 26)
اور اس نے اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے انکی یعنی مکے والوں کی مدد کی تھی انکو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی۔ تو بعض کو تم قتل کر دیتے تھے اور بعض کو قید کر لیتے تھے۔
7: رفد
کسی مفلس و نادار کو عطیہ و خیرات کے ذریعہ امداد دینا (تفصیل "دینا" میں دیکھیے)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہٖ لَعۡنَۃً وَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ بِئۡسَ الرِّفۡدُ الۡمَرۡفُوۡدُ (سورۃ ھود آیت 99)
اور اس جہان میں بھی لعنت انکے پیچھے لگا دی گئ اور قیامت کے دن بھی پیچھے لگی رہے گی جو انعام انکو ملا ہے برا ہے۔
8: ردا
(الحائط) بمعنی دیوار کو پشتہ لگان اور ردا الرجل بمعنی کسی کا پشتی بان بننا، مدد گار بننا اور ردء بمعنی پشتی بان، مدد گار (منجد، م ق) یعنی ایسا مدد گار جو ہر وقت ساتھ رہتا ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ (سورۃ القصص آیت 34)
اور ہارون جو میرا بھائی ہے اسکی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اسکو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔
9: امدّ
مدّ بمعنی کسی چیز کو کھینچنا، پھیلانا، دراز کرنا، اس طرح کہ اس کا اتصال قائم رہے (مف) اور امدّ بمعنی کسی چیز کی مقدار یا تعداد میں اضافہ کر کے مدد دینا، کمک بہم پہنچانا۔ ارشاد باری ہے:
وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا (سورۃ نوح آیت 12)
اور تمہارے مال اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 125)
ہاں کیوں نہیں اگر تم دل کو مضبوط رکھو۔ اور نافرمانی سے بچتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتًہ حملہ کر دیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا۔
ماحصل:
  • اعان: کسی کی مدد کرنا، ہر طرح کی مدد۔ عام ہے۔
  • نصر: دفع مضرت کے لیے کسی کی مدد کرنا۔
  • ایّد: کسی کی مدد کر کے اسے تقویت بہم پہنچانا۔
  • عزّر جذبۂ تعظیم کے ساتھ کسی کی مدد کرنا۔
  • عزّز: کسی کی اس قدر مدد کرنا کہ اس کی کمزور رفع ہو جائے۔
  • ظاہر: پشت پناہی کرنا۔
  • رفد: کسی مفلس کی عطیہ و خیرات سے مدد کرنا اور کرتے جانا۔
  • ردا: پشتہ لگانا، ہر وقت کی مدد مہیا کرنا۔
  • امدّ: کمک بہم پہنچانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مدد گار​

کے لیے ناصر، نصیر اور انصار، حواری، ولی اور مولی، شھید، ظھیر، وزیر اور عضد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: ناصر اور نصیر
نصر بمعنی کسی پر زیادتی یا ظلم کو روکنے کے لیے اس کی مدد کرنا (محیط) اور ناصر ایسا مدد گار ہے جو کسی ایسے ہی موقعہ پر مدد کرے۔ اور اس کی جمع نصر اور انصار آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنۡ قَرۡیَتِکَ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَتۡکَ ۚ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ فَلَا نَاصِرَ لَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 13)
اور بہت سی بستیاں تمہاری بستی سے جسکے باشندوں نے تمہیں وہاں سے نکال دیا زورو قوت میں کہیں بڑھ کر تھیں ہم نے انکو برباد کر دیا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوا۔
اور نصیر وہ ہے جو ہر ایسے موقع پر مدد کو پہنچنے والا ہو (جمع نصراء اور انصار) اور اس لفظ کا اطلاق قرآن کریم میں عموماً اللہ تعالی ہی پر ہوا ہے۔ اور نصیر بمعنی قوت کے ساتھ مدد کرنے والا (فق ل 156)۔ ارشاد باری ہے:
وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاَعۡدَآئِکُمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا ٭۫ وَّ کَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 45)
اور اللہ تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے۔ اور اللہ ہی کافی کارساز ہے اور اللہ ہی کافی مددگار ہے۔
2: حواری
حواری بمعنی سفید کلر جس سے کپڑے وغیرہ صاف کیے جاتے ہیں (م ق) اور بمعنی نصیحت کرنے والا، رشتہ دار، مدد گار۔ حواری دراصل حضرت عیسی علیہ السلام کے ان انصار کو کہتے ہیں جنہوں نے آڑے وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ (سورۃ الصف آیت 14)
عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ بھلا کون ہیں جو اللہ کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
3: ولی اور موالی
الولاء بمعنی محبت، دوستی، نزدیکی، رشتہ داری (مف) اور قرابت (م ل) اور ولایۃ بمعنی وراثت اور موالی بمعنی وارث بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 33)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو حقداروں میں تقسیم کر دو کہ ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کر دیئے ہیں۔ اور جن لوگوں سے تم عہد کر چکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
عرب میں ولایت کا دستور عام تھا یعنی لوگ اپنے رشتہ داروں کے علاوہ کسی دوست کو اپنا ولی بنا لیتے تھے۔ پھر یہ ولی اس کی میراث کا وارث اور رشتہ داروں سے فائق سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے ابتداء یہ دستور بحال رکھا۔ انصار اور مہاجرین میں یہ سلسلہ قائم تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب اللہ تعالی نے رشتہ داروں کے وراثت میں حصے مقرر فرما دئیے تو یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ گویا ولی اور موالی کے لفظ میں ناصر اور نصیر کے کئی پہلوؤں سے زیادہ جامعیت ہے۔ اور اس کے معنی حمایتی دوست اور مدد گار کے بھی ہیں۔ اور ولی بمعنی اخلاص اور محبت سے مدد کرنے والا جو لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے نہ ہو (فق ل 156)۔
اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ (سورۃ البقرۃ آیت 107)
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ (سورۃ الانفال آیت 40)
اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا حمایتی ہے اور وہ خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے۔
4: شھید
شھد بمعنی گواہی دینا خواہ یہ گواہی عینی ہو یا قلبی یعنی خواہ وہ بصارت کا تعلق رکھتی ہو یا بصیرت سے اور نیز معنی حاضر ہونا (مف، منجد) اور شھید اس گواہ کو بھی کہتے ہیں جو حاضر ہو کر کسی کے حق میں قاضی کے سامنے گواہی دے (مف) اور اس کی مدد اور تقویت کا ذریعہ ثابت ہو۔
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 23)
اور اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں انکو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔
5: ظھیر
ظھر بمعنی پشت، پیٹھ اور بمعنی سواری، پشت پناہ، مدد گار (مف) اور ظھیر بمعنی مدد گار، ایسا مدد گار جس پر کوئی شخص تکیہ رکھتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 86)
اور اے نبی تمہیں امید نہ تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی جائے گی۔ مگر تمہارے پروردگار کی مہربانی سے نازل ہوئی سو تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ ہونا۔
6: وزیر
وزر بمعنی بوجھ (جمع اوزار) اور وزیر وہ ممد و معاون شخص ہے جو کام کی زیادتی یا سختی میں بوجھ بٹانے والا ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ (سورۃ طہ آیت 29)
اور میرے گھر والوں میں سے ایک کو میرا وزیر یعنی مددگار مقرر فرما۔
7: عضد
بمعنی بازو، کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ اور عضدتہ بمعنی کسی کا بازو پکڑنا اور اسے سہارا دینا۔ اسی لحاظ سے عضد کا لفظ استعارۃ مدد گار کے معنی میں آتا ہے (مف) (جمع اعضاد) (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَا خَلۡقَ اَنۡفُسِہِمۡ ۪ وَ مَا کُنۡتُ مُتَّخِذَ الۡمُضِلِّیۡنَ عَضُدًا (سورۃ الکہف آیت 51)
میں نے انکو نہ تو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا اور نہ خود انکے پیدا کرنے کے وقت۔ اور میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناتا۔
ماحصل:
  • ناصر اور نصیر: ظلم اور زیادتی کے وقت مدد کرنے والا۔
  • حواری: انبیا کے مدد گاروں کا خاص ٹولہ۔
  • ولی اور مولی: حمایتی اور قریبی دوست اور مدد گار۔
  • شھید: موقعہ پر حاضر ہو کر کسی کے حق میں گواہی دے کر مدد کرنے والا۔
  • ظھیر: ایسا مدد گار جس پر تکیہ کیا جا سکے۔ پشت پناہ۔
  • وزیر: کام کی زیادتی میں ہاتھ بٹانے والا۔
  • عضد: دست و باز ثابت ہونے والا مدد گار۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مذاق اڑانا​

کے لیے استھزا (ھزء) اور سخر، فنّد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: استھزاء
الھزء بمعنی کسی کا اندرونی طور پر مذاق اڑانا (مف) اور استھزاء بمعنی خلاف عقل سمجھ کر کسی آدمی کا ایسے فعل پر مذاق اڑانا جو اس سے سر زد بھی نہ ہوا ہو (فق ل 212) قرآن میں ہے:
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 14)
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے تو ہم ہنسی کیا کرتے ہیں۔
2: سخر
مسخر میں ذلت اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے (م ل) سخر بمعنی کسی سے بیگار لینا اور سخّر بمعنی کسی کو ذلیل کرنا، مغلوب کرنا (منجد) اور بمعنی کسی کا عیب بیان کر کے اس کا مذاق اڑانا جس سے کسی کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو (فق ل 211)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ (سورۃ حجرات آیت 11)
مومنو! مرد مردوں سے تمسخر نہ کریں ممکن ہے جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ممکن ہے وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنوں کو آپس میں عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔
3: فنّد
فند بمعنی رائے کی کمزوری اور فنّد بمعنی کسی کو کمزور رائے یا فاتر العقل بتلانا (مف) اور فند بمعنی سٹھیانا، بڑھاپے کی وجہ سے ضعیف العقل ہونا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ اور فنّد بمعنی کسی بوڑھے شخص کی باتوں پر ملامت کرنا، خطا کار ٹھہرانا، ملامت کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا فَصَلَتِ الۡعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمۡ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ (سورۃ یوسف آیت 94)
اور جب قافلہ مصر سے روانہ ہوا۔ تو انکے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے۔
ماحصل:
  • استھزاء: کسی چیز کو خلاف عقل اور عجیب سمجھ کر مذاق اڑانا۔
  • سخر: کسی کے عیب بیان کر کے از راہ حقارت مذاق اڑانا۔
  • فنّد: کسی بوڑھے کی باتوں کو ان ہونی سمجھ کر مذاق اڑانا۔
مراد پانا کے لیے دیکھیے "کامیاب ہونا"۔
 
Top