مترادفات القرآن (م)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مرد​

کے لیے رجل، امرء، مرء اور ذکر کے الفاظ آئے ہیں۔
1: رجل
(بمعنی مرد) کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب قوت، بہادری اور مردانگی کا اظہار مقصود ہو۔ رجولیّۃ مصدر بمعنی قوت مردانگی، قوت مردمی (منجد) جمع رجال (مونث نساء اور نسوۃ)۔ ارشاد باری ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ (سورۃ النساء آیت 34)
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
2: امرء یا مرء
(بمعنی مرد) شخص۔ اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب انسانیت سے متعلق اخلاق کی طرف اشارہ مقصود ہو۔ مروءت یا مروّت مصدر انسانیت، انسانی ہمدردی (مونث امراۃ یا المرءۃ) اس کی بھی جمع رجال ہی آئے گی۔ قرآن میں ہے:
فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 102)
غرض لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈالدیں۔
3: ذکر
بمعنی نر (ضد انثی) ہر وہ چیز جس کی پیدائش زوجین کے ذریعہ ہو ان میں سے نر خواہ یہ چیز انسان ہو یا حیوانات اور چرند پرند یا درخت وغیرہ۔ لیکن جب اس لفظ کا تعلق انسان سے ہو تو اس سے مراد مرد ہوتا ہے خواہ کسی بھی عمر کا ہو (جمع ذکور اور ذکران، ضد اناث)۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ (سورۃ الانعام آیت 144)
ان سے پوچھو کہ اللہ نے دونوں کے نروں کر حرام کیا ہے یا دونوں کی ماداؤں کو۔
وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی (سورۃ آل عمران آیت 36)
اور نہ ہوتا لڑکا مانند اس لڑکی کے۔
فَلِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ (سورۃ النساء آیت 176)
مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔
ماحصل:
رجل: اس وقت آتا ہے جب بہادری اور قوت مردمی کا اظہار مقصود ہو۔ اور امرء جب مروت اور انسانیت اور اخلاقی اقدار ظاہر کرنا ہو۔ اور اگر جنس کا اظہار مقصود ہو تو ذکر آتا ہے۔
مردود کے لیے دیکھیے "دھتکارنا"۔
مرنا کے لیے دیکھیے "مارنا – مرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مزا​

کے لیے ذائقۃ، طعم، لذّۃ، ھنا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: ذائقۃ
ذاق بمعنی چکھنا۔ لیکن یہ لفظ عموماً زبان سے مزا چکھنا کہ معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ ذائقۃ بمعنی چکھنے والی قوت بھی جو زبان میں ہوتی ہے اور مزا اور ذواق اور مذاق مزا کے معنوں میں آتے ہیں (منجد) اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ مادی معنوی ہر طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ آل عمران آیت 185)
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا تو جو شخص دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
2: طعم
طعم بمعنی غذا یا روٹی یا کھانا کھانا یا اس کھانے کے مزہ کو طعم کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ (سورۃ محمد آیت 15)
اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا۔
3: لذّۃ
لذّ بمعنی کسی چیز کا اچھے مزا والا ہونا یا لذیذ ہونا۔ اور لذّۃ بمعنی مزا کی خوشگواری۔ یا ایسا مزا جو طبیعت کو مرغوب ہو، خواہ یہ مزا میٹھا ہو یا نمکین، کھٹا ہو بلکہ اگر کڑوا بھی طبیعت کو بھا جائے تو یہ لذیذ ہے۔ اور اس کا استعمال مادی اور معنوی دونوں طرح سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے
وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ (سورۃ محمد آیت 15)
اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے سراسر لذت ہے
دوسرے مقام پر فرمایا:
یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِصِحَافٍ مِّنۡ ذَہَبٍ وَّ اَکۡوَابٍ ۚ وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ ۚ وَ اَنۡتُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 71)
ان پر سونے کی طشتریوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وہاں جو جی چاہے اور جو آنکھوں کو اچھا لگے موجود ہو گا اور اے اہل جنت تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
4: ھنا
الھنئ وہ چیز ہے جو بغیر مشقت کے حاصل ہو جائے اور نتائج کے لحاظ سے خوش کن ہو۔ اس لفظ کا استعمال عموماً کھانے کے خوشگوار ہونے پر ہوتا ہے (مف) اور ھنا بمعنی خوش ہونا اور ھنئ الطعام کھانے کو مزیدار پانا۔ اور ھنؤ بمعنی بغیر رنج و مشقت کے حاصل ہونا۔ اور ھنّا بمعنی مبارکباد دینا۔ اور ھنیئ بمعنی خوشگوار بلا مشقت مفت ہاتھ لگنے والی چیز (منجد) اور ھنئ بمعنی ایسا خوش منظر کھانا جس میں گدلا پن قطعا نہ ہو (فق ل345) پھر اس کا استعمال آسانی سے حاصل شدہ مال پر ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا (سورۃ النساء آیت 4)
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے مزے سے کھا لو۔
ماحصل:
  • ذائقہ: عام ہے بمعنی چکھنا، مزا چکھنا۔
  • طعم: انسان کھانے کا مزا۔
  • لذّت: خوشگواری، خوش مزگی۔
  • ھنا: مفت راچہ گفت، بغیر محنت ہاتھ آنے والے مال کی خوشگواری، کسی چیز کا خوش منظر اور مزیدار ہونا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مزین کرنا​

کے لیے زیّن، زخرف اور سوّل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: زیّن
بمعنی کسی چیز کو زینت دینا، آراستہ کرنا، سنوارنا، خوشنما بنانا۔ یہ لفظ عام مستعمل ہے۔ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابَ السَّعِیۡرِ (سورۃ الملک آیت 5)
اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی اور انکو شیطانوں کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اور دوسرے مقام پر ہے:
فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 43)
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا وہ کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو ان کی نظروں میں آراستہ کر دکھاتا تھا۔
2: زخرف
زخرف بمعنی سونا GOLD اور وہ زینت جو ملمع کرنے سے حاصل ہو۔ اور زخرف القول بمعنی ملمع کی ہوئی بات (مف) اور زخرف الکلام بمعنی جھوٹ سے سجایا ہوا کلام (منجد) اور زخرف اور تزخرف بمعنی کسی چیز کو ملمع کر کے خوشنما بنانا (منجد)۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 112)
اور اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا۔ وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے سو ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دو۔
3: سوّل
سول بمعنی پیٹ کا ناف کے نیچے سے ڈھیلا ہونا (مف) اور سوّل بمعنی (نفس یا شیطان کا) کسی گناہ کی بات کو کمزور اور ڈھیلا کر کے دکھانا تاکہ اسے گناہ کا احساس نہ رہے یا کسی بری بات کو خوبصورت کر کے اور مزین بنا کر پیش کرنا تاکہ انسان اس سے رکنے کی بجائے اس کے کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ السّویل بمعنی نفس کا ایسی چیز کو مزین کرنا جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بنا کر پیش کرنا (مف)۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 18)
اور انکے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے یعقوب نے کہا کہ یوں نہیں ہے بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر کہ وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اسکے بارے میں اللہ ہی سے مدد چاہئیے۔
ماحصل:
  • زیّن: زینت دینا، آراستہ کرنا، عام مستعمل ہے۔
  • زخرف: ملمع سازی سے خوش نما بنانا اور آراستہ کرنا، جھوٹ بنا کر بات کو مزین کرنا۔
  • سوّل: شیطان یا نفس کا کسی ایسے برے کام کو خوشنما بنا کر پیش کرنا جس پر انسان حرص بھی رکھتا ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مسافر​

گو سفر بذات خود عربی لفظ ہے اور اس کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے۔ تاہم سافر اور مسافر کے الفاظ نہیں آئے۔ ان کے بجائے ابن السبیل، عابری سبیل، مقوین اور سیّارہ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: ابن السبیل
(رستے کا بیٹا، یہ مسافر کی کیفیت ہے) مسافر جب تک واپس گھر نہ پہنچے، وہ ابن السبیل ہی ہے خواہ وہ سفر کر رہا ہو یا دوران سفر کسی جگہ عارضی طور پر اقامت پذیر ہو۔ قرآن میں ہے:
وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ (سورۃ البقرۃ آیت 177)
اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں۔
2: عابری سبیل
عابر بمعنی عبور کرنے والا، طے کرنے والا، اور عابری السبیل بمعنی راہ چلتے، راہ گیر، جس کا سفر جاری ہو۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ (سورۃ النساء آیت 43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک ان الفاظ کو جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو۔ نماز کے پاس نہ جاؤ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ کہ غسل کر لو۔
3: مقوین
القوی بمعنی بھوک اور بات القوی بمعنی بھوکا رہ کر رات گزاری اور القاویۃ بمعنی کم بارش کا سال (منجد) اور تقاوی بمعنی بارش کی قلت یا افراط جس سے فصل تباہ ہو جائے اور قحط نمودار ہو جائے (م ق) تقاوی قرضے وہ ہیں جو حکومت زمینداروں کو ایسے قحط کے سال میں بالاقساط ادائیگی کی شرط پر دیتی ہے۔ اور تقاوی بمعنی بھوکے رات بسر کرنا (منجد) اور قوت لا یموت بمعنی خوراک کی اتنی کم مقدار جس سے انسان زندہ رہ سکتا ہو۔ اور مقوین بمعنی قوت کی احتیاج میں سفر کرتے پھرتے لوگ، خانہ بدوش جو رزق کی تلاش میں ادھر ادھر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
نَحۡنُ جَعَلۡنٰہَا تَذۡکِرَۃً وَّ مَتَاعًا لِّلۡمُقۡوِیۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 73)
ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے۔
4: سیّارۃ
سار بمعنی سفر کرنا، چلنا۔ اور سیّار اسم مبالغہ ہے بمعنی بہت چلنے والا۔ اور سیّارہ بمعنی ہم سفر لوگوں کا قافلہ۔ (2) ہر دم گھومنے والی اشیا، سیارے، اجرام فلکی اور موٹر کار وغیرہ۔ قرآن میں یہ لفظ پہلے معنوں میں آیا ہے۔
وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 19)
اور اب اللہ کی شان دیکھو کہ اس کنوئیں کے قریب ایک قافلہ آ وارد ہوا اور انہوں نے پانی کے لئے اپنا سقا بھیجا تو اس نے کنوئیں میں ڈول لٹکایا یوسف اس سے لٹک گئے وہ بولا زہے قسمت یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسکو قیمتی سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا۔
ماحصل:
  • ابن السبیل: مسافر کی کنیت جب تک گھر واپس نہ آئے۔
  • عابری السبیل: راہ گیر، راہ چلتے مسافر، جو حالت سفر میں ہوں۔
  • مقوین: تلاش معاش میں ادھر ادھر نقل و حرکت کرنے والے۔
  • سیّارۃ: ہم سفر لوگوں کا قافلہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مسخر کرنا​

کے لیے سخّر اور ذلّل اور ذلول کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: سخّر
اضطراری اطاعت کے لیے آتا ہے یعنی کسی چیز کا وہی کام کرنا جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔ اس میں اطاعت کرنے والے (خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان) کی مرضی یا اختیار و ارادہ کو کچھ دخل نہیں ہوتا (مف) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "زبردستی کرنا"۔ ارشاد باری ہے:
لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 13)
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسکو ہمارے زیرفرمان کر دیا اور ہم میں طاقت نہیں تھی کہ اسکو بس میں کر لیتے۔
2: ذلّل
ذلّ بمعنی کمزور اور زیر دست ہونا۔ اور ذلّل بمعنی کسی کو عاجز و ناتواں بنانا۔ ایسی اطاعت جس میں ذلت اور عاجزی کا پہلو شامل ہو (م ل)۔ ارشاد باری ہے:
وَ ذَلَّلۡنٰہَا لَہُمۡ فَمِنۡہَا رَکُوۡبُہُمۡ وَ مِنۡہَا یَاۡکُلُوۡنَ (سورۃ یس آیت 72)
اور انکو انکے قابو میں کر دیا تو کوئی تو ان میں سے انکی سواری ہے اور کسی کو یہ کھاتے ہیں۔
اور ذلول بمعنی کسی چیز کا طوعا اپنی سرکشی چھوڑ کر مطیع و منقاد ہو جانا (مف، فق ل 208)۔ ارشاد باری ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ (سورۃ الملک آیت 15)
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ہموار و پست بنایا تو اسکے رستوں میں چلو پھرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور تمکو اسی کے پاس قبروں سے اٹھ کر جانا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِیۡرُ الۡاَرۡضَ وَ لَا تَسۡقِی الۡحَرۡثَ ۚ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا ؕ قَالُوا الۡـٰٔنَ جِئۡتَ بِالۡحَقِّ ؕ فَذَبَحُوۡہَا وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 71)
موسٰی نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو۔ نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو بے عیب ہو اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔ کہنے لگے اب تم نے سب باتیں درست بتا دیں غرض بڑی مشکل سے انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا جبکہ وہ ایسا کرنے والے لگتے نہ تھے۔
ماحصل:
سخّر کا لفظ کسی چیز کے فقط اضطراری پہلو کو نمایاں کرتا ہے جبکہ ذلول کا لفظ انسان کا اپنی محنت سے کسی چیز کو تابع فرمان بنانے اور اس چیز کے تابع فرمان ہونے کے پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مسلط کرنا​

کے لیے سلّط اور قیّض کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سلّط

سلط بمعنی زبان دراز ہونا۔ اور سلّط میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) قدرت (2) قہر (م ق) یعنی غلبہ اور اس کے ساتھ ہی دباؤ بھی ہو۔ اور سلطان بمعنی بادشاہ، اقتدار اور کھلی دلیل (منجد)۔ ارشاد باری ہے:

وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ الحشر آیت 6)
اور اے مسلمانو جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے جنگ کے بغیر دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اسکے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

2: قیّض

قیض انڈے کے چھلکے کو کہتے ہیں۔ اور قیّض بمعنی کسی چیز پر اس طرح غالب اور مستولی ہونا جیسے انڈے کے مواد پر اس کا چھلکا ہوتا ہے (مف) غالب ہو کر کسی کو بے بس کر دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ (سورۃ الزخرف آیت 36)
اور جو کوئی رحمٰن کی یاد سے آنکھیں بند کر لے یعنی تغافل کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

ماحصل:

قیّض میں سلّط کی نسبت دباؤ کا پہلو زیادہ ہمہ گیر ہوتا ہے۔
مسلط ہونا کے لیے دیکھیے "قابو پانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مشغول ہونا​

کے لیے شغل، خاض، افاض اور سبح کے الفاظ آئے ہیں۔

1: شغل

ایسی مصروفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہ دے سکے (مف) (ضد فرغ) (م ل)۔ قرآن میں ہے:

سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا وَ اَہۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَنَا (سورۃ فتح آیت 11)

اے نبی جو گنوار پیچھے رہ گئے وہ تم سے کہیں گے کہ ہمکو ہمارے مال اور اہل و عیال نے روک رکھا تھا تو آپ ہمارے لئے اللہ سے بخشش مانگیں۔

2: خاض

بمعنی گھسنا اور کسی چیز کے درمیان تک داخل ہونا (م ل) خاض فی الماء بمعنی پانی میں گھس جانا اور خاض فی الحدیث بمعنی باتوں میں مشغول ہونا (منجد) یعنی کسی کام یا بات میں پورے انہماک سے مشغول ہونا۔ قرآن میں اس لفظ کا استعمال عموماً برے مفہوم میں ہوا ہے۔ یعنی فضول باتوں یا فضول کاموں میں لگے رہنا۔ ارشاد باری ہے:

وَ خُضۡتُمۡ کَالَّذِیۡ خَاضُوۡا ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ (سورۃ التوبہ آیت 69)

اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جنکے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 68)

اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہو جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں۔ اور اگر یہ بات شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے رہو۔

3: افاض

فاض (فیض) بمعنی کسی چیز کا بسہولت جاری ہونا (م ل) یا پانی کا کسی جگہ سے اچھل کر بہنا (مف) کسی چیز کا کثرت سے ہونا (منجد)۔ کہتے ہیں فاض السّیل یعنی پانی کا کثرت سے ہونا اور ندی نالے کے کناروں سے بہ نکلنا۔ اور فاضت عینہ بمعنی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اور افاض اناءہ بمعنی اس نے اپنا برتن اتنا بھرا کہ پانی کناروں سے نیچے گرنے لگا۔ قرآن میں ہے:

ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 199)

پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور اللہ سے بخشش مانگو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔

سے مراد ہجوم کے ریلے اور بہاؤ کے ساتھ ساتھ آنے کے ہیں۔ یعنی اسی ریلے کے بہاؤ میں تم بھی بہتے چلے آؤ۔ اور صاحب منجد کے نزدیک افاض القوم من مکان کے معنی متفرق و منتشر ہو جانا ہے (منجد) اور افاض فی الحدیث بمعنی باتوں میں پورے انہماک سے دیر تک مشغول رہنا ہے۔ قرآن میں ہے:

وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ (سورۃ یونس آیت 61)

اور تم جس حال میں ہوتے ہو۔ یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی اور کام کرتے ہو۔ جب اس میں مصروف ہوتے ہو تو ہم تمہارے پاس ہوتے ہیں۔

ابن الفارس کے نزدیک تفیضون فیہ کے معنی اندفعوا فیہ ہے (م ل) یعنی تم اس قدر محو ہوتے ہو کہ اور سب کچھ بھول جاتے ہو۔

4: سبح

بمعنی تیرا یا پیرنا۔ امام راغب کے مطابق کسی چیز کا پانی یا ہوا میں تیزی سے گزر جانا یا تیرتے ہوئے گزر جانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:

لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ (سورۃ یس آیت 40)

نہ تو سورج ہی سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔

پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو تیزی اور سرگرمی سے سر انجام دینے پر بھی ہونے لگا (مف) جیسا کہ ارشاد باری ہے:

اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا (سورۃ مزمل آیت 7)

دن کے وقت تو تمہیں اور بہت سے شغل ہوتے ہیں۔

ماحصل:

  • شغل: عام ہے۔ کسی کام میں مشغول ہونا۔
  • خاض: انہماک سے مشغول ہونا، برے معنوں میں آتا ہے۔
  • افاض: ایسی مشغولیت جو خود کو بھی فراموش کر دے۔
  • سبحا: ایسی مشغولیت جس میں کاموں کی بھر مار کی وجہ سے تیز رفتاری کا پہلو نمایاں ہو۔
مشقت کے لیے دیکھیے "محنت مشقت"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مشقت میں ڈالنا​

کے لیے اعنت اور اقتحم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: اعنت

عنت بمعنی کسی شخص کا ایسے معاملہ میں پھنس جانا جس میں اس کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو (مف) اور اعنت بمعنی کسی دوسرے کو ایسی تکلیف یا مصیبت میں ڈال دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 220)

اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

2: اقتحم

قحم (فی الامر) بمعنی بلا سوچے سمجھے کسی معاملہ میں داخل ہو جانا۔ اور اقتحم (الامر) بمعنی اپنے آپ کے مشقت کے ساتھ کسی معاملہ میں پھنسا دینا (منجد) اور اقتحم بمعنی کسی خوفناک جگہ میں گھس جانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:

ہٰذَا فَوۡجٌ مُّقۡتَحِمٌ مَّعَکُمۡ ۚ لَا مَرۡحَبًۢا بِہِمۡ ؕ اِنَّہُمۡ صَالُوا النَّارِ (سورۃ ص آیت 59)

یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ گھستی چلی آ رہی ہے انکو خوش آمدید نہ کہا جائے یہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔

ماحصل:

اعنت کسی دوسرے کے لیے اور اقتحم اپنے آپ کو کسی مہلک اور مشکل کام میں ڈالنے کے لیے آتا ہے۔

مشکل کے لیے دیکھیے "بوجھل ہونا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مشورہ کرنا​

کے لیے شاور، بیّت، تناجی (نجو) اور ائتمر (امر) کے الفاظ آئے ہیں۔
1: شاور
بمعنی مشورہ کرنا، کسی معاملہ کے متعلق چند آدمیوں کا مل کر اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر غور کرنا اور ایک دوسرے کی رائے لینا (م ل، مف) اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 159)
پھر اے نبی اللہ کی مہربانی سے تم ان لوگوں کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے ہو اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ سو ان کو معاف کر دو اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
2: بیّت
بات بمعنی رات گزرانا، شب بسری کرنا اور بیّت بمعنی رات کا کچھ حصہ گزارنے پر گھر میں جمع ہو کر کسی معاملہ میں مشورہ کرنا (م ل) (اس کا دوسرا معنی شب خون مارنا بھی ہے)۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 81)
اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ آپ کی فرمانبرداری دل سے منظور ہے لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ رات کو تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور جو مشورے یہ کرتے ہیں اللہ ان کو لکھ لیتا ہے۔ سو انکا کچھ خیال نہ کرو۔ اور اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ ہی کافی کارساز ہے۔
بیّت شب خون مارنے کے معنوں میں بھی آیا ہے (سورۃ النمل آیت 49) مگر یہاں یہ معنی زیر بحث نہیں۔
3: تناجی
نجو بمعنی دو آدمیوں کے درمیان کا بھید (م ل، منجد) اور نجوی بمعنی راز کی بات، بھید، راز دار، ہمراز اور تناجی بمعنی سرگوشی کرنا، سرگوشی کے لیے خاص کرنا، راز دار بنانا (منجد) اور نجیّا بمعنی راز داری کا مشورہ (سورۃ یوسف آیت 80) قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ (سورۃ المجادلہ آیت 8)
اے پیغمبر ﷺ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنکو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ پھر جس کام سے منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگے اور یہ تو گناہ اور ظلم اور پیغمبر ﷺ کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں۔
4: ائتمر
امر بمعنی حکم دنا اور ائتمر آپس میں مشورہ کے بعد کسی بات پر متفق ہو جانا اور حکم بجا لانا (مف) اور ائتمر بفلان بمعنی کسی کے قتل کی سازش کرنا (منجد)۔ قرآن میں ہے:
وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 20)
اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا بولا کہ اے موسٰی اہل دربار تمہارے بارے میں مشورے کرتے ہیں کہ تمکو مار ڈالیں سو تم یہاں سے نکل جاؤ۔ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
ماحصل:
  • شاور: مشورہ کرنا۔ عام ہے۔
  • بیّت: رات کا خفیہ مشورہ۔
  • تناجی: دو یا قلیل آدمیوں کے درمیان خفیہ کانا پھوسی۔
  • ائتمر: کسی مشورہ پر متفق ہونا یا کسی کے قتل کی سازش کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مشہور کرنا​

کے لیے شاع (شیع)، اذاع (ذیع)، ارجف اور اھلّ کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: شاع
شاع الخبر بمعنی خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی۔ شاع القول بمعنی قوم منتشر ہو گئی اور زیادہ ہو گئی اور الشیاع بمعنی منتشر ہونا اور تقویت دینا (مف) گویا شاع کا لفظ کسی اچھی یا بری بات کے لوگوں میں پھیلنے اور اس کے ساتھ ہی عام ہو جانے کے لیے آتا ہے۔ اسی سے اشاعت مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ النور آیت 19)
جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی تہمت بدکاری کی خبر پھیلے انکو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
2: اذاع
ذاع بمعنی کسی چیز کا ظاہر ہونا اور پھیلنا۔ اور ذاع الخبر بمعنی خبر ظاہر ہوئی اور پھیل گئی۔ اور رجل تذاع بمعنی ایسا شخص جو راز کی بات کو چھپا نہ سکے (م ل) گویا اذاع ایسی بات کو ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے جو ظاہر نہ ہونا چاہیے تھی۔ اور اذاعۃ ریڈیو کو کہتے ہیں۔ کیونکہ ریڈیو بھی بعض ممالک کی ایسی خبریں نشر کرتا ہے جن کا اظہار ان کو ناگوار ہوتا ہے، خبر اڑانا۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ (سورۃ النساء آیت 83)
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں۔
3: ارجف
رجف بمعنی اضطراب شدید (م ل) اور رجفۃ بمعنی زلزلہ کی انتہائی کیفیت، زبردست جھٹکے اور بحر رجاف بمعنی متلاطم سمندر (منجد) اور ارجف بمعنی جھوٹی افواہیں وغیرہ پھیلا کر لوگوں میں اضطراب اور سنسنی پیدا کرنا۔ اور اراجیف بمعنی بے بنیاد خبریں، افواہیں (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 60)
اگر منافق اور وہ لوگ جنکے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینے کے شہر میں بری بری خبریں اڑایا کرتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے تو ہم تمکو انکے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن۔
4: اھلّ
بمعنی کسی چیز کا نام لے کر آواز بلند کرنا۔ اور ھلال بمعنی نیا چاند جس کی طرف لوگ دیکھ کر ایک دوسرے کے بلاتے اور آواز بلند کرتے ہیں (م ل، مف) اور تھلیل بآواز بلند لا الہ الّا اللہ کہنا۔ قرآن میں ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 173)
اس نے تو تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو مجبور ہو جائے بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے۔
ماحصل:
  • اشاع: کسی اچھی یا بری خبر کا عام مشہور کرنا، اشاعت کرنا۔
  • اذاع: خبر اڑانا، راز کی اور خفیہ امور سے متعلقہ بات کو ظاہر کرنا اور پھیلانا۔
  • ارجف: کسی ایسی بات کا پھیلانا جس سے اضطراب اور بے چینی پیدا ہو۔
  • اھلّ: کسی چیز کا نام لے کر آواز بلند کرنا اور اسے مشہور کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مضبوط​

کے لیے ثابت، راسخ، متین، محکم، قیّمۃ (قوم) اور وثقی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ثابت

ثبت بمعنی برقرار رہنا، قرار پکڑنا اور ثبت علی الامر بمعنی کسی کام پر مداومت کرنا (منجد) ضد زلّ بمعنی اپنی بنیاد پر قائم یا جم کر نہ رہنا، پھسل جانا۔ ارشاد باری ہے:

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (سورۃ ابراہیم آیت 24)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے وہ ایسی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں۔

2: راسخ

رسخ بمعنی اپنی جگہ پر گڑ جانا (منجد) اور بمعنی کسی چیز کا محکم اور جائے گیر ہونا (مف) رسخ الحبر فی الصحیفۃ بمعنی سیاہی کتاب میں جم گئی۔ اور رسخ العلم فی القلب بمعنی علم دل میں رچ گیا (منجد) یعنی رسخ میں اثبات کے ساتھ تمکن بھی پایا جاتا ہے (م ق) اور بمعنی کسی چیز کو بہت سے دلائل کے ساتھ حسب ضرورت جاننا جن کا ازالہ ممکن نہ ہو (فق ل 65)۔ ارشاد باری ہے:

وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ (سورۃ آل عمران آیت 7)

اور جو لوگ علم میں گہری نظر رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب آیات ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں۔

3: متین

متن بمعنی کسی چیز کا اپنی ذات میں مضبوط اور ٹھوس ہوا اور اس میں صلابت کا پھیل جانا (م ل) حبل متین مضبوط رسی اور رای متین بمعنی پختہ رائے (م ل) ارشاد باری ہے:

وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ (سورۃ القلم آیت 45)

اور میں انکو مہلت دیئے جاتا ہوں میرا داؤں بڑا مضبوط ہے۔

4: محکم

احکم بمعنی کسی چیز کو دانائی اور تجربہ سے مضبوط بنانا (منجد) اور امام راغب کے نزدیک ایات محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں لفظی اور معنوی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ نہ پایا جاتا ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ (سورۃ آل عمران آیت 7)

اے پیغمبر وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض دوسری متشابہ ہیں۔

5: قیّمۃ

قام بمعنی کھڑا ہونا۔ اور قام الامر بمعنی کسی معاملہ کا اعتدال پر آنا۔ اور اقام المائل بمعنی ٹیڑھے کو سیدھا کرنا (منجد) اور قیام اور قوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے (مف)۔ جیسے فرمایا:

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا (سورۃ النساء آیت 5)

اور کم عقلوں کو ان کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو۔

اور قیّم (مونث قیّمۃ) یعنی وہ چیز جس پر دوسری چیز قائم ہوں۔ یعنی قائم و برقرار رکھنے والا اور وہ چیز بھی جو حق و باطل میں امتیاز کر کے معیار کی حیثیت رکھتی ہو۔ قرآن میں ہے:

رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (سورۃ البینۃ آیت 2، 3)

یعنی اللہ کا ایک پیغمبر جو پاک اوراق پڑھ کر سناتا ہے۔ جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں۔

6: وثقی

وثق یثق ثقۃ بمعنی اعتبار کرنا، بھروسا کرنا۔ اور وثق یوثق وثاقۃ ثابت و قوی ہونا، مضبوط ہونا۔ اور اوثق بمعنی رسی سے مضبوط باندھنا۔ اور ثقۃ قابل اعتماد، قابل بھروسا اور اوثق (مونث وثقی) بمعنی مضبوط اور قابل اعتماد چیز۔ ارشاد باری ہے:

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 256)

دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسّی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے سب کچھ جانتا ہے۔

ماحصل:

  • ثابت: اپنی بنیاد پر قائم۔
  • راسخ: ثابت اور متمکن، ناقابل تزلزل۔
  • متین: کسی چیز کا اپنی ذات میں پائیدار ہونا۔
  • محکم: حکمت اور تجربہ سے ثابت شدہ، مضبوط۔
  • قیّمۃ: ایسی مضبوط جو دوسروں کا سہارا بن سکے یا دوسروں کے لیے معیار کا کام دے۔
  • وثقی: ایسی مضبوط جس پر اعتماد کیا جا سکے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مضبوط بنانا – کرنا​

کے لیے مندرجہ بالا افعال میں سے ثبت سے ثبّت اور احکم اور وثق سے اوثق اور واثق کی تفصیل تو اوپر گزر چکی۔ اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔

1: ثبّت

بمعنی کسی کو اپنی جگہ پر جما دینا، مضبوط کر دینا، ثابت قدم رکھنا۔ ارشاد باری ہے:

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفۡعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ (سورۃ ابراہیم آیت 27)

اللہ مومنوں کے دلوں کو صحیح اور پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا اور اللہ بےانصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

2: احکم

حکمت، دانائی اور تجربہ سے کسی چیز کو اس کی ساخت میں مضبوط بنانا۔ اور حکیم بمعنی العالم یا حکام الامور (فق ل 77)۔ ارشاد باری ہے:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ حج آیت 52)

اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اسکی آرزو میں وسوسہ ڈال دیتا تھا تو جو وسوسہ شیطان ڈالتا ہے اللہ اسکو دور کر دیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ اور اللہ علم والا ہے حکمت والا ہے۔

اور ایات محکمات وہ ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو۔

3: اوثق

بمعنی کسی عہد و پیمان وغیرہ کو مضبوط اور قابل اعتماد بنانا یا کسی کو رسیوں وغیرہ سے مضبوط جکڑنا۔ ارشاد باری ہے:

وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ (سورۃ الفجر آیت 26)

اور نہ کوئی اسکے جکڑنے کی طرح جکڑے گا۔

دوسرے مقام پر ہے:

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ (سورۃ المائدۃ آیت 7)

اور اللہ نے جو تم پر احسان کئے ہیں ان کو یاد رکھو اور اس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا یعنی جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے اللہ کا حکم سن لیا اور قبول کیا۔ اور اللہ سے ڈرو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ دلوں کی باتوں تک سے واقف ہے۔

ان کے علاوہ قرآن کریم میں درج ذیل الفاظ بھی انہی معنوں میں آئے ہیں: شدّ، اتقن، ربط، ازر، عقّد، وکّد، سنّد، رصّ، شیّد کے الفاظ آئے ہیں۔

4: شدّ

کسی چیز کا فی نفسہ قوی اور مضبوط ہونا (م ل) لازم اور متعدی دنوں طرح استعمال ہوتا ہے اور شدید بمعنی سخت اور اشدّ بمعنی جوانی کی عمر جس میں قوت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:

نَحۡنُ خَلَقۡنٰہُمۡ وَ شَدَدۡنَاۤ اَسۡرَہُمۡ ۚ وَ اِذَا شِئۡنَا بَدَّلۡنَاۤ اَمۡثَالَہُمۡ تَبۡدِیۡلًا (سورۃ الدھر آیت 28)

ہم نے انکو پیدا کیا اور انکے جوڑ جوڑ کو مضبوط بنایا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے انہی کی طرح اور لوگ لے آئیں۔

5: اتقن الامر

بمعنی کام کو مضبوطی سے بنانا۔ اور تقّن الارض بمعنی زمین کو کیچڑ والے پانی سے سیراب کر کے طاقتور بنانا۔ اور رجل تقن کام کو بھروسے کے ساتھ سر انجام دینے والا، کام میں ماہر (منجد) اور بمعنی کام میں عقل مند، کام کو درست کرنے والا (م ق) گویا اتقن کے معنی کسی چیز کو مہارت سے ساتھ مضبوط بنانا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ؕ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 88)

اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ مضبوط جمے ہوئے ہیں مگر وہ اس روز اس طرح اڑتے پھریں گے جیسے بادل یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ بیشک وہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔

6: ربط

بمعنی مضبوط یا باندھنا۔ محاورہ ہے ربط اللہ علی قلبہ اللہ تعالی نے اس کے دل کو قوت بخشی اور صبر عطا فرمایا۔ اور رباط بمعنی وہ چیز جس سے کوئی چیز باندھی جائے۔ اور رابطہ بمعنی تعلق، ملاپ (منجد)۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 10)

اور موسٰی کی ماں کا دل بیقرار ہو گیا اگر ہم انکے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس غم کو ظاہر کر دیتیں۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ مومنوں میں رہیں۔

7: ازر

الازر بمعنی جڑ، تہبند۔ اور الازار بمعنی چادر، تہبند، پردہ، پشتہ، دیوار اور ازر البنات بمعنی نباتات کا گتھ جنا۔ اور ازّرہ بمعنی قوت پہنچانا، مضبوط کرنا (منجد) گویا ازر کسی کو قوت دے کر اسے آہستہ آہستہ مضبوط کرنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ (سورۃ فتح آیت 29)

وہ گویا ایک کھیتی ہیں جس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی پھر اسکو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئ اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔

8: وکّد

وکاد اس رسی کو کہتے ہیں جس سے دودھ دوہتے وقت گائے وغیرہ کی ٹانگیں باندھ لیتے ہیں۔ اور وکّد یا اکّد یا اوکد السّرج او العھد بمعنی زین کو مضبوطی سے کسنا یا معاہدہ کو مضبوط کرنا (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 91)

اور جب اللہ سے عہد کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو انکو مت توڑو کہ تم اللہ کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔

9: عقّد

عقد بمعنی گرہ لگانا اور عقدۃ بمعنی گرہ، گانٹھ، پیچیدہ امر۔ اور عقّد البیع و الیمین بمعنی بیع یا قسم کو پکا کرنا (منجد) اور عقد بمعنی عہد و پیمان، اقرار (جمع عقود)۔ ارشاد باری ہے:

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ (سورۃ المائدۃ آیت 89)

اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر جن کے خلاف کرو گے مواخذہ کرے گا

10: سنّد

سند اعتماد کرنا، بھروسا کرنا، سہارا لینا۔ اور سنّد بمعنی سہارا دینا اور مضبوط کرنا (منجد) جیسے چھت کی کڑیاں کمزور ہوں تو ان کے نیچے ایک اور لکڑی کھڑی کر کے چھت کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (سورۃ المنافقون آیت 4)

اور جب تم انکے تناسب اعضاء کو دیکھتے ہو تو انکے جسم تمہیں کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب یہ گفتگو کرتے ہیں تو تم انکی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئ ہیں بزدل ایسے کہ ہر زور کی آواز کو سمجھیں کہ ان پر بلا آئی۔ یہ تمہارے دشمن ہی ہیں سو ان سے محتاط رہنا۔ اللہ انکو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

11: رصّ

بمعنی ایک چیز کو دوسری سے ملانا، جوڑنا اور پیوستہ کرنا اور رصاص بمعنی سیسہ بھی ہے۔ لہذا رصّہ کے معنی کسی چیز کو سیسہ پلا کر اسے مضبوط بنانا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ (سورۃ الصف آیت 4)

جو لوگ اللہ کی راہ میں ایسے طور پر صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں وہ بیشک اللہ کے محبوب ہیں۔

12: شیّد

شاد الحائط بمعنی دیوار پر چونے کا پلستر کرنا (منجد) اور شیّد بمعنی چونے یا کسی دوسرے مسالہ سے پلستر کر کے عمارت کو مضبوط کرنا، بنانا (مف)۔ ارشاد باری ہے:

اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ (سورۃ النساء آیت 78)

اے جہاد سے ڈرنے والو تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ مضبوط قلعوں میں رہو۔

ماحصل:

  • ثبت: کسی چیز کو اپنی جگہ پر ثابت اور مضبوط رکھنا۔
  • احکم: حکمت و تجربہ سے کسی بات کو اشتباہ سے پاک کرنا۔
  • اوثق: کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے ذریعہ مضبوط اور قابل اعتماد بنانا۔
  • شدّ: کسی چیز کو قوت دے کر فی نفسہ مضبوط بنا دینا۔
  • اتقن: فنی مہارت سے کسی چیز کو مضبوط بنانا۔
  • ربط اللہ علی القلب: اللہ کا دل کو صبر دے کر مضبوط کرنا۔
  • ازر: قوت بہم پہنچا کر آہستہ آہستہ مضبوط کرتے جانا۔
  • اکّد: عہد و پیمان اور قسموں کو مضبوط کرنا۔
  • عقّد: بیع، نکاح اور دیگر ہر قسم کے عہد و پیمان کو مضبوط بنانے کے لیے آتا ہے۔ اور اکّد سے اعم ہے۔
  • سنّد: سہارا دے کر مضبوط کرنا۔
  • رصّ: سیسہ پلا کر کسی چیز کو مضبوط کرنا۔
  • شیّد: چونے وغیرہ کا پلستر کر کے عمارت کو مضبوط کرنا۔
مضبوطی سے پکڑنا کے لیے دیکھیے "پکڑنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

معاف کرنا – بخشنا – درگزر کرنا – معافی چاہنا​

کے لیے عفا (عفو)، اصفح، غفر، تصدّق، تجاوز (عن)، کفّر (عن) اور حطّۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عفا

عقوبت یا کسی سے بدلہ لینے سے دستبردار ہو جانا (م ل) جو شخص سزا کا مستحق ہو اسے چھوڑ دینا، اس کے قصور کا بدلہ نہ لینا، خواہ یہ قصور چھوٹا ہو یا بڑا (عفو کا دوسرا معنی "زائد" میں ملاحظہ فرمائیے)۔ ارشاد باری ہے:

عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 43)

اللہ تمہیں معاف کرے تم نے پیشتر اسکے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی؟

2: اصفح

درگزر کرنا، جانے دینا، کسی کو اس کے قصور کا احساس نہ ہونے دینا، اس سے باز پرس بھی نہ کرنا، یہ کام معاف کرنے سے مشکل ہے اور اصفح، عفا سے ابلغ ہے۔ عفا ترک عقوبت ہے اور اصفح ترک ملامت (مف، م ل) کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 109)

تو تم معاف کر دو اور درگذر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا دوسرا حکم بھیجے۔

3: غفر

بمعنی کسی چیز پر کوئی ایسی چیز پہنا دینا جو اسے میل کچیل یا کسی دوسرے مضرت سے محفوظ رکھے (مف)۔ کہتے ہیں غفر الشباب بالخضاب اس سے خضاب سے بالوں کی سفیدی کو چھپا دیا۔ اور مغفر بمعنی خود جو دوران جنگ سپاہی سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اسے الغفارۃ بھی کہتے ہیں۔ اور الغفارۃ اس کپڑے کو بھی کہتے ہیں جو عورتیں اپنے دوپٹہ کو تیل سے بچانے کے لیے اس کے نیچے سر پر رکھ لیتی ہیں اور اس کپڑے کو بھی جس سے کمان کے گوشے کو لپیٹتے ہیں (منجد) اور اللہ کی طرف سے غفران کے معنی یہ ہیں کہ وہ گناہوں کی عقوبت سے انسان کو چھپا لے۔ اور غفر بمعنی اللہ تعالی کا بندوں کو ان کے گناہوں کی عقوبت سے بچانا اور اس کا صلہ ل سے آتا ہے۔ اور غفران عذاب کے ساقط ہونے کا مقتضی ہے اور یہی بات ثواب کو واجب کر دیتی ہے (فق ل 195)۔ ارشاد باری ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 135)

اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔

اور اللہ تعالی سے گناہوں کی بخشش چاہنے کے لیے استغفر آئے گا اور اس کی نسبت اللہ ہی کی طرف ہو گی خواہ اللہ کا نام مذکور ہو یا نہ ہو۔ جیسے فرمایا:

سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ (سورۃ المنافقون ایت 6)

تم انکے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو انکے آگے برابر ہے۔ اللہ انکو ہرگز نہ بخشے گا۔ بیشک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

4: تصدّق

بمعنی اپنے حق سے دستبردار ہو جانا اور اپنا حق دوسرے کو معاف کر دینا (مف)۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 280)

اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔

5: تجاوز (عن)

جاز بمعنی کسی کام کا جائز ہونا، ممنوع نہ ہونا (م ق) اور جاوز (المکان) بمعنی کسی جگہ سے آگے نکل جانا۔ بمعنی تجاوز عنہ بمعنی چشم پوشی کرنا، معاف کرنا اور تجاوز فی الامر بمعنی کسی کام میں افراط کرنا (منجد) اور بمعنی تقصیر زیادہ ہونا لیکن از راہ لطف و کرم اس کا محاسبہ نہ کرنا (مف) ارشاد باری ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ نَتَقَبَّلُ عَنۡہُمۡ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ نَتَجَاوَزُ عَنۡ سَیِّاٰتِہِمۡ فِیۡۤ اَصۡحٰبِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَعۡدَ الصِّدۡقِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 16)

یہی لوگ ہیں جنکے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور انکے گناہوں سے درگذر فرمائیں گے اور یہی اہل جنت میں ہوں گے یہ سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا۔

6: کفّر (عن)

کفر بمعنی چھپانا۔ اور کفرۃ بمعنی رات کی سیاہی اور کفّارۃ وہ عمل ہے جس کی ادائیگی پر گناہ سے پردہ پوشی ہو جائے۔ اور کفّر عنہ بمعنی برائیاں دور کر دینا، ان کا مواخذہ نہ کرنا۔ اور کفّر عن اثمہ بمعنی گناہ کا کفارہ ادا کرنا (منجد) اور معنی ابطال السّیّات بالحسنات (فق ل 196) ارشاد باری ہے:

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَکَفَّرۡنَا عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاَدۡخَلۡنٰہُمۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ (سورۃ المائدۃ آیت 65)

اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ دور کر دیتے اور انکو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔

7: حطّۃ

حطّ بمعنی اترنا، نازل ہونا، حطّ السّعر بھاؤ کا گر جانا۔ اور حطّ الحمل جانور کی پیٹھ سے بوجھ اتارنا۔ اور انحطاط بمعنی بھاؤ یا اقدار کا گر جانا (منجد) اور حطّ بمعنی کسی چیز کو اوپر سے نیچے اتارنا ہے۔ کہتے ہیں حططت الرحل میں نے سواری سے پالان اتار کر نیچے رکھ دیا۔ اسی سے حطّۃ ہے بمعنی گناہوں کا بوجھ اتارنے کی درخواست (مف) قرآن میں ہے:

وَ اِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 58)

اور جب ہم نے ان سے کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو اور دیکھنا دروازے میں داخل ہونا سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَۃٌ کہنا ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔

ماحصل:

  • عفا: ترک عقوبت کے لیے۔
  • غفر: (ل) گناہ کی عقوبت پر پردہ ڈالنے کے لیے۔
  • تصدّق: اپنا حق معاف کر دینے کے لیے۔
  • تجاوز (عن) سیئات: از راہ کرم سے درگزر کرنے کے لیے۔
  • کفّر (عن): سیئات کو حسنات کے ذریعہ ختم اور معاف کرنے کے لیے۔
  • حطّۃ: گناہوں کی معافی کی درخواست کے لیے آیا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

معبود​

کے لیے الہ اور اللہ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: الہ
ہر وہ چیز ہے جس کو انسان اپنے نفع و نقصان کا مال سمجھ کر اس کی پرستش شروع کر دے خواہ یہ چیز کوئی بت ہو یا مقام اور آستانہ یا حیوانات یا شجر و حجر یا مظاہر قدرت (جمع الھۃ) اور الہ کی مونث الاھۃ (بمعنی دیوی ہے) چنانچہ سورج پرست سورج کو (جو عربی میں مونث استعمال ہوتا ہے) الھۃ کہتے ہیں (مف) انبیا کا مشن ہی یہ رہا ہے کہ انسان کو اس فاسد عقیدہ سے پاک کریں۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ (سورۃ ھود آیت 101)
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آ پہنچا تو جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ انکے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور بربادی کے سوا انہیں اور کچھ نہ دے سکے۔
نوٹ: جن معبودان باطل کا ذکر قران میں ہے وہ (ض 1/5 ) میں دیکھیے۔
2: اللہ
دراصل الالہ ہے بمعنی معبود حقیقی۔ الہ کا پہلا ہمزہ حذف کر کے اس پر تعریف کا الف لام داخل کر کے اللہ کا لفظ بنا ہے۔ یہی توجیہ سب سے بہتر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں انسان کے لیے نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے اور وہی پرستش و نیاز کے لائق ہے جیسے فرمایا:
وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 163)
اور لوگو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس بڑے مہربان اور رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
اور دوسرے مقام پر یوں فرمایا:
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہے۔
اور لفظ الہ پر یا (حرف ندا) داخل نہیں ہوتا بلکہ اللھمّ (بمعنی اے اللہ) آتا ہے جیسے فرمایا:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ آل عمران آیت 26)
کہو کہ اے اللہ اے بادشاہی کے مالک تو جسکو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بےشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ماحصل:
  • اللہ: کائنات کی ہر چیز کا خالق، رب اور ان پر لا محدود اقتدار و اختیار ہونے کی وجہ سے عبادت کے لائق۔
  • الہ: ہر وہ چیز جو کسی کے عقیدہ کے مطابق اس کے لیے دفع مضرت یا جلب منفعت کی قدرت رکھتی ہو۔ اور اسی وجہ سے وہ عبادت کے لائق سمجھے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مقدور – حیثیت​

کے لیے وجد، سعۃ اور قدر کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔ اور یہ تینوں الفاظ کسی شخص کی معاشی حالت یا گزران کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

1: وجد

وجد بمعنی پانا۔ اور وجد بمعنی موجود، موجودات یعنی ضروریات زندگی میں سے جو کچھ کسی کے پاس موجود ہو۔ ارشاد باری ہے:

اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ (سورۃ الطلاق آیت 6)

طلاق والی عورتوں کو ایام عدّت میں اپنی حیثیت کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو۔

2: سعۃ

بمعنی فراخی، گنجائش، آسودہ حالی۔ یہ لفظ انسان کی آسودہ حالی کا درجہ متعین کرنے کے لیے آتا ہے۔ اس میں تنگدستی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ارشاد باری ہے:

لِیُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَۃٍ مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ (سورۃ الطلاق آیت 7)

صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے

3: قدر

یہ لفظ اپنی اصل کے لحاظ سے تنگدستی کی حالت اور اس کا درجہ متعین کرنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ (سورۃ الرعد آیت 26)

اللہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اور کافر لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سامان ہے۔

لیکن یہ لفظ تنگدسی اور آسودگی دونوں کے درجات متعین کرنے کے لیے بھی قرآن کریم نے استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:

عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ (سورۃ البقرۃ آیت 236)

مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔

ماحصل:

  • وجد: موجودہ سامان کے لیے یہ عام ہے۔
  • سعۃ: آسودگی اور اس کا درجہ متعین کرنے کے لیے۔
  • قدر: بالعموم تنگی اور اس کا درجہ متعین کرنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مقرر کرنا​

کے لیے فرض، وکّل اور اجّل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: فرض

بمعنی کسی سخت چیز کا کاٹنا، چھیدنا اور (2) سخت چیز پر نشان ڈالنا (م ل، مف) پتھر پر لکیر اور فرّض الخشبۃ بمعنی لکڑی میں سوراخ کرنا اور فرض الامر بمعنی کسی چیز کا لازم و واجب ٹھہرانا۔ اور الفرض بمعنی اللہ تعالی کا بندوں کے لیے مقر کیا ہوا قانون یا اپنے اوپر لازم کی ہوئی چیز (منجد) اور فریضۃ بمعنی لازم ٹھہرائی ہوئی یا مقررہ یا طے شدہ معاملہ، عورتوں کا مہر (منجد) ارشاد باری ہے:

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً (سورۃ البقرۃ آیت 236)

اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔

2: وکّل

وکل بمعنی اپنے معاملہ میں کسی دوسرے پر اعتماد کرنا (م ل) اور وکّل بمعنی کسی دوسرے پر اعتماد کر کے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دینا، اپنا وکیل بنانا یا نائب مقرر کرنا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ۚ فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 89)

یہ وہ لوگ تھے جنکو ہم نے کتاب اور حکم شریعت اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ کفار ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر ایمان لانے کے لئے ایسے لوگ مقرر کر دیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں۔

3: اجّل

اجل بمعنی کسی چیز کی مقررہ مدت، پھر انسان کی زندگی کے لیے جو مدت مقرر ہے اسے بھی اجل کہتے ہیں۔ محاورہ ہے دنا اجلہ بمعنی اس کی موت کا وقت قریب آ پہنچا اور اجّل بمعنی کسی چیز کی مدت مقرر کر دینا (مف) قرآن میں ہے:

وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا (سورۃ الانعام آیت 138)

تو جو انسانوں میں انکے دوست ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرتے رہے۔ اور آخر اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا۔

ماحصل:

  • فرض: کسی کام کو لازم و واجب ٹھہرانا، مقرر کرنا۔
  • وکّل: کسی شخص کو اپنا نائب مقرر کرنا۔
  • اجّل: مدت مقرر کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مکھی​

کے لیے دو الفاظ آئے ہیں ذباب اور نحل۔

1: ذباب

بمعنی عام چھوٹی مکھی۔ اور ذبّ عنہ بمعنی کسی سے مکھیوں کو دور کرنا، مکھیاں اڑانا یا الزامات کو دور کرنا۔ اور مذبّۃ بمعنی مورچھل، چنوری جسے مکھیاں اڑائی جاتی ہیں (جمع ذبّ اور اذبّۃ) ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ (سورۃ حج آیت 73)

لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے۔ اگرچہ اس کے لئے سب اکٹھے ہو جائیں اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب یعنی عابد اور معبود دونوں گئے گذرے ہیں۔

2: نحل

شہد کی مکھی۔ اسم جنس ہے۔ مذکر و مونث دونوں کے لیے آتا ہے (واحد نحلۃ) ارشاد باری ہے:

وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 68)

اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا۔

ملامت کرنا کے لیے دیکھے "برا بھلا کہنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ملنا​

کے لیے لقی، لحق، ولی، اصنا، اختلط، تجاور (جور) اور رتق، تحیّز، اشتمل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لقی

دو چیزوں کا آمنے سامنے سے ایک دوسرے کو ملنا (م ل) ملاقات کرنا، سامنے آ کر ملنا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 14)

اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے تو ہم ہنسی کیا کرتے ہیں۔

2: لحق

کسی چیز کا اپنے جیسی چیز کو جا ملنا (م ل) لاحق پہلے کے ساتھ ملنے والی چیز، پہلے کے بعد دوسری بار کا پھل (منجد) ارشاد باری ہے:

فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 190)

جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور شہید ہو کر ان میں شامل نہیں ہو سکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان کو بھی نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔

وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ الجمعۃ آیت 62)

اور ان میں سے اور لوگوں کی طرف بھی انکو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمانوں سے نہیں ملے۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

3: ولی

ولی اور ولی یلی ولیا بمعنی قریب و نزدیک ہونا، متصل ہونا، بغیر فاصلہ کے پیچھے پیچھے جانا (منجد) نزدیک ہونے کی وجہ سے ملا ہوا ہونا۔ یہ لفظ زبانی اور مکانی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ قرب بلحاظ نسب ہوتا ہے۔ یا بلحاظ دین اور دوستی (مف) مکانی کی مثال یہ ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الۡکُفَّارِ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 123)

اے اہل ایمان! اپنے نزدیک کے رہنے والے کافروں سے جنگ کرو۔ اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساتھ والے کافروں سے جنگ کرو۔ پھر اگر وہ مسلمان ہو جائیں یا اطاعت قبول کر لیں تو پھر ان کے ساتھ والوں سے اور پھر ان کے ساتھ رہنے والوں سے اور زمانی کی مثال غالباً قرآن میں نہیں۔ البتہ رسول اکرم ﷺ کے درج ذیل ارشاد سے واضح ہے:

خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ

سب سے بہتر میرا زمانہ، پھر ان کا جو ان سے ملنے والے ہیں پھر ان کا جو ان سے ملنے والے ہیں۔

اور اس سے مراد رسول اکرم ﷺ کا زمانہ، پھر صحابہ رضی اللہ عنھم اور تابعین کا زمانہ ہے۔

4: اصنی

(النخل) بمعنی کھجور کے دو درختوں کا ایک جڑ سے پیدا ہونا (م ل) اور صنو اس گہری جگہ کو بھی کہتے ہیں جو دو پہاڑوں کے درمیان ہو اور جہاں دونوں کا پانی بہتا ہو اور ایک جڑ سے دو یا زیادہ کھجوریں پیدا ہوں تو ہر ایک دوسرے کی صنو ہے۔ اس طرح حقیقی بھائی بھی ایک دوسرے کے صنو ہیں (م ق)۔ ارشاد باری ہے:

وَ فِی الۡاَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّ زَرۡعٌ وَّ نَخِیۡلٌ صِنۡوَانٌ وَّ غَیۡرُ صِنۡوَانٍ یُّسۡقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ ۟ وَ نُفَضِّلُ بَعۡضَہَا عَلٰی بَعۡضٍ فِی الۡاُکُلِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ (سورۃ الرعد آیت 4)

اور زمین میں کئ طرح کے قطعات ہیں۔ ایک دوسرے سے ملے ہوئے۔ اور انگور کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت۔ بعض کی بہت سی شاخیں ہیں اور بعض کی اتنی نہیں ہوتیں باوجودیکہ پانی سب کو ایک ہی ملتا ہے اور ہم بعض میووں کو بعض پر لذت میں فضیلت دیتے ہیں اور اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

5: اختلط

کئی مختلف اشیا کا آپس میں رل مل جانا (خلط کی ضد خلص ہے) (م ل) خلط ملط ہونا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ ہَشِیۡمًا تَذۡرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقۡتَدِرًا (سورۃ الکہف آیت 45)

اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کر دو کہ وہ ایسی ہے جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اسکے ساتھ زمین کی پیدوار ملکر نکلی پھر وہ چورا چورار ہو گئ کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

6: تجاور

جار بمعنی ہم سایہ، پڑوسی اور جاور اور تجاور بمعنی فاصلہ کی نزدیکی کی بنا پر متصل ہونا، قرب و جوار میں ہونا، ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنا (منجد) پاس پاس ہونا، پڑوس میں ہونا۔ قرآن میں ہے:

وَ فِی الۡاَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ (سورۃ الرعد آیت 4)

اور زمین میں کئی طرح کے قطعات ہیں آپس میں ملے ہوئے۔

7: رتق

بمعنی دو چیزوں یا کئی چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چسپیدہ ہونا (مف، منجد) اور رتقاء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ کے دونوں کنارے اس طرح جڑ جائیں کہ اس سے ہمبستری نہ ہو سکے (مف) ارشاد باری ہے:

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 30)

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انکو جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔

8: تحیّز

لغت اضداد۔ دیکھیے (ض 3) بمعنی الگ ہونا اور پھر جا ملنا۔

9: اشتمل

الشّمل بمعنی مجتمع امر، متفرق امر (لغت اضداد) جمع اللہ شملھم بمعنی اللہ ان کے بکھرے ہوئے کاموں کو جمع کر دے۔ اور فرّق اللہ شملھم بمعنی اللہ ان کی جمعیت کو تتّر بتّر کر دے۔ اور شمل بمعنی چادر میں لپیٹنا۔ اور شمل (م مفتوحہ) اور شمل (م کسرہ) بمعنی سب کو شامل ہونا۔ عام ہے (منجد) اور اشتمل بمعنی کسی چیز کے بکھرے ہوئے جزو کو اصل چیز میں ملا لینا، شامل کر لینا۔ قرآن میں ہے:

ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ مِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ اَمَّا اشۡتَمَلَتۡ عَلَیۡہِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ نَبِّـُٔوۡنِیۡ بِعِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 143)

یہ بڑے چھوٹے مویشی آٹھ قسم کے ہیں دو دو بھیڑوں میں سے اور دو دو بکریوں میں سے یعنی ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ اے پیغمبر ان سے پوچھو کہ اللہ نے دونوں کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں کی ماداؤں کو یا جو بچہ ماداؤں کے پیٹ میں ہے اسے اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ۔

ماحصل:

  • لقی: دو چیزوں کا آمنے سامنے سے ملنا۔
  • لحق: ایک چیز کا اپنے جیسی پہلی چیز کو جا ملنا۔
  • ولی: دو جاندار چیزوں کا بغیر فاصلہ زمانی یا مکانی ملا ہوا ہونا۔
  • اصنی: ایسی ملنے والی چیزیں جن کی جڑ ایک ہو۔
  • اختلط: رل مل جانا، گڈ مڈ ہونا۔
  • تجاور: ایک چیز کا دوسری کے قرب و جوار میں ہونے کی وجہ سے ملنا۔
  • رتق: ملنا اور جڑ جانا، منہ بند ہو جانا۔
  • تحیّز: الگ ہونا اور پھر جا ملنا۔
  • اشتمل: کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزا کا جمعیت میں ملنا۔ شامل ہونا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ملانا​

کے لیے خلط اور الحق کی وضاحت اوپر ہو چکی۔ ان کے علاوہ وصل، الّف، لبس، رکّب، ضمّ، مشج، مزج، مرج، شاب اور ضغث کے الفاظ قران کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: خلط

(ضد خلص) دو یا دو سے زیادہ مختلف چیزوں کو آپس میں ملا دینا، خلط ملط کر دینا، گڈ مڈ کر دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 102)

اور کچھ دوسرے لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا صاف اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ اللہ ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

2: الحق

بمعنی پیچھے سے جا ملنا۔ قرآن میں ہے:

رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 101)

جب یہ سب باتیں ہو لیں تو یوسف نے اللہ سے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے نوازا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے دنیا سے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو اور آخرت میں اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو۔

3: وصل

دو چیزوں کو آپس میں اس طرح ملانا کہ وہ جڑ جائیں (م ل) وصال ضد ھجران اور (اتصال ضد انفصال) ملانا، جوڑنا۔ یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی صورت ہو تو اس سے مراد کسی چیز تک پہنچنا ہو گی۔ اور معنوی ہو تو تعلقات وغیرہ کو آپس میں جوڑنا اور وابستہ کرنا۔ ارشاد باری ہے:

الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 27)

جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز یعنی رشتہ قرابت کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسکو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

4: الّف

بمعنی ایک ہی چیز کے منتشر اجزا کو ملانا، بکھرے ہوئے شیرازہ کو درست اور مربوط کرنا (اور اس کی ضد شتّ ہے) وہ ہم آہنگی میں اور تالیف قلوب یعنی دلوں کے اختلافات دور کر کے ان کو ملانا اور محبت پیدا کرنا۔ اور الفت بمعنی دلی محبت۔ اور تالیف ایسے محاورہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزا کو تقدیم و تاخیر کا لحاظ رکھ کر صحیح جگہ پر جمع کر دیا گیا ہو (مف)۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ الانفال آیت 63)

اور انکے دلوں میں الفت پیدا کر دی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی انکے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے۔ مگر اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی بیشک وہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔

5: لبس

یلبس بمعنی کپڑا پہننا اور بدن کو چھپانا۔ اور لبس یلبس بمعنی کسی چیز کو دوسری میں ملا کر اصل چیز کو مشتبہ اور مشکوک بنا دینا۔ اور تلبیس بمعنی حقیقت کو چھپا کر خلاف حقیقت ظاہر کرنا (منجد) اور لبس شبہ کے معنوں آتا ہے (دیکھیے "شک و شبہ") لبس کا استعمال صرف اعراض میں اور صرف کلام میں ہوتا ہے۔ جیسے جھوٹ یا سچ یا حق و باطل کو ملا دینا (فق ل 249) ارشاد باری ہے:

وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 42)

اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچّی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ۔

5: رکّب

رکب بمعنی سوار ہونا یعنی ایک چیز پر دوسری کا چڑھ بیٹھنا اور تراکب ایک چیز پر دوسری کو رکھ کر ملا دینا۔ اور رکّب بمعنی ایک چیز کو دوسری سے، پھر تیسری سے، پھر چوتھی سے۔ اسی طرح کئی چیزوں کو ملا کر ایک چیز بنا دینا۔ ترکیب مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:

الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ (سورۃ الانفطار آیت 7، 8)

وہی تو ہے جس نے تجھے بنایا پھر تیرے اعضاء کو درست کیا اور تیری قامت کو معتدل رکھا۔ جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔

7: ضمّ

کسی ایک ہی چیز کے کسی متعلقہ حصے کو اس کے ساتھ لگا دینا، شامل کرنا (منجد) ضمیمۃ الکتاب مشہور لفظ ہے۔ قرآن میں ہے:

وَ اضۡمُمۡ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ اٰیَۃً اُخۡرٰی (سورۃ طہ آیت 22)

اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا لو کہ وہ کسی عیب و بیماری کے بغیر سفید چمکتا دمکتا نکلے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔

7: مشج

بمعنی ملانا، خلط ملط کرنا اور مشج اور مشیج بمعنی ملا ہوا، مخلوط (جمع امشاج) (منجد) یعنی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں مل کر ایک ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 2)

ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔

9: مزج

مزج الشراب بمعنی مشروب میں کوئی چیز ملانا۔ اور جو چیز کسی مشروب میں ملائی جائے اسے مزج اور مزاج کہتے ہیں (مف، منجد) اور اطباء کی اصطلاح میں بدن کی مختلف خلطوں کے باہم ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے مزاج کہتے ہیں، طبیعت، حال (م ق) قرآن میں ہے:

وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا (سورۃ الدھر آیت 17)

اور وہاں انکو ایسی شراب بھی پلائی جائے گی جس میں ادرک کی آمیزش ہو گی۔

قرآن میں ایسے دو مزاج کافور اور تسنیم کا بھی ذکر آیا ہے۔

10: مرج

دو چیزوں کا آپس میں اس طرح ملنا کہ ان کی انفرادی حیثیت بھی برقرار رہے۔ غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی۔ اور امر مریج بمعنی پیچیدہ اور گڈ مڈ معاملہ جس میں دو یا زیادہ نظریات آپس میں الجھ رہے ہوں (مف) ارشاد باری ہے:

مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ (سورۃ الرحمن آیت 19)

اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں۔

11: شاب

بمعنی ملانا، دھوکہ دینا، خیانت کرنا (منجد) (شوب) اور بمعنی شہد اور ہر وہ خوردنی چیز جو کسی دوسری چیز میں ملائی جائے۔ اور شہد کو بھی اس لیے شوب کہتے ہیں کہ وہ عموماً ہر مشروب میں ملائی جاتی ہے۔ اسی سے لفظ شائبہ مشہور ہے جو ملاوٹ اور کھوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (مف) قرآن میں ہے:

ثُمَّ اِنَّ لَہُمۡ عَلَیۡہَا لَشَوۡبًا مِّنۡ حَمِیۡمٍ (سورۃ الصافات آیت 67)

پھر اس کھانے کے ساتھ انکو کھولتا ہوا پانی ملا کر دیا جائے گا۔

12: ضغث

(الحدیث) گفتگو کو ملانا، خلط ملط کرنا اور ضغث من الخیر او الامر بمعنی مخلوط خیر یا معاملہ جس کی کوئی حقیقت و بنیاد نہ ہو۔ اور اضغث الرّؤیا بمعنی خواب کو شک سے بیان کرنا۔ اور اضغاث احلام بمعنی ڈراؤنے خواب۔ مخلوط قسم کے خواب جن کی حقیقت بیان نہ ہو سکے (منجد) قرآن میں ہے:

قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ ۚ وَ مَا نَحۡنُ بِتَاۡوِیۡلِ الۡاَحۡلَامِ بِعٰلِمِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 44)

انہوں نے کہا یہ خواب تو پریشان خیالی سے ہیں اور ہمیں ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں آتی۔

ماحصل:

  • خلط: مختلف اشیا کو ملا کر خلط ملط کر دینا۔
  • الحق: پیچھے سے ملانا۔
  • وصل: ملانا اور جوڑنا۔
  • الّف: منتشر اجزا میں ہم آہنگی پیدا کر کے ملانا
  • لبس: دھوکہ دینے کے لیے کسی چیز کو دوسری سے ملانا۔ اس کا استعمال اعراض میں اور کلام کی صورت میں ہوتا ہے۔
  • رکّب: ایک چیز کو دوسری سے پھر تیسری سے ملا کر ایک کر دینا۔
  • ضمّ: ایک ہی چیز کے متعلقہ حصہ کو اس کے ساتھ ملانا۔
  • مشج: دو ہم جنس چیزوں کا مخلوط ہو جانا۔
  • مزج: کسی مشروب میں کوئی چیز ملانا۔
  • مرج: دو ہم جنس چیزوں کا اس طرح ملانا کہ ان کی انفرادی حیثیت برقرار رہے۔
  • شوب: ہر خوردنی چیز جو دوسری میں ملا کر کھائی یا پی جائے۔
  • ضغث: گفتگو کو گڈ مڈ کرنا، خلط مبحث۔
منتشر ہونا کے لیے دیکھیے "بکھرنا"۔

من گھڑت کے لیے دیکھیے "اٹکل پچّو"۔

منت ماننا کے لیے دیکھیے "نذر و نیاز"۔

منع کرنا کے لیے دیکھیے "روکنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

منہ پھیرنا​

کے لیے اعرض (عن) اور تولّی (عن) اور صدف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اعرض (عن)

عرض کے معنی کسی کے سامنے کوئی چیز پیش کرنا۔ اور عرض بمعنی التجا، گزارش (منجد) اعرض عن سامنے سے ہٹ جانا، منہ پھیر لینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی (سورۃ طہ آیت 124)

اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اسکی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

2: تولّی عن

تولّی بمعنی کسی کو دوست بنانا۔ اور تولّی عن بمعنی دوستی سے دستبردار ہو جانا، منہ پھیرنا، دور ہونا، چھوڑ دینا (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ حَتّٰی حِیۡنٍ (سورۃ الصافات آیت 178)

اور ایک وقت تک ان سے منہ پھیرے رہو۔

3: صدف

بمعنی اعرض عنہ و صدّ (م ل) سخت اعراض کرنا۔ اور صدف بمعنی سیپ، پہاڑ کا کنارا، اور اونٹ کی ٹانگوں میں کجی کو کہتے ہیں۔ اور ان تینوں میں سختی اور کجی بھی پائی جاتی ہے (مف) اس کا صلہ کبھی عن سے ہوتا ہے (لیکن اس صلہ کے بغیر بھی یہ اپنے معنی دیتا ہے)۔ ارشاد باری ہے:

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ صَدَفَ عَنۡہَا ؕ سَنَجۡزِی الَّذِیۡنَ یَصۡدِفُوۡنَ عَنۡ اٰیٰتِنَا سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡدِفُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 157)

تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرے اور ان سے لوگوں کو پھیرے جو لوگ ہماری آیتوں سے پھیرتے ہیں اس پھیرنے کے سبب ہم انکو برے عذاب کی سزا دیں گے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 46)

دیکھو ہم کس کس طرح اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ روگردانی کئے جاتے ہیں۔

ماحصل:

اعرض من صرف سامنے سے ہٹ جانے یا منہ پھیر لینے کے معنی میں آتا ہے۔ تولّی عن دوستانہ تعلقات ختم کرنے اور صدف شدت اعراض کے لیے آتا ہے۔

منہ کے بل گرنا کے لیے دیکھیے "اوندھا ہونا۔
 
Top