مترادفات القرآن (م)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

موافقت کرنا​

کے لیے وفّق اور وطا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: وفّق
الوفق بمعنی دو چیزوں کے درمیان موافقت اور ہم آہنگی۔ اور وفّق (توفیقا) بمعنی اللہ تعالی کا حالات کو کسی کام کے سازگار مطابق بنا دینا۔ یہ لفظ برے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا (مف) ارشاد باری ہے:
اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصۡلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیۡنَہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا خَبِیۡرًا (سورۃ النساء آیت 35)
وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے سب باتوں سے خبردار ہے۔
2: وطا
کے معنی کسی چیز کو پاؤں سے کچلنا، روندنا اور مسلنا ہے۔ اور وطا علی الامر بمعنی کسی کام کو اپنی مرضی کے موافق آسان بنا لینا ہے (منجد) اور یہ کام انسان کا ہے اور عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ اَعۡمَالِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃالتوبہ آیت 37)
ادب کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں بڑھ جانا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اسکو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام تاکہ ادب کے مہینوں کی جو اللہ نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں۔ اور جو اللہ نے منع کیا ہے اسکو جائز کر لیں۔ انکے برے اعمال انکو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
ماحصل:
  • وفّق: اللہ تعالی کا حالات کو کسی کے لیے سازگار بنا دینا (اچھے مفہوم کے لیے آتا ہے)۔
  • وطا (علی الامر): انسان کو خود کسی کام میں تبدیلی کر کے اس کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لینا (برے مفہوم میں آتا ہے)۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

موڑنا​

کے لیے ثنی اور لوی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ثنی

اثنین بمعنی دو اور ثانی بمعنی دوسری اور ثنی (یثنی) بمعنی دوہرا کرنا، موڑنا، تہہ کرنا (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ لِیَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡہُ (سورۃ ھود آیت 5)

دیکھو یہ اپنے سینوں کو دہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں۔

2: لوی

لوی الحبل بمعنی رسی بٹنا اور لوی یدہ بمعنی اس نے اس کا ہاتھ موڑا یا مروڑا (مف) اور لیّا بدینہ بمعنی قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اور لواء بمعنی جھنڈا (جو کبھی ادھر پھڑپھڑاتا ہے کبھی ادھر) اور الالواء بمعنی وادی کا موڑ (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ (سورۃ آل عمران آیت 78)

اور ان اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب یعنی تورات کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تا کہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہوتا

ماحصل:

  • ثنی: کسی چیز کو ایک ہی طرف موڑنا خواہ وہ دہری ہو جائے۔
  • لوی: کسی چیز کو موڑنا یا مروڑنا، کبھی ادھر کبھی ادھر۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مہربان​

کے لیے رحمن، رحیم، رءوف، لطیف اور حنان کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں

1، 2: رحمن، رحیم

یہ دونوں الفاظ رحم سے اسم مبالغہ کے صیغے ہیں بمعنی بہت زیادہ رحم کرنے والا اور رحم میں رقت، لطف اور رافت تین باتیں پائی جاتی ہیں (م ل) لفظ رحمان میں زیادہ مبالغہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں رحم کی صفت زیادہ پائی جاتی ہے رحمن بمعنی اپنی تمام مخلوق پر (خواہ کافر و مشرک یا انسان کے علاوہ دوسرے جاندار یا اشیا ہی کیوں نہ ہوں) یکساں عنایت کرنے والا۔ اور اس سے مراد خدا کی ایسی عنایات ہیں جن سے ساری مخلوق یکساں بہرہ اندوز ہوتی ہے جیسے سورج، چاند، تارے، ہوا، روشنی، پانی، زمین اور اس کی قوت روئیدگی وغیرہ۔ اور یہ تمام عنایت صرف اللہ تعالی ہی سے متعلق ہے۔ لہذا رحمان صرف اللہ تعالی ہے دوسرا کوئی انسان یا کوئی مخلوق بھی رحمان نہیں ہو سکتی جبکہ رحیم انسان بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس لفظ کا استعمال رسول اکرم ﷺ کے لیے بھی قرآن میں ہوا ہے اور صحابہ کے لیے بھی۔ اور رحیم کی نسبت جب اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی بعض کے نزدیک "دنیا اور آخرت میں اپنے نیک بندوں پر رحم کرنے والا" ہے۔ لیکن اس تعریف میں اتنا حصر مناسب نہیں کیونکہ اللہ تعالی ہر مجبور و بے کس کی پکار سنتا ہے اور اس پر رحم فرما کر اس کی تکالیف کا ازالہ کرتا ہے خواہ یہ پکارنے والا مومن ہو یا کافر و مشرک۔ ارشاد باری ہے:

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ (سورۃ الفاتحہ)

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا ہے۔

3: رءوف

رافۃ بمعنی کسی کی تکلیف دیکھ کر دل بھر آنا۔ رقت طاری ہونا اور اس پر ترس کھانا۔ ارشاد باری ہے:

اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ النور آیت 2)

بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد جب انکی بدکاری ثابت ہو جائے تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے قانون کو نافذ کرنے میں تمہیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے۔ اور چاہیے کہ انکی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو۔

اور رءوف بمعنی رقیق القلب جس کا کسی کا دکھ دیکھ کر جی بھر آتا ہو اور اس دکھ کے دور ہونے کی فکر دامن گیر ہو۔ ارشاد باری ہے:

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 128)

لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے اور وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں۔ اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے ہیں مہربان ہیں۔

4: لطیف

لطف کے بنیادی معنی میں دو باتیں ہیں (1) دقت نظر (2) نرمی (م ل) اور بمعنی دقّ و رقّ یعنی پتلا اور نرم یا چھوٹا ہونا (م ق) اور لطیف کے معنی میں کبھی صرف ایک ہی بات یعنی دقت نظر یا باریک بینی یا راز اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگاہی پائی جاتی ہے جیسے فرمایا:

لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ (سورۃ الانعام آیت 103)

وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کا ادراک کر لیتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا ہے خبردار ہے۔

اور کبھی دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی تکالیف کا علم رکھنا اور پھر از راہ مہربانی ان کا ازالہ کرنا۔ اس صورت میں لطیف کا معنی مہربان کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ (سورۃ شوری آیت 19)

اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ جسکو چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ اور وہ زورآور ہے غالب ہے۔

5: حنّان

الحنین بمعنی کسی چیز کی طرف مشفقانہ طور پر کھنچ جانا۔ کہتے ہیں حنت المراۃ و النّاقت لولدھا یعنی عورت یا اونٹنی اپنے بچہ کی طرف کھچ گئی یا اس کی مشتاق ہوئی (مف) اور حنّ بمعنی مہربان و شفیق ہونا اور حنان بمعنی رحمت و مہربانی اور حنّان بمعنی مہربان۔ اسماء اللہ الحسنی میں سے ایک نام (منجد) ارشاد باری ہے:

وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا (سورۃ مریم آیت 13)

اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی دی تھی اور وہ پرہیزگار تھے۔

ماحصل:

  • رحمان: بہت زیادہ رحیم اور یہ صرف خدا کی ذات ہے۔
  • رحیم: بہت مہربان۔ یہ صفت رحمان سے دوسرے درجہ پر ہے۔
  • رءوف: وہ جس کا تکلیف دیکھ کر دل بھ آئے۔
  • لطیف: چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے اور ان کا ازالہ کرنے والا۔
  • حنان: ایسی رحمت اور شفقت جیسی ماں کو بچہ سے ہوتی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مہر لگانا​

کے لیے طبع اور ختم کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: طبع

بمعنی کسی چیز کا انتہا کو پہنچنا اور بھر جانا تطبّع النّھر بمعنی نہر بھر گئی (م ل) اور نیز طبع بمعنی چھاپ لگنا۔ اور طبع الدّراھم بمعنی سکہ ڈھانا۔ اور مطبع بمعنی چھاپ لگانے کی مشین۔ اور مطبوع بمعنی چھپی ہوئی چیز (منجد) اور طوابع بمعنی ڈاک کے ٹکٹ (ق ج) گویا کسی چیز کے اختتام یا مکمل ہونے پر چھاپ یا مہر لگا دینے کو طبع کہتے ہیں اور اس کا تعلق کسی چیز کی اثر پذیری اور اس کے ثابت و لازم رہنے سے ہوتا ہے (فق ل 56)

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 155)

لیکن انہوں نے عہد کو توڑ ڈالا تو انکے عہد توڑ دینے اور اللہ کی آیتوں سے کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق مار ڈالنے اور یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اللہ نے انکو مردود کر دیا۔ اور انکے دلوں پر پردے نہیں ہیں بلکہ انکے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر کر دی ہے تو یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

2: ختم

بمعنی مہر لگانا۔ سر بمہر کرنا کہ اس میں نہ کچھ داخل ہو سکتے (خواہ داخل ہونے کی گنجائش ہو) اور نہ کچھ نکل سکے۔ اور ختم الاناء بمعنی برتن کے منہ کو مٹی وغیرہ سے بند کرنا۔ اور ختام بمعنی مہر لگانے کی چیز، لاکھ (منجد) اور ختم القران بمعنی اس سے قرآن ختم کیا۔ گویا ختم کا تعلق کسی شے کے پورا ہونے اور عمل یا فعل کے انقطاع سے ہوتا ہے (فق ل 56) ارشاد باری ہے:

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 7)

اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پرمہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہےاور ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے۔

ماحصل:

  • طبع: کسی چیز میں اثر پذیری اور اس اثر کا ثابت و لازم ہونا، چھاپ لگانا، پرنٹ کرنا۔
  • ختم: کسی چیز کا پورا ہونا اور مزید عمل یا فعل کا ختم ہونا، کسی چیز کو سر بمہر کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مہلت دینا​

کے لیے مھّل اور امھل دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ مھل بمعنی ڈھیل دینا یا آہستہ آہستہ کوئی کام کرنا۔ سار علی مھل بمعنی خراماں خراماں چلنا (منجد) اور مھّل بمعنی کسی کے لیے آہستہ آہستہ اور نرمی سے مدت بڑھاتے جانا اور جلدی نہ کرنا (مف) اور یہ مدت مبہم ہوتی ہے (فق 59) ارشاد باری ہے:

فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا (سورۃ الطارق آیت 7)

تو اے نبی ﷺ تم کافروں کو مہلت دو بس چند دن کی مہلت اور دیدو۔

اس آیت میں مھّل اور امھل ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔

2: املی

ملا (الف مقصورہ سے) بمعنی عمر دراز کرنا۔ کہتے ہیں ملاک اللہ خدا تیری عمر دراز کرے۔ اور ملا بمعنی وسیع ریگستان اور بمعنی دیر تک فائدہ اٹھاتے رہنا۔ اور ملیّ من الدھر بمعنی عرصہ دراز (منجد) اور ملیّا بمعنی طویل مدت (سورۃ مریم آیت 46) گویا ملی میں درازی اور وسعت دونوں معنی پائے جاتے ہیں اور املی بمعنی کسی کو تا دیر مہلت دینا، طویل مدت کے لیے مہلت دینا (ظالم کی) رسی دراز کرنا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ۟ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ (سورۃ الاعراف آیت 183)

اور میں انکو مہلت دیئے جاتا ہوں۔ میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔

3: نظرۃ

نظر بمعنی دیکھنا، نگاہ ڈالنا۔ اور نظر فلانا المدین کے معنی کسی مقروض کے لیے نرمی اختیار کر کے قرضہ کی ادائیگی کے لیے نگاہ ڈالتے رہنا (منجد) اور انظار بمعنی کسی چیز کے طلب کرنے کے لیے موزوں وقت تک ٹھہرنا۔ اور یہ مدت مشروط ہوتی ہے (فق ل 59) ارشاد باری ہے:

وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 280)

اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔

ماحصل:

  • مھّل اور امھل: آہستہ آہستہ اور نرمی سے مہلت بڑھائے جانا (غیر معین مدت)۔
  • املی: رسی کو دراز چھوڑنا
  • نظرۃ: نرمی کے ساتھ مشروط وقت تک انتظار کے معنی میں آتا ہے۔
نیز اخّر، ارجی اور ارجۃ "پیچھے ڈالنا" میں دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مہمان​

کے لیے ضیف اور وفد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ضیف

یعنی مہمان۔ معروف لفظ ہے (جمع ضیاف اور ضیوف) ضیف کا لفظ واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ فِیۡ ضَیۡفِیۡ ؕ اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ (سورۃ ھود آیت 78)

تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟

2: وفد

وفد بمعنی لوگوں کا وفد بن کر بادشاہ یا کسی حاکم کے پاس جانا (مف) اور وفد بمعنی شاہی مہمان۔ ارشاد باری ہے:

یَوۡمَ نَحۡشُرُ الۡمُتَّقِیۡنَ اِلَی الرَّحۡمٰنِ وَفۡدًا (سورۃ مریم آیت 85)

جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کے سامنے بطور مہمان جمع کریں گے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

مہینے​

کے لیے شھور اور اشھر کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں (اور یہ دونوں لفظ شھر بمعنی مہینہ کی جمع ہیں۔ یعنی ایک ہلال سے لے کر دوسرے ہلال تک کی درمیانی مدت)۔

1: شھور

بمعنی کل مہینے۔ مہینوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ (سورۃ التوبہ آیت 36)

اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں یہی دین کا سیدھا رستہ ہے۔

2: اشھر

بمعنی مقررہ مدت کے مہینے۔ ان کی تعداد بہر حال بارہ سے کم ہی ہو گی۔ جب عدد مذکور اور مفرد ہو تو اشھر استعمال ہو گا۔ اشھر جمع قلت کا وزن ہے جس کا اطلاق 3 سے 10 تک ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

لِلَّذِیۡنَ یُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَۃِ اَشۡہُرٍ ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 226)

جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے کی قسم کھا لیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہیے اگر اس عرصے میں قسم سے رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

میخ​

کے لیے دسر اور اوتاد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: دسر
(واحد دسار) دسر بمعنی نیزہ مارنا یا کیل ٹھونکنا۔ اور دسار بمعنی جہاز وغیرہ کی درز بند کرنے کے لیے پرانی رسیوں کی سن، میخ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ حَمَلۡنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلۡوَاحٍ وَّ دُسُرٍ (سورۃ القمر آیت 13)
اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئ تھی سوار کر لیا۔
2: اوتاد
(وتد کی جمع) وتد بمعنی کھونٹی، بڑی میخ (پنجاب کلّہ) لکڑی کا ہو یا لوہے کا یا کسی دوسری چیز کا۔ اور وتدان بمعنی کندھوں کے ابھرے ہوئے حصے (مف، منجد) یعنی وتد وہ چیز ہے جس کا کچھ حصہ باہر بھی نکلا ہوا ہو۔ اور وتد بمعنی مضبوط کلہ گاڑا اور وتد بمعنی لکڑی کی میخ اور اوتاد الارض بمعنی پہاڑ (م ق) ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا وَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًا (سورۃ النباء آیت 6، 7)
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو اس کی میخیں نہیں ٹھہرایا؟
ماحصل:
دسار وہ چھوٹی میخ ہے جو کسی چیز کی درز بند کرنے یا مضبوط بنانے کے لیے ٹھونکی جاتی ہے اور وتد اس بڑی میخ یا کلہ کو کہتے ہیں جس کا کچھ حصہ باہر بھی ہو اور زیادہ حصہ زمین یا کسی چیز کے اندر ہو۔
میدان کے لیے دیکھیے "زمین اور اس کی اقسام"۔
میوے کے لیے دیکھیے "پھل"۔
 
Top