مترادفات القرآن (ن)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نا امید ہونا​

کے لیے یئس اور استایئس، قنط اور ابلس کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: یاس
بمعنی قطع الرّجاء (م ل) بمعنی کسی معاملہ کے متعلق امید کا ختم ہو جانا یا مایوس ہو جانا ہے اور یہ کسی آرزو کے وقت سے پہلے بھی ہو سکتی ہے اور بعد میں بھی (فق ل 203) ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 87)
اے بیٹو یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر جاؤ اور یوسف اور اسکے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔
اور استیئس بمعنی کسی معاملہ سے متعلق آہستہ آہستہ توقعات کا ختم ہو جانا ہے۔ تجربہ کے بعد بالآخر مایوس ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنۡ نَّشَآءُ ؕ وَلَا یُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 110)
یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اس میں وہ سچے نہ نکلے تو انکے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا اور ہمارا عذاب اتر کر گناہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا۔
3: قنط
بمعنی بھلائی سے مایوس ہونا، آس توڑ بیٹھنا (ف) اور قنوط بمعنی اشد مبالغۃ من الیاس (فق ل 283) یعنی انتہائی مایوسی کو کہتے ہیں۔ اور قنوط صفت یا قنوطی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ہر معاملہ میں تاریک پلو اور اس کے نقصانات کو مد نظر رکھنے کا عادی ہو اور اچھے پہلوؤں پر کم ہی غور کرتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 49)
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر اسکو تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو جاتا ہے آس توڑ بیٹھتا ہے۔
3: ابلس
بمعنی سخت مایوسی کے باعث غمگین ہونا (مف) اور بمعنی بے خیر ہونا، غمگین اور شکستہ دل ہونا (منجد) جب مایوس ہو جانے کی وجہ سے غم لاحق ہو جائے تو اس لفظ کا استعمال ہو گا۔ اور شیطان کو بھی ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس اور شکستہ دل ہو چکا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمُبۡلِسِیۡنَ (سورۃ الروم آیت 49)
جبکہ وہ اسکے برسنے سے پہلے یقینًا ناامید ہو رہے تھے۔
ماحصل:
  • یاس: مایوس ہونا، نا امید کے معنوں میں عام ہے۔
  • استایئس: آہستہ آہستہ امید منقطع ہو جانا۔
  • قنط: بھلائی کے پہلو سے نا امید ہونا یا رہنا، یا اس سے اگلا درجہ، سخت مایوسی۔
  • ابلس: ایسی نا امید جو غم میں مبتلا کر دے۔
نا انصافی کرنا کے لیے دیکھیے "بے انصافی کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ناپاک​

کے لیے رجس، خبیث اور نجس کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: رجس
گندگی کے معنوں میں بھی آتا ہے (تفصیل "گندگی" کے تحت دیکھیے) اور ناپاک کے معنوں میں بھی۔ اور اس سے مراد ایسی چیزوں کی نجاست ہے جسے شریعت نے حرام یا ناپاک قرار دیا ہے خواہ یہ مادی ہوں یا معنوی۔ ارشاد باری ہے:
سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 95)
جب تم انکے پاس لوٹ کر جاؤ گے تو تمہارے روبرو اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگذر کرو سو انکی طرف توجہ نہ دینا یہ ناپاک ہیں اور جو کام یہ کرتے رہے ہیں انکے بدلے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
2: خبث
بمعنی ناپاک اور گند (ضد طیب) یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی معنوں میں اس سے مراد ردی اور ناکارہ چیز ہے۔ خبیث الحدید لوہے کا میل۔ علاوہ ازیں یہ لفظ غلاظت، گلی سڑی اور بد بو دار چیزوں کے لیے بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ (سورۃ البقرۃ آیت 267)
اور بری اور ناپاک چیزیں دینےکا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو بجز اس کے کہ لیتے وقت آنکھیں بند کر لو ان کو کبھی نہ لو۔
اور معنوی استعمال ہو تو خبیث سے مراد وہ شخص سے جس کی طبیعت فحاشی کی جانب مائل ہو یا شرارت پسند ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ (سورۃ النور آیت 26)
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے۔
3: نجس
یہ لفظ بھی ظاہری اور باطنی نجاست دونوں طرح سے استعمال ہوتا ہے داء نجس و ناجس بمعنی لا علاج بیماری۔ اور نجّس الصّبی نظر بد سے بچانے کے لیے بچے کے گلے میں تعویذ وغیرہ لٹکانا۔ اور نجس بمعنی تعویذ کرنے والے لوگ (منجد) اس کا مادی استعمال (ضد طاہر اور طھور) قرآن میں نہیں ہے۔ اور جب معنوی استعمال ہو تو اس سے مراد کفر و شرک کی ایسی پلیدی ہے جو لا علاج مرض کی صورت اختیار کر جائے۔ ارشاد باری ہے:
اَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 28)
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو اللہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے۔
ماحصل:
  • رجس: شریعت کی بتلائی ہوئی نا جائز چیزیں۔
  • خبیث: ردّی اور گند چیزیں۔ اور ایسے لوگ جن کی طبیعت فحاشی کی جانب مائل ہو۔
  • نجس: کفر و شرک کے عقائد میں ملوث لوگ جن کا مرض لا علاج ہو چکا ہو۔ اور وہ چیزیں جن کی نجاست صریح طور پر شریعت نے بتلا دی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نا پسندیدہ​

کے لیے مکروہ، ادّ، منکر، امر، مذموم اور مذءوم، افّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: مکروہ
کرہ بمعنی کسی چیز کو ناپسند کرنا۔ اور مکروہ بمعنی ہر وہ بات جو سلیم طبیعت کو ناگوار ہو اور طبیعت اس سے بیزار ہو (غیر مقبول) ارشاد باری ہے:
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ (سورۃ الحجرات آیت 12)
کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔
پھر کچھ باتیں ایسی ہیں جو بظاہر قابل نفرت معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقتاً وہ مبنی بر مصلحت ہوتی ہیں۔ ایسی باتوں کی نشاندہی شریعت نے کر دی جیسے فرمایا:
کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 216)
مسلمانو تم پر اللہ کے رستے میں لڑنا فرض کر دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار تو ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو۔ اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
گویا مکروہ وہ چیز ہے جو عقل اور شریعت دونوں کی رو سے ناپسندیدہ ہو (مف) قرآن میں ہے:
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنۡدَ رَبِّکَ مَکۡرُوۡہًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 38)
ان سب عادتوں کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت ناپسند ہے۔
2: ادّ
بمعنی نہایت ہی ناپسندیدہ بات جسے ہنگامہ برپا ہو جائے۔ اور ادید بمعنی شور، ہنگامہ (مف) اور ادّ الامر بمعنی کام کا بوجھل اور دشوار ہونا۔ اور ادید بمعنی شور اور ادّ بمعنی مصیبت، ہولناک واقعہ، دشوار کام (منجد) یعنی اسی ناپسندیدہ بات جو ہنگامہ خیز ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا (سورۃ مریم آیت 88، 89)
اور کہتے ہیں کہ رحمٰن بیٹا رکھتا ہے۔ ایسا کہنے والو یہ تو تم بری بات زبان پر لاتے ہو۔
3: منکر
ہر انوکھی، اچنبھا بات (انکار کی ضد عرفان اور منکر کی معروف ہے) یعنی منکر ہر وہ بات ہے جسے معاشرہ قبیح خیال کرتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 104)
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
4: امر
بمعنی ہر خلاف عقل اور خلاف شرع بات (منجد) بمعنی منکرا عظیما (م ق) امر الامر کسی معاملہ یا بات کا حد سے بڑھ جانا (مف) انتہائی غیر معقول بات۔ ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا (سورۃ الکہف آیت 71)
تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ موسٰی نے کہا کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی۔
5: مذموم اور مذءوم
ذمّ اور ذءم دونوں کے ایک ہی معنی ہیں بمعنی کسی چیز کو حقیر اور مذموم گرداننا (مف) ذءم میں دو باتیں بنیادی ہیں (1) کراہت اور (2) عیب (م ل) اور بمعنی عیب لگانا، حقارت کرنا، رسوائی کرنا۔ اور ذمّ (ضد حمد اور مدح) بمعنی کسی کے عیب بیان کرنا، خواہ وہ اختیاری ہوں یا اضطراری (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 18)
اللہ نے فرمایا نکل جا یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال کر تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔
6: افّ
اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں مثلاً میل کچیل اور ناخن کا تراشہ وغیرہ۔ مگر محاورۃ یہ لفظ کس بری چیز سے اظہار نفرت کے لیے بولا جاتا ہے (مف) قرآن میں ہے:
اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 68)
تف ہے تم پر اور جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ان پر۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
ماحصل:
  • مکروہ: وہ بات جسے سلیم طبیعت ناپسند کرے۔
  • ادّ: سخت ناپسندیدہ بات جو ہنگامہ برپا کر دے۔
  • منکر: وہ بات جسے معاشرہ قبیح خیال کرے۔
  • امر: انتہائی غیر معقول بات۔
  • مذءوم: بمعنی کسی عیب کی بنا پر ناپسندیدہ۔
  • افّ: کلمہ کراہت و نفرت۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نادان​

کے لیے جاھل اور سفھآء کے الفاظ آئے ہیں۔
1: جاھل
(ضد عالم) بے علم، ناواقف، جھل بمعنی انسان کا ذہن علم سے خالی ہونا۔ اس کی وجہ خواہ کچھ ہو (مف) یہ لفظ عام ہے۔ قرآن میں ہے:
یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ (سورۃ البقرۃ آیت 273)
ان کے نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے۔
2: سفھآء
(واحد سفیھہ) سفہ ضد حلم بمعنی (1) کم عقل اور (2) پست اخلاق والا ہونا (م ل) اور سفیہ یعنی ایسا جاہل جو عقل کی کمی کی وجہ سے کچھ سیکھنے یا علم حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ اور اخلاق کا بھی پست ہو۔ یعنی نہ جاننے یا سمجھنے کے باوجود اعتراض کرنا اس کا شعار ہو، عدیم الحلم (م ق) احمق۔ ارشاد باری ہے:
سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (سورۃ البقرۃ آیت 142)
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر پہلے سے چلے آتے تھے اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے رستے پر چلاتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ناراضگی​

کے لیے سخط، ضغن اور غلّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: سخط
بمعنی نا رضا مندی، ناپسندیدگی (ضد رضوان بمعنی رضا مندی اور خوشنودی) اور سخط بمعنی مرضی کے خلاف کام پر نا خوش ہونا، خفا ہونا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّلۡمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡہَا رَضُوۡا وَ اِنۡ لَّمۡ یُعۡطَوۡا مِنۡہَاۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡخَطُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 58)
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اب اگر انکو اس میں سے خاطر خواہ مل جائے تو خوش رہیں اور اگر اس قدر نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جائیں۔
2: ضغن
بمعنی حسد یا کینہ (منجد) یعنی ایسی ناراضگی جس کو انسان دل سے نہ نکالے۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ یُّخۡرِجَ اللّٰہُ اَضۡغَانَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 29)
کیا وہ لوگ جنکے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ اللہ انکے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟
3: غلّ
بمعنی (1) کینہ کی شدت، بیر، پوشیدہ دشمنی (مف) اور غلّ بمعنی (2) چوری اور خیانت کرنا، خفیہ طور پر کسی چیز کو اٹھا کر اپنے اسباب میں رکھ لینا (م ق) اور غلّ بمعنی کینہ، کھوٹ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ (سورۃ الاعراف آیت 43)
اور جو کینے انکے سینوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے ان کے محلوں کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی
ماحصل:
  • سخط: ناراضگی
  • ضغن: ایسی ناراضگی جو کوئی دل میں چھپائے رکھے۔
  • غلّ: ناراضگی جو دشمنی کی حد تک پہنچ جائے اور دل میں چھپائی جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ناشکرا​

کے لیے کفور اور کنود کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: کفور

کفر (1) خدا سے انکار کرنا (2) خدا کی نعمتوں سے انکار کرنا، کفران نعمت کرنا، خدا کا انکار کرنے والوں کے لیے کافر اور اس کی نعمتوں کا انکار کرنے والے کے لیے کفور یا کفّار کے الفاظ بالعموم استعمال ہوتے ہیں (ضد شاکر اور شکور) ارشاد باری ہے:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا (سورۃ الدھر آیت 3)

یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔

2: کنود

کند بمعنی ناشکری کرنا اور کنود ایسے ناشکرے کو کہتے ہیں جو مصائب و مشکلات کا تو ہر دم ذکر کرتا رہے مگر خدا کے انعامات کا کبھی نام تک نہ لے، بخیل، نمک حرام (منجد، م ق) ارشاد باری ہے:

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ (سورۃ العادیات آیت 6)

کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔

ماحصل:

کفور: احسان ناشناس ہے جبکہ کنود احسان ناشناش ہونے کے علاوہ ہر وقت شاکی بھی رہتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نافرمانی کرنا​

کے لیے عصی، فسق اور فجر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عصی

بمعنی حکم نہ ماننا، نافرمانی کرنا (منجد) کسی بھلائی کی بات کی تعمیل نہ کرنا (مف) خواہ یہ دانستہ ہو یا نا دانستہ۔ اور عصیان بمعنی نافرمانی (سورۃ محمد آیت 4) اور عاصی بمعنی نافرمان۔ اور عصیّا بمعنی بہت نافرمان (سورۃ مریم آیت 44) قرآن میں ہے:

فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی (سورۃ طہ آیت 121)

سو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر انکی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے اوپر بہشت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو وہ اپنے مقصد سے بے راہ ہو گئے۔

2: فسق

بمعنی حق و اصلاح کے راستہ سے ہٹ جانا، بد کار ہونا (منجد) اطاعت سے باہر نکل جانا (م ل) فاسق کا لفظ عادی نافرمان کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور فسق کا لفظ ہر چھوٹے بڑے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے۔ شرعی احکام کا خیال نہ رکھنے والا (مف) تاہم ایسا شخص گناہ کو گناہ ضرور سمجھتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ (سورۃ السجدۃ آیت 18)

بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

3: فجر

بمعنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا اور فاجر بمعنی دین کی پردہ دری اور نافرمانی کرنے والا، بد کار، بد کردار، جو گناہ کرتا جائے اور تائب نہ ہو (مف) بد معاش۔ اور فجور بمعنی گناہوں میں منہمک، زانی (منجد) اور فجر بمعنی ڈھٹائی کرنا۔ اور فاجر ایسا گنہگار جو گناہ کو گناہ بھی نہ سمجھے۔ قرآن میں ہے:

اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا (سورۃ نوح آیت 27)

اگر تو انکو رہنے دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہو گی وہ بھی بدکار اور ناشکری ہو گی۔

ماحصل:

  • عاصی: جو کبھی کبھار کسی حکم کی تعمیل نہ کرے، خواہ دانستہ طور پر ہو یا نا دانستہ۔
  • فاسق: جو گناہوں کو اپنا شعار بنا لے اور توبہ نہ کرے۔ تاہم گناہوں کے کاموں کو گناہ سمجھتا ضرور ہو۔
  • فاجر: وہ شخص ہے جو پوری طرح گناہوں میں ڈوب جائے اور گناہ کو گناہ بھی نہ سمجھے نہ توبہ کی طرف مائل ہو۔
ناقص کے لیے دیکھیے "ردّی"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ناک​

کے لیے انف اور خرطوم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: انف
بمعنی ناک، معروف عضو بدن۔ ناک چونکہ باہر نکلی ہوئی ہے اس لیے کسی چیز کے باہر نکلے حصے کو بھی انف کہہ دیتے ہیں۔ جیسے انف الجبل بمعنی پہاڑ کا باہر نکلا ہو حصہ (مف) قرآن میں ہے:
وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 45)
اور ہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے
2: خرطوم
بمعنی ہاتھی کی سونڈ۔ اور بمعنی لمبی ناک جس کا اگلا حصہ پنجے تک آتا ہو۔ اور اتخرطم بمعنی ناک اونچی کرنا، غضبناک ہونا، تکبر کرنا (جمع خراطیم) اور خراطیم القوم بمعنی قوم کے سردار اور متکبر لوگ (منجد، م ق) ارشاد باری ہے:
اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ سَنَسِمُہٗ عَلَی الۡخُرۡطُوۡمِ (سورۃ القلم آیت 15، 16)
جب اسکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ ہم عنقریب اسکی اونچی ناک پر داغ لگائیں گے۔
ماحصل:
  • انف: ناک، معروف عضو بدن۔
  • خرطوم: لمبی اور نیچے کو بڑھی ہوئی ناک یا کسی بڑے اور متکبر آدمی کی ناک۔
ناگوار کے لیے دیکھیے "برا لگنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نام – نام رکھنا​

کے لیے اسم اور سمّی، لقب، نبز اور فلان کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اسم

(سمو) بمعنی کسی چیز کا نام رکھنا، سمو بمعنی بلندی۔ اور اسم کو اسم اس لیے کہتے ہیں کہ اس سے اس چیز کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کا ذکر بلند ہوتا ہے (مف) (جمع اسماء) ارشاد باری ہے:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 31)

اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

سمّی

بمعنی نام رکھنا۔ اور اس نام رکھنے میں اس چیز کی صفات کو ملحوظ رکھنا یا اسم با مسمی ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ قرآن میں ہے:

قَالَ قَدۡ وَقَعَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ رِجۡسٌ وَّ غَضَبٌ ؕ اَتُجَادِلُوۡنَنِیۡ فِیۡۤ اَسۡمَآءٍ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ فَانۡتَظِرُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 71)

ہود نے کہا کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب کا نازل ہونا مقرر ہو چکا ہے۔ کیا تم مجھ سے چند ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی طرف سے رکھ لئے ہیں۔ جنکی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ تو تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

اور سمیّا بمعنی ہم نام۔ ارشاد باری ہے:

یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا (سورۃ مریم آیت 7)

فرمایا اے زکریا ہم تمکو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہو گا اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔

2: لقب

اصل نام کے علاوہ ایسا نام جس میں مسمی کی صفات کو ملحوظ رکھا گیا ہو (مف) جیسے مسیح حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب ہے جنہوں نے ساری زندگی سیاحت میں گزار دی اور متاہل زندگی کو اختیار نہ کیا۔ ارشاد باری ہے:

اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 45)

وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسٰی ابن مریم ہو گا اور جو دنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔

اس آیت میں مسیح لقب ہے۔ عیسی اصل نام اور ابن مریم نسب ہے۔ جو باپ نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے ماں کی طرف منسوب کر دیا ہے۔

3: نبز

النّبز بھی لقب ہی کی قسم مگر اس میں کسی شخص کی بری صفات کو پیش کیا جاتا ہے خواہ وہ اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور خواہ یہ نسب سے تعلق رکھتی ہوں یا اخلاق سے۔ اور نبز بمعنی کسی کا برا نام یا لقب رکھ دینا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ (سورۃ الحجرات آیت 11)

اور اپنوں کو آپس میں عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔

4: فلان

(مونث فلانۃ) اسم کے قائم مقام آتا ہے۔ لہذا جب ذوی العقول کے لیے آئے تو ال داخل ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں رکبت الفلان میں نے فلاں (نر) پر سواری کی اور حلبت الفلانۃ میں نے فلاں جانور (مادہ) کا دودھ دوہا۔ قرآن میں ہے:

یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا (سورۃ الفرقان آیت 28)

ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

ماحصل:

  • اسم: کسی چیز کا نام جو تعارف کے لیے رکھا جائے۔
  • لقب: صفاتی اور تشریفی نام۔
  • نبزا: کسی کا برا نام رکھ دینا۔
  • فلان: کسی شخص کا نام لینے کی بجائے فلاں کہہ دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نا مبارک​

کے لیے مشئمۃ، نحس اور حسوم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
1: مشئمۃ
شئم بمعنی نا مبارک اور منحوس ہونا اور شاءم بمعنی بائیں طرف لینا (منجد) شئم کی ضد یمین ہے۔ یمین کا معنی دائیں طرف یا دایاں ہاتھ اور برکت بھی۔ شام سے مصدر شامت ہے۔ اور شامت اعمال معروف لفظ ے۔ اور مشئمۃ یعنی نا مبارک اور بائیں جانب والا۔ گویا شئم وہ نا مبارکی ے جو انسان کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا ہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ (سورۃ البلد آیت 19)
اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا وہی برے نصیب والے ہیں۔
2: نحس
(ضد سعد) اور سعد بمعنی خوش نصیبی اور حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لیے ممد و معاون ہونا ہے (مف، م ل) اور نحس ایسی نا مبارکی کو کہتے ہیں جو مشیت الہی کے تحت ہو۔ اور نحس بمعنی بد قسمت یا بد بخت ہونا۔ اہل نجوم کی اصطلاح میں نحسان زحل اور مریخ کو کہتے ہیں اور سعدان مشتری اور زہرہ کو (منجد) ارشاد باری ہے:
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡ یَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّ (سورۃ القمر آیت 19)
ہم نے ان پر ایک رہتی نحوست کے دن میں زبردست آندھی چھوڑ دی۔
3: حسوم
ایسی نحوست جو لگاتار جاری رہے یہاں تک کہ کسی چیز کا نام و نشان مٹا دے (تفصیل کے لیے دیکھیے "لگاتار") ارشاد باری ہے:
سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ ۚ (سورۃ الحاقۃ آیت 7)
اللہ نے اسکو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو اے مخاطب تو ان لوگوں کو اس میں اس طرح گرے ہوئے دیکھتا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔
ماحصل:
  • شامت: وہ نحوست یا نا مبارکی یا بد بختی ہے جس میں انسان کے اپنے اعمال کو زیادہ دخل ہو۔
  • نحوست: وہ جس میں مشیت الہی کو زیادہ دخل ہو۔
  • حسوم: ایسی نحوست ہے جو لگاتار جاری رہے تا آنکہ نام و نشان مٹا دے۔
نیز دیکھیے "بد بختی"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نجات پانا​

کے لیے نجی اور فاز کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: نجی
بمعنی کسی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا، رہائی پانا، کسی بھی صورت میں ہو، اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالَ الَّذِیۡ نَجَا مِنۡہُمَا وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمۡ بِتَاۡوِیۡلِہٖ فَاَرۡسِلُوۡنِ (سورۃ یوسف آیت 45)
اور وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آ گئ بول اٹھا کہ میں آپ کو اسکی تعبیر لا بتاتا ہوں مجھے قید خانے جانے کی اجازت دیجئے۔
2: فاز
بمعنی کسی مصیبت سے نجات پانا اور محبوب چیز تک پہنچنا (فق ل 273) سلامتی کے ساتھ بھلائی حاصل کر لینا (مف) ارشاد باری ہے:
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ آل عمران آیت 185)
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا تو جو شخص دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
پھر فاز کا لفظ لغت اضداد سے بھی ہے۔ فوز بمعنی نجات پانا بھی اور ہلاک ہونا بھی فوّز الرّجل بمعنی آدمی مر گیا۔ اور مفازۃ بمعنی نجات کا سبب، کامیابی کی جگہ کا کامیابی کا سبب، ہلاکت کی جگہ یا ہلاکت کا سبب (منجد، م ل) ارشاد باری ہے:
لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ آل عمران آیت 188)
جو لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور وہ کام جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا۔
اس آیت میں مفازۃ کا لفظ ہلاکت کی جگہ اور اس کے سبب کا معنی دے رہا ہے۔
ماحصل:
نجات کا لفظ صرف کسی مصیبت کے چھوٹنے کے لیے آتا ہے جبکہ فاز کا لفظ کسی مصیبت سے چھوٹنے کے ساتھ ساتھ کسی مرغوب چیز سے ہمکنار بھی ہونے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نذر و نیاز​

کے لیے نذر اور قربان کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نذر

(جمع نذور) بمعنی کسی حادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینا۔ اور نذر بمعنی نذر یا منت ماننا۔ اگرچہ ایسی نذر عموماً حالات سے مشروط ہوتی ہے۔ تاہم اس نذر یا منت کی ادائیگی لازم اور واجب ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:

ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ حج آیت 29)

پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر یعنی بیت اللہ کا طواف کریں۔

2: قربان

قربان الملک بمعنی بادشاہ کا ندیم۔ اور قربان ہر وہ چیز ہے جس کا ذریعہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا مقصود ہو، خواہ یہ ذبیحہ ہو یا اور کچھ (منجد) اور ہر قسم کی نذر و نیاز و قربانی غیر اللہ کے لیے حرام ہے کیونکہ یہ بھی مالی عبادت ہوتی ہے (لیکن مشرکین اللہ کے سوا دوسروں کو بھی، جنہیں وہ قابل احترام سمجھیں، نذر و نیاز اور قربانی وغیرہ پیش کرتے ہیں) قرآن میں ہے:

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 27)

اور اے نبی انکو آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے حالات جو بالکل سچّے ہیں پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے بارگاہ الٰہی میں ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئ اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی اب قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی نیاز قبول فرمایا کرتا ہے۔

ماحصل:

  • نذر: اپنے اوپر واجب کی ہوئی مشروط نیاز، منت۔
  • قربان: جو نیاز محض اللہ کی خوشنودی اور تقرب کے لیے دی جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نرم ہونا – کرنا​

کے لیے لان (لین) اور الان، ادھن، اہ (اوہ) اور تلطّف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: لان

یعنی نرم ہونا۔ لین کی ضد خشونت ہے (م ل) یعنی کسی چیز کا لچکدار ہونا۔ اور قولا لیّنا بمعنی نرم بات (سورۃ طہ آیت 44) گویا اس لفظ کا استعمال مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ (سورۃ الزمر آیت 23)

پھر انکی کھالیں نرم ہو جاتی ہیں اور دل بھی نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

اور نرم کرنا کے لیے الان آئے گا۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَ الطَّیۡرَ ۚ وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ (سورۃ سباء آیت 10)

اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی۔ اور کہا تھا اے پہاڑو انکے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو ان کا مسخر کر دیا اور انکے لئے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا۔

2: ادھن

دھن بمعنی تیل، روغن، چکنائی۔ اور ادھن بمعنی تیل لگا کر کسی چیز کو نرم کرنا۔ اور جب اس کا معنوی استعمال ہو تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ دل میں تو کچھ اور بات ہو مگر بہ تکلف زبان سے نرمی اختیار کر کے مخاطب کو دھوکا دیا جائے، ڈھیلا پڑنا، چاپلوسی کرنا، منافقت برتنا (م ق) ارشاد باری ہے:

وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ (سورۃ القلم آیت 9)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تو یہ بھی نرم ہو جائیں۔

3: اہ

یعنی آہیں بھرنا (بیماری میں) اور افسوس کا اظہار کرنا۔ اور اوّاہ بمعنی نرم دل، رقیق القلب، دعا کے ساتھ آہ و زاری کرنے والا (م ق) ارشاد باری ہے:

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 114)

کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے۔

4 :تلطّف

لطف بمعنی (1) چھوٹی چھوٹی باتوں کو جاننا اور اس کا خیال رکھنا اور (2) اس کے مضر پہلو کا ازالہ کرنا (دیکھیے مہربان) اور تلطّف بمعنی کسی کام کے کرنے میں احتیاط اور نرمی کا پہلو اختیار کرنا۔ قرآن میں ہے:

فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا (سورۃ الکہف آیت 19)

تو اس میں سے کھانا لے آئے اور احتیاط سے آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔

ماحصل:

  • لان: کسی چیز کا نرم اور لچکدار ہونا۔
  • ادھن: مداہنت یا چاپلوسی کرنا، از راہ تصنع بخلاف باطن نرمی برتنا۔
  • اہ: دل کا نرم یعنی رقیق القلب ہونا۔
  • تلطّف: کسی کام کے کرنے میں احتیاط اور نرمی کا پہلو اختیار کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نزدیک ہونا – کرنا​

کے لیے کاد (کود)، قرب، دنی، ازف اور زلف، قاب، اقترن کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: کاد

بمعنی کسی کام کے کرنے کے قریب ہونا (مف) اور بمعنی کوئی کام کرنے پر آمادہ تو ہوا مگر کیا نہیں (م ق) یہ افعال مقاربہ سے ہے اور اپنے ساتھ ایک اور فعل چاہتا ہے۔ صرف ماضی اور مضارع استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:

یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 20)

قریب ہے کہ بجلی کی چمک انکی آنکھوں کی بصارت کو اچک لے جائے

2: قرب

نزدیک ہونا (ضد بعد) اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ یعنی فاصلہ، مدت، نسب اور منزلت سب چیزوں کی نزدیکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

1: فاصلہ کی نزدیکی کے لیے

اَوۡ تَحُلُّ قَرِیۡبًا مِّنۡ دَارِہِمۡ حَتّٰی یَاۡتِیَ وَعۡدُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (سورۃ الرعد آیت 31)

یا انکے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی۔ یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے۔ بیشک اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا۔

2: فاصلہ کی نزدیکی کے لیے

وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 222)

اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔

3: نسب کی نزدیکی کے لیے

لَا نَشۡتَرِیۡ بِہٖ ثَمَنًا وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی (سورۃ المائدۃ آیت 106)

ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے گو ہمارا رشتہ دار ہی ہو۔

4: منزلت کی نزدیکی کے لیے

وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (سورۃ البقرۃ آیت 237)

اگر معاف کر دو تو قریب ہے پرہیز گاری سے۔

منزلت اور وقت کی نزدیکی کے لیے اقترب کا لفظ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:

کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ (سورۃ العلق آیت 19)

دیکھو اس کا کہا نہ ماننا اور سجدہ کرنا اور اللہ کا قرب حاصل کرتے رہنا۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ (سورۃ القمر آیت 1)

قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہو گیا۔

اور منزلت کی نزدیکی کے لیے قرّب کا لفظ خصوصاً استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ کسی کو قریب کرنا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 45)

وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسٰی ابن مریم ہو گا اور جو دنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔

3: دنی

بالعموم فاصلہ کی نزدیکی کے لیے استعمال ہوتا ہے (فق ل 353) اور دنیا بمعنی نزدیک کا عالم، موجودہ کائنات (ضد آخرت) قرآن میں ہے:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی (سورۃ النجم آیت 8)

پھر وہ قریب ہوئے پھر مزید نیچے آ گئے۔

اور کبھی قدر و منزلت کے گر جانے کے لیے بھی آتا ہے۔ اور ادنی بمعنی خسیس کمتر، کہتر (ضد اعلی) ارشاد باری ہے:

قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 61)

انہوں نے کہا کہ عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو

اور وقت کی نزدیکی کے لیے ادنی کا استعمال تقریباً تقریباً یا اندازا کے معنوں میں ہوتا ہے جیسے فرمایا:

اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ (سورۃ مزمل آیت 20)

تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔

4: ازف

وقت کی نزدیکی کے لیے آتا ہے اور اس میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ازفت الشّخوص بمعنی کوچ کا وقت قریب آ پہنچا (مف) اور قیامت کو ازفۃ کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کی آمد میں وقت تھوڑا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَی الۡحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ (سورۃ المؤمن آیت 18)

اور خبر سنا دے اُنکو اس نزدیک آنے والے دِن کی جس وقت دل پہنچیں گے گلوں کو تو وہ دبا رہے ہوں گے کوئی نہیں گنہگاروں کا دوست اور نہ سفارشی کہ جسکی بات مانی جائے۔

5: زلف

درجہ اور مرتبہ میں نزدیکی کے لیے آتا ہے (م ل) ارشاد باری ہے:

وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰی وَ حُسۡنَ مَاٰبٍ (سورۃ ص آیت 40)

اور بیشک ان کے لئے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ ٹھکانہ ہے۔

اور قریب کرنا، قریب لانا، پاس پہنچنا کے لیے ازلف آتا ہے اور اس میں قدر و منزلت کا مفہوم ضروری نہیں ہوتا۔ جیسے فرمایا:

وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ (سورۃ التکویر آیت 13)

اور جب بہشت قریب لائی جائے گی۔

6: قاب

(الارض) بمعنی زمین کو گول کھودنا اور قاب بمعنی مقدار، اندازہ، کمان کے کونہ سے قبضہ تک کا فاصلہ۔ محاورہ ہے ھو علی قاب قوسین بمعنی وہ نہایت قریب ہے (منجد) ارشاد باری ہے:

فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی (سورۃ النجم آیت 9)

تو وہ دو کمان کے فاصلے پر ہو گئے یا اس سے بھی کم۔

7: اقترن

قرن اس رسی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دو اونٹوں کو باندھا جائے۔ اور قرین بمعنی ہم نشین (مف) اور قرن بمعنی ایک چیز کو دوسری کے قریب رکھا اور قرن الثورین بمعنی ایک پنجالی میں دو بیلوں کو ساتھ ملا دینا۔ اور اقترن میں مبالغہ پایا جاتا ہے یعنی بالکل قریب کر دیا (م ق) اور اقترن میں ایک کے بعد فورا بعد دوسرا پھر تیسرا، پھر چوتھا۔ اس طرح تسلسل، پے در پے یا لگاتار کا مفہوم بھی اسی نزدیکی کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:

فَلَوۡ لَاۤ اُلۡقِیَ عَلَیۡہِ اَسۡوِرَۃٌ مِّنۡ ذَہَبٍ اَوۡ جَآءَ مَعَہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مُقۡتَرِنِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 53)

تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ اتارے گئے یا یہ ہوتا کہ فرشتے جمع ہو کر اسکے ساتھ آتے۔

آتے اس کے ساتھ فرشتے پرا باندھ کر (عثمانی)

ماحصل:

  • کاد: کرنے کے قریب ہونا مگر نہ کرنا۔
  • قرب: ہر لحاظ سے جامع لفظ ہے۔ اس کا استعمال عام ہے۔
  • دنی: فاصلہ کی نزدیکی کے لیے اور قدر و منزلت میں گراوٹ کے لیے۔
  • ازف: وقت کی تنگی کے اظہار کے لیے۔
  • زلف: قدر و منزلت کی نزدیکی کے لیے آتا ہے۔
  • قاب: فاصلہ میں انتہائی نزدیکی۔ جیسے کمان کے ایک کونہ سے قبضہ تک کا فاصلہ۔ قاب قوسین محاورۃ استعمال ہوتا ہے۔
  • اقترن: وقت یا فاصلہ میں اتنی نزدیکی گویا دو چیزیں ساتھ مل گئی ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نشان – نشانی​

کے لیے اثر، علامت، آیت، مبصرۃ، شرط، نصب، سیما، شعائر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اثر

(جمع اثار) بمعنی کسی ایسی چیز کا حاصل ہونا جو اصل چیز کے وجود پر دلالت کرتی ہو (مف) اور بمعنی کسی چیز کے باقی چھوڑے ہوئے نشانات جس سے وہ چیز یاد آ جائے (م ل) آثار قدیمہ اور علم الآثار مشہور الفاظ ہیں۔ یعنی ایسی چیزوں کا علم جن سے ان بزرگوں کی یاد تازہ ہوتی ہو جن سے یہ چیزیں متعلق تھیں۔ اور اثار کا لفظ بعض دفعہ نقش پا یا کسی گزرنے والے کے پاؤں کے نشانات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا (سورۃ الکہف آیت 64)

موسٰی نے کہا یہی تو وہ مقام ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔

2: علامت

(جمع علامات) ہر ایسی نشانی جو خود تو واضح نہ ہو مگر اس سے کسی اور حقیقت کا علم حاصل ہو (مف) مثلاً رات کے وقت ستاروں کو دیکھ کر وقت اور سمت معلوم کرنا یا دھوپ اور سایہ سے وقت اور سمت کا اندازہ لگانا یا مریض کی علامات سے مرض کی تشخیص کرنا۔ علامت مطلوب چیز سے پہلے ہوتی ہے جیسے بادل بارش کی علامت ہے جبکہ اثر کا تعلق کسی چیز کے بعد سے ہوتا ہے (فق ل 55) قرآن میں ہے:

وَ عَلٰمٰتٍ ؕ وَ بِالنَّجۡمِ ہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 16)

اور رستوں میں نشانات بنا دیئے اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں۔

3: ایۃ

ہر ایسی نشانی جس میں غور کرنے پر اس چیز کا بھی علم حاصل ہو اور اس کے مصانع کا بھی (مف) مثلاً کسی شخص کو یہ علم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں فلاں قسم کے نشان ہیں۔ اور وہ نشان مل جائیں تو اسے یقین ہو جائے گا کہ اس نے راستہ پا لیا اور وہ ٹھیک راستے پر چل رہا ے۔ قرآن کریم میں آیت کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے (1) قرآن کریم کا کوئی جملہ (2) بمعنی نشانی جس کی اوپر تعریف مذکور ہوئی (3) معجزہ جو انبیا کو دیا جاتا ہے۔ قرآن کا کوئی جملہ بھی ہو اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس بات پر دلالت کرتے ہے کہ یہ کسی مافوق الوری ہستی کا کلام ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہر جملہ ایک نشانی ہے اور باقی معنوں میں تو بہرحال یہ آیات تعریف مذکورہ کے تحت آ ہی جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 53)

ہم عنقریب انکو اطراف عالم میں بھی اور خود انکی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تمکو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے۔

4: مبصرۃ

بمعنی روشن اور واضح نشانی جس سے کسی کی آنکھ کھل جائے (مف) اور اس لفظ کا اطلاق بالعموم معجزہ پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ اٰیٰتُنَا مُبۡصِرَۃً قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ النمل آیت 13)

پھر جب انکے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں تو کہنے لگے یہ کھلا جادو ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ کَذَّبَ بِہَا الۡاَوَّلُوۡنَ ؕ وَ اٰتَیۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَۃَ مُبۡصِرَۃً فَظَلَمُوۡا بِہَا ؕ وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 59)

اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کر دیں کہ پہلے لوگوں نے اسکی تکذیب کی تھی۔ اور ہم نے ثمود کو اونٹنی نبوت صالح کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو۔

اور آیت کے لفظ کے بعد اگر کفار کا تکرار ثابت ہو خواہ قرآن میں مذکور ہو یا احادیث میں تو اس وقت آیت کے معنی بھی معجزہ ہی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:

وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ (سورۃ القمر آیت 2)

اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک پہلے سے چلا آتا جادو ہے۔

5: شرط

اشرط الابل بمعنی اونٹ فروخت کرنے کے لیے اونٹ کو نشان لگا کر علیحدہ کرنا اور شرط (جمع اشراط) بمعنی علامت، نشان ،ہر چیز کا شروع (منجد) بمعنی وہ معین حکم جس کا وقوع کسی دوسرے امر پر معلق ہو۔ وہ دوسرا امر اس کے لیے بمنزلہ علامت ہوتا ہے اور اشراط الساعۃ بمعنی علامات قیامت (مف) قرآن میں ہے:

فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا ۚ فَاَنّٰی لَہُمۡ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ ذِکۡرٰىہُمۡ (سورۃ محمد آیت 18)

اب تو یہ لوگ قیامت ہی کی راہ دیکھتے ہیں کہ ناگہاں ان پر آ واقع ہو سو اسکی نشانیاں سامنے آ چکی ہیں۔ پھر جب وہ ان پر آ نازل ہو گی اس وقت انہیں نصیحت کہاں مفید ہو سکے گی؟

6: نصب

نصب الشّیء بمعنی کسی چیز کو سیدھا کھڑا کرنا، گاڑنا۔ اور النّصب بمعنی کھڑا کیا ہوا جھنڈا، کھڑی کی ہوئی علامت اور نصب اور نصب بمعنی کھڑی کی ہوئی علامت، نشان راہ (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ (سورۃ المعارج آیت 43)

اس دن یہ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے کسی مقابلے کے نشان کی طرف دوڑے جا رہے ہوں۔

7: سیما

(سوم) بمعنی علامت، نشان اور سوّم بمعنی ایسی نشان لگانا کہ دوسروں سے امتیاز ہو سکے (مف) گویا سیما علامتی نشان یا امتیازی نشان کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ (سورۃ الفتح آیت 29)

کثرت سجود کے اثر سے انکی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں

8: شعائر

واحد شعیرۃ بمعنی اعلام دینیہ۔ یعنی ایسی علامات جنہیں دینی لحاظ سے حرمت کا مقام حاصل ہو، ادب کی چیزیں، مقامات اور علامت۔ شعائر حج بمعنی حج کے ارکان اور مقامات۔ شعائر اللہ وہ علامات جنہیں اللہ نے قابل احترام قرار دیا ہے۔ اور شعائر اللہ سے مراد وہ قربانی کے جانور بھی ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ آیت 158)

بیشک کوہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ لَا الۡہَدۡیَ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ (سورۃ المائدۃ آیت 2)

مومنو! اللہ کے نام کی چیزوں کی بیحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی جو اللہ کی نذر کر دیئے گئے ہوں کہ جن کے گلوں میں پٹے پڑے ہوں۔

ماحصل:

  • اثر: ایسی بقیہ چھوڑی ہوئی چیز جس سے کوئی دوسری حقیقت معلوم ہو، اصل کے بعد کی چیز۔
  • علامۃ: ایسی نشانی جو خود تو واضح نہ ہو مگر دوسری چیز کی وضاحت کرتی ہو اور پہلے موجود ہو۔
  • ایۃ: ایسی چیز جس میں غور کرنے سے اس کا علم بھی حاصل ہو اور اس کے مصانع کا بھی۔
  • مبصرۃ: روشن اور واضح نشانی جس سے آنکھ کھل جائے، معجزہ۔
  • شرط: ایسی علامت جو کسی دوسرے امر سے معلق ہو۔
  • نصب: راستہ پر گاڑے ہوئے نشان یا پتھر وغیرہ۔
  • سیما: امتیازی نشان۔
  • شعائر: اعلام دینیہ، ایسی علامات جن کا دین سے تعلق ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نشان لگانا​

کے لیے سوّم اور وسم کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: سوّم

سیماء بمعنی علامت، امتیازی نشان۔ اور سوّم بمعنی نشان زدہ کرنا، علامتی نشان لگانا، ایسا نشان کرنا کہ دوسروں سے امتیاز ہو سکے (مف) ارشاد باری ہے:

مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ ؕ وَ مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ بِبَعِیۡدٍ (سورۃ ھود آیت 83)

جن پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کئے ہوئے تھے۔ اور وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔

2: وسم

بمعنی نشان لگنا، داغ لگانا (مف) اور بمعنی جس پر نقش و نگار اور تل وغیرہ کھودنا (م ل) اور وسّم بمعنی خضاب لگانا۔ اور وسام اور وسمہ وہ چیز ہے جس سے داغ لگایا جائے یا رنگا جائے۔ اور وسیم بمعنی خوبصورت (م ق) قرآن میں ہے:

سَنَسِمُہٗ عَلَی الۡخُرۡطُوۡمِ (سورۃ القلم آیت 16)

ہم عنقریب اسکی اونچی ناک پر داغ لگائیں گے۔

ماحصل:

  • سوّم: امتیازی نشان لگانے کے لیے
  • وسم: نقش و نگار بنانے یا خوبصورتی کے لیے نشان یا داغ لگانے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نصیحت – نصیحت کرنا – حاصل کرنا​

کے لیے نصح، ذکّر، وعظ، وصّی، عبرۃ اور اعتبر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نصح

کسی کی خیر خواہی کرنا۔ اور نصیحۃ ہر وہ قول یا فعل ہے جس میں دوسرے کی خیر خواہی مطلوب ہو (مف) ارشاد باری ہے:

وَ لَا یَنۡفَعُکُمۡ نُصۡحِیۡۤ اِنۡ اَرَدۡتُّ اَنۡ اَنۡصَحَ لَکُمۡ اِنۡ کَانَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یُّغۡوِیَکُمۡ ؕ ہُوَ رَبُّکُمۡ ۟ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 34)

اور اگر میں یہ چاہوں کہ تمہاری خیرخواہی کروں اور اللہ یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ رہنے دے تو میری خیر خواہی تم کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

2: ذکّر

ذکر بمعنی یاد کرنا اور یاد آنا (ضد نسی) اور ذکر بمعنی دل میں یا زبان پر کسی چیز کا حاضر ہونا۔ اور تذکرہ بمعنی ہر وہ چیز جس سے اپنی کوئی حاجت یاد آ جائے، سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ، ٹکٹ وغیرہ (منجد) اور قرآن کریم کو بھی ذکر اور تذکرہ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بھی انسان میں بھلائی کے فطری داعیہ اور عہد الست کی یاد دلاتا ہے۔ اور ذکر سے مراد ہر ایسی نصیحت بھی ہے جو اللہ کی یاد کا سبب بنے اور خدا کی یاد تازہ کرنے والی ہر بات ذکر ہے۔ اور ذکّر نصیحت کرنا اور توجہ دلانا کے معنوں میں آتا ہے۔ ذکّر القوم بمعنی اس نے قوم کو نصیحت کی (م ق) ارشاد باری ہے:

وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الذریات آیت 55)

اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔

اور نصیحت قبول کرنے یا حاصل کرنے کے لیے تذکّر آتا ہے۔ جیسے فرمایا:

وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 221)

اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں۔

3: وعظ

بمعنی ایسی بھلائی کی بات کہنا جس سے دل میں رقت پیدا ہو (م ل) ترہیب و ترغیب کے ذریعہ تقوی کی طرف مائل کرنا، زجر و توبیخ جس میں خوف کی آمیزش ہو، خدا کی عقوبت ڈرا کی اجر و ثواب کی تحریص دلانا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 57)

لوگو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت آ پہنچی ہے۔

4: وصّی

الوصیّۃ بمعنی واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنا (مف) قرآن میں ہے:

مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ (سورۃ النساء آیت 12)

یہ تقسیم ترکہ (میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد ہو گا جو اس نے کی یا قرض (ادا کرنے کے ) بعد۔

اور جب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی تاکید کرنا یا حکم کرنا ہو گا۔ جیسے فرمایا:

یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ (سورۃ النساء آیت 11)

اللہ تمہاری اولاد کے بارے (ترکہ کی تقسیم) میں تم کو ارشاد فرماتا ہے۔

5: عبرۃ اور اعتبر

عبور کا لفظ بنیادی طور پر پانی کو پار کرنے کے لیے مختص ہے خواہ تیر کر کیا جائے یا کشتی، جانور یا پل کے ذریعہ۔ اور عبر النّھر وہ جگہ ہے جہاں سے پانی میں اتر کر نہر کو پار کیا جائے۔ اسی چیز سے مشابہت رکھتے ہوئے عبر العین کا معنی ہے آنکھ سے آنسو جاری ہونا (مف) اور عبرۃ بمعنی آنسو (جمع عبرات) اور عبر بمعنی غمزدہ ہونا، آنسو بہانا۔ اور عبر العین بمعنی آنکھوں کا آنسوؤں سے ڈبڈبانا۔ اور عبرۃ بمعنی کسی واقعہ میں غور و فکر سے نصیحت حاصل کرنا۔ کہتے ہیں لک بفلان عبرۃ یعنی اس شخص کے احوال میں غور و فکر کر کے وہ اصل تلاش کرنا جو اس واقعہ کا اصل سبب ہو (منجد) ارشاد باری ہے:

یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ (سورۃ النور آیت 44)

اللہ ہی رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے۔ اہل بصارت کے لئے اس میں بڑی عبرت ہے۔

اور اعتبر بمعنی کسی اندوہناک اور غمزدہ کرنے والے واقعہ میں غور و فکر کر کے اس سے نصیحت حاصل کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ (سورۃ الحشر آیت 2)

تو اے بصیرت کی آنکھیں رکھنے والو عبرت حاصل کرو۔

ماحصل:

  • نصح: کسی کی خیر خواہی کی بات کہنا یا کام کرنا۔
  • ذکّر: ایسی نصیحت جس سے خدا کی یاد تازہ ہو۔
  • وعظ: ترغیب و ترہیب کے ذریعہ نصیحت کرنا۔
  • وصّی: واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنا۔
  • اعتبر: کسی اندوہناک واقعہ کے اسباب میں غور و فکر کر کے نصیحت حاصل کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نعمت​

کے لیے نعمۃ، نعمۃ (ن مفتوحہ) اور الآء (الی) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نعمۃ

بمعنی احسان، نوازش، مہربانی، فضل (منجد) ایسی نوازش جو دوسرے پر کی جائے (فق ل 158) (جمع نعم اور انعم) نعمۃ اسم جنس ہے اور اس لفظ کا اطلاق ہر طرح کی نعمت پر چھوٹی ہو یا بڑی، تھوڑی ہو یا زیادہ سب پر یکساں ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 171)

اور اللہ کے انعامات اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں اور اس سے کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

2: نعمۃ

بمعنی ہر وہ چیز جو معیشت میں اصلاح اور آسودگی کا باعث بنے (م ل) عیش و آرام کا سامان اور اس کے لوازمات۔ ارشاد باری ہے:

وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ (سورۃ الدخان آیت 27)

اور آرام کی چیزیں جن میں وہ عیش کیا کرتے تھے۔

3: الآء

(الی کی جمع) بمعنی نعمت (مف) الی یالؤ بمعنی کمی کرنا، کسر اٹھا رکھنا، کوتاہی کرنا، کسر چھوڑنا (مف، م ل) جیسے فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا (سورۃ آل عمران آیت 118)

مومنو! کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔

اور الاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضروریات مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کم محسوس نہیں ہوتی (فق ل 160) اور یہ بالعموم جمع ہی استعمال ہوتا ہے کیونکہ ایسی نعمت ایک تو ہے نہیں۔ لہذا الاءی آتا ہے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَ الۡاَرۡضَ وَضَعَہَا لِلۡاَنَامِ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ ۪ۙ وَّ النَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَکۡمَامِ وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (سورۃ الرحمن آیت 10 تا 13)

اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی۔ اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جنکے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔ اور اناج جسکے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول۔ تو اے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

ماحصل:

  • نعمۃ: احسان، مہربانی جو دوسرے پر کی جائے۔
  • نعمۃ: آسودگی اور مرفہ الحالی کے لوازمات۔
  • الاء: ضروریات زندگی کے بنیادی لوازمات۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نعمت عطا کرنا​

کے لیے انعم اور نعّم، خوّل، اترف، اغنی اور اقنی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: انعم

بمعنی احسان کرنا، انعام کرنا۔ یہ لفظ غیر انسان کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ انعم علی فرسہ کبھی نہیں آئے گا (م ق) اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے استعمال ہو سکتا ہے (فق ل 158) ارشاد باری ہے:

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (سورۃ الفاتحہ)

ہم کو سیدھے رستے چلا۔ ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا۔

اور نعّم بمعنی کسی کو نعمت سے نوازنا۔ جیسے فرمایا:

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ (سورۃ الفجر آیت 15)

مگر انسان عجیب مخلوق ہے کہ جب اس کا پروردگار اسکو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی۔

2: خوّل

بمعنی عطا کرنا، بخشنا، مالک بنانا (منجد) اور بمعنی حشم و خدم عطا کرنا (مف) ارشاد باری ہے:

وَ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ تَرَکۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰکُمۡ وَرَآءَ ظُہُوۡرِکُمۡ ۚ (سورۃ الانعام آیت 94)

اور جیسا ہم نے تم لوگوں کو پہلی بار پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے تم ہمارے پاس آ گئے۔ اور جو مال و متاع ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے۔

3: اترف

التّرفۃ بمعنی عیش و آرام کی فراوانی، نعمتوں کی کثرت جو انسان کو بہکا دے۔ اور مترف بمعنی وہ آسودہ حال جو کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہو (مف)

وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِیۡہِ وَ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 116)

اور جو ظالم تھے وہ انہی باتوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و آرام تھا اور وہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

4: اغنی (اللہ)

بمعنی اللہ تعالی کا کسی شخص کو اتنا مال و دولت دینا کہ وہ دوسروں کی احتیاج سے بے نیاز ہو جائے۔ عام لفظ ہے۔

5: اقنی

بمعنی غنی کرنا اور راضی کرنا (مف، منجد) یعنی اتنا مال و دولت دینا کہ اس کی احتیاج پوری کرنے کے علاوہ وہ خوش بھی ہو جائے۔ اور بمعنی غنی کرنا پھر اس مال کو بڑھانا، خزانہ عطا کرنا (م ق) اور بعض اہل لغت کے نزدیک اقنی اغنی کی ضد ہے بمعنی مفلس بنا دینا۔ اقنی لغت اضداد سے ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَغۡنٰی وَ اَقۡنٰی (سورۃ النجم آیت 48)

اور یہ کہ وہی دولتمند بناتا اور وہی مفلس کرتا ہے۔

ماحصل:

  • انعم: احسان و اکرام کرنا۔ عام ہے (صرف انسان کے لیے آتا ہے)۔
  • خوّل: جاہ و حشم عطا کرنا۔
  • اترف: آسودہ حالی کی وجہ سے بدمست ہونا۔
  • اغنی: اتنی دولت دینا جو بے نیاز کر دے۔
  • اقنی: غنی کرنا اور راضی کرنا، خزانہ دینا۔ اور بعض کے نزدیک مفلس بنانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نقصان – نقصان ہونا​

کے لیے ضرّ اور ضیر، خسارا، کساد، بخس، بوار اور مغرم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ضرّ

بمعنی تکلیف، نقصان (ضد نفع) عام لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ (سورۃ الاعراف آیت 188)

کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر وہ جو اللہ چاہے۔

اور ضیر کے معنی مضرت، گزند اور نقصان ہے۔ اور امام راغب کے نزدیک ضار اور ضرّہ کے معنی ایک ہی ہیں (مف) قرآن میں ہے:

قَالُوۡا لَا ضَیۡرَ ۫ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 50)

انہوں نے کہا کہ کچھ نقصان کی بات نہیں ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔

2: خسارا

بمعنی راس المال میں کمی واقع ہونا (مف) کسی سودے میں نفع کی بجائے الٹا نقصان ہو جانا، ٹوٹا، گھاٹا (خسر ضد ربح) ارشاد باری ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَمَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ؕ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ اِلَّا مَقۡتًا ۚ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ اِلَّا خَسَارًا (سورۃ الفاطر آیت 39)

وہی تو ہے جس نے تمکو زمین میں پہلے لوگوں کا جانشین بنایا اب جس نے کفر کیا اسکے کفر کا ضرر اسی کو ہے۔ اور کافروں کیلئے انکے کفر سے پروردگار کے ہاں ناخوشی ہی بڑھتی ہے اور کافروں کو ان کا کفر نقصان میں اضافہ ہی کرتا ہے۔

3: کساد

بمعنی کسی چیز کے خریدنے کی رغبت نہ رہنا (م ل) مندا ہونا، تجارت کا مال فروخت نہ ہونا۔ کساد بازاری مشہور لفظ ہے بمعنی بازار کا سرد پڑ جانا۔ قرآن میں ہے:

وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا (سورۃ التوبہ آیت 24)

اور تجارت جس میں مندی سے ڈرتے ہو۔

4: بخس

بمعنی حقیر اور ناقص چیز۔ اور یبخس ظلم سے کوئی چیز کم کرنا (مف) ارشاد باری ہے:

وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ فَمَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخۡسًا وَّ لَا رَہَقًا (سورۃ الجن آیت 13)

اور جب ہم نے ہدایت کی کتاب سنی اس پر ایمان لے آئے سو جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لاتا ہے تو اسکو نہ نقصان کا خوف ہے نہ کسی طرح کے ظلم کا۔

5: بوار

بور اور بوار بمعنی کسی چیز کا بہت زیادہ مندا پڑنا اور ہلاکت کے قریب پہنچنا (مف) خسارہ ہوتے ہوتے آہستہ آہستہ راس المال کا ختم ہو جانا اور تباہ ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ (سورۃ الفاطر آیت 29)

جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت کے فائدے کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہو گی۔

6: مغرم

الغرم وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت (جرم) کا ارتکاب کیے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے، تاوان (مف) اور غرم بمعنی کسی کا قرض ادا کرنا۔ اور غریم بمعنی قرض خواہ بھی اور مقروض بھی (منجد) ارشاد باری ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 60)

صدقات یعنی زکوٰۃ و خیرات تو مفلسوں اور ناداروں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جنکے دل جیتنا منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے

اور مغرم اور غرم دونوں ہم معنی ہیں۔ اور مغرم وہ شخص ہے جس پر تاوان پڑ جائے۔ ارشاد باری ہے:

وۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنٰہُ حُطَامًا فَظَلۡتُمۡ تَفَکَّہُوۡنَ اِنَّا لَمُغۡرَمُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 65، 66)

اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں سو تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ ہائے ہم تو تاوان میں پھنس گئے۔

ماحصل:

  • ضرّا: نقصان، عام ہے۔
  • خسارا: تجارت میں گھاٹا، راس المال میں کم ہونا۔
  • کساد: اشیائے فروختنی کی مانگ کم ہونا یا ختم ہونا۔
  • بخس: اچھی چیز کے بدلے ناقص اور ردی چیز ملنا۔
  • بورا: خسارہ ہوتے ہوتے تباہ ہو جانا۔
  • مغرم: تاوان، جو رقم بلا وجہ ادا کرنی پڑے۔
 
Top