نا امید ہونا
کے لیے یئس اور استایئس، قنط اور ابلس کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔1: یاس
بمعنی قطع الرّجاء (م ل) بمعنی کسی معاملہ کے متعلق امید کا ختم ہو جانا یا مایوس ہو جانا ہے اور یہ کسی آرزو کے وقت سے پہلے بھی ہو سکتی ہے اور بعد میں بھی (فق ل 203) ارشاد باری ہے:
یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 87)
اے بیٹو یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر جاؤ اور یوسف اور اسکے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔
اور استیئس بمعنی کسی معاملہ سے متعلق آہستہ آہستہ توقعات کا ختم ہو جانا ہے۔ تجربہ کے بعد بالآخر مایوس ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:اے بیٹو یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر جاؤ اور یوسف اور اسکے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔
حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنۡ نَّشَآءُ ؕ وَلَا یُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 110)
یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اس میں وہ سچے نہ نکلے تو انکے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا اور ہمارا عذاب اتر کر گناہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا۔
3: قنطیہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی اس میں وہ سچے نہ نکلے تو انکے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا اور ہمارا عذاب اتر کر گناہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا۔
بمعنی بھلائی سے مایوس ہونا، آس توڑ بیٹھنا (ف) اور قنوط بمعنی اشد مبالغۃ من الیاس (فق ل 283) یعنی انتہائی مایوسی کو کہتے ہیں۔ اور قنوط صفت یا قنوطی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ہر معاملہ میں تاریک پلو اور اس کے نقصانات کو مد نظر رکھنے کا عادی ہو اور اچھے پہلوؤں پر کم ہی غور کرتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 49)
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر اسکو تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو جاتا ہے آس توڑ بیٹھتا ہے۔
3: ابلسانسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر اسکو تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو جاتا ہے آس توڑ بیٹھتا ہے۔
بمعنی سخت مایوسی کے باعث غمگین ہونا (مف) اور بمعنی بے خیر ہونا، غمگین اور شکستہ دل ہونا (منجد) جب مایوس ہو جانے کی وجہ سے غم لاحق ہو جائے تو اس لفظ کا استعمال ہو گا۔ اور شیطان کو بھی ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس اور شکستہ دل ہو چکا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمُبۡلِسِیۡنَ (سورۃ الروم آیت 49)
جبکہ وہ اسکے برسنے سے پہلے یقینًا ناامید ہو رہے تھے۔
ماحصل:جبکہ وہ اسکے برسنے سے پہلے یقینًا ناامید ہو رہے تھے۔
- یاس: مایوس ہونا، نا امید کے معنوں میں عام ہے۔
- استایئس: آہستہ آہستہ امید منقطع ہو جانا۔
- قنط: بھلائی کے پہلو سے نا امید ہونا یا رہنا، یا اس سے اگلا درجہ، سخت مایوسی۔
- ابلس: ایسی نا امید جو غم میں مبتلا کر دے۔