مترادفات القرآن (ن)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نکاح کرنا – کرانا​

کے لیے نکح، انکح اور زوّج کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نکح

النکاح وہ عقد ہے جو زوجین میں قرار پاتا ہے (مف) اور اس کا تعلق صرف مکلف مخلوق سے ہے یعنی انسانوں اور جنوں سے۔ اور نکح بمعنی اپنا نکاح کرنا۔ جیسے ارشاد باری ہے:

فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ (سورۃ النساء آیت 3)

تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو

اور انکح بمعنی کسی دوسرے کا نکاح کرنا، یا دوسرے کو نکاح میں دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا (سورۃ البقرۃ آیت 221)

مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا۔

2: زوّج

زوج بمعنی جوڑا، شوہر، بیوی، ساتھی اور زوّج بمعنی جوڑنا بنانا۔ جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے۔ اور حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے (مف) اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر نکاح کے بعد رخصتی نہ ہو تو بھی زوّج استعمال نہ ہو گا۔ لہذا زوّج کا صحیح مفہوم نکاح اور رخصتی یا شادی کرنا اور جوڑا بنانا ہے۔ اور اسی طرح اس کا معنی خود شادی کرنا نہیں بلکہ نکاح میں دینا ہو گا۔ ارشاد باری ہے:

فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ (سورۃ الاحزاب آیت 37)

پھر جب زید نے اس سے تعلق ختم کر لیا یعنی اسکو طلاق دے دی تو ہم نے اسے تمہاری زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنوں پر انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں جب وہ بیٹے ان سے اپنا تعلق ختم کر لیں یعنی طلاق دے دیں کچھ تنگی نہ رہے۔

ماحصل:

نکح صرف مکلف مخلوق کے لیے اور عقد نکاح کے لیے۔ زوّج جوڑا بنانا، عام ہے۔ نیز اس میں نکاح کے ساتھ رخصتی کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔

امام راغب کہتے ہیں کہ اگر زوّج کا صلہ ب سے آئے تو اس کا معنی محض جوڑا بنانا ہے جنسی تعلقات قائم کرنا نہیں۔ اور زوّجناھم بحور عین میں یہی اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ محض رفیق اور ساتھی ہوں گی ورنہ قرآن زوّجنھم بحور کے بجائے زوّجنھم حورا کہتا۔ جیسا کہ زوّجتہ امراۃ محاورہ ہے (مف) واللہ اعلم۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نکلنا​

کے لیے خرج، برز، نفر، غزی، زھق اور نفذ، سلّل، لواذا، دفق، شرق، طلع کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: خرج
نکلنا، باہر آنا (ضد دخل) مشہور لفظ ہے اور اس کا استعمال بھی عام ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِہِمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَکُمۡ وَ لَا نُطِیۡعُ فِیۡکُمۡ اَحَدًا اَبَدًا (سورۃ الحشر آیت 11)
کیا تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کافر بھائیوں سے جو اہل کتاب ہیں کہا کرتے ہیں کہ اگر تم جلاوطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل چلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہا نہ مانیں گے۔
2: برز
بمعنی نکل کر کھلے میدان میں آ جانا، سامنے آنا، گم نامی و پوشیدگی کے بعد ظاہر ہونا (منجد) اور برز بمعنی فضا اور کھلا میدان۔ اور دعوت مبارزت بمعنی میدان جنگ میں کسی شخص کا آگے بڑھ کر دشمن کے کسی آدمی کو مقابلہ کے لیے للکارنا۔ قرآن میں ہے:
وَ لَمَّا بَرَزُوۡا لِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 250)
اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل میں آئے تو اللہ سے دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں لڑائی میں ثابت قدم رکھ اور لشکر کفار پر فتحیاب کر۔
3: نفر
بمعنی کسی مہم یا جنگ پر روانہ ہونا۔ النّفر جنگ جوؤں کا دستہ، تین سے دس تک کی جماعت۔ اور نفیر بمعنی لڑائی کی طرف کوچ کرنے والے لوگ۔ اور نفیر العام بمعنی عوام کا دشمن کے مقابلہ میں اٹھ کھڑا ہونا ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا (سورۃ النساء آیت 71)
مومنو! جہاد کے لئے ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔
4: غزی
(غزو) بمعنی دشمن سے جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلنا (مف) اور بمعنی لڑنے کے لیے نکلنا، لوٹ کے لیے حملہ کرنا۔ اور غزّی بمعنی لڑائی کے لیے روانہ کرنا یا تیار کرنا (منجد) اور غزّی اور اغزی بمعنی لڑائی کے لیے روانہ کرنا اور سامان حرب دینا (م ق) ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ اِذَا ضَرَبُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ کَانُوۡا غُزًّی لَّوۡ کَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَ مَا قُتِلُوۡا ۚ (سورۃ آل عمران آیت 156)
مومنو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور ان کے مسلمان بھائی جب اللہ کی راہ میں سفر کریں اور مرجائیں یا جہاد کو نکلیں اور مارے جائیں تو ان کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔
5: زھق
نکل بھاگنا (مف) زھق النّفس روح کا جسم سے خارج ہونا۔ اور زھق الباطل بمعنی باطل کا فرار ہو جانا (م ل) اور زاھق بمعنی ہزیمت خوردہ، شکت خوردہ، مقابلے میں آ کر شکست کھانے اور نکل بھاگنے والا۔ نیز زھق لغت اضداد سے ہے۔ زاھق بمعنی بہت موٹا جانور بھی اور بہت دبلا اور کمزور جانور بھی (م ا، منجد) لہذا زھق کسی چیز کو شکت دے کر بھگانے یا کمزور و مضمحل کر کے بھگانے دونوں معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 81)
اور کہدو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا بیشک باطل نابود ہونے والا ہے۔
6: نفذ
بمعنی آر پار نکل جانا۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی بات کا اجرا ہونا، کسی چیز کا پھٹ کر بسرعت داخل ہونا اور آر پار ہو جانا (مف) ارشاد باری ہے:
یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ (سورۃ الرحمن آیت 33)
اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تو تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔
7: سلّل
آرام سے چوری چھپے نکل جانا (م ل) کھسک جانا۔
8: لواذا
لاذ بالجبل بمعنی پہاڑ کی اوٹ میں ہونا، چھپنا۔ اور لوذ بمعنی پہاڑ کا کنارا اور ملاذ جائے پناہ یا قلعہ (م ق) لواذا اوٹ کی تلاش میں نکل جانا۔ ارشاد باری ہے:
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 63)
مومنو پیغمبر کے پکارنے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارنے ہو۔ بیشک اللہ کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر کھسک جاتے ہیں۔ تو جو لوگ انکے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انکو ڈرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔
9: دفق
بمعنی کسی چیز کا زور اور قوت سے آگے کو بڑھنا، اچھل کر نکلنا (م ل) ارشاد باری ہے:
فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ (سورۃ الطارق آیت 5، 6)
تو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے۔
10: شرق
شرق بمعنی آفتاب، سورج، سورج نکلنے کی جگہ۔ اور شرق بمعنی دروازے کی دراڑ سے نکلنے والی روشنی۔ اور شرقت الشّمس بمعنی سورج کا نکلنا۔ اور مشرق بمعنی سورج کے نکلنے کی جگہ (منجد) گویا شرق کا لفظ سورج کے نکلنے یا طلوع ہونے سے مخصوص ے یا کسی ایسی چیز سے جو عام سیاروں سے بہت زیادہ روشن و منور ہو۔ جیسے ارشاد باری ہے:
وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 69)
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال کی کتاب کھول کر رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور دوسرے گواہ حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا اور انکے ساتھ بے انصافی نہیں کی جائے گی۔
اور اشرق طلوع آفتاب کے وقت کوئی کام کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَتۡبَعُوۡہُمۡ مُّشۡرِقِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 60)
تو انہوں نے سورج نکلتے وقت انکا تعاقب کیا۔
11: طلع
عام سیارات وغیرہ کا طلوع ہونا (منجد اور ان میں سورج بھی شامل ہے۔ گویا طلع کا لفظ عام ہے۔ جبکہ شرق صرف سورج کے نکلنے کے لیے آتا ہے۔ بنی نجار کی لڑکیاں رسول اللہ ﷺ کی آمد پر جو گیت گاتی تھیں اس کا پہلا مصرع یہ تھا:
طلع البدر علینا​
قرآن میں سیاروں کے نمودار ہونے کے لیے طلع کا لفظ نہیں آیا۔ البتہ فجر کے متعلق آیت ہے (یا پھر سورج کے متعلق) اور فجر کی روشنی سورج سے بہرحال بہت کم ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ (سورۃ القدر آیت 5)
یہ رات طلوع فجر تک امن و سلامتی ہے۔
ماحصل:
  • خرج: نکلنا۔ عام استعمال ہے۔
  • برز: میدان میں نکلنا، سامنے آ جانا۔
  • نفر: جنگی یا کسی مہم پر نکلنا۔
  • غزی: یہ لفظ جہاد پر روانہ نے کے لیے مخصوص ہے۔
  • زھق: ہزیمت خوردہ یا مضمحل ہو کر نکل بھاگنا۔
  • نفذ: آر پار نکل جانا۔
  • سلّل: کھسک جانا
  • لاذ: اوٹ کی تلاش میں نکلنا۔
  • دفق: قوت اور زور سے آگے بڑھنا، اچھل کر نکلنا۔
  • شرق: سورج کا نکلنا۔
  • طلع: نجوم و کواکب (سورج سمیت) کا نکلنا۔ عام ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نکالنا​

کے لیے اخرج، برّز اور طرد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اخرج

نکالنا، اس کا استعمال عام ہے۔

اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ وَ لَا تَضُرُّوۡہُ شَیۡئًا ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ التوبہ آیت 39)

اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا اور تم اسکو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

2: برّز

بمعنی سامنے لانا (تفصیل اوپر دیکھیے) قرآن میں ہے:

وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِمَنۡ یَّرٰی (سورۃ النازعات آیت 36)

اور دوزخ دیکھنے والے کے سامنے لا کر رکھ دی جائے گی۔

3: طرد

کسی کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر دور کر دینا، ہٹا دینا (مف) سختی سے دفع کرنا (ف ل 188) ارشاد باری ہے:

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 52)

اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہیں اور اسکی توجہ کے طالب ہیں انکو اپنے پاس سے مت نکالو۔ انکے حساب اعمال کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں۔ پس ایسا نہ کرنا اگر انکو نکالو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔

ماحصل:

  • اخرج: نکالنا کے لیے عام ہے۔
  • برّز: کسی چیز کو نکال کر سامنے کھلی جگہ میں لے آنا۔
  • طرد: حقیر و ذلیل سمجھ کر کسی کو نکال دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نگاہ​

کے لیے بصر اور طرف کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: بصر

بمعنی آنکھ اور آنکھ کا عمل یعنی نظر یا نگاہ اور دیکھنا بھی ہے۔ اور اس لفظ سے صرف دیکھنے کا عمل واضح ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ (سورۃ ق آیت 22)

یہ وہ دن ہے کہ اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔ اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔

2: طرف

کا اصل معنی کسی چیز کا کنارا یا اس کی حد ہے۔ طرف العین بمعنی آنکھ کی جھپک اور طرفۃ عین بمعنی اتنا عرصہ یا وقفہ یا مدت جو ایک بار آنکھ جھپکنے میں لگتا ہے۔ گویا طرف میں دیکھنے کے عمل کی وضاحت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ انتہائی قلیل مدت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ ؕ (سورۃ النمل آیت 40)

ایک شخص جسکو کتاب الہٰی کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپکی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں۔

پھر یہ لفظ اپنے کثرت استعمال سے بصر کا ہم معنی بن گیا جیسے طرف خفیّ دزدیدہ نگاہ۔ اور قصرت الطّرف (سورۃ الصافات آیت 48) بمعنی نگاہیں نیچی رکھنے والیاں۔

ماحصل:

بصر کا لفظ نظر یا نگاہ کے لیے عام ہے جبکہ طرف کا لفظ آنکھ جھپکنے کی قلیل مدت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

نگاہ – نگاہ ڈالنا کے لیے دیکھیے "دیکھنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نگہبان​

کے لیے حافظ اور حفیظ، رقیب، مقیت (قوۃ) حرس اور مھیمن (ھمن) کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: حافظ

احفظ (ضد اضاع) بمعنی کسی چیز کو ضائع ہونے اور تلف ہونے سے بچانا (منجد)، نگہبانی کرنا (م ا) کسی چیز کو بیرونی خطرات سے بچانے کی کوشش کرنا۔ اور حافظ اسم فاعل ہے بمعنی حفاظت کرنے والا اور حفیظ میں مبالغہ پایا جاتا ہے یعنی ہر آن حفاظت کرنے والا ارشاد باری ہے:

قَالَ ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ فَاللّٰہُ خَیۡرٌ حٰفِظًا ۪ وَّ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 64)

یعقوب نے کہا کہ میں اسکے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا ہی جیسا پہلے اسکے بھائی کے بارے میں کیا تھا سو اللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ (سورۃ ھود آیت 86)

اگر تم کو میرے کہنے کا یقین ہو تو اللہ کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لئے بہتر ہے اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔

2: رقیب

رقبۃ بمعنی گردن۔ اور رقب بمعنی کسی گردن پر نظر رکھنا یا اس کی نگرانی اور نگہبانی کرنا (مف) اور رقبۃ بمعنی احتیاط، نگہبانی، بچاؤ اور خوف ہے (منجد) لہذا رقیب کے معنی ایسا نگہبان ہے جو خود بھی ہر وقت چوکس رہے اور جس پر رقیب ہے اس کا کوئی فعل اس سے مخفی نہ رہے (فق ل 170) قرآن میں ہے:

مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ۚ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ (سورۃ المائدۃ آیت 117)

میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اسکے جس کا تو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ اور جب تک میں ان میں رہا ان کے حالات کی خبر رکھتا رہا پھر جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تُو ہی انکا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔

3: مقیت

(قوۃ) قات بمعنی روزی دینا، رزق دینا، کفالت کرنا۔ اور اقات بمعنی قدرت رکھنا، حفاظت کرنا، روزی عطا کرنا۔ اور مقیت بمعنی صاحب اقتدار، نگران و محافظ (منجد) گویا مقیت ایسا نگران ہے جو صاحب اقتدا بھی ہو۔ اور ابن الفارس کے نزدیک مقیت میں تین چیزیں پائی جاتی ہے (1) کسی چیز پر قدرت (2) حفاظت اور (3) امساک (م ل) یعنی مقیت وہ مقتدر ہستی ہے جو حفاظت کرنے پر پوری قوت رکھتا ہو۔ ارشاد باری ہے:

مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ کِفۡلٌ مِّنۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقِیۡتًا (سورۃ النساء آیت 85)

جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس کے ثواب میں سے حصہ ملے گا۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس کے عذاب میں سے حصہ ملے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

4: حرس

حرس بمعنی حفاظت میں لینا، حراست میں لینا، پہرہ لگانا، ملزم کی نگرانی کرنا۔ اور ابن فارس کے نزدیک حرس میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) حفاظت (2) زمانہ (م ل، فق ل 169) یعنی کچھ مدت کے لیے نگرانی کرنا۔ اور حرس الملک بمعنی شاہی محافظ، باڈی گارڈ (منجد) قرآن میں ہے:

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا (سورۃ الجن آیت 8)

اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسکو مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہوا پایا۔

5: مھیمن

ابن الفارس اور بعض دوسرے اہل لغت اسے امن کے تحت لائے ہیں یعنی امن دینے والا (م ل) اور ھیمن الطّائر علی فراخہ بمعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچے پر بچھا دئیے۔ اور مھیمن وہ ہے جو (1) کسی کو خوف سے امن دے (2) کسی کا حق ضائع نہ ہونے دے (م ا) قرآن میں یہ لفظ دو بار استعمال ہوا ہے اور ان دونوں معنوں میں آیا ہے۔ ارشاد باری ہے:

1: بمعنی پناہ میں لینا

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 23)

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ حقیقی ہر عیب سے پاک سلامتی دینے والا امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔

2: حق ضائع نہ ہونے دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ (سورۃ المائدۃ آیت 48)

اور اے پیغمبر ہم نے تم پر سچّی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان سب پر نگہبان ہے تو جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اسکے مطابق ان کا فیصلہ کرنا

ماحصل:

  • حافظ: کسی چیز کو تلف ہونے سے بچانے والا۔
  • رقیب: جو محافظ خود بھی چوکس رہتا ہو اور دوسری چیز کی ہر ہر حرکت سے آگاہ بھی رہے۔
  • مقیت: پہرہ دار، چوکیدار، حراست میں لینے والا، حفاظت، زمانہ۔
  • مھیمن: اپنی پناہ میں لے کے حفاظت کرنے والا، حفاظت، تدبیر۔
نیز دیکھیے "حفاظت کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نگلنا​

کے لیے بلع، مرء، ساغ، غصّ، لقف اور التقم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بلع

بلعم یا بلعوم بمعنی حلق، کھانا کھانے کی نالی۔ اور بلع بمعنی نگلنا، حلق سے نیچے اتارنا (مف) ارشاد باری ہے:

وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ (سورۃ ھود آیت 44)

اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔

2: مرء

المرئ اس نالی کو کہتے ہیں جو حلق سے معدہ تک جاتی ہے جس کے ذریعہ کھانا معدہ میں پہنچتا ہے۔ اور مرء بمعنی کھانا بسہولت اس نالی سے معدہ تک پہنچ گیا (مف) اور مریئا وہ کھانا جو بسہولت معدہ تک پہنچ جائے، انجام بخیر (فق ل 245) ارشاد باری ہے:

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا (سورۃ النساء آیت 4)

اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے مزے سے کھا لو۔

3: ساغ

بمعنی کھانے یا پینے کا آرام سے گلے سے نیچے اتر جانا اور خوشگوار ہونا (منجد) قرآن میں ہے:

وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ (سورۃ النحل آیت 66)

اور تمہارے لئے چوپایوں میں بھی مقام عبرت و غور ہے کہ انکے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس کے درمیان سے نکال کر ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔

اور اساغ بمعنی کھانے یا پینے کی چیز کو حلق سے نیچے اتارنا۔ ارشاد باری ہے:

یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیۡغُہٗ وَ یَاۡتِیۡہِ الۡمَوۡتُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ہُوَ بِمَیِّتٍ ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیۡظٌ (سورۃ ابراہیم آیت 17)

وہ اسکو گھونٹ گھونٹ کر کے پئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکے گا اور ہر طرف سے اسے موت آ رہی ہو گی مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا اور اسکے بعد سخت عذاب ہو گا۔

4: غصّ

بمعنی کھانے یا پانی سے گلے میں پھندا لگنا (منجد) کھانے کا گلے میں اٹک جانا اور نگل نہ سکنا۔ ارشاد باری ہے:

وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا (سورۃ مزمل آیت 13)

اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور درد دینے والا عذاب ہے۔

5: لقف

بمعنی کسی چیز کو جلدی سے لے لینا۔ اور لقف الطّعام بمعنی جلدی جلدی کھانا (منجد) کسی چیز کو کمال اور ہوشیاری سے لے لینا۔ اور یہ ہاتھ اور منہ میں لینے کے لیے استعمال ہوتا ہے (مف) بمعنی جلدی سے کھانا، نگلنا (م ق) ارشاد باری ہے:

وَ اَلۡقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا ؕ اِنَّمَا صَنَعُوۡا کَیۡدُ سٰحِرٍ ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی (سورۃ طہ آیت 69)

اور جو چیز یعنی لاٹھی تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے اسے ڈالدو کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے اسکو وہ نگل جائے گی جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ تو جادوگروں کے ہتھکنڈے ہیں اور جادوگر جہاں بھی جائے کامیاب نہیں ہو گا۔

6: التقم

لقم بمعنی لقمہ بنانا، ایک بار جتنی خوراک منہ میں جا سکتی ہے۔ ہاتھ سے منہ میں ڈالنا (م ل) اور التقم بمعنی جلدی سے ہڑپ کر لینا (منجد) اور بمعنی بڑے بڑے لقمے بنانا کر ہڑپ کر جانا (مف) ارشاد باری ہے:

فَالۡتَقَمَہُ الۡحُوۡتُ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ (سورۃ الصافات آیت 142)

پھر مچھلی نے انکو نگل لیا جبکہ وہ اپنے آپکو ملامت کرنے والے تھے۔

ماحصل:

  • بلع: نگلنا، حلق سے اتارنا، عام استعمال ہے۔
  • مرء: کسی چیز کا بسہولت معدہ تک پہنچ جانا۔
  • ساغ: کسی چیز کا خوشگوار ہونے کی وجہ سے بسہولت معدہ میں اتر جانا۔
  • غصّ: کھانے کا گلے میں پھندا لگنا۔
  • لقف: جلدی جلدی کھانا، چبائے بغیر نگل جانا۔
  • التقم: ہڑپ کر جانا، بڑے بڑے لقمے بنانا یا ایک ہی دفعہ نگل جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نہانا – دھونا​

کے لیے غسل اور اغتسل اور طھّر اور اطّھر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: غسل

بمعنی کسی چیز کو دھونا اور میل کچیل دور کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 6)

مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسحح کر لیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو

اور اغتسل بمعنی پورے بدن کو میل کچیل سے صاف کرنا یا نہانا ہے۔ ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ (سورۃ النساء آیت 43)

مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک ان الفاظ کو جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو۔ نماز کے پاس نہ جاؤ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ کہ غسل کر لو۔

2: طھّر

طھرت کی ضد طمثت ہے یعنی عورت کا حیض والا ہونا۔ اور طھرت بمعنی حیض سے فارغ ہونا اور نہا کر پاک ہونا ہے۔ اور طھّر کا لفظ غسل سے بہت زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ طہارت تین طریقے پر ہے۔ طہارت ظاہری، حکمی اور قلبی۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ اگر کپڑے پر پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو کپڑا میلا نہیں ہوتا لیکن ناپاک ضرور ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ (سورۃ مدثر آیت 4)

اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

گویا طھّر سے مراد کپڑوں کو میل کچیل سے صاف کرنا بھی اور نجاست سے پاک کرنا بھی۔ اور یہی فرق اطّھر بمعنی نہانا اور اغتسل بمعنی نہانا میں ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نہیں​

کے لیے بہت قسموں کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

ا) لیس

فعل ناقص ہے۔ اس کا صرف ماضی ہی آتا ہے اور پورے صیغے استعمال ہوتے ہیں اور ماضی اور حال دونوں معنی دیتے ہیں۔ مثلاً لست بمعنی نہیں ہے تو، یا نہیں تھا تو اور لسنا بمعنی نہیں ہیں ہم یا نہیں تھے ہم۔

ب) لا، لم اور لن

یہ تین حروف ایسے ہیں جو مضارع پر داخل ہو کر اسے منفی بنا دیتے ہیں۔ لا کا عمل تو محض منفی بنانے کا ہے۔ جیسے لا یضرب وہ نہیں مارتا یا مارے گا۔ اور لم داخل ہو تو منفی بنانے کے ساتھ ساتھ ماضی میں بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ جیسے لم یضرب بمعنی اس نے نہ مارا۔ اور لن منفی بنانے کے ساتھ ایک تو اسے مستقبل کے لیے مخصوص کر دیتا ہے دوسرے نفی کی تاکید کرتا ہے۔ جیسے لن یضرب بمعنی وہ ہرگز نہ مارے گا۔

ج) ان، ما اور ھل

یہ تین حروف ایسے ہیں جن کے اپنے معنی تو کچھ اور ہیں مگر ان کی بعد اگر الّا آئے تو ان کے معنی کو "نہ " یا "نہیں" میں بدل دیتے ہیں۔ جیسے ان انتم الّا تکذبون (سورۃ یس آیت 15) بمعنی نہیں ہو تم مگر جھٹلاتے، یعنی تمہارا تو کام ہی جھٹلانا ہے۔ اسی طرح ما من الہ الّا اللہ یعنی ہے کوئی معبود مگر اللہ اور ھل کنت الّا بشرا رسولا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 93) یعنی نہیں ہوں مگر پیغام پہنچانے والا انسان۔

د) اور "نہ یا نہیں" کے لیے مندرجہ ذیل حروف مستقل حیثیت سے آتے ہیں۔ لا، لمّا، بلی، کلّا، انّما، ما (نافیہ) اور لات۔

1: لا

کثیر الاستعمال ہے۔ مثبت کلام کے نفی میں جواب کے لیے، عطف کے لیے اور تکرار کے لیے آتا ہے۔ جیسے:

فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی (سورۃ القیامۃ آیت 31)

پھر ایسے مغرور نے نہ تو پیغمبر ﷺ کو سچا جانا اور نہ نماز پڑھی۔

(تفصیل کسی گرامر کی کتاب میں دیکھیے)

2: لمّا

بالعموم ماضی میں کسی واقعہ کی نفی کے لیے آتا ہے (مف) بمعنی ابھی تک نہ یا نہیں۔ قرآن میں ہے:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ (سورۃ التوبہ آیت 16)

کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ بے آزمائش چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی تو اللہ نے تم میں سے ایسے لوگوں کو پرکھا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا

(مزید تفصیل کے لیے کسی گرامر کی کتاب کی طرف رجوع فرمائیے)

3: بلی

جب سوال منفی میں ہو اور جواب میں اس منفی کی تردید بھی مقصود ہو اور جواب مثبت کلام میں دینا ہو تو بلی استعمال ہو گا۔ بمعنی "کیوں نہیں" قرآن میں ہے:

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 172)

اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی انکی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود انکے مقابلے میں اقرار کرا لیا یعنی ان سے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اسکی خبر ہی نہ تھی۔

4: کلّا

بمعنی ہرگز نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا یہ صرف سابق کلام سے روکنے اور تنبیہ کے لیے مستعمل ہے۔ کلام سابق کو باطل کرنے کے لیے آتا ہے (م ق، منجد) ارشاد باری ہے:

عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ ۙ ثُمَّ کَلَّا سَیَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ النبا آیت 1 تا 5)

یہ لوگ کس چیز کی نسبت ایکدوسرے سے پوچھتے ہیں؟ کیا اس بڑی خبر کی نسبت؟ جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ دیکھو یہ عنقریب جان لیں گے۔ پھر دیکھو یہ عنقریب جان لیں گے۔

5: انّما

بمعنی سوائے اس کے نہیں، اس کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں۔ کلمۂ حصر ہے جو کسی مقصد کو مقید کر دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا (سورۃ الکہف آیت 110)

کہدو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ البتہ میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔

6: ما

کئی طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ جب دعوے کا جواب ہو تو "نہیں" کے معنی دیتا ہے (فق ل 257) اس صورت میں اسے ما نافیہ کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

وَ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 31)

اور بیساختہ بول اٹھیں کہ اللہ پاک ہے یہ آدمی نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔

7: لات

یہ لیس کے معنی میں آتا ہے اور اہل یمن کی بلاغت سے شمار ہوتا ہے (لا کے بعد ت زائد) اور اس کا اسم محذوف ہوتا ہے (منجد) ارشاد باری ہے:

کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ فَنَادَوۡا وَّ لَاتَ حِیۡنَ مَنَاصٍ (سورۃ ص آیت 3)

ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا تو وہ عذاب کے وقت لگے فریاد کرنے اور وہ چھٹکارے کا وقت نہیں تھا۔

یہاں لات حین مناص کے بجائے لات الحین حین مناص تھا۔ پہلا حین حذف ہو گیا (جامع البیان)۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نیا – نیا ہونا​

کے لیے حدث، جدّ اور بدع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حدث

(حدث ضد عدم) اور حدث بمعنی کسی نئی بات یا چیز کا ظہور میں آنا۔ اور حدیث سے مراد ہر وہ بات ہے جو پہلے نہ ہو اور از سر نو وجود میں آئے، نئی بات یا نئی چیز یا ایسی بات جو نئی تو نہ ہو مگر لوگ اسے بھول جائیں اور از سر نو سامنے آئے۔ ارشاد باری ہے:

لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا (سورۃ الطلاق آیت 1)

اے طلاق دینے والے تجھے کیا معلوم شاید اللہ اسکے بعد رجعت کی کوئی سبیل پیدا کر دے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "قرآن کے مختلف نام"۔

2: جدّ

جدید بمعنی نئی چیز اور جدّ کا لفظ کئی معنوں میں آتا ہے (1) بمعنی صاحب عظمت ہونا (2) صاحب حظ اور خوش نصیب ہونا (3) نیا ہونا۔ جب اس کے معنی نیا ہونا ہو تو اس سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کی نظیر پہلے موجود ہو، اور وہ چیز قابل استعمال ہو اور استعمال کے بعد پرانی، بوسیدہ اور پھر نا قابل استعمال ہو جائے، مثلاً نئی قمیص۔ ارشاد باری ہے:

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (سورۃ ق آیت 15)

تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

3: بدع

بمعنی (1) کسی چیز کی ابتدا کرنا اور (2) کوئی ایسی چیز بنانا جس کی مثال یا نمونہ پہلے موجود نہ ہو (م ل) اسی لحاظ سے اللہ تعالی کا نام بدیع ہے یعنی پہلی بار پیدا کرنے والا۔ اور بدعا بمعنی کسی چیز یا سلسلہ کا آغاز کرنے والا۔ ارشاد باری ہے:

قُلۡ مَا کُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ مَا یُفۡعَلُ بِیۡ وَ لَا بِکُمۡ ؕ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ الاحقاف آیت 9)

کہدو کہ میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو اعلانیہ خبردار کرنا ہے۔

ماحصل:

  • حدث: کسی چیز کا عدم سے وجود میں آنے کی حیثیت سے نیا ہونا۔ مثلاً ساری مخلوق حادث ہے۔
  • جدید: کوئی چیز جو نئی ہو اور اس کی نظیر پہلے موجود ہو۔
  • بدعا: نظیر رکھنے والی اشیا میں سے سب سے پہلی چیز۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نیچے​

کے لیے تحت اور اسفل اور اس کے مشتقات قرآن میں آئے ہیں۔

1: تحت

اسم ظرف ہے اور اس کی ضد فوق بمعنی اوپر ہے۔ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ مِنۡہُمۡ اُمَّۃٌ مُّقۡتَصِدَۃٌ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ سَآءَ مَا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 66)

اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو اور کتابیں ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم کرتے تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔ ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔

2: اسفل

بمعنی نچلا (ضد اعلی) اس لفظ کا استعمال دو طرح پر ہے (1) ایک ہی چیز کے نچلے حصے کو اسفل اور اوپر کے حصہ کو اعلی کہتے ہیں جیسے اسفلہ اغلظ من اعلاہ یعنی اس چیز کا نچلہ حصہ اوپر والے حصہ سے سخت ے۔

مرتبہ اور قدر منزلت کی بلندی کے لیے اعلی کا لفظ آتا ہے۔ پستی اور کہتری کے لیے اسفل (مونث سفلی)۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

الید العلیا خیر من ید السفلی

یعنی اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

اس حدیث میں علیا اور سفلی معنوی لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں یعنی خیرات کرنے والا ہاتھ اور لینے والے سے بہتر ہے۔ اور قرآن میں ہے:

وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 40)

اور کافروں کی بات کو پست کر دیا اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔

اور سافل بمعنی قدر منزلت کے لحاظ سے فروتر، پست اور حقیر۔ اور السّفلۃ بمعنی کمینے لوگ (مف) ارشاد باری ہے:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ (سورۃ التین آیت 4، 5)

کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسکی حالت کو بدل کر پست سے پست کر دیا۔

ماحصل:

  • تحت: بمعنی نیچے، اسم ظرف ہے۔
  • اسفل، سافل: کسی چیز کا نچلا حصہ یا قدر و منزلت میں پست، نیچے، فروتر، کمتر۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نیچے کرنا – رکھنا – پست کرنا​

کے لیے خفض، غضّ، قصر اور خشع کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: خفض

بمعنی پست کرنا، جھکانا (ضد رفع) خافض اور رافع دونوں اللہ تعالی کے نام ہیں۔ یعنی کسی کو نیچے کر دینے والا اور کسی کو سر بلند کر دینے والا۔ خفض الصّوت اس نے آواز کو دھیما کیا اور خفض الجناح بمعنی بازو نیچے رکھنا، جھکانا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 24)

اور عجزونیاز سے انکے آگے جھکے رہو اور انکے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں شفقت سے پرورش کیا ہے تو بھی انکے حال پر رحمت فرما۔

2: غصّ

نظر یا آواز کو نیچے رکھنے یا پست کرنے کے لیے آتا ہے۔ غضّ صوتہ اس نے آواز کو پست کیا اور غضّ بصرہ اس نے نگاہ کو نیچے رکھا یا ناجائز چیز سے نگاہ کو روکا۔ ارشاد باری ہے:

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ (سورۃ النور آیت 31)

اور مومن عورتوں سے کہدو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ (سورۃ لقمان آیت 19)

اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور بولتے وقت ذرا آواز نیچی رکھنا کیونکہ بہت اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں کہ سب سے بری آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔

3: قصر

بمعنی کسی چیز کی لمبائی یا اس کی انتہا کو نہ پہنچنا (مف، م ل) کم کرنا، چھوٹا کرنا، کوئی کام جتنا چاہیے تھا اتنا نہ کرنا۔ جیسے صلوۃ القصر اور قصر الطّرف بمعنی نگاہ جتنی دور تک جا سکتی ہے اتنا نہ دیکھنا بلکہ صرف نیچے نظر رکھنا۔ ان معنوں میں یہ لفظ نگاہوں کے لیے مخصوص ہے۔ قرآن میں ہے:

وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ (سورۃ الصافات آیت 48)

اور انکے پاس حوریں ہوں گی جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں گی اور آنکھیں بڑی بڑی۔

4: خشع

دراصل ایسے ڈر کو کہتے ہیں جس کے اثرات اعضا و جوارح پر بھی ظاہر ہونے لگیں (مف) اور یہ اثرات چہرہ، آواز یا آنکھوں سے ہی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ لہذا ان کے نیچے رکھنے کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور نگاہ اور آواز کے لیے غضّ کا لفظ بھی آتا ہے ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر عام حالات میں ہو تو غضّ استعمال ہو گا اور اگر ڈر کی وجہ سے ہو تو خشع آئے گا۔ ارشاد باری ہے:

1: نگاہ کے لیے

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ ذٰلِکَ الۡیَوۡمُ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ (سورۃ المعارج آیت 44)

ان کی آنکھیں جھک رہی ہوں گی اور ذلت ان پر چھا رہی ہو گی۔ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

2: آواز کے لیے

یَوۡمَئِذٍ یَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہٗ ۚ وَ خَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا ہَمۡسًا (سورۃ طہ آیت 108)

اس روز لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے اور اسکی پیروی سے انحراف نہ کر سکیں گے اور رحمٰن کے سامنے آوازیں پست ہو جائیں گی تو تم ایک ہلکی آواز کے سوا کوئی آواز نہ سنو گے۔

3: چہرہ کے لیے

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ (سورۃ الغاشیہ آیت 2)

اس روز بہت سے چہرے اترے ہوئے ہوں گے۔

ماحصل:

  • خفض: کسی چیز کا دب جانا یا دبانا، نظر یا بازو یا پہلو کو نیچے کرنا یا جھکانا۔
  • غضّ: نگاہ اور آواز کی پستی کے لیے (عام حالات میں)۔
  • قصر: نگاہ کو محدود رکھنا، پوری نگاہ کا استعمال نہ کرنا۔
  • خشع: آنکھ، آواز یا چہرہ کی اس پستی کے لیے جس کی وجہ سے خشیت ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نیک – نیک بخت​

کے لیے صالح، ابرار اور بررۃ، رشید، سعید اور متقین (وقی) ربانیون کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: صالح

صلح بمعنی بگاڑ کو درست کرنا اور اس کی ضد فسد ہے (م ل) اور صالح بمعنی اپنے آپ کو سنوارنے والا، اصلاح نفس کرنے والا (مف) اچھے اعمال کو اپنانے اور برے اعمال کو تک کرے اور اپنی اصلاح میں کوشاں رہنے والا۔ قرآن میں ہے:

وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ (سورۃ الکہف آیت 82)

اور وہ جو دیوار تھی سو دو یتیم لڑکوں کی تھی جو شہر میں رہتے تھے اور اسکے نیچے انکا خزانہ دفن تھا اور انکا باپ ایک نیک آدمی تھا۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 56)

اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف رکھتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔

2: ابرار

(بار کی جمع) برّ بمعنی وسیع پیمانے پر نیکی کرنا (مف) برّ دراصل نیکی کو نہیں بلکہ ہر دم نیکی پر مائل رہنے والی خصلت کو کہتے ہیں (ضد اثم) ارشاد باری ہے:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ آل عمران آیت 92)

مومنو! جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

اور برّ اور بارّ وہ شخص ہے جس کی طبیعت ہر وقت نیکی کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ اور موقع ملنے پر وہ ایسا نیک کام کر بھی لے۔ اور حج مبرور اس حج کو کہتے ہیں جو سنت نبوی ﷺ کی مطابق ٹھیک ٹھک ادا کیا جائے اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ ہو۔ قرآن میں ہے:

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا (سورۃ مریم آیت 14)

اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔

3: بررۃ

برّ کی جمع ہے اور بارّ سے زیادہ ابلغ ہے اور اس میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:

بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ (سورۃ عبس آیت 15، 16)

ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ جو بلند مرتبہ اور نیکو کار ہیں۔

4: رشید

رشد بمعنی استقامہ الطریق (م ل) یعنی راستے پر ٹھیک طرح سے چلتے جانا یا سیدھی راہ پر گامزن رہنا اور اس کی ضد غیّ ہے۔ بمعنی کسی غلط راستے پر جا پڑنا۔ ارشاد باری ہے:

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ (سورۃ البقرۃ ایت 256)

دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔

اور رشید بمعنی ہدایت یافتہ جو اچھی عادات و اطوار والا ہو، نیک چلن۔ قرآن میں ہے:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ فِیۡ ضَیۡفِیۡ ؕ اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ (سورۃ ھود آیت 78)

تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟

5: سعید

وہ شخص جو فطرتا نیک ہو، یعنی نیک بخت اور اس کی ضد شقی ہے بمعنی بد بخت اور سعد بمعنی خوش نصیبی۔ اور حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لیے ممد و معاون ہونا ہے (مف، م ل) ارشاد باری ہے:

یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ (سورۃ ھود آیت 105)

جس روز وہ آجائے گا تو کوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔

6: متقین یا متقون

(متقی کی جمع) وقی بمعنی کسی چیز کو نقصان دہ چیز سے بچانا (مف) اور اتّقی تقوی (ضد عدوان) بمعنی خدا (کے عذاب) سے ڈر کر گناہ کے کاموں سے بچنا یا پرہیز کرنا۔ اور متّقی بمعنی پرہیزگار، اللہ کے خوف سے اس کے اوامر و نواہی کا خیال رکھنے والا (منجد) قرآن میں ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 177)

یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچّے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔

7: ربّانی

امام راغب نے اس لفظ پر بہت بحث کی ہے۔ بعض علماء اس کا معنی علم کی پرورش کرنے والا لکھتے ہیں۔ بعض دوسرے اسے ربّ سے منسوب کرتے ہیں کہ جیسے جسم سے جسمانیّ ہے۔ ویسے ہی ربّ سے ربّانی ہے۔ اور اس کا معنی ہے اللہ والا، درویش اور صاحب منجد نے اس کے دونوں معنی لکھ دئیے ہیں با عالم بھی اور اہل اللہ، عارف باللہ بھی۔ بہرحال دوسرا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن میں ربانیون کے ساتھ ہی احبار (علماء) کا لفظ الگ آیا ہے (سورۃ المائدۃ آیت 44) اسی طرح قرآن میں ایک جگہ ربّیّون کا لفظ آیا ہے (سورۃ آل عمران آیت 45) اس کا بھی یہی مطلب ہے۔ ارشاد باری ہے:

لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 63)

بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتیں کہنے اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں۔

ماحصل:

  • صالح: اصلاح نفس کرنے والا اور ہر طرح کا بگاڑ درست کرنے والا۔
  • ابرار: (بار) وہ شخص جو ہر وقت نیک کام کرنے پر آمادہ ہو، بکثرت نیک کام کرنے والا۔
  • بررۃ (برۃ): اس میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے۔
  • رشید: اچھی عادات و اطوار والا، نیک چلن۔
  • سعید: فطرتا نیک سرشت، نیک بخت۔
  • متقی: خدا کے خوف سے گناہ کے کاموں سے پرہیز کرنے والا، پرہیز گار۔
  • ربانی: درویش، اللہ والے لوگ، عابد و زاہد قسم کے مشائخ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

نیکی – نیک کام​

کے لیے عرف اور معروف، حسنۃ، خیر اور برّ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: عرف اور معروف

عرف بمعنی کسی چیز کو پہچاننا اور اس کی ضد نکر ہے۔ بمعنی کسی چیز کا اچنبھا ہونا۔ اور معروف اور عرف ہر وہ بات ہے جسے معاشرہ کے اچھے لوگ اچھا خیال کرتے ہوں، معاشرہ کا اچھا دستور، بھلے مانس لوگوں کے طریقے، ملکی دستور، جو پسندیدہ سمجھا جاتا ہو۔ جیسے بڑوں کے سامنے با ادب بیٹھنا اور انہیں جی کہہ کر پکارنا وغیرہ۔ ارشاد باری ہے:

خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 199)

اے نبی عفو و درگذر اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کر لو۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 104)

اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔

2: حسنۃ

(جمع حسنات) ہر خوش کن اور پسندیدہ کام جو عقل اور شریعت کے مطابق ہو (ضد سیئۃ جمع سیئات) ارشاد باری ہے:

وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ (سورۃ ھود آیت 114)

اور دن کے دونوں سروں یعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ انکے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔

3: خیر

(جمع خیرات) (ضد شرّ) کسی نیکی کا اپنے کمال کو پہنچنا، ایسے کام جن کا عوام الناس کو فائدہ پہنچے (مف)، بڑی نیکیاں، نیکی کے بڑے بڑے کام۔ نیز خیر بمعنی وہ کام جو سب کو مرغوب ہو (مف) مثلاً مسافروں کے لیے راستہ میں پانی کا انتظام کر دینا وغیرہ۔ ارشاد باری ہے:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 104)

اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔

4: برّ

بمعنی طبیعت کا ہر نیک کام کی طرف میلان رہنا اور موقع آنے پر اسے سر انجام دینا (ضد اثم) (تفصیل اوپر نیک بخت میں دیکھیے) ارشاد باری ہے:

وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ (سورۃ المائدۃ آیت 2)

اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کرو

ماحصل:

  • عرف اور معروف: معاشرے کے اچھے دستور، بھلے کام۔
  • حسنۃ: ہر ایسا کام جو عقل اور شریعت کے مطابق ہو۔
  • خیر: ہر وہ کام جو سب کو مرغوب ہو، یا ایسا کام جس کا فائدہ عوام کو پہنچے۔
  • برّ: نیکی کی طرف طبیعت کا ہر دم میلان رہنا۔
نیکی کرنا کے لیے احسن اور انعم "احسان کرنا" کے تحت دیکھیے۔
 
Top