مترادفات القرآن (و)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
واضح کرنا اور واضح ہونا کے لیے دیکھیے "بیان کرنا" کے تحت بیّن اور تبیّن

وافر – زیادہ – بہت​

کے لیے کثیر اور کوثر، جمّ، مرکوم، لبد، رغد، غدق، ثجّاج اور موفور کے الفاظ آئے ہیں۔

1: کثیر

(ضد قلیل) بمعنی زیادہ، مقدار اور تعداد دونوں صورتوں میں آتا ہے۔ اور مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:

یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (سورۃ البقرۃ آیت 269)

وہ جسکو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جسکو دانائی ملی بیشک اسکو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔

مذکور آیت میں کثیر کا استعمال مقدار کے لیے معنوی طور پر ہوا ہے اور درج ذیل آیت کے ٹکڑا میں اس کا استعمال حسی طور پر ہے اور تعداد کے لیے ہے۔

فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ (سورۃ الحدید آیت 27)

پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے انکو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں۔

اور کوثر میں بہت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور تکاثر الشّئ بمعنی کسی چیز کا بہت زیادہ ہونا۔ اور رجل کاثر بمعنی مالدار آدمی اور کوثر بمعنی سخی آدمی بھی اور "خیر کثیر" بھی۔ نیز کوثر جنت کی ایک نہر کا نام بھی ہے (مف) ارشاد باری ہے:

اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ (سورۃ الکوثر آیت 1)

اے نبی ﷺ ہم نے تمکو کوثر یعنی بہت زیادہ بھلائی عطا فرمائی ہے۔

2: جمّ

کسی بھی چیز کی کثیر مقدار کا ایک جگہ جمع ہونا (م ل) جمّ البئر بمعنی کنویں کا زیادہ پانی والا ہونا۔ اور جمّ المکیال بمعنی پیمانہ کو چوٹی تک بھرنا (منجد) اس کا استعمال بھی مادی و معنوی دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا (سورۃ الفجر آیت 20)

اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو۔

3: مرکوم

رکم بمعنی ایک چیز کے اوپر اسی چیز کی تہہ لگانا، پھر اس کے اوپر تیسری تہہ علی ہذا القیاس۔ اور اس طرح جو چیز بہت سی مقدار میں جمع ہو جائے یا ڈھیر لگ جائے تو وہ رکام اور مرکوم ہے۔ اور رکم السّحاب بمعنی بادل گاڑھا ہو گیا (م ق) اور سحاب مرکوم بمعنی گاڑھا بادل۔ ارشاد باری ہے:

لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ الانفال آیت 37)

تاکہ اللہ پاک سے ناپاک کو الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے۔ پھر اسکو دوزخ میں ڈال دے یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔

4: لبد

لبد اور لبدۃ بمعنی تہہ جمائے ہوئے بال یا اون، اون کا نمدہ۔ اور مال لبد بمعنی بہت مال۔ اور لبّد شعرہ بمعنی بالوں کو گوند وغیرہ سے چپکا کر نمدہ نما کرنا۔ اور لبد الشیء بمعنی کسی چیز کا نمدہ کی طرح ہونا (منجد) یعنی کسی بکھری ہوئی چیز کو اکٹھا اور گنجان بنانا۔ ارشاد باری ہے:

یَقُوۡلُ اَہۡلَکۡتُ مَالًا لُّبَدًا (سورۃ البلد آیت 6)

کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال برباد کر دیا۔

اور جب اس کی نسبت ذوی العقول کی طرف ہو تو اس کا معنی ہو گا "یوں ہجوم کرنا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہے"۔ ارشاد باری ہے:

وَّ اَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُ اللّٰہِ یَدۡعُوۡہُ کَادُوۡا یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِ لِبَدًا (سورۃ الجن آیت 19)

اور جب اللہ کے بندے یعنی یہ پیغمبر ﷺ اسکی عبادت کو کھڑے ہوئے تو کافر انکے گرد ہجوم کر لینے کو تھے۔

5: رغد

صرف رزق یا طعام کے لیے آتا ہے۔ با فراغت کھانا کھانا یا با فراغت روزی ملنا (م ل) ارشاد باری ہے:

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا (سورۃ البقرۃ آیت 25)

اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ پیو

6: غدق

بمعنی پانی کا کثیر مقدار میں اور نعمت والا برسنا (م ل) ارشاد باری ہے:

وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَی الطَّرِیۡقَۃِ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ مَّآءً غَدَقًا (سورۃ الجن آیت 16)

اور اے پیغمبر ﷺ یہ بھی ان سے کہدو کہ اگر یہ لوگ سیدھے رستے پر رہتے تو ہم انکے پینے کو بہت سا پانی دیتے۔

7: ثجّاج

ثجّ بمعنی پانی کا زور سے برسنا اور بہنا (مف) اور ثجّاج بمعنی پانی کا ریلا (م ق) ارشاد باری ہے:

وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا (سورۃ النباء آیت 14)

اور نچڑتے بادلوں سے موسلادھار مینہ برسایا۔

8: موفور

وفر کسی چیز کے اتمام اور کثرت کے لیے آتا ہے (م ل) اور وفّر بمعنی پورا کرنا، زیادہ کرنا (منجد) اور وفر جزاءہ بمعنی اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا اور کچھ زیادہ بھی دیا (مف) ارشاد باری ہے:

قَالَ اذۡہَبۡ فَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ فَاِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُمۡ جَزَآءً مَّوۡفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 63)

اللہ نے فرمایا یہاں سے چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے اور وہ پوری سزا ہے۔

ماحصل:

  • کثیر: اس کا استعمال عام ہے۔ کسی بھی چیز میں تعداد یا مقدار کی زیادتی۔
  • جمّ: کسی چیز کا کثیر مقدار میں ایک جگہ جمع ہونا۔
  • مرکوم: تہ بہ تہ ہو کر ڈھیر لگ جانا۔
  • لبد: کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزا کا ایک جگہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جانا۔
  • رغد: صرف طعام اور رزق کی فراوانی کے لیے۔
  • غدق: پانی کی فراوانی جبکہ وہ مفید بھی ہو۔
  • ثجاج: کثیر مقدار میں پانی موسلا دھار برسنے اور بہنے کے لیے۔
  • موفور: پورا ہونے کے علاوہ کچھ اضافہ کے لیے آتا ہے۔
واقعات کے لیے دیکھیے "کہانیاں"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

والا – والے​

کے لیے اصحاب، ال، اھل، ذو اور اولو کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اصحب

(واحد صاحب) بمعنی ایک طویل مدت تک ساتھ رہنے والا یا ساتھ دینے والا۔ خواہ یہ مصاحبت کسی انسان سے ہو یا حیوان سے یا مکان سے یا زمان سے۔ گو اس لفظ کا استعمال لغوی لحاظ سے معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم بالعموم اس کا استعمال بدنی مصاحبت سے متعلق ہے۔ جیسے اصحاب کہف، اصحاب الرّس، اصحاب السّبت، اصحاب الفیل، اصحاب القبور، اصحاب السّفینۃ وغیرہ۔

2: ال

کا لفظ صرف کسی معروف ہستی اور شرفا کی طرف مضاف ہو کر آتا ہے۔ جیسے آل محمد، آل ابراہیم، آل عمران، آل فرعون تو کہہ سکتے ہیں مگر آل خیاط نہیں کہہ سکتے (مف، منجد) اور آل میں وہ تمام لوگ شامل ہوتے ہیں جو اس شریف ہستی کو شریف سمجھتے اور اس سے ذہنی یگانگت رکھتے ہوں۔ گویا آل محمد سے صرف آنحضرت ﷺ کے خاندان والے ہی مراد نہیں بلکہ وہ لوگ بھی شام ہیں جنہیں علم و معرفت کے لحاظ سے آپ ﷺ سے خصوصی تعلق ہو۔ اسی طرح آل فرعون سے اس کے تمام اہل کار اور ذہنی لحاظ سے اس کے ہمنوا لوگ مراد ہیں۔

3: اھل

یہ غیر ذوی العقول کی طرف بھی مضاف ہو سکتا ہے جیسے اہل البلد (شہر والے) اھل الارض (زمین والے) اھل القری (بستیوں والے) اھل البیت، اھل الکتاب، اھل الذکر اور اھل النار وغیرہ۔ اور جب یہ ذوی العقول کی طرف مضاف ہو تو اس کا معنی گھر والے، بیوی، بچے کنبہ یا خاندان ہو گا۔ مثلاً اھل الخیاط بمعنی درزی کے گھر والے۔ اس کے خاندان اور کنبہ کے لوگ جس میں اس کی بیوی بھی شامل ہے۔ (اھل اور ال میں مزید فرق سمجھنے کے لیے دیکھیے "اولاد")۔

4: ذو اور اولوا

ذو کا لفظ اسمائے اجناس و انواع کے ساتھ توصیف کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسم ظاہر کی طرف ہی مضاف ہوتا ہے۔ اسم ضمیر کی طرف نہیں ہوتا۔ حالت رفعی میں ذو نصبی میں ذا اور جرّی میں ذی استعمال ہوتا ہے۔ جسے ذو مرّۃ (سورۃ النجم آیت 6) ذا عذاب (سورۃ المؤمنون آیت 77) ذی العرش (سورۃ بنی اسرائیل آیت 5) اس کا تثنیہ ذوون یا ذوین آتا ہے۔ جیسے ذوی عدل منکم (سورۃ الطلاق آیت 3) (تم میں سے دو عدل والے) اور اس کی جمع اولو اور اولی آتی ہے۔ جیسے اولو الارحام (سورۃ الانفال آیت 75) اور اولی باس شدید (سورۃ بنی اسرائیل آیت 5)۔ ذو کا مونث ذات ہے۔ جیسے ذات الیمین اس کا تثنیہ ذواتان ہے۔ جیسے ذواتا افنان (سورۃ الرحمن آیت 48) (دونوں باغ لمبی لمبی شاخوں والے)۔ اس کی جمع ذوات بھی ہے اور اولات بھی۔ مگر قرآن میں اولات ہی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اولات الاحمال (سورۃ الطلاق آیت 4) بمعنی حمل والی عورتیں۔

ماحصل:

  • اصحاب: طویل عرصہ تک مصاحبت کے لیے۔
  • ال: صرف شرفا کی طرف مضاف، ذہنی یگانگت کے لیے۔
  • اھل: ہر چیز کی طرف مضاف ہو سکتا ہے اور بمعنی کنبہ خاندان والے۔
  • ذو اور اولوا: اسم کی توصیف بیان کرنے کے لیے ذریعہ کے طور پر آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

وراثت​

کے لیے ولایت اور وراثت کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: ولایۃ

الولاء بمعنی میراث جو آزاد کردہ غلام سے حاصل ہو (مف) ارشاد نبوی ﷺ ہے

الولاء لمن اعتق (بخاری)

غلام کی میراث اس کی ہے جو اسے آزاد کرے۔

گویا ولاء کا اصل معنی محض میراث یا ترکہ ہے۔ اہل عرب میں وراثت کے کئی دستور تھے۔ مثلاً وہ میراث کا وارث صرف اولاد نرینہ کو قرار دیتے تھے جو ان کے بعد ان کی تلوار سنبھالنے کے اہل ہوتے تھے۔ اور اگر اولاد نرینہ نہ ہوتی تو کسی قریبی مرد رشتہ دار کو ولی یا وارث قرار دیتے تھے اور ان کی ترتیب یہ ہوتی اولاد کے بعد باپ، اگر باپ نہ ہو تو بھائی اور اگر بھائی بھی نہ ہو تو چچا وغیرہ۔ پھر ان میں عقد ولاء کا بھی دستور تھا۔ جس کا مطلب یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے سے عہد و پیمان کر لیتا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیا کریں گے اور ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ اسلام نے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی حقدار بنایا اور ابتداء عقد و ولاء کو بھی تسلیم کیا۔ مگر اس کی بنیاد اسلام اور ہجرت کو قرار دیا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا ۚ وَ اِنِ اسۡتَنۡصَرُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ الانفال آیت 72)

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے۔ وہ اور جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور انکی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو انکی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں صلح کا عہد ہو مدد نہیں کرنی چاہیے اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

اور مولی (جمع موالی) بمعنی وارث۔ ارشاد باری ہے:

وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا (سورۃ النساء آیت 33)

اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو حقداروں میں تقسیم کر دو کہ ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کر دیئے ہیں۔

وراثت کا یہ حکم دراصل سلسلۂ مواخات کی ایک کڑی تھی۔ پھر جب مہاجرین کی حالت قدرے سنبھل گئی تو عقد و لاء کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر کے اولو الارحام ہی کو وارث قرار دیا گیا۔ البتہ ایسے دوستوں سے بھی اچھا سلوک کر کے کچھ دینے کی ہدایت کی کر دی گئی۔ ارشاد باری ہے:

وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا (سورۃ الاحزاب آیت 6)

اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے ترکے کے زیادہ حقدار ہیں۔ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ احسان کرنا چاہو۔ یہ حکم کتاب یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے۔

2: وراثۃ

وہ عقد شرعی یا احکام الہی جن کے تحت کسی میت کی ملکیت دوسرے کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ اس وراثت کا تعلق صرف مال اور ملکیت سے ہی نہیں عادات و خصائل سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

العلماء ورثۃ الانبیاء​

تو یہاں ورثۃ سے مراد علم اور تبلیغ کے وارث ہیں نہ کہ مال و دولت کے۔ اور ورث بمعنی کسی میت کا وارث بننا۔ اور اورث بمعنی وارث بنانا۔ اور ورثۃ اور تراث بمعنی ترکہ ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ (سورۃ النمل آیت 16)

اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے۔

تو یہاں وراثت میں مال و دولت، خلافت، نبوت، عادات و خصائل سب کچھ شام ہے۔

ماحصل:

  • ولایت: عقد ولاء کے تحت میراث میں حصہ جو بعد میں ختم کر دیا گیا۔
  • وراثت: عقد شرعی کے تحت قریبی رشتہ داروں کا میراث میں حصہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

وقت​

کے لیے وقت اور میقات، حین اور حینئذ، ان، انفا اور اجل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: وقت

معروف لفظ ہے TIME الوقت بمعنی زمان معلوم (م ل) جمع اوقات۔ اور امام راغب کے الفاظ میں کسی کام کے لیے زمانہ مقررہ کی آخری حد (مف) ارشاد باری ہے:

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ ۚ لَا یُجَلِّیۡہَا لِوَقۡتِہَاۤ اِلَّا ہُوَ (سورۃ الاعراف آیت 187)

یہ لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اسکے واقع ہونے کا وقت کب ہے کہدو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔ وہی اسے اسکے وقت پر ظاہر کر دے گا۔

اور میقات وقت سے اسم ظرف ہے۔ زمانی اور مکانی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (جمع مواقیت) درج ذیل آیت میں میقات ظرف زمانی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً (سورۃ الاعراف آیت 142)

اور ہم نے موسٰی سے تیس رات کی معیاد مقرر کی اور دس راتیں اور ملا کر اسے پورا چلہ کر دیا تو اسکے پروردگار کی چالیس رات کی معیاد پوری ہو گئ۔

اور درج ذیل آیت میں میقات کا لفظ زمانی اور مکانی دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ یعنی وقت بھی معین ہے اور جگہ بھی۔

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ (سورۃ الاعراف آیت 143)

اور جب موسٰی ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر کوہ طور پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا۔

2: حین

اس وقت کو کہتے ہیں جب کوئی خبر پہنچے یا کوئی چیز حاصل ہو۔ یہ ظرف مبہم ہے (مف) یعنی غیر معین وقت (جمع احیان) اور احیانا بمعنی گاہے گاہے، کبھی کبھی۔ قرآن میں ہے:

وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ (سورۃ البقرۃ آیت 36)

اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانہ اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے۔

اور حین کے بعد اذ کا اضافہ کر کے حینئذ بنا لیا جاتا ہے۔ اور یہ کسی معین وقت کی طرف اشارہ کے لیے آتا ہے، بمعنی اس وقت۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنۡتُمۡ حِیۡنَئِذٍ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 84)

اور تم اس وقت کی حالت کو دیکھا کرتے ہو۔

3: ان

انی یانی بمعنی وقت آ پہنچا، کسی چیز کا اپنی انتہا اور پختگی تک پہنچ جانا۔ ارشاد باری ہے:

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ (سورۃ الحدید آیت 16)

کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ اللہ کی یاد کرنے کے وقت اور قرآن جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اسکے سننے کے وقت انکے دل نرم ہو جائیں

اور ان بمعنی وقت (جمع اناء بمعنی گھڑیاں) اس لفظ پر ہمیشہ معرفہ کا ال داخل ہوتا ہے۔ یعنی الئن بمعنی موجودہ وقت، اب، اس وقت۔ ارشاد باری ہے:

اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا ؕ (سورۃ الانفال آیت 66)

اب اللہ نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ ابھی تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔

4: انفا

انف بمعنی ناک اور ہر چیز کا بلند تر حصہ اور مبدا۔ انف الجبل بمعنی پہاڑ کی چوٹی۔ اور انف اللحیۃ بمعنی کنارۂ ریش۔ اور استانف الشئ کے معنی کسی چیز کے سرے اور مبدا کو پکڑنے اور آغاز کرنے کے ہیں (مف) اور استانف الامر بمعنی کسی کام کو نئے سرے سے شروع کرنا (منجد) اور انفا بمعنی ابھی ابھی، اس بات یا کام کے آغاز میں، ذرا تھوڑی دیر پہلے (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۟ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 16)

اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو تمہاری طرف کان لگائے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب کچھ سنتے ہیں لیکن جب تمہارے پاس سے نکل کر چلےجاتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دین دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ بھلا انہوں نے ابھی کیا کہا تھا؟ یہی لوگ ہیں جنکے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکھی ہے اور یہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔

5: اجل

اجل بمعنی دیر کرنا۔ اور اجل اور اجلہ بمعنی دیر سے ہونے والا، آخرت (منجد) (اجل ضد عاجل) دنوں لفظ مشہور ہیں۔ جو بالعموم نکاح کے وقت حق مہر کی ادائیگی کی صورت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ عاجل بمعنی نقد بہ نقد جو ادا کر دیا جائے اور اجل بمعنی ادھار۔ اور اجل بمعنی مدت، وقت، موت (منجد)۔ گویا اجل کا لفظ موجودہ وقت سے لے کے وعدہ یا میعاد کی درمیانی مدت اور بعض دفعہ موت تک کے معنوں میں آ جاتا ہے۔ اور اس کا استعمال بڑا وسیع ہے۔ ارشاد باری ہے:

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَاَبَی الظّٰلِمُوۡنَ اِلَّا کُفُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 99)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے لوگ پیدا کر دے۔ اور اس نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جسمیں کچھ بھی شک نہیں۔ تو ظالموں نے انکار کے سوا اسے قبول نہ کیا۔

اب اس آیت میں اجل کا ترجمہ وقت سے کر لیجیئے یا مدت سے یا میعاد سے یا موت کے وقت سے سب کچھ یہاں درست بیٹھتا ہے۔

ماحصل:

  • وقت، میقات: طے شدہ وقت یا جگہ۔
  • حین: ظرف مبہم، غیر معین وقت۔
  • ان اور الئن: اب، موجودہ وقت۔
  • انفا: ابھی ابھی، موجود وقت سے ذرا پہلے، آغاز کلام میں۔
  • اجل: وقت مقررہ اور موجودہ وقت سے اس وقت تک کی درمیانی مدت۔
 
Top