مترادفات القرآن (ہ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہاتھ​

کے لیے ید، یمین، شمال اور ذراع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ید

بمعنی ہاتھ۔ یہ لفظ دراصل یدی ہے۔ ناقص واوی کی وجہ سے ی گر گئی ہے۔ اس کا تثنیہ یدان اور یدین اور جمع ایدی ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 79)

سو ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔

اور ہاتھ چونکہ تمام اعضائے انسانی میں قوت اور کام کرنے کے لحاظ سے اشرف و افضل ہے لہذا ید کا لفظ قوت، قبضہ اور ملکیت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 237)

اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہو گا۔ ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں۔ یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے اپنا حق چھوڑ دیں اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے

اور بین یدی اور بین ایدی بطور محاورہ پہلے اور سامنے یا موجودہ کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ (سورۃ المجادلۃ آیت 12)

مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے مساکین کو کچھ خیرات کر دیا کرو۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا وَّ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ یس آیت 9)

اور ہم نے انکے آگے بھی دیوار بنا دی اور انکے پیچھے بھی پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے۔

نیز فرمایا:

فَجَعَلۡنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہَا وَ مَا خَلۡفَہَا وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 66)

اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جو انکے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت بنا دیا۔

2: یمین

(جمع ایمان) بمعنی دایاں ہاتھ بھی ہے جیسے فرمایا:

وَ مَا تِلۡکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی (سورۃ طہ آیت 17)

اور اے موسٰی یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟

اور دائیں جانب بھی (ضد شمال) جیسے فرمایا:

لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ ۬ؕ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ (سورۃ سباء آیت 15)

اہل سبا کے لئے انکے وطن میں ایک نشانی تھی یعنی دو باغ ایک داہنی طرف اور ایک بائیں طرف کہا گیا کہ اپنے پروردگار کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر کرو۔ یہاں تمہارے رہنے کو یہ پاکیزہ علاقہ ہے اور وہاں بڑا بخشنے والا مالک۔

پھر جس طرح ید کا لفظ قوت اور قبضہ کے معنوں میں آتا ہے یمین اس سے زیادہ وسیع معنوں میں آتا ہے کیونکہ قوت اور کارکردگی کے لحاظ سے دایاں ہاتھ بائیں سے افضل اور بہتر ہے۔ ملک یمین اس چیز کو کہتے ہیں جس پر پورا قبضہ و اختیار ہو اور محاورۃ یہ لفظ لونڈی اور غلام کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے فرمایا:

وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ (سورۃ النساء آیت 24)

اور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر باندیوں کے طور پر تمہارے قبضے میں آ جائیں۔

علاوہ ازیں اہل عربی کی عادت تھی کہ اپنے عہد و پیمان اور قسم کو مضبوط تر بنانے کے لیے اپنا داہنا ہاتھ مخاطب کے داہنے ہاتھ میں دیتے تھے یا مارتے تھے۔ لہذا یہ لفظ قسم کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور یمین ایسی قسم کو کہتے ہیں جو عہد و پیمان کو پختہ تر بنانے کے لیے اٹھائی جائے۔ ارشاد باری ہے:

اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 13)

بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر کو وطن سے نکالنے کا ارادہ کر لیا اور انہوں نے تم سے عہد شکنی کی ابتداء کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو سو ڈرنے کے لائق تو اللہ ہے اگر تم ایمان والے ہو۔

3: شمال

بمعنی بایاں، بائیں جانب، بایاں ہاتھ (ضد یمین) پھر جس طرح یمن برکت اور خوش بختی کے معنوں میں آتا ہے۔ اسی طرح شمال بد بختی کے معنوں میں بھی مستعمل ہے (منجد) (جمع شمائل) قرآن میں ہے:

وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُوۡتَ کِتٰبِیَہۡ (سورۃ الحاقۃ آیت 25)

اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائےگا تو وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔

اور دوسرے مقام پر ہے:

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 17)

پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے غرض ہر طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگذار نہیں پائے گا۔

4: ذراع

بمعنی ہاتھ، کہنی سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کا حصہ۔ اور ذرع الثّوب بمعنی کپڑے کو ذراع سے ناپا۔ اور ذرعہ کذا بمعنی اس کا طول یا پیمائش اتنی ہی ہے اور ذراع ماپنے کا ایک پیمانہ ہے جس کی لمبائی 50 سیٹی میٹر سے 80 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے (مف، منجد) یعنی تقریباً 20 انچ سے لے کر 28 انچ تک، اور اس فرق کی وجہ سے ہے کہ سابقہ ادوار میں انسانوں کے قد لمبے ہوتے تھے جو بتدریج کم ہوتے گئے۔ اور بعض مترجمین ذراع کا ترجمہ گز سے بھی کر دیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

ثُمَّ فِیۡ سِلۡسِلَۃٍ ذَرۡعُہَا سَبۡعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسۡلُکُوۡہُ (سورۃ الحاقۃ آیت 32)

پھر زنجیر سے جس کی لمبائی ستر گز ہے جکڑ دو۔

ماحصل:

  • ید: بمعنی ہاتھ، قوت اور قبضہ۔
  • یمین: بمعنی داہنا ہاتھ، مکمل قبضہ اختیار اور قسم کے لیے۔
  • شمال: بایاں ہاتھ، بائیں جانب۔
  • ذراع: ہاتھ اور ہاتھ کی لمبائی کا پیمانہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہاں​

کے لیے نعم، ای اور بلی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نعم

بمعنی ہاں، کلمۂ ایجاب ہے۔ استفسار پر کلام کا جواب جبکہ سوال بھی مثبت انداز میں ہو اور جواب بھی۔ قرآن میں ہے:

وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ فِرۡعَوۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 13، 14)

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور جادوگر فرعون کے پاس آ پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں صلہ تو عطا کیجئے گا ناں۔ فرعون نے کہا ہاں ضرور اور اسکے علاوہ تم مقربوں میں داخل کر لئے جاؤ گے۔

2: ای

بمعنی ہاں ہاں، بالضرور، کلمۂ ایجاب ہے۔ استفسار پر جواب اگر مثبت میں اور تاکید و توثیق سے دینا ہو تو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے (مف) تاکہ شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اور اس کے بعد قسم ضروری ہوتی ہے (م ق) ارشاد باری ہے:

وَ یَسۡتَنۡۢبِئُوۡنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ؕؔ قُلۡ اِیۡ وَ رَبِّیۡۤ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ۚؕؔ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 53)

اور اے نبی تم سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا یہ سچ ہے کہدو ہاں میرے رب کی قسم یہ سچ ہے اور تم بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔

3: بلی

یہ بھی حرف ایجاب ہے۔ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب سوال نفی میں ہو۔ اور جواب میں اس نفی کی تردید کرنا بھی مقصود ہو اور مثبت جواب دینا بھی۔ اور اس کا معنی "کیوں نہیں، ضرور" ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 172)

اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی انکی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود انکے مقابلے میں اقرار کرا لیا یعنی ان سے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اسکی خبر ہی نہ تھی۔

ماحصل:

  • نعم: مثبت سوال کا مثبت جواب۔
  • ای: مثبت سوال کا تاکیدا مثبت جواب
  • بلی: منفی سوال کی نفی اور جواب اثبات میں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہانپنا​

کے لیے ضبح اور لھث کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ضبح

(الفرس) گھوڑے کا سرپٹ دوڑتے وقت اپنے جوف سے آواز نکالنا (مف، منجد) قرآن میں ہے:

وَ الۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا (سورۃ العادیات آیت 1)

ان سرپٹ دوڑانے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں۔

2: لھث

سخت پیاس کی وجہ سے زبان منہ سے باہر نکالنا اور جوف سے آواز نکالنا (مف) پیاس یا تھکن کی وجہ سے کتے کا ہانپ کر زبان ڈال دینا (منجد) قرآن میں ہے:

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 176)

اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس کے درجے کو بلند کر دیتے۔ مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اسکی مثال کتے کی سی ہو گئ کہ اگر اس پر حملہ کرو زبان نکالے رہے یا اسے یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان سے یہ قصہ بیان کر دو۔ تاکہ وہ فکر کریں۔

ماحصل:

تیز دوڑنے کی وجہ سے ہانپنے کو ضبح اور پیاس یا تھکاوٹ کی وجہ سے ہانپنے کو لھث کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہٹانا​

کے لیے دفع، جنّب، زحزح، درء، دعّ، حسر اور خسا کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: دفع

بمعنی کسی چیز کی حفاظت اور حمایت میں بیرونی خطرات یا حملے کو دور کرنا اور پرے ہٹانا (مف، منجد) دفع بمعنی کسی چیز کی حفاظت و حمایت اور مدافعت بمعنی جوابی کاروائی کرنا۔ ارشاد باری ہے:

الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ (سورۃ الحج آیت 40)

یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔

اور جب اس لفظ کا صلہ الی سے ہو تو اس کا معنی کسی کی چیز اس کے سپرد کر دینا، حوالے کر دینا اور دے دینا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:

وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ (سورۃ النساء آیت 6)

اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو اور جانچتے رہو پھر بالغ ہونے پر اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو

2: جنّب

جانب بمعنی پہلو، طرف اور جنب اور جنّب بمعنی دفع کرنا، ہٹانا، ایک طرف کر کے بچانا، پہلو پر مارنا (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی (سورۃ الیل آیت 17، 18)

اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس سے بچا لیا جائے گا۔ وہ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔

3: زحزح

الزحزح بمعنی دور اور زحزح کسی کو کسی جگہ سے دور کرنا، ہٹانا، برطرف کرنا (مف) اور زحزح بمعنی کسی مضرت سے دور کرنا۔ ارشاد باری ہے:

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ آل عمران آیت 185)

ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا تو جو شخص دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔

4: درء

بمعنی کسی شخص کا پوری قوت سے دور کر کے اسے کسی تکلیف اور مضرت سے بچا لینا (مف) اور بمعنی زور سے دھکیلنا، ہٹانا (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ یَدۡرَؤُا عَنۡہَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡہَدَ اَرۡبَعَ شَہٰدٰتٍۭ بِاللّٰہِ ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ (سورۃ النور آیت 8)

اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ بیشک یہ جھوٹا ہے۔

اور ادّرء بمعنی اپنا الزام دوسرے پر تھوپ دینا۔ جس سے وہ خود سزا سے بچ جائے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 72)

اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔ حالانکہ جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ اسکو ظاہر کرنے والا تھا۔

5: دعّ

بمعنی دھکے مار کر نکال دینا، سختی سے دفع کرنا (ف ل 188) ارشاد باری ہے:

فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ (سورۃ الماعون آیت 2)

یہ وہی بدبخت ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

6: دحر

میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (1) دھتکارنا اور (2) دور کرنا (م ل) یعنی کسی کو دھتکار کر وہاں سے نکال دینا۔ ارشاد باری ہے:

قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 18)

اللہ نے فرمایا نکل جا یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال کر تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔

7: خسا

خسّا النّظر بمعنی نظر کا تھکنا اور کمزور ہونا۔ اور خسا الکلب بمعنی کتے کو دھتکارنا اور خاسئ من الکلاب و الخنازیر بمعنی دھتکارے ہوئے اور ہنکارے ہوئے کتے اور سور جن کو لوگوں کے پاس نہ پھٹکنے دیا جائے (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 65)

اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ۔

ماحصل:

  • دفع: کسی چیز کی حفاظت و حمایت میں خطرہ یا حملہ کو ہٹانا۔
  • جنّب: کسی کو ایک طرف کر دینا، ہٹانا۔ عام ہے۔
  • زحزح: کسی کو کسی مقام سے دور کر کے مضرت سے بچانا۔
  • درء: پوری قوت اور کوشش سے مضرت کو دور رکھنا۔
  • دعّ: کسی کو دھکے مار کر نکال دینا، ہٹا دینا۔
  • دحر: کسی کو دھتکار کر نکال دینا، وجہ خواہ کچھ ہو۔
  • خسا: کسی کو ذلیل و خوار سمجھ کر از راہ نفرت دھتکارنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہدایت دینا – پانا​

کے لیےھدی اور اھتدی اور رشد کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: اھتدی

ھدی بمعنی لطف و کرم کے ساتھ کسی سے رہنمائی کرنا، بھلائی کا راستہ دکھانا (مف) اور اس کی ضد ضلّ اور اضلّ ہے۔ بمعنی کسی کو راہ بھلا دینا، یا اس سے بہکا دینا، بھلائی کی راہ کو گم کر دینا یا اوجھل کر دینا (ھدایت ضد ضلالت) ھدایت کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔

1: فطری رہنمائی جو اللہ نے ہر چیز میں ودیعت کر رکھی ہے۔ جیسے بچے کا پیدا ہوتے ہیں ماں کے پستانوں کی طرف لپکنا۔ ارشاد باری ہے:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی (سورۃ طہ آیت 50)

کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسکی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی۔

2: انسان کے ذہن کا رخ ضلالت سے ہدایت کی طرف یا کفر سے اسلام کی طرف یا نافرمانی سے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی طرف موڑنا۔ یہ کام گو انبیا و رسل اور دوسرے لوگوں کی وساطت سے ہوتا ہے مگر اس رخ کو موڑنا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 56)

اے نبی تم جسکو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ ہی جسکو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

3: جو لوگ خدا کی فرمانبردای یا اسلام کی طرف آ جائیں انہیں سیدھی راہ دکھلانا اور راہ راست پر چلاتے جانا۔ یہ اصل ذمہ داری تو انبیا و رسل کی ہوتی ہے پھر دوسرے مسلمان بھی اس میں شریک ہو جاتے ہیں (تاہم یہ کام بھی اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے) جیسا کہ فرمایا:

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡظُرُ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 43)

اور بعض ایسے ہیں کہ تمہاری طرف دیکھتے ہیں تو کیا تم اندھوں کو رستہ دکھاؤ گے اگرچہ کچھ بھی دیکھتے بھالتے نہ ہوں۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (سورۃ شوری آیت 52)

اور بیشک اے نبی تم سیدھا رستہ دکھاتے ہو۔

اور اھتدی بمعنی ہدایت پانا سیدھے راستے پر گامزن ہونا۔ ارشاد باری ہے:

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ (سورۃ یونس آیت 108)

کہدو کہ لوگو تمہارے پروردگار کہ ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اور میں تمہارا وکیل نہیں ہوں۔

2: رشد

(ضد غوی) بمعنی جو شخص راہ رات پر آ جائے اور نیک چلن بھی اختیار کر لے (ق م) اور رشد (ضد غیّ) بمعنی راہ حق پر برقراری، وابستگی (منجد) قرآن میں ہے:

اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ (سورۃ ھود آیت 78)

کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟

ماحصل:

  • اھتدی: سیدھی راہ پر گامزن ہونا
  • رشد: سیدھی راہ اختیار کرنے کے بعد نیک عادات و اطوار اپنانے اور اس پر برقرار رہنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہلاکت​

کے لیے کچھ تو بد دعائیہ قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقعہ پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً تبّ، تعس، ثبر، اولی اور ویل کے الفاظ سب ایسے ہی موقعہ پر بولے جاتے ہیں۔ جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں تیرا بیڑا غرق، خدا تجھے سنبھالے، تمہارا کچھ نہ رہے وغیرہ۔ اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔

1: تبّ

بمعنی ہلاک ہونا، ٹوٹنا، کٹنا، کاٹنا دونوں طرح آتا ہے (منجد) قرآن میں ہے:

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ (سورۃ المسد آیت 1)

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود ہلاک ہو گیا۔

2: تعس

بمعنی ٹھوکر کھا کر گرنا پھر اٹھ نہ سکنا، کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہونا (مف) قرآن میں ہے:

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ (سورۃ محمد آیت 8)

اور جو کافر ہیں انکے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ انکے اعمال کو برباد کر دے گا۔

3: قتّل

قتل بمعنی کسی کو مار دینا، روح کو تن سے جدا کر دینا۔ اور قتل بمعنی مارا جائے، ہلاک ہو۔ قرآن میں ہے:

فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ (سورۃ مدثر آیت 19، 20)

یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔ پھر یہ مارا جائے اس نے یہ کیسی تجویز کی۔

4: ثبر

بمعنی ہلاک ہونا یا (زخم کا) خراب ہونا (مف) اور ثبور بمعنی ہلاکت۔ قرآن میں ہے:

وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا (سورۃ فرقان آیت 13)

اور جب یہ دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑ کر ڈالے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے۔

5: اولی

کا صلہ اگر ب سے آئے تو بمعنی لائق تر، مناسب تر، زیادہ حقدار۔ اور اگر ل سے آئے تو بمعنی ہلاکت، خرابی اور تباہی، افسوس۔ یہ کلمہ تہدید و تخویف ہے اور اس کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت کے قریب پہنچ چکا ہو تاکہ اسے تنبیہ ہو جائے۔ نیز یہ کلمہ عموماً تکرار سے آتا ہے تاکہ مخاطب انجام پر غور کر کے اس سے بچنے کی کوشش کرے (مف) قرآن میں ہے:

فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی وَ لٰکِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ثُمَّ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی (سورۃ القیامۃ آیت 31 تا 35)

پھر ایسے مغرور نے نہ تو پیغمبر ﷺ کو سچا جانا اور نہ نماز پڑھی۔ لیکن جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔ پھر اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا۔ خرابی ہے تیری خرابی پر خرابی ہے۔ پھر خرابی ہے تیری خرابی پر خرابی ہے۔

6: ویل

خرابی، تباہی، افسوس، ہلاکت۔ یہ کلمہ عموماً حسرت کے موقعہ پر بولا جاتا ہے (مف) قرآن میں ہے:

وَیۡلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ (سورۃ جاثیہ آیت 7)

ہر جھوٹے گنہگار پر افسوس ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہلاک ہونا – کرنا​

کے لیے ھلک اور اھلک، باد (بید)، ردّی اور تردّی، بخع، دمّر، دمدم، تبّب، تبّر، بار (بور) اشحت، اوبق، قصم ، فنی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: ھلک
بمعنی فنا ہونا، جاندار اور بے جان سب کے لیے آتا ہے۔ اور جاندار ہونے کی صورت میں اس کا معنی ہے بے بسی کی موت کرنا، بری موت مرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 88)
اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود سمجھ کر نہ پکارنا اسکے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسکی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ (سورۃ النساء آیت 176)
اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جسکے اولاد نہ ہو۔
اور اھلک بمعنی کسی دوسری چیز کو تباہ کرنا اور ختم کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ (سورۃ الانعام آیت 6)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا
2: باد
البیدا بمعنی لق و دق صحرا اور کی جمع بید ہے۔ اور باد بمعنی کسی کھیتی کا اجڑ کر بیابان بن جانا، مکمل طور پر تباہ ہونا اور اجڑنا (مف) ارشاد باری ہے:
وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا (سورۃ الکہف آیت 35)
اور ایسی شیخیوں سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا کہنے لگا کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو۔
3: تردّی
ردی بمعنی کسی چیز کو بلندی سے زمین پر دے مارنا یا زمین سے کسی گڑھے میں پٹخ دینا کہ وہ ہلاک ہونے کو پہنچ جائے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی (سورۃ طہ آیت 16)
تو جو شخص اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے کہیں تمکو اس کے یقین سے روک نہ دے تو اس صورت میں تم ہلاک ہو جاؤ۔
اور اردی متعدی ہے۔ یعنی اسی طریق سے دوسرے کو ہلاک کرنا۔ قرآن میں ہے:
قَالَ تَاللّٰہِ اِنۡ کِدۡتَّ لَتُرۡدِیۡنِ (سورۃ الصافات آیت 56)
کہے گا کہ اللہ کی قسم تو تو مجھے بھی ہلاک کرنے لگا تھا۔
اور تردّی بمعنی خود کنویں یا گڑھے میں گرنا اور ہلاکت کو پہنچنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَا لُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی (سورۃ الیل آیت 11)
اور جب وہ دوزخ کے گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اسکے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔
4: بخع
غم یا غصہ سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالنا (مف، م ل) گھل گھل کر ہلکان ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا (سورۃ الکہف آیت 6)
اے پیغمبر اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم انکے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کر دو گے۔
5: دمّر
دمر بمعنی کسی کے گھر بغیر اجازت برے ارادہ سے داخل ہونا (منجد) اور دمّر کسی چیز پر دفعۃ ہلاکت لا ڈالنا (مف)
وَ اِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰہَا تَدۡمِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 16)
اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر مامور کر دیا تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے پھر اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو گیا۔ اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا۔
6: دمدم
الشئ بمعنی کسی چیز کو زمین سے چپکا دینا۔ اور دمدم اللہ علیھم بمعنی خدا نے انہیں ہلاک کر دیا، ملیا میٹ کر دیا (منجد) ارشاد باری ہے:
فَکَذَّبُوۡہُ فَعَقَرُوۡہَا ۪۬ۙ فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا (سورۃ الشمس آیت 14)
مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا پھر اونٹنی کو مار ڈالا۔ تو انکے رب نے انکے گناہ کے سبب انکو نیست و نابود کر دیا پھر سب کو برابر کر دیا۔
7: تبّب
تبّ دعائیہ کلمہ ہے۔ تبّا لک کہنا یعنی تیرے لیے ہلاکت ہو۔ اور لغوی معنی ٹوٹنا، کٹنا یا ہلاک ہونا ہے۔ اور تبّب میں تکرار لفظی سے تکرار معنوی مقصود ہے۔ یعنی مسلسل تباہی کی طرف قدم ہونا (مف) ارشاد باری ہے:
وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ (سورۃ ھود آیت 101)
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آ پہنچا تو جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ انکے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور بربادی کے سوا انہیں اور کچھ نہ دے سکے۔
8: تبر
غارت کر دینا، تہس نہس کر دینا، نیست و نابود کر دینا (مف، منجد) اور تبار بمعنی ہلاکت، تباہی۔ ارشاد باری ہے:
وَ کُلًّا ضَرَبۡنَا لَہُ الۡاَمۡثَالَ ۫ وَ کُلًّا تَبَّرۡنَا تَتۡبِیۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 39)
اور سب کے سمجھانے کے لئے ہم نے مثالیں بیان کیں اور نہ ماننے پر سب کو تہس نہس کر دیا۔
9: بار
(مصدر بور اور بوار) بمعنی کسی فروختنی مال کا بہت زیادہ مندا پڑنا اور ہلاکت کے قریب پہنچنا۔ یعنی کسد حتی فسد۔ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چلتے جانا (مف) آہستہ آہستہ راس المال کا کم ہوتے ہوتے تباہ ہو جانا۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ (سورۃ الفاطر آیت 29)
جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت کے فائدے کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہو گی۔
10: اسحت
سحت بمعنی حرام کمائی اور رشوت (مف) سحت بمعنی مال حرام کمایا۔ اور اسحتت التّجارۃ بمعنی تجارت کے مال میں کھوٹ اور حرام کا مل جانا اور اسحت بمعنی مال کا محتاج ہونا، مال کا تباہ ہونا (منجد) اور اسحت بمعنی بیخ و بن سے اکھیڑ دینا (مف) گویا اسحت مفلوک الحالی کی وجہ سے تباہی کے لیے آئے گا۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰی وَیۡلَکُمۡ لَا تَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسۡحِتَکُمۡ بِعَذَابٍ ۚ وَ قَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰی (سورۃ طہ آیت 61)
موسٰی نے ان جادوگروں سے کہا کہ یہ تمہاری بربادی ہو گی۔ اللہ پر جھوٹ نہ باندھو وہ تمہیں عذاب سے فنا کر دے گا۔ اور جس نے جھوٹ باندھا وہ نامراد رہا۔
11: اوبق
وبق بمعنی ہلاک ہونا۔ اور موبق بمعنی ہلاکت کی جگہ، قید خانہ، دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز (منجد) ادھر آگ ادھر کھائی، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ اور اوبق بمعنی ایسے مقام پر پہنچنا جہاں آگے پیچھے ہلاکت ہی ہلاکت نظر آئے اور اوبق بمعنی کسی کو ایسی جگہ میں ہلاک کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّوۡبِقًا (سورۃ الکہف آیت 52)
اور جس دن اللہ فرمائے گا کہ اب میرے شریکوں کو جنکی نسبت تم معبود ہونے کا گمان رکھتے تھے بلاؤ تو وہ انکو بلائیں گے مگر وہ انکو کچھ جواب نہ دیں گے۔ اور ہم انکے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔
12: قصم
بمعنی پیس ڈالنا، توڑ مروڑ کر اور ریزہ ریزہ کر کے تباہ کر دینا (مف) ارشاد باری ہے:
وَ کَمۡ قَصَمۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ کَانَتۡ ظَالِمَۃً وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعۡدَہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 11)
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ظالم تھیں پیس ڈالا اور انکے بعد اور لوگ پیدا کر دیئے۔
13: فنی
(فنا ضد بقا) اپنا وجود کھو دینا، کچھ باقی نہ رہنا، عدم میں چلے جانا (مف) اور یہ ھلک سے بھی اعم ہے۔ ھلک میں کسی چیز کا خراب ہونا، ہاتھ سے نکل جانا، بری موت مرنا، سب کچھ شامل ہے جبکہ فنی کا معنی سرے سے کسی چیز کا اپنا وجود ختم کر دینا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ (سورۃ الرحمن آیت 26)
جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے۔
ماحصل:
  • ھلک: ہلاک ہونا، برباد ہونا، جاندار اور بے جان سب کے لیے عام ہے۔
  • باد: کھیتی کا صحرا میں بدل کر اجڑنا اور ختم ہو جانا۔
  • تردّی: کنوئیں یا گڑھے میں گر کر ہلاکت کو پہنچنا۔
  • بخع: کسی غم میں گھل گھل کر ہلاک ہونا۔
  • دمّر: اینٹ سے اینٹ بجا دینا، اکھاڑ مارنا۔
  • دمدم: ملیا میٹ کر دینا، زمین بوس کر دینا۔
  • تبّب: آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چلتے جانا۔
  • تبر: تہس نہس کر دینا، نشان تک مٹا دینا۔
  • بار: راس المال میں کمی کی وجہ سے تباہ ہونا۔
  • اسحت: مفلوک الحالی سے تباہ ہونا۔
  • اوبق: ایسے ہلاکت کے مقام پر ہونا کہ ادھر آگ ہو ادھر کھائی۔
  • قصم: توڑ موڑ کر رکھ دینا۔
  • فنی: اپنا وجود کھو دینا۔ یہ ھلک سے بھی اعم ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہلکا ہونا – کرنا​

کے لیے خفّ، خفف اور استخف، فتّر اور قصد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: خفّف

خفّ بمعنی ہلکا ہونا (ضد ثقل بمعنی بوجھل ہونا) مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خفیف بمعنی وزن کے لحاظ سے ہلکا بھی اور سبک رفتار یا خوش آئند بھی آتا ہے۔ اور ثقیل بمعنی وزن کے لحاظ سے بوجھل بھی اور طبیعت پر گرانبار بھی۔ قولا ثقیلا (سورۃ مزمل آیت 5) بمعنی طبیعت پر گرانبار، بھاری ذمہ داری۔ ارشاد باری ہے:

وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَظۡلِمُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 9)

اور جنکی تولیں ہلکی ہوں گی تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپکو خسارے میں ڈالا اس لئے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بے انصافی کرتے تھے۔

اور خفّف بمعنی تخفیف کرنا، بوجھ یا ذمہ داری میں کمی کرنا، ہلکا کرنا۔ یہ بھی ہر طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 86)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی۔ سو نہ تو ان سے عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو اور طرح کی مدد ملے گی۔

اور استخفّ بمعنی کسی چیز کی قدر و منزلت کو بتدریج ہلکا کرنے کی کوشش کرنا۔ ارشاد باری ہے:

فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَہٗ فَاَطَاعُوۡہُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 54)

غرض اس نے اپنی قوم کو بے عقل کر دیا۔ اور ان لوگوں نے اسکی بات مان لی بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔

2: فتّر

فتر بمعنی کسی چیز کی قوت یا رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوتے جانا، قوت کے بعد کمزوری، تیز رفتاری کے بعد آہستہ آہستہ سست رفتاری واقع ہونا (مف) اور فتور بمعنی تیزی کے بعد سستی یا ٹھہراؤ، سختی کے بعد نرمی اور قوت کے بعد کمزور پڑ جانا (مف) اور فتّر بمعنی کسی بوجھ یا رفتار وغیرہ کو بتدریج ہلکا یا کم کرنا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ (سورۃ الزخرف آیت 74، 75)

اور گنہگار یعنی کفار ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہیں گے۔ جو ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے۔

3: قصد

کا ایک معنی افراط و تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرنا بھی ہے اور اقتصاد اموال یا دوسری اشیا کے صرف کرنے میں درمیانی راہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ (سورۃ لقمان آیت 19)

اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور بولتے وقت ذرا آواز نیچی رکھنا کیونکہ بہت اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں کہ سب سے بری آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔

اور دوسرے مقام پر ہے:

لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَ لٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ ؕ (سورۃ التوبہ آیت 42)

اگر مال غنیمت آسانی سے حاصل ہونے والا اور سفر بھی ہلکا ہوتا تو یہ تمہارے ساتھ شوق سے چل دیتے لیکن مسافت انکو دور دراز نظر آئی تو عذر کریں گے

تو یہاں بھی قاصدا کا معنی درمیانی قسم کا یا واجبی سا فاصلہ ہے یعنی نہ زیادہ دور اور نہ نزدیک لیکن تقابل اور زیادہ تفصیل سے بچنے کی خاطر اس کا ترجمہ ہلکا کر لیا جاتا ہے۔

ماحصل:

  • خفّف: بمعنی کسی بوجھ یا ذمہ داری میں تخفیف یا کمی کر کے ہلکا کرنا۔
  • فتّر: کسی چیز میں قوت کم ہونے کی وجہ سے اس کی قوت کار کو ہلکا یا کم کرنا۔
  • قصد: بمعنی درمیانی قسم کا، معتدل، دشوار کے مقابلہ ہلکا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہلنا – ہلانا​

کے لیے حرّک، ھزّ، ھشّ، لوّی، اور نغض کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حرّک

بمعنی حرکت دینا، ہلانا۔ اس کا استعمال عام ہے۔ حرکت خواہ کس طرح کی ہو۔ ارشاد باری ہے:

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ (سورۃ القیامۃ آیت 16)

اور اے پیغمبر ﷺ وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان کو تیز تیز حرکت نہ دیا کرو کہ اس کو جلد سیکھ لو۔

2: ھزّ

بمعنی درخت کو اس طرح ہلانا کہ اس کا پھل گر پڑے (ف ل 173) پنجابی میں اس کے لیے خاص لفظ ہے "جھوننا یا جھونا مارنا"۔ ارشاد باری ہے:

وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا (سورۃ مریم آیت 25)

اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ عمدہ کھجوریں گرائے گا۔

اور اھتزّ بمعنی کسی چیز کا اس طرح ہلنا یا حرکت کرنا جیسے اس کسی نے جھٹکا دے دیا ہو یا جھٹک رہا ہو۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰۤی اَقۡبِلۡ وَ لَا تَخَفۡ ۟ اِنَّکَ مِنَ الۡاٰمِنِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 31)

اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دو۔ سو جب انہوں نے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہی ہے گویا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر چل دیئے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ فرمایا موسٰی آگے آؤ اور ڈرو مت تم امن پانے والوں میں ہو۔

3: ھشّ

ھشّ اور ھزّ دونوں ہم معنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے ھشّ صرف نرم اور ہلکی چیز کو ہلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ھشّ الورق بمعنی پتے جھاڑنا (مف) اور ھشیش بمعنی ہر نرم چیز، نرم طبع مرد۔ اور ھشّ بمعنی تبسم کرنا، اور ھشاش ایسا آدمی جس کا چہرہ معمولی بات پر کھل جائے اور خوش ہو جائے (م ق) ہشاش بشاش مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:

قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی (سورۃ طہ آیت 18)

انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے اور بھی کئ فائدے ہیں۔

4: لوّی

لوی الحبل بمعنی رسی بٹنا۔ اور لویت الحیّۃ بمعنی سانپ کا کنڈلی مارنا (منجد) اور لوّی لسانہ بمعنی زبان بولتے وقت اس طرح پیچ ڈالنا کہ مطلب کا کچھ کا کچھ بن جائے (مف) اور لوّی بمعنی کسی چیز کو موڑنا اور مروڑنا، موڑ دینا، سب معنوں میں آتا ہے۔ اور لوّی راسہ سر کو یوں حرکت دینا جیسے مخاطب کی بات ناقابل قبول ہو، سر مٹکانا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ (سورۃ المنافقون آیت 5)

اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول اللہ ﷺ تمہارے لئے مغفرت مانگیں تو سر ہلا دیتے ہیں اور تم انکو دیکھو کہ تکبر کرتے ہوئے رکے ہی رہتے ہیں۔

5: نغض

بمعنی کانپنا، ہلنا، بے قرار ہونا اور نغض راسہ بمعنی سر کو تعجب یا مسخری کا کپکپی کی وجہ سے مٹکانا، جھٹکا دینا (منجد) اور نغض بمعنی چلتے وقت کانپنے والا، سر کو ہلانے والا (منجد) اور بمعنی سر کو ہلانا (ف ل 173) اور الانغاض بمعنی سر کو حرکت دینا (م ل) ارشاد باری ہے:

اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا یَکۡبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۚ فَسَیُنۡغِضُوۡنَ اِلَیۡکَ رُءُوۡسَہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہُوَ ؕ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 51)

یا کوئی اور چیز جو تمہارے نزدیک پتھر اور لوہے سے بھی زیادہ سخت ہو۔ جھٹ کہیں گے کہ بھلا ہمیں دوبارہ کون جلائے گا؟ کہدو کہ وہی جس نے تمکو پہلی بار پیدا کیا۔ تو تعجب سے تمہارے آگے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ ایسا کب ہوگا۔ کہدو امید ہے کہ جلد ہو گا۔

ماحصل:

  • حرّک: حرکت دینا، ہلانا، استعمال عام ہے۔
  • ھزّ: کسی بڑی یا بھاری چیز کو جھٹکا دے کر ہلانا۔
  • ھشّ: کسی ہلکی یا نرم چیز کو جھٹکا دے کر ہلانا۔
  • لوّی: کسی چیز میں موڑ ڈالنا، جھٹکنا۔
  • نغض: سر کو تعجب، مسخری یا کپکپی کی وجہ سے ہلانا، یہ لفظ سر کو ہلانے کے لیے خاص ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہم آہنگی – ہونا​

کے لیے قرین، اتراب، سمیّ، کفو، صفّ اور ضاھی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قرین

قرن (جمع قرون) بمعنی زمانہ، دور (تفصیل زمان میں دیکھیے) اس لحاظ سے قرین کا معنی ہم عمر کیا جاتا ہے۔ اور قرن بمعنی وہ ایک رسی جس سے دو اونٹوں کو باندھ دیتے ہیں۔ قرن الثّورین بمعنی دو بیلوں کو پنجالی میں جوتنا۔ اس لحاظ سے قرین کا معنی ہم نشین کیا جاتا ہے۔ ایسا ساتھی جو ہم نوالہ و ہم پیالہ ہو (جمع قرناء) اور اس کا استعمال اکثر برے مفہوم میں ہی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ لَہٗ قَرِیۡنًا فَسَآءَ قَرِیۡنًا (سورۃ النساء آیت 38)

اور جو خرچ بھی کریں تو اللہ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے کو۔ اور ایمان نہ اللہ پر لائیں نہ روز آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو کچھ شک نہیں کہ وہ برا ساتھی ہے۔

2: اتراب

تراب بمعنی خاک، مٹی اور ترب بمعنی خاک آلود ہونا بھی اور محتاج و مفلس ہونا بھی۔ اور اترب بمعنی مالدار ہونا بھی اور تندرست ہونا بھی (لغت اضداد) (منجد) اور تارب بمعنی ایک ساتھ مٹی میں کھیلنا، ہم عمر ہونا، دوست ہونا۔ اور ترب بمعنی ہم عصر، ہم عمر، دوست، ساتھی (جمع اتراب) اور ترب کا مونث تربہ (جمع اتراب) صدیقہ اور ہم عمر عورت، ہم زاد، ہم سن (م ق) اتراب کا لفظ عورتوں کے لیے آتا ہے (منجد) گویا اتراب سے مراد ایسی دوست اور ہم عمر عورتیں ہیں جن میں مزاج کی بھی پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ قرآن میں ہے:

فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا عُرُبًا اَتۡرَابًا (سورۃ الواقعہ آیت 36، 37)

تو انکو کنواری بنایا۔ اور شوہروں کی پیاری اور ہم عمر۔

3: سمیّ

اسم بمعنی نام اور سمیّ بمعنی ہم نام، ایسے دو یا زیادہ اشخاص جن کا نام ایک ہی ہو۔ ارشاد باری ہے:

یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا (سورۃ مریم آیت 7)

فرمایا اے زکریا ہم تمکو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہو گا اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔

4: کفو

(کفا) کفو اور کفی بمعنی ہم پایہ اور ہم پلہ، برابر (منجد) اور بمعنی مثل، نظیر، جوڑ (م ق) اور بمعنی مرتبہ و منزلت میں دوسرے کا ہم پلہ ہونا۔ اور کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسرے ٹکڑے سے ملا کر خیمہ کے پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے۔ کفو کا لفظ عموماً نکاح یا رشتہ کے وقت یا لڑائی کے دوران بولا جاتا ہے۔ فلان کفو لفلان یعنی فلاں شخص فلاں کے جوڑ کا یا ہمسر ہے (مف) ارشاد باری ہے:

وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ (سورۃ الاخلاص آیت 4)

اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔

5: صفّ

بمعنی صف بنانا، سیدھی قطار بنانا۔ اور صفّف بمعنی قطار کو سیدھا کرنا اور رکھنا (م ق) صفّ (مصدر) بمعنی ہر شے کی سیدھی قطار، کلاس، صف بستہ قوم (منجد) ارشاد باری ہے:

وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا (سورۃ الفجر آیت 22)

اور تمہارا پروردگار جلوہ فرما ہو گا اور فرشتے قطار در قطار آ جائیں گے۔

پھر اس صف میں حالت کی جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کا اطلاق اور بھی کئی صورتوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً الصّافۃ من الابل (جمع صافّات اور صوّاف) پاؤں کو قطار میں کرنے والا اونٹ اور صافّ (من الابل) بمعنی ایک قطار میں ٹانگیں رکھے ہوئے اونٹ۔ اسی طرف صفّ الطّیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطار کی طرح سیدھا کر دیا۔ اور پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلا دینا اور بالکل حرکت نہ دینا بھی ہے جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔ ارشاد باری ہے:

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ فَوۡقَہُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقۡبِضۡنَ ؔۘؕ مَا یُمۡسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحۡمٰنُ ؕ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍۭ بَصِیۡرٌ (سورۃ الملک آیت 19)

کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور انکو سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ رحمٰن کے سوا انہیں کوئی تھام نہیں سکتا۔ بیشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

6: ضاھی

ضاھی الرّجل بمعنی شاکلہ و شابھم یعنی کسی شخص کا دوسرے سے ہم شکل ہونا یا عادات و اطوار میں مشابہ ہونا، ضھیّ بمعنی ہم شکل آدمی (م ق، مف، منجد) ارشاد باری ہے:

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 30)

اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ انکے منہ کی باتیں ہیں۔ پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہی کی ریس کرنے لگے ہیں اللہ ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

ماحصل:

  • قرین: ہم عمر یا ہم نشین ساتھی۔
  • اتراب: ہم عمر اور ہم مزاج، دوست یا سہیلیاں۔
  • سمیّ: ہم نام۔
  • کفو: قدر و منزلت میں ہم پلہ، ہمسر، برابر کی چوٹ۔
  • صفّ: قطار بندی اور حالت میں ہم آہنگی۔
  • ضاھی: شکل و صورت یا عادات و اطوار میں ہم آہنگی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہمت ہارنا​

کے لیے فشل اور استکان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: فشل

بمعنی لڑائی اور شدت کے وقت بزدلی دکھانا (منجد) ہمت ہارنا، جی چھوڑنا، نامردی دکھانا، کمزوری اور بزدلی دکھانا۔ قرآن میں ہے:

وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ (سورۃ آل عمران آیت 152)

اور اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کردیا یعنی اس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے اللہ نے تم کو دکھا دیا۔

2: استکان

بمعنی پوری محنت کے بعد تھک کر اور کمزور ہو کر بالآخر ہمت ہار دینا، عاجز ہو جانا، ہمت کا جواب دے جانا، مطیع ہو جانا، دب جانا۔ ارشاد باری ہے:

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 146)

اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ کے دشمنوں سے لڑے ہیں۔ تو جو مصیبتیں ان پر اللہ کی راہ میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ کافروں سے دبے اور اللہ استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

ماحصل:

ابتدا ہی میں دل چھوڑ دینے اور ہمت دینے کے لیے فشل اور اپنی قوت صرف کر چکنے کے بعد ہمت ہارنے پر استکان آئے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہموار کرنا​

کے لیے سطح، دکّ اور مرّد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: سطح

کے بنیادی معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) پھیلانا یا بچھانا (2) پھر اسے ہموار کرنا۔ اور سطح البیت بمعنی گھر کی چھت کو ہموار کرنا۔ اور مسطح بمعنی ہموار کرنے کا آلہ یا اوزار اور سطح بمعنی مکان کی چھت کا اوپر کا حصہ (منجد) امام راغب کے الفاظ میں اعلی البیت جعل سویّا (مف) ارشاد باری ہے:

وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 20)

اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئ۔

2: دکّ

کے بنیادی معنی (1) کوٹنا (2) پھر اسے ہموار کر دینا (م ل) یعنی کسی چیز کو کوٹ کر زمین کے برابر کر دینا (مف) ارشاد باری ہے:

قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَ کَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا (سورۃ الکہف آیت 98)

بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے پھر جب میرے پروردگار کا وعدہ آ پہنچے گا تو اس کو ڈھا کر ہموار کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔

3: مرّد

مرد الغلام بمعنی لڑکے کا بے ریش ہونا۔ اور مرّد الغصن بمعنی ٹہنی کے پتے صاف کرنا۔ اور مرّد البناء بمعنی عمارت کو ہموار اور چکنا کرنا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:

قِیۡلَ لَہَا ادۡخُلِی الصَّرۡحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡہُ حَسِبَتۡہُ لُجَّۃً وَّ کَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَیۡہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ ۬ؕ قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 44)

اسکے بعد اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے۔ جب اس نے اسکے فرش کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا اور کپڑا اٹھا کر اپنی پنڈلیاں کھول دیں سلیمان نے کہا یہ ایسا محل ہے جس کے نیچے بھی شیشے جڑے ہوئے ہیں وہ بول اٹھی کہ پروردگار میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی تھی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔

ماحصل:

  • سطح: بچھانا اور ہموار کرنا۔
  • دکّ: ریزہ ریزہ کر کے زمین کے ہموار کرنا۔
  • مرّد: ہموار اور چکنا کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہمیشہ​

کے لیے سرمد اور ابد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سرمد

بمعنی دائم، ہمیشہ (مف) سرمدیّ بمعنی جس کا نہ اول ہو نہ آخر (منجد) ہمیشہ کسی چیز کا ایک ہی حالت میں رہنا اور اس میں کچھ تغیر و تبدل نہ ہونا (فق ل 95) ارشاد باری ہے:

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ الَّیۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِضِیَآءٍ ؕ اَفَلَا تَسۡمَعُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 71)

کہو بھلا دیکھو تو اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات کی تاریکی کئے رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمکو روشنی لا دے تو کیا تم سنتے نہیں۔

2: ابد

(ضد ازل) زمانۂ دراز کا پھیلاؤ۔ مسلسل جاری رہنے والی مدت (مف) ظرف زمان ہے جو مستقبل میں نفی اور اثبات دونوں کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ مثلاً افعلہ ابدا میں اسے ضرور کرتا رہوں گا اور لا افعلہ ابدا بمعنی میں اسے کبھی بھی نہ کروں گا (منجد) اور ابد سے پہلے خلد مزید تاکید کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:

جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ (سورۃ البینۃ آیت 8)

ان کا صلہ انکے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش یہ صلہ اس کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ جمعہ آیت 7)

اور یہ لوگ ان اعمال کے سبب جو یہ کر چکے ہیں ہر گز اسکی آرزو نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔

ماحصل:

  • سرمد: ظرف زمانی، صرف اثبات کے لیے اور بلا تغیر کسی حالت کے مسلسل رہنے کے لیے آتا ہے۔
  • ابد: ظرف زمانی، مستقبل میں نفی و ثبات دونوں کی تاکید اور حالت اور کام کے تسلسل کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہمیشہ ہونا – رہنا​

کے لیے خلد، وصب، ظلّ، استمّر اور ان کے علاوہ افعال ناقصہ میں سے دام، زال، ابرح اور فتا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: خلد

کا لفظ ہمیشگی کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کی ابتدا سے عرصۂ دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہونے کے لیے آتا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ ابد کے ساتھ تاکید کے لیے آتا ہے اور جہاں محض عرصۂ دراز مقصود ہو تو صرف یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ابدا کا لفظ ساتھ نہیں آتا۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ (سورۃ البینۃ آیت 6)

جو لوگ کافر ہیں یعنی اہل کتاب اور مشرک وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ یہ لوگ سب مخلوق سے زیادہ برے ہیں۔

اور اسی سورۃ میں جہاں مومنوں کی جزا کا ذکر کیا تو فرمایا:

جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ (سورۃ البینۃ آیت 8)

ان کا صلہ انکے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش یہ صلہ اس کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے۔

اور اخلد اور خلّد دونوں کسی چیز کے ایک حالت پر طویل عرصہ تک برقرار رہنے یا ایک ہی حالت میں رہنے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا:

یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ (سورۃ ھمزۃ آیت 3)

شاید وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسکی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 17)

نوجوان خدمت گذار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھریں گے۔

2: وصب

ابن الفارس کے نزدیک اس کا معنی محض کسی چیز کا ایک حالت پر دوام ہے (م ل) اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک شدّۃ الوجع (ف ل 48) یعنی درد کی شدت اور صاحب منجد کے نزدیک الواصب بمعنی بہت دور تک پھیلا ہوا بیابان اور وصب بمعنی دائم ہونا، ثابت ہونا اور دائم المریض ہونا (منجد) ارشاد باری ہے:

دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ (سورۃ الصافات آیت 9)

یعنی وہاں سے نکال دینے کو اور انکے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔

دیکھیے یہاں واصب کے معنی میں دوام، شدت الوجع اور پھیلاؤ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ مگر بعد میں یہ لفظ شدت الوجع کا معنی چھوڑ کر محض شدت یا مضبوطی اور وسعت و دوام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا ؕ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 52)

اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے تو تم اللہ کے سوا اوروں سے کیوں ڈرتے ہو؟

3: ظلّ

بمعنی ہمیشہ رہنا۔ ظلّ الیوم دن کا سایہ دار ہونا، سارا دن سایہ رہنا۔ ظلل بمعنی پانی جو ہمیشہ درختوں کے سایہ میں رہے۔ اور ظلیل بمعنی سایہ دار، ہمیشہ سایہ والا۔ اور ظلّۃ اسم مرہ، اقامت (منجد) ظللت اور ظلت (ایک لام کے ساتھ) یہ اصل میں اس کام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو دن کے وقت کیا جائے۔ مگر کبھی صرت یعنی ہو جانا یا رہ جانا کے معنی میں بھی آ جاتا ہے (مف) اور ظلّ بمعنی کسی کام کو سارا دن کرنا یا سارا دن ایک ہی جیسی حالت رہنا (م ق) گویا ظلّ میں دن بھر یا کچھ مدت تک کے لیے دوام پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ فَیَظۡلَلۡنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (سورۃ شوری آیت 33)

اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔ کہ جہاز اسکی سطح پر کھڑے رہ جائیں۔ ہر صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے ان باتوں میں قدرت کے نمونے ہیں۔

4: استمرّ

مرّ بمعنی گزرنا، جانا، کسی چیز کے پاس سے گزر جانا (مف، منجد) اور استمرّ بمعنی ایک حالت یا طریقہ پر باقی رہنا، ہمیشگی کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ (سورۃ القمر آیت 2)

اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک پہلے سے چلا آتا جادو ہے۔

ماحصل:

  • خلد: طویل مدت تک بلا تغیر ایک ہی حالت میں رہنا۔
  • وصب: میں دوام کے ساتھ وسعت اور مضبوطی پائی جاتی ہے۔
  • ظلّ: دن بھر کوئی کام کرنا یا سارا دن ایک جیسی حالت رہنا۔
  • استمرّ: شروع سے اب تک کسی حالت یا طریقہ کا بدستور رہنا۔
حروف نافیہ کے ساتھ ہمیشگی کا معنی دینے والے الفاظ

5: دام


دوام بمعنی سکون اور ماء الدّائم بمعنی کھڑا پانی جس میں کچھ حرکت نہ ہو۔ اور دام الشئ بمعنی کسی چیز کا عرصۂ دراز تک بلا تغیر ایک ہی حالت میں رہنا (مف) اور دوام بمعنی ہمیشگی۔ یہ فعل بسا اوقات کسی دوسری حالت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے یعنی جب تک یہ حالت رہے گی تو یہ بھی برقرار رہے گی۔ اس وقت اس پر ما کا حرف داخل ہوتا ہے اور ما دام "جب تک کہ" کا معنی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 24)

وہ بولے کہ موسٰی جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جانے کے اگر لڑنا ہی ضرور ہے تو تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔

6: زال

بمعنی زائل ہونا، ٹل جانا۔ اور زوال بمعنی ڈھل جانا۔ یہ لفظ لا اور ما نافیہ کے ساتھ مل کر ہمیشگی کا معنی دیتا ہے اور ان معنوں میں ہمیشہ لا اور ما کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے (مف) اور ظرف زمانی کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اصۡفَحۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 13)

اور تھوڑے آدمیوں کے سوا ہمیشہ تم ان کی ایک نہ ایک خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو۔ سو انہیں معاف رکھو اور ان سے درگذر کرو اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

فَمَا زَالَتۡ تِّلۡکَ دَعۡوٰٮہُمۡ حَتّٰی جَعَلۡنٰہُمۡ حَصِیۡدًا خٰمِدِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 15)

تو وہ برابر اسی طرح پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انکو کھیتی کی طرح کاٹ کر اور آگ کی طرح بجھا کر ڈھیر کر دیا۔

7: ابرح

برح کی ضد برز ہے۔ اور برز بمعنی کھلے میدان میں سامنے آ جانا۔ اور برح بمعنی کھلے میدان سے ہٹ جانا (مف) صرف مضارع استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب نفی کا لفظ لا یا لن آئے تو ظرف مکانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ حتی کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا (سورۃ الکہف آیت 60)

اور جب موسٰی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ٹلنے کا نہیں خواہ صدیوں چلتا رہوں۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَیۡہِ عٰکِفِیۡنَ حَتّٰی یَرۡجِعَ اِلَیۡنَا مُوۡسٰی (سورۃ طہ آیت 91)

وہ کہنے لگے کہ جب تک موسٰی ہمارے پاس واپس نہ آئیں ہم تو اس کی پوجا پر قائم رہیں گے۔

8: فتا

بمعنی کسی کو کسی کام سے روک دینا۔ لا اور ما نافیہ اس پر داخل ہو تو کسی کام کے مسلسل کرتے جانے کے معنی دیتا ہے۔ کہتے ہیں ما فتا یفعل ذلک وہ ہمیشہ یہ کرتا رہا۔ حتی کے ساتھ عموماً مشروط ہوتا۔ صرف ماضی اور مضارع استعمال ہوتا ہے (منجد) ظرف زمان کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ صرف ایک بار آیا ہے مگر وہاں بھی لا محذوف ہے (جلالی و جامع البیان) ارشاد باری ہے:

قَالُوۡا تَاللّٰہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 85)

بیٹے کہنے لگے کہ واللہ آپ تو یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ گھل جائیں گے یا جان ہی دے دیں گے۔

ماحصل:

  • دام: صرف ماضی، ما سے مشروط، حالت کی تبدیلی کے لیے، ظرف مکانی و زمانی دونوں کے لیے۔
  • ابرح: صرف مضارع۔ لا اور لن نفی کے ساتھ اور حتی سے مشروط، ظرف مکانی کے لیے آتا ہے۔
  • زال: ماضی اور مضارع اور ما نافیہ، ظرف زمانی کے لیے۔
  • فتا: ماضی اور مضارع اور لا اور ما نافیہ، حتی سے مشروط، ظرف زمانی کے لیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہنسنا​

کے لیے ضحک اور تبسّم کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ضحک

آواز کے ساتھ منہ کھول کر ہنسنا جس میں دانت نظر آ جائیں (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ (سورۃ ھود آیت 71)

اور ابراہیم کی بیوی جو پاس کھڑی تھی ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحٰق کی اور اسحٰق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔

2: تبسّم

بسم اور تبسّم بمعنی مسکرانا (منجد) بغیر آواز تھوڑا سا ہنس دینا جس سے انبساط کے آثار نظر آئیں۔ قرآن میں ہے:

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 19)

تو وہ اسکی بات سے ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہوا اور اس کی اقسام​

ہوا کے لیے معروف لفظ ریح (روح) ہے۔ ابن الفاس کے نزدیک اس کا معنی ہوا اور حرکت کرنا ہے (م ل) مگر یہ اس سے زیادہ وسیع معنوں میں قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:

1: بمعنی ہوا معروف معنوں میں جو حرکت کرتی ہے (ف ل 172) ارشاد باری ہے:

اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ فَیَظۡلَلۡنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (سورۃ شوری آیت 33)

اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔ کہ جہاز اسکی سطح پر کھڑے رہ جائیں۔ ہر صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے ان باتوں میں قدرت کے نمونے ہیں۔

2: بمعنی بو یا خوشبو۔ قرآن میں ہے:

وَ لَمَّا فَصَلَتِ الۡعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمۡ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ (سورۃ یوسف آیت 94)

اور جب قافلہ مصر سے روانہ ہوا۔ تو انکے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے۔

3: بمعنی رعب اور دبدبہ۔ جیسے فرمایا:

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ (سورۃ الانفال آیت 46)

اور اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ ایسا کرو گے تو تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔

اور ریح کی جمع ریاح ہے۔ جب ارسال الرّیاح کا لفظ ہو تو وہاں رحمت کی ہوائیں مراد ہوتا ہے۔ اور اگر ارسال الرّیح مذکور ہو یعنی واحد کا صیغہ استعمال ہو تو اس سے مراد عذاب دینے والی ہوا ہوتی ہے (مف) اب ہم اسی لحاظ سے ان کی الگ الگ تقسیم کرتے ہیں۔

خوشگوار ہوائیں

کے لیے روح، ریحان، مبشّرات اور لواقح کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: روح

بمعنی باد نسیم، رحمت، خوشی، آرام رو اور یوم روح بمعنی خوشگوار دن (منجد) اور امام راغب کے نزدیک روح اور روح (ر مفتوحہ) دراصل ایک ہی ہیں۔ اور روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے۔ اور اراح الانسان کے معنی کسی شخص کے سانس لینے کے ہیں۔ اور راحت حاصل کرنے کے بھی (مف) روح کے مختلف معانی پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا معنی اللہ کے احسانات اور انعامات کی مسلسل جاری رہنے والی رو ہے جو انسان کے لیے راحت و آرام کا سبب بنتی ہے۔ ارشاد باری ہے:

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 87)

اے بیٹو یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر جاؤ اور یوسف اور اسکے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔

2: ریحان

بمعنی ہر خوشبودار پودا، روزی، معیشت (منجد) اور رائحۃ بمعنی مہکنے والی خوشبو اور ریحانۃ بمعنی پھولوں کا گلدستہ (منجد) ان معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ریحان سے مراد رزق یا کھیتی سے حاصل شدہ خوردنی اشیا ہوں تو ان سے مراد ایسی چیزیں ہیں جن کی مہک اور بو خوشگوار ہو۔ ارشاد باری ہے:

فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ (سورۃ الواقعہ آیت 89)

تو اس کے لئے آرام اور روزی اور نعمت کے باغ ہونگے۔

دوسرے مقام پر ہے:

وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ (سورۃ الرحمن آیت 12)

اور اناج جسکے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول۔

3: مبشّرات

نزول رحمت یا باران رحمت کی خوشخبری دینے والی ہوائیں، بارش سے پہلے کی مرطوب اور خوشگوار ہوا (ف ل 254) ارشاد باری ہے:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ یُّرۡسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیۡقَکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ بِاَمۡرِہٖ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 46)

اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ خوشخبری دیتی ہیں تاکہ تمکو اپنی رحمت کے مزے چکھائے اور تاکہ اسکے حکم سے کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اسکے فضل سے روزی طلب کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔

4: لواقح

(واحد لاقحہ) لقح بمعنی بار بردار ہوا۔ اور یہ بوجھ دو طرح کا ہو سکتا ہے (1) پانی کا بوجھ جو ہوائیں برسنے سے پہلے اٹھائے پھرتی ہیں (2) نر درخت کے تخم کا بوجھ جو وہ مادہ درخت پر جا کر ڈال دیتی ہے (م ل) قرآن میں ی لفظ صرف پہلے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَیۡنٰکُمُوۡہُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ لَہٗ بِخٰزِنِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 22)

اور ہم ہوائیں چلاتے ہیں جو پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں سو ہم آسمان سے مینہ برساتے ہیں پھر ہم تمکو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔

ناگوار ہوائیں

کے لیے عاصف، قاصف، حاصب، سموم، اعصار، حسبان، نفخۃ، صرصر اور ریح عقیم کے الفاظ آئے ہیں۔

5: عاصف

عصف بمعنی بھوسی، بھوسہ، خشک نباتات جو ٹوٹ کر چورا چورا ہو جائے (مف) اور عاصفۃ اس تیز ہوا یا آندھی کو کہتے ہیں جو بھوسہ یا اس کے برابر کی چیزوں کو اڑاتی پھرے۔ ارشاد باری ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ ۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 22)

وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور کشتیاں خوشگوار ہوا کی مدد سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر جوش مارتی ہوئی آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اب تو لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص اللہ ہی کی عبادت کر کے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ اے اللہ اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم تیرے بہت ہی شکرگذار ہوں۔

6: حاصب

حصب بمعنی پتھر کنکر اور حاصبۃ اتنی تیز آندھی کو کہتے ہیں جو پتھر کنکر اڑاتی پھر (ف ل 153) اور احصب الفرس بمعنی گھوڑے کا اتنا تیز دوڑنا کہ اس کے پاؤں سے کنکریاں ہوا میں اڑنے لگیں (م ق) ارشاد باری ہے:

اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 68)

کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف لے جا کر زمین میں دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کی بھری ہوئی آندھی چلا دے۔ پھر تم اپنا کوئی نگہبان نہ پاؤ۔

7: قاصف

قصف بمعنی توڑنا اور ٹوٹنا (م ل) اور قاصف وہ تند و تیز آندھی ہے جو درختوں وغیرہ کو توڑ دے (مف) آندھی کا طوفان، گرجدار آندھی۔ ارشاد باری ہے:

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ اَنۡ یُّعِیۡدَکُمۡ فِیۡہِ تَارَۃً اُخۡرٰی فَیُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیۡحِ فَیُغۡرِقَکُمۡ بِمَا کَفَرۡتُمۡ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ عَلَیۡنَا بِہٖ تَبِیۡعًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 69)

یا اس بات سے بےخوف ہو کہ تمکو دوسری دفعہ سمندر میں لے جائے پھر تم پر تیز ہوا چلائے اور تمہارے کفر کے سبب تمہیں ڈبو دے۔ پھر تم اس معاملے میں اپنے لئے کوئی بازپرس کرنے والا نہ پاؤ۔

8: سموم

سخت گرم ہوا، لو، جو اجسام کو جھلس دے (ف ل 254) ارشاد باری ہے:

فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ (سورۃ الطور آیت 27)

تو اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور دوزخ کی گرم ہوا کے عذاب سے ہمیں بچا لیا۔

9: اعصار

وہ تند و تیز ہوا جو فضا میں چکر کاٹے (مف) اور بمعنی گرد و غبار سے پر ایسی تیز ہوا جو سیدھا آسمان کا رخ کرے (ف ل 253) بگولا، پنجابی واورولا۔ قرآن میں ہے:

فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 266)

تو ناگہاں اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے پس وہ جل جائے۔

10: حسبان

حسب بمعنی حساب کرنا، گننا، شمار کرنا۔ اور حسبان بمعنی ایسا عذاب جو حساب چکانے کو کافی ہو۔ اور حسبان کا معنی مختلف اہل لغت نے مختلف کیا ہے۔ تاہم یہ عذاب ہوا کے عذاب ہی سے متعلق ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا (سورۃ الکہف آیت 40)

تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے۔

11: نفخۃ

بمعنی سرد جھونکا، جیسے دھونکنی سے ایک بار میں ہوا نکلتی ہے۔ بھانپ، پھونک، شدید سرد ہوا کی لپٹ اور اس کی ضد لفحۃ (گرم لو کی لپٹ) ہے (ف ل 29) قرآن میں ہے:

وَ لَئِنۡ مَّسَّتۡہُمۡ نَفۡحَۃٌ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 46)

اور اگر انکو تمہارے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی پہنچے تو کہنے لگیں کہ ہائے کم بختی ہم بیشک گناہگار تھے۔

12: صرصر

سخت ٹھنڈی ہوا، تیز اور سائیں سائیں کرنے والی ٹھنڈی ہوا، سناٹے کی ہوا، پنجابی سیت (ف ل 47، 254) ارشاد باری ہے:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡ یَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّ (سورۃ القمر آیت 19)

ہم نے ان پر ایک رہتی نحوست کے دن میں زبردست آندھی چھوڑ دی۔

13: ریح العقیم

(لاقحہ کی ضد) یعنی جو نہ تو بارش یا بادل اٹھانے والی ہو اور نہ تخم ریزی کرنے والی ہو (ف ل 254) خیر سے خالی ہونا۔ جس کا نقصان ہی نقصان ہو۔ ارشاد باری ہے:

وَ فِیۡ عَادٍ اِذۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الرِّیۡحَ الۡعَقِیۡمَ (سورۃ الذریات آیت 41)

اور عاد کی قوم کے حال میں بھی نشانی ہے جب ہم نے ان پر نامبارک ہوا چلائی۔

ماحصل:

  • روح: رحمت، اللہ کے احسانات و انعامات کی مسلسل رواں لہر۔
  • ریحان: خوشبو دار پھول، پودے، فصل۔
  • مبشّرات: بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں۔
  • لواقح: بار بردار ہوائیں۔
  • عاصف: بھوسے تنکے اڑانے والی آندھی۔
  • حاصب: پتھر کنکر اڑانے والی آندھی۔
  • قاصف: درختوں تک کو توڑ دینے والی آندھی کا طوفان۔
  • سموم: لو، سخت گرم چلنے والی ہوا۔
  • اعصار: بگولا۔
  • حسبان: ہوا کا عذاب جو حساب چکانے کو کفایت کرے۔
  • نفحۃ: بھانپ، سخت سرد ہوا کی صرف ایک لہر۔
  • صرصر: سناٹے کی ٹھنڈی ہوا۔
  • ریح العقیم: ایسی ہوا جو خیر سے خالی ہو اور اس کا نقصان ہی نقصان ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ہونا​

کے لیے کان، اصبح، صدر اور اصدر اور وقع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: کان

بمعنی ہے، ہو گیا اور تھا۔ کان ماضی اور حال کا معنی دیتا ہے۔ اور اس کا مضارع یکون حال اور مستقبل دونوں کا۔ ابن الفارس کے نزدیک کان کا معنی اخبار عن حدوث الشیء (م ل) ہے۔ یعنی کسی نئی بات کے وجود میں آنے کی خبر دینا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 34)

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا۔

دوسرے مقام پر ہے:

یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا (سورۃ الدھر آیت 7)

یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہو گی خوف رکھتے ہیں۔

نیز کان فعل ناقص کی صورت میں بھی آتا ہے۔ ماضی پر داخل ہو کر اسے ماضی بعید کے معنوں میں بدل دیتا ہے۔ کان ذھب بمعنی وہ گیا تھا اور مضارع پر داخل ہو کر اسے ماضی استمراری میں بدل دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 59)

تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا پس ہم نے ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے۔

2: اصبح

بمعنی ہو گیا۔ ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی کے لیے یا ایک صفت سے دوسری صفت کی تبدیلی کے لیے آتا ہے (م ق) اصبح الحقّ بمعنی حق ظاہر ہو گیا (منجد) ارشاد باری ہے:

وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 10)

اور موسٰی کی ماں کا دل بیقرار ہو گیا اگر ہم انکے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس غم کو ظاہر کر دیتیں۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ مومنوں میں رہیں۔

3: صدر

(ضد ورد) کسی کام کے بخیر و خوبی سر انجام پانے پھر اس سے فراغت کے بعد واپسی پر بولا جاتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:

یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ (سورۃ الزلزال آیت 6)

اس دن لوگ طرح طرح کے ہو کر آئیں گے۔ تاکہ انکو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔

دوسرے مقام پر ہے:

قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ (سورۃ القصص آیت 23)

وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے۔

4: وقع

کے بنیادی طور پر دو معنی ہیں (1) کسی چیز کا ثابت ہونا (2) نیچے گرنا۔ اور واقعۃ عام طور پر ایسے حادثہ کو کہتے ہیں جس میں شدت اور سختی ہو۔ قرآن میں اس لفظ کا استعمال عذاب، مکروہات اور شدائد کے لیے ہوا ہے (مف) جیسے فرمایا:

سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (سورۃ المارج آیت 1)

ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا۔

دوسرے مقام پر ہے:

وَ وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا فَہُمۡ لَا یَنۡطِقُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 85)

اور ان کے ظلم کے سبب انکے حق میں وعدہ عذاب پورا ہو کر رہے گا تو وہ بول بھی نہ سکیں گے۔

ماحصل:

  • کان: حدوث کی اطلاع کے لیے۔
  • اصبح: حالت یا صفت کی تبدیلی کے لیے۔
  • صدور: کسی کام سے بخیر و خوبی فراغت پانے پر۔
  • وقع: کسی ناگوار امر کے وقوع میں آنے کے لیے آتا ہے۔
 
Top