مترادفات القرآن (ی)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

یا​

کے لیے او، ام اور امّا یا امّا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: او

دو یا زیادہ چیزوں میں سے ایک چیز بتلانے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے:

اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 259)

یا اسی طرح اس شخص کو نہیں دیکھا جس کا ایک بستی پر جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی گذر ہوا

2: ام

حرف عطف، ہمزہ استفہام کے بعد برابری کے معنی میں آتا ہے (منجد، مف) قرآن میں ہے:

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا (سورۃ النازعات آیت 27)

بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟ اللہ نے اسکو بنایا۔

3: امّا

دو چیزوں میں سے ہر ایک چیز بتلانے کے لیے آتا ہے اور تکرار کے ساتھ آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا (سورۃ الدھر آیت 3)

یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

یاد کرنا – آنا – رکھنا​

کے لیے ذکر اور ادّکر، حفظ اور وعی کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: ذکر

بمعنی زبان یا دل پر کسی بات کا حاضر ہونا، خواہ کوئی بات یاد رہے یا نسیان کے بعد یاد آئے (مف) اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:

اَوَ لَا یَذۡکُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ یَکُ شَیۡئًا (سورۃ مریم آیت 67)

کیا ایسا انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی تو پیدا کیا تھا جبکہ وہ کچھ بھی چیز نہ تھا۔

اور ادّکر بمعنی کی بھولی بسری بات کا یاد آنا۔ قرآن میں ہے:

وَ قَالَ الَّذِیۡ نَجَا مِنۡہُمَا وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمۡ بِتَاۡوِیۡلِہٖ فَاَرۡسِلُوۡنِ (سورۃ یوسف آیت 45)

اور وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آ گئ بول اٹھا کہ میں آپ کو اسکی تعبیر لا بتاتا ہوں مجھے قید خانے جانے کی اجازت دیجئے۔

2: حفظ

کسی بات کا یاد رکھنا اور پھر اس کا دھیان رکھنا (م ل) کسی چیز کو ضائع اور تلف ہونے سے بچانا، خراب ہونے سے محفوظ رکھنا (مف) ارشاد باری ہے:

حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 238)

مسلمانو سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز یعنی نماز عصر پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔

3: وعی

بمعنی کسی چیز کو تھیلی وغیرہ رکھ کر اس کا منہ بند کر دینا، اس کی حفاظت کرنا اور کچھ نکلنے نہ دینا (مف، م ل) اور وعاء بمعنی بندھا ہوا سامان۔ ارشاد باری ہے:

لِنَجۡعَلَہَا لَکُمۡ تَذۡکِرَۃً وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ (سورۃ الحاقۃ آیت 12)

تاکہ اسکو تمہارے لئے یادگار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔

ماحصل:

  • ذکر: یاد کرنا، رکھنا، آنا، دل میں یاد کرنا یا زبان سے یاد کرنا سب جگہ استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال عام ہے۔
  • حفظ: کسی بات کو زبانی یاد کر لینا، دل میں محفوظ کرنا پھر اس کا دھیان رکھنا اور بھلا نہ دینا۔
  • وعی: بمعنی یاد رکھنا اور اس میں کسی طرح کمی بیشی نہ ہونے دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

یقین کرنا​

کے لیے ایقن، استیقن اور ظنّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ایقن

یقن بمعنی کوئی شک و شبہ باقی نہ رہنا (م ل) اور امام راغب کے نزدیک یقن بمعنی "کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ ساتھ اس کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے ہیں"۔ اور اس کا درجہ معرفت اور درایت سے اوپر ہے (مف) اور ابو الہلال عسکری کے نزدیک یقین کا درجہ علم سے بڑھ کر ہے۔ وہ لکھتے ہیں "الیقین سکون النفس و نھج الصدر بما علم" (فق ل 63) یعنی معلوم چیز پر دل کے سکون اور سینہ کی ٹھنڈک کا نام یقین ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 4)

اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔

اور استیقن "کسی بات کا تجربہ کے بعد آہستہ آہستہ یقین ہونا" کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ظُلۡمًا وَّ عُلُوًّا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (سورۃ النمل آیت 14)

اور بےانصافی اور غرور سے انکو ماننے سے انکار کیا جبکہ انکے دل ان کو مان چکے تھے۔ سو دیکھ لو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔

2: ظنّ

دراصل قرائن و شواہد سے اندازہ کرنے اور گمان کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ اب یہ علامات و شواہد جتنے کمزور ہوں گے تو ظن اتنا ہی کمزور، اور جتنے قوی ہوں گے تو ظن اتنا ہی قوی ہو گا۔ اس صورت میں ظن قوی یقین ہی کا معنی دیتا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ظنّ کے بعد بالعموم انّ یا ان کا لفظ آتا ہے (مف) (تفصیل "گمان کرنا" میں دیکھیے) ارشاد باری ہے:

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 46)

جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اسکی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں۔

ماحصل:

  • یقین: کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینا اور اس کا پایہ ثبوت کو پہنچ جانا۔
  • ظنّ انّ علامات و قرائن سے اندازہ کر کے یقین حاصل کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

یکسو ہونا​

کے لیے حنف اور تبتّل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: حنیف

حنف (ضد جنف) تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر استقامت کی طرف مائل ہونا (مف) اور حنیف تمام غلط راہوں کو چھوڑ کر صرف ایک سیدھی راہ کی طرف آنے والا۔ ارشاد باری ہے:

وَ اَنۡ اَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ۚ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 105)

اور یہ کہ اے نبی سب سے یکسو ہو کر دین اسلام کی پیروی کئے جاؤ اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا۔

2: تبتیل

بتل بمعنی کسی شے کو کاٹ ک کسی سے جدا کرنا (منجد) اور بتّل اور تبتّل بمعنی ہر قسم کے دھندوں اور جھمیلوں سے توجہ ہٹا کر اور فراغت پا کر خدا کی طرف متوجہ ہونا، خلوص نیت سے عبادت الہی میں مشغول ہونا (مف) ارشاد باری ہے:

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ (سورۃ مزمل آیت 8)

تو اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بے تعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔

ماحصل:

حنف: باطل راہوں کو چھوڑ کر اور یکسو ہو کر سیدھی راہ کی طرف آنا۔ اور تبتّل بمعنی دنیوی جھمیلوں اور دھندوں کو چھوڑ کر یکسو ہونا۔
 
Top