ادھوری ملاقات

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بڑے انتظا ر کے بعد آج ایک دن خوشی کا آیا مگر افسوس لمحے بہت مختصر رہے مولانا داؤ الرحمن کا قلعہ احمد آباد میں آمد کا کئی سالوں سے انتظارِ تھا آج 10بجے فون کال سنی مولانا کی آ واز سنی اور حضرت نے فر مایا ہم آج آپ کے قلعے میں موجود ہیں دل سنکر باغ باغ ہو گیا جلدی سے راقم صاحب کے گھر پہنچا مولانا سے ملاقات ہوئی راقم صاحب نے پر تکلف ناشتہ بنا رکھا تھا ۔۔ ناشتے کے بعد حضرت کو اپنی مسجد کا دوری کروایا پھر اپنی لائبریری میں دکھائی حضرت سے یہ گلہ تھا کہ اچانک آ ے ہیں اطلاع دے دیتے اپنے گاؤں کے کر جاتا مجھے بھی جلدی تھی کہ میں نے ایک پروگرام میں شریک ہونا تھا 12بجے ٹائم مختصر کا گلہ رہا زیادہ دیر ملاقات نہ ہوسکی اس کا گلہ ہی رہا
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
حضرت ہم سلطان الغزالی ہیں آنا فانا کودتے ہیں ، دوسرا آپ کو سرپرائز دینا تھا۔ تیسرا سلطان ملاحظہ کرنا چاہتے تھے کہ ہماری سلطنت کے ترجمان ، ترجمانی صحیح کررہے ہیں یا نہیں ۔ہاہاہا
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ہمارے کلاس فیلو صاحب ملائیشیاء سے ہمارے غریب خانہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ہفتہ کی رات کچھ مصروفیات کی وجہ سے شدید مصروفیت رہی۔ صبح تقریبا 3 کو بجے فراغت ہوئی تو موبائل دیکھنے کا موقع میسر آیا۔کلاس فیلو صاحب کا میسج تھا صبح ایک کام سے جانا ہے، آپ نےساتھ چلنا ہے۔
پہلے پہل تو سیدھا اگنور مارا کہ رات جاگا صبح تھوڑا سونے کا وقت مل جائے گا تو آسانی رہے گی۔پھر سوچ آئی پوچھ ہی لوں کہ حضرت نے کودنا کہاں ہے۔؟ وہ بھی ہم جیسے سلطان کو لیکر۔؟کلاس فیلو صاحب نے جو جگہ ارشاد فرمائی اس پر ہمارے دماغ کی بتی جلی اور ہم سلطان الغزالی کے روپ میں ڈھل گئے۔
راقم بھائی کو اسی وقت میسج کیا کہ آپ فلاں جگہ سے کتنا دور ہیں۔؟شاید راقم بھائی سلطان کے جلالی میسج کو دیکھتے ہوئے جواب عنایت کردیا کہ چند کلو میٹر۔ایک طرف تھکاوٹ شدید ،دوسری طرف سلطان الغزالی،تیسری طرف راقم بھائی کا اصرار شروع۔ چوتھی طرف کلاس فیلو صاحب موڈ بدلنا شروع۔
ہم نے موبائل رکھا اور اپنے معمولات میں لگ گئے،بعد از فجر موبائل دیکھا تو راقم بھائی کا اصرار کہ ناشتہ میری طرف۔ کلاس فیلو صاحب نے سلطان کو سیدھا انکار کر ڈالا کہ اب نہیں جانا۔میں نے راقم بھائی کو کہا اگر آگئے تو حاضری ہوگی ورنہ معذرت۔
اور سلطان تخت شاہی پر کچھ دیر آرام فرما گئے ،گھنٹہ گزرا ہوگا کہ راقم بھائی کی کال آئی اور اس میں سلطان کے استقبال کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرنے کی نوید سنائی۔سلطان نے تخت شاہی کو چھوڑا کلاس فیلو کو کال کی گاڑی نکالو میں آیا۔جناب نے سلطان کو ہی انکار کردیا کہ نہیں جانا،اب سلطان کے تیور بدلے، ایک ساتھی کال کی اس کو بستر سے نیچے گراؤ،سلطان نے دو منٹ میں تیاری فرمانی ہے اور مجھے یہ بندہ میرے آنے سے قبل بلکل ہشاس بشاش اور تیار شدہ چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ سوچ لو سلطان کیا کرے گا۔
سلطان نے شاہی لباس پہنا حضرت والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا،دعائیں لیں،پھر حضرت والد صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی اور معاملہ بتلایا کہ چھوٹا سا سفر ہے،سر پرہاتھ رکھ کر دعاؤں سے نوازا،سلام کرکے جیسے ہی سلطان آئے تو ہمارے کلاس فیلو صاحب لال آنکھوں سے گھور ررہے تھے۔ہم نے فورا بولنے کو غنیمت جانا کہ
جناب!یہ ہماری سلطنت ہے،یہاں آڈر ہمارا چلے گا،ہم سے پنگا لوگے تو بُرا ہوگا۔سفر کا آغاز ہوا،راستے میں جو کام تھے وہ بھی نمٹانے شروع کردیے،جہاں جانا تھا وہاں پہنچے تب راقم بھائی کو کال کی تو معلوم ہوا کہ کچھ ہی مسافت پر ہیں،فیصلہ ہوا پہلے راقم بھائی اور مولانا نورالحسن انور سے ملاقات کرتے ہیں ،تھوڑی بہت سفر کی تھکان کم ہوجائے گی واپسی پر جو ملاقات تھی وہ کی جائے گی،راقم بھائی کو میسج کیا بس پہنچ گیا۔
چند لمحات کے بعد سلطان آپ کی قدم بوسی فرمائیں گے،پھر از راہ مزاق کہا کہ بلکہ آپ سلطان کی قدم بوسی کرنے کی سعادت حاصل فرمائیں گےکیونکہ سلطان جلوہ افروز ہو رہے ہیں اور ایسے مواقع کسی خوش نصیب کو میسر آتے ہیں اور ایسے نظارے چشم فلک کبھی کبھی دیکھتا ہے۔اور ساتھ ہی مولانا نورالحسن انور صاحب کو بھی اطلاع کرنے کا حکم صادر کردیا۔
جیسے پہنچے راقم بھائی نے اپنے بھائی کے ساتھ گرمجوشی سے استقبال کیا ، ساتھ پوچھ لیا مولانا کہاں ہیں۔؟ تب راقم بھائی نے کہا کہ میں مولانا کو بتانا بھول گیا تھا۔تب خود مولانا کو کال کی اور مولانا تشریف لائے۔
پھر راقم بھائی کے والد گرامی سے ملاقات ہوئی ، اکابرین کے واقعات سے محفل پر رونق رہی ، راقم بھائی کی طرف سے سلطان کے لیے عظیم ، پر تکلف ، بہترین کھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔روحانی ، اور بہترین ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا۔
مولانا نے کہیں جانا تھا اس لیے اجازت دے دی گئی ، مولانا نے اپنے قلعہ کا دورہ کرایا ، کچھ وقت ان کے دفتر میں بھی براجمان رہے ، پھر مولانا سے بغلگیر ہوکر ان سے اجازت چاہی کہ ہم کچھ دیر مزید رہ کر واپسی کا سفر شروع کردینگے اس کے بعد راقم بھائی کے بھائیوں سے ، اور ان کے والد گرامی سے کافی خوش گوار ماحول میں گفتگو ہوتی رہے۔
محسوس ہی نہیں ہورہاتھا کہ میری راقم بھائی کے والد گرامی سے پہلی ملاقات ہے ۔
جتنا وقت تھا حضرات کے ساتھ کافی گہما گہمی رہی اور سب نے سلطان عالی مقام کو کافی برداشت کیا۔
اس محفل سے جانے کو ہرگز دل نہیں کررہا تھا لیکن آگے ملاقات طے تھی اور وہاں پہنچنا ضروری تھا۔
اس لیے اجازت چاہئے سب نے محبت سے ، دعاوں سے الوداع کیا ۔
راقم بھائی اور ان کے بھائی گاڑی تک چھوڑنے آئے۔
اور یوں ایک مختصر مگر پر اثر اور عمدہ ملاقات کا اختتام ہوا۔
میں راقم بھائی کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے اتنی محبتوں سے نوازا ، اور مولانا کا بھی کہ جنہوں نے قز حد مصروفیات کے باجود ملاقات کا شرف بخشا۔
اللہ پاک یہ محبتیں یونہی قائم و دائم فرمائے۔ آمین

باقی مولانا کا گلہ کسی دن لاو لشکر لاکر دور کردینگے۔۔۔تسی تیاری پھڑو
 
Last edited:
Top