محبت کی حقیقت

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
محبت کی حقیقت
قسط اول
محمدداؤدالرحمن علی
آج کل ’’محبت‘‘ کا دم بہت بھرا جاتا ہے،’’محبت‘‘ کے گیت سنائے جاتے ہیں،’’محبت‘‘ کے قصے اور کہانیاں سنائی جاتی ہیں،’’محبت‘‘ کے وعدے کیے جاتے ہیں ،’’محبت‘‘ نبھانے کا علی الاعلان ، اعلان کیا جا تا ہے،’’محبت‘‘ پر کہانیاں لکھی جاتی ہیں،’’محبت‘‘ محبت کو تاریخ میں رقم کیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ ’’محبت‘‘ دائمی ہوتی ہے،جب تک سانس ہے تب تک یہ ’’محبت‘‘ قائم رہتی ہے جیسے ہی روح جسم کو الوداع کرتی ہےتو محبوب خود اپنی ’’محبت‘‘ کو قبر کی زینت بناکر اوپر سے منوں مٹی ڈال آتا ہے۔
اسی طرح ایک ’’محبت‘‘ حقیقی بھی ہے جو دنیا و آخرت میں کام آئے گی،جو ’’محبت‘‘در حقیقت اصلی محبت ہے، اس ’’محبت‘‘ میں بیوفائی کا عنصر ہی نہیں پایا جاتا ،وہ ’’محبت‘‘ ایک ایسی محبت ہے جو انسان حاصل کرلے تو دنیا کی تمام محبتیں اس ’’محبت‘‘ کے سامنے پھیکی پڑ جائیں،یہی محبت در اصل حقیقی ’’محبت‘‘ ہے۔
آئیں !سب سے پہلے ’’محبت‘‘ کے مفہوم و معنی کو سمجھ لیتے ہیں۔
لفظ ’’محبت‘‘ :۔
لفظِ ’’مَحَبَّت‘‘، ’’م‘‘ کے زبر کے ساتھ ہے، جیسے: مَوَدَّت، مَضَرَّت اور مَسَرّت وغیرہ، یہ سب عربی الفاظ ہیں، اردو میں عام طور پر ان الفاظ کو ’’م‘‘ کے پیش کے ساتھ بولاجاتا ہے، یہ غلط ہے، اسی معنی میں ''ح‘‘کے پیش کے ساتھ لفظ ’’حُبّ‘‘بھی بولاجاتا ہے اور ’’ح‘‘ کی زیر کے ساتھ ’’حِبّ‘‘کے معنی ہیں: ’’محبوب‘‘
’’محبت‘‘ کا مفہوم:۔
’’الحبّ‘‘ اور ’’المحبّ‘‘یہ دونوں (عربی کے) الفاظ ایسے معنی کو ادا کرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے، جو دوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے، سب سے زیادہ عظیم ہے؛ کیوں کہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اور سلوک کا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے؛ بل کہ اپنے محبوب کی محبت میں ، وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتا ہے۔‘‘(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان میں سے ہے، ص:۱۰)
علامہ عینیؒ فرماتے ہیں :
’’دل کا تعلق اورمیلان کسی چیز کی طرف ہونا، اس تصور سے کہ اس میں کوئی کمال اور خوبی وعمدگی ہے، اس طرح کہ وہ شخص اپنے رجحان اور آرزو وخواہش کا اظہار اس چیز میں کرے جو اس کو اس سے قریب کردے۔‘‘(عمدۃالقاری۱/۱۴۲)
علامہ نووی ؒفرماتے ہیں :
’’محبت کی اصل یہ ہے کہ (دل)کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہوجو مرغوب وپسندیدہ ہو۔ پھر (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذّت محسوس کرتا ہواور اسے حسین سمجھتا ہو، جیسے حسن صورت اور کھانا وغیرہ اور (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذّت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم کرتا ہو، جیسے صلحا، علما اور اہل فضل کی مطلق محبت اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے احسان اور اس سے کسی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزیں دور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۲/۱۴۲)
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ
نہایت عمدہ اور بہترین طریقہ سے روشناس کرایا جارہاہے۔
اللہ پاک زور قلم اور زیادہ فرمائے۔آمین
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
حقیقی’’محبت‘‘ :۔
حقیقی ’’محبت‘‘ اور ہمیشہ قائم رہنے والی’’محبت‘‘ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولﷺکی ’’محبت‘‘ ہے۔یہ ’’محبت‘‘ سب سے اعلیٰ،سب سے ارفع،سب سے عظیم،سب سے بالاہے۔دنیا میں تمام محبتیں ان دو محبتوں سے نیچے ہیں،ایک انسان سچا مسلمان اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ تمام محبتوں پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ’’محبت‘‘ کو ہمیشہ اونچا رکھتا ہے۔ایک مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو سب محبتوں سے زیادہ نہ رکھے،ایمان اس وقت کامل ہے جب اس کائینات میں سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْـرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ ِۨ اقْتَـرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَـرْضَوْنَـهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَجِهَادٍ فِىْ سَبِيْلِـهٖ فَتَـرَبَّصُوْا حَتّـٰى يَاْتِىَ اللّـٰهُ بِاَمْرِهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ،(سورۃ التوبہ،آیت نمبر 24)
ترجمہ:’’کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔‘‘
اس آیت میں واضح حکم دیا گیا کہ ہر محبت پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت مقدم رکھنی ہے،اگر نہ رکھی تو تم خسارہ اٹھاؤ گے۔
اہل ایمان سب سے زیادہ اللہ رب العزت سے ہی محبت کرتے ہیں۔
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّـٰهِ(سورۃ البقرۃ:165)
ترجمہ:اور ایمان والوں کو اللہ ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ در حقیقت محبت حقیقی کون سی ہے،یعنی حقیقی محبت اور قائم رہنے والی محبت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہے ،اور یہ محبت جب تک تمام محبتوں پر مقدم نہ ہو تو مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
محبت الہٰی:۔
اگر ہم قرآن کریم فرقان حمید کا مطالعہ کریں تو قرآن کریم مختلف مقامات پر انسان کو رب کی محبت کا یقین دلاتا ہےکہ اگرتم احکامات خداوندی پر عمل کرو،ویسے زندگی گزارو جیسا میرا رب حکم دیتا ہے،اور ایسا طرز عمل اختیار کرو جس میں رب تعالیٰ کی خوشنودی ہے تو رب بھی محبت کا اظہار کرتا ہے۔
۱۔ وَاَنْفِقُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ۚ وَاَحْسِنُـوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (سورۃ البقره:195)
ترجمہ:اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو،اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو،اور نیکی اختیار کرو،بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
۲۔ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (سورۃ البقره:222)
ترجمہ:بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کرتے ہیں اور نہایت پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے بھی محبت کرتا ہے۔
۳۔ بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ (سوره آل عمران:76)
ترجمہ:خیانت کرنے والے پر) گناہ کیوں نہ ہوگا، جس شخص نے اپنا عہد پورا کیا اور اللہ سے ڈرا تو بے شک پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔
۴۔ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ (سوره آل عمران:159)
ترجم:اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
۵۔ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الَّـذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِـهٖ صَفًّا كَاَنَّـهُـمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ(سورۃ صف:4)
ترجمعہ:بے شک اللہ تو ان سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
ان آیات مبارکہ سے ہمیں علم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں جو لگتا ہے،جو اللہ کے احکامات کی پاسداری کرتا ہے،اللہ کے احکامات پر عمل کرتا ہے اس سے اللہ بھی محبت فرماتا ہے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
رسول اللہﷺ سے محبت:۔
محبت کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ عاشق محبوب کے دوامی لقاء کا متمنی ہوتا ہے، وصلِ محبوب اور مشاہدۂ مطلوب ہی اس کی دیرینہ آرزو اور اطمینان اور سکینت کا سامان ہوتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب کے انداز واطوار کو اختیار کرکے اپنی ذات کو محبوب کی صفات سے قائم کرلے اور بہ قدرِ محبت اس کے رنگ میں رنگین ہوجائے۔ بالفاظِ دیگر، محبوب کا مطاع ہونا محض ایک فطری ووجدانی امر نہیں، بلکہ محسوس ومشاہد بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ پیکرِ محسوس نہیں ہے کہ اُسے دیکھ کر، سن کر اُس کی اطاعت واتباع کی جاسکے۔ سو اس فیاضِ ازل اور محبوبِ حقیقی نے بہ طورِ احسان وامتنان، اس اضطراب کے ازالے کے لیے اپنی محبت کو رسول اللہﷺکی اتباع سے مشروط فرمادیاہے، اپنے رسول ﷺ کی زبانِ مبارک سے اعلان کروایا:
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔‘‘(آل عمران:۳۱)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایمان کی اصل روح محبتِ الٰہی ہے اور اس محبت کی شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کی ضد ہو، بلکہ جو شئے محبوب سے تعلق میں حارج ہو، وہ عاشق کے دشمن کے زمرے میں داخل ہوجائے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے، ان کو رسول اللہ a کی اتباع کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ سے محبت کا واحد راستہ اتباعِ رسول ﷺہے۔ اس اتباع کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تمہارا دعوائے محبت ہی سچا ثابت نہیں ہوگا، بلکہ تم خود محبوبِ الٰہی بن جاؤ گے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ایک ہی راستہ ہے: اتباعِ رسولﷺ۔ آپﷺ کی اتباع عین اتباعِ الٰہی ہے:
’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ۔‘‘(النساء:۸۰)
’’جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

’’اَلنَّبِىُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِـمْ ۔‘‘(الاحزاب:۶)
’’ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ۔‘‘
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’نبیﷺمومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں ؛ کیوں کہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہونچاتا ہے، کبھی نقصان؛ کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے؛ تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے؛ تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہﷺکے کہ آپﷺکی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو، پھر بھی اس کا نفع، رسولﷺکے نفع کے برابر نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اپنے نفس کو تو خیر وشر اور مصلحت ومضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح ومضار کا پورا علم بھی نہیں ، بخلاف رسول اللہﷺکے کہ آپﷺکی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہﷺہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں ؛ تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپﷺکی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپﷺکی تعظیم وتکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں ۔‘‘(معارف القرآن:۸۶-۸۵/۷)
سورۃ التوبہ آیت نمبر۲۴ کی تفسیر میں حضرت مولانا منظور نعمانیؒ رقم طراز ہیں :
’’پس قرآن مجید کی اس پر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ ورسولﷺکی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے۔اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ ورسولﷺکے احکام پرچلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہوجاتا ہے؛ بل کہ اس راہ میں جان عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ ورسولﷺکی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوگی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی، تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندی کی سی ہوگی، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جب تک اللہ ورسولﷺکی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہوجائے، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہوسکتا اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘(معارف الحدیث۱/۹۳)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’المرء علی دین خلیلہٖ فلینظر أحدکم من یخالل۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح،ولی الدین الخطیب، ص:۴۲۷، قدیمی کتب خانہ کراچی، س-ن)
’’انسان اپنے دوست (محبوب) کے طور طریقے اپنا لیتا ہے، اس لیے ہر شخص اس کا خیال رکھے کہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔‘‘
رب لم یزل نے صاف بتلادیا کہ میرا رسول ﷺ تمہارا رہبرِ کامل ہے، اس کی ذات ہرجہت میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘(الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ (موجود) ہے۔‘‘
اس لیے زندگی کے ہر شعبے اور حیات کے ہرگوشے میں آنکھیں بند کرکے رسول اللہ a کی اطاعت کی جائے، کیونکہ آپa کی اطاعت وغلامی ہی میں عین اطاعتِ الٰہی ہے۔ اسلام کی شانِ اعجازہی یہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو اظہار واندازِ محبت کے تمام اسلوب اور طریقے خود ہی سکھا دئیے ہیں، تاکہ عقیدت ومحبت کا نذرانہ محبوب کے معیار کے مطابق اس کی بارگاہ میں پیش ہوکر شرفِ قبول پاسکے۔
 
Top