آج میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر ایک ٹڈی کو دیکھا، اس کی حرکات نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ اس نے اپنی ٹانگوں اور اینٹینا سے دیوار کو نوچا، پھر ان حصوں کو اپنے منہ تک لے آیا۔ اس کی بار بار کی جانے والی حرکتوں سے تنگ آکر میں نے اسے اڑانے کے لیے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، اور وہ چوکنا ہو گیا، اپنی حرکت کو اس طرح بدلنے لگا جیسے خطرے کو محسوس کر رہا ہو۔ تاہم پھر سے اپنی سابقہ حالت میں واپس آ گیا۔
بار بار ہاتھ کے اشارے کے باوجود ٹڈی نے مزید کوئی نوٹس لینے سے جیسے انکار کر دیا ہو۔ لیکن جب میں نے اونچی آواز سے اسے اڑانا چاہا تو اس نے اس نئی آواز کو خطرہ سمجھا اور ایک دوسری دیوار کی طرف اڑ گیا، جہاں یہ اب بھی تشریف فرما ہے اور میری طرح طرح کی آوازوں سے بھی بے نیاز ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ٹڈیاں مانوس آوازوں کو پہچانتی ہیں اور ان کے موافق طرز اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ انسانی آوازوں کو پس منظر کے شور کے طور پر دیکھتے ہیں، انہیں ڈی کوڈ کرنے سے قاصر ہیں۔
جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ ٹڈی کا ردعمل تھا۔ شروع میں، میرے ہاتھ کے اشارے نے اسے الرٹ کیا، لیکن بعد میں تکرار نے اسے معمول بنا دیا۔ ایک نیا محرک—اچانک آواز—پھر اس کی توجہ مبذول ہوئی۔
ایسا ہی رد عمل ہمارا قرآن کریم کی نشانیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کبھی نئے حالت، نئی مصیبت یا نئی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، تو ہم لمحہ بہ لمحہ خبردار رہتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور تبدیلی کا عہد کرتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ہم انتباہی علامات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پرانے طرز عمل پر لوٹ آتے ہیں۔
میں اس ٹڈی کے لیے جان لیوا خطرہ تھی لیکن اس نے مجھے ایک دو بار کے بعد نظر انداز کر دیا۔ بدقسمتی سے ہم قرآنی پیغامات کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم سے پہلے کئی اقوام کو ان کے گناہوں کے سبب مٹا دیا۔
وَلَقَدْ جَآءَهُـمْ مِّنَ الْاَنْبَآءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ (4) حِكْـمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ (5) فَتَوَلَّ عَنْـهُـمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الـدَّاعِ اِلٰى شَىْءٍ نُّكُـرٍ (6) خُشَّعًا اَبْصَارُهُـمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّـهُـمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ (7) (سورۃ القمر)
اور ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں کافی تنبیہ ہے۔ اور پوری دانائی بھی ہے پر ان کو ڈرانے والوں سے فائدہ نہیں پہنچا۔ پس ان سے منہ موڑ لے، جس دن پکارنے والا ایک نا پسند چیز کے لیے پکارے گا۔ اپنی آنکھیں نیچے کیے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے جیسے ٹڈیاں پھیل پڑی ہوں۔
آیت 7 کا اختتام قیامت کے دن کافروں کے انجام کو بیان کرتے ہوئے ہوا ہے اور انہیں بکھری ہوئی ٹڈی دل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اگر میں اپنا محاسبہ کروں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اس دنیا میں اسی طرح کا کمتر وجود لیے آباد ہوں۔ اگر قرآنی آیات (نباء) مجھ پر گہرا اثر نہیں ڈالتی ہیں، اگر میں حكمةٌ بالغة کو حکمت اخذ کرنے کے بجائے محض ماضی کی اقوام کے تاریخی واقعات کے طور پر دیکھوں، تو مجھ میں اور اس ٹڈی میں کیا فرق ہے؟
اگر قرآنی احکام مجھے نفسانی خواہشات کی پیروی سے روکنے میں ناکام رہتے ہیں یا صرف وقتی طور پر مجھ پر اثر انداز ہوتے ہیں، تو مجھے غور کرنا چاہیے کیا میں حکمۃ بالغۃ مل چکنے کے باوجود زندگی کی مہلت کو ضائع نہیں تو نہیں کر رہی؟
کیا میں نے رب تعالی کی کی طاقت کو نظر انداز کر دیا ہے؟ اللہ تعالی نے مجھے انسان پیدا کیا ہے عزت و تکریم عطا فرمائی ہے میں کیوں ایک ٹڈی کے مماثل بن رہی ہوں جس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا؟
گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام پڑھ اور دیکھ لینے کے بعد بھی میں انہیں کے نقش قدم پر تو نہیں چل رہی کہ جس کا انجام ٹڈیوں جیسا ہی ہے؟
اللہ رب العزت ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو اس کی حکمت (حكمة بالغة) کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بار بار ہاتھ کے اشارے کے باوجود ٹڈی نے مزید کوئی نوٹس لینے سے جیسے انکار کر دیا ہو۔ لیکن جب میں نے اونچی آواز سے اسے اڑانا چاہا تو اس نے اس نئی آواز کو خطرہ سمجھا اور ایک دوسری دیوار کی طرف اڑ گیا، جہاں یہ اب بھی تشریف فرما ہے اور میری طرح طرح کی آوازوں سے بھی بے نیاز ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ٹڈیاں مانوس آوازوں کو پہچانتی ہیں اور ان کے موافق طرز اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ انسانی آوازوں کو پس منظر کے شور کے طور پر دیکھتے ہیں، انہیں ڈی کوڈ کرنے سے قاصر ہیں۔
جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ ٹڈی کا ردعمل تھا۔ شروع میں، میرے ہاتھ کے اشارے نے اسے الرٹ کیا، لیکن بعد میں تکرار نے اسے معمول بنا دیا۔ ایک نیا محرک—اچانک آواز—پھر اس کی توجہ مبذول ہوئی۔
ایسا ہی رد عمل ہمارا قرآن کریم کی نشانیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کبھی نئے حالت، نئی مصیبت یا نئی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، تو ہم لمحہ بہ لمحہ خبردار رہتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور تبدیلی کا عہد کرتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ہم انتباہی علامات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پرانے طرز عمل پر لوٹ آتے ہیں۔
میں اس ٹڈی کے لیے جان لیوا خطرہ تھی لیکن اس نے مجھے ایک دو بار کے بعد نظر انداز کر دیا۔ بدقسمتی سے ہم قرآنی پیغامات کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم سے پہلے کئی اقوام کو ان کے گناہوں کے سبب مٹا دیا۔
وَلَقَدْ جَآءَهُـمْ مِّنَ الْاَنْبَآءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ (4) حِكْـمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ (5) فَتَوَلَّ عَنْـهُـمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الـدَّاعِ اِلٰى شَىْءٍ نُّكُـرٍ (6) خُشَّعًا اَبْصَارُهُـمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّـهُـمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ (7) (سورۃ القمر)
اور ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں کافی تنبیہ ہے۔ اور پوری دانائی بھی ہے پر ان کو ڈرانے والوں سے فائدہ نہیں پہنچا۔ پس ان سے منہ موڑ لے، جس دن پکارنے والا ایک نا پسند چیز کے لیے پکارے گا۔ اپنی آنکھیں نیچے کیے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے جیسے ٹڈیاں پھیل پڑی ہوں۔
آیت 7 کا اختتام قیامت کے دن کافروں کے انجام کو بیان کرتے ہوئے ہوا ہے اور انہیں بکھری ہوئی ٹڈی دل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اگر میں اپنا محاسبہ کروں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اس دنیا میں اسی طرح کا کمتر وجود لیے آباد ہوں۔ اگر قرآنی آیات (نباء) مجھ پر گہرا اثر نہیں ڈالتی ہیں، اگر میں حكمةٌ بالغة کو حکمت اخذ کرنے کے بجائے محض ماضی کی اقوام کے تاریخی واقعات کے طور پر دیکھوں، تو مجھ میں اور اس ٹڈی میں کیا فرق ہے؟
اگر قرآنی احکام مجھے نفسانی خواہشات کی پیروی سے روکنے میں ناکام رہتے ہیں یا صرف وقتی طور پر مجھ پر اثر انداز ہوتے ہیں، تو مجھے غور کرنا چاہیے کیا میں حکمۃ بالغۃ مل چکنے کے باوجود زندگی کی مہلت کو ضائع نہیں تو نہیں کر رہی؟
کیا میں نے رب تعالی کی کی طاقت کو نظر انداز کر دیا ہے؟ اللہ تعالی نے مجھے انسان پیدا کیا ہے عزت و تکریم عطا فرمائی ہے میں کیوں ایک ٹڈی کے مماثل بن رہی ہوں جس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا؟
گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام پڑھ اور دیکھ لینے کے بعد بھی میں انہیں کے نقش قدم پر تو نہیں چل رہی کہ جس کا انجام ٹڈیوں جیسا ہی ہے؟
اللہ رب العزت ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو اس کی حکمت (حكمة بالغة) کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین