السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ایک ماں نے اپنے بچے کی تربیت کی کہانی ارسال کی کہ انہوں نے اپنی تربیت میں کیسے محبت الہیٰ بچے کے دل میں اجاگر کی۔ تحریر بہت خوبصورت تھی سوچا کہ اس کو فورم کی زینت بنایا جائےتاکہ استفادہ عام ہو سکے اور سب کے لیے یہ تحریر مفید ثابت ہو سکے،ماں جی کے شکریہ کے ساتھ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
بچوں کے سامنے جب بھی بات کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتے ہیں وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور بڑی محبت سے بات سنتے ہیں -
اللہ تعالیٰ کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور کس بات سے ناراض ہوتے ہیں، سب کچھ جاننا چاہتے ہیں -
میری ایک دوست نے مجھے بتایا میرا بیٹا بہت چھوٹا سا ہی تھا، جب بولنا شروع کیا تو بہت ہی باتون تھا، بہت باتیں کرتا، سوال جواب کرتا- میں اکثر اس سے اللہ تعالیٰ کی باتیں کیا کرتی، اللہ کی نعمتیں بتایا کرتی، دیکھو سورج کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ ہمارے لئے چمکتا ہے، رات ھوتی تو چاند کو دکھاتی، دیکھو چاند کے چمکنے سے رات کتنی خوبصورت ہو جاتی ھے ورنہ ہر طرف کالا اندھیرا ہوتا، اور دیکھو اللہ نے ہمیں آنکھیں دیں ورنہ ہم اندھے ھوتے اور یونہی ادھر اُدھر ٹکراتے پھرتے،،، اور اللہ نے ہمیں کتنے مزے مزے کی کھانے پینے کی چیزیں دیں، ورنہ ہم بھی گھاس کھاتے،،،،،
اور وہ گھاس والی بات پر خوب ہنستا،،،،،
تو میں دلچسپ انداز میں اسے اللہ کی نعمتوں اور کبریائی کے بارے ميں بتاتی،
اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کس بات سے خوش ہوتے ہیں، کس سے ناراض ہوتے ہیں...؟ سب کچھ اسے سمجھایا کرتی-
اللہ اپنے جن بندوں سے راضی ہوتے ہیں انہیں جنت میں داخل فرماتے ہیں - اور جنت کا ذکر تو گویا اسکی کمزوری بن گیا تھا، جنت میں کیا کیا ہوگا، کیسی ہوگی، وہاں سب کچھ ملے گا، سارے کھلونے ھونگے، وہ اپنی پسند کے کھلونوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے نام لیتا، اور خوش ہوتا - اور میں اسے کہتی ، مگر یہ سب کچھ تب ملے گا جب اللہ آپ سے خوش ھونگے-
اور وہ پوچھتا، تو میں کیا کروں امی کہ اللہ مجھ سے خوش ھو جائیں ......؟؟؟
پھر میں اس کو چھوٹی چھوٹی دین کی باتیں سمجھایا کرتی، بڑوں کا کہنا مانو، جھوٹ نہ بولو، ہمشہ سچ بولو، ضد نہ کرو، گالی نہ دینا کبھی، ہ میشہ بڑوں کی عزت کرو، اور جو مل جائے اللہ کا شکر ادا کر کے کھائو - وہ میری ہر بات مانتا- اور اگر نا ماننی ھوتی تو مجھ سے ڈسکس کرتا کہ میں ایسا کیوں نہیں کررہا،،،،!
غالباً اس کی عمر اس وقت چار سال کی ھوگی، رمضان کا مہینہ تھا ایک دن کہنے لگا امی میں بھی روزہ رکھونگا - میں نے اسکا بھی روزہ رکھوا دیا کہ بچہ ھے تھوڑی دیر میں بھول بھال جائے گا- ابھی میں فجر پڑھ کے جانماز پر ہی بیٹھی تھی کہ وہ آگیا، امی مجھے پیاس لگ رہی ھے - میں نے کہا پانی پی لو بیٹا،،،،،،
نہیں امی میرا روزہ ھے نا،،،،،
میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ تو بچے ہو نا، آپ پانی پی لو....
لیکن امی اللہ تعالیٰ ناراض ھونگے،،،،
میں نے سوچا کیوں نہ بچے کا تھوڑا سا امتحان لے لیا جائے،
میں نے اس سے کہا ادھر آؤ، آپ میری چادر میں چھپ کہ پانی پی لو، نہیں امی یہاں تو اللہ دیکھ لین گے، میں نے کہا اچھا دیکھو ادھر میز کے نیچے بہت اندھیرا ھے وہاں کچھ نظر نہیں آ رہا، آپ وہاں چھپ کے پانی پی لو....
وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا اور پھر ایک دم میری گود میں سر رکھ کہ سسکیوں سے رونے لگا ....
میں کہیں نہیں چھپ سکتا امی اللہ تعالیٰ ہر جگہ دیکھ لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ دیکھ لیتے ہیں ،وہ کہتا جاتا تھا اور سسکیوں سے روتا جاتا تھا......!
اور میرا دل اپنے رب کے آگے سجدہ ریز تھا، شکر کررہا تھا، محنت وصول ہو رہی ہے دعائیں رنگ لائی ہیں، میں اپنے بچے کا یقین بنانے میں کامیاب ہو رہی ہوں -
اور یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ میں ہدایت پانے کیلئے کوشش کرتے ہیں اللہ ضرور ان کے لئے راستے کھول دیتا ہے -
پھر میں نے اس کو بڑے پیار سے بچوں کے روزے کا مسئلہ سمجھایا اس کو پانی پلایا اور وہ اور بھی خوش ھوگیا کہ اللہ تعالیٰ کتنے اچھے ہیں، بچوں کا تھوڑی دیر کا روزہ بھی قبول کر لیتے ہیں-
اب ماشاء اللہ وہ بڑا ہو رہا ہے، چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے، ایک دن سبق یاد کررہا تھا، حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کررہے تھے کہ جنت سے مینڈھا آگیا،،،،،،،،، اور اسماعيل علیہ السلام ذبح ھونے سے بچ گئے اور مینڈھا ذبح ھو گیا-
اس نے یہ واقعہ مجھے پوری تفصیل سے سنایا اور پھر آخر میں مجھ سے پوچھنے لگا امی،،، اگر اس روز حضرت اسماعیل علیہ السلام قربان ہوجاتے تو کیا ہر سال عید الاضحی پر بچوں کی قربانی ہوتی،،،؟ میں نے کہا ہاں بیٹا، پھر شاید بچوں ہی کی قربانی ہوا کرتی ہر سال....!
وہ کہنے لگا امی، اگر ایسا ہوتا تو کیا لوگ اپنے بچوں کو قربان کر دیتے؟؟؟
میں نے کہا ہاں بیٹے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور جو اللہ کے قریب ہیں، وہ تو ضرور ایسا کرتے - آخر قریب والے ہی تو قربانی دیتے ہیں -
میرے دل میں اس وقت ایک خیال آیا اور میں نے بڑے صدق دل سے ایک بات کہی،،،، سلمان اگر ایسا ہوتا تو میں تو ضرور آپ کو قربان کر دیتی، آپ ہو جاتے قربان.....؟؟؟میں سمجھ رہی تھی شاید وہخوفزدہ ہو کر بہت شاکی نظروں سے مجھے دیکھے گا،،،،
مگر وہ بہت دلفریب انداز میں مسکرایا اور بولا، جی امی ہو جاتا قربان، یہ تو اللہ کی رضا ھے نا...!!!
مجھے اپنے بیٹے پر بے تحاشا پیار آیا، میں نے اسے بہت پیار کیا، دعائیں دیں-
اللہ کریم کا بہت شکر ادا کیا - سب تعریف اللہ ہی کے لئے ھے -
بے شک اس میں ماں کی تربیت اور پرخلوص دعاوں کا بھی اثر ھے، ماں جب اپنی اولاد کی فکر کرتی ھے کہ کہیں بے دین ھو کر میرا بچہ ضایع نہ ھو جائے،،؟
وہ اسکے دین کی فکر کرتی ھے، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے سامنے فریاد کرتی ھے، دعا صرف دل سے ہی نہیں نکلتی بلکہ اسکا رواں رواں سراپا التجا بن جاتا ھے - اور ماں کی فریاد تو آسمانوں کا سینہ چیر کر عرش پر جاتی ھے -
اور جب کبھی بچے نافرمانی کریں تو میں سب سے پہلے خود کو دیکھتی ھوں میں کہیں کچھ غلط تم نہیں کر رہی،،؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کے دل میں شروع سے ہی اللہ کی محبت بٹھایی جائے، اس کی رضا اور ناراضگی کا احساس دلایا جائے، اللہ کی ذات پر یقین کرنا سکھایا جائے -
جب بچے اللہ کو پہچان لیتے ہیں پھر ان کے لئے سارے دین پر چلنا آسان ہو جاتا ھے -
لیکن بچے، بچے ہی ہوتے ہیں، غلطیاں بھی کر جاتے ہیں کبھی نافرمانی بھی کر جاتے ہیں، تو گھبرائیں نہیں پیار سے سمجھائیں، اللہ سے دعا کریں -
*یقین کیجئے ماں کی تربیت کا رنگ سب سے گہرا، سب سے پختہ ھوتا ھے - باہر کے سب رنگ کچے ھوتے ہیں بہت جلدی اتر جاتے ہیں - بچوں کو سکون ماں کی آغوش میں ہی ملتا ھے - بشرطیکہ ماں واقعی ماں ھونے کا حق ادا کرے-