اولاد کی تربیت کے راہنما اصول
اولاد کی تربیت عقیدہ توحید اور خشیتِ الہی پر کریں۔ انہیں سکھائیں کہ نفع نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، اور وہ ہر وقت ہمارا نگران ہے،صرف اسی سے ڈرنا چاہیے۔
ان میں علم اور پڑھنے پڑھانے کی محبت پیدا کریں۔ انہیں بتائیں کہ حقیقی زندگی اور لذت تو علم میں ہے۔ اور یہ کہ زندگی میں اتنا ہی سکون ہو گا جتنی ہم قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔
ان کی زبان و بیان کی درستی پر توجہ دیں۔ انہیں بتائیں کہ غیروں کی زبان بولنا، ان کی مصنوعات پر انحصار کرنا، ان کی عیدوں کو منانا، یہ سب کمزوری و پستی کے مظاہر ہیں۔ انہیں خود مختاری اور اسلامی غیرت پر پروان چڑھائیں۔
انہیں بتائیں کہ عالم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اور کوئی نصیحت کرے تو قبول کی جاتی ہے۔
ان کے ساتھ بیٹھیں، دوستی کریں، اپنے آپ کو ان کیلیے فارغ رکھیں۔ اگر آپ کے پاس ان کیلیے وقت نہیں ہے، تو ان کے نزدیک بھی آپ کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔ یاد رکھیں، اولاد کو وقت دینا انہیں مال دینے سے کہیں بہتر ہے۔
اولاد کیلیے نمونہ بنیں۔ زبان کی حفاظت، حسنِ معاملہ، صفائی و نظافت اور عقل کا استعمال؛ یہ چیزیں بتانے سے نہیں، نمونہ پیش کرنے سے سیکھی جاتی ہیں۔
ان سے دل کھول کر محبت کریں، ان کی تعریف کریں، ان سے مزاح کریں۔ ان کی باتیں اہتمام سے سنیں، وہ کبھی آپ کے نافرمان نہیں ہوں گے۔
ان کو بتائیں کہ سوشل میڈیا کی حقیقت کیا ہے۔ ہر خبر سچ نہیں ہوتی، ہر تصویر حقیقی نہیں ہوتی، ہر ٹویٹ لائقِ اعتنا نہیں ہوتی۔ اور یہ کہ یہاں بھی جھوٹ، غیبت، دوسروں کو اذیت دینا، ویسا ہی گناہ ہے جیسے عملی زندگی میں۔
ان کی شخصیت سازی کریں۔ انہیں بتائیں کہ ہماری اقدار کیا ہیں، اور فخر کن باتوں پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ سیلبریٹی کلچر ایک حقیر چیز ہے، عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول کیلیے ہے۔
انہیں بتائیں کہ وطنیت کا مطلب اخلاص، تعاون، جد و جہد ہوتا ہے۔ سب کے جان، مال، املاک اور امن و امان کی حفاظت کرنے والا ہی سچا محب وطن ہوتا ہے۔
ان کے ذہن میں بٹھا دیں کہ حق ہمیشہ حق ہی ہوتا ہے خواہ اس کے ساتھ کوئی نہ ہو۔ اور باطل باطل ہی رہتا ہے خواہ اس کے پیچھے جم غفیر ہو۔
الشيخ صالح بن حميد حفظه الله
خطبہِ حرمِ مکی - ٢٤ ستمبر - ٢١ء
(ترجمہ و تلخیص : فیضان فیصل)
اولاد کی تربیت عقیدہ توحید اور خشیتِ الہی پر کریں۔ انہیں سکھائیں کہ نفع نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، اور وہ ہر وقت ہمارا نگران ہے،صرف اسی سے ڈرنا چاہیے۔
ان میں علم اور پڑھنے پڑھانے کی محبت پیدا کریں۔ انہیں بتائیں کہ حقیقی زندگی اور لذت تو علم میں ہے۔ اور یہ کہ زندگی میں اتنا ہی سکون ہو گا جتنی ہم قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔
ان کی زبان و بیان کی درستی پر توجہ دیں۔ انہیں بتائیں کہ غیروں کی زبان بولنا، ان کی مصنوعات پر انحصار کرنا، ان کی عیدوں کو منانا، یہ سب کمزوری و پستی کے مظاہر ہیں۔ انہیں خود مختاری اور اسلامی غیرت پر پروان چڑھائیں۔
انہیں بتائیں کہ عالم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اور کوئی نصیحت کرے تو قبول کی جاتی ہے۔
ان کے ساتھ بیٹھیں، دوستی کریں، اپنے آپ کو ان کیلیے فارغ رکھیں۔ اگر آپ کے پاس ان کیلیے وقت نہیں ہے، تو ان کے نزدیک بھی آپ کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔ یاد رکھیں، اولاد کو وقت دینا انہیں مال دینے سے کہیں بہتر ہے۔
اولاد کیلیے نمونہ بنیں۔ زبان کی حفاظت، حسنِ معاملہ، صفائی و نظافت اور عقل کا استعمال؛ یہ چیزیں بتانے سے نہیں، نمونہ پیش کرنے سے سیکھی جاتی ہیں۔
ان سے دل کھول کر محبت کریں، ان کی تعریف کریں، ان سے مزاح کریں۔ ان کی باتیں اہتمام سے سنیں، وہ کبھی آپ کے نافرمان نہیں ہوں گے۔
ان کو بتائیں کہ سوشل میڈیا کی حقیقت کیا ہے۔ ہر خبر سچ نہیں ہوتی، ہر تصویر حقیقی نہیں ہوتی، ہر ٹویٹ لائقِ اعتنا نہیں ہوتی۔ اور یہ کہ یہاں بھی جھوٹ، غیبت، دوسروں کو اذیت دینا، ویسا ہی گناہ ہے جیسے عملی زندگی میں۔
ان کی شخصیت سازی کریں۔ انہیں بتائیں کہ ہماری اقدار کیا ہیں، اور فخر کن باتوں پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ سیلبریٹی کلچر ایک حقیر چیز ہے، عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول کیلیے ہے۔
انہیں بتائیں کہ وطنیت کا مطلب اخلاص، تعاون، جد و جہد ہوتا ہے۔ سب کے جان، مال، املاک اور امن و امان کی حفاظت کرنے والا ہی سچا محب وطن ہوتا ہے۔
ان کے ذہن میں بٹھا دیں کہ حق ہمیشہ حق ہی ہوتا ہے خواہ اس کے ساتھ کوئی نہ ہو۔ اور باطل باطل ہی رہتا ہے خواہ اس کے پیچھے جم غفیر ہو۔
الشيخ صالح بن حميد حفظه الله
خطبہِ حرمِ مکی - ٢٤ ستمبر - ٢١ء
(ترجمہ و تلخیص : فیضان فیصل)