دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(سورۃ البقرہ : ۱۸۶ )
ترجمہ : اور (اے رسولﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو ( آپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ،
دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔
بندہٴ مجبور ومضطر خدائے قادر کے سامنے جب قصور وار اورسوالی بن کر معافی اور آنسووٴں کا واسطہ پیش کرتا ہے اور اپنی بے وقعت ذات کو دستِ قدرت کے حوالے کر کے کچھ مانگتا ہے تو بادشاہِ جبّار کی رحمت و شفقت کو کچھ ایسا جوش آتا ہے کہ بعض دفعہ طے شدہ فیصلوں کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دعائیں جہاں تمام عبادات کا خلاصہ ہیں وہیں یہ ایک ایسا حصن حصین بھی ہیں جن کے حصار میں رہنے والا کبھی نا مراد اور ناکام نہیں ہوتا۔

لغوی و اصطلاحی معنی:​

دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا۔
شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد فرماتے ہیں:
’’ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٝ مُنِيْبًا اِلَيْهِ۔‘‘(سورۃ الزمر: ۸)
’’ جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘

دعا كیوں كی جاتی ہے؟​

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَاللّـٰهُ الْغَنِىُّ وَاَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ (سورۃ محمد:۳۸)
’’اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔‘‘
روئے زمین پرہر شخص اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں،انسان کی محتاجی کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے کریم رب سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے۔

دعا کی قبولیت:​

اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقان حمید میں دعا کی قبولیت کی گارنٹی دے رہے ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۔ ‘‘
’’(اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت خود ہی دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رہیں کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ دعا قبول کرنے والا خود کہ رہاہو کہ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔
اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں بھی اللہ پاک ارشاد فرمارہے ہیں کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
’’وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔‘‘
تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(سورۃ المؤمن: ۶۰)

نبی کریم ﷺ کی دعا کرنےکی تلقین:​

نبی کریم ﷺ نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے۔
’’الدُّعَاءُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ‘‘ (رواہ ابویعلی )
دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے:
’’دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔‘‘ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء)
دوسری حدیث ارشاد فرمایا:
’’دُعا عین عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء)

دعا کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:​

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء)
نبی كریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ
’’تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔‘‘ (ترمذی)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آداب دعا:​

دعا ایک اہم عبادت ہے، اس لئے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔نبی کریمﷺنے دُعا کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں، دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔احادیث میں دعا کے لئے مندرجہ ذیل آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے، جن کو ملحوظ رکھ کر دُعا کرنا بلاشبہ قبولیت کی علامت ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا مکمل یقین کے ساتھ کی جانی چاہئیے کیونکہ وہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور ہمارے گناہوں کو بخشنے والا ہے اس لیے دعا مکمل دلجوئی کے ساتھ کرنی چاہئیے۔اللہ پاک قرآن مجید میں اس کی تلقین بھی فرماتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَادْعُوا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الـدِّيْنَ۔‘‘
’’ تم لوگ اللہ کو خالص اعتقاد کرکے پکارو ۔‘‘ (سورۃ المؤمن:۱۴)
اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے کہ
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔‘‘ (ترمذی)
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے۔‘‘ (ترمذی)
دعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دُعا کرتا ہے ۔‘‘ (ترمذی)
غرضیکہ دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور خشوع وخضوع اور سکون قلب ورقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ۔

دعا کی قبولیت یقینی:​

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’جو بھی مسلمان اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ایسی دعا مانگے جس میں گناہ اور قطع رحمی کا سوال نہ ہوتو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کو تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا فرماتے ہیں :
۱۔جو اس نے مانگا وہ اسے عطا فرما دیتے ہیں۔
۲۔یا اس دُعا کو آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنا دیتے ہیں۔
۳۔یا اس دُعا کے بدلے (آنے والی) مصیبت دور فرمادیتے ہیں۔
یہ سن کر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا :
’’اب تو ہم خوب دعائیں مانگیں گے۔‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ سبحانہ وتعالی اس (تمہارے مانگنے)سے بھی زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔ (مسند احمد: 11149)

دعا قبول کروانے کا آسان طریقہ:​

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی اکریم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسے کلمات سکھلا دیں جن کے ذریعے میں اللہ سے دُعاء مانگا کروں۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’10 مرتبہ سبحان اللہ اور 10 مرتبہ الحمد للہ اور 10 مرتبہ اللہ اکبر پڑھو اور پھر اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرو، تو اللہ تعالی جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
میں نے تمہارا کام کر دیا، میں نے تمہارا کام کر دیا۔“(مسند أحمد: 12207 مُسْنَدُ أنس حديث صحيح)
دوسری حدیث میں فرمایا
حضرت عبد اللہ بن مسعو درضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب تم میں سے کوئی دعامانگے تو اسے چاہیے:
۱۔دُعا کی ابتداء میں اللہ رب العزت کی شایانِ شان ، حمد و ثناء بیان کرے۔
۲۔پھر نبی اکرم صلی علیم پر درود شریف پڑھے۔
۳۔اور پھر اس کے بعد ( جو دعاما متمنی ہو وہ ) دعامانگے۔
کیونکہ اس ترتیب سے وہ اپنی مراد جلد پالے گا ( یعنی اس کی دُعا جلدی قبول ہو جائے گی)۔“(المعجم الكبير للطبراني: 8780 ، رجاله صحيح)

دل کھول کر رب سے مانگو:​

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی ( دعا میں) کچھ مانگے تو کثرت سے مانگے کیونکہ وہ اپنے ( عظیم ) رب سے سوال کر رہا ہے۔“(صحيح ابن حبان: 889 ذكر استحباب الإكثار في السؤال ربه جل وعلا)

مشکل وقت میں دعا قبول کروانے کا نسخہ:​

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ جسے پسند ہو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مشکل حالات میں اس کی دُعائیں قبول فرمائیں تو اسے چاہیے کہ وہ اچھےحالات میں خوب دُعائیں مانگا کرے۔(سنن الترمذی : 3382 ، باب أن دعوة المسلم مستجابة )

قبولیت دعا کے اوقات:​

یوں تودعا ہروقت قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں دعا کے قبول ہونے کی توقع بہت زیادہ ہے، اس لئے ان اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے:
۱۔شب قدر یعنی رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی راتیں ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
۲۔ماہ رمضان المبارک کے تمام دن ورات ، اور عید الفطر کی رات۔
۳۔عرفہ کا دن (۹ ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک)۔ (ترمذی)
۴۔مزدلفہ میں۱۰ ذی الحجہ کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سے طلوعِ آفتاب سے پہلے تک۔
۵۔جمعہ کی رات اور دن۔ (ترمذی، نسائی)
۶۔آدھی رات کے بعد سے صبح صادق تک ۔
۷۔احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جس میں جودعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مگراس گھڑی کی تعیین میں روایات اور علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ روایات اور اقوال صحابہؓ وتابعین سے دو وقتوں کی ترجیح ثابت ہے، اوّل امام کے خطبہ کے لئے ممبرپر جانے سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک (مسلم)، خاص کر دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت۔ خطبہ کے درمیان زبان سے دعا نہ کریں، البتہ دل میں دعا مانگیں، اسی طرح خطیب خطبہ میں جودعائیں کرتا ہے ان پر بھی دل ہی دل میں آمین کہہ لیں۔ قبولیت دعا کا دوسرا وقت جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ (ترمذی)
۸۔اذان واقامت کے درمیان۔ (ترمذی)
۹۔فرض نماز کے بعد۔ (نسائی)
۱۰۔سجدہ کی حالت میں ۔ (مسلم)
۱۱۔تلاوت قرآن کے بعد۔ (ترمذی)
۱۲۔آب زم زم پینے کے بعد۔ (مستدرک حاکم)
۱۳۔جہاد میں عین لڑائی کے وقت۔ (ابوداؤد)
۱۴۔مسلمانوں کے اجتماع کے وقت۔ (صحاح ستہ)
۱۵۔بارش کے وقت۔ (ابوداؤد)
۱۶۔بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑتے وقت۔ (ترمذی)

دعا قبول ہونے کے چند اہم مقامات:​

یوں تودُعا ہرجگہ قبول ہوسکتی ہے ، مگر کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں دعا کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے۔
۱۔طواف کرتے وقت ۔
۲۔ملتزم پرچمٹ کر۔ (ملتزم اس جگہ کو کہتے ہیں جو حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کے درمیان ہے، ملتزم عربی میں چمٹنے کی جگہ کوکہا جاتا ہے؛ چونکہ اس جگہ چمٹ کر دُعا کی جاتی ہے اس لئے اس کوملتزم کہتے ہیں)۔
۳۔حطیم میں خاص کر میزاب رحمت کے نیچے ۔
۴۔بیت اللہ شریف کے اندر۔
۵۔صفا ومروہ پر ، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے وقت ۔
۶۔مقام ابراہیم کے پیچھے ۔
۷۔مشاعر مقدسہ (عرفات، مزدلفہ ا ور منی) میں ۔
۸۔جمرۂ اولیٰ اور جمرۂ وسطیٰ کی رمی کرنے کے بعد وہاں سے ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

دعا کی قبولیت کی علامات:​

دعا قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اپنے گناہوں کویاد کرنا، اللہ کا خوف طاری ہونا، بے اختیار رونا آجانا، بدن کے روئیں کھڑے ہوجانا، اس کے بعد اطمینان قلب اور ایک قسم کی فرحت محسوس ہونا، بدن ہلکا معلوم ہونے لگنا، گویا کندھوں پر سے کسی نے بوجھ اُتار لیا ہو۔ جب ایسی حالت پیدا ہو تو اللہ کی طرف خشوع قلب کے ساتھ متوجہ ہوکر اس کی خوب حمد وثنا اور درودکے بعد اپنے لئے، اپنے والدین، رشتہ داروں، اساتذہ اور مسلمانوں کے لئے گڑگڑا کر دُعا کریں۔ انشاء اللہ اس کیفیت کے ساتھ کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوگی۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کا وقت معین ہے اور نااُمید بھی نہیں ہونا چاہئے اور یوں نہیں کہنا چاہئے کہ میں نے دعا کی تھی مگر قبول نہ ہوئی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناامید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری شیء انسان کو عطا فرماتا ہے، یا کوئی آنے والی مصیبت دور کردیتا ہے۔

حرام کمائی والے کی دعا ناقابل قبول ہے:​

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
’’اللہ سبحانہ وتعالی خود پاک ہیں اور پاک مال ہی قبول فرماتے ہیں، مسلمانوں کو بھی اسی بات کا حکم دیاجس کا اپنے رسولوں کو حکم فرمایا۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو کیونکہ میں تمہارے اعمال سے باخبر ہوں۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو ! ہمارے دیئے ہوئے پاک رزق میں سے کھاؤ۔‘‘
اس کے بعد رسولﷺ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ دور دراز کا سفر کرتا ہے
(اور مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے) اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بکھرے بال اور غبار آلود کپڑوںوالا ( پریشان حال) بھی ہے۔ یہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر کہتاہے: اے میرے پروردگار ! اے میرے پروردگار! لیکن کھانا بھی اس کا حرام، پینا بھی حرام ، لباس بھی حرام اور حرام سے ہی اس کے جسم کی نشونما ہوئی ، تو ایسے شخص کی دعا کہاں قبول ہو سکتی!!!" (مسلم: 2392)

جلد باز کی دعا:​

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’انسان جب تک گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی نہ کرے۔
پوچھا گیا یا رسول اللہﷺجلدد بازی کرنے کا کیا مطلب؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(جلد بازی یہ ہے کہ) انسان یوں کہے: میں نے دُعا کی، پھر دعا کی لیکن مجھے تو دعا قبول ہوتی نظر نہیں آتی اور اکتا کر دُعا کرنا چھوڑ دے۔“(صحیح مسلم: 7112)
 
Top