وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(سورۃ البقرہ : ۱۸۶ )
ترجمہ : اور (اے رسولﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو ( آپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ،
دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔ترجمہ : اور (اے رسولﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو ( آپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ،
بندہٴ مجبور ومضطر خدائے قادر کے سامنے جب قصور وار اورسوالی بن کر معافی اور آنسووٴں کا واسطہ پیش کرتا ہے اور اپنی بے وقعت ذات کو دستِ قدرت کے حوالے کر کے کچھ مانگتا ہے تو بادشاہِ جبّار کی رحمت و شفقت کو کچھ ایسا جوش آتا ہے کہ بعض دفعہ طے شدہ فیصلوں کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دعائیں جہاں تمام عبادات کا خلاصہ ہیں وہیں یہ ایک ایسا حصن حصین بھی ہیں جن کے حصار میں رہنے والا کبھی نا مراد اور ناکام نہیں ہوتا۔
لغوی و اصطلاحی معنی:
دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا۔شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد فرماتے ہیں:
’’ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٝ مُنِيْبًا اِلَيْهِ۔‘‘(سورۃ الزمر: ۸)
’’ جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘
’’ جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘
دعا كیوں كی جاتی ہے؟
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :وَاللّـٰهُ الْغَنِىُّ وَاَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ (سورۃ محمد:۳۸)
’’اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔‘‘
روئے زمین پرہر شخص اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں،انسان کی محتاجی کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے کریم رب سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے۔’’اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔‘‘
دعا کی قبولیت:
اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقان حمید میں دعا کی قبولیت کی گارنٹی دے رہے ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۔ ‘‘
’’(اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت خود ہی دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رہیں کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ دعا قبول کرنے والا خود کہ رہاہو کہ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔’’(اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶)
اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں بھی اللہ پاک ارشاد فرمارہے ہیں کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
’’وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔‘‘
تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(سورۃ المؤمن: ۶۰)
تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(سورۃ المؤمن: ۶۰)
نبی کریم ﷺ کی دعا کرنےکی تلقین:
نبی کریم ﷺ نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے۔ ’’الدُّعَاءُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ‘‘ (رواہ ابویعلی )
دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے:
’’دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔‘‘ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء)
دوسری حدیث ارشاد فرمایا:’’دُعا عین عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء)
دعا کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء)
نبی كریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔‘‘ (ترمذی)