(ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
ارشاد فرمایا کہ سنت کا طریقہ یہ ہے جو حدیث میں منقول ہے کہ :۔
۔ــما خیر رسول اللہ ﷺ۔ بین امرین قط الا اخذا یسرھما‘‘۔۔
۔(بخاری، کتاب الادب، حدیث:۶۱۲۶)۔
جب حضور اقدس ﷺ کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے۔ اب سوالیہ ہے کہ کیا حضور اقدس ﷺ کا آسانی اختیار کرنا معاذاللہ تن آسانی کے لیے تھا؟ اور کیا مشقت اور تکلیف سےبچنے کے لیے یا دنیاوی راحت اور آرام حاصل کرنے کے لیے تھا؟ ظاہر ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے بارے میں یہ تصوربھی نہیں ہوسکتا کہ آپ تن آسانی اور راحت و آرام حاصل کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار فرماتے تھے ۔ لہٰذا اس کیوجہ یہی ہے کہ آسان راستہ اختیار کرنے میں عبدیت زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے بہادری نہیں ہے بلکہ شکستگی ہے۔میں تو عاجز بندہ ہوں ، ناکارہ ہوں ، میں تو آسان راستہ اختیار کرتا ہوں ۔ یہ بندگی کا اظہار ہے اور اگر مشکل راستہاختیار کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بہادری جتاتا ہے۔
۔(اصلاحی خطبات، جلد۱، صفحہ ۱۸۴)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
ارشاد فرمایا کہ سنت کا طریقہ یہ ہے جو حدیث میں منقول ہے کہ :۔
۔ــما خیر رسول اللہ ﷺ۔ بین امرین قط الا اخذا یسرھما‘‘۔۔
۔(بخاری، کتاب الادب، حدیث:۶۱۲۶)۔
جب حضور اقدس ﷺ کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے۔ اب سوالیہ ہے کہ کیا حضور اقدس ﷺ کا آسانی اختیار کرنا معاذاللہ تن آسانی کے لیے تھا؟ اور کیا مشقت اور تکلیف سےبچنے کے لیے یا دنیاوی راحت اور آرام حاصل کرنے کے لیے تھا؟ ظاہر ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے بارے میں یہ تصوربھی نہیں ہوسکتا کہ آپ تن آسانی اور راحت و آرام حاصل کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار فرماتے تھے ۔ لہٰذا اس کیوجہ یہی ہے کہ آسان راستہ اختیار کرنے میں عبدیت زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے بہادری نہیں ہے بلکہ شکستگی ہے۔میں تو عاجز بندہ ہوں ، ناکارہ ہوں ، میں تو آسان راستہ اختیار کرتا ہوں ۔ یہ بندگی کا اظہار ہے اور اگر مشکل راستہاختیار کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بہادری جتاتا ہے۔
۔(اصلاحی خطبات، جلد۱، صفحہ ۱۸۴)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔