یتیموں کی کفالت

ابنِ سراج قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
یتیموں کی کفالت

امام بخاری، امام مسلم اور امام بزار نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی یتیم کی کفالت کی ، خواہ وہ اس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، تو میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے( یہ فرما کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت اور درمیان کی انگلی کو ملایا۔ امام بزار کی حدیث میں آگے اتنا اضافہ ہے: اور جس نے تین بیٹیوں کی خبر گیری کی، وہ جنت میں جائے گا، اور اس کو دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں نماز پڑھنے والے مجاہد کی طرح اجر ملے گا۔
ابن ماجہ میں ہے : جس نے تین یتیموں کی پرورش کی، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو رات کو قیام کرے، دن میں روزہ رکھے اور صبح وشام تلوار سونتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور میں اور وہ جنت میں بھائی ہوں گے، جیسے یہ دونوں انگلیاں بہنیں ہیں( یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملایا۔
امام ترمذیؒ نے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان یتیم کو پناہ دے اوراس کے کھانے پینے کی ذمہ داری لے، وہ یقینی طور پر جنت میں داخل ہوگا، مگر یہ کہ کوئی ایسا گناہ کردے، جو قابل مغفرت نہ ہو( یعنی شرک)
ابن ماجہ میں ہے کہ : مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اورمسلمانوں کا بدترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا جائے۔
ابو یعلی نے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کا دروازہ سب سے پہلے میں کھولوں گا، مگر یہ کہ میں دیکھو ں گا کہ ایک عورت مجھ پر سبقت کررہی ہے، تو میں پوچھوں گا: تو کون ہے؟ وہ کہے گی: میں ایک ایسی عورت ہوں، جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش اورتربیت میں مشغول ہوگئی۔ ( اور دوسرا نکاح نہیں کیا)
امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو عذاب نہیں دے گا، جس نے کسی یتیم پر رحم کیا ہو، اس سے نرم گفتگو کی ہو اور اس کی یتیمی اور کمزوری پر ترس کھایا ہو اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے طفیل اپنے پڑوسی پر نہ اِترایا ہو۔
امام احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی یتیم کے سر پر اللہ واسطے ہاتھ پھیرتا ہے، تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گذرتا ہے، ہر بال کے بدلے میں اسے نیکیاں ملتی ہیں اور جو اپنے پاس موجود کسی یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، تو میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے( پھر آپ نے شہادت اوربیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا)
اور محدثین کی ایک جماعت نے جن میں امام حاکم بھی ہیں، یہ روایت بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے فرمایا کہ تمہاری بینائی ختم ہونے، کمر جھک جانے اوریوسف کے بھائیوں کے ان کے ساتھ برا سلوک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس ایک بھوکا روزہ دار مسکین یتیم آیا، جب کہ وہ اور ان کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کررکھی تھی، تو ان سب نے کھالیا اور یتیم کو نہیں کھلایا، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں بتلایا کہ خدا وند تعالیٰ اپنی مخلوق سے کسی چیز کو اتنا پسند نہیں فرماتے، جتنا یتیموں اورمسکینوں کو پسند فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ وہ کھانا بنائیں اور مسکینوں کو دعوت دیں؛ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
امام بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیواؤں اورمسکینوں کی خبر گیری کرنے والا ایسا ہے، جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا( ابوہریرہؓ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا) رات میں قیام کرنے والے اس شخص کی طرح ہے جو سست نہیں پڑتا اور اس روزہ دار کی طرح جو افطار نہیں کرتا، ابن ماجہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
چشم کشا واقعہ
بعض سلف کا بیان ہے کہ آغاز میں، میں شراب کا رسیا اورگناہوں میں ڈوبا ہوا تھا، ایک دن میں نے ایک یتیم کو دیکھا، تو میں نے اس کے ساتھ ویساہی عمدہ برتاؤ کیا، جیسے اپنے بچے کے ساتھ کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر کیا، پھر میں سوگیا، تو میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ مجھے جکڑ کر جہنم میں لے جارہے ہیں، اتنے میں وہ یتیم میرے آڑے آگیا اور اس نے کہا: اسے چھوڑ دو تاکہ میں اس کے سلسلے میں اپنے رب سے رجوع کروں، لیکن فرشتوں نے انکار کردیا ، اچانک ایک آواز آئی: اسے چھوڑ دو؛ کیوںکہ یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وجہ سے میں نے اس کا معاملہ یتیم کے حوالہ کردیا، پھر میری آنکھ کھل گئی اور اس دن سے میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں حد سے زیادہ اہتمام کرنے لگا۔
ایک عبرت انگیز واقعہ
ایک آسودہ حال علوی شخص کی چند لڑکیاں تھیں، علوی شخص کا انتقال ہوگیا اور لڑکیوں کو سخت فقر وفاقہ لاحق ہوگیا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ لوگوں کے ٹٹھا کرنے کے اندیشے سے اپنے وطن کو چھوڑ کر کوچ کرگئیں(سفر کرتے ہوئے) وہ ایک شہر کی ایک ویران مسجد میں پہنچیں، تو ان کی ماں نے ان کو وہیں چھوڑا اور خود ان کے لیے آب و دانہ کی تلاش میں نکل گئی، وہ شہر کے ایک مالدار شخص کے پاس سے گزری، جو مسلمان تھا، بیوہ نے اس سے اپنا حال بیان کیا، لیکن اس مسلم مالدار کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آیا اور اس نے کہا: اس کا کوئی ثبوت پیش کرو، بیوہ نے کہا: میں پردیسی ہوں، لیکن اس نے اسے کچھ نہ دیا اور منہ موڑ لیا۔پھر بیوہ ایک مجوسی شخص کے پاس سے گزری اور اس سے اپنی حالت بیان کی، تو اسے یقین آگیا اور اس نے اپنے گھر کی ایک خاتون کو بھیج کر ان سب کو اپنے گھر بلالیا اورا ن کا خوب اعزاز و اکرام کیا۔
جب آدھی رات گزر گئی، تو اس مسلمان نے دیکھا کہ قیامت قائم ہوچکی ہے اور آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کے سر پر لواء الحمد( تعریف کا پرچم) ہے اور آپ کے پاس ایک عظیم الشان محل ہے، تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ محل کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک مسلمان شخص کا ، اس نے عرض کیا: میں مسلم موحد ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس اس کا کوئی ثبوت پیش کرو، تو وہ آدمی حیران ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے علویہ عورت کا واقعہ بیان کیا، اس پر وہ آدمی متنبہ ہو اور اسے اس عورت کو واپس لوٹا دینے پر انتہائی رنج و ملال ہوا، پھر اس نے اس علویہ عورت کو بہت تلاش کیا، یہاں تک کہ اسے پتا چلا کہ وہ اس مجوسی کے گھر میں ہے، تو اس نے مجوسی سے اس عورت کو طلب کیا، لیکن اس نے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے ان کے طفیل بہت سی برکتیں حاصل ہوئی ہیں، مسلم شخص نے کہا: ہزار دینار لے لو اورانھیں میرے حوالہ کردو، لیکن اس نے پھر بھی انکار کردیا، تو مسلم شخص نے اسے مجبور کرنا چاہا، تو اس نے کہا:جسے تم طلب کررہے ہو، میں اس کا زیادہ حق دار ہوں، اور وہ محل جسے تو نے خواب میں دیکھا ہے ، وہ میرے لیے تیار کیا گیا ہے، کیا تم اپنے اسلام کی وجہ سے مجھ پر فخر کرتے ہو؟ بخدا میں اور میرے گھر والوں نے سونے سے پہلے اس علویہ عورت کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا اور میں نے اسی طرح کا خواب دیکھا تھا، جیسا تم نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ علویہ عورت اور اس کی بچیاں تمہارے پاس ہیں؟ میں نے عرض کیا: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: یہ محل تیرے اور تیرے گھر والوں کے لیے ہے، یہ سن کر وہ مسلم شخص لوٹ گیا، اسے اس درجہ غم و رنج لاحق ہوا، جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔( الزواجر عن اقتراف الکبائر، خاتمۃ في کفالۃ الیتیم الخ:۲۵۲،۲۵۳)

٭…٭…٭​
 
Top