اس دنیا میں موجود ہر طرز زندگی اپنے منفرد طرز عمل، اقدار اور عقائد کی نمائندگی کر رہی ہے۔مجھے یہ سب طرز زندگی رنگوں کے سپیکٹرم کی طرح نظر آتے ہیں۔ اکثر سب کہتے ہیں کہ میں بہت تخیلاتی سوچ رکھتی ہوں لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ واقعی ایک رنگین جگہ ہے۔ مجھے اپنے اطراف بھرپور، متحرک رنگ نظر آتے ہیں ۔
ہزاروں مختلف رنگ،ہزاروں مختلف طرز زندگی۔۔۔۔
انھیں رنگوں کی شاندار صف میں، میں نے آنکھ کھولی اور جیسے جیسے بڑی ہوئی خود کو ان رنگوں کی چکا چوند سے گھرا پایا۔ اس چمک دمک میں خود کو اس قدر اندھا پایا کہ میں جان ہی نہ سکی کہ کہاں جانا ہے۔۔۔ مجھے کون سے رنگ کو اپنانا ہے۔۔۔ کس بات پر توجہ دینی ہے۔۔۔؟
لیکن اس دنیا کے تمام خوبصورت اور چمکدار رنگوں میں کوئی بھی ایسا خوبصورت، متحرک اور مکمل طور پر مسحور کن رنگ نہیں ملا، جس کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکے۔ صرف ایک ہی رنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔۔۔ وہ سب سے پیارا رنگ ہے جسے قرآن نے صبغۃ اللہ یعنی اللہ کا رنگ کہا ہے۔
اللہ کا رنگ کیا ہے؟ اس کا مطلب لفظی نہیں ہے، بلکہ اس کی اطاعت میں رنگی ہوئی طرز زندگی مراد ہے، ایک زندگی جو خالص اور مکمل طور پر اس کے لیے بسر کی گئی ہو، جس میں وہ مرکز ہے جس کے گرد ہم گھومتے ہیں۔
کون نہیں چاہے گا کہ مسلسل بدلتے، بے چین رنگوں کو سب سےپیارے رنگ سے بدل دیا جائے؟ لیکن ایسا ہو گا کیسے؟اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے رنگ میں کیسے رنگیں؟
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ آپ رنگساز کے پاس کوئی کپڑا لے کر گئے ہوں اور اس نے آپ سے معذرت کے ساتھ کہا ہو کہ اسےنہیں رنگا جا سکتا؟ کپڑے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ کوئی رنگ قبول نہیں کر سکتی ۔ کپڑے کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
جب ہم اللہ کے راستے پر چلنا شروع کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہوتا ہے کہ نئے رنگ کو قبول کرنے اور پرانے رنگوں کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگلا مرحلہ، کپڑے کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ رنگنے کے عمل کو برداشت کر سکے۔اس عمل میں کپڑے پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے، اور ظاہر ہے ہم نہیں چاہتے کہ کپڑا اس عمل کے دوران ہی خراب ہو جائے۔ اسی طرح اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں مضبوط اور ثابت قدم رہنا ہوتا ہے۔ ہم ہر بار چھوٹی سی رکاوٹ کا سامنا کرنے پر ہمت نہیں ہار سکتے۔ جب ہمیں کسی قسم کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔۔۔ آگے بڑھنے سے انکار نہیں کر سکتے۔ ہمیں پورے عمل سے گزرنے کے لیے کافی مضبوط بننا پڑتا ہے۔
رنگساز کپڑے کو رنگنے سے پہلے اسے بلیچ کرتا ہے تاکہ وہ رنگ ختم ہو جائے جس میں اسے پہلے رنگا گیا تھا۔ تب ہی تو اسے نئے رنگ میں رنگا جا سکتا ہے۔ بلیچنگ کا عمل کپڑے کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، اور اسے برداشت کرنے کے لیے مضبوط کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کے دیگر تمام رنگوں کے تمام پرانے نشانات مٹانا ہو تے ہیں۔ ہمیں اپنے پرانے تعصبات، نظریات، عقائد کو بلیچ کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے دل کو مکمل طور پر صاف کرنا ہوتا ہے، اپنے پرانے طریقوں کی غلطی پر توبہ کرنا ہوتی ہے، اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا:
أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (سورۃ بقرۃ آیت 131)
اب ہم اللہ کے ہیں کہ وہ جیسا چاہے ڈھالے، جس طرح بلیچ شدہ کپڑا اب رنگنے والا ہے جیسا رنگسازچاہتا ہے۔
اب رنگساز کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کپڑے کو کس رنگ میں رنگنا ہے، اورپھر اس کپڑے کو رنگنے کے لیے کیمیائی محلول تیار کرے گا۔ اسی طرح اللہ کا رنگ اختیار کرتے وقت ہمیں اس کے علم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہمیں کیا طرز زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟ ہمیں کن کاموں سے رکنا ہے اور کن کو اپنانا ہے؟
اب رنگساز کپڑے کو رنگ میں ڈبوئے گا اور ابالے گا۔ یہ رنگنے کے عمل میں ایک اہم مرحلہ ہے۔ کپڑے کو مکمل طور پر رنگ میں ڈبونا ہوگا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس محلول میں کچھ دیر کے لیے ابالنا بھی ہو گا۔ کیمیکل سخت اور تیزہے۔ یہ عمل ایک بار پھر بےچارے کپڑے کے لیے تکلیف دہ عمل ہے۔ ہمارے لیے اللہ کی تعلیمات میں مکمل طور پر ڈوبنا بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بہت ضروری ہے۔اسلام پر عمل کرنے کا مطلب ہے سر تسلیم خم کرنا، اور اپنی ہر خواہش کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کرنا، جیسا کہ ہمیں قرآن میں بتایا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (سورۃ بقرۃ آیت 208)
ہمیں ایک نئے طرز زندگی میں مکمل طور پر ڈوبنا ہے، اس کے کسی بھی پہلو کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی۔ اس کے علاوہ، کپڑے کی طرح جو کافی دیر تک اُبالا جاتا ہے، ہمیں بھی کافی وقت تک اپنی کوششوں پر قائم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب جب کپڑا رنگنے اور ابالنے کے بعد تیار ہو جاتا ہے، رنگساز اس کا موازنہ ترتیب دیے گئے رنگ سے کرتا ہے ۔ گاہک کو مطمئن کرنے کے لیے اسے سو فیصد میچ ہونا ضروری ہے۔ اگر رنگ بالکل مطلوبہ رنگ جیسا نہیں ہے، تو وہ اسے دوبارہ رنگ میں ڈبوئے گا اور اسے دوبارہ ابالے گا، جب تک کہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوجائے۔ اسی طرح جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا رنگ حاصل کر لیا ہے ۔جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم سچے، مخلص مسلمان بن گئے ہیں ۔ تو ہمیں اپنے آپ کو امتحان کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ اس راستے پر سینکڑوں بار ہمارے ایمان کا امتحان لیا جائے گا، ہماری ترجیحات کا امتحان لیا جائے گا ۔اللہ ہمارے راستے میں مشکلات بھیجے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سخت حالات میں رنگ پھیکا تو نہیں پڑ گیا۔
اور اگر ہم اپنے امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں، تو رنگنے کا عمل بار بار، بار بار دہرایا جانا چاہیے، جب تک کہ ہم واقعی خالص اور مخلص، اور بالکل ایسے ہی لوگ بنیں جیسے اللہ چاہتا ہے۔
ایک بار جب کپڑا رنگ کر تیار ہو جائے ، اور رنگ کامل ہو جائے، تو کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے:
کپڑے کو دوسرے رنگوں کے داغوں سے بچانا پڑتا ہے ۔ معاشرے میں اور بھی بہت سے رنگ رنگے جا رہے ہیں۔ اللہ کا رنگ خالص اور پکا ہونا چاہیے، اس میں کوئی اور رنگ نہیں ملانا چاہیے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام نظریات اور فلسفے ہمارے تصورات پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئے ۔انہیں ہمیشہ قرآن و سنت پر مبنی رہنا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ جب ہم پہلے سے رنگے ہوئے رنگ کے اوپر دوسرا رنگ کرتے ہیں تو عام طور پر کپڑا بدصورت نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نہیں رہنا چاہیے۔ تمام رنگوں میں سب سے خوبصورت، اللہ کا رنگ۔۔۔۔
تیسرا، رنگ تیز ہونا چاہیے ۔ اس کپڑے کی طرح نہیں جو رنگنے پر خوبصورت نظر آتا ہے، لیکن ایک ہی دھونے میں ختم ہو جاتا ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایک بار جب ہم اللہ کے رنگ کو اپنا لیں تو ماحول ہمیں دھندلا نہ کر دے کیونکہ پھیکے رنگوں میں کوئی ارتعاش، کوئی کشش اور کوئی افادیت نہیں ہوتی۔
جب اللہ کے رنگ کی خوبصورتی کسی اور رنگ ہے ہی نہیں تو پھر ہاپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس خوبصورت طرز زندگی میں خود کو ڈوبنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ اس کی طرف بڑھیں، اسے گلے لگائیں، اس پر فخر محسوس کریں اور اسے دنیا کے سامنے ظاہر کریں!
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً
ہزاروں مختلف رنگ،ہزاروں مختلف طرز زندگی۔۔۔۔
انھیں رنگوں کی شاندار صف میں، میں نے آنکھ کھولی اور جیسے جیسے بڑی ہوئی خود کو ان رنگوں کی چکا چوند سے گھرا پایا۔ اس چمک دمک میں خود کو اس قدر اندھا پایا کہ میں جان ہی نہ سکی کہ کہاں جانا ہے۔۔۔ مجھے کون سے رنگ کو اپنانا ہے۔۔۔ کس بات پر توجہ دینی ہے۔۔۔؟
لیکن اس دنیا کے تمام خوبصورت اور چمکدار رنگوں میں کوئی بھی ایسا خوبصورت، متحرک اور مکمل طور پر مسحور کن رنگ نہیں ملا، جس کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکے۔ صرف ایک ہی رنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔۔۔ وہ سب سے پیارا رنگ ہے جسے قرآن نے صبغۃ اللہ یعنی اللہ کا رنگ کہا ہے۔
اللہ کا رنگ کیا ہے؟ اس کا مطلب لفظی نہیں ہے، بلکہ اس کی اطاعت میں رنگی ہوئی طرز زندگی مراد ہے، ایک زندگی جو خالص اور مکمل طور پر اس کے لیے بسر کی گئی ہو، جس میں وہ مرکز ہے جس کے گرد ہم گھومتے ہیں۔
کون نہیں چاہے گا کہ مسلسل بدلتے، بے چین رنگوں کو سب سےپیارے رنگ سے بدل دیا جائے؟ لیکن ایسا ہو گا کیسے؟اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے رنگ میں کیسے رنگیں؟
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ آپ رنگساز کے پاس کوئی کپڑا لے کر گئے ہوں اور اس نے آپ سے معذرت کے ساتھ کہا ہو کہ اسےنہیں رنگا جا سکتا؟ کپڑے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ کوئی رنگ قبول نہیں کر سکتی ۔ کپڑے کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
جب ہم اللہ کے راستے پر چلنا شروع کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہوتا ہے کہ نئے رنگ کو قبول کرنے اور پرانے رنگوں کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگلا مرحلہ، کپڑے کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ رنگنے کے عمل کو برداشت کر سکے۔اس عمل میں کپڑے پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے، اور ظاہر ہے ہم نہیں چاہتے کہ کپڑا اس عمل کے دوران ہی خراب ہو جائے۔ اسی طرح اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں مضبوط اور ثابت قدم رہنا ہوتا ہے۔ ہم ہر بار چھوٹی سی رکاوٹ کا سامنا کرنے پر ہمت نہیں ہار سکتے۔ جب ہمیں کسی قسم کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔۔۔ آگے بڑھنے سے انکار نہیں کر سکتے۔ ہمیں پورے عمل سے گزرنے کے لیے کافی مضبوط بننا پڑتا ہے۔
رنگساز کپڑے کو رنگنے سے پہلے اسے بلیچ کرتا ہے تاکہ وہ رنگ ختم ہو جائے جس میں اسے پہلے رنگا گیا تھا۔ تب ہی تو اسے نئے رنگ میں رنگا جا سکتا ہے۔ بلیچنگ کا عمل کپڑے کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، اور اسے برداشت کرنے کے لیے مضبوط کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کے دیگر تمام رنگوں کے تمام پرانے نشانات مٹانا ہو تے ہیں۔ ہمیں اپنے پرانے تعصبات، نظریات، عقائد کو بلیچ کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے دل کو مکمل طور پر صاف کرنا ہوتا ہے، اپنے پرانے طریقوں کی غلطی پر توبہ کرنا ہوتی ہے، اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا:
أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (سورۃ بقرۃ آیت 131)
اب ہم اللہ کے ہیں کہ وہ جیسا چاہے ڈھالے، جس طرح بلیچ شدہ کپڑا اب رنگنے والا ہے جیسا رنگسازچاہتا ہے۔
اب رنگساز کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کپڑے کو کس رنگ میں رنگنا ہے، اورپھر اس کپڑے کو رنگنے کے لیے کیمیائی محلول تیار کرے گا۔ اسی طرح اللہ کا رنگ اختیار کرتے وقت ہمیں اس کے علم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہمیں کیا طرز زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟ ہمیں کن کاموں سے رکنا ہے اور کن کو اپنانا ہے؟
اب رنگساز کپڑے کو رنگ میں ڈبوئے گا اور ابالے گا۔ یہ رنگنے کے عمل میں ایک اہم مرحلہ ہے۔ کپڑے کو مکمل طور پر رنگ میں ڈبونا ہوگا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس محلول میں کچھ دیر کے لیے ابالنا بھی ہو گا۔ کیمیکل سخت اور تیزہے۔ یہ عمل ایک بار پھر بےچارے کپڑے کے لیے تکلیف دہ عمل ہے۔ ہمارے لیے اللہ کی تعلیمات میں مکمل طور پر ڈوبنا بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بہت ضروری ہے۔اسلام پر عمل کرنے کا مطلب ہے سر تسلیم خم کرنا، اور اپنی ہر خواہش کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کرنا، جیسا کہ ہمیں قرآن میں بتایا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (سورۃ بقرۃ آیت 208)
ہمیں ایک نئے طرز زندگی میں مکمل طور پر ڈوبنا ہے، اس کے کسی بھی پہلو کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی۔ اس کے علاوہ، کپڑے کی طرح جو کافی دیر تک اُبالا جاتا ہے، ہمیں بھی کافی وقت تک اپنی کوششوں پر قائم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب جب کپڑا رنگنے اور ابالنے کے بعد تیار ہو جاتا ہے، رنگساز اس کا موازنہ ترتیب دیے گئے رنگ سے کرتا ہے ۔ گاہک کو مطمئن کرنے کے لیے اسے سو فیصد میچ ہونا ضروری ہے۔ اگر رنگ بالکل مطلوبہ رنگ جیسا نہیں ہے، تو وہ اسے دوبارہ رنگ میں ڈبوئے گا اور اسے دوبارہ ابالے گا، جب تک کہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوجائے۔ اسی طرح جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا رنگ حاصل کر لیا ہے ۔جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم سچے، مخلص مسلمان بن گئے ہیں ۔ تو ہمیں اپنے آپ کو امتحان کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ اس راستے پر سینکڑوں بار ہمارے ایمان کا امتحان لیا جائے گا، ہماری ترجیحات کا امتحان لیا جائے گا ۔اللہ ہمارے راستے میں مشکلات بھیجے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سخت حالات میں رنگ پھیکا تو نہیں پڑ گیا۔
اور اگر ہم اپنے امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں، تو رنگنے کا عمل بار بار، بار بار دہرایا جانا چاہیے، جب تک کہ ہم واقعی خالص اور مخلص، اور بالکل ایسے ہی لوگ بنیں جیسے اللہ چاہتا ہے۔
ایک بار جب کپڑا رنگ کر تیار ہو جائے ، اور رنگ کامل ہو جائے، تو کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے:
کپڑے کو دوسرے رنگوں کے داغوں سے بچانا پڑتا ہے ۔ معاشرے میں اور بھی بہت سے رنگ رنگے جا رہے ہیں۔ اللہ کا رنگ خالص اور پکا ہونا چاہیے، اس میں کوئی اور رنگ نہیں ملانا چاہیے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام نظریات اور فلسفے ہمارے تصورات پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئے ۔انہیں ہمیشہ قرآن و سنت پر مبنی رہنا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ جب ہم پہلے سے رنگے ہوئے رنگ کے اوپر دوسرا رنگ کرتے ہیں تو عام طور پر کپڑا بدصورت نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نہیں رہنا چاہیے۔ تمام رنگوں میں سب سے خوبصورت، اللہ کا رنگ۔۔۔۔
تیسرا، رنگ تیز ہونا چاہیے ۔ اس کپڑے کی طرح نہیں جو رنگنے پر خوبصورت نظر آتا ہے، لیکن ایک ہی دھونے میں ختم ہو جاتا ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایک بار جب ہم اللہ کے رنگ کو اپنا لیں تو ماحول ہمیں دھندلا نہ کر دے کیونکہ پھیکے رنگوں میں کوئی ارتعاش، کوئی کشش اور کوئی افادیت نہیں ہوتی۔
جب اللہ کے رنگ کی خوبصورتی کسی اور رنگ ہے ہی نہیں تو پھر ہاپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس خوبصورت طرز زندگی میں خود کو ڈوبنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ اس کی طرف بڑھیں، اسے گلے لگائیں، اس پر فخر محسوس کریں اور اسے دنیا کے سامنے ظاہر کریں!
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً