رمضان اور ہماری دعائیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اللہ تعالیٰ ہمیں نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ اپنی بارگاہ میں دعا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ خاص طور پر دعا، مناجات اور التجاؤں کا مہینہ ہے۔ چاہے رات کی خاموشی ہو یا دن کی مصروفیت، ہمیں حکم ہے کہ ہم اللہ پر اپنے بھروسے اور عقیدت کو اپنی دعاؤں کے ذریعے ظاہر کریں۔
یہ موضوع (رمضان اور ہماری دعائیں) ہمیں قرآن میں مذکور دعاؤں کی اہمیت، ان کا پس منظر اور ان کی عملی زندگی میں تطبیق پر غور و فکر کا موقع دے گا، تاکہ ہم اپنی زندگی میں ان دعاؤں کے ذریعے روحانی فوائد حاصل کر سکیں۔
میں آپ سب کو بالخصوص اس بابرکت مہینے میں دعوت دیتی ہوں کہ قرآن میں مذکور دعاؤں پر غور کریں اور اپنے قیمتی تاثرات یہاں شیئر کریں ۔ شاید آپ کو اندازہ نہ ہو، مگر آپ کی ایک چھوٹی سی عکاسی کسی کے دل کو چھو سکتی ہے اور اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ اور آپ کو اس نیکی کا مکمل بدلہ **قیامت کے دن** ہی نظر آئے گا، ان شاء اللہ۔
میری طرف سے **آپ اور آپ کے پیاروں کو رمضان کریم مبارک!
اللہ تعالیٰ آپ کے روزے، عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔
آمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الاعراف:23)
اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا، اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا، اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
یہ دعا میری سب سے پسندیدہ دعاؤں میں سے ایک ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی پکار کا جواب یوں دیتا ہے:
فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (البقرۃ: 37)
پس مہربان ہوا ان پر بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
یہ دعا مجھے سکھاتی ہے کہ اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہمارا نقصان ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی ہم سے محبت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ غلطی انسان نے کی اور توبہ کے کلمات خود اللہ سبحانہ و تعالی سکھا بھی رہا ہے اور قبول بھی کر رہا ہے۔ فرمایا:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ (البقرۃ: 37)
یہ دعا سکھاتی ہے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے احساس ندامت شرط ہے۔ جس طرح گاڑی چلانے کے دوران اگر red light کا دھیان نہ رہے تو ایسا بھاری فائن لگتا ہے کہ اگلی بار جب گاڑی چلاتے ہیں تو خود بخود گاڑی سگنل پر آ کر نہ صرف یہ کہ رک جاتی ہے بلکہ yellow light کا بھی خوب دھیان رہتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں جہاں غلطی ہو جائے لازم کہ فورا دل کا الارم بجے، خود پر ایک بھاری بوجھ محسوس ہے، اور پھر اس بوجھ کو اتارنے کی فکر میں انسان اپنے رب کی جانب رجوع کرے۔ استغفار کرے۔
یہ دعا مجھے کہتی ہے "آؤ اپنے رب کی رحمت کی طرف!"۔ اللہ سبحانہ و تعالی مایوسی، نا امیدی اور گناہوں کے دلدل میں ڈوبے ہوئے اپنے بندوں کو رحمت کی طرف یوں بلاتا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیۡ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَعۡفُوۡا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ (الشوری: 25)
اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور انکے قصور معاف فرماتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي، وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ ".
"اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بارے میں میرے بندے کا جو گمان ہو میں اس کے ساتھ (مطابق ہوتا) ہوں اور وہ مجھے جہاں (بھی) یاد کرے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے ایسے آدمی کی نسبت بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے چٹیل بیابان میں اپنی گم شدہ سواری (سامان سمیت واپس) مل جاتی ہے۔ (میرا) جو بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آ جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے، میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو چلتا ہوا میری طرف آتا ہے، میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔"(صحیح مسلم، کتاب التوبہ، حدیث: 6952)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (التحریم: 8)
"اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر اور ہمیں معاف فرما۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔"
اللہ رب العزت جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے نور کی بشارت یوں دیتا ہے:
یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (الحددید:12)
"جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ انکے ایمان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ تمکو بشارت ہو کہ آج تمہارے لئے باغ ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں تم ہمیشہ رہو گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔"
یہ دعا کیا سکھاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا۔ تفسیر در منثور میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے توبۃ نصوحا کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ آدمی برے کام سے اس طرح توبہ کرے پھر کبھی اس کی طرف نہ لوٹے۔
اس آیت میں جہاں اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کو کامل نور کی دعا سکھاتا ہے، وہاں دعا سکھانے سے پہلے اسی آیت کے شروع میں توبۃ نصوحا کا حکم دیتا ہے:
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا (التحریم: 8)
"مومنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو امید ہے۔''
یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ نور کی بشارت ان کے لیے ہے جو توبۃ نصوحا کی فکر کریں اور اپنے رب سے نا امید نہ ہوں:
عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ (التحریم: 8)
"امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو جنتوں میں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں داخل کرے گا۔"
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کو نور کی دعا سکھاتا ہے اور اس دعا کے سکھانے سے ذرا پہلے اپنے نبی ﷺ اور اصحاب رسول ﷺ کو کامل نور کی بشارت یوں دیتا ہے:
یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُھُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡھِمۡ وَ بِاَیۡمَانِھِمۡ (التحریم:8)
اس دن اللہ پیغمبر ﷺ کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کا نور ایمان انکے آگے اور داہنی طرف روشنی کرتا ہوا چل رہا ہو گا۔
قرآن کے اس بابرکت مقام سے گزرتے ہوئے کہ جس میں اللہ سبحانہ و تعالی نہ صرف نبی ﷺ بلکہ اصحاب نبی ﷺ کو بھی نور کی بشارت دیتا ہے۔ آئیے اپنے لیے بھی نور مانگیں اور نبی کریم کی اس دعا کو نہ بھولیں:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِي نُورًا، وَمِنْ أَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا
"اے اللہ! میرے دل میں نور کردے اور میری زبان میں نور کردے اور میری سماعت میں نور کردے اور میری آنکھ میں نور کردے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے آگے نور کردے اور میرے اوپر نور کردے اور میرے نیچے نورکردے، اے اللہ! مجھے نور عنائیت فرما۔" (صحیح مسلم حدیث نمبر: 1799)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿۷﴾ رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡنِۣ الَّتِیۡ وَعَدۡتَّہُمۡ وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۸﴾ وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ ؕ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾
اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو سموئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے رستے پر چلے انکو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار انکو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو جو ان کے باپ دادوں اور انکی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں انکو بھی۔ بیشک تو غالب ہے حکمت والا ہے۔ اور انکو بری حالتوں سے بچائے رکھیو۔ اور جسکو تو اس روز بری حالتوں سے بچا لے گا تو تو نے بیشک اس پر مہربانی فرمائی۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی قریب ہے، جو سنتا ہے ہر پکار کو، جو جواب دیتا ہے ہر پکار کا، فرشتوں کی پکار کا جواب یوں دیتا ہے:
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ (الزمر:53)
اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بیشک وہی تو ہے بڑا بخشنے والا بڑا مہربان۔
فرشتوں کی یہ دعا جب بھی نظر سے گزرتی ہے ایک عجیب احساس رگ و پے میں سرایت ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے!
اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے وہ نہیں چاہتا ہم آگ میں جلیں۔ اللہ کی ہم سے محبت کی یہ دلیل کتنی خوبصورت ہے کہ اس نے ایسے فرشتے تخلیق کیے جو ہر وقت ہمارے لیے دعا کرتے ہیں۔
غور کیجئے! فرشتے دعا کر رہے ہیں اور کائنات کا رب دعا قبول فرما رہا ہے۔
کیا ہم بھی فرشتوں کی دعا کے مستحق ہیں؟
کیا ہم بھی توبہ کر رہے ہیں؟
یہ دعا مایوسیوں اور پریشانیوں کے دلدل میں ایک ٹھنڈی پھوار ہے۔ دنیا کے کسی بازار میں اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ کپڑا سستا ہے یا برتن سستا ہے یا دنیا کوئی سامان سستا ہے تو ہم فورا جاتے ہیں۔ کچھ لینا نہیں ہو گا پھر بھی ایک چکر ضرور لگاتے ہیں۔ کچھ سامان بھی خرید لیتے ہیں کہ آج سستا ہے کل مہنگا ملے گا یا سٹاک ہی ختم ہو جائے گا۔
دنیا کے اس سفر سے ذرا اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں۔ اپنے رب کی مغفرت کا سفر اختیار کرتے ہیں جس کی شرط توبہ ہے۔ دنیا کے سامان سے الماریاں بھرنے کی بجائے فرشتوں کی دعاؤں سے اپنا دامن بھرتے ہیں جس کی شرط توبہ ہے۔
آئیں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آئیں اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ فرشتوں کی دعائیں منتظر ہیں۔ آج یہ دعائیں لے لیتے ہیں۔ دنیا کا سامان تو مہنگا بھی ہو جائے مل جاتا ہے لیکن یہ دعا کل کسی قیمت نہ مل سکے گی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ (سورۃ یوسف:18)
تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی مددگار ہے۔
اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ یوسف:86)
میں تو اپنے پریشانی اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام رنج و غم کی فریاد اللہ سے کرتے ہیں اور ان کا رنج اس قدر گہرا ہے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں۔
وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ (یوسف:84)
اور رنج و الم میں انکی آنکھیں سفید ہو گئیں اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے جب حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم دور کرتا ہے تو صرف باپ اور بیٹے کی ملاقات ہی نہیں کراتا بلکہ یعقوب علیہ السلام کو پہلے بینائی عطا کرتا ہے اس کے بعد ملاقات ہوتی ہے تا کہ اپنے کریم ابن کریم ابن کریم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور قیامت تک قرآن پڑھنے والے یہ جان لیں کہ اللہ ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ تو صرف عطا کرتا ہے:
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا (یوسف:96)
تو جب خوشخبری دینے والا آیا تو اس نے وہ (کرتا) انکے چہرے پر ڈالا تو نگاہ لوٹ آئی۔
یہ دعا کیا سکھاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ فصبر جمیل
حضرت یعقوب علیہ السلم کی ساری زندگی قرآن کے قاری کو صبر کا درس دیتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہر صبر کے بعد ہی رحمت برستی ہے۔
 

S.S. Hassan

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الاعراف:23)
اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا، اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا، اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
یہ دعا میری سب سے پسندیدہ دعاؤں میں سے ایک ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی پکار کا جواب یوں دیتا ہے:
فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (البقرۃ: 37)
پس مہربان ہوا ان پر بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
یہ دعا مجھے سکھاتی ہے کہ اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہمارا نقصان ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی ہم سے محبت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ غلطی انسان نے کی اور توبہ کے کلمات خود اللہ سبحانہ و تعالی سکھا بھی رہا ہے اور قبول بھی کر رہا ہے۔ فرمایا:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ (البقرۃ: 37)
یہ دعا سکھاتی ہے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے احساس ندامت شرط ہے۔ جس طرح گاڑی چلانے کے دوران اگر red light کا دھیان نہ رہے تو ایسا بھاری فائن لگتا ہے کہ اگلی بار جب گاڑی چلاتے ہیں تو خود بخود گاڑی سگنل پر آ کر نہ صرف یہ کہ رک جاتی ہے بلکہ yellow light کا بھی خوب دھیان رہتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں جہاں غلطی ہو جائے لازم کہ فورا دل کا الارم بجے، خود پر ایک بھاری بوجھ محسوس ہے، اور پھر اس بوجھ کو اتارنے کی فکر میں انسان اپنے رب کی جانب رجوع کرے۔ استغفار کرے۔
یہ دعا مجھے کہتی ہے "آؤ اپنے رب کی رحمت کی طرف!"۔ اللہ سبحانہ و تعالی مایوسی، نا امیدی اور گناہوں کے دلدل میں ڈوبے ہوئے اپنے بندوں کو رحمت کی طرف یوں بلاتا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیۡ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَعۡفُوۡا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ (الشوری: 25)
اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور انکے قصور معاف فرماتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي، وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ ".
"اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بارے میں میرے بندے کا جو گمان ہو میں اس کے ساتھ (مطابق ہوتا) ہوں اور وہ مجھے جہاں (بھی) یاد کرے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے ایسے آدمی کی نسبت بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے چٹیل بیابان میں اپنی گم شدہ سواری (سامان سمیت واپس) مل جاتی ہے۔ (میرا) جو بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آ جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے، میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو چلتا ہوا میری طرف آتا ہے، میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔"(صحیح مسلم، کتاب التوبہ، حدیث: 6952)
اللہ ہمیں ہمیشہ توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمت سے نوازے۔ جزاکم اللہ خیراً!
 

S.S. Hassan

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿۷﴾ رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡنِۣ الَّتِیۡ وَعَدۡتَّہُمۡ وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۸﴾ وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ ؕ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾
اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو سموئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے رستے پر چلے انکو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار انکو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو جو ان کے باپ دادوں اور انکی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں انکو بھی۔ بیشک تو غالب ہے حکمت والا ہے۔ اور انکو بری حالتوں سے بچائے رکھیو۔ اور جسکو تو اس روز بری حالتوں سے بچا لے گا تو تو نے بیشک اس پر مہربانی فرمائی۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی قریب ہے، جو سنتا ہے ہر پکار کو، جو جواب دیتا ہے ہر پکار کا، فرشتوں کی پکار کا جواب یوں دیتا ہے:
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ (الزمر:53)
اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بیشک وہی تو ہے بڑا بخشنے والا بڑا مہربان۔
فرشتوں کی یہ دعا جب بھی نظر سے گزرتی ہے ایک عجیب احساس رگ و پے میں سرایت ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے!
اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے وہ نہیں چاہتا ہم آگ میں جلیں۔ اللہ کی ہم سے محبت کی یہ دلیل کتنی خوبصورت ہے کہ اس نے ایسے فرشتے تخلیق کیے جو ہر وقت ہمارے لیے دعا کرتے ہیں۔
غور کیجئے! فرشتے دعا کر رہے ہیں اور کائنات کا رب دعا قبول فرما رہا ہے۔
کیا ہم بھی فرشتوں کی دعا کے مستحق ہیں؟
کیا ہم بھی توبہ کر رہے ہیں؟
یہ دعا مایوسیوں اور پریشانیوں کے دلدل میں ایک ٹھنڈی پھوار ہے۔ دنیا کے کسی بازار میں اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ کپڑا سستا ہے یا برتن سستا ہے یا دنیا کوئی سامان سستا ہے تو ہم فورا جاتے ہیں۔ کچھ لینا نہیں ہو گا پھر بھی ایک چکر ضرور لگاتے ہیں۔ کچھ سامان بھی خرید لیتے ہیں کہ آج سستا ہے کل مہنگا ملے گا یا سٹاک ہی ختم ہو جائے گا۔
دنیا کے اس سفر سے ذرا اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں۔ اپنے رب کی مغفرت کا سفر اختیار کرتے ہیں جس کی شرط توبہ ہے۔ دنیا کے سامان سے الماریاں بھرنے کی بجائے فرشتوں کی دعاؤں سے اپنا دامن بھرتے ہیں جس کی شرط توبہ ہے۔
آئیں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آئیں اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ فرشتوں کی دعائیں منتظر ہیں۔ آج یہ دعائیں لے لیتے ہیں۔ دنیا کا سامان تو مہنگا بھی ہو جائے مل جاتا ہے لیکن یہ دعا کل کسی قیمت نہ مل سکے گی۔
ماشاءاللہ، بہت خوبصورت تدبر! اللہ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کی یہ آیات دل کو سکون اور امید سے بھر دیتی ہیں۔ واقعی، فرشتوں کی دعاؤں کی حقیقت پر غور کرنا اور اللہ کی محبت کو محسوس کرنا ایک ایمان افروز تجربہ ہے۔ آپ نے نہایت عمدہ انداز میں اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ توبہ کے دروازے کھلے ہیں اور ہمیں فرشتوں کی دعاؤں کے مستحق بننے کے لیے رجوع الی اللہ کرنا چاہیے۔ جزاکم اللہ خیراً!
 

S.S. Hassan

وفقہ اللہ
رکن
وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ (سورۃ یوسف:18)
تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی مددگار ہے۔
اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ یوسف:86)
میں تو اپنے پریشانی اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام رنج و غم کی فریاد اللہ سے کرتے ہیں اور ان کا رنج اس قدر گہرا ہے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں۔
وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ (یوسف:84)
اور رنج و الم میں انکی آنکھیں سفید ہو گئیں اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے جب حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم دور کرتا ہے تو صرف باپ اور بیٹے کی ملاقات ہی نہیں کراتا بلکہ یعقوب علیہ السلام کو پہلے بینائی عطا کرتا ہے اس کے بعد ملاقات ہوتی ہے تا کہ اپنے کریم ابن کریم ابن کریم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور قیامت تک قرآن پڑھنے والے یہ جان لیں کہ اللہ ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ تو صرف عطا کرتا ہے:
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا (یوسف:96)
تو جب خوشخبری دینے والا آیا تو اس نے وہ (کرتا) انکے چہرے پر ڈالا تو نگاہ لوٹ آئی۔
یہ دعا کیا سکھاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ فصبر جمیل
حضرت یعقوب علیہ السلم کی ساری زندگی قرآن کے قاری کو صبر کا درس دیتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہر صبر کے بعد ہی رحمت برستی ہے۔
ماشاءاللہ، آپ کا یہ تدبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے صبر اور اللہ کی رحمت پر گہری بصیرت رکھتا ہے۔ ان کی دعا اور صبر ہمارے لیے بہترین سبق ہیں کہ ہر آزمائش کے بعد اللہ کی مدد اور رحمت ضرور آتی ہے۔ آپ کا تجزیہ بہت خوبصورت ہے، جاری رکھیے اور مزید تدبر کے ساتھ قرآن سے جڑتے رہیے۔ جزاکم اللہ خیرا!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
فرعون کے دربار میں جادوگروں کی دعا
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ O (الاعراف: 126)
”اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما اور حالت اسلام میں ہمیں فوت کر۔''
اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی (طہ: 73 )
” بے شک ہم ایمان لائے اپنے رب پر کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جس پر (جادوگری) تم نے ہم کو مجبور کیا ہے اور اللہ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔''
اِنَّا نَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنۡ کُنَّاۤ اَوَّلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الشعراء: 51)
” بے شک ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں“
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، سچی توبہ کرنے والوں کو جنت کی بشارت یوں دیتا ہے:
وَ مَنۡ یَّاۡتِہٖ مُؤۡمِنًا قَدۡ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الۡعُلٰی
جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنۡ تَزَکّٰی (طہ: 76.75)

اور جو بھی اس کے پاس مومن ہو کر آئے گا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہوں گے اس کے لئے بلند و بالا درجے ہیں ہمیشگی والی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہے۔
اس دور کے یہ سب سے بڑے جادوگر تھے لہذا فوراً اللہ سبحانہ و تعالی کے معجزات کو پہچان گئے اور سجدے میں گر گئے۔ جادوگر حق کو پہچاننے کے بعد اس پر ڈٹ گئے۔ انھوں نے ایمان لانے اور سجدہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔ جب فرعون نے کہا:
قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ؕ (طہ: 71)
"میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے؟"
تو جادوگروں کا پُرعزم جواب تھا:
قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ (الاعراف:125)
"ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں!"
سبحان اللہ! اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے؟
ہمیں بھی اپنے لیے یہ سبق سیکھنا ہے کہ ہر بات پر سوچیں: "زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟"۔
جب حالات ہماری مرضی کے خلاف ہوں، جب ہمیں دنیا میں نقصان ہو جائے، جب خود کو مشکلات میں گھرا پائیں، جب حق پر ہونے کی سزا ملنے لگے، خود کو بے چینی اور غصے سے روکیں۔ ایک لمحے کے لیے رکیں اور خود سے پوچھیں:
اگر حالات مخالف ہو گئے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟
اگر دنیا میں نقصان ہو گیا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟
اگر کوئی کام نہیں ہوسکتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟
اگر زندگی میں رکاوٹ آ گئی ہے یا کوئی نقصان ملے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟
اکثر اوقات حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا! کیونکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے!
شیطان چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ کرتا ہے اور ہمیں بزدلی کی طرف لے جانا چاہتا ہے، مگر ہمیں بہادر بننا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونا بزدلی کی علامت ہے۔ لیکن یاد رکھیں
دنیا ختم ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ہم اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے!
یہ سوچ ہمیں بڑی سے بڑی آزمائش کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے، کیونکہ ایمان والے جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے سب سے مضبوط سہارا ہے۔ اللہ تعالی!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حضرت ھود علیہ السلام کی دعا:
اِنِّیۡ تَوَکَّلۡتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ ؕ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (ھود:56)
میں اللہ پر جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے بھروسہ رکھتا ہوں زمین پر جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے بیشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے۔
اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَفِیۡظٌ (ھود:57)
میرا پروردگار تو ہر چیز پر نگہبان ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ھود علیہ السلام کو اپنی نگرانی میں لے کر عذاب سے نجات یوں دیتا ہے:
وَ لَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّیۡنَا ہُوۡدًا وَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا ۚ وَ نَجَّیۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ (ھود:58)
اور جب ہمارا حکم عذاب آ پہنچا تو ہم نے ہود کو اور جو لوگ انکے ساتھ ایمان لائے تھے انکو اپنی مہربانی سے بچا لیا۔ اور انہیں عذاب شدید سے نجات دی۔
یہ دعا ہمیں سکھاتی ہیں "بھروسہ صرف اللہ پر"۔
مخالف سے الجھنے کی بجائے خود کو اپنے اللہ کے سپرد کر دو اور اللہ پر پورے یقین کے ساتھ بھروسہ کرو تو پھر اللہ تم کو اپنی رحمت میں لے لے گا۔ جیسے ھود علیہ السلام نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ نہ کوئی بحث کی، نہ کوئی بد دعا بلکہ خود کو اللہ کی نگرانی میں دے دیا تو پھر اللہ کافی ہو گیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (التحریم:11)
اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اسکے عمل سے نجات بخش اور ظالم لوگوں سے مجھ کو چھڑا لے۔
یہ حضرت آسیہ کی دعا تھی، ان کی خواہش تھی کہ وہ جنت میں جائیں اور وہاں ان کے پاس گھر ہو۔ اور اللہ سبحانہ و تعالی نے انھیں عطا فرما دیا۔
روایات میں آتا ہےجب فرعون کو پتا چلا کہ اس کی بیوی آسیہ (علیہ السلام) اللہ پر ایمان لے آئیں ہیں تو انتہائی غضب ناک ہوا۔ شدید ظلم کا نشانہ بنایا۔ تب حضرت آسیہ نے اللہ سے یہ دعا مانگی۔۔۔اور یہ دعا اللہ سبحانہ و تعالی نے قبول فرمائی اور وفات سے قبل انھیں جنت میں ان کے لیے تعمیر گھر دکھا دیا۔ اس پر وہ مسکرائیں۔ اور غصے سے بھرے ہوئے فرعونیوں نے انھیں ایک بھاری پتھر سے کچل دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لیکن اللہ نے اس سے پہلے ہی ان کی روح قبض کر لی اور رہتی دنیا تک انھیں مومنین کے لیے مثال بنا دیا۔
خواہشات، امیدیں کون نہیں رکھتا! آپ کسی بھی شخص سے پوچھیں اس کی کیا خواہش ہے؟ اکثریت سے یہ جواب ملے گا ڈھیر سارا روپیہ پیسہ، عالی شان گھر، بہت خوبصورت اور مہنگی گاڑی اور یہی مہنگا مہنگا دنیا کا ساز و سامان۔ ایسا ہی ہوتا ہے نا؟
ہم میں بہت کم لوگ ہوں گے جن کی خواہشات بہت اعلی ہوں گی۔ بہترین خواہشات اور اونچے درجے کی خواہشات۔ خواہشات کی ایک بہت بڑی فہرست ہو سکتی ہے۔ لیکن ان سب میں ،سب سے بڑی اور اہم خواہش کیا ہو سکتی ہے؟
''جنت''۔ خالص، پاک اور آراستہ کی ہوئی مومنین کے لیے!
آپ نے کبھی غیر مسلموں کو ٹوٹتے تارے کو دیکھ کر اپنی خواہش کی تکمیل کی دعا مانگتے ہوئےدیکھا ہو گا، یا سالگرہ پر جلائے جانے والی موم بتی کے سامنے خواہش پوری ہونے کی دعا مانگتے ہوئے۔ یا وہ بوتل سے نکلنے والا ایک جن جو کہتا ہے "میں تمہاری تین خواہشات پوری کروں گا"۔
لیکن الحمد للہ ثم الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں کسی ستارے یا موم بتی یا بوتل میں بند جن کی ضروت نہیں۔
بس ہمیں خود کو اللہ کے سپرد کرنا ہے، اس پر مکمل ایمان لانا ہے، نیک اعمال کی حد درجہ کوشش کرنی ہے اور اللہ کے غضب سے ڈرتے ہوئے اس کی رحمت کی امید رکھنی ہے۔
اللہ تعالی سورۃ ھود میں ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخۡبَتُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ ۙ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (ھود: 23)
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے۔ اور اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔ یہی صاحب جنت ہیں۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
ہم مسلمان جانتے ہیں کسی بھی چیز کا حصول صرف الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں۔ دل میں خواہش، زبان پر دعا اور اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی حد درجہ کوشش، یہ سب ضروری ہیں۔
جنت کا حصول سب سے بڑی خواہش ہے۔ کیا ہم سچ میں اس کی خواہش کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا اس کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں؟
رمضان کا مبارک مہینہ جنت کی خواہش کا بہترین موقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
جس نے رمضان کا روزہ ایمان و یقین کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھا، اس کے بھی پہلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے‘‘(صحیح البخاری، الصوم، حدیث1901)
رمضان تو رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے، آئیں اللہ سے اس کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ جنت اور اس میں ایک پیارے سے گھر کی خواہش اللہ سبحانہ و تعالی کے سامنے رکھتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کی جائز خواہشات پوری فرمائے۔ آمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
دعائیں صرف چند الفاظ یا اللہ سے بے مقصد درخواستیں نہیں ہیں۔ درحقیقت، دعا بذاتِ خود شفا اور ہماری امیدوں اور خوف کو سنبھالنے کا ایک ذریعہ ہے، قطع نظر اس بات سے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
کیا دوسرے لوگ آپ کی پریشانیوں اور خوشیوں کو پوری طرح محسوس کر سکتے ہیں؟ وہ آپ سے ہمدردی کا اظہار تو کر سکتے ہیں لیکن آپ کے درد، فکر اور خوشی کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے۔ دوست اور خاندان والے آپ کے لیے راحت اور تسلی کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی آپ کے دل کے اندر کی پریشانی اور درد کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ کبھی کبھار آپ اپنی پریشانیوں کو دوسروں سے چھپانا بھی چاہتے ہیں۔
یہ دعا ایسے تمام لوگوں سے مخاطب ہے جو اس طرح کی کمزوری اور تنہائی محسوس کرتے ہیں۔
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ تَعۡلَمُ مَا نُخۡفِیۡ وَ مَا نُعۡلِنُ ؕ وَ مَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ (ابراہیم:38)
اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ تو سب جانتا ہے اور اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔
یہ دعا ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے لوگوں تک سچائی پہنچانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن جواب میں انہیں آگ کے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔ یہی ابراہیم علیہ السلام تھے جنہیں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، کیونکہ انہوں نے ظلم کے خلاف حق بات کی تھی۔ یہی ابراہیم علیہ السلام تھے جنہیں ان کے اپنے والد نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ ایک رب کی عبادت کی دعوت سے باز نہ آئے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ کے سوا کون تھا جو ان کے درد اور غم کا حقیقی معنوں میں جواب دیتا؟ کون تھا جو ان کے خدشات اور پریشانیوں کو سمجھتا؟ کوئی نہیں۔ اللہ کے سوا کون تھا جو انہیں ایک ایسی زندگی بدل دینے والی نعمت عطا کرتا اور انہیں تسلی دیتا کہ اگر آپ کی قوم نے کفر کیا ہے تو میں آپ کو ایسی اولاد دوں گا جو ایمان لائے گی؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں۔
زندگی میں ایسے لمحات آسکتے ہیں جب ہمارے قریبی عزیز اور دوست ہماری مشکلات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔
لیکن جس نے ہماری جانوں اور جسموں کو پیدا کیا، وہی ہمارے جذبات، احساسات اور پریشانیوں کی گہرائیوں کو مکمل طور پر جانتا ہے۔ ہمیں اسی کی طرف رجوع کرنا ہے، اسی کی طرف دوڑنا ہے۔ اس دعا کو آپ کے لیے تسلی کا باعث بننے دیں اور آپ کو یاد دلانے دیں کہ آپ زندگی میں کسی بھی مشکل کا سامنا کر رہے ہوں، وہ (اللہ سبحانہ وتعالیٰ) ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا ہے۔ وہی واحد ذات ہے جو آپ کو تسلی اور اطمینان دے سکتی ہے۔ اس دعا کو اپنی شفا بنائیں۔
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ تَعۡلَمُ مَا نُخۡفِیۡ وَ مَا نُعۡلِنُ ؕ وَ مَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ
اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ تو سب جانتا ہے اور اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (سورۃ المائدۃ: 114)
اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رزق دینے والا ہے۔
یہ آیت صرف ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ دعا ہمیں روزمرہ زندگی میں بہت سارے قیمتی اسباق دیتی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی سے مائدہ (دسترخوان) نازل فرمانے کی دعا کی۔ ہمیں بھی، جب کوئی بھی مشکل درپیش ہو، خواہ مال کی تنگی، بیماری یا کو بھی پریشانی ہو تو براہ راست اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرنی چاہیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یہ مائدہ "عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا" یعنی سب کے لیے خوشی کا ذریعہ بنے، چاہے وہ پہلے لوگ ہوں یا بعد کے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس دعا میں سب کو شریک کیا۔ سب کے لیے خوشی کا باعث بننے کی دعا کی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی نعمتیں، اپنی خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹیں، خاص طور پر غریبوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ۔ اپنی خوشیوں میں سب کو شامل کرنے کی کوشش کریں تاکہ برکت بڑھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ سبحانہ و تعالی کو "خیر الرازقین" یعنی "بہترین رزق دینے والا" کہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگرچہ ہم دنیا میں کماتے ہیں، محنت کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، لیکن دراصل رزق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کی ہے۔
آخر میں یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی قدرت سب سے بڑھ کر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی قدرت پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے دعا کی، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اللہ ہی فیصلہ فرمائے گا کہ یہ مائدہ نازل ہونا چاہیے یا نہیں۔ ہمیں بھی دعا کرنے کے بعد اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ اگر کبھی دعا قبول نہ ہو، تو یہ سمجھیں کہ اللہ کی حکمت میں ہمیشہ خیر ہی ہوتی ہے۔
اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ پر بھروسہ رکھیں، چاہے وہ رزق ہو، صحت ہو، یا کوئی اور پریشانی اور جو کچھ میسر ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حضرت یونس علیہ السلام کی دعا
لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ
"تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔" (سورۃ الأنبیاء:87)
قرآن میں مذکور ہر دعا بے حد خوبصورت، اہم اور پر اثر ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی یہ دعا سب سے جامع، مختصر اور پر اثر ہے۔
اس دعا میں ایسا کیا ہے؟
سب سے پہلے اس دعا میں اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدانیت کا اعتراف ہے۔ ہر دعا کی قبولیت کا سب سے اہم اصول اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدانیت کو تسلیم کرنا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام دعا کرتے ہیں:
لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ
(تیرے سوا کوئی معبود نہیں)
پھر اس دعا میں اللہ سبحانہ و تعالی کی پاکیزگی کا اعتراف ہے۔ یونس علیہ السلام نے فرمایا:
سُبْحَٰنَكَ
(تو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے)
اللہ سبحانہ و تعالی کو ہر عیب سے پاک مان کر سب مشکلات کو اللہ کی حکمت کے تحت قبول کر رہے ہیں۔
پھر حضرت یونس علیہ السلام نے کہا:
إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ
(میں ہی ظالموں میں سے ہوں)
یہ دعا عاجزی، انکساری اور استغفار کی بہترین مثال ہے۔
جب حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے، تو انہوں نے یہی دعا مانگی اور اللہ نے انہیں نجات عطا فرمائی۔
حدیث میں آتا ہے کہ جو بھی یہ دعا مانگے گا، اللہ اس کی پریشانی دور فرما دے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"یونس علیہ السلام کی دعا جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے، اگر کوئی مسلمان اس دعا کے ساتھ اپنے کسی معاملے میں دعا کرے، تو اللہ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔" (ترمذی، 3505)
اگر کوئی پریشانی یا آزمائش درپیش ہو، اگر خود پر گناہوں کا بوجھ بھاری محسوس ہونے لگے یا خود کو مشکل حالات میں گھرا ہوا پائیں تو اس دعا کو اپنا ہتھیاربنا کر دیکھیں۔ جیسے حضرت یونس علیہ السلام نے کیا۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو ایمان کو مضبوط کرتی ہے، اللہ سے تعلق قائم کرتی ہے، اور ہر مشکل حالات میں مددگار ثابت ہوتی ہے!
اللہ تعالی ہم سب کی تمام پریشانیاں دور فرمائے اور ہمیں دین اسلام پر ہدایت اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۝٢٥ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ۝٢٦ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ۝٢٧ يَفْقَهُوا قَوْلِي ۝٢٨(سورہ طہٰ: 25-28)
"اے میرے رب! میرے سینے کو کھول دے، اور میرے کام کو آسان کر دے، اور میری زبان کی گرہ کھول دے، تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔"
یہ دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس وقت مانگی جب انہیں فرعون کے دربار میں جا کر حق بات کہنے کی ذمہ داری دی گئی۔ یہ دعا محض ایک نبی کی درخواست نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی ضرورت ہے جو حق بات پہنچانے کے لیے کوشاں ہو، جو چاہتا ہو کہ اس کی بات اثر رکھے، دلوں میں اترے، اور لوگ اسے سمجھیں۔
جب کوئی بڑا کام درپیش ہو اور دل میں وسعت، اطمینان اور ہمت درکار ہو، مشکلات، خوف، اور پریشانیاں دل کو تنگ کرنے لگیں، جب سینہ تنگ ہونے لگے، جب فیصلے کرنا مشکل ہو جائیں تو رب سے التجا کریں:
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
(اے میرے رب! میرے سینے کو کھول دے)
اللہ تعالی سینہ بھی کھولے گا اور دل کو سکون، حوصلہ اور ہمت بھی عطا فرمائے گا:
أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ" (الزمر: 22)
جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا، وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہوتا ہے۔
بعض اوقات ہمیں اپنی ذمہ داریاں بہت بھاری محسوس ہوتی ہیں۔ اس لیے جب کوئی امتحان یا انٹرویو ہو، یا کوئی مشکل پروجیکٹ یا چیلنج درپیش ہو یہ دعا مانگیں:
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
(اور میرے کام کو آسان کر دے)
اللہ تعالی راستے آسان کر دے گا:
وَاللَّهُ يُسَهِّلُهُ لَكُمْ"
یعنی اللہ تمہارے لیے آسان کر دے گا۔(یوسف: 67)

رسالت کا مشن بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ ایک طرف فرعون جیسے ظالم بادشاہ سے گفتگو کرنی تھی اور دوسری جانب بنی اسرائیل کو بھی سمجھانا تھا۔ کبھی کبھی ہماری زندگی میں بھی ایسے واقعات آ جاتے ہیں جب کوئی اہم تقریر یا لیکچر دینا ہوتا ہے، کسی مشکل گفتگو میں بات کو واضح انداز میں بیان کرنا ہوتا ہے، کسی تنازعے میں حق بات بیان کرنی ہوتی ہے، مگر زبان ساتھ نہ دے۔ تو یہ دعا:
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
(اور میری زبان کی گرہ کھول دے)
اللہ تعالیٰ زبان کو سچائی اور اثر انگیزی سے مزین کر دے گا، تاکہ بات دلوں پر اثر کر سکے۔ جیسے ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا (الزخرف: 28)
اور ہم نے ان کے لیے سچی اور بلند مقام رکھنے والی زبان بنا دی۔
لوگوں تک صرف پہنچا دینا کافی نہیں، ضروری ہے کہ وہ بات سمجھیں اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے کہا:
يَفْقَهُوا قَوْلِي
(تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں)
تاکہ قوم ان کی بات سمجھ لے۔ لیکن اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے نبی اور مبلغ کا کام صرف واضح طریقے سے بات پہنچانا ہے (البلاغ المبین)۔ ہدایت دینا نبی کا کام نہیں، بلکہ اللہ کا کام ہے۔ اور پھر یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ (الشوریٰ: 48)
"تم پر صرف (پیغام) پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ البقرہ: 201)
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
یہ مختصر سی دعا معانی کی وسعت اور حکمت کی گہرائی میں بے مثال ہے۔ اگر ہم اسے دل سے سمجھ کر مانگیں تو زندگی کا ہر پہلو سنور سکتا ہے۔ اس دعا میں انسانی ضرورتوں کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی، دنیاوی ہو یا اخروی۔
یہ دعا "رَبَّنَا" سے شروع ہوتی ہے، جو اللہ کی ربوبیت اور پرورش کے اعتراف کا اعلان ہے۔ وہ ذات جو ہمیں عدم سے وجود میں لائی، جو ہر لمحہ ہماری ضروریات پوری کرتی ہے، جو ہمیں سنبھالتی اور ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ جب ہم "رَبَّنَا" کہتے ہیں، تو ہم ایک بچے کی مانند مکمل بھروسے کے ساتھ فریاد کرتے ہیں: ''اے ہمارے رب! ہمیں وہ عطا کر جو ہمارے حق میں بہتر ہو، جو ہمیں فتنوں سے بچائے اور ہمیں تیرے قریب لے آئے۔''
آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً۔۔۔ اس دعا میں "دنیا کی بھلائی" طلب کی گئی ہے، مگر یہاں "ہر چیز" نہیں بلکہ "وہی چیز" مراد ہے جو حقیقت میں ہمارے لیے "حسنہ" ہو، یعنی جو ہمارے لیے فائدہ مند اور بابرکت ہو، نہ کہ وہ جو ہمیں گمراہی میں ڈال دے یا ہمیں نقصان پہنچائے۔ ہم اس دعا کے ذریعے اللہ سے یہ قیمتی نعمتیں مانگتے ہیں:
ایمان کی سلامتی کہ دنیا کے فتنے ہمیں بہکانے نہ پائیں۔
رزقِ حلال جو آزمائش کے بجائے برکت کا ذریعہ ہو۔
اچھی صحت تاکہ ہم عبادت اور نیک اعمال میں سہولت پائیں۔
نیک شریکِ حیات جو ہمیں اللہ کے قریب کرے۔
نیک اولاد جو ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہو۔
عزت، امن، سکون اور قناعت جو حقیقی خوشحالی کی بنیاد ہے۔
دنیا کی ہر نعمت "حسنہ'' نہیں ہوتی، بلکہ وہی بھلائی مانگنی چاہیے جو اللہ کے نزدیک ہمارے حق میں بہتر ہو، کیونکہ بعض چیزیں بظاہر اچھی لگتی ہیں لیکن وہ آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔
وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً۔۔۔۔ اگر ہم نے صرف دنیا کی بھلائی مانگ لی اور آخرت کو بھول گئے، تو سب کچھ بے معنی ہو جائے گا، کیونکہ اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔ آخرت کی بھلائی کیا ہے؟
اللہ کی رضا کہ ہمیں اس کی محبت اور قرب نصیب ہو۔
قبر کی راحت کیونکہ وہ آخرت کی پہلی منزل ہے۔
آسان حساب کہ قیامت کے دن ہمارا حساب سخت نہ ہو۔
جنت کی لازوال نعمتیں جہاں کوئی خوف اور پریشانی نہ ہو۔
حوضِ کوثر کا پانی کہ جس کے بعد کبھی پیاس نہ لگے۔
رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کہ جنت میں ہمیں ان کے قریب جگہ ملے۔
دنیاوی کامیابی، دولت، شہرت، اور اقتدار صرف اسی وقت مفید ہے جب یہ آخرت کی بھلائی کا ذریعہ بنے، ورنہ یہ سب کچھ دھوکہ ہے۔
وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔۔۔۔ یہ دعا کا سب سے اہم حصہ ہے، کیونکہ اگر کسی کو دنیا کی بھلائی بھی مل جائے اور آخرت میں کچھ نہ ملے تو وہ خسارے میں ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ صحابہ کرامؓ کو جہنم سے پناہ مانگنے کی تاکید فرماتے تھے۔ قرآن میں جہنم کی ہولناکی ایسی بیان کی گئی ہے کہ اگر ہم اس کی شدت کو سمجھ لیں تو ہم کبھی بھی اللہ سے اس سے بچنے کی دعا مانگنا نہ بھولیں۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ یہی دعا پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
اے اللہ! ہمیں دنیا میں وہی بھلائی عطا کر جو ہمارے لیے واقعی بہتر ہو، آخرت میں اپنی بے پایاں رحمت سے نواز، اور ہمیں ہر اس چیز سے محفوظ رکھ جو ہمیں تیرے غضب اور جہنم کی طرف لے جائے۔ یا اللہ! ہمیں اپنی رضا عطا کر دے، کیونکہ یہی سب سے بڑی بھلائی ہے! آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواۖ وَٱغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَآ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ (الممتحنۃ: 5)
یہ آیت ایک سادہ مگر گہری دعا پر مشتمل ہے، جو نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی فتنے سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ یہ دعا ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روشناس کراتی ہے جو ہماری عملی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ م
آیت کا پہلا حصہ ہے:
رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا
"فتنہ" کا مطلب صرف آزمائش نہیں بلکہ ایسا سبب بن جانا جو کسی کو گمراہی میں ڈال دے یا اس کے دل میں اسلام کے خلاف کوئی غلط فہمی پیدا کر دے۔
اس دعا کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمان ذلت، کمزوری اور شکست کا شکار ہو جائیں، تو کفار اسلام کو کمزور سمجھ سکتے ہیں۔ جب مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کو ستایا اور وہ بے یار و مددگار دکھائی دیے، تو کئی کفار نے کہا: "اگر ان کا دین سچا ہوتا، تو یہ کمزور کیوں ہوتے؟" یوں مسلمان خود ان کے لیے ایک آزمائش بن گئے۔
اس دعا کا باطنی پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمان اخلاقی یا عملی طور پر کمزور ہو جائیں، جھوٹ بولیں، خیانت کریں، ظلم کریں تو لوگ اسلام کو ان کے اعمال کی روشنی میں جانچیں گے۔ ایک مسلمان کا کردار دین کی سچی تصویر ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے اعمال ہی دوسروں کو اسلام کی طرف مائل یا اس سے دور کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص خود کو دیندار کہے، مگر دوسروں کے ساتھ برا سلوک کرے، تو اس کا طرزِ عمل دوسروں کو دین سے بدظن کر سکتا ہے۔
ہمارے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے۔ ہم اپنی زندگی میں کتنی بار اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہم اپنے دین کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے عمل لوگوں کو اسلام کی طرف لا رہے ہیں، یا دور کر رہے ہیں؟
پھر فرمان ہے:
وَٱغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَآ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنے سے بچنے کی دعا کے ساتھ مغفرت کیوں مانگی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر فتنے صرف خارجی عوامل کی بنا پر نہیں آتے، بلکہ خود ہماری کوتاہیاں بھی ان کا سبب بن سکتی ہیں۔
مثلاً: اگر میں اپنے رویے میں سختی کروں، تو کوئی مجھ سے بدظن ہو کر دین سے دور ہو سکتا ہے۔ اگر میں وعدہ خلافی کروں، تو لوگ کہیں گے کہ مسلمان وعدے کے پابند نہیں ہوتے۔ اگر میں اسلامی تعلیمات پر صحیح عمل نہ کروں، تو میرے عمل سے کسی کے دل میں اسلام کے خلاف بدگمانی پیدا ہو سکتی ہے۔
اس لیے مغفرت کی دعا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صرف باہر کی مشکلات کا حل کافی نہیں، بلکہ ہمیں اندرونی کمزوریوں پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔
پھر ارشاد ہے:
إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
یہاں دو اہم صفات کا ذکر کیا گیا:
العزیز (زبردست، غالب) یعنی اللہ ہی ہمیں ذلت اور آزمائش سے نکال سکتا ہے۔
الحکیم (حکمت والا) یعنی جو کچھ بھی ہوتا ہے، اللہ کی حکمت کے تحت ہوتا ہے، چاہے وہ ہمیں اچھا لگے یا برا۔
ان دو صفات کا ذکر ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم آزمائش میں پڑیں، تو اللہ کی عزت اور قدرت پر بھروسا رکھیں کہ وہی نکال سکتا ہے۔ اگر کوئی مشکل آئے، تو اللہ کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ شاید اس میں ہمارے لیے کوئی بہتری چھپی ہو۔
یہ آیت محض ایک دعا نہیں بلکہ ایک طرزِ فکر ہے، جو ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہمیں ہمارے عمل، اخلاق اور رویے پر غور کرنے کا موقع دیتی ہے:
کیا میرے الفاظ اور رویے لوگوں کو دین کے قریب کر رہے ہیں؟
کیا میں دین کی سچی تصویر پیش کر رہی ہوں یا میری غلطیوں سے کوئی بدظن ہو سکتا ہے؟
کیا میری زندگی اللہ کی رضا کے مطابق ہے؟
یہ آیت درحقیقت ہماری ذمہ داریوں کی یاد دہانی ہے کہ ہم اسلام کے صرف پیروکار نہیں، بلکہ اس کے سفیر بھی ہیں۔ یہ دعا ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اپنے کردار کو اسلام کی سچی تصویر بنائیں۔ ہمارا ہر عمل، ہر رویہ لوگوں کے سامنے اسلام کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم دوسروں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کر رہے ہیں یا بدگمانی؟
آخر میں یہی دعا ہے کہ الٰہی! ہمیں ایسا مسلمان بنا دے جو تیرے دین کی سچی تصویر پیش کریں۔ ہمیں ایسا اخلاق اور کردار عطا کر کہ لوگ ہمیں دیکھ کر تیرے قریب ہو جائیں، نہ کہ ہم سے بدظن ہو کر تیرے دین سے دور ہو جائیں۔
اے عزیز و حکیم رب! ہمیں ذلت اور فتنے سے محفوظ فرما، ہمیں مغفرت عطا کر، اور ہمیں اپنی حکمت کے مطابق آزمائشوں میں ثابت قدم رکھ۔
اے اللہ! ہمیں اس دعا کا سچا مصداق بنا دے:
رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواۖ وَٱغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَآ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
 
Top