حدیث شریف میں ہے کہ سب سے کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں جبکہ ہمارے ذہنوں میں یہ ہے کہ جو زیادہ عبادت کرتا ہے، زیادہ حج اور عمرہ کرتا ہے، زیادہ تسبیح وظیفے پڑھتا ہے اس کا ایمان کامل ہے مگر سرورِ عالم صلی اﷲعلیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اس کا ایمان سب سے زیادہ اعلیٰ اوراکمل ہوتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق نہ ہونے کی وجہ سے کم گھرانے ہیں جو سکون سے رہتے ہیں ورنہ کہیں شوہر کی طرف سے زیادتی ہے تو کہیں بیگم کی طرف سے زیادتی ہے جو شوہر کو بے غم نہیں رکھتی، اس کا نام تو بیگم ہے مگراپنے شوہر کو بے غم رکھنا نہیں جانتی۔ اس لیے آج آپ جو کچھ سنیں وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور بیویوں کو بھی سنائیں۔
عورتوں پر شوہر کے حقوق
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اﷲعلیہ نے بہشتی زیور حصہ نمبر چار میں ”شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ“ میں سرورِ عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات تحریر فرمائے ہیں کہ عورتوں کو شوہر کے ساتھ کس طرح رہنا چاہیے۔ اگر بیویاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر عمل کریں تو شوہر ان پر مہربان ہوجائے گا۔ ان ارشادات کو بار بار اپنے گھروں میں بھی سنائیے، ان شاءاﷲتعالیٰ ان کی برکت سے میاں بیوی میں نہایت ہی محبت اور اُلفت کا تعلق قائم ہوجائے گا اور احقر کے تین مواعظ ہیں ”خوشگوار ازدواجی زندگی“، ”حقوق النسائ“ اور ”حقوق الرجال“ ان کو بھی پڑھئے لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ سے محبت کرے، اکرام سے رہے، شرارت نہ کرے تو خوشگوار ازدواجی زندگی اور حقوق النساءپڑھئے اور اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میری بیٹی اپنے شوہر کے حقوق صحیح ادا کرے تو اس کو حقوق الرجال پڑھائیے۔
شوہر اور بیوی میں مساوات کا مسئلہ کم عقلی کی دلیل ہے
فرمایا کہ آج کل عورتوں میں مساوات کا مسئلہ چل رہا ہے کہ ہم شوہر سے کم نہیں ہیں، آپ بتائیے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تو یہ ارشاد ہے کہ خدا کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کے لیے کہتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، یہ مساوات ہے؟ اگر مرد اپنی بیوی کو حکم دے کہ ایک پہاڑ کے پتھر کو اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر لے جائے اور دوسرے پہاڑ کے پتھر کو تیسرے پہاڑ پر لے جائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے اچھی بیوی وہ ہے کہ جب اس کا میاں اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور جب کچھ کہے تو اس کا کہا مان لے اور اپنے جان اور مال میں شوہر کے خلاف ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے اس کو ناگواری ہو، بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور نفل نماز بھی نہ پڑھے، ہوسکتا ہے اس کو کوئی ضرورت پیش آجائے۔ اب بتائیں یہ مساوات ہے؟ بیوی شوہر کے برابر ہے؟ یہ تکبر ہے اور اس کی وجہ کم عقلی ہے۔
بہشتی زیور میں یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی کام شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کرو، شوہر اگر دن کو رات بتلا دے توتم دن کو رات کہنے لگو، اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد بہشتی زیور کے حاشیہ میں لکھا ہو ا ہے یعنی اس کی انتہائی فرماں برداری کرو۔
سسرال سے نباہ کرنے کا طریقہ
حضرت حکیم الامت لکھتے ہیں کہ جب تک ساس سسر زندہ ہیں بہو کو چاہیے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت اور تابعداری کو فرض سمجھے اور اس میں اپنی عزت سمجھے، ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرے کہ ساس نندوں سے بگاڑ ہونے کی یہی جڑہے۔ خود سوچو کہ بچے کو ماں باپ نے پال پوس کر جوان کیا، اب جہاں میاں جوان ہوئے بیوی صاحبہ آتے ہی بوڑھے ماں باپ سے اس کو الگ کرنے کی سازش شروع کردیتی ہے حالانکہ ماں باپ اس امید پر شادی کرتے ہیں کہ ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، بہو آئے گی تو ہمیں ایک گلاس پانی دے گی، کچھ پکا کر کھلائے گی لیکن وہاں معاملہ اُلٹا ہوتا ہے، جب بہو آئی تو ڈولے سے اُترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دے، پھر جب ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھڑا رہی ہے تو فساد شروع ہو جاتا ہے اور پھر بہو شکایت کرتی ہے کہ ساس بڑی ظالم ہے۔ ذرا خود بھی تو سوچو کہ تمہاری بھی کوئی زیادتی ہے یا نہیں؟ جب تمہارا بیٹا جوان ہوگا، تمہاری بہو آئے گی اور تمہارے بیٹے کو تمہارا مخالف بنائے گی تب پتہ چلے گا لہٰذا آج اپنے بڑوں کا ادب کرلو کل ہماری بیویاں بھی ساس بنیں گی یا نہیں پھر جتنا ادب اپنے ساس سسر کا کرے گی اتنا ہی ادب اﷲ تعالیٰ ان کی بہو سے کرائے گا۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے اور راوی بھی حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے، جو جوانی میں اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے جب یہ جوان بڈھا ہوگا اور اس کے چھوٹے جوان ہوں گے تو وہ اس کا ادب کریں گے کیونکہ اس نے اپنے بڑوں کا ادب کیا تھا۔
بڑوں کا ادب کرنے پر دو انعامات کی بشارت
محدثین لکھتے ہیں کہ بڑے بوڑھوں کا ادب کرنے پر دوانعام ملتے ہیں، نمبر۱۔ زندگی بڑھ جائے گی کیونکہ جب یہ بڈھا ہوگا تب اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت میں یہ علم موجود ہے کہ یہ بوڑھا ہوگا، تو جس کو شوق ہو کہ بوڑھاہو کر مرے وہ اپنے بڑے بوڑھوں کا ادب کرے، اگر چاہتا ہے کہ میری زندگی میں خدا برکت دے، مجھے جوانی میں موت نہ آئے تو اپنے بڑے بوڑھوں کا ادب کرے اور دوسرا انعام یہ ہے کہ جب یہ بوڑھا ہوگا تو اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے تو جو شخص اپنے چھوٹوں سے عزت چاہتا ہو وہ اپنے بڑے بوڑھوں کا، ماں باپ کا، اساتذہ کا،شیخ کا غرض کوئی بھی اپنی عمر سے بڑا ہو اُس کا ادب کرے اور اگر کسی بڑے کو نصیحت بھی کرنی ہے تو ادب سے نصیحت کرویہ نہیں کہ غصہ سے چڑھ دوڑے کہ آپ نے سنت کے خلاف وضو کیا ہے، آپ کو وضو کرنا بھی نہیں آتا، اب صاحب زادے بیس سال کے ہیں اور جو وضو کررہا ہے وہ ساٹھ ستر سال کا ہے، چھوٹے مولوی صاحب جو ابھی مدرسہ سے نکل کر آئے ہیں اس کو ڈانٹ لگا رہے ہیں۔ اسی لیے شیخ عبد القادر جیلانی بڑے پیر صاحب رحمة اﷲعلیہ نے فرمایا کہ مولوی کو چاہیے کہ مدرسہ سے نکل کر فوراً مسجد کے منبر پر نہ بیٹھے، کچھ دن اﷲ والوں کی صحبت میں رہے اور نفس کو مٹا کر ادب اور انسانیت اور اخلاص سیکھے پھر وہ نصیحت کرنے کے قابل ہوتاہے۔
تو حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اپنے بڑوں کا ادب کرے گا تو جب یہ بوڑھا ہوگا تو اس کے چھوٹے اس کی عزت کریں گے۔ تو بڑوں کی عزت کرنے سے دو نعمتیں ملیں، عمر میں برکت اور چھوٹوں سے عزت، اور بڑوں کو بھی چاہیے کہ اپنے چھوٹوں پر رحم کریں، یہ حدیث کا جز ہے، پہلے مقدم ہے:
مَن لَّم یَرحَم صَغِیرَنَا وَ لَم یُوَقِّر کَبِیرَنَا
جو اپنے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتا، یہاں چھوٹوں پر رحم کرنا پہلے ہے تو ہم لوگوں پر بھی لازم ہے کہ اپنے چھوٹوں کو پیار دیں، محبت پیش کریں، اور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وَمَن لَّم یُبَجِّل عَالِمِینَا فَلَیسَ مِنَّا (سنن الترمذی، کتاب البر والصلة،ج:۴،ص:۲۲۳، دار احیاءالتراث العربی) جو اپنے علماءکی عزت نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
بار بار عرض کرتا ہوں کہ جب تقریر ہورہی ہو تو ادھر ادھر مت دیکھو مقررکی طرف دیکھو ورنہ آپ کی آنکھیں اِدھر اور کان اُدھر ہوں گے۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمة اﷲعلیہ ایک شعر پڑھا کرتے تھے
قدم سوئے مرقد نظر سوئے دنیا
کہاں جارہا ہے کدھر دیکھتا ہے
لہٰذا اِدھر اُدھر مت دیکھو، کوئی آتا ہے آنے دو، کوئی جاتا ہے جانے دو
کوئی مرتا کوئی جیتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
دنیا میں سب کچھ ہوگا، موت ہوگی، پیدائش ہوگی، غمی ہوگی، خوشی ہوگی لیکن ہمارا کام اپنے مالک کو راضی رکھنا ہے، جو اپنے مالک کو راضی رکھے وہ بالکل بے فکری سے سوئے، اس کو خوش رکھنا اﷲ کے ذمہ ہے، جو غلام اپنے مالک کو خوش رکھتا ہے مالک کی ذمہ داری ہے کہ اس غلام کی خوشی کا انتظام کرے، اس غلام کو اپنی فکر ہی بھول جانی چاہیے، ہماری فکر بس اتنی ہو کہ ہم اپنے مالک کو ناراض نہ کریں، اپنے مالک کو خوش رکھو کہ ہم سے کوئی خطا تو نہیں ہورہی، کہیں آنکھیں بغاوت تو نہیں کررہیں، کان بغاوت تو نہیں کررہے، دل میں خبیث خیالات تو نہیں آرہے، اﷲ کی مخلوق کے ساتھ بد اخلاقی کے تصورات تو نہیں آرہے ہیں، سوچ لو کوئی دوست اپنے دوست کی اولاد کے بارے میں گندے خیالات لا رہا ہو تو کیا وہ ایسے شخص کو اپنا دوست بنائے گا؟ تو اﷲ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو ولایت سے محروم رکھتے ہیں جو قصداً کمینہ پن اختیار کرتا ہے، بلا ارادہ برا خیال آجائے تو توبہ کرلو۔
عورتوں پر شوہر کے حقوق
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اﷲعلیہ نے بہشتی زیور حصہ نمبر چار میں ”شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ“ میں سرورِ عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات تحریر فرمائے ہیں کہ عورتوں کو شوہر کے ساتھ کس طرح رہنا چاہیے۔ اگر بیویاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر عمل کریں تو شوہر ان پر مہربان ہوجائے گا۔ ان ارشادات کو بار بار اپنے گھروں میں بھی سنائیے، ان شاءاﷲتعالیٰ ان کی برکت سے میاں بیوی میں نہایت ہی محبت اور اُلفت کا تعلق قائم ہوجائے گا اور احقر کے تین مواعظ ہیں ”خوشگوار ازدواجی زندگی“، ”حقوق النسائ“ اور ”حقوق الرجال“ ان کو بھی پڑھئے لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ سے محبت کرے، اکرام سے رہے، شرارت نہ کرے تو خوشگوار ازدواجی زندگی اور حقوق النساءپڑھئے اور اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میری بیٹی اپنے شوہر کے حقوق صحیح ادا کرے تو اس کو حقوق الرجال پڑھائیے۔
شوہر اور بیوی میں مساوات کا مسئلہ کم عقلی کی دلیل ہے
فرمایا کہ آج کل عورتوں میں مساوات کا مسئلہ چل رہا ہے کہ ہم شوہر سے کم نہیں ہیں، آپ بتائیے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تو یہ ارشاد ہے کہ خدا کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کے لیے کہتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، یہ مساوات ہے؟ اگر مرد اپنی بیوی کو حکم دے کہ ایک پہاڑ کے پتھر کو اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر لے جائے اور دوسرے پہاڑ کے پتھر کو تیسرے پہاڑ پر لے جائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے اچھی بیوی وہ ہے کہ جب اس کا میاں اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور جب کچھ کہے تو اس کا کہا مان لے اور اپنے جان اور مال میں شوہر کے خلاف ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے اس کو ناگواری ہو، بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور نفل نماز بھی نہ پڑھے، ہوسکتا ہے اس کو کوئی ضرورت پیش آجائے۔ اب بتائیں یہ مساوات ہے؟ بیوی شوہر کے برابر ہے؟ یہ تکبر ہے اور اس کی وجہ کم عقلی ہے۔
بہشتی زیور میں یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی کام شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کرو، شوہر اگر دن کو رات بتلا دے توتم دن کو رات کہنے لگو، اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد بہشتی زیور کے حاشیہ میں لکھا ہو ا ہے یعنی اس کی انتہائی فرماں برداری کرو۔
سسرال سے نباہ کرنے کا طریقہ
حضرت حکیم الامت لکھتے ہیں کہ جب تک ساس سسر زندہ ہیں بہو کو چاہیے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت اور تابعداری کو فرض سمجھے اور اس میں اپنی عزت سمجھے، ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرے کہ ساس نندوں سے بگاڑ ہونے کی یہی جڑہے۔ خود سوچو کہ بچے کو ماں باپ نے پال پوس کر جوان کیا، اب جہاں میاں جوان ہوئے بیوی صاحبہ آتے ہی بوڑھے ماں باپ سے اس کو الگ کرنے کی سازش شروع کردیتی ہے حالانکہ ماں باپ اس امید پر شادی کرتے ہیں کہ ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، بہو آئے گی تو ہمیں ایک گلاس پانی دے گی، کچھ پکا کر کھلائے گی لیکن وہاں معاملہ اُلٹا ہوتا ہے، جب بہو آئی تو ڈولے سے اُترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دے، پھر جب ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھڑا رہی ہے تو فساد شروع ہو جاتا ہے اور پھر بہو شکایت کرتی ہے کہ ساس بڑی ظالم ہے۔ ذرا خود بھی تو سوچو کہ تمہاری بھی کوئی زیادتی ہے یا نہیں؟ جب تمہارا بیٹا جوان ہوگا، تمہاری بہو آئے گی اور تمہارے بیٹے کو تمہارا مخالف بنائے گی تب پتہ چلے گا لہٰذا آج اپنے بڑوں کا ادب کرلو کل ہماری بیویاں بھی ساس بنیں گی یا نہیں پھر جتنا ادب اپنے ساس سسر کا کرے گی اتنا ہی ادب اﷲ تعالیٰ ان کی بہو سے کرائے گا۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے اور راوی بھی حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے، جو جوانی میں اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے جب یہ جوان بڈھا ہوگا اور اس کے چھوٹے جوان ہوں گے تو وہ اس کا ادب کریں گے کیونکہ اس نے اپنے بڑوں کا ادب کیا تھا۔
بڑوں کا ادب کرنے پر دو انعامات کی بشارت
محدثین لکھتے ہیں کہ بڑے بوڑھوں کا ادب کرنے پر دوانعام ملتے ہیں، نمبر۱۔ زندگی بڑھ جائے گی کیونکہ جب یہ بڈھا ہوگا تب اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت میں یہ علم موجود ہے کہ یہ بوڑھا ہوگا، تو جس کو شوق ہو کہ بوڑھاہو کر مرے وہ اپنے بڑے بوڑھوں کا ادب کرے، اگر چاہتا ہے کہ میری زندگی میں خدا برکت دے، مجھے جوانی میں موت نہ آئے تو اپنے بڑے بوڑھوں کا ادب کرے اور دوسرا انعام یہ ہے کہ جب یہ بوڑھا ہوگا تو اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے تو جو شخص اپنے چھوٹوں سے عزت چاہتا ہو وہ اپنے بڑے بوڑھوں کا، ماں باپ کا، اساتذہ کا،شیخ کا غرض کوئی بھی اپنی عمر سے بڑا ہو اُس کا ادب کرے اور اگر کسی بڑے کو نصیحت بھی کرنی ہے تو ادب سے نصیحت کرویہ نہیں کہ غصہ سے چڑھ دوڑے کہ آپ نے سنت کے خلاف وضو کیا ہے، آپ کو وضو کرنا بھی نہیں آتا، اب صاحب زادے بیس سال کے ہیں اور جو وضو کررہا ہے وہ ساٹھ ستر سال کا ہے، چھوٹے مولوی صاحب جو ابھی مدرسہ سے نکل کر آئے ہیں اس کو ڈانٹ لگا رہے ہیں۔ اسی لیے شیخ عبد القادر جیلانی بڑے پیر صاحب رحمة اﷲعلیہ نے فرمایا کہ مولوی کو چاہیے کہ مدرسہ سے نکل کر فوراً مسجد کے منبر پر نہ بیٹھے، کچھ دن اﷲ والوں کی صحبت میں رہے اور نفس کو مٹا کر ادب اور انسانیت اور اخلاص سیکھے پھر وہ نصیحت کرنے کے قابل ہوتاہے۔
تو حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اپنے بڑوں کا ادب کرے گا تو جب یہ بوڑھا ہوگا تو اس کے چھوٹے اس کی عزت کریں گے۔ تو بڑوں کی عزت کرنے سے دو نعمتیں ملیں، عمر میں برکت اور چھوٹوں سے عزت، اور بڑوں کو بھی چاہیے کہ اپنے چھوٹوں پر رحم کریں، یہ حدیث کا جز ہے، پہلے مقدم ہے:
مَن لَّم یَرحَم صَغِیرَنَا وَ لَم یُوَقِّر کَبِیرَنَا
جو اپنے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتا، یہاں چھوٹوں پر رحم کرنا پہلے ہے تو ہم لوگوں پر بھی لازم ہے کہ اپنے چھوٹوں کو پیار دیں، محبت پیش کریں، اور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وَمَن لَّم یُبَجِّل عَالِمِینَا فَلَیسَ مِنَّا (سنن الترمذی، کتاب البر والصلة،ج:۴،ص:۲۲۳، دار احیاءالتراث العربی) جو اپنے علماءکی عزت نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
بار بار عرض کرتا ہوں کہ جب تقریر ہورہی ہو تو ادھر ادھر مت دیکھو مقررکی طرف دیکھو ورنہ آپ کی آنکھیں اِدھر اور کان اُدھر ہوں گے۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمة اﷲعلیہ ایک شعر پڑھا کرتے تھے
قدم سوئے مرقد نظر سوئے دنیا
کہاں جارہا ہے کدھر دیکھتا ہے
لہٰذا اِدھر اُدھر مت دیکھو، کوئی آتا ہے آنے دو، کوئی جاتا ہے جانے دو
کوئی مرتا کوئی جیتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
دنیا میں سب کچھ ہوگا، موت ہوگی، پیدائش ہوگی، غمی ہوگی، خوشی ہوگی لیکن ہمارا کام اپنے مالک کو راضی رکھنا ہے، جو اپنے مالک کو راضی رکھے وہ بالکل بے فکری سے سوئے، اس کو خوش رکھنا اﷲ کے ذمہ ہے، جو غلام اپنے مالک کو خوش رکھتا ہے مالک کی ذمہ داری ہے کہ اس غلام کی خوشی کا انتظام کرے، اس غلام کو اپنی فکر ہی بھول جانی چاہیے، ہماری فکر بس اتنی ہو کہ ہم اپنے مالک کو ناراض نہ کریں، اپنے مالک کو خوش رکھو کہ ہم سے کوئی خطا تو نہیں ہورہی، کہیں آنکھیں بغاوت تو نہیں کررہیں، کان بغاوت تو نہیں کررہے، دل میں خبیث خیالات تو نہیں آرہے، اﷲ کی مخلوق کے ساتھ بد اخلاقی کے تصورات تو نہیں آرہے ہیں، سوچ لو کوئی دوست اپنے دوست کی اولاد کے بارے میں گندے خیالات لا رہا ہو تو کیا وہ ایسے شخص کو اپنا دوست بنائے گا؟ تو اﷲ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو ولایت سے محروم رکھتے ہیں جو قصداً کمینہ پن اختیار کرتا ہے، بلا ارادہ برا خیال آجائے تو توبہ کرلو۔