علامہ عبدالعزیز فرہاروی حنفی (م۱۲۳۹ھ)
برصغیر کے معروف عالم ومصنف علامہ عبدالعزیز فرہاروی حنفی یزید پر لعنت کو غلط فعل قراردیتے ہیں کہ لعن یزید سے روکنے والے اہل سنت کو خارجی قراردینا قواعد شریعت کے منافی ہے :
لا یجوز لعن کل شخص بفعلہ فاحط ہذا ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع ویحکمون بأن من نہی عن لعن یزید فہو من الخوارج۔
ترجمہ: کسی شخص کو اس کے کسی فعل کی بنا ء پر لعنت ملامت کرنا جائز نہیں۔ پس اس بات کو یاد رکھو اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جو قواعد شریعت کا لحاظ نہیں کرتے اور ہر اس شخص پر خارجی ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں جویزید کو لعن طعن کرنے سے روکتا ہے ۔ (النبراس، شرح العقائد، ص۳۳۲)
قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ (م۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء):
حدیث صحیح ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے ، اگر وہ شخص قابل لعن ہے تو لعن اس پر پڑتی ہے ورنہ لعنت کرنے وا لے پر رجوع کرتی ہے۔ پس جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہوجائے، اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہرچند موجب لعن کے ہیں ،مگر جس کو محقق اخبار اور قرائن سے معلوم ہوگیا کہ وہ ان مفاسد سے راضی وخوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مرگیا تو وہ لعن کے جواز کے قائل ہیں اور مسئلہ یوں ہی ہے ۔
اور جو علماء اس میں تردد رکھتے ہیں کہ اوّل میں وہ مومن تھا۔ اس کے بعد ان افعال کا وہ مرتکب تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا، تحقیق نہیں ہوا۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں۔ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے ۔
پس جواز لعن اور عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے ۔ کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حر ج نہیں لعن، نہ فرض ہے ، نہ واجب ، نہ سنت محض مباح ہے اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (رشید احمد )]مولانا رشیداحمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، کتاب ایمان اور کفر کے مسائل ، ص ۳۵۰[
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (م ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۸ء ):
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی یزید کے بارے میں فرماتے ہیں یزید کو متعددمعارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بحر ابیض اور بلادہائے ایشیائے کوچک کے فتح کرنے حتیٰ کہ خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بری افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آزمایا جاچکا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ خود یزید کے متعلق بھی تاریخی روایات مبالغہ اور آپس کے تخالف سے خالی نہیں۔
(مکتوبات شیخ الاسلام حسین احمدمدنی، جلد اوّل ، ص ۲۴۲۔۲۵۲، ببعد)
مولانامفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری (مہاجر مدنی )رحمتہ اللہ علیہ
(خلیفۂ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمتہ اللہ علیہ)
بہت سے لوگ روافض سے متاثرہوکر یزید پر لعنت کرتے ہیں۔بھلا اہل سنت کو روافض سے متاثرہونے کی کیا ضرورت؟ان کو اسلامی اصول پرچلنا چاہیے۔روافض کے مذہب کی توبنیاد ہی اس پر ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہیں اور یزیداور اس کے لشکر پر لعنت کریں ‘قرآن کی تحریف کے قائل ہوں اور متعہ کیاکریں ۔اور جب اہل سنت میں پھنس جائیں تو تقیہ کے داؤ پیچ کواستعمال کرکے اپنے عقیدہ کے خلاف سب کچھ کہہ دیں ۔بھلا اہل سنت ان کی کیا ریس کرسکتے ہیں۔اہل سنت اپنے اصول پر قائم رہیں جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اسے ثابت ہیں۔ان ہی اصول میں سے یہ ہے کہ لعنت صرف اس پر کی جاسکتی ہے جس کاکفر پر مرنا یقینی ہو۔یزید اور اس کے اعوان وانصار کاکفر پر مرنا کیسے یقینی ہوگیا جس کی وجہ سے لعنت جائز ہوجائے ؟
حضرت امام غزالی نے احیا ء العلوم میں اوّل یہ سوال اٹھایا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے یا نہیں؟اس کی وجہ سے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاقاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا ہے ۔پھر اس کا جواب دیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کاحکم دیا یہ بالکل ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا یزید پر لعنت کرنا تودرکنار یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مسلمان کوگناہِ کبیرہ کی طرف بغیر تحقیق کے منسوب کرنا جائز نہیں۔نیزامام غزالی نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مخصوص کرکے یعنی نام لے کر افراد واشخاص پر لعنت کرنا بڑا خطرہ ہے ۔اس سے پرہیز لازم ہے اور جس پر لعنت کرنا جائز ہو ‘اس پر لعنت کرنے سے سکوت اختیار کرنا کوئی گناہ اور مؤاخذہ کی چیز نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص ابلیس پر لعنت نہ کرے ‘اس میں کوئی خطرہ نہیں ۔چہ جائیکہ دوسروں پر لعنت کرنے سے خاموشی اختیار کرنے میں کچھ حرج ہو۔پھر فرمایا فالاشتغال بذکراللّٰہ اولیٰ فان لم یکن فقی السکوت سلامہ یعنی خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اولیٰ اور افضل ہے ۔اگر ذکر اللہ میں مشغول نہ ہوتو پھر خاموشی میں سلامتی ہے (کیونکہ لعنت نہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں اور نام لے کر کسی پر لعنت کردی تو یہ پُرخطر ہے کیونکہ وہ لعنت کامستحق نہ ہوا تو لعنت کرنے والے پر لعنت لوٹ آئے گی ۔پھر کسی حدیث میں مستحقِ لعنت پر لعنت کرنے کاکوئی ثواب واردنہیں ہوا۔اس لیے لعنت کے الفاظ زبان پرلانے سے کوئی فائدہ نہیں)۔
(’’زبان کی حفاظت ‘‘مولانا مفتی محمدعاشق الہٰی بلند شہری رحمتہ اللہ علیہ)
حسب الحکم :حضرتِ اقدس ،حجتہ الخلف ،بقیۃ السلف ،برکتہ العصر ، مولانا محمدزکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ
ناشر:’’مکتبہ خلیل‘‘یوسف مارکیٹ ،غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ص۷۵،۷۶/ناشر:’’دارالاشاعت ‘‘اردو بازار کراچی ۔ص۷۲،۷۳
حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ
یزید کاشراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے۔ زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ، لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی۔ اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظنِ غالب یہی ہے کہ یزید کم ازکم حضرت معاویہ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حدِ شرعی اس وقت قائم ہوسکتی ہے جب کہ دوگواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔
یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں۔ قانونِ الٰہی کو بدلنے کاکوئی ثبوت کم ازکم مجھے نہیں ملا۔
یزید ایک سلطان متغلب تھا۔ شر عاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کرچکا ہوتو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا، اور اس کا غلبہ روکنا ممکن ہوتو روکنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت حسین سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے وہ روانہ ہوگئے اور دوسرے حضرات صحابہ کاخیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کوروکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خون ریزی کا اندیشہ ہے ، اس لیے وہ خود بھی خاموش رہے اور حضرت حسین کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کامشورہ دیا۔
’’سرداد ندادست دردستِ یزید‘‘ کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے ۔ حضرت حسین شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی۔ حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے ۔ اس لیے انھوں نے یزید کے پاس جاکر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر عبیداللہ بن زیادہ نے انھیں غیر مشروط طورپر گرفتار کرنا چاہا۔ اس میں انھیں مسلم بن عقیل ؒ کی طرح اپنے بے بس ہوکر شہید ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لیے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔
فتاویٰ عثمانی، جلد اوّل، فتویٰ نمبر ۴۰۴/۲۲ الف، ص ۱۷۹، ۱
بشکریہ
نقیب ختم نبوت
برصغیر کے معروف عالم ومصنف علامہ عبدالعزیز فرہاروی حنفی یزید پر لعنت کو غلط فعل قراردیتے ہیں کہ لعن یزید سے روکنے والے اہل سنت کو خارجی قراردینا قواعد شریعت کے منافی ہے :
لا یجوز لعن کل شخص بفعلہ فاحط ہذا ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع ویحکمون بأن من نہی عن لعن یزید فہو من الخوارج۔
ترجمہ: کسی شخص کو اس کے کسی فعل کی بنا ء پر لعنت ملامت کرنا جائز نہیں۔ پس اس بات کو یاد رکھو اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جو قواعد شریعت کا لحاظ نہیں کرتے اور ہر اس شخص پر خارجی ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں جویزید کو لعن طعن کرنے سے روکتا ہے ۔ (النبراس، شرح العقائد، ص۳۳۲)
قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ (م۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء):
حدیث صحیح ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے ، اگر وہ شخص قابل لعن ہے تو لعن اس پر پڑتی ہے ورنہ لعنت کرنے وا لے پر رجوع کرتی ہے۔ پس جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہوجائے، اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہرچند موجب لعن کے ہیں ،مگر جس کو محقق اخبار اور قرائن سے معلوم ہوگیا کہ وہ ان مفاسد سے راضی وخوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مرگیا تو وہ لعن کے جواز کے قائل ہیں اور مسئلہ یوں ہی ہے ۔
اور جو علماء اس میں تردد رکھتے ہیں کہ اوّل میں وہ مومن تھا۔ اس کے بعد ان افعال کا وہ مرتکب تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا، تحقیق نہیں ہوا۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں۔ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے ۔
پس جواز لعن اور عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے ۔ کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حر ج نہیں لعن، نہ فرض ہے ، نہ واجب ، نہ سنت محض مباح ہے اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (رشید احمد )]مولانا رشیداحمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، کتاب ایمان اور کفر کے مسائل ، ص ۳۵۰[
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (م ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۸ء ):
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی یزید کے بارے میں فرماتے ہیں یزید کو متعددمعارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بحر ابیض اور بلادہائے ایشیائے کوچک کے فتح کرنے حتیٰ کہ خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بری افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آزمایا جاچکا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ خود یزید کے متعلق بھی تاریخی روایات مبالغہ اور آپس کے تخالف سے خالی نہیں۔
(مکتوبات شیخ الاسلام حسین احمدمدنی، جلد اوّل ، ص ۲۴۲۔۲۵۲، ببعد)
مولانامفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری (مہاجر مدنی )رحمتہ اللہ علیہ
(خلیفۂ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمتہ اللہ علیہ)
بہت سے لوگ روافض سے متاثرہوکر یزید پر لعنت کرتے ہیں۔بھلا اہل سنت کو روافض سے متاثرہونے کی کیا ضرورت؟ان کو اسلامی اصول پرچلنا چاہیے۔روافض کے مذہب کی توبنیاد ہی اس پر ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہیں اور یزیداور اس کے لشکر پر لعنت کریں ‘قرآن کی تحریف کے قائل ہوں اور متعہ کیاکریں ۔اور جب اہل سنت میں پھنس جائیں تو تقیہ کے داؤ پیچ کواستعمال کرکے اپنے عقیدہ کے خلاف سب کچھ کہہ دیں ۔بھلا اہل سنت ان کی کیا ریس کرسکتے ہیں۔اہل سنت اپنے اصول پر قائم رہیں جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اسے ثابت ہیں۔ان ہی اصول میں سے یہ ہے کہ لعنت صرف اس پر کی جاسکتی ہے جس کاکفر پر مرنا یقینی ہو۔یزید اور اس کے اعوان وانصار کاکفر پر مرنا کیسے یقینی ہوگیا جس کی وجہ سے لعنت جائز ہوجائے ؟
حضرت امام غزالی نے احیا ء العلوم میں اوّل یہ سوال اٹھایا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے یا نہیں؟اس کی وجہ سے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاقاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا ہے ۔پھر اس کا جواب دیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کاحکم دیا یہ بالکل ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا یزید پر لعنت کرنا تودرکنار یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مسلمان کوگناہِ کبیرہ کی طرف بغیر تحقیق کے منسوب کرنا جائز نہیں۔نیزامام غزالی نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مخصوص کرکے یعنی نام لے کر افراد واشخاص پر لعنت کرنا بڑا خطرہ ہے ۔اس سے پرہیز لازم ہے اور جس پر لعنت کرنا جائز ہو ‘اس پر لعنت کرنے سے سکوت اختیار کرنا کوئی گناہ اور مؤاخذہ کی چیز نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص ابلیس پر لعنت نہ کرے ‘اس میں کوئی خطرہ نہیں ۔چہ جائیکہ دوسروں پر لعنت کرنے سے خاموشی اختیار کرنے میں کچھ حرج ہو۔پھر فرمایا فالاشتغال بذکراللّٰہ اولیٰ فان لم یکن فقی السکوت سلامہ یعنی خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اولیٰ اور افضل ہے ۔اگر ذکر اللہ میں مشغول نہ ہوتو پھر خاموشی میں سلامتی ہے (کیونکہ لعنت نہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں اور نام لے کر کسی پر لعنت کردی تو یہ پُرخطر ہے کیونکہ وہ لعنت کامستحق نہ ہوا تو لعنت کرنے والے پر لعنت لوٹ آئے گی ۔پھر کسی حدیث میں مستحقِ لعنت پر لعنت کرنے کاکوئی ثواب واردنہیں ہوا۔اس لیے لعنت کے الفاظ زبان پرلانے سے کوئی فائدہ نہیں)۔
(’’زبان کی حفاظت ‘‘مولانا مفتی محمدعاشق الہٰی بلند شہری رحمتہ اللہ علیہ)
حسب الحکم :حضرتِ اقدس ،حجتہ الخلف ،بقیۃ السلف ،برکتہ العصر ، مولانا محمدزکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ
ناشر:’’مکتبہ خلیل‘‘یوسف مارکیٹ ،غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ص۷۵،۷۶/ناشر:’’دارالاشاعت ‘‘اردو بازار کراچی ۔ص۷۲،۷۳
حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ
یزید کاشراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے۔ زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ، لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی۔ اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظنِ غالب یہی ہے کہ یزید کم ازکم حضرت معاویہ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حدِ شرعی اس وقت قائم ہوسکتی ہے جب کہ دوگواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔
یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں۔ قانونِ الٰہی کو بدلنے کاکوئی ثبوت کم ازکم مجھے نہیں ملا۔
یزید ایک سلطان متغلب تھا۔ شر عاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کرچکا ہوتو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا، اور اس کا غلبہ روکنا ممکن ہوتو روکنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت حسین سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے وہ روانہ ہوگئے اور دوسرے حضرات صحابہ کاخیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کوروکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خون ریزی کا اندیشہ ہے ، اس لیے وہ خود بھی خاموش رہے اور حضرت حسین کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کامشورہ دیا۔
’’سرداد ندادست دردستِ یزید‘‘ کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے ۔ حضرت حسین شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی۔ حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے ۔ اس لیے انھوں نے یزید کے پاس جاکر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر عبیداللہ بن زیادہ نے انھیں غیر مشروط طورپر گرفتار کرنا چاہا۔ اس میں انھیں مسلم بن عقیل ؒ کی طرح اپنے بے بس ہوکر شہید ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لیے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔
فتاویٰ عثمانی، جلد اوّل، فتویٰ نمبر ۴۰۴/۲۲ الف، ص ۱۷۹، ۱
بشکریہ
نقیب ختم نبوت