یزید پر لعنت کا مسئلہ۔ علماء احناف ودیوبند کی نظر میں

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
علامہ عبدالعزیز فرہاروی حنفی (م۱۲۳۹ھ)

برصغیر کے معروف عالم ومصنف علامہ عبدالعزیز فرہاروی حنفی یزید پر لعنت کو غلط فعل قراردیتے ہیں کہ لعن یزید سے روکنے والے اہل سنت کو خارجی قراردینا قواعد شریعت کے منافی ہے :

لا یجوز لعن کل شخص بفعلہ فاحط ہذا ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع ویحکمون بأن من نہی عن لعن یزید فہو من الخوارج۔

ترجمہ: کسی شخص کو اس کے کسی فعل کی بنا ء پر لعنت ملامت کرنا جائز نہیں۔ پس اس بات کو یاد رکھو اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جو قواعد شریعت کا لحاظ نہیں کرتے اور ہر اس شخص پر خارجی ہونے کا فتویٰ لگادیتے ہیں جویزید کو لعن طعن کرنے سے روکتا ہے ۔ (النبراس، شرح العقائد، ص۳۳۲)

قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ (م۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء):

حدیث صحیح ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے ، اگر وہ شخص قابل لعن ہے تو لعن اس پر پڑتی ہے ورنہ لعنت کرنے وا لے پر رجوع کرتی ہے۔ پس جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہوجائے، اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہرچند موجب لعن کے ہیں ،مگر جس کو محقق اخبار اور قرائن سے معلوم ہوگیا کہ وہ ان مفاسد سے راضی وخوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مرگیا تو وہ لعن کے جواز کے قائل ہیں اور مسئلہ یوں ہی ہے ۔

اور جو علماء اس میں تردد رکھتے ہیں کہ اوّل میں وہ مومن تھا۔ اس کے بعد ان افعال کا وہ مرتکب تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا، تحقیق نہیں ہوا۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں۔ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے ۔

پس جواز لعن اور عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے ۔ کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حر ج نہیں لعن، نہ فرض ہے ، نہ واجب ، نہ سنت محض مباح ہے اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (رشید احمد )]مولانا رشیداحمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، کتاب ایمان اور کفر کے مسائل ، ص ۳۵۰[

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (م ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۸ء ):

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی یزید کے بارے میں فرماتے ہیں یزید کو متعددمعارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بحر ابیض اور بلادہائے ایشیائے کوچک کے فتح کرنے حتیٰ کہ خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بری افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آزمایا جاچکا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ خود یزید کے متعلق بھی تاریخی روایات مبالغہ اور آپس کے تخالف سے خالی نہیں۔

(مکتوبات شیخ الاسلام حسین احمدمدنی، جلد اوّل ، ص ۲۴۲۔۲۵۲، ببعد)

مولانامفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری (مہاجر مدنی )رحمتہ اللہ علیہ

(خلیفۂ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمتہ اللہ علیہ)

بہت سے لوگ روافض سے متاثرہوکر یزید پر لعنت کرتے ہیں۔بھلا اہل سنت کو روافض سے متاثرہونے کی کیا ضرورت؟ان کو اسلامی اصول پرچلنا چاہیے۔روافض کے مذہب کی توبنیاد ہی اس پر ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہیں اور یزیداور اس کے لشکر پر لعنت کریں ‘قرآن کی تحریف کے قائل ہوں اور متعہ کیاکریں ۔اور جب اہل سنت میں پھنس جائیں تو تقیہ کے داؤ پیچ کواستعمال کرکے اپنے عقیدہ کے خلاف سب کچھ کہہ دیں ۔بھلا اہل سنت ان کی کیا ریس کرسکتے ہیں۔اہل سنت اپنے اصول پر قائم رہیں جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اسے ثابت ہیں۔ان ہی اصول میں سے یہ ہے کہ لعنت صرف اس پر کی جاسکتی ہے جس کاکفر پر مرنا یقینی ہو۔یزید اور اس کے اعوان وانصار کاکفر پر مرنا کیسے یقینی ہوگیا جس کی وجہ سے لعنت جائز ہوجائے ؟

حضرت امام غزالی نے احیا ء العلوم میں اوّل یہ سوال اٹھایا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے یا نہیں؟اس کی وجہ سے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاقاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا ہے ۔پھر اس کا جواب دیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کاحکم دیا یہ بالکل ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا یزید پر لعنت کرنا تودرکنار یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مسلمان کوگناہِ کبیرہ کی طرف بغیر تحقیق کے منسوب کرنا جائز نہیں۔نیزامام غزالی نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مخصوص کرکے یعنی نام لے کر افراد واشخاص پر لعنت کرنا بڑا خطرہ ہے ۔اس سے پرہیز لازم ہے اور جس پر لعنت کرنا جائز ہو ‘اس پر لعنت کرنے سے سکوت اختیار کرنا کوئی گناہ اور مؤاخذہ کی چیز نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص ابلیس پر لعنت نہ کرے ‘اس میں کوئی خطرہ نہیں ۔چہ جائیکہ دوسروں پر لعنت کرنے سے خاموشی اختیار کرنے میں کچھ حرج ہو۔پھر فرمایا فالاشتغال بذکراللّٰہ اولیٰ فان لم یکن فقی السکوت سلامہ یعنی خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اولیٰ اور افضل ہے ۔اگر ذکر اللہ میں مشغول نہ ہوتو پھر خاموشی میں سلامتی ہے (کیونکہ لعنت نہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں اور نام لے کر کسی پر لعنت کردی تو یہ پُرخطر ہے کیونکہ وہ لعنت کامستحق نہ ہوا تو لعنت کرنے والے پر لعنت لوٹ آئے گی ۔پھر کسی حدیث میں مستحقِ لعنت پر لعنت کرنے کاکوئی ثواب واردنہیں ہوا۔اس لیے لعنت کے الفاظ زبان پرلانے سے کوئی فائدہ نہیں)۔

(’’زبان کی حفاظت ‘‘مولانا مفتی محمدعاشق الہٰی بلند شہری رحمتہ اللہ علیہ)

حسب الحکم :حضرتِ اقدس ،حجتہ الخلف ،بقیۃ السلف ،برکتہ العصر ، مولانا محمدزکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ

ناشر:’’مکتبہ خلیل‘‘یوسف مارکیٹ ،غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ص۷۵،۷۶/ناشر:’’دارالاشاعت ‘‘اردو بازار کراچی ۔ص۷۲،۷۳

حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ

یزید کاشراب پینا یا زنا کرنا کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں ہے۔ زنا کی روایت تو میں نے کسی بھی تاریخ میں نہیں دیکھی۔ کمی نے جو شیعہ راوی ہے یزید کا شراب پینا وغیرہ بیان کیا ہے ، لیکن کسی مستند روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ اگر یزید کھلم کھلا شرابی ہوتا تو حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت اس کے ساتھ قسطنطنیہ کے جہاد میں نہ جاتی۔ اس دور کے حالات کو دیکھ کر ظنِ غالب یہی ہے کہ یزید کم ازکم حضرت معاویہ کے عہد میں شراب نہیں پیتا تھا اور حدِ شرعی اس وقت قائم ہوسکتی ہے جب کہ دوگواہوں نے پیتے وقت دیکھا ہو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی شیعہ روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔

یزید کے بارے میں صحیح بات وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں۔ قانونِ الٰہی کو بدلنے کاکوئی ثبوت کم ازکم مجھے نہیں ملا۔

یزید ایک سلطان متغلب تھا۔ شر عاً اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل کرچکا ہوتو اس کے خلاف خروج نہ کیا جائے گا، اور اس کا غلبہ روکنا ممکن ہوتو روکنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت حسین سمجھتے تھے کہ اس کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے وہ روانہ ہوگئے اور دوسرے حضرات صحابہ کاخیال تھا کہ اب اس کے غلبہ کوروکنا استطاعت میں نہیں اور اس کو روکنے کی کوشش میں زیادہ خون ریزی کا اندیشہ ہے ، اس لیے وہ خود بھی خاموش رہے اور حضرت حسین کو بھی اپنے ارادے سے باز آنے کامشورہ دیا۔

’’سرداد ندادست دردستِ یزید‘‘ کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے ۔ حضرت حسین شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ سلطان متغلب کا غلبہ روکنا ممکن ہے ، اس لیے روانہ ہوئے اور اہل کوفہ پر اعتماد کیا، لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو کوفیوں کی بدعہدی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ اہل کوفہ نے بالکل غلط تصویر پیش کی تھی۔ حقیقت میں یزید کا غلبہ روکنا اب استطاعت میں نہیں ہے ۔ اس لیے انھوں نے یزید کے پاس جاکر بیعت تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر عبیداللہ بن زیادہ نے انھیں غیر مشروط طورپر گرفتار کرنا چاہا۔ اس میں انھیں مسلم بن عقیل ؒ کی طرح اپنے بے بس ہوکر شہید ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لیے ان کے پاس مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا۔

فتاویٰ عثمانی، جلد اوّل، فتویٰ نمبر ۴۰۴/۲۲ الف، ص ۱۷۹، ۱

بشکریہ
نقیب ختم نبوت
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
لعن یزید تو ایک مسئلہ ہے جس پر اکثر علماء امت اتفا ق کرتے ہیں کہ لعنت کرنا یزید پر ٹھیک نہیں
مگر دومسئلے اوربھی ہیں
ایک یہ کہ کیا یزید فاسق تھا ؟
دوسرایہ کہ جو لوگ حضرت حسین کو باغی خطاکار کہتے ہیں اوریزیدکو امیر یزید رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کیا ان کا عمل درست ہے ؟
ان دومسائل کو پیش کرنا اوراس پر بات کرنا بھی ضروری ہے تاکہ تصویر اپنے تین رخوں سے مکمل ہوجائے
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
آج بڑے عرصہ بعد الغزالی کی طرف چکر لگا تو اتفاق سے یہی موضوع سامنے آگیا میں نے سوچا اس سلسلہ میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا موقف بھی پیش کردوں
شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا مشہور زمانہ رسالہ “سرالشہادتین“ ہے اس رسالہ کی شرح شاہ صاحب کے شاگرد رشید مولانا سلامت اللہ کشفی بدایونی ، کانپوری نے “تحریرالشہادتین“ کے نام سے لکھی ہے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے اس فارسی شرح کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس ترجمہ سے ایک اقتباس پیش ہے:

یزید مستحق لعنت ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یزید پلید نے ہی امام عالی مقام علیہ السلام کے قتل کا حکم جاری کیا اور وہ اس پر راضی و مستبشرتھا اور یہی مذہب جمہور اہلسنت کا ہے۔چناں چہ مفتاح النجاء از مرزا محمد بخشی ، مناقب السادات از ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی، شرح عقائدِ نسفی از ملّا سعد الدین تفتازانی اور تکمیل الایمان از شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ جیسی معتبر کتب میں شواہد و دلائل کے ساتھ یہ بات مذکور ہے۔ لہذا اس ملعون پر لعنت کرنا حجتِ قطعی اور براہین ساطعہ سے ثابت کی گئی ہے۔ راقم الحروف (مولوی سلامت اللہ کانپوری)اور اس کے صوری و معنوی اساتذہ کا بھی یہی موقف ہے کہ یزید قتلِ حسین کا حکم دینے والاتھا اور ان کے قتل پر راضی و خوش تھا۔بدیں وجہ وہ لعنت اور ابدی وبال و عذاب کا مستحق ہے۔
’’علیہ ما یستحقہ ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے
اگر غورو فکر کیا جائے تو اس ملعون کے حق میں مجرد لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں جیسا کہ استاذ البریہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)علیہ الرحمۃ نے رسالہ ’’حسن العقیدہ‘‘ میں کلمۂ ’’ علیہ ما یستحقہ‘‘ پر حاشیہ میں تعلیق رقم فرمائی ہے اور فائدہ ظاہر کیا ہے کہ ’’علیہ ما یستحقہ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے اور عربی کے مشہور قاعدہ ’’الکنایۃ ابلغ من التصریح‘‘ کی رو سے کنایہ صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔
اس کے باوجود ’’ما یستحقہ‘‘ کے ایہام میں ایسی مبالغہ آمیز لعنت موجود ہے جو کہ صراحتاً لعنت کا لفظ استعمال کرنے سے فوت ہو جاتی ہے۔جیسا کہ فَغَشِيَھُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَھُمْ (۴۰)کی تفسیر ہے۔
حق تو یہ ہے کہ یزید کے حق میں صرف لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں۔ کیوں کہ قتل مومن کی سزا تو مقرر شدہ ہے چناں چہ ارشاد ربانی ہے:وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِيہَا وَغَضِبَ اللّھُ عَلَيْھِ وَلَعَنَھُ وَأَعَدَّ لَھُ عَذَابًا عَظِيمًا(۴۱)
اور یزید تو اپنی بد اعمالیوں میںاس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شاکرالقادری نے کہا ہے:
آج بڑے عرصہ بعد الغزالی کی طرف چکر لگا تو اتفاق سے یہی موضوع سامنے آگیا میں نے سوچا اس سلسلہ میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا موقف بھی پیش کردوں
شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا مشہور زمانہ رسالہ “سرالشہادتین“ ہے اس رسالہ کی شرح شاہ صاحب کے شاگرد رشید مولانا سلامت اللہ کشفی بدایونی ، کانپوری نے “تحریرالشہادتین“ کے نام سے لکھی ہے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے اس فارسی شرح کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس ترجمہ سے ایک اقتباس پیش ہے:

یزید مستحق لعنت ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یزید پلید نے ہی امام عالی مقام علیہ السلام کے قتل کا حکم جاری کیا اور وہ اس پر راضی و مستبشرتھا اور یہی مذہب جمہور اہلسنت کا ہے۔چناں چہ مفتاح النجاء از مرزا محمد بخشی ، مناقب السادات از ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی، شرح عقائدِ نسفی از ملّا سعد الدین تفتازانی اور تکمیل الایمان از شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ جیسی معتبر کتب میں شواہد و دلائل کے ساتھ یہ بات مذکور ہے۔ لہذا اس ملعون پر لعنت کرنا حجتِ قطعی اور براہین ساطعہ سے ثابت کی گئی ہے۔ راقم الحروف (مولوی سلامت اللہ کانپوری)اور اس کے صوری و معنوی اساتذہ کا بھی یہی موقف ہے کہ یزید قتلِ حسین کا حکم دینے والاتھا اور ان کے قتل پر راضی و خوش تھا۔بدیں وجہ وہ لعنت اور ابدی وبال و عذاب کا مستحق ہے۔
’’علیہ ما یستحقہ ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے
اگر غورو فکر کیا جائے تو اس ملعون کے حق میں مجرد لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں جیسا کہ استاذ البریہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)علیہ الرحمۃ نے رسالہ ’’حسن العقیدہ‘‘ میں کلمۂ ’’ علیہ ما یستحقہ‘‘ پر حاشیہ میں تعلیق رقم فرمائی ہے اور فائدہ ظاہر کیا ہے کہ ’’علیہ ما یستحقہ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے اور عربی کے مشہور قاعدہ ’’الکنایۃ ابلغ من التصریح‘‘ کی رو سے کنایہ صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔
اس کے باوجود ’’ما یستحقہ‘‘ کے ایہام میں ایسی مبالغہ آمیز لعنت موجود ہے جو کہ صراحتاً لعنت کا لفظ استعمال کرنے سے فوت ہو جاتی ہے۔جیسا کہ فَغَشِيَھُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَھُمْ (۴۰)کی تفسیر ہے۔
حق تو یہ ہے کہ یزید کے حق میں صرف لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں۔ کیوں کہ قتل مومن کی سزا تو مقرر شدہ ہے چناں چہ ارشاد ربانی ہے:وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِيہَا وَغَضِبَ اللّھُ عَلَيْھِ وَلَعَنَھُ وَأَعَدَّ لَھُ عَذَابًا عَظِيمًا(۴۱)
اور یزید تو اپنی بد اعمالیوں میںاس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔
وعلیکم السلام جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے ہمارے علماء نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے ۔چنانچہ فتاویٰ ریا ض العلوم میں ہے‘‘‘ بعض قابل اعتماد علماء نے یزید کا نیک کردار اور صالح ہونا ثابت کیا ہے ،اگر چہ بہتوں نے اس کے بر عکس لکھا ہے ،لیکن بحر حال بلا ضرورت شرعیہ یزید کا نا مناسب تذکرہ جائز نہیں ۔اللعن علیٰ یزید خلاف التحقیق ،التفصیل فی النبراس :331 مکتبہ امدادیہ ،ملتان ۔والسلام
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
یزیدپر سب و شتم​
امام غزالي فرماتے ہيں:
((ما صح قتلہ للحسين رضي اللہ عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم يصح ذٰلک لم يجز ان يظن ذٰلک فان اسآءۃ الظن ايضا بالمسلم حرام قال اللہ تعاليٰ: }يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا يعلم حقيقہ اصلا واذا لم يعرف وجب احسان الظن بکل مسلم يمکن احسان الظن بہ))(وفيات الاعيان: 450/2، طبع جديد)
يعني"حضرت حسين رضي اللہ عنہ کو يزيد کا قتل کرنا يا ان کے قتل کرنے کا حکم دينا يا ان کے قتل پر راضي ہونا، تينوں باتيں درست نہيں اور جب يہ باتيں يزيد کے متعلق ثابت ہي نہيں تو پھر يہ بھي جائز نہيں کہ اس کے متعلق اسي بدگماني رکھي جائے کيونکہ کسي مسلمان کے متعلق بدگماني حرام ہے جيسا کہ قرآن مجيد ميں ہے، بنا بريں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق يزيد سے حسن ظن رکھنے پر بھي ہوتا ہے۔
اسي طرح اپني معروف کتاب احياء العلوم ميں فرماتے ہيں:
((فان قيل ھل يجوز لعن يزيد بکونہ قاتل الحسين او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم يثبت اصلاً ولا يجوز ان يقال انہ قتلہ او امر بہ مالم يثبت)) (131/3)
يعني "اگر سوال کيا جائے کہ کيا يزيد پر لعنت کرني جائز ہے کيونکہ وہ (حضرت حسين رضي اللہ عنہ کا ) قاتل ہے يا قتل کاحکم دينے والا ہے ؟ تو ہم جواب ميں کہيں گے کہ يہ باتيں قطعاً ثابت نہيں ہيں اور جب تک يہ باتيں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق يہ کہنا جائز نہيں کہ اس نے قتل کيا يا قتل کا حکم ديا۔"
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کيا ہے:
((واما الترحم عليہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل في قولنا في کل صلوٰۃ اللھم اغفر للمؤمنين والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم)) (وفيات الاعيان: 450/3، طبع جديد)
يعني "يزيد کے ليے رحمت کي دعا کرنا (رحمۃ اللہ عليہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ اس دعا ميں داخل ہے جو ہم کہا کرتے ہيں ۔ (يا اللہ! مومن مردوں او ر مومن عورتوں سب کو بخش دے) اس ليے کہ يزيد مومن تھا! واللہ اعلم"
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
[align=center]مولانا احمد رضا خاں کي صراحت:
[/align]
مولانا احمد رضا خاں فاضل بريلوي، جو تکفير مسلم ميں نہايت بے باک مانے جاتے ہيں، يزيد کے بارے ميں يہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمۃاللہ عليہ اسے کافر جانتے ہيں او رامام غزالي وغيرہ مسلمان کہتے ہيں، اپنا مسلک يہ بيان کرتے ہيں کہ:
"اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہيں کہ ہم نہ مسلمان کہيں نہ کافر، لہٰذا يہاں بھي سکوت کريں گے۔۔۔"
(احکام شريعت، ص:88، حصہ دوم)
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
اور یزید تو اپنی بد اعمالیوں میںاس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔
حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے برادر محمد بن الحنفيہ کا يہ بيان ہي کافي ہے جو انہوں نے اس کے متعلق اسي قسم کے افسانے سن کرديا تھا۔
((ما رايت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرايتہ مواظباً علي الصلوٰۃ متحريا للخير يسال عن الفقہ ملازماً للسنۃ)) (البدايۃ والنہايۃ: 236/8، دارالديان للتراث، الطبعۃ 1988ء)
يعني "تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ميں نے ان ميں سے ايسي کوئي چيز نہيں ديکھي، ميں نے ان کے ہاں قيام کيا ہے اور ميں نے انہيں پکا نمازي ، خير کا متلاشي، مسائل شريعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پايا ہے۔ (البدايۃ والنہايۃ، ج:8، ص:233)
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
سیفی خان نے کہا ہے:
اور یزید تو اپنی بد اعمالیوں میںاس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔
حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے برادر محمد بن الحنفيہ کا يہ بيان ہي کافي ہے جو انہوں نے اس کے متعلق اسي قسم کے افسانے سن کرديا تھا۔
((ما رايت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرايتہ مواظباً علي الصلوٰۃ متحريا للخير يسال عن الفقہ ملازماً للسنۃ)) (البدايۃ والنہايۃ: 236/8، دارالديان للتراث، الطبعۃ 1988ء)
يعني "تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ميں نے ان ميں سے ايسي کوئي چيز نہيں ديکھي، ميں نے ان کے ہاں قيام کيا ہے اور ميں نے انہيں پکا نمازي ، خير کا متلاشي، مسائل شريعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پايا ہے۔ (البدايۃ والنہايۃ، ج:8، ص:233)
جولوگ حضرت محمد بن حنیفہ کے قول سے استشہاد کرکے یزید کو معصوم قراردیتے ہیں وہ حضرات یزید کے اپنے بیٹے کے قول کو کس کھاتے میں رکھتے ہیں۔ یہ سمجھنے سے میں آج تک قاصر ہوں۔اس قول میں یزید کے بیٹے نے صراحتا اپنے والد کے بارے میں اقرارکیاہے کہ اس نے رسول پاک کی اولاد کو قتل کیا،شراب کو جائز کیا(بمعنی شراب پیتاتھا) اورخانہ کعبہ کی حرمت وعظمت کو پامال کیا۔ اگرایساشخص فاسق نہ ہوتو پھر فسق کیلئے اورکیاچیز لازمی ہوتی ہے۔ ہم دلدادگان یزید سے اتناتوپوچھ ہی سکتے ہیں کہ جو بات وہ ابن حنفیہ کے تعلق سے دوسروں پر الزام دیتے ہیں وہ خود یزید کے بیٹے کے اس قول کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ کیوں نہیں لیتے۔

معاویہ بن یزید بن معاویہ کا خطبہ حکومت
جب یزید بن معاویہ واصل جہنم ہو چکا تو معاویہ جو یزید کا بیٹا تھاجسے یزید نے اپنی زندگی میں ہی ولی عہد نامزد کر دیا تھا کو تختِ سلطنت پر بٹھایا گیا۔جوں ہی معاویہ بن یزید کو اقتدار ملا۔وہ منبر پر گیا ۔ حمد و ثنائے اللہ جل و علی اورنعت سرور انبیاء علیہ الصلوۃ والثناء کے بعد اس نے کہا:
“خلافت اللہ تعالیٰ کا مضبوط آئین ہے اور خلفائے باصفا کا حق ہے۔میرے دادا معاویہ بن ابو سفیان نے علی المرتضیٰ جو کہ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے کے ساتھ نزاع و جدال کا راستہ اختیار کیا۔اس کے بعد میرا باپ جو خلافت کے لیے کسی قسم کا استحقاق نہ رکھتا تھاتخت سلطنت پر متمکن ہو گیا اور اپنی حکومت کو استحکام دینے کے لیے حسین بن علی جو فرزندِ رسول اللہ ﷺ ہیں کے خون سے ہاتھ رنگے۔لیکن بالآخر حالتِ جوانی میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔اور اس چند روزہ حکومت کے عوض دائمی عذاب و وبال کو اپنے ہمراہ لے گیا۔اس کے بعد معاویہ بن یزید زار زار رویا اور کہنے لگا:میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حسین ؑ کے ساتھ جو محاربہ میرے باپ نے کیا وہ انتہائی براتھا۔اس کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ اس نے اولادِ رسول خدا ﷺ کو قتل کیا، شراب نوشی کو مباح قرار دیا، تخریبِ مدینہ منورہ کا مرتکب ہوا اور حرمت کعبہ کی ہتک کو روا رکھا۔میں اس خلافت میں کوئی لذت و راحت نہیںپاتا۔ابو سفیان کی اولاد میں سے جو کوئی اس پر راضی ہو اس کو اپنا امیر بنا لو۔میں اپنی بیعت کے قلادے سے مسلمانوں کی گردنوں کو آزاد کرتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ منبر سے اتر آیا اور اپنے گھر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیااور اسی حالت میں راہی ملک بقا ہوا۔
اقتباس از: تحریر الشہادتین شرح سرالشہادتین ،از مولانا سلامت اللہ کشفی بدایونی، مترجمہ راقم الحروف
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
شاکرالقادری نے کہا ہے:
آج بڑے عرصہ بعد الغزالی کی طرف چکر لگا تو اتفاق سے یہی موضوع سامنے آگیا میں نے سوچا اس سلسلہ میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا موقف بھی پیش کردوں
شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا مشہور زمانہ رسالہ “سرالشہادتین“ ہے اس رسالہ کی شرح شاہ صاحب کے شاگرد رشید مولانا سلامت اللہ کشفی بدایونی ، کانپوری نے “تحریرالشہادتین“ کے نام سے لکھی ہے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے اس فارسی شرح کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس ترجمہ سے ایک اقتباس پیش ہے:

یزید مستحق لعنت ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یزید پلید نے ہی امام عالی مقام علیہ السلام کے قتل کا حکم جاری کیا اور وہ اس پر راضی و مستبشرتھا اور یہی مذہب جمہور اہلسنت کا ہے۔چناں چہ مفتاح النجاء از مرزا محمد بخشی ، مناقب السادات از ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی، شرح عقائدِ نسفی از ملّا سعد الدین تفتازانی اور تکمیل الایمان از شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ جیسی معتبر کتب میں شواہد و دلائل کے ساتھ یہ بات مذکور ہے۔ لہذا اس ملعون پر لعنت کرنا حجتِ قطعی اور براہین ساطعہ سے ثابت کی گئی ہے۔ راقم الحروف (مولوی سلامت اللہ کانپوری)اور اس کے صوری و معنوی اساتذہ کا بھی یہی موقف ہے کہ یزید قتلِ حسین کا حکم دینے والاتھا اور ان کے قتل پر راضی و خوش تھا۔بدیں وجہ وہ لعنت اور ابدی وبال و عذاب کا مستحق ہے۔
’’علیہ ما یستحقہ ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے
اگر غورو فکر کیا جائے تو اس ملعون کے حق میں مجرد لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں جیسا کہ استاذ البریہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)علیہ الرحمۃ نے رسالہ ’’حسن العقیدہ‘‘ میں کلمۂ ’’ علیہ ما یستحقہ‘‘ پر حاشیہ میں تعلیق رقم فرمائی ہے اور فائدہ ظاہر کیا ہے کہ ’’علیہ ما یستحقہ‘‘ لعنت سے کنایہ ہے اور عربی کے مشہور قاعدہ ’’الکنایۃ ابلغ من التصریح‘‘ کی رو سے کنایہ صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔
اس کے باوجود ’’ما یستحقہ‘‘ کے ایہام میں ایسی مبالغہ آمیز لعنت موجود ہے جو کہ صراحتاً لعنت کا لفظ استعمال کرنے سے فوت ہو جاتی ہے۔جیسا کہ فَغَشِيَھُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَھُمْ (۴۰)کی تفسیر ہے۔
حق تو یہ ہے کہ یزید کے حق میں صرف لعنت پر ہی اکتفا کرنا درست نہیں۔ کیوں کہ قتل مومن کی سزا تو مقرر شدہ ہے چناں چہ ارشاد ربانی ہے:وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِيہَا وَغَضِبَ اللّھُ عَلَيْھِ وَلَعَنَھُ وَأَعَدَّ لَھُ عَذَابًا عَظِيمًا(۴۱)
اور یزید تو اپنی بد اعمالیوں میںاس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔

السلام علیکم !
اس سلسلے میں میں کچھ اس طرح عرض کروں گا
یزید کانام ونسب :
اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریباً چالیس برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئی ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پائے گئے ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئی کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس کی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئی ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اہلِ مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارے میں موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ تو افراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ آسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوئے اوراسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائی ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اور ہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑا بہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہیں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، اور وہ کافر نہیں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوئے ، اس نے اہلِ حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اور وہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہلِ علم و عقل اوراھلِ سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گئے ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اور ابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توکچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جائے اور نہ ہی اس سے محبت کی جائے ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارے میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 )
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کانام بہت مشہور ومعروف ہے۔علم وفن میں جوان کامقام ومرتبہ ہے وہ کتب سوانح وسیر سے بآسانی معلوم کیاجاسکتاہے اورکچھ لوگوں کیلئے تو بس حضرت ابن تیمیہ کانام ہی کافی ہے اوراسی کو سن کر وہ سرنگوں ہوجاتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسے لوگ ائمہ اربعہ کے مقلدین پر اعتراض کی بوچھار کرتے ہیں اورخود ان کاحال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔
بہرحال دیکھتے ہیں کہ یزید اوراس کے اعمال کے تعلق سے حضرت ابن تیمیہ کیافرماتے ہیں۔
۔ ومن آمن باللہ والیوم الآخر لایختار ان یکون مع یزید ولامع امثالہ من الملوک الذین لیسوا بعادلین اورجواللہ اورقیامت کے دن پرایمان رکھتاہے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ یزید یااس جیسے غیرعادل بادشاہ کے ساتھ بھی ہوسکے۔سوال فی یزید بن معاویہ ص28
اب جولوگ یزید کوعادل بادشاہ قراردیتے نہیں تھکتے انہیں تو کم ازکم اب تو شرم آنی چاہئے ۔ابن تیمیہ پوری وضاحت اورصراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتاہے وہ اس کوپسند نہیں کرے گاکہ اس کاشمار یاحشر یزید اوراس جیسے غیرعادل بادشاہوں کے ساتھ ہو۔ظاہر ہے جو بادشاہ عادل نہ ہو ظالم ہوگا۔
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت امام غزالی رح باکمال صوفی اورحجۃ الاسلام کے لقب سے ملقب ہیں۔اوران کی بات اس درد وفکر کی غماز ہے جو ہرصوفی اپنے دل میں مومن ومسلم بل کہ بلاتخصیص مذہب وملت تمام افراد انسانی کے لیے اپنے دل میں رکھتاہے۔اس حد تک میں بھی اس سے اتفاق کرتاہوں کہ بلاکسی ضرورت کے یاداعی کے اس بارے میں لعنت کے قصوں میں نہیں پڑنا چاہیے اورویسے بھی مومن کی خوبی آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی ہے کہ وہ لعان نہیں ہوتا
مگر جب ایسے لوگ پیداہوں گے یزید کواللہ کا ولی صحابی اوردرست اورمقابلے میں امام حسین رض کو معاذاللہ باغی خطاکار کہیں گے یا آپ کے شرف صحابیت سے ہی اہل تشیع کے ردعمل میں منکر ہوجائیں گے تو پھر یزید پر بات کرنا مجبوری بن جاتاہے اورتب بھی چاہیے یہی کے افراط وتفریط کے مقابلے میں ہم اعتدال اورحق کا دامن نہ چھوڑیں
امام صاحب کی نظر اس پر نہیں گئی کہ یزید نے اگر حکم نہیں دیا اوروہ قتل سے راضی نہیں تھا تب بھی اپنے عمال سے اس نے کیا بازپرس کی ؟جو قاتلان حسین تھے انہیں کیا سزادی؟پھر اس کے کھاتے میں صرف قتل حسین ہی تو نہیں کئی دیگر جرائم کے علاوہ حرمت حرمین کی پامالی بھی ہے ۔سعید بن المسیب جو فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں کئی روزتک نماز نہ ہوسکی وہ کس کا دورتھا اورکس کی فوج تھی اورکس کا حکم تھا اورکعبہ پر سنگ زنی کی تو وہ کس کے کرتوت تھے؟ اورکس کی فوج نے یہ اقدام کیا ؟
مولانامجیب منصور نے امام ابن تیمیہ کے حوالے سے جو اہل سنت کے دو قول نقل کیے توان میں بھی اخراخیر کیا نکلا یہی کہ ہم سکوت کرتے ہیں گویاقطعی طورپرمحقق نہیں کہ حضرت یزید صاحب ولی تو کیا نیکوکاربھی تھے
اورامام احمد بن حنبل جیسے جبل علم نے یزید کے بارے میں جو کچھ رائے رکھی میراخیا ل ہے یزیدی یہی کہیں گے کہ امام صاحب بھی شیعہ پروپیگنڈہ کی زد میں آگئے تھے[]==[]
مولاناامین صفدراوکاڑوی رح نے یزید کے بارے میں جو کچھ لکھا تجلیات صفدر میں وہ بھی پڑھ لینا چاہیے
اوریہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہدایۃ الشیعہ اورہدیۃ الشیعہ میں حضرت نانوتوی اورحضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی رح یزید صاحب کو یزید پلید ہی کہتے اورلکھتے ہیں
میراخیال ہے علماء دیوبند کی طرف سے ایسا لاحقہ کسی اورکے حصے میں نہیں آیا
میری دعاہےکہ جو یزیدی ہیں اللہ ان کا حشر یزید کے ساتھ کرے اورجو حسنیی ہیں ان کا حشر حسین کے ساتھ کرے آمین
اسی پر بات ختم ہونی چاہیے
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
ابن تیمیہ پوری وضاحت اورصراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتاہے وہ اس کوپسند نہیں کرے گاکہ اس کاشمار یاحشر یزید اوراس جیسے غیرعادل بادشاہوں کے ساتھ ہو۔ظاہر ہے جو بادشاہ عادل نہ ہو ظالم ہوگا۔
[/quote]
یہ توافق ہے یا تواردمعلوم نہیں کیا مگر جو بات میں نے لکھی وہی ابن تیمیہ کے حوالے سے آپ نے بھی ارشادفرمادی
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
میری دعاہےکہ جو یزیدی ہیں اللہ ان کا حشر یزید کے ساتھ کرے اورجو حسنیی ہیں ان کا حشر حسین کے ساتھ کرے آمین
اسی پر بات ختم ہونی چاہیے
امین اللھم آمین بجاہ سید الانبیأ و المرسلین وصلی اللہ علیہ وعلی آلہ الطبین الطاھرین
جزاکم اللہ مولانا

لیکن بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہونا چاہیئے
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید
اس دنیا میں جب تک فرعونیت موجود ہے عصائے کلیمی ناگزیر ہے اور جب تک یزیدیت موجود ہے حسینیت کی آواز بلند ہوتی رہے گی ۔ ۔۔
علمائے اہل سنت نے اگر لعنت میں توقف سے کام لیا ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ یزید کو مستحق لعنت نہیں جانتے تھے وہ اس کو پوری طرح مستحق لعنت جانتے تھے لیکن ان کے خیال میں لعنت بھیجتے رہنے کے عمل سے بہتریہی تھا کہ وہ ایسے اعمال کرتے رہیں جو اس سے کہیں زیادہ نافع ہو یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل نے اپنے بیٹے کے اس سوال:
تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟
کا جواب یہ نہیں دیا کہ بیٹا یزید پر لعنت کرنا ناروا ہے یا شرعا درست نہیں اس لیے میں لعنت نہیں کرتا
بلکہ انہوں نے تو یہ جواب دیا:
بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔
امام صاحب کا یہ جواب ہی کافی و شافی ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کے نزدیک یزید پر لعنت شرعا ناروا نہیں بلکہ امام صاحب کا یہ عمومی معمول تھا کہ وہ کسی پر لعنت نہیں کیا کرتے تھے
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
صرف تنقیدی پہلواوراپنے مقصد ،مشرب ومسلک کو ثابت کرنے کی خاطرکسی کی قربانیانیوں کو نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ اگر کسی کے حسین کارنامے ہوں تو ان پر بھی مثبت بحث ہونی چاہیے
جیسا کہ علامہ ذھبی و علامہ ابن تیمیہ رح کے حوالے سے میری تحریرکے کچھ اقتباسات حاضر ہیں
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریباً چالیس برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئی ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پائے گئے ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئی کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارے میں موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ تو افراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ آسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوئے اوراسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائی ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اور ہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑا بہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہیں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، اور وہ کافر نہیں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوئے ، اس نے اہلِ حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اور وہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہلِ علم و عقل اوراھلِ سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گئے ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ ویزید کی حقیقت

سوال: (1) یزید کی شخصیت اور کردار کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
(2) یزید کی بیعت وخلافت پر جمہور امت کا اتفاق تھا کہ نہیں ۔
(3) یزید کی خلافت کیسی تھی؟----------------------------------------
(4) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام خروج کیسا تھا؟
(5) یزید امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں ملوث تھا یا نہیں ؟

الجواب : حامد ومصلیا ومسلما : !
ج(1) بعض قابل اعتماد حضرات نے یزید کا نیک کردار اور صالح ہو نا ثابت کیا ،اگر چہ بہتوں نے اس کے بر عکس لکھا ہے ، بحر حال بلا ضرورت شرعیہ یزید کا نا مناسب تذکرہ جائز نہیں ۔
ج(2)یزید کی خلافت پر اکثر مسلمان راضی نہ تھے ،اگر چہ ساکت تھے۔
ج(3) بعض حضرات کے نزدیک مناسب اور درست تھی ، جیسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا ،اور بعض کے نزدیک درست نہ تھی ، جیسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہم اور جیسا کی حضرات صحابہ میں یزیدکی خلافت مختلف فیہ تھی ، بعد والوں میں دونوں رائے پائی جاتی ہیں ۔واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔
ج (4) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام خروج میں شرعا کوئی قباحت نہیں تھی ، اس لئے کہ آپ یزید کو نا اہل اور واجب العزل سمجھ رہے تھے ۔
ج(5) تواریخ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید کا منشاء قتل حسین رضی اللہ عنہ ہر گز نہ تھا ، بلکہ صرف آپ کا سے بیعت اور سکوت کا خواہاں تھا ،اور عبد اللہ بن زیاد کو یزید نے حکم دیا تھا کہ آپ بیعت فر مائیں تو بہتر ہے ورنہ میرے پاس بھیج دیا جائے ۔( فتاویٰ ریاض الجنہ جلد 1 ص 521-522

نوٹ یہی مسلک علمائے دیوبند کا ہے ۔
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
سیفی خان نے کہا ہے:
جب آپ حسینیت کے پرچم کو بلند کریں گے
قادری صاحب ۔ ۔۔۔ کیا حسینیت کا پرچم کسی پر لعن طعن کیئے بغیر بلند نہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔؟
محترم سیفی خان! بجا فرمایا آپ نے حسینیت کا پرچم لعن طعن کے بغیر بھی بلند ہو سکتا ہے اور یہی اہل سنت کا مسلک ہے کہ لعن طعن سے گریز کرتے ہوئے حسینیت کا پرچم بلند کیا جائے ۔ ۔ ۔
لیکن جب فورم کے ذمہ دار افراد کی جانب سے مسلک حسینی کو فروغ دینے کی بجائے لعن طعن کے سوالات اٹھائے جائیں گے تو کلام کرنے کی گنجائش تو پیدا ہوگی ناں ۔ ۔ ۔ ۔ عاشورہ محرم کی مناسبت سے اگر انتظامیہ اسوۂ حسینی پر کوئی مضمون پیش کرتی تو میں خیال ہے کہ اس معاملہ میں دو بکریاں بھی آپس میں سینگھ نہ لڑاتیں ۔ ۔ ۔ لیکن محرم کے ان ایام میں میری نظر میں الغزالی فورم پر کم از کم تین مضامین ایسے آئے ہیں جن میں عنواں تو سیدنا حسین کی شہادت کا دیا گیا ہے لیکن کسی نہ کسی طور ان تمام کے تمام مضامین میں یزیدپلید کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ایسی صورت میں میں نے بھی علمائے اہل سنت ہی کے موقف میں رہتے ہوئے کہا ہے کہ گوکہ علمأئے اہل سنت یزید پر لعنت کو ناجائز اور غیر مشروع نہیں جانتے لیکن لعنت کرتے رہنا انکا وطیرہ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ الحمد للہ امام عالی مقام کا دفاع جس انداز میں اہل سنت نے کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۔ ۔ ۔اور اس موضوع میں تو علمائے دیوبند کا ذکر ہو رہا ہے چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے پلیٹ فارم سے حضرت مولانا قاری طیب رحمة اللہ نے حسینیت کے پرچم کو جس انداز میں بلند کیا اور امام عالی مقام کا جو دفاع کیا اس کی نظیر شاید ہی اس مکتبہ کے دیگر اکابرین میں سے پیش کیا جا سکے
نور اللہ مرقدہ ۔۔۔ آمین
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
جی ہاں قادری صاحب آپ نے صحیح لکھا ہے علماء دیوبند کا مؤقف یزید کے بارے میں واضح ہے۔ اور قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ ےلہہ نے اس پر خوب لکھا ہے ۔ ۔ ۔ ہم نواسہ رسول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو حق پہ سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ بات صرف یہ ہے جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا ہے : یہی اہل سنت کا مسلک ہے کہ لعن طعن سے گریز کرتے ہوئے حسینیت کا پرچم بلند کیا جائے ۔ ۔
جی جناب یہی ہمارا مسلک ہے ۔ ۔ ۔ اور ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بغض ایمان کی خرابی سمجھتے ہیں
اور یہی ہمارا نعرہ ہے ۔ ۔ ۔ حب حسین رحمۃ اللہ ۔ ۔ ۔ بغض حسین لعنۃ اللہ
 
Top