بندہ ناچیز نے تقریبا" تمام اقتباسات بغور پڑھے ، بعض اقتباسات افراط و تفریط سے ہٹ کر ہیں اور بعض میں افراط و تفریط پایا جاتا ہے ، ہم مقلدین احناف کے لئے سب سے بہترین مسلک یزید بن معاویہ سے متعلق " سکوت " والا ہے ، لیکن اس پر مقلدین احناف کا عمل نہیں ہے ، سکوت والے مسلک کو چھوڑنے کی وجہ سے طرح طرح کے نت نئے فتوے سامنے آتے رہتے ہیں ، اور آتے رہیں گے ، اللہ تعالی مفتیان کرام اور علماء عظام کو فھم سلیم عطاء فرمائے
یزید بن معاویہ سے متعلق سب سے زیادہ جو رائے دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ " فاسق " تھا ، دوسری رائے یہ دی جاتی ہے وہ قاتل سیدنا حسین ڑضی اللہ عنہ ہے یا اُس نے قتل کا حکم دیا ، تیسری رائے یہ دی جاتی ہے کہ اس کی خلافت و امارت درست نہیں تھی ،
ان تین باتوں (1) یزید کا فاسق ہونا (2) قاتل حسین ہونا یا قتل کا حکم دینا) (3) اس کی خلافت کا صحیح نہ ہونا )
ان تین باتوں پر رائے دینے والوں کے پاس اس کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں سوائے تاریخ کی جھوٹی روایات کے ، اور ان سب رائے دینے والوں نے نہ یزید کا دور خلافت دیکھا ، نہ یزید کو دیکھا بس سنی سنائی بلا دلیل بات سے اپنے فتوی و رائے کا اظہار کر دیا ، ان سب نے اپنے اللہ کو جواب دینا ہے
یزید بن معاویہ کے بارے ان تین باتوں پر ایک بھی سند صحیح کے ساتھ کوئی روایت موجود نہیں جس سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہوں ، اگر کسی کے پاس ہوں تو یہاں نقل کر دے
آئیے دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے یزید بن معاویہ کو دیکھا ، اس کا دور خلافت پایا ،اس کے ہاتھ پر بیعت کی وہ یزید کو کیسا سمجھتے تھے ، ان کی گواہی سے بڑی کوئی گواہی نہیں ہو سکتی
یزید بن معاویہ اہل بیت کے عظیم فرزند ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھم کی نظر میں
امام
أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)اپنے استاذ امام مدائنی سے نقل کرتے ہیں:
الْمَدَائِنِيّ عَنْ
عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ
عامر بْن مسعود الجمحي: إنا لبمكة إذ مر بنا بريد ينعى مُعَاوِيَة، فنهضنا إلى ابن عباس وهو بمكة وعنده جماعة وقد وضعت المائدة ولم يؤت بالطعام فقلنا له: يا أبا العباس، جاء البريد بموت معاوية فوجم طويلًا ثم قَالَ: اللَّهم أوسع لِمُعَاوِيَةَ، أما واللَّه ما كان مثل من قبله ولا يأتي بعده مثله
وإن ابنه يزيد لمن صالحي أهله فالزموا مجالسكم وأعطوا طاعتكم وبيعتكم، هات طعامك يا غلام، قَالَ: فبينا نحن كذلك إذ جاء رسول خالد بْن العاص وهو على مَكَّة يدعوه للبيعة فَقَالَ: قل له اقض حاجتك فيما بينك وبين من حضرك فإذا أمسينا جئتك، فرجع الرسول
فَقَالَ: لا بدّ من حضورك فمضى فبايع.
[أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔
عامربن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مکہ میں تھے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبردیتے والا ہمارے پاس سے گذرا تو ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچے وہ بھی مکہ ہی میں تھے ، وہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اوردسترخوان لگایا جاچکاتھا لیکن ابھی کھانا نہیں آیاتھا ، تو ہم نے ان سے کہا: اے ابوالعباس ! ایک قاصد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبرلایا ہے ، یہ سن کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیرتک خاموش رہے پھرفرمایا: اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ پراپنی رحمت وسیع فرما، یقینا آپ ان لوگوں کے مثل تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گذرچکے لیکن آپ کے بعدبھی آپ جیساکوئی نہ دیکھنے کوملے گا اورآپ کے صاحبزادے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ آپ کے خاندان کے نیک وصالح ترین شخص ہیں،اس لئے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اوران کی مکمل اطاعت کرکے ان کی بیعت کرلو ، (اس کے بعد غلام سے کہا) اے غلام کھانا لیکرآؤ ، عامربن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ خالد بن العاص المخزومی رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا وہ اس وقت مکہ کے عامل تھے ، اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لئے بلایا ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس سے کہہ دو کہ پہلے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنا کام ختم کرلے اورشام ہوگی توہم اس کے پاس آجائیں گے ، (یہ سن کرقاصد چلاگیا ) اور پھرواپس آیا اورکہا ، آپ کا حاضرہونا ضروی ہے ، پھر آپ گئے اور(یزیدکی) بیعت کرلی۔
اہل بیت کے عظیم فرزند صحابی رسول کی اس سند صحیح والی روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں (1) یزید بن معاویہ " صالح و نیک " شخص تھا (2) صحابی رسول نے لوگوں کو اس کی بیعت کرنے کی ترغیب دیکر اور خود بیعت کر کے بتا دیا کہ اس کی خلافت درست تھی
اب اس عینی شھادت کے بعد اور شھادت بھی ایک عظیم صحابی رسول کی کے بعد کسی کی سنی سنائی اور تاریخ کی جھوٹی روایات سے یزید کا فاسق ہونا اور اس کی خلافت کا غلط ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا
اس شرعی شھادت کے بعد ایک اور شھادت دیکھتے ہیں
خاندان اہل بیت اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند سیدنا محمد بن علی المعروف ابن حنفیہ کی شھادت
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وقد رواه
أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن
صخر بن جويرية عن
نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم
ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق [البداية والنهاية: 8/ 233]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وَزَادَ فِيهِ
الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ
صَخْرٍ، عَنْ
نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:
مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ۔۔۔۔۔[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]۔
جب اہل مدینہ کے یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز چھوڑتاہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکاہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کی ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی نے اس طرح گواہی دینے کوتسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ’’جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو‘‘ ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کا اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔
اس روایت کو امام ابن کثیر اورامام ذہبی رحمہمااللہ نے امام مدائنی کی کتاب سے سند کے ساتھ نقل کردیا ہے اوریہ سند بالکل صحیح ہے
اس شرعی شھادت سے بھی دو باتیں ثابت ہوئیں (1) یزیدبن معاویہ نمازکا پابند،خیر کا متلاشی، علم دین کا طالب ،اور سنت کا پاس دار ہے (2) اگر یزید کی خلافت غلط ہوتی تو محمد بن علی رحمہ اللہ اس کی بیعت نہ کرتے اور نہ اس کا دفاع کرتے
ان دو شرعی شھادتوں کے بعد یزید کو بلا دلیل فاسق کہنا اور اس کی خلافت کو غلط کہنا دلیل شرعی سے ثابت کیا جائے
سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل دیکھیں !
حدثنا
سليمان بن حرب، حدثنا
حماد بن زيد، عن
ايوب، عن
نافع، قال: لما خلع اهل المدينة يزيد بن معاوية جمع
ابن عمر حشمه وولده، فقال: إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة، وإنا قد بايعنا هذا الرجل على بيع الله ورسوله، وإني لا اعلم غدرا اعظم من ان يبايع رجل على بيع الله ورسوله ثم ينصب له القتال، وإني لا اعلم احدا منكم خلعه، ولا بايع في هذا الامر إلا كانت الفيصل بيني وبينه".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص (یزید) کی بیعت، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو! تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا، میں اس سے الگ ہوں۔
آئیے اب ایک اور شھادت دیکھتے ہیں (بخاری 7111)
اس روایت سے بھی ثابت ہوا کہ یزید بن معاویہ کی خلافت درست تھی ورنہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی بیعت خلافت نہ کرتے ،انہوں نے صرف بیعت ہی نہیں کی بلکہ بیعت توڑنے والوں کو تنبیہ بھی کی
کیا آج کا کوئی مسلمان ایسے کسی امام کی امامت میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگا جس کے بارے معلوم ہو کہ یہ شرابئ و زانی و فاسق و فاجر ہے؟ ماننا پڑے گا کہ یزید بن معاویہ پر یہ سب باتیں بھتان ہیں